ترجمان القرآن

يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقولوا ر‌ٰ‌عِنا وَقولُوا انظُر‌نا وَاسمَعوا وَلِلكـٰفِر‌ينَ عَذابٌ أَليمٌ ﴿١٠٤﴾ ما يَوَدُّ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ وَلَا المُشرِ‌كينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيكُم مِن خَيرٍ‌ مِن رَ‌بِّكُم وَاللَّهُ يَختَصُّ بِرَ‌حمَتِهِ مَن يَشاءُ وَاللَّهُ ذُو الفَضلِ العَظيمِ ﴿١٠٥﴾... سورة البقرة

ترجمہ:۔اے ایمان لانے والو! گفتگو کے دوران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو" رَاعِنَا " نہ کہا کرو بلکہ" انظُرْنَا "کہاکرو اور خوب یاد رکھو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔"

"جو لوگ کافر ہیں اہل کتاب یامشرکین وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے خیروبرکت نازل ہو اور اللہ تو جسے چاہتا ہے۔اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرلیتاہے۔اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔"

تشریح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں بیٹھتے دوران گفتگو جو بات انہوں نے نہ سنی ہوتی اور دوبارہ آپ سے پوچھنا چاہتے تو کہتے" رَاعِنَا (ہماری رعایت کیجئے)یعنی ہماری طرف بھی متوجہ ہوں۔مسلمان بھی ان کی دیکھادیکھی بعض اوقات یہ لفظ استعمال کرنے لگے اللہ نے منع فرمادیا کہ یہ لفظ استعمال نہ کرو اگر کہنا ہو تو" انظُرْنَا " کہو اور اس کے معنی بھی یہی ہیں نیز فرمایا:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو غور سے سنو تاکہ پوچھنا ہی نہ پڑے۔یہود اس لفظ کے استعمال میں چالاکی سے کام لیتے تھے اور زبان کو ذرا دبا کر" رَاعِنَا " کی بجائے"راعينا" کہتے ،جس کامعنی"ہمارا چرواہا"جو شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی تھی۔پھر یہودیوں کی زبان میں" راعينا "احمق کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:اللہ نے اہل ایمان کو منع کیا کہ وہ قول وفعل میں کفار کی مشابہت اختیار نہ کریں۔

یہود ایسی بات کر تے جس میں"توریہ"ہوتا۔یہ کام حقارت کے لئے کرتے اور"اسمع لنا"کے بجائے رعونت سے"راعنا" کہتے جیسے قرآن میں ہے:

" مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَـٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا"(النساء۔46)

ترجمہ:۔اور یہودیوں میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں ۔کہتے ہیں:ہم نے سن لیا اور انہیں مانا اور سنو نہ سنوائے اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ سے رَاعِنَا " کہتے ہیں اور اگر یوں کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور اسمع " اور رَاعِنَا " کی جگہ انظُرْنَا " کہتے توان کے حق میں بہتر تھا اور بات بھی بہت درست ہوتی لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت رکھی ہے تو یہ بہت تھوڑے ہی ایمان لاتے ہیں۔

اسی طرح احادیث میں بھی آیا ہے کہ جب یہ سلام کرتے السام علیکم کہتے۔"سام" کے معنی ہیں"موت"!اس لیے ہمیں یہ حکم ہوا کہ ان کے جواب میں صرف"وعلیکم " کہیں۔یعنی یہ موت تم پر پڑ ہم میں کوئی اس بدد عا سے نہ مرے۔حدیث میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے :

" مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ "(ابو داود)

" جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی و انہیں میں سے ہے۔"

ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں بڑی سخت وعید ہے۔ کفار کے ساتھ مشابہت پیدا کرنے کی خواہ ان کے اقوال وافعال میں ہو یا لباس اطوار میں یا عبادات میں۔یہ ہمارے لیے کسی صورت میں مشروع نہیں۔میں کہتا ہوں اس حدیث کی جیسی تشریح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب:

" اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم"

میں لکھی ہے۔اس جیسی کسی کتاب میں دیکھی نہ سنی گئی۔یہ حدیث اسلام کی اصل الاصول ہے۔مسلمانوں نے اس زمانے میں ا س حدیث پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے گویا ان کے خیال میں منسوخ ہوگئی۔۔۔(اناللہ)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: مجھ سے ایک وعدہ کرو کہ جب تم سنو کہ اللہ تعالیٰ" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا "فرماتا ہے۔تو اس پر کان رکھو کیونکہ ان الفاظ سے وہ کسی خیر کا حکم کرتا ہے ۔یا کسی شر سے منع کرتاہے۔خیشمہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں قرآن میں جہاں کہیں" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا " ہے تو وہاں " يا أيها المساكين " ہے۔

عطاء رحمۃ اللہ علیہ نے کہا لفظ"راعنا" انصار استعمال کرتے تھے۔اللہ نے اس لفظ کے استعمال سے منع کردیا۔ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا صحیح بات یہ ہے کہ مومنین کو اس لفظ کے استعمال سے منع کیا اس لیے کہ یہ کلمہ اللہ کو مکروہ وناپسند ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم انگور کو"کرم" نہ کہو"حبلہ" کہو۔"عبدی" نہ کہو"فتای" کہو۔اس آیت میں دلیل ہے کہ ایسے الفاظ جن میں دشنام طرازی کا احتمال ہو ان کے استعمال سے بچنا چاہیے۔اگرچہ متکلم کا ارادہ ان سے دشنام کانہ بھی ہو اس میں ایسے ذریعہ اور وسیلے کا بند کرنا بھی ہےجس میں فساد کا مادہ آتا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے کفار اہل کتاب ہوں یا مشرک ان کی عداوت کی شدت کا حال بیان کیا تاکہ مومنین اور کافروں میں دوستی نہ ہو۔یا اس طرح کا باہم میل جول نہ ہو جن سے مومنین کو نقصان پہنچے۔

"رحمت "سے اس جگہ مراد قرآن واسلام ہے یا نبوت یاجنس رحمت!بندوں کو جو خیر ودین دنیا سے ملی ہے۔وہ بغیر کسی استحقاق کے وہ محض اللہ کے فضل وانعام سے حاصل ہوئی ہے۔سو اللہ ہی بڑے فضل کا مالک ہے۔ جس کو چاہے رحمت ونعمت دے یہود ومشرکین کا اس خیر وبرکت کے بارے میں مومنین پر حسد کرنا بلا سبب ہے۔

آیت نمبر:106۔107:

"مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٠٦﴾ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ"

"جس آیت کو ہم منسوخ کردیں، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اورلاتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (106) کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا ملک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں"

تشریح:۔

یہ یہودیوں طعن تھا کہ قرآن میں بعض آیتوں کو منسوخ کہا گیا ہے اور اگر یہ آیات اللہ کی طرف سے تھیں تو کس عیب کی بناء پر انہیں منسوخ کہاگیا؟اللہ نے فرمایا کہ"عیب" نہ پہلی آیت میں تھا اور نہ بعد میں آنے والی آیت میں۔حاکم کو حق حاصل ہے کہ ہر وقت جو چاہے حکم کرسکتا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:نسخ سے مراد تبدیل کرنا ہے"مجاہد نے کہانسخ سے مراد ختم کرنا ہے قرظی نے کہا"نسیان" ہے۔ضحاک نے کہا"ترک کرناہے۔سدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:آیت کا اٹھالینا" ہے جیسے یہ آیت:

" الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة"

یا یہ قول:۔

"لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا"

ترجمہ:۔شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت اگر زنا کے مرتکب ہوں تو انہیں ضرور رجم کرو۔اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوتیں تو وہ ضرور تیسری کامطالبہ کرتے"

ابن جریر نے کہا:نسخ سے مراد"نقل آیت" ہے،جیسے حلال کو حرام اور حرام کو حلال ،جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز قرار دینا ہے ۔تمام احکام اور شروط نسخ اصول فقہ کی کتب میں مفصل موجود ہیں۔یہاں ان کے ذکر کی کچھ ضرورت نہیں۔حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوآدمیوں کو ایک سورت سکھائی تھی وہ ان کو پڑھا کرتے تھے ایک رات نماز کے لئے کھڑے ہوئے اس سورت کا ایک بھی حرف نہ پڑھ سکے۔صبح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ منسوخ ہوگئی یا بھلادی گئی اب تم اس کو چھوڑدو۔(طبرانی)

زہری" نُنسِهَا "پر پیش پڑھا کرتے تھے اور جس نے" نَنسَهَا " یعنی نون پر"فتحہ" پڑھا ہے۔اس کے معنی تاخیر کے ہیں۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بلکہ"ترک وتبدیل" کے ہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کو متن(Text)میں ثابت رکھتے ہیں حکم میں بدل دیتے ہیں۔جس نے نون پر پیش پڑھا ہے۔اس نے لفظ کو نسیان سے لیاہے۔حسن نے کہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کا کچھ حصہ پڑھتے پھر اس کو بھول جاتے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا رات کو نازل ہوتی دن کو فراموش ہوجاتی اس پر اللہ نے یہ آیت نازل کی۔

یہ بات کہ جس آیت کو ہم منسوخ کرتے ہیں اس سے بہتر یا اس جیسی دوسری آیت لے آتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری آیت فائدے کے اعتبار سے جلد یا بدیر زیادہ نفع مند ہوتی ہے یا اس جیسے فائدے کی حامل ہوتی ہے۔یہ بات ناسخ ومنسوخ پر غور کرنے سے سمجھ آتی ہے۔کیونکہ کبھی ناسخ اخف(زیادہ ہلکا) ہوتاہے تو نفع اس کاعاجل(جلدی) میں زیادہ ہوتاہے کبھی اثقل (بھاری) ہوتا ہے تو ثواب اس کاآجل(بدیر) میں زیادہ ہوتا ہے۔کبھی دونوں یکساں ہوتے ہیں تو نفع میں برابر ٹھہرتے ہیں۔

ناسخ ومنسوخ:،۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمانا کہ قرآن سنت متواترہ سے منسوخ نہیں ہوتا یہ اس آیت کی دلیل سے صحیح نہیں بلکہ حق یہ ہےکہ قرآن کا بہت سے منسوخ ہوناجائز ہے۔یہ ارشاد کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔یہ ثابت کرتا ہے کہ نسخ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا حصہ ہے ۔نسخ کا انکار کرنا اللہ کی قدرت کا انکار ہے۔دوسرافرمان کہ آسمان وزمین میں اس کی سلطنت ہے۔اس میں یہودیوں کی تکذیب ہےجو نسخ کے منکر ہیں۔سارے اہل اسلام سلف وخلف اس بات پر متفق ہیں کہ نسخ ثابت وہ جائز ہے۔عقلاً واقع ہے۔سمعا کسی ایک نے بھی اس میں اختلاف نہیں کیا۔ہاں یہود ونسخ سے منکر ہیں۔سوتورات ان پر حجت ہے کیونکہ نسخ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے۔

اس کی مثالیں گذشتہ شریعتوں میں سے بہت سی دی جاسکتی ہیں۔مثلاً

جب حضرت نوح علیہ السلام کشتی سے باہر آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:میں نے ہر چوپائے کو تیرے اور تیری اولاد کے لیے غذا مقرر کیا سوائے ان کے خون کے۔لیکن بعد میں موسیٰ علیہ السلام اوربنی اسرائیل پر بہت سے حیوانات حرام کردیے یہ بھی تورات سے ثابت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام بہن کی شادی بھائی سے کرتے لیکن پھر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں اسے حر ام قرار دیا۔ تورات میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلے حکم دیا کہ اپنے بیٹے کوذبح کرو پھر فرمایا کہ ذبح نہ کرو۔اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کوحکم دیاتھا کہ جنھوں نے بچھڑے کی پوجا کی ہے انھیں قتل کرو۔پھر فرمایا اب تلوار اٹھا لو۔اسی طرح ہفتے کےدن کام کرنے سےمنع کیاتھا حالانکہ اس سے پہلی امتوں پر حرام نہ تھا اس طرح کے احکام تورات میں بہت سے ہیں۔قرآن مجید نے ساری پہلی شریعتوں پرانی کتابوں تورات اور انجیل وغیرھما کو منسوخ کردیا۔نسخ آیت کا یہ مطلب ہوتاہے اس آیت کی قراءت یا حکم دونوں کومنسوخ کیا۔

بعض علماءنےکہا ہے پانچ سو آیات منسوخ ہیں لیکن محققین کے نزدیک پانچ آیتوں سے زیادہ منسوخ نہیں ہیں۔شاہ ولی اللہ نے الفوز الکبیر میں ہی لکھا ہے۔لیکن ان پانچ میں بھی نظر ہے۔جہاں تک حدیث کاتعلق ہے۔ابن جوزی نے لکھاہے کہ 21 حدیثیں منسوخ ہیں۔ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے دس حدیثوں سے بھی کم کومنسوخ ماناہے۔بلکہ ایک جگہ پانچ کہاہے۔زرقانی سے شرح موطا میں لکھا ہے کہ محدثین اصولین اورفقہا کا یہ مذہب ہے کہ جہاں تک جمع ممکن ہو جمع واجب ہے۔صاحب"دراسات اللیب" نے ایک مستقل رسالہ بیابن بطلان نسخ" اجتہادی میں لکھا ہے پھر کہا کہ یہ دعویٰ اکثر فقہاء خصوصاًح حنفیہ کا ہے۔متقدمین کے نزدیک نسخ معتبر وہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہو۔جو غیر تک پہنچتا ہے وہ زیادتی اور تجاوز کرتاہے اور عبودیت سے تشریح کیطرف آتاہے۔

ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس آیت میں اللہ نے اپنے بندوں کو یہ فرمایا کہ مخلوقات میں صرف تنہااللہ ہی متصرف ہے۔خلق وامر اسی کا ہے۔جس کو چاہا بنایا جس کو چاہا سعید کہا،جس کو چاہاشقی ٹھہرایا،کسی کو تندرست رکھا،کسی کو بیمار کرڈالا،کسی کو توفیق دی کسی کو بے مدد چھوڑا۔اسی طرح جس چیز کو چاہا حلال کہا۔جسے چاہا مباح فرمایا۔جسے چاہا پر خطر ٹھہرایا۔اللہ سے کون سوال کرسکتا ہے؟سوال تو بندوں سے ہوگا اس کا حکم کرنا کسی مصلحت کے تحت ہوتا ہے۔ جسے وہی جانتا ہے کسی چیز سے منع کرنے کی مصلحت بھی اسے معلوم ہوتی ہے۔ہم پر تو یہ فرض ہے کہ ہم اسی کی پوری اطاعت کریں،حکم بجا لائیں،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور پیروی کریں،پھر فرمایا کہ اس مقام پر بہت بڑارد اور بیان بلیغ ہے ۔یہودیوں کے انکار نسخ پر۔ان کا یہ دعویٰ عقلاً جہل وکفر ہے۔اور نقلاً افتراء وتہمت ہے۔ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یہود نے تورات کے احکا م کے نسخ کا انکار کیا اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو نہ مانا کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تورات کے بعض احکام کو منسوخ کیاتھا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات اورانجیل دونوں کے احکام بدل دئیے ۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:مسلمانوں میں صرف ایک ابو مسلم اصفہانی ہے جس نے یہ کہا ہے کہ قرآن میں نسخ نہیں ہے۔سو اُس کا یہ قول ضعیف،مردود،اور رزیل ہے۔اور اس نے منسوخ آیات کے بارے میں جو جواب دئیے ہیں۔وہ سب ناقابل قبول ہیں۔

آیت نمبر:108:۔

" أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ"

ترجمہ:۔"کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے سوال کرو جس طرح کے سوال پہلے موسیٰ علیہ السلام سے کیے گئے تھے اور جس شخص نے ایمان کو چھوڑ کر اس کے بدلے کفر کو اپنایا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا"

تشریح:۔

کثرت سوال کی ممانعت

امت مسلمہ کویہ ہدایت دی گئی کہ یہودیوں کے بہکانے سے ا پنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشتبہ چیزیں نہ پوچھا کریں جس طرح وہ ا پنے نبی علیہ السلام سے پوچھا کرتے تھے۔ایسے شبے نکالنا گویا یقین کو چھوڑ کر انکار کی طرف بڑھنا ہے۔اس آیت میں مومنین کو کثرت سوال سے منع کیا گیا ہے۔

جیسے قرآن مجید میں ہے:۔

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ"(المائدہ:101)

ترجمہ:۔"اےایمان والو!ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا کرو کہ اگر(ان کی حقیقتیں)تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمھیں بُری لگیں اور اگر قرآن کے نازل ہونے کے ایام میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر بھی کردی جائیں گی۔"

اس آیت میں ایمان والوں کویہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی کام کے معرض وجود میں آنے سے پہلے سوال نہ کیا کرو۔نزول قرآن کے بعد تفصیل پوچھو گے تو بتادی جائیں گی لیکن جو چیز ابھی واقع نہیں ہوئی ہے۔اس کا سوال نہ کرنا کہیں وہ چیز اس پو چھ پاچھ سے حرام نہ ہوجائے۔اس لیے صحیح حدیث میں آیا ہے کہ مسلمانوں میں بڑا مجرم وہ ہے جس نے ایسی چیز کا سوال کیا جوحرام نہ تھی اور اس کے سوال سے حرام ہوگئی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ پائے تو کیاکرے؟اگر کچھ کہتا ہے تو بڑا بول منہ سے نکالتاہے اگر خاموش رہتاہے توبری بات پر خاموش رہتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل کومکروہ جانا،عیب دار سمجھا،پھر اللہ نے آیت ملاعنہ اتاری یہ اس سوال کا نتیجہ تھی۔صحیحین میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے۔

کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیل وقال سے(ٹال مٹول) مال کو ضائع کرنے اور کثرت سوال سے منع کیا ہے۔صحیح مسلم میں ہے"تم مجھے چھوڑ دو جب تک میں تمھیں چھوڑ ے رہا ہوں۔اس لیے کہ تم سے پہلی امتوں کے لوگ کثرت سوال اور باہمی اختلاف کے سبب ہلاک ہوئے۔میں جس بات کا تمھین حکم دوں۔حسب استطاعت اس پر عمل کرو۔جس کام سے منع کروں اس سے باز آجاؤ"

یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائی جب اللہ نے حج فرض کیاتھا کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ"ہرسال حج فرض ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے تیسری دفعہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"نہیں"!اگر میں ہاں کہتا تو فرض ہوجاتا اور اگر فرض ہوجاتا تو تم عمل نہ کرسکتے"

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:ہمیں سوال سے منع کیا گیا تھا ہمارا دل چاہتا تھا کہ کوئی بدو آئے اور کچھ پو چھے اور ہم سنیں"۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ"ایک سال گزرجاتا تھا کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر دہشت وہیبت کے سبب نہ پوچھ سکتا۔یہ تمنا ہوتی کہ کوئی بدو آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے تاکہ میرا مسئلہ بھی حل ہو۔(اسے ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بہتر کوئی قوم نہیں دیکھی کہ انہوں نے بارہ مسئلوں کے علاوہ کوئی سوال نہیں کیا اور وہ سب مسئلے قرآن مجید میں موجود ہوں۔جیسے:

"يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ......يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ

....وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى "،وغیرھا

اس آیت میں لفظ"ام" ۔۔۔"بل" یا استفہام انکاری کے معنی میں آیا ہے۔یہ آیت مومنین،کافرین سب کو شامل ہے۔اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کی طرف مبعوث ہوئے جیسے اللہ نے فرمایا:

"" يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚفَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّـهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ"(النساء:153)

" آپ سے یہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب لائیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تو انہوں نے اس سے بہت بڑی درخواست کی تھی کہ ہمیں کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دکھا دے، پس ان کے اس ظلم کے باعث ان پر کڑاکے کی بجلی آ پڑی ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا!رافع بن حریمہ نے کہا تھا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آسمان سے کوئی کتاب ہمارے لیے اتارو،جسے ہم پڑھیں ہمارے لیے نہریں چلاؤ تو ہم آپ کو سچا مانیں اس پر یہ آیت اتری۔ابو العالیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ مارے کفارات بھی مثل بنی اسرائیل کے ہوتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔لیکن آپ نے اس بات کو پسند نہ کیا اور فرمایا:اے اللہ میں یہ نہیں چاہتا پھر فرمایا جو تم کو دیا گیا ہے وہ ان سے کہیں بہتر ہے۔ کیونکہ ان سے جب خطاء ہوتی تھی تو وہ اس کو اپنے گھر کے دروازے پر لکھا ہوا مع کتاب کے پاتے تھے،اگر کفارہ دیتے تو دنیا میں رُسوا ہوتے اور نہ دیتے تو آخرت میں بدنام ہوتے۔لیکن امت محمدیہ پر بڑی آسانی کردی گئی ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ نے فرمایا:

" وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورًا رَّحِيمًا ")النساء:110)

ترجمہ:۔"اور جو شخص کوئی برا کام کربیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر اللہ سے بخشش مانگے تو وہ اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔"

پھر فرمایا:نماز پنجگانہ اور جمعہ سے جمہ تک کفارہ ہیں ان گناہوں کے لئے جو اس دوران میں سرزد ہوئے جس نے برائی کا ارادہ کیا مگر عمل نہ کیا اس کے خلاف کوئی گناہ نہیں جس نے برا عمل کیا اس پر ایک گناہ لکھا گیا۔جس نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن نیکی نہ کرسکا تو اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی گئی اور اگر نیکی کرلی تواس کا دس گنا اجر لکھا گیا۔"

حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ سوال کیا گیا کہ ہمیں اللہ کو کھلم کھلا د کھلادو۔اسی طرح قریش نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ کوہ صفا کو سونا کردو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بہتر ،لیکن شرط یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل کی طرح ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ تمھیں ایسا عذاب سے گا جو اس سے پہلے آج تک کسی قوم کو نہیں دیا۔

حاصل کلام:۔

یہ ہے کہ اللہ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے سوالات محض بدنیتی کی وجہ سے کرتے تھے،یہاں سیدھی راہ سے مراد صراط مستقیم ہے۔اس راہ سے نکلنے سے مراد یہ ہے کہ انسان جہالت و گمراہی میں جاپڑے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔یہی حال ان لوگوں کا ہوگا جوا نبیاء علیہ السلام کی اتباع اور تصدیق سے پھر گئے بلاوجہ اپنے کفر وعناد کی وجہ سے ایسے سوالات کرنے لگے جس سے پیغمبروں کی تکذیب ہوتی ہے۔جیسے اللہ نے فرمایا:

"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ﴿٢٨﴾ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَارُ" (ابراہیم:29)

ترجمہ::کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی کے گڑھے میں اتارا،وہ گھر دوزخ ہے اور سب ناشکرے اس میں داخل ہوں گے اور وہ بہت بڑا ٹھکانہ ہے۔"

آیت نمبر:109:۔

"وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ "

ترجمہ:۔"بہت سے اہل کتاب اپنے دل کی جلن سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لاچکنے کے بعد آپ کو پھر کا فر بنادیں،حالانکہ ان پر حق ظاہر ہوچکا ہے۔تم انہیں معاف کردو اور درگزر کرو،یہاں تک کہ اللہ اپنا دوسرا حکم بھیجے،بے شک اللہ ہر بات پر قادر ہے۔"

تشریح:۔

اللہ نے اپنے مومن بندوں کو اس بات سے ڈرایا ہے کہ تم اہل کتاب کی سی چال نہ چلو وہ تم سے ظاہر وباطن میں عداوت رکھتے ہیں۔باوجود اس بات کے علم کے (کہ تم اور تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صاحب فضیلت ہیں) تم پر حسد کر تے ہیں ۔پس تم اللہ کے حکم(یعنی فتح ونصرت) کے آنے تک خاموش رہو۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ آیت حی بن اخطب اور ابو یاسر بن اخطب کے حق میں نازل ہوئی اس لیے کہ جو ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف حسد تھا وہ کسی دوسرے کو نہ تھا۔یہ ہر وقت اور ہرحال میں لوگوں کو اسلام سے بد ظن کرتے۔امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ آیت کعب بن اشرف یہودی کے بارے میں اثری جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتاتھا۔یہ آیت:" فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا "قرآن مجید کی اس آیت کی مانند ہے۔(آل عمران:186)

" وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ"

ترجمہ:۔"اور تم اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے۔"

مزی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کہ عفو ودرگزر کی آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ آیت یہ ہے:

"فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ " (التوبہ:5)

ترجمہ:"(جب عزت کے مہینے گزر جائیں) تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو،پکڑ لو اور گھیر لو اور ہرگھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔"

دوسری آیت:

"قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ ۔۔۔۔۔۔۔" (التوبہ:29)

ترجمہ:۔جولوگ اہل کتاب میں سے اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اورنہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں،ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔"

یہ ایک جماعت سلف کا بھی قول ہے۔کہ یہ آیت منسوخ ہے آیت"سیف" سے۔چنانچہ لفظ"حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ" سے معلوم ہوتاہے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مشرکین واہل کتاب سے درگزر کرتے ان کو معاف کرتے،ان کی ایذا رسانی پر صبر کرتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قتال کی اجازت دے دی۔

تاآنکہ بدر میں قریش کے بڑے بڑے سورما مارے گئے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اسے ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ،اس کی اسناد صحیح ہیں۔

جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اہل کتاب یہ چاہتے تھے کہ مسلمان اسلام کو چھوڑ کر کتابی مشرک بن جائیں،ان کی دولت وعزت جاتی رہے،اس طرح آج کے دور میں بھی یہ لوگ اسی فکر میں رہتے ہیں کہ سارے اہل اسلام اہل کتاب بن کروین سے پھر جائیں،روئے ارض پر ان کی مزاحمت کرنے والا دین ودنیا میں باقی نہ رہے۔پس جس طرح اسلام کے آغاز میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ایذا پر صبر کیاتھا اسی طرح آج غربائے اسلام بھی صدہا تکالیف ان کے ہاتھ سے پاتے ہیں درگزر کرتے ہیں سو جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے قتل کا حکم دیا تھا اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ زمانہ مہدی وعیسیٰ علیہ السلام میں تم ان کو قتل کروگے،پس سارے مسلمان اسی انتظار میں خاموش ہیں۔

" حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ"اگرچہ حسب وعدہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ایک نہ ایک گروہ اہل اسلام کاکسی نہ کسی خطہ میں ہمیشہ غالب رہتا ہے ۔مخالفین اسے کچھ ضرر نہیں۔پہنچا سکتے۔

آیت نمبر۔110۔

" وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ"

"اور نمازادا کرتےرہو اور زکواۃ دیتے رہو اور جو بھلائی اپنے لیے آگے بھیجو گے اس کو اللہ کے ہاں پالو گے،کچھ شک نہیں کہ اللہ تمھارے سب کاموں کودیکھ رہا ہے ۔"

تشریح:۔

اس آیت میں اللہ نے مسلمانوں کو یہ کہا کہ تم اس کام میں مشغول ہوجاؤ جوتمھیں فائدہ دے،تمھاری عاقبت کو د رست کردے۔دنیا میں فتح ونصرت حاصل ہو،آخرت میں گواہ حاضر ہوں جس دن کہ ظالموں کو عذر کچھ فائدہ نہ دے گا۔بلکہ ان پر لعنت ہوگی اور برُا انجام ہوگا۔

اس لیے فرمایا کہ ہم تمہارے کرتوت سے غافل نہیں ہیں۔اچھا ہویا بُرا ہر عامل کو ا پنے کیے کی جزا اور سزا ملے گی۔

آیت نمبر:111۔112:۔

"وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١١١﴾ بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ "

" یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود ونصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا، یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں، ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو (111) سنو! جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔ بےشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی "

تشریح:۔

اللہ نے اس پہلی آیت میں اہل کتاب کے غرور کا ذکر کیا ان دونوں میں سے ہر گروہ اس بات کامدعی ہے کہ جنت میں صرف وہی شخص جائے گا جو ان کی ملت (دین ) پر ہوگا۔جیسے سورہ مائدہ میں ان کا کہنا ذکرہوا ہے:

" نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ"(سورۃ المائدہ)

ترجمہ:۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں"

لیکن اللہ نے فرمایا: یہ جھوٹے اور دغا باز ہیں۔ یہ ان کی جھوٹی آ رزوئیں ہیں وہ اپنے گناہوں کا عذاب ضرور پائیں گے جہنم رسید ہوں گے،اگر وہ سچے ہوتے تو انہیں عذاب نہ دیا جاتا۔یہ دعویٰ اسی طر ح ہے جیسے پہلے آچکا ہے:

" لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ"

جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا تھا اسی طرح یہاں بھی ان کے دعوے کا رد کیا۔یہ ان کا دعویٰ بلادلیل اور بغیر کسی واضح حجت کے ہے۔

ابو العالیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کہ اللہ پر ان کی ہر تمنا ناحق ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے سند طلب کی کہ اگر دعویٰ میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو!

پھر فرمایا:جس نے اپنا سر تسلیم خم کیا یعنی خالص دین کا ہوگیا تو وہ محسن ہے اور متبع رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کا انجام نیک ہے۔

ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:مقبول عمل کے لیے دو شرطیں ہیں ایک یہ کہ وہ خالصتاً اللہ ہی کے لیے ہو،دوسرے یہ کہ صواب یعنی سنت مطہرہ کے عین مطابق ہو۔لہذا اگر نیت خالص بھی ہو اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق نہ ہوتو عمل اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول نہ ہوگا۔اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔(مسلم)

سو درویشوں کا عمل اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ مخلص ہیں لیکن عمل بارگاہ الٰہی میں اس وقت تک مقبول نہ ہوگا جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق نہ ہو۔اطاعت اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونی چاہیے جو ساری مخلوقات کی طرف بھیجے گئے ایسے لوگوں کے حق میں اللہ نے فرمایا:

"وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا..." (الفرقان:23)

ترجمہ:۔ اور جو انہوں نے عمل کیے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے،تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔دوسری جگہ فرمایا:

"وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا" (النور:39)

ترجمہ:۔"اور جن لوگوں نے کفر کا ا رتکاب کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے میدان میں ریت کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اس کے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے۔

تیسری جگہ فرمایا:

"وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ ﴿٢﴾ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ ﴿٣﴾ تَصْلَىٰ نَارًا حَامِيَةً ﴿٤﴾ تُسْقَىٰ مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ "(الغاشیہ:2،3،4)

ترجمہ:۔" اس روز بہت سے چہرے ذلیل ہوں گے سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے،دہکتی آگ میں داخل ہوں گے ،ایک کھولتے ہوئے چشمے کا انہیں پانی پلایا جائے گا۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کی تفسیر انہیں رھبان کے ساتھ کی ہے۔رہی یہ بات کہ عمل ظاہر صورت میں شریعت کے مطابق ہو لیکن خالصتاً اللہ کے لیے نہ ہوتو ایسا عمل بھی مردود ہوتا ہے۔یہ حال اہل ریاء ونفاق کا ہوتا ہے۔

جیسے اللہ نے فرمایا:

"إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا "

(النساء:142)

ترجمہ:۔"منافق(ان چالوں سے اپنے نزدیک) اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں(یہ اس کو کیا دھوکہ دیں گے) وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر،صرف لوگوں کے دکھاوے کے لیے اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔"

دوسری جگہ فرمایا: "فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ﴿٧﴾"

(الماعون:4۔5)

ترجمہ:تو ایسے نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو ا پنی نمازیں غفلت سے ادا کرتے ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں۔اور استعمال کی چیزیں عاریتاً نہیں دیتے۔"اسی لیے ارشاد فرمایا:

"فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا" (سورۃ الکہف:110)

"پس جو شخص ا پنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے،لازم ہے کہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔"

اور اس جگہ یہ فرمایا:

" بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ "

مطلب دونوں آیات کاایک ہے پھر اس اخلاص پر یہ اقرار کیا کہ نہ کسی گزشتہ امر پر غم اور نہ کسی آئندہ معاملے پر کچھ خوف ہوگا۔سعید بن جبیر نے فرمایا:نہ مرتے دم کچھ غم ہوگا اور نہ قبر میں کچھ ڈر ان کا مقدر ہوگا۔۔۔!

آیت نمبر۔113:۔

"وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ "

ترجمہ:۔"اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی راہ راست پر نہیں ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہود راہ راست پر نہیں حالانکہ کتاب(الٰہی) پڑھتے ہیں،اسی طرح بالکل! انہیں کی سی بات وہ لوگ کہتے ہیں جو کچھ نہیں جانتے(مشرک) پس جس بات میں یہ لوگ اختلاف کررہے ہیں۔اللہ قیامت کے دن اس بارے میں ان میں فیصلہ کرے گا۔"

تشریح:۔

اسی آیت میں اللہ نے یہود ونصاریٰ کی باہمی دشمنی ،بغض اور عناد بیان فرمایا ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا،جب نجران کے عیسائیوں کا وفد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو یہودی علماء بھی جمع ہوئے،دونوں فریقوں کا آپس میں جھگڑا ہوگیا،رافع بن حرملہ نے کہا:تم کچھ چیز نہیں ہو،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل کا انکار کیا۔ایک نصرانی نے اس کا جواب دیا کہ تم بھی کچھ چیز نہیں ہو،موسیٰ علیہ السلام اور تورات کا انکار کیا۔اس پر اللہ نے یہ آیت نازل کی اور فرمایا یہ دونوں اہل کتاب ہیں۔اپنی ا پنی کتاب میں ایک دوسرے کی تصدیق پاتے ہیں،یہود کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت سے انکار کرنا بالکل غلط ہے اس لیے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے تورات میں یہ عہد لیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرنا۔اسی طرح انجیل میں موسیٰ علیہ السلام اور تورات کی گواہی ہے پھر ایک کا دوسرے کو کافر کہنا لایعنی بات ہے۔

حضرت مجاہد اور قتادہ نے فرمایا کہ اگلے یہود ونصاریٰ کچھ راست پر تھے لیکن عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہود ونصاریٰ نے بدعات پیدا کیں،فرقے فرقے بن گئے مگر صحیح یہی ہے کہ یہاں اگلے پچھلے سب یہود ونصاریٰ مراد ہیں۔اس آیت میں" لَا يَعْلَمُونَ "سے مراد نصاریٰ ہیں جنھوں نے یہود سے جھگڑا کیا یہ قول قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔یہاں وہ امتیں مراد ہیں جو یہود ونصاریٰ سے پہلے تھیں،تورات اور انجیل سے پہلےحضرت نوح علیہ السلام ،حضرت داود علیہ السلام ،حضرت صالح علیہ السلام ،حضرت لوط علیہ السلام ،اور حضرت شعیب علیہ السلام کی قومیں تھیں کہ ان سب نے اپنے انبیاء کے بارے میں کہا کہ وہ کسی راہ راست پر گامزن نہیں ہیں۔سدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اس آیت میں عرب مراد ہیں کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات کہی ،موضح القرآن میں ہے کہ جن کے پاس علم نہیں ہے وہ عرب کے لوگ ہیں پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین رکھتے تھے،پھر گمراہ ہوکر بُت پوجنے لگے ایسے شخص کومشرک کہتے ہیں جو اپنی ہی راہ چلتاہے۔ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا،آیت مذکور سب کے لیے عام ہے۔کوئی دلیل قاطع تعین پر موجود نہیں۔اس لیے سب پر اطلاق ہی اولیٰ ہےی میں بھی یہ کہتا ہوں کہ آیت پچھلی امتوں یا پہلے عربوں کے لئے خاص نہیں بلکہ ہر زمانے کے بے علم اسی طرح گفتگو اپنے اپنے وقت میں کیا کرتے ہیں۔روافض کو دیکھو باوجود قرآن پڑھنے کے خوارج کو"لاعلی شئی" کہتے ہیں اور کافر سمجھتے ہیں اور خوارج رافض کی تکفیر کرتے ہیں۔اسلام کے بہتر فرقوں میں ایسے فرقے بہت نکلیں گے جو ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہے یا اب بھی کررہے ہیں یہ حال مقلدین مذاہب کا ہے کہ ہر ایک مقلد دوسرے کی تذلیل ایک دوسرے کو بدعتی بنانا بلکہ ایک دوسرے کو تکفیر کرتا ہے۔ہاں اللہ تعالیٰ نے ایک گروہ اہل سنت والجماعت کو اس بلا سے بچا لیا ہے کہ وہ کسی مسلمان تو کافر ولاشئی نہیں کہتے۔ نہ اس وقت تک کسی تاویل کرنے والے کی تکفیر کرتے ہیں۔جب تک کہ صریح کفر نہ ہو۔

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

یہ واقعہ یقیناً اس امت میں واقع ہوا ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کی تکفیر کرتا ہے۔باوجود یہ کہ تلاوت قرآن پاک پر سب کا اتفاق ہے۔یہاں کہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ عدل جاری ہوگا۔ذرہ برابر کسی پر ظلم وجورروانہ رکھا جائے گا،جس طرح فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّـهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (حج:17)

ترجمہ:۔جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہیں اور ستارہ پرست اور عیسائی اور مجوسی اور مشرک اللہ ان سب کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔بے شک اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔"

یہ چھ گروہ ہوئے ہیں جن کا قیامت کے دن فیصلہ کیا جائے گا۔ایک جگہ اس طرح فرمایا:

قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ (السباء:26)

ترجمہ:۔کہہ دو کہ ہمارا پروردگار ہم کو جمع کرے گا۔پھر ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور وہ خوب فیصلہ کرنے والا اور صاحب علم ہے۔"

"فتح"سے اس جگہ مراد فیصلہ اور حکم ہے آدم سے لے کر قیامت تک جتنی امتیں گزری ہیں اور جتنے باہمی اختلافات ہوئے ہیں ان سب کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے روبرو میدان محشر میں ہونے والا ہے۔تم بھی منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں وہاں معلوم ہوجائے گا کہ حق پر کون تھا اور باطل پر کون براجمان تھا۔