:ولادت ونشاۃ 1270ھ 1854ء کو ایک بڑے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔والد گرامی کا نام شیخ احمداللہ اوروالدہ کانام بی بی بھی مخدومن ہے۔عمر کے 13ویں سال میں قرآن پاک حفظ کیا۔اس کے بعد عربی ،فارسی کی کتابیں پڑھنا شروع کریں جو اس دور میں رائج تھیں۔مختلف اساتذہ کرام سے ابتدائی کتابیں تحصیل کیں،ان اساتذہ میں مولوی عظمت اللہ ،مولوی محمودعالم رامپوری (1302ھ) اور مولوی محمد یحییٰ عظیم آبادی کےاسماءگرامی خاص طور پر مذکور ہیں۔(1) اعلیٰ تعلیم کے لئے رحلت:۔ پھر 1290 ہجری کو بیس سال کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے حص مزید مطالعہ
قرآنِ پاک نوع انسانی کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر دائمی معجزہ، اس نے اپنے نزول کے ساتھ تاریخ عالم کا دھارا بدل دیا اور پھر اپنی جامعیت اور گہرائی کے اعتبار سے ہر دور میں انسانی عقل و فکر کے لئے رہنما ہے۔ اس کی زبان معجزانہ ہے اور اندازِ بیان اچھوتا، اس کی تفسیر و تاویل، اِعجاز و اِعراب، تاریخ و جغرافیہ، اُسلوبِ بیان وغیرہ پر جس قدر لکھا جا چکا ہے وہ بھی معجزہ سے کم نہیں۔ ہر دور میں مفسرین نے اپنے خصوصی ذوق اور ماحول کے مطابق اس کی خدمت کی ہے جس سے تفسیر اور مزید مطالعہ
(215تا303ھ)ابو عبدالرحمٰن ،احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر الخرسانی ،النسائی صاحب "السنن""نساء"کی طرف نسبت:خراسان کا ایک شہر ہے جو"سرخس "سے دودن کی مسافت پر واقع ہے۔ ابن خلکان لکھتے ہیں ۔وهي مدينة بخراسان خرج منها جماعة من الاعيان(الوفیات ج1ص66،البلدان68نیز بستان المحدثین)یعنی "نساء خراسان کا مشہور شہر ہے جہاں سے بہت سے ارباب فن مشہور ہوئے ہیں " امام نسائی بھی اس کی طرف ہی منسوب ہیں ۔ولادۃ ونشاۃ :۔امام موصوف تقریباً215ھ کو پیدا ہو ئے ان کا قول ہے ۔( تہذیب التہذیب (ج8ص398۔321)شبه أن يكون مولدي مزید مطالعہ
ولادت اور نام و نسب:۔ امام ترمذی 210ھ کے حدود میں پیدا ہوئے بعض نے 209ھ ذکر کیا ہے۔کیونکہ وفات بالاتفاق 279ھ ہے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان الاعتدال میں 279ھ وفات ذکر کی ہے اور لکھا ہے: "وكان من ابناء سبعين" یہی الفاظ علی القاری نے شرح الشمائل میں ذکر کیے ہیں،پس ان جملہ اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ امام موصوف 209ھ میں پیدا ہوئے لہذا ان کی ولادت 210ھ ہی ہے۔(1) امام ترمذی کا نام محمد،باپ کا نام عیسیٰ اور کنیت ابو عیسیٰ ہےاور پورا نسب یہ ہے: محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ بن الضحاک اور نسبت اسل مزید مطالعہ
حضرت مولانا ابو ابراہیم آرویؒ 1264ھ/1319ھ۔۔۔۔1848ء/1902ءمتحد ہ ہندو ستان میں تیموری سلطنت کے آخری دور میں دہلی میں خاندان ولی اللہ نے رُشد و ہدایت کی مشعل کو روشن تر کردیا ۔شاہ عبد العزیز صاحب (المتوفی1239ھ)ان کے بزروگ برادر اور عزیزوں نے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تدریس میں نمایاں کردار ادا کیا شاہ عبد العزیز کے بعد محمد اسحاق صاحب( المتوفی1262ھ)نواسہ شاہ عبد العزیزنے اپنے نامور تلامذہ کے ذریعہ اس کے حلقہ اثر کو بہت وسیع کردیا بعد ازاں شاہ اسحاق صاحب کے نامور تلامذہ میں دو گروپ پیدا ہو گئے اور ایک گ مزید مطالعہ
صالح اجتماعی نظام اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ افرادِ انسانی کے اخلاق واعمال میں عدل و استقامت پیدا نہ ہوجائے اور چونکہ تمام اخلاق و اعمال کا منبع و مصدر اور جڑ روح اور قلب ہیں تو حیاتِ انسانی میں انفراداً و اجتماعاً صلاحیت ِاستقامت پیدا کرنے کے لئے سب سے مقدم قلب کی اصلاح اور روح کی طہارت ہے، ورنہ انسان کا اُصولِ زندگی میں افراط وتفریط سے ملوث ہونا ناگزیر ہے بقول ؎خشت اوّل چوں نہد معمار کجتاثر یا مسرود ولہار کجرسول اللہﷺ نے بھی ایک ارشاد میں اس حقیقت کو واضح کیاکہ «ألا إن في الجسد مزید مطالعہ
(1)امام مالک اور مؤطا کا تعارف(2) مؤطأ امام مالک اور مؤطأ امام محمد موازنہ(3) امام مالک اور تعامل اہل مدینہخاندانی تعارف:علامہ کو ثری نے امام مالک کو بھی ''موالی '' میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ زہری اور محمد بن اسحاق صاحب المغازی دونوں کے نزدیک ، امام مالک موالی سے ہیں اور اس سلسلہ میں صحیح بخاری کے حوالہ سے ابن شہاب زہری سے ذکر کیا ہے۔'' حدثنى ابن ابى مولى تيميّين''(1)جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ابن ابی انس ''ابو سہل نافع بن ابی انس مالک بن ابی عامر'' ہیں جو امام مالک کے چچا ہیں امام عبدالبر مزید مطالعہ