اہلِ میت کی طرف سے کھانا کھلانے کی شرعی حیثیت

میاں محمد صدیق مغل قادری رضوی 9/11 دہلی کالونی کراچی نمبر 6 سے لکھتے ہیں:
"محترم و مکرم حضرت مولانا مفتی صاحب مدظلہ العالی۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرض یہ ہے کہ اکثر جگہ یہ رسم ہے کہ جب کسی کی وفات ہو جاتی ہے تو ابھی میت کو اول منزل بھی نہیں کیا جاتا کہ اہل میت کو کھانا وغیرہ پکوانے کی فکر اور میت کے اعزہ و اقارب و احباب کی عورتوں کے لیے پان چھالیہ وغیرہ کی فکر ہو جاتی ہے۔ اور بعد اول منزل کے قبرستان میں ہی اعلان دعوت کر دیا جاتا ہے کہ تمام شامل حضرات ٹکڑا توڑ کر جائیں۔ اس طرح پہلے ہی دن جبکہ اہل میت رنج و الم میں مبتلا ہوتے ہیں، انہیں اس طرح یہ اہتمام کرنا پڑتا ہے جیسے خوشی کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ پھر اسی طرح تیسرے دن پھر آٹھویں دن۔ اس طرح یہ سلسلہ چالیس دن تک چلتا رہتا ہے۔ بعد چالیس دن کے "چالیسویں" کے نام سے ایک دعوت اس طرح ہوتی ہے کہ اس میں پرتکلف کھانے، چائے، سگریٹ، پان چھالیہ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں شادی کی کوئی تقریب ہے۔
محترم آپ یہ فرمائیے کہ اہل میت کی طرف سے کھانے کی دعوت کرنا کیا شرعا جائز ہے، جبکہ اہل میت اس دعوت سے ذہنی اور مالی طور پر کافی پریشان اور زیر، بار ہوتے ہیں، وہ بھی مجبورا اس رسم کو نبھانے کے لیے قرض لیتے ہیں اور بعد میں قرض اتارنے کے لیے گھر کا سامان تک فروخت کرنا پڑتا ہے اور اس طرح مفلسی مستقل طور پر ان کے ہاں اپنا ڈیرہ ڈال لیتی ہے۔ اگر ان کو منع کیا جائے تو وہ جوابا کہتے ہیں کہ تم یہ چاہتے ہو کہ برادری میں ہماری ناک کٹ جائے اور تمام عمر ہم اپنے رشتہ داروں کے طعنے سنیں۔
آپ یہ فرمائیے کہ:
1۔ غم کے موقع پر کھانے کی دعوت کرنا کیا شرعا جائز ہے؟
2۔ ایسی دعوت سے میت کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟
3۔ ایسی دعوت کرنے والے اور اس میں شرکت کرنے والے معصیت کے مرتکب ہوں گے یا نہیں؟
4۔ کھانے کی دعوت شرعا کس کس موقع پر جائز ہے؟
برائے مہربانی مندرجہ بالا سوالات کے مدلل جوابات قرآن، حدیث و فقہ حنفیہ کی روشنی میں عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔۔۔والسلام"
الجواب بعون اللہ الوھاب
محترم سائل کے اس طویل سوالنامہ میں ہی دراصل کئی جواب پوشیدہ ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال سے ان کا مقصود اپنے اُن قادری، رضوی بھائیوں کو بدعات سے بچانا ہے جو فقہ حنفیہ کے نام لیوا ہونے کے باوجود سرتاپا ان میں غرق ہیں، جبھی انہوں نے اس تمام سلسلہ کو "رسم' قرار دیا، اس کے ہولناک نتائج کا تفصیلی نقشہ کھینچا اور قرآن و حدیث کے علاوہ فقہ حنفیہ کی روشنی میں بھی سوالات کا جواب لکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔۔۔ان کے اسی قابلِ قدر جذبہ کی بناء پر ہم اس مسئلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔۔۔ "وما توفيقنا إلا بالله وهو الهادى إلى الصواب وإليه المرجع و المآب"
معلوم ہونا چاہئے کہ دینِ اسلام کی تکمیل تو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اسی دن ہو گئی تھی، جب یہ آیت نازل ہوئی تھی:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ... ٣﴾...المائدة کہ"آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند فرمایا ہے۔"
لہذا اب اس دین میں کسی قسم کی کوئی کمی بیشی یا ترمیم کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
" تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله و سنة نبيه"
(مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، باب النہی عن القول بالقدر ج2 ص208)
کہ "میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، تم جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ اولا: اللہ کی کتاب، ثانیا: اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت۔"
مذکورہ بالا آیت کریمہ اور ارشادِ نبوی سے معلوم ہوا کہ دین کی بنیاد صرف اور صرف کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ نیز ہمارا ایمان ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی جملہ تعلیمات اور ہدایات اُمت تک من و عن پہنچا دیں۔۔۔درج ذیل حدیث ملاحظہ ہو:
" عن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أيها الناس ليس من شيء يقربكم إلى الجنة ويباعدكم من النار إلا قد أمرتكم به وليس شىء  يقربكم من النار ويباعدكم كم الجنة إلا قد نهيتكم عنه"( مشكوة ص 452)
کہ "ہر وہ چیز جو تمہیں جنت سے قریب اور جہنم سے دور کر دے اس کے کرنے کا میں نے تمہیں حکم دے دیا ہے۔ اور جو جو چیز تمہیں جہنم سے قریب اور جنت سے دور کر دے اس سے منع کر دیا ہے۔"
پس جس چیز کا ذکر شریعتِ مطہرہ میں بالکل نہ ہو اسے دینی و شرعی حیثیت دے کر باعثِ اجر و ثواب سمجھتے ہوئے جاری و اختیار کرنا بدعت کہلاتا ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مطابق بدعت مردود اور ناقابل قبول ہے:
" عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم  من أحدث فى أمرنا  هذا  ما ليس منه فهو رد"
(متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ ص27)
ایک دوسرے فرمان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت کی مذمت فرماتے ہوئے بدعت کو گمراہی قرار دیا ہے:
" عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله و خير الهدى هدى محمد صلى الله عليه وسلم وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة وكل بدعةضلالة "
(رواہ مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ص27)
کہ "سب سے بہتر بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (کا فرمان) ہے۔ اور سب سے برے کام دین میں نئے امور ہیں، ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"
پس معلوم ہوا کہ جب چیزوں کی بنیاد قرآن و سنت میں نہ ہو، اسے نیکی کی حیثیت دے کر اختیار کر لینا بدعت ہے۔ خواہ وہ عمل بظاہر کتنا ہی اچھا، مفید اور پسندیدہ کیوں نہ لگتا ہو، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں۔ کیونکہ ایسا شخص گویا یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ دین خداوندی نامکمل اور ناقص ہے اور وہ اپنے اس عمل سے دین کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔
اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
﴿قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ﴿١٠٣﴾ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ﴿١٠٥﴾ ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا ﴿١٠٦﴾...الكهف "(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرما دیجئے، کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دیں جو اعمال کے لحاظ سے سراسر خسارے میں مبتلا ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ دنیا میں ان کی کوششیں رائیگاں گئیں، حالانکہ ان کا گمان یہ ہے کہ وہ بڑے اچھے عمل کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس سے ملاقات کا انکار کیا۔ پس ان کے اعمال ضائع ہو گئے، ان کے لیے ہم روزِ قیامت وزن قائم نہیں کریں گے۔ ان کے اس انکار اور آیاتِ الہی نیز رسل اللہ سے استہزاء کی سزا جہنم ہے۔"۔۔۔العیاذباللہ
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع میں انسان کے لیے نجات ہے۔ مسلمان آدمی کو وہی عمل کرنا چاہئے، جس کا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے ثبوت ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ... ٢١﴾...الأحزاب کہ "تمہارے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔"
اسلافِ اُمت بھی اتباعِ سنت ہی میں نجات کا عقیدہ رکھتے تھے:
" عن الزهرى قال كان من مضى من علمائنا يقولون الإعتصام  بالسنة نجاة"( سنن دارمى ص 44 ج1)
"حضرت زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ہم سے پہلے علماء فرمایا کرتے تھے کہ عمل بالسنۃ میں ہی نجات ہے۔"
یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم بدعت کو اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ ان سے اسی قدر سنتیں اٹھا لی جاتی ہیں:
" عن غصيف بن الحارث الثمالى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما  أحدث قوم بدعة إلا رفع مثلها من السنة فتمسك بالسنة خير من إحداث بدعة "
(احمد۔بزار۔مشکوٰۃ ص21)
کہ "جو کوئی قوم بدعت ایجاد کرے تو اس سے اتنی ہی سنت اٹھا لی جاتی ہے۔ پس سنت پر عمل کرنا ایجادِ بدعت سے بہتر ہے۔"
نیز ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ... ٧﴾...الحشرکہ "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جو کچھ تمہیں دیں، لے لو اور جس سے منع فرمائیں، باز رہو"
لہذا مسلمان کا یہ شیوہ ہونا چاہئے کہ جس چیز کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے ملے، اسے قابلِ عمل سمجھے۔ اور ہر وہ چیز جس کا ذکر نہ قرآن میں ہو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں، اس سے اجتناب کرے۔
اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم محترم سائل کے سوالات کے جوابات کی طرف آتے ہیں۔
1۔ پہلا سوال یہ ہے کہ میت کی وفات کے بعد اہل میت کی طرف سے تیسرے، ساتویں، دسویں، چالیسویں روز پرتکلف دعوتوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟۔۔۔جوابا عرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے اس قسم کی دعوتوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہذا اسے بلاخوفِ تردید ایجادِ بندہ یعنی بدعت کہا جائے گا، جو کہ سراسر ناجائز بلکہ کبیرہ گناہ ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہئے اور اس قسم کے غلط رواجات و رسومات کی حوصلہ شکنی انتہائی ضروری ہے۔
چنانچہ جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
" كنا نرى الإجتماع على أهل الميت وصنعة الطعام من النياحة "(احمد ابن ماجه باب ما جاء فى النهى عن الإجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام من النياحة)
کہ "ہم اہل میت کے پاس اجتماع کرنے اور ان کے کھانے کے انتظام کرنے کو نوحہ تصور کیا کرتے تھے۔"
جبکہ نوحہ کے ممنوع اور ناجائز ہونے کا سب کو علم ہے۔ بلکہ ایک حدیث میں تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والوں اور سننے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ پس جیسے نوحہ کرنا حرام ہے اسی طرح اہل میت کے ہاں لوگوں کا جمع ہونا اور وہاں کھانا کھانا بھی حرام ہے۔ لہذا میت کے دفن کے تیسرے، چوتھے یا کسی بھی روز اہل میت کا، موت کی وجہ سے کھانا پکانا اور لوگوں کو کھلانا حرام اور ناجائز ہے۔
اہل میت کو کھانے کا انتظام کرنے کی تکلیف دے کر مقروض اور زیرِ بار کرنا ویسے بھی نامناسب اور اخلاقی جرم ہے۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی غمزدہ اور مصیبت زدہ ہوتے ہیں، انہیں اتنی فرصت اور ہوش کہاں کہ اتنی بڑی بڑی جماعتوں کے لیے کھانوں کا انتظام کر سکیں؟ اسی لیے اصل شرعی مسئلہ یہ ہے کہ متعلقین، دوست احباب وغیرہ انہیں کھانا بہم پہنچائیں:
"عن عبد الله بن جعفر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إصنعوا لأل جعفر طعاما فإنه قد أتاهم  أمر يشغلهم "(سنن ابى داود باب صنعة الطعام لأهل الميت سنن ابن ماجة باب ما جاء فى الطعام يبعث إلى أهل الميت  جامع الترمذى باب ما جاء فى الطعام يصنع لأهل الميت  مصنف عبد الرزاق 2/550)
یعنی "آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آلِ جعفر کے لیے کھانا تیار کرو۔ کیونکہ ان کو ایسا معاملہ درپیش آ گیا ہے (وفات کا) کہ جس نے ان کو مشغول کر دیا ہے۔"
لوگوں نے اس حدیث پر تو عمل چھوڑ دیا اور ایجادِ بندہ کو اختیار کر لیا۔۔۔گویا لوگوں کے اس عمل سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی عملی تصدیق ہو گئی کہ جو لوگ بدعت اختیار کرتے ہیں، ان سے اسی قدر سنت اٹھالی جاتی ہے۔
اہل میت کے ہاں سے کھانا کھانے کے جواز میں اہل بدعت کی طرف سے ایک دلیل پیش کی جاتی ہے، جو مشکوٰۃ کے ص544 پر وارد ہے، اس کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ عاصم بن کلیب کی روایت سے ایک انصاری صحابی فرماتے ہیں، ہم آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک جنازے کے ساتھ نکلے، واپسی پر اس میت کی بیوی کی طرف سے ایک شخص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت پر بلانے کے لیے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دعوت قبول فرمائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی وہاں شریک ہوئے۔ لہذا اہل میت کے ہاں سے کھانا جائز ہوا۔
لیکن یہ ان لوگوں کی کم علمی کی دلیل ہے کیونکہ:
1۔ یہ دعوت میت کی بیوی کی طرف سے نہ تھی۔ مشکوٰۃ کی اس روایت میں موجود لفظ "داعى امرأته" سے ان لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے۔ صاحب مشکوٰۃ نے یہ حدیث سنن ابی داؤد کے حوالہ سے ذکر کی ہے۔ اس میں "داعی امراۃ" کے لفظ ہیں۔۔۔ "امراتہ" مشکوٰۃ میں غلطی سے درج ہو گیا ہے۔
اسی طرح یہ حدیث مسند احمد ج 5 ص293، سنن دارقطنی ج2 ص545 (طبع قدیم) سنن کبریٰ بیہقی ج6 ص97 پر بھی ہے۔ ان تمام کتب حدیث میں "داعى امرأة" کا لفظ ہے۔ "داعى امرأته" کے الفاظ نہیں۔ لہذا معلوم ہوا کہ دعوت دینے والی عورت میت کی بیوہ نہ تھی کوئی دوسری عورت تھی۔
2۔ حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کا بیان گزرا کہ ہم لوگ اہل میت کے ہاں اجتماع اور وہاں سے کھانا کھانے کو نیاحت سمجھا کرتے تھے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جس کام کو ناجائز کہتے ہوں خود کریں؟ یہ بعید از عقل ہے۔
3۔ یہ ناممکن ہے کہ خاوند کی وفات کے فورا بعد بھی لوگ اسے دفن کرنے سے واپس بھی نہ ہوئے ہوں اور وہ کھانا تیار کرنے بیٹھ گئی۔ کیونکہ وہ تو غمزدہ اور مصیبت زدہ ہے۔ اس کی اولاد بھی باپ کی وفات پر پریشان ہو گی۔ انہیں تو اپنا بھی ہوش نہ ہو گا کجا ایک بڑی جماعت کے کھانے کا انتظام کرنا۔ ذرا سوچئے تو سہی۔
4۔ دعوت کرنے والی عورت میت کی بیوی نہ تھی۔ مسند احمد ج5 ص408 میں ہے کہ میت انصاری مرد تھا اور یہی حدیث سنن کبریٰ میں ہے۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ عورت قریشیہ تھی (ملاحظہ ہو سنن کبریٰ للبیہقی ج6 ص97) اگر وہ دونوں خاوند بیوی تھے تو اس کے ذکر میں کوئی حرج نہ تھا۔
5۔ بالفرض والمحال مشکوٰۃ سے پیش کردہ الفاظ  "داعى امرأته" صحیح مان بھی لیے جائیں تو بھی بات بنتی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ اس عورت نے دعوت کا انتظام میت کی وفات کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ وہ تو اس سے قبل ہی دعوت کا انتظام کر رہی تھی۔ چنانچہ ملاحظہ ہو مسند احمد ج4 ص294ء۔
" فقالت يا رسول الله صلى الله عليه وسلم  إنه كان فى نفسى أن  أجمعك ومن معك على طعام"
کہ "اس عورت نے کہا "اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)، میرا یہ ارادہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو کھانے پر جمع کروں۔"
لہذا مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ اہل میت کی طرف سے لوگوں کی دعوت کرنے کے جواز پر کوئی نقلی دلیل نہیں ہے، بلکہ یہ تو عقل کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ دعوت ہمیشہ خوشی کے موقع پر کی جاتی ہے نہ کہ غمی کے وقت۔
اب مقتدر احناف مفتیانِ کرام کے فتوے اور فیصلے ملاحظہ ہوں:
1۔ ابن الہمام حنفی لکھتے ہیں:
"يكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع فى السرور لا فى الشرور وهى بدعة مستقبحة"
(فتح القدیر شرح ہدایہ)
کہ "اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت کرنا منع ہے، کیونکہ ضیافت خوشی کے موقع پر ہوتی ہے نہ کہ غمی کے موقع پر۔ نیز اس قسم کی ضیافت بدعت شنیعہ ہے۔"
2۔ یہی الفاظ و عبارت حنفیہ کی مشہور کتاب "مراقی الفلاح" میں بھی ہیں۔
3۔4۔5۔6۔7:۔۔ فتاویٰ خلاصہ۔سراجیہ۔ظہریہ۔ تاتارخانیہ اور عالمگیری میں ہے۔
واللفظ للسراجیة۔(الفاظ سراجیہ کے ہیں)
" لا يباح اتخاذ الضيافة عند ثلثة أيام فى المصيبة"
کہ "غمی میں تیسرے دن کی دعوت ناجائز ہے۔"
"لأن الضيافة تتحذ عند السرور"
"کیونکہ دعوت تو خوشی (کے موقع) پر ہوتی ہے۔"
8۔ فتاویٰ قاضی خاں میں ہے:
" يكره اتخاذ الضيافة فى أيام المصيبة لأنها أيام تأسف فلا يليق بها ما يكون للسرور"
"ایامِ مصیبت میں ضیافت مکروہ ہے، کیوں کہ یہ افسوس کے دن ہیں۔ ان ایام میں خوشی والا کام جائز نہیں۔"
9۔ امام بزازی "وجیز" میں لکھتے ہیں:
" يكره اتخاذ الطعام فى اليوم الأول و الثاث و بعد الأسبوع"
یعنی "میت کی وفات کے پہلے، تیسرے یا ساتویں روز کے بعد کھانے کی ضیافتیں کرنا مکروہ ہے۔"
مذکورہ بالا تصریحات اور حنفی فقہاء کی تحریروں سے معلوم ہوا کہ میت کی وفات کے بعد اہتمام کے ساتھ دعوتوں کا انتظام کرنا اور تقاریب کا انعقاد کرنا بدعت اور ناجائز ہے۔ اس کے علاوہ اس مسئلے پر ایک دوسری حیثیت سے بھی غور کرنا ضروری ہے کہ ورثاء میں عموما یتیم بچے اور نابالغ اولاد ہوتی ہے اور بعض ورثاء موقع پر موجود نہیں ہوتے۔ لہذا ان نابالغوں اور غیر موجود وارثوں کی اجازت کے بغیر ان کا مال کھایا جانا حرام ہے۔ درج ذیل آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ﴿١٠﴾...النساء"جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، بلاشبہ اپنے پیٹ میں انگارے بھرتے ہیں۔ یہ لوگ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔"
جبکہ مالِ غیر میں بلا اذنِ مالک تصرف بھی ناجائز ہے:
﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ... ١٨٨﴾...البقرة
’’ تم آپس میں مال ناجائز طریقوں  سے نہ کھاؤ‘‘
نیز اس قسم کی محافل میں عورتیں جمع ہو کر عموما نوحہ، بین، مصنوعی رونا پیٹنا، چیخنا چلانا اور دیگر منکر (ناجائز) افعال کا ارتکاب کرتی ہیں، جو کہ حرام ہیں۔ پھر ان لوگوں کی دعوت کرنا گناہ کے کام پر تعاون کے مترادف ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ... ٢﴾...المائدة کہ "نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کام میں تعاون نہ کرو۔"
تو پھر جب اہل میت کی طرف سے طعام کا اہتمام ہی بے بنیاد اور بے اصل ہے تو ایسے لوگوں کے لیے یہ انتظام بطریقِ اولیٰ غلط اور ناجائز ہوا۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ان رواجات و رسومات کی ادائیگی کی خاطر اپنی ہمت و بساط سے بڑھ کر مشقت اٹھاتے ہیں۔ جیسا کہ محترم سائل نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اہل میت اس قسم کی دعوتوں سے ذہنی، مالی طور پر پریشان اور زیرِ بار ہوتے ہیں۔ نادار، مفلس اور غریب لوگ بھی اوروں کی دیکھا دیکھی اس رسم کو لازما نبھاتے ہیں اور بعد میں قرض کی ادائیگی میں خواہ مخواہ پریشان ہوتے ہیں۔ حالانکہ بہت سے شرعی احکام و فرائض کے مکلف صرف اصحاب، استطاعت لوگ ہی ہیں۔ مثلا زکوٰۃ، حج، عقیقہ، قربانی وغیرہ۔ یہ غیر مستطیع حضرات کے لیے ضروری نہیں۔ کجا ایک ایجاد کردہ رسم، جو صرف دنیا داری کے لیے بنائی گئی، اس کے لیے زائد از استطاعت تکلیف کیونکر جائز ہو گی؟ ۔۔۔ ویسے بھی عقلمندوں کی دنیا میں کہیں یہ نہیں دیکھا گیا کہ غمی کے موقعہ پر کوئی شخص دعوتوں کا اہتمام کرتا ہو۔ دعوت ہمیشہ خوشی کے موقعہ پر ہوتی ہے نہ کہ غمی کے موقعہ پر۔۔۔ایک بات پھر حنفی بزرگوں کے اقوال ملاحظہ فرما لیں۔۔۔مزید وضاحت کے لیے بریلویوں کی مستند کتاب احکامِ شریعت حصہ سوم ص292 کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔
2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسی دعوت سے میت کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اصل کام ہی بے بنیاد ہے تو اس پر اجر و ثواب کی امید کرنا نادانی ہے۔ اگر مقصود ایصالِ ثواب ہو تو اس کے لیے بھی صرف وہی طریقہ قابلِ عمل اور جائز ہے جس کا ثبوت سنت سے واضح طور پر ملتا ہو۔۔۔تفصیل ملاحظہ ہو:
" عن أبى هريرة قال قال رسول الله عليه وسلم إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلثة إلا من صدقة جارية أو ولد صالح يدعو له"( رواه مسلم –مشكوة ص32)
"جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے (یعنی ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی میت کو (از خود) ملتا رہتا ہے) : (1) صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے (3) صالح اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔"
ابن ماجہ کی ایک روایت کے مطابق، علم سکھانے، نیک اولاد چھوڑ جانے، مسجد تعمیر کرانے، مسافروں کے لیے آرام گاہ بنانے اور صحت و سلامتی کی حالت میں کئے ہوئے صدقہ کا ثواب، انسان کو مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے۔
اسی طرح مسند احمد اور دیگر کتب حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کے انتقال کے موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ "ان کے حق میں کون سا صدقہ بہتر ہے؟" فرمایا۔۔"پانی"۔۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ماں کی طرف سے کنواں کھدوایا۔
لہذا ایصالِ ثواب کے لیے مندرجہ بالا صورتیں جائز ہیں۔ دعوتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی ان سے ایصالِ ثواب ہوتا ہے۔
3۔ تیسرے سوال کہ: "ایسی دعوت کرنے اور اس میں شرکت کرنے والے معصیت کے مرتکب ہوں گے یا نہیں؟"۔۔۔ کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس قسم کی دعوت غیر مشروع اور حنفی فقہاء کی تحریروں کی روشنی میں بھی ناجائز ہے، تو اس کا انتظام اور اس میں شرکت کرنے والے "تعاون علی الاثم والعدوان" کے زمرے میں آ کر عاصی اور گناہ گار ہوں گے۔ مسلمان آدمی کو ہر اس محفل اور دعوت میں شرکت سے اجتناب لازم ہے، جہاں خلافِ شرع کام ہو۔
ایک بار آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، وہاں منقش کپڑوں سے ڈھانپی ہوئی دیوار دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازہ سے ہی واپس ہو گئے۔ اور فرمایا:
" إنه ليس بى أو لنبى  أن يدخل  بيتا مزوقا" _ (سنن أبى داؤد باب فى الرجل يدعى فيرى مكروها)
ابن بطال کا قول ہے:
"إنه لا يجوز الدخول فى الدعوة يكون فيها منكر مما نهى الله و رسوله عنه لما فى ذلك من إظهار  الرضى بها " ( عون المعبود 3/403)
کہ "کوئی دعوت جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کردہ منکر افعال ہوں، وہاں جانا جائز نہیں، کیونکہ اس میں جانا گویا اس عمل پر رضامندی کا اظہار ہے۔"
4۔ رہا یہ سوال کہ "کھانے کی دعوت شرعا کس کس موقعہ پر جائز ہے؟"
تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی خوشی کے موقعہ پر مسلمان بھائیوں، دوستوں اور متعلقین کی دعوت کی جا سکتی ہے، کوئی ممانعت نہیں۔ احادیث میں شادی کے موقع پر ولیمے کی دعوت، عقیقے کی دعوت، سفر سے واپسی پر دعوت، وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینِ حنیف پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
هذا ما عندى والله أعلم بالصواب