حدیث و سنت میں اختلاف کی اختراع

محدثین کرام ،حدیث و سنت کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں ان کے ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل اور آپ کی تقریر نیز آپ سے متعلق کوئی صفت یا حالت کو"حدیث"کہا جا تا ہے اور سنت کاالفاظ تین معانی میں استعمال ہو تا ہے۔کبھی یہ لفظ حدیث کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل اور آپ کی تقریر کو سنت کہا جا تا ہے اور کبھی اہل علم اسے احکام میں استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کام سنت ہے یعنی فرض نہیں ۔اور کبھی بدعت کے مقابلہ میں سنت کا لفظ بولا جاتا ہے۔

علماء حدیث کی اصطلاح کے مطابق حدیث وسنت میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں لفظ ہم معنی ہیں اصول حدیث یامتن حدیث کی کتب میں ان الفاظ کو مترادف استعمال کیا گیا ہے۔اور اہل حدیث نے احادیث نبویہ پر مشتمل تصنیفات کے جو نام تجویز کئے ہیں ان سے بھی معلوم ہو تا ہےکہ ان کے نزدیک سنت اور حدیث ہم معنی ہیں مثلاً السنن الکبریٰ للبیہقی ،سنن ترمذی ،سنن نسائی ،سنن ابن ماجہ، شرح السنہ ،اور معرفۃ الآثاروالسنن وغیرہ کی کتابوں پر سنت کا لفظ استعمال کیا ہے حالانکہ یہ تصنیفات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور آپ کی تقریرات پر ہی مشتمل ہیں ۔

اصول حدیث میں خطیب رحمۃ اللہ علیہ بغدادی کی مستند کتاب " الكفاية في علم الرواية"کے پہلے دو ابواب ہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہیں کہ محدثین کے ہاں حدیث وسنت ہم معنی ہیں ان میں کو ئی خاص فرق نہیں ہے۔چنانچہ خطیب رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے باب کا یہ عنوان قائم کیا ہے۔"

باب ما جاء في التسوية بين حكم كتاب الله تعالى ، وحكم سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، في وجوب العمل ، ولزوم التكليف

اس باب کے تحت خطیب رحمۃ اللہ علیہ بغدادی نے جو احادیث ذکر کی ہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال ہیں ۔جن پر انھوں نے سنت کا لفظ استعمال کیا ہے اسی طرح دوسرے باب کا عنوان یہ ہے۔

"باب تخصيص السنن لعموم محكم القرآن وذكر الحاجة في المجمل إلى التفسير والبيان "

"یعنی قرآنی آیات کی سنت کے ساتھ تخصیص ہو سکتی ہے اور اس باب کے تحت بھی خطیب رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور آپ کی احادیث ہی ذکر کی ہیں جن سے قرآنی آیات کی تخصیص ہو سکتی ہے۔

خطیب رحمۃ اللہ علیہ بغدادی نے اپنی کتاب کے خطبہ میں حدیث وسنت دونوں الفاظ استعمال کئے ہیں ۔اور دونوں سے ان کی مراد ایک ہی ہے۔چنانچہ محدثین کی اصطلاح میں متواتر اور خبر واحد دونوں کے لیے حدیث وسنت کے الفاظ ملتے ہیں ۔جیسا کہ "ھذا حدیث صحیح "اور ھذا حدیث حسن صحیح " کے الفاظ کتب محدثین میں استعمال ہوتے ہیں ۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف "معرفۃ علوم الحدیث" کی تیسویں نوع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند محکم احادیث ذکر کی ہیں ۔اور ان کے معارض کو ئی حدیث نہیں ہے اور اس کے بعد یہ عبارت لا ئے ہیں ۔

"هذه السنة الصحيحة التي لا معارض لها"

"لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر سنت کے اطلاق سے معلوم ہوا کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے کے ہاں بھی حدیث وسنت مترادف ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔لیکن دور حاضر کے ایک تجدد زدہ طبقے نے ایک مسلمہ اصول کا انکار کر کے معاملے کو خراب کرنے کی کو شش کی ہے اور اپنی انکار حدیث پر مبنی بعض خواہشات کو بروئے کار لانے کے لیے حدیث وسنت میں فرق کا مفروضہ پیش کیا ہے اور اسے یہ حضرات اپنی بہت بڑی دریافت سمجھتے ہیں ۔

ہم چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے حدیث اورسنت میں ان لوگوں کے بیان کردہ فرق کو انہی کے الفاظ میں پیش کر دیا جا ئے اور اس کے بعد اس کا مختصر تجزیہ بھی ذکر کردیا جائے۔

وہ لکھتے ہیں ۔

" حدیث وسنت کو لوگ عام طور پر بالکل ہم معنی سمجھتے ہیں ۔یہ خیال صحیح نہیں ہے حدیث اورسنت میں آسمان و زمین کا فرق اور دین میں دونوں کا مرتبہ ومقام الگ الگ ہے اور ان کو ہم معنی سمجھنے سے بڑی پیچیدگی پیدا ہوتی ہیں فہم حدیث کے نقطہ نظر سے دونوں کے فرق کو واضح طور پر سمجھنا ضروری ہے۔آگے لکھتے ہیں ۔

"حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا فعل یا آپ کی تصویب کی روایت کو کہتے ہیں عام اس سے کہ وہ ثابت شدہ ہو یا اس کا ثابت شدہ ہو نا محل نزاع ہو۔۔۔محدثین حدیث کو"خبر "کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور خبر کی تعریف یہ کی جا تی ہے کہ :

" الخبر: وهو ما يحتمل الصدق والكذب"

خبر صدق وکذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے یعنی علمائے فن کے نزدیک خبر میں صدق و کذب دونوں کا احتمال پا یا جا تا ہے اس بنیاد پر احادیث کو"ظنی"بھی کہتے ہیں ۔گویا ایک حدیث میں صحیح حسن ضعیف موضوع اور مقلوب سب کچھ ہو سکنے کا امکان پا یا جا تا ہے۔اس کے بعد سنت کے بارہ میں لکھتے ہیں ۔

"یہاں زیر بحث اس وقت سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے یعنی وہ طریقہ جو آپ نے بحیثیت معلم شریعت اور بحیثیت کامل نمونہ کے احکام و مناسک کے ادا کرنے اور زندگی کو اللہ تعا لیٰ کی پسند کے سانچہ میں ڈھالنے کے لیےعملاً اور قولاً لوگوں کو بتا یا اور سکھایا"

"سنت کا دائرہ "کے عنوان سے لکھتے ہیں : "یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ سنت کا تمام ترتعلق عملی زندگی سے ہے یعنی ان چیزوں سے جو کرنے کی ہیں وہ چیزیں اس کے دائرہ سے الگ ہیں جو محض عقائد ی اور علمی نوعیت کی ہیں مثلاً ایمانیات تاریخ اور شان نزول وغیرہ کی قسم کی چیزوں کو سنت سے کوئی تعلق نہیں "

"سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں ہے جن میں صدق و کذب دونوں کااحتمال ہوتا ہے جیسا کہ اوپر معلوم ہوا بلکہ امت کے عملی تواتر پر ہے"

مزید لکھتے ہیں :

"اگر کسی معاملے میں اخبار آحاد ایسی ہیں کہ عملی تواتر کے ساتھ ان کی مطابقت نہیں ہو رہی تو ان کی تو جیہ تلاش کی جا ئے گی اگرتو جیہ نہ ہو سکے تو بہر حال انہیں مجبوراً چھوڑا جائے گا ۔اس لیے کہ وہ ظنی ہیں اور سنت ان کے بالمقابل قطعی ہے"(ماہنامہ "اشراق "جلد 1شمارہ 12اگست 1989ء)

ان حضرات کے مذکورہ اقتباسات پر غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ حدیث اور سنت میں ان کے ہاں پانچ طرح سے فرق ہے۔

1۔حدیث روایت خبر کا نام ہے جبکہ سنت روایت خبر نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریقہ کا نام ہے جو واقعہ کے اندر ہو۔

اس فرق میں ان لوگوں نے یہ دھوکہ دیا ہے کہ حدیث کی بابت تو محدثین کرام کی اصطلاح ذکر کر دی ہے لیکن سنت کے بارے میں محدثین کی اصطلاح کو ترک کر کے اپنی اختراع استعمال کر لی ہے لہٰذا حدیث کو تو روایت خبر کہا اور سنت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے خاص کر دیا ۔حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ حدیث کی طرح سنت کے بارہ میں بھی محدثین کی اصطلاح ہی بیان کرتے ۔کیونکہ محدثین کے ہاں تو حدیث اور سنت دونوں ہم معنی ہیں جیسا کہ اس سے قبل ہم نے ثابت کیا ہے۔مگر تجددزدہ طبقے کے پیش نظر دراصل بعض احادیث نبویہ کا انکار ہے جس کے لیے وہ حدیث کو سنت سے الگ کر کے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں ۔

2۔ حدیث وسنت میں دوسرا فرق انھوں نے یہ کیا کہ حدیث ظنی ہے اور اس میں صدق وکذب کا احتمال ہو تا ہے جبکہ سنت قطعی ہو تی ہے اس میں صدق وکذب کا احتمال بالکل نہیں ہو تا یہ بھی غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ واقعہ اور نفس الامر کے اعتبار سے حدیث اور سنت دونوں قطعی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صادق و مصدوق ہیں اور آپ کا قول و فعل جو واقعہ میں آپ سے صادر ہوا ہے یا آپ کی تقریر جو واقعہ میں ہے وہ بھی صادق اور قطعی ہے جیسا کہ واقعہ میں آپ کی سنت قطعی ہے لیکن جو قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوا اور واقعہ میں وہ آپ کا قول نہ ہو تو وہ آپ کی حدیث نہیں ہو گی اگر چہ اصطلاح کے اعتبار سے اسے حدیث کہہ دیا جا ئے ۔جیسا کہ وہ طریقہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو لیکن نفس الامر میں وہ آپ کا طریقہ نہ ہو تو اسے سنت نہیں کہیں گے۔ لہٰذا ہم تک پہنچنے سے قطع نظر نفس الامر اور واقعہ کے لحاظ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور آپ کی سنت میں کو ئی فرق نہیں بلکہ دونوں یکساں ہیں ۔

3۔حدیث قول وفعل اور تقریر سے متعلق ہے لیکن سنت کا تعلق صرف قول اور عمل سے ہے اور تقریر سنت کے دائرہ سے خارج ہے۔

حالانکہ محدثین کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر کو جس طرح حدیث کہتے ہیں اسی طرح ان کے ہاں ان تینوں پر سنت کا اطلاق بھی کرتے ہیں لیکن ان حضرات نے یہاں بھی حدیث کی بابت محدثین کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے اور سنت کے بارہ میں اپنی اختراع کو ذکر کرگئے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریرات کو سنت سے خارج کردیا ہے۔ مگر اس پر کو ئی دلیل پیش نہیں کی حالانکہ چاہیے تھا اگر یہ تدبر قرآن حدیث کا نتیجہ ہے تو اس پر کو ئی قرآنی آیت یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کو ئی حدیث ذکر کرتے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

4۔احادیث کا دارو امدارخبرواحد پر ہے جبکہ سنت کا تعلق تواتر سے ہے حتی کہ ان حضرات نے حدیث متواتر کے باوجود سے ہی انکار کر دیا ۔جیسا کہ انھوں نے لکھا ۔

"یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ "خبر تواتر" کا اسم تو موجود ہے لیکن ہمارے علم کی حدتک اس کا کو ئی صحیح مسمی موجود نہیں ہے"(حوالہ مذکور) حالانکہ علماء حدیث نے متواتر احادیث کو مستقل تصنیفات میں جمع کر دیا ہے تا کہ طالب حدیث کے لیے متواتر احادیث تک رسائی آسان ہو جا ئے جیسے کہ اس موضوع پر سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الازهار المتناثرة في الاخبار المتواترة" اور الکتانی رحمۃ اللہ علیہ کی" نظم المتناثر من الحديث المتواتر"

وغیرہ تالیفات ہیں اور متواتر کی مباحث کے ضمن میں علماء حدیث مندرجہ ذیل احادیث کو بطور مثال ذکر بھی کرتے ہیں جیسے یہ حدیث " مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَده مِنْ النَّار

اسی طرح حدیث شفاعت اور حدیث روایت باری تعا لیٰ نماز میں رفع یدین کرنے کی حدیث اور حدیث نضر الله امرأ...... اور...... حرم لباس الحرير والذهب على ذكور أمتي

وغیرہ سب احادیث متواتر ہ ہیں اس کے باوجود بغیر سوچے سمجھے یہ دعویٰ کر دینا کہ" حدیث تواتر کا اسم تو موجود ہے لیکن اس کا صحیح مسمی موجود نہیں "کیسی مضحکہ خیز بات ہے ۔

5۔سنت کا تمام تر تعلق علمی زندگی سے ہے عقائدی اور علمی نوعیت کی چیزوں کا تعلق سنت سے نہیں ۔بلکہ حدیث سے ہے۔

خبر واحد یا ظنیت حدیث کی بحث سے فی الحال صرف نظر کرتے ہو ئے ہم ان حضرات سے صرف اس بات کی وضاحت چاہتے ہیں کہ مندرجہ بالاپانچ وجوہات جن سے حدیث و سنت میں فرق کرنے کی کو شش کی گئی ہے اور اسے زمین و آسمان کا فرق قرار دیا گیا ہے تین حال سے خالی نہیں ۔یہ دین متین کا مسئلہ ہے؟یا سلف صالحین اور محدثین کرام کی اصطلاح ہے؟یا یہ خانہ ساز فرق انکار حدیث کے لیے چور دروازہ ہے؟

اگر حدیث و سنت میں فرق دین کا مسئلہ ہے تو لازم تھا کہ اس پر کتاب اللہ سے کو ئی آیت پیش کی جا تی یا پھر سنت متواتر ہ اس فرق کے اثبات کے لیے ذکر کی جا تی یا کم از کم اس بارہ میں کو ئی خبر واحد بیان کردی جا تی ۔تا کہ اس کا دین ہو نا ثابت ہو جا تا ،مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو پا یا ۔ ان کے پورے مضمون میں اس فرق کے اثبات پر قرآنی آیت یا سنت متواترہ پیش نہیں کی گئی۔بنا بریں یہ کہنا کہ" حدیث و سنت کو لوگ عام طور پر بالکل ہم معنی سمجھتے ہیں یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ حدیث اور سنت میں آسمان و زمین کا فرق اور دین میں ان دونوں کا مرتبہ و مقام الگ الگ ہے"بے بنیادی دعویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے ۔سبحانك هذا بُهْتَانٌ عظيم.

تاہم اگر یہ لوگ اس دعویٰ سے رجوع کر کے اسے سلف اور محدثین کرام کی اصطلاح قراردیں تو انہیں اس فرق کے ثبوت میں علماء حدیث کے اقوال پیش کرنا ہوں گے۔لیکن پوری کو شش کے باوجود کسی امام حدیث کا قول انہیں دستیاب نہیں ہو سکا ۔الٹا مقالہ نگار عقیدت مندوں پر اپنی علمی دھاک بٹھاتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔

"میں نے حوالہ کے لیے اس کتاب "الکفایۃ "کا انتخاب اس لیے کیا ہے۔کہ یہ امہات فن میں شامل ہے جہاں تک مطالعہ کا تعلق ہے میں نے دوسری ضروری کتابیں بھی پڑھ لی ہیں "(اشراق ص28)

لہٰذا حدیث و سنت میں مزعوم فرق کو ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ان کتابوں سے یا صاحب "الکفایۃ فی علم الروایۃ "سے کو ئی حوالہ نقل کیا جا تا لیکن ان کے پورے مضمون میں اس فرق کو"الکفایۃ سے ثابت کرنے کی بھی تکلیف نہیں کی گئی ۔کیونکہ خطیب بغدادی تو خود اپنی اسی کتاب میں جابجا سنت اور حدیث کو ہم معنی استعما ل کرتے ہیں ۔تو معلوم ہوا کہ یہ سارا سلسلہ خانہ ساز ہے اور دلیل سے عاری بھی جو حدیث نبوی سے فرار کی راہ نکالنے کی کو شش ہے ۔تا کہ جس حدیث کو چاہیں سنت سے خارج کر دیں اور اس پر ظنیت کا تیر چلا کر دین سے نکال باہر کریں ۔

اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو سلف صالحین کے منہج پر استقامت عطا فرمائے اور نت نئے پیدا ہونے والے فتنوں سے بچائے ۔آمین!