مصحف عثمانی کا ایک تحقیقی جائزہ بعض تسامحات کی نشاندہی
مجھے اعتراف ہے کہ جناب کی ادارت میں شائع ہو نے والا مجلہ محدث تحقیقات کا مرقع اور نکا ت علمیہ سے لبریز ہو تا ہے ۔مواد کثیرہ سے انتقاء کے باوصف بعض اصحاب مقالات کے خیالات ان کے دوائر مطالعہ کا مظہر ہوتے ہیں اور قارئین کو تنقید و تعاقب کی دعوت دیتے ہیں ۔
سابقہ شمارہ میں اس عاجزہ نے"برصغیر میں محدثین کی مساعی "مقالہ از غازی عزیر کے ایک حوالہ پر تعاقب لکھا تھا جس کے شائع ہونے پر میری حوصلہ افزائی ہو ئی ۔اور اب میں دوبارہ جرات کر رہی ہو ں کہ"مصحف عثمانی" کا تحقیقی جائزہ از جناب محمد عبد اللہ صالح (مطبوعہ۔محدث جنوری1993ء) پر اپنے خیالات کا اظہار کروں ۔
بلاشبہ "تدوین قرآن"کے سلسلہ میں مصحف عثمانی ایک اہم موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اس کا تعلق نفس قرآن کی حفاظت کے ساتھ ہے"فضائل قرآن"کی حفاظت کے ضمن میں محدثین نے بھی جمع قرآن کے سلسلہ میں اعتناء کیا ہے سب سے پہلے امام بخاری نے جمع قرآن اور اس کی خدمت کے ضمن میں اپنی صحیح میں حفاظ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا ذکر کیا اور لکھا ہے کہ قرآن پاک کو صحف میں جمع کرنے کا اہتمام سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سر کاری طور پر کیا اور اپنی زیر نگرانی کبار صحابہ کی ایک مجلس ترتیب دی جس نے اس مہم کو سر انجام دیا جس پر بحمداللہ ان تمام کبار صحابہ کا اجماع ہوا جو مرکز اسلام مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں مو جود تھے ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی شرح صدر کے ساتھ اس کام کا سہرا حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر رکھا اور ان کو اولین(اولین جامع تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔قرآن کریم جتنا اترتا جاتا وہ لکھا بھی جاتا اس طرح متفرق اشیاء پر جس طرح لکھا گیا وہ جمع ہی کی ایک شکل تھی خواہ غیر مرتب ہی سہی) جامع القرآن قرار دیا۔
ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں دوسرا قدم اٹھا یا گیا اور ان صحف کو ایک مصحف کا لباس پہنا کر اہم مراکز اسلامی میں نہ صرف اس کے متعدد نسخے بھیجے گئے بلکہ ان کی تدریس و تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا اور اس تاریخی مہم کی انجام دہی کا تاج حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر رکھا گیا اور اس کار نامہ کے درست ہونے کا اعلان اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتراض کرنے والوں کے جواب کا فریضہ بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سر انجام دیا چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا ۔اورحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہو نے والے خدشوں کا بھی ازالہ کر دیا ۔اور بحمد اللہ امت نے بالا جماع اس کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔
پھر بعد میں حفاظت قرآن کے سلسلہ میں مختلف ادوار میں مستشرقین کے شبہات و اعتراضات سامنے آتے رہے اور علمائے اسلام نے ان کی تر دیدمیں اپنی مساعی وقف کیں۔
چنانچہ بحمد اللہ علماء حق کی کو ششیں بار آور ثابت ہو ئیں اور اس سلسلہ میں تحقیقی کتابیں معرض وجود میں آگئیں پھر فضائل صحابہ کے سلسلہ میں شیعہ ورافضہ کے خدشوں کا ازالہ کرنے کے لیے برصغیر و( پاک و ہند) میں بھی علماء نے فیصلہ کن کردار ادا کیا خصوصاً ولی اللہی خاندان کی کو ششیں نہایت ممتاز ہیں "ازالہ"الخفاء "اور "تحفۃ اثنا عشریہ"میں انھوں نےشیعہ کے اعتراضات کے مسکت جوابات دئیے ہیں اب ضرورت ہے کہ ان کتابوں کے تراجم اور تشریحات کو عوام تک پہنچایا جائےاس مختصر تمہید کے بعد اب میں اصل مقصد کی طرف آتی ہوں۔
مقالہ نگار "مصحف عثمانی "نے اپنے اس مقالہ میں مستشرقین کے شبہات کا رد کیا ہے لیکن بعض مقامات پر مراجع کو غور سے نہیں دیکھا ،چنانچہ ایک اہم مقام پر لکھتے ہیں ،"حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب زید بن ثابت نے تدوین قرآن کے کام کا آغاز کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تدوین قرآن کمیٹی کے سامنے آیت رجم پیش کی لیکن حضرت زید بن ثابت نے اسے قرآن مجید میں شامل نہ کیا"
(حاشیہ نمبر:62) تفصیلا ت کے لیے ناسخ والمسوخ جلال الدین سیوطی کی کتاب الاتقان کا مطالعہ کریں ۔( اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تر تیب بھی مروجہ قرآن کے انداز کی نہ تھی اسی لئے اسے"صحف "کی بجائے "صحف "کہا گیا جس کا ترجمہ منتشراوراق ہے چنانچہ مروجہ صورت میں پہلی مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سر کاری طور پر جمع کیاا سی وجہ سے مصحف کہا گیا یعنی مرتب صفحات لہٰذا "جامع القرآن "کا لقب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ہی مشہور ہوا (ح م) آثمہ عرض گذار ہے کہ بلاشبہ حضرت زید بن ثابت ،دیانت و امانت اور تدبر میں اعلیٰ درجہ پر فایز تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد کا تب وحی بھی رہ چکے تھے اس لیے قرآن کی کتابت و تدوین میں جس حزم و احتیاط کا انھوں نے ثبوت دیا وہ لائق صد آفرین پھر خلیفہ اول نے بھی ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور ان کو کمیٹی کا صدر بنا کر تدوین قرآن کا فریضہ ان کے سپرد کیا اور کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت نےان کی مددکی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس کمیٹی کے اہم رکن تھے اور ساتھ ہی اس منصوبہ کی نگرانی کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے تھے مگر امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی الاتقان (بحث ناسخ و منسوخ)( محدث صفحہ نمبر 107 جلد 23 عدد جنوری 1993ء) میں یہ جملہ راقمہ کو نظر نہیں آیا کہ "حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت الرجم پیش کی لین زید بن ثابت نے اسے قرآن مجید میں شامل نہیں کیا "اب میں امام سیوطی کے اصل مراجع سے عبارتیں پیش کرتی ہوں ۔
(الاتقان 26/2)اس بحث کے سلسلہ میں علامہ سیوطی نے اولاً "البرہان زرکشی"سے نقل کیا ہے ۔
لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ : زَادَ عُمَرُ فِي كِتَابِ اللَّهِ لكتبتها یعنی آیۃ الرجم(بخاری تعلیقاًو تفسیر ابن کثیر 261/3)
حضرت عمر) کے اس قول سے زیادہ سے بظاہر یہ معلوم ہو تا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس منسوخ التلاوہ آیت کی کتابت کو جا ئز سمجھتے تھے ۔مگر جب کو ئی جائز امر صالح عامہ کے خلاف ہو تو اس کو سر انجام نہ دینا ہی بہتر ہو تا ہے جیسا کہ ان کے قول لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ : الخ سے اشارہ ملتا ہے اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ انفرادی نظریہ تھا اور رجم کے منکرین کے جواب میں اس کا اظہار فر ما تے رہے اور فی زمانہ عقو بت رجم منکرین کے رویہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ خدشے سو فیصد سچے ثابت ہو رہے ہیں ۔ یہ ایک طویل بحث ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ۔
حاصل یہ ہے کہ اگر یہ آیت منسوخ التلاوہ نہ ہو تی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے درج کر دیتے اور کسی کی پروانہ کرتے ۔( المستدرک کتاب الحدود ج4 ص360قال الذہبی فی التلخیص "صحیح ")
الا تقان میں دوسرا جملہ ملا حظہ ہو جس کی عربی عبارت کا نقل کرنا ضروری ہے۔
وأخرج الحاكم من طريق كثير بن الصلت ، قال : كان زيد بن ثابت وسعيد بن العاص يكتبان المصحف ، فمرا على هذه الآية فقال زيد : سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول ( الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما ألبتة ) ، فقال عمر : لما نزلت أتيت النبي - صلى الله عليه وسلم - فقلت : أكتبها ؟ فكأنه كره ذلك ، فقال عمر : ألا ترى أن الشيخ إذا زنى ولم يحصن جلد ، وأن الشاب إذا زنى وقد أحصن رجم .
"اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ زید بن ثابت اور سعید بن العاص اثنائے کتابت میں اس آیت پر پہنچے تو حضرت زید نے کہا میں نے اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو پڑھتے ہو ئے سناہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جب یہ آیت اتری تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا مجھے لکھنے کی اجازت دیجئے تو آپ نے اس کو مکروہ سمجھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ۔بوڑھا غیر محصن اگر زنا کرے تو اسے کو ڑے لگائے جا تے ہیں اور نوجوان محصن ہو کر زنا کرے تو اسے رجم کیا جا تا ہے "
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے آیت نہ ہو نے پر روایتاً تنقید کی ہے اور ان کا مطلب یہ ہے کہ رجم کا تعلق احصان کے ساتھ ہے اور یہ بوڑھے اور جوان کے لیے یکساں ہے اور عدم احصان کی صورت میں سو کوڑے ہیں۔خواہ وہ مجرم جوان ہو یا بوڑھا ہو۔
اس حدیث میں فقلت : أكتبها ؟ کے قائل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسا کہ آگے نسائی کی حدیث میں ہے کثیر بن الصلت کے طریق سے
قال:كنا عند مروان وفينا زيد بن ثابت فقال زيد: كنا نقرأ: (الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة)، فقال مروان: لا تجعلهفي المصحف، قال: ألا ترى أن الشابين الثيبين يرجمان، ذكرنا ذلك وفينا عمر فقال: أنا أشفيك، قلنا: وكيف ذلك؟ قال: أذْهَبُ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم إن شاء الله، فأذكر كذا وكذا، فإذا ذكرآية الرجم فأقول: يا رسول الله أكتبنيآية الرجم. قال: فأتاه فذكر ذلك له فذكر آية الرجم، فقال: يا رسول الله ، اكتب لي آية الرجم قال : لا تستطيع .(نسائی الکبری)
(کتاب الرجم باب 3حدیث نمبر 148ص271۔۔۔الخ)
پس زید بن ثابت نے بھی یہی جواب دیا کہ رجم کا حکم شیخوخت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔بلکہ دو نوجوان محصن بھی اگر زنا کریں تو انہیں رجم کیا جائے گا اس کے بعد زید بن ثابت نے کہا ۔
ولقد ذكرنا ذلك ، فقال عمر : أنا أكفيكم ،فقال : يا رسول الله ، اكتب لي آية الرجم قال : لا تستطيع
اس حدیث میں (لا تستطيع)کا وہی مفہوم ہے اوپر (كأنه كره ذلك )کا ہے الغرض الاتقان" بحث ناسخ والمنسوخ" میں کہیں یہ جملہ نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیۃ الرجم کتابت کے لیے پیش کی لیکن زید بن ثابت نے اسے قرآن مجید میں شامل نہ کیا بلکہ یہ معلوم ہو تا ہے کہ زید بن ثابت مترود تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب بیان دیا تو حضرت زید کا تردو ختم ہو گیا اور کتابت کا ارادہ ترک کر دیا۔
پس میں محترم مقالہ نگار سے گزارش کروں گی کہ اس ساری عبارت کو الاتقان میں دوبارہ پڑھیں اور غور کریں ۔اگر مدیر اعلیٰ مجلہ محدث اجازت دیں تو میں اس پر مستقل مضمون لکھ سکتی ہوں ۔میں نے نسائی (الکبری) اور المستدرک للحاکم میں اس حدیث کی طرف رجوع کر لیا ہے اور نسائی (الکبری) کے مطالعہ سے اندازہ ہوا کہ اس کی طباعت تصحیح کے ساتھ نہیں ہو ئی گو تحقیق کے ساتھ مطبوع ہے۔
مزید یہ امام سیوطی کے اقتباسات میں تصرف سے کام لیتے ہیں اور بعض اوقات الجھاؤ بھی پیدا کردیتے ہیں مگر یہاں پر امام سیوطی کی تہذیب واضح ہے۔3۔اس طرح صاحب مقالہ لکھتے ہیں ۔
شاہ ولی اللہ کے الفاظ کہ " صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مشورہ اور اجتماع سے ایک نسخہ تیار کیا گیا " خاص طور پر قابل ذکر ہیں الخ (حاشیہ نمبر70۔ازالۃ الخفاء 5/2)
میں شاہ ولی اللہ کی کتاب (ازالہ الخفاء کی پو ری عبارت نقل کئے دیتی ہوں۔
"وایں جمع در مصاحف ہماں است وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ بروی منطبق است وانا علینا جمعہ و قرآنہ مبشرہ وسعت ۔اول حرکت در امراز صدیق اکبر بالتماس حضرت فاروق بحکم شرح صدر ے کہ دی باں مخصوص ساختہ بودند واقع شدہ بعد ازاں فاروق اعظم بسعیمار بکار آؤ ردور مواضع مشکلہ ۔مباشر کشف شبہ گشت کرو مردم راہ براخذاں بعد ازاں ذی النور ین نخہانو یسانیدہ در آفاق فیر ستاد غیر آنر امحصر ساخت ۔بعد ازاں ابی بن کعب و عبد اللہ بن مسعود علی مرتضیٰ و ابن عباس دراقراءآنسعی بلیغ بکاربردند ۔واں قرآن مجموع در مصاحف متلو۔برالسنہ کہ الحال در مشرق و مغرب منتشراست ثمرہ مساعی جمیلہ ایشاں است ۔
شاہ صاحب کی اس عبارت میں وہ الفاظ نظر نہیں آتےجو مقالہ نگار نے ازالۃ الخفاء کے حوالے سے نقل کئے ہیں۔
الغرض مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ صاحب مقالہ نے حوالوں میں مسامحت سے کام لیا ہے عین ممکن ہے کہ کسی مستشرق کی کتاب سے یہ حوالےنقل کر دئیے ہوں بہر حال اس مقالہ میں مسامحات ہیں ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے واللہ الموفق للصواب ۔