اقوام عالم کے سامنے اسلامی ہیومن رائٹس کے چند روشن رخ!

غیر مسلم اقوام میں انسانی حقوق کی مختصر تاریخ:۔
کہا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کا تحفظ سب سے پہلے بایل کے بادشاہ حمورابی 2130ھ تا2088ق م) کے کوڈ آف لاء میں ملتا ہے۔یہ صرف دعویٰ ہے کہ کیونکہ جس قانون کی زبان صفحہ ہستی سے نابود ہوچکی ہو۔اور جس کے خالق کے حالات زندگی کا کچھ پتہ نہ ہو اس کے بارے میں یہ کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ وہ حقوق انسانی کا پہلا علمبردار تھا۔خود اس کوڈ آف لاء کے بعض حصے اتنے ظالمانہ اور وحشیانہ ہیں کہ ان سے بنیادی حقوق کے تصور کو شدید دھچکا لگتا ہے۔
اس طرح رومی سلطنت کے کچھ قوانین ملتے ہیں۔جس کی رو سے ان حقوق سے صرف  رومی شہری ہی مستفید ہوسکتے تھے،غیر رومی بہر اندوز نہیں ہوسکتے تھے بعد میں انہی رومی قوانین کو یورپی اقوام نے اپنایا۔(1) چنانچہ اٹھارویں صدی کے آخر عشروں  میں انہیں فرانس میں"Droito Del Homme " کے نام سے مدون کیا گیا۔اسی صدی میں برطانیہ میں چند مبہم اور غیر واضح قوانین کا نشان ملتا ہے۔انیسویں صدی میں امریکہ نےانہی قوانین کو اپنے دستور میں شامل کیا :بیسوی صدی کو انہی قوانین کو افریقہ اور ایشیا کے ممالک نے اختیار کیا،وہ بھی صدیوں کی انسانی جدوجہد اور کئی خونی انقلابات کے بعد۔ان قوانین میں زیادہ  تر شادی،خاندان،عدل ،تکریم انسانیت اور کچھ سیاسی وشخصی قوانین شامل تھے۔1917ء میں روسی دستور میں انسانی حقوق کو شامل کیا گیا مگر وہ زیادہ تر مزدورطبقہ کے معاشی وسیاسی حقوق کی یکطرفہ آواز تھی۔
1917ء میں یہی حقوق میکسیکو کے دستور میں شامل کئے گئے۔1919ء میں جرمنی اور 1931ء میں سپین نے ان کو اپنے اپنے دستوروں میں جگہ دی۔
مگر یہی اقوام اپنے ان خودساختہ حقوق کی خود خلاف ورزی کرتی رہیں۔دوسری جنگ عظیم میں سب نے ان حقوق   کو پامال کرنے میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔جن میں جرمنی سرفہرست تھا۔
چنانچہ 1945ء میں لیگ آف نیشنز( League of  Nations) نے سان فرانسکو کے مقام پر انسانی حقوق کا ایک چارٹر مرتب کیا۔جس کا نام چارٹر آف ہیومن رائٹس (Charter of  Human Rights) رکھاگیا۔اس کے دو حصے تھے :پہلے حصے میں انسان کے سیاسی حقوق کا تذکرہ تھا۔اور دوسرے میں معاشی،سماجی اور ثقافتی حقوق کا تذکرہ تھا۔
اس چارٹر میں کئی ابہام تھے مثلاً ان حقوق کو دینے والا کون ہے؟ ان کو نافذ کرنے والے ادارے کون سے ہوں گے؟اور نہ ہی ان حقوق کی کوئی جامع ومانع تعریف تھی یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جب تک فرائض کا تعین نہیں کیا جائےگا۔ حقوق کا مطالبہ بے معنی ہے اس چارٹر میں انسانی فرائض کی وضاحت نہیں تھی۔
اس خلاء کو پرکرنے کے لئےجون1948ء میں اقوام متحدہ(لیگ آف نیشنز) نے دوبارہ ایک کمیشن مقرر کیا۔اس نے"Covenanl of Human Rights" کے نام سے ایک دستاویز تیار کی۔10  دسمبر 1948ء کو جنرل اسمبلی نے اس کو پاس کردیا۔چونکہ ان حقوق کی اکثریت پوری طرح سامراجی اقوام کے مفاد میں تھی لہذا  جنرل اسمبلی کے اجلاس میں روسی بلاک کے ممبران سمیت سعودی عرب اور جنوبی افریقہ نے حصہ نہیں لیا۔ان حقوق میں کسی انسان کو ذاتی عناد کی وجہ سے گرفتار کرنے پا بندی اور کسی انسان کو علاقائی تعصب کی بناء پر بھی گرفتار کرنے پر پابندی کا اضافہ کیا گیا۔1945ء کے چارٹر میں سات بنیادی انسانی حقوق درج تھے۔اور پھر آرٹیکلز کی شکل میں ان کی وضاحت کی گئی تھی۔اب ان کا نام "انسانی حقوق کا آفاقی اعلان"(Universal Declaration of  Human Rights)رکھا گیا۔
یہ بات زہن نشین رہے کہ 1948ء کے اعلان میں بھی تمام انسانی حقوق کااحاطہ کیا گیا۔جوں جوں سامراجی طاقتیں کسی ملک کو آزاد کرتی گئیں۔انسان حقوق کا اضافہ  ہوتا گیا اور شائد ہوتا رہےگا۔جب تک ان ممالک کامفاد وابستہ رہا،انہوں نے کوئی قانون نہیں دیا۔چنانچہ اقوام متحدہ نے مختلف اوقات میں ان حقوق پر کنونشن منعقد کئے اور یہ حقوق پاس ہوتے رہے۔مثلاً 1951ء میں مہاجرین کے حقوق پاس ہوئے۔1954ء میں بے یارومددگار لوگوں() کے حقوق منظر عام پر آئے۔1956ءمیں غلامی کے خاتمے کا اعلان ،1957ء میں بے حرمتی کے خلاف قانون بنا۔شادی شدہ خواتین کے حقوق کابل منظور ہوا اور جبری مشقت کے خلاف قانون پاس ہوا۔1958ء میں پیشے اور ملازمت کی توہین کے خلاف قانون پاس ہوا۔1960ء میں نسلی تعلیم کے خلاف قانون پاس ہوا اور1961ء میں تنظیم سازی اور جلسہ کرنے کا حق دیا گیا اورنسل کشی کے خلاف بل پاس ہوا۔1962ء میں شادی کا حق اور اس کی کم سے کم مدت کی تعین کی گئی۔1962ء میں ہر ملک کو اس کے قدرتی وسائل پر تصرف کا  حق دیا گیا۔
1963ء میں ہر قسم کی نسلی تفریق کوختم کیا گیا اور خلائی تحقیق میں سب ممالک کو حصہ لینے کاحق دیا گیا۔
1968ء میں عورتوں کے سیاسی حقوق کو تسلیم کیاگیا۔یہ سب حقوق کنونشنوں کے ذریعے منظور کیے گئے۔
انسانی حقوق کے چارٹر پر تنقید:۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کا ایک نام رکھا گیا کبھی اسے(Covenant) کبھی (Charter) اور کبھی(Clartion) کہا گیا۔اسی طرح حقوق انسانی کا اعلان یہ نہیں بتاتا کہ ان حقوق کو انفرادی سطح پر کیسے لاگو کیاجائے؟لہذا مشہور ماہرقانون سرہرش لیٹر پاش(Sir Hersch Laiter Pacht) نے 1950ء میں یہ تنقید کی۔کہ جب تک حقوق انسانی کو قانون بین  الممالک سے منسلک نہیں کیا جائے گا،ان کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔اس اعلان کے مسودہ نگاروں میں لبان کے چارلس مالک(Charles Malik)سرفہرست تھے۔وہ بھی اس مطمئن نہیں تھے۔انہی مسودہ نگاروں کی ذیلی کمیٹی میں"Franklin D. Roosvels" بھی شامل تھیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ:"حقوق انسانی کا اعلان کوئی معاہدہ نہیں۔ یہ اعلان کسی قانون کی وضاحت نہیں کرتا۔"
یہ زہن نشین رہ کہ اقوام متحدہ پر شروع ہی سے امریکہ کی اجارہ داری رہی ہے ۔مگر ان حقوق کی پاسداری اس نے کبھی نہیں کی۔اگر کی ہے تو ا پنے مفادات  اور ترجیحات کو مد نظر  رکھ کر کی ہے امریکہ اس سلسلہ میں اس قدرآگے نکل چکا ہے کہ 1953ء میں خود اس کے اپنے سیکرٹری آف سٹیٹ جان فوسٹر ڈلس(John Foster Dulles) کو کہنا پڑا:
"آئزن ہاور کی انتظامیہ نہ تو معاہدات کی سختی سے پابندی کرتی ہے اور نہ ہی دنیا میں انسانی آزادی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اور موثر قدم اٹھارہی ہے"
4نومبر 1964ء کو اقوام متحدہ کی طرف سے کابل  میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ایجنڈا تھا:"ترقی پزیر ممالک میں انسان حقوق" اس کانفرنس میں متفقہ طور پر یہ قرار داد منظورکی گئی کہ انسانی حقوق کابل ان ممالک میں موثر نہیں ہوسکتا جہا ں معاشی وسائل بہت  کم ہوں اور آبادی کا غالب حصہ قوت لایموت پر گذر کررہا ہو(2) گویا انسانی حقوق کے نام نہاد خالق خود تسلیم کررہے ہیں کہ ان پر عمل پیرائی مشروط ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  حقوق انسانی کے پہلے علم بردار:۔
حقیقت یہ ہے کہ حقوق انسانی کے جامع قوانین کے اولین علم بردار  محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہ صرف حقوق کا نظریہ دیا بلکہ حقوق کی مکمل تفصیل دی اور ان پر عمل کرکے دکھایا اور بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیروکاروں نے صدیوں تک انھیں جاری رکھا۔آج بھی اس گئے گزرے دور میں حقوق انسانی پر اگر کوئی عمل ہورہا ہے تو وہ صرف مسلمان معاشرے میں ہورہا ہے۔ یہ صرف مسلمان دانشور  ہی ہیں جنھوں نے سب سے پہلے حقوق وفرائض کی تعریف کی اور ان کا دائرہ کار متعین کیا۔
علامہ احمد نگری فرماتے ہیں:" الحق الامر ثابت الذي لايسوغ انكاره"(3) حق وہ امر ثابت ہے۔جس کا انکار نہیں ہوسکتا۔علامہ جرجانی فرض کے بارے میں فرماتے ہیں:"
 الفريضة : فعيلة من الفرض وهي في الشرع ما ثبت بدليل قطعي لا شبهة فيه ."(4)فریضہ فعلیہ کے وزن پر ہے جو فرض سے نکلا ہے فریضہ وہ ہے جو قطعی دلیل سے ثابت ہوا اور اس میں کوئی شبہ باقی نہ ہو۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے شریعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم  کی روشنی میں چند ایسے انسانی بنیادی حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں جن کا تعلق انسان کے  جان ومال سے ہے۔
جان کے حقوق:۔
انسان جان کے کئی پہلو ہیں۔چند اہم پہلوؤں کا تذکرہ ذیل میں ہے۔
1۔احترام جان:۔
احترام جان پر دلالت کرنے والی یہ حدیث ملاحظہ ہو:
"قیامت کے روزحساب کتاب کےدوران اللہ تعالیٰ ایک آدمی سے کہے گا:اے آدم زاد! میں بیمار تھا تو نے میری تیمار داری نہیں کی۔آدمی کہے گا:اے پروردگار میں تیری عیادت کیسے کرتا تو تو رب العالمین ہے؟اللہ کہے گا تمھیں معلوم نہیں میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا تو نے اس کی عیادت نہیں کی اگر تو ا س کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔پھر اللہ کہے گا اے آدم زاد!میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔آدمی کہے گا:اے پروردگار! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا تو تو رب العالمین ہے؟اللہ کہے گا تجھے معلوم نہیں میرا فلاں بندہ بھوکاتھا۔اس نے تجھ سے کھان مانگاتھا تونے اسے کھانا نہیں کھلایا۔تجھے خبر نہیں اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو آج تو اس کو میرے پاس پاتا۔ پھر اللہ کہے گا اے آدم زاد!میں پیاسا تھا میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔آدمی کہے گا اے پروردگار!میں تجھے کیسے پانی پلاتا تو تو رب العالمین ہے اللہ کہے گا تجھے خبر نہیں میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے اس کو پانی نہیں دیا تھا۔اگر تو اس کو  پانی پلاتا توآج اس کو میرے پاس پاتا"(مسند احمد،ج2ص404)
اسلام میں انسان کی ذات بہت محترم ہے اس کے بالمقابل عیسائیوں کے ہاں تو ا نسان پیدائشی گناہ گار ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
" كُلِّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ ."(صحیح مسلم،کتاب القدر)
"ہر انسان فطرت سلیم پر پیدا ہوتاہے"
اس کے علاوہ عیسائیوں کے ہاں پوپ کےبغیر انسان کی توبہ قبول نہیں ہوتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
" :التائب من الذَّنب كمن لَا ذَنْب لَهُ."(ابن ماجہ،کتاب الزہد،ص30)
"جو خدا کے حضور توبہ کرلے تو وہ ایسے ہوجاتاہے جیسے اس پر کوئی گناہ ہی نہیں"
مساوات انسانی:۔
محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نےخطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا:
" أيها الناس إن ربكم واحد و إن ربكم واحد و إن أباكم واحد كلكم لآدام و آدم من تراب أكرمكم عند الله أتقاكم وليس لعربي على عجمي فضل إلا بالتقوى (صحیح بخاری ،کتاب الانبیاءعلیہ السلام  :14)
"اے لوگوتم سب کاپروردگار ایک ہے۔تم سب کا باپ ایک ہے۔تم سب کے سب آدم سے ہو۔اورآدم مٹی سے تھے۔تم میں سب سے زیادہ لائق تکریم وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔کسی عربی کو عجمی پر ور کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہیں ہے،ہاں تقویٰ کی بناء پر ہے"
(صحیح بخاری ،کتاب الانبیاء:14)
اس مساوات پر محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس طرح عمل کرکے دکھایا کہ ا پنی حقیقی  پھوپی زاد بہن کی شادی اللہ کے حکم کی رو سے میں اپنے آزاد کردہ غلام(حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے کردی۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مشہور خطبے میں اے مسلمانو! کہہ کر خطاب نہیں کیا بلکہ اے لوگو!کہہ کر کیا ہےک ہ جس سے ثابت ہوتا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نگاہ میں انسانیت کے ناطے سے تمام آدم زاد محترم ہیں۔اسی طرح پہلی حدیث میں بھی آدم زاد کہہ کر سب  بندوں کو اپنا پیغام پہنچایاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انسانی برادری کے حقوق کاکس قدر خیال رکھا ہے اس کا ثبوت اس حدیث سے ملتا ہے"ارحموا من في الأرض يرحمكم من في السماء"
"تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا(5)(جامع ترمذی ،کتاب البر:16)
"ہراس جان کے ساتھ نیکی کرنے میں اجر ہے جس میں زندگی کی تری ہے"(6)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک یہودی کے جنازے کے احترام میں کھڑے ہوگئے تھے۔نجران کے عیسائیوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور خود انکی خدمت کرتے رہے۔
ایک اورحدیث میں:
"خبردار! جس شخص نے کسی معاہد پر ظلم کیا یا اسکے حقوق پر کمی کی یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈال دیا،کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر وصول کی تو اس کے حق کے طورپر میں قیامت کے روز خود(لفظ مٹا ہوا ہے)لے کر آؤں  گا۔(سن ابوداود ۔کتاب الامارۃ:33)
غور فرمائیں،محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انسانی حقوق کوکس  طرح قانون بین الممالک سے منسلک کیا ہے۔
ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کاحق:۔
یہ وہ حق ہے۔ جسے آزادی رائے اور تنظیم بنانے کا حق کہاجاسکتاہے۔اسے آزادی مذہب کاحق اور انصاف مانگنے کاحق بھی کہا جاتا ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"جب لوگ کسی ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں اللہ ان پر عذاب عام نازل کردے"(سنن ابوداود ملاحم :17 وسنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن:20)
اس کا عملی اظہار بھی ملاحظہ ہو۔ایک بار ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے قرض مانگا اور سخت کلامی سے پیش آیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اس گستاخی کو برداشت نہ کرسکے اور اسے مارنے کے لیے اٹھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:
"اسے کہنے دو جس کا حق ہو اسے کچھ گنجائش بھی ہوتی ہے"
ایک مرتبہ حضرت زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور کسی انصاری کے مابین جھگڑا ہوگیا۔معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حضور پیش ہواتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے حق میں فیصلہ دے دیا۔انصاری لال پیلا ہوگیا اور کہا!آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے پھوپھی زاد کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے درگزر کیا اور یہ الزام نظر انداز کرگئے۔(صحیح بخاری،کتاب الشرب۔8،7،6)
مظلوم کی حمایت کرنا خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے امت پر  فرض قرار دیا ہے نبوت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے "حلف الفضول"پر دستخط کیے تھے جس میں مظلوموں اور زیر دستوں کی حمایت کا اقرار کیا گیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اکثر اس معاہدے پر دستخط کرنے کو باعث افتخار سمجھا کرتے تھے۔ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد نبوی میں خطبہ دےرہے تھے ایک شخص نے کھڑے ہوکر سوال کیا!میرے فلاں پڑوسی کو کس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے؟نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کیا گیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فوراً اس کی رہائی کا  حکم دے دیا۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کا مشہور قول ہے:
"اگر امام غلطی سے کسی مجرم کو چھوڑ دے یہ بہتر ہے کہ اسے غلطی سےسزا دےدے(جامع ترمذی،کتاب الحدود)فرمایا:
"جب تک کسی کو بچانے کی کوئی سبیل نکل سکتی ہو اس وقت تک اسے سزا نہ دو"
حقوق نسواں:۔
انسانی جان کے حقوق میں صنف نازک  عورتوں کےحقوق خاص طورپرشامل ہیں۔اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی ان کی صدائے باز گشت سنی گئی ہے۔محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا کے پہلے معلم ہیں جنھوں نے اس کمزور طبقہ کے حقوق کو دینا کے سامنے  پیش کیا۔اس کے بالمقابل دو صدیاں  پیشتر یورپ کے ایک شاعر کا معروف مقولہ ہے:"عورت،کتے اور اخروٹ کوجتنا پیٹواتنا کم ہے"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا دور وہ تھا جب بچی کو زندہ دفن کردیا جاتاتھا۔قبیلہ بنو تمیم کا سردار قیس بن عاصم جب مسلمان ہواتو اس نے خود تسلیم کیا کہ اس نے آ آٹھ دس بچیوں کو زندہ دفن کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا۔ماں کے قدموں تلے جنت بتائی اور بیوی کو گھر کے کے لئے سکون وراحت کا ذریعہ قرار دیا۔حقوق میں عورتوں کومردوں کے برابر قرار دیا۔
فرمایا:" النساء شقائق الرجال "عورتیں مردوں کے پہلو بہ پہلو ہیں"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت کو وراثت کا حقدار بنایا اس کو حق ملکیت عطا کیا۔عربوں میں بعض تشدد پسند لوگ اپنی جابرانہ ذہنیت اور متکبرانہ سرشت کا کمال اس میں سمجھتے تھے کہ عورتوں سے حسن سلوک اور صلح جوئی سے کام نہ لیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:
"تم میں سے ہر ایک اپنی رعایا کانگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔مرد اپنے بیوی بچوں کانگہبان ہے اس سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر نگہبان ہے۔اس سے اس بارے میں باز پرس ہوگی"(7) فرمایا:
"تم سے کوئی اپنی بیوی کوغلاموں کی طرح نہ مارے۔یہ اچھی بات نہیں کہ ایک وقت میں تو اسے کوڑے مارے اور دوسرے وقت اس سے ہم بستر ہو"(8)
ایک عورت بارگاہ رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم  میں حاضر ہوئی اور کسی صحابی سے نکاح کرنے کے لئے مشورہ طلب کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" وہ تو اپنا ڈنڈا اپنے کندھے سے اتارتا ہی نہیں"یعنی وہ بہت تشدد پسند اورسخت گیر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ مشورہ عورت کو از راہ ہمدردی دیا تاکہ وہ اس کے استبداد سے محفوظ رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت ومرد کے حقوق کے بارے  میں فرمایا:
"بے شک تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔ان کا حق یہ ہے کہ ان کے لباس اور خوراک میں بھلائی اختیار کروجبکہ تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر غیروں کو نہ بٹھائیں"(9)
عورتوں سے حسن سلوک کے بارے میں فرمایا:
"خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِيْ."(سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح:50)
"تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہے اور میں اپنے گھر والوں میں تم سب سے بہترین ہوں"دوسری حدیث میں فرمایا:
"أكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا وخياركم خياركم لنسائهم "
"تم میں سے مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہیں اور اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے ہیں"(سنن ابو داود،کتاب السنہ:17)
سچی بات یہ ہے کہ دنیا میں عورت کو حقوق دینے والی ذات صرف اورصرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:
"ہم لوگ اسلام سے قبل عورت کو کسی شمار میں نہیں لاتے تھے اسلام آیاتواس نے ان کے بارے  میں احکام اتارے،ان کے حقوق مقررکئے۔(10) ایک جگہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"اگر تم کو اپنی بیوی میں کوئی عیب نظرآئے تو اس سے نفرت نہ کرو۔اگر تم غور کروگے تو اس میں کوئی دوسری خوبی ضرور نظر آئے گی"(11)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:(صحیح بخاری  ،کتاب الصوم :51)
"وَلزَوْجِكَ عَلَيْك حَقّاً ""تیری بیوی کاتم پر حق ہے"
شریعت اسلامی کے مطابق اگر کوئی مرد بیوی کے حقوق پورے نہ کرے،اس کے نان نفقہ کا خیال نہ کرےتو عورت عدالت کے ذریعے ان کو حاصل کرسکتی ہے۔بعض شدید حالات میں وہ طلاق کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے بلکہ اس کے گھریلو امور،کھانے پکانا،کپڑے دھونا،بچوں کی نگہداشت ،گھر کی صفائی اور رضاعت وغیرہ کی ذمہ دارویوں کی بناء پر ہی ا س کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے۔اگر کسی کی ایک سے زائد بیویاں ہیں تو ان میں عدل ومساوات کاملحوظ رکھنے کا حکم دیاگیا ہے۔خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تھے تو قرعہ اندازی میں جس بیوی کا نام نکلتا تھا اسے  ساتھ لے جاتے تھے۔
صنف نازک کے احترام اور محبت کی مثال نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس حدیث سے ملاحظہ ہو:آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بارے میں کہا کرتے تھے"کاش اسامہ لڑکی ہوتی۔میں اسے اچھے اچھے زیورات پہنا تا اس کی کنگھی کرتا اور اس کی ناک صاف کرتا۔"
(سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح :49 ومسند احمد بن حنبل ج6،ص120)
بیوہ کے حقوق:۔
حقوق نسواں کے تحت ایک اور مفلوک الحال طبقہ بیوگان کا ہے۔اقوام متحدہ کا چارٹر توایک طرف رہا،دنیا کے کسی مذہب اور تمدن نے بیوہ کےحقوق بیان نہیں کئے۔اسے ہر معاشرہ اور تمدن میں نحوست خیال کیا جاتا رہا ہے۔عربوں کے ہاں بیوہ مرحوم کے بیٹے کے نکاح  میں چلی جاتی تھی۔یہودیوں کے ہاں بیوہ عورت مرحوم  خاوند کے بھائی کی ملکیت میں چلی جاتی تھی۔ہندوؤں کے ہاں اسے خاوند کے ساتھ ستی ہونا پڑتا تھا۔یہ رسم مسلمانوں کے آنے سے کم ہوئی۔لیکن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے وراثت کا حق دار قرار دیا۔عدت کے بعد عورت کو نکاح کرنے کی ترغیب فرمائی۔حدیث شریف ہے:۔
"کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہوگا اور اس کی اجازت چپ رہناہے۔اور بیوہ کا نکاح اس کے مشورے کے  بغیر نہیں ہوگا"
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس طبقہ سے ہمدردی کے عملی مظاہرہ پر غور کریں کہ سوائے حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے آنجناب  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تمام بیویاں بیوہ تھیں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"الساعي على الأرملة والمساكين، كالمجاهد في سبيل الله، وكالذي يصوم النهار ويقوم الليل".
"بیواؤں اور مسکینوں کی مدد کرنے والا قیامت کے روز اس شخص کی طرح ہوگا جیسا اللہ کے رستے میں جہاد کرنے والا،دن کو روزہ رکھنے والا اور  رات کو عبادت کرنے والا ہو"
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"قیامت کے روز میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھولوں گا تو دیکھوں گا کہ ایک عورت مجھ سے پہلے اندر جانے کی کوشش کررہی ہے میں پوچھوں گا تو کون ہے؟ تو وہ کہے گی میں ایک بیوہ ہوں جس کے چند ننھے منے بچے تھے"(13)
بچوں کے حقوق:۔
انسانی جان کے حقوق میں بچوں کے حقوق بھی شامل ہیں۔بچہ وہ حسین تحفہ ہے جو خدا کسی کو عطا کرتاہے۔بچوں کے بنیادی حقوق میں خوراک،تعلیم اور پیار قابل ذکر ہیں۔جسے اقوام متحدہ کے چارٹر نے اس صدی کے نصف میں تسلیم کیا ہے۔جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے پندرہ صدیاں پیشتر بچوں کو حقوق عطا کیے۔
بچوں سے پیار ومحبت کے بارے میں ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔ایک بار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت حسن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  یا حضرت حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو چوم رہے تھے۔عرب کا  ایک کرخت ودرشت سردار اقرع بن حابس دیکھ رہا تھا۔اس نے کہا میرے دس بیٹے ہیں،میں نے تو انہیں کبھی نہیں چوما۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:
"اگر خدا نے تمھارے دل سے محبت نکال لی ہے تو میں کیا کروں۔جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کامعمول تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تھے توراہ میں جو بچے ملتے کافر ہوں یا مسلمان،ان میں سے ایک کو اپنی سواری پر آگے بٹھا لیتے۔حدیث میں آیا ہے(مسند احمد ،ج4ص5)
"خدا جس کو اولاد کی محبت میں ڈالے اور ان کا حق بجا لائے،وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بھی یہ معمول تھاکہ جب موسم کا نیا پھل آتاتو سب سے پہلے بچوں کو عنایت فرماتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:
"جب میں نماز شروع کرتا ہوں تو ارادہ کرتا ہوں کہ اسے طویل کروں۔مگر اچانک کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو میں نماز کومختصر کردیتاہوں کہ کہ کہیں اس کی ماں پریشان نہ ہو"۔۔۔فرمایا:
"من لم يرحم صغيرنا ويوقر كبيرنا فليس منا"
"جوہمارے چھوٹے پر رحم نہیں کرتا اور بڑے کی عزت نہیں کرتا وہ ہم سے نہیں"
جہاں تک بچوں کی تعلیم کا تعلق ہے تو بلامبالغہ یہ دعویٰ کیا جاسکتاہے کہ اسلام کی طرح کسی  مذہب نے بڑوں یابچوں کے علم حاصل کرنے پراتنا زور نہیں دیا۔۔۔فرمایا:
" طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم ومسلمة"
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے"
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِنِ فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا"
"دانائی کی بات تو مومن کی گم شدہ چیز ہے اسے جہاں سے بھی ملے وہ اسے حاصل کرنے کا زیادہ حق دار ہے"
مطلب یہ ہے علم کسی بھی ملک یا کسی بھی انسان سے ملے اسکو حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت زید بن ثابت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو غیر ملکی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔ایک بار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ پڑوسیوں سے علم حاصل نہیں کرتے"اس کا ایک مطلب تو یہ ہے محلے والوں میں اگر کوئی عالم ہے تو اس سے علم حاصل کرنا چاہیے۔دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پڑوسی ملک علم وسائنس میں آگے ہے تو اس علم کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
تعلیم کے معاملہ میں مرد عورت کی کوئی تفریق نہیں ہے ۔ایک حدیث ہے:
"ما نحل والد ولده افضل من ادب  حسن"(14)
"والد ا پنے بچوں کو جو بہترین تحفہ دے سکتا ہے وہ بہترین تعلیم ہے"
ایک اور حدیث ہے:
لأن يؤدب الرجل ولده خير له من أن يتصدق كل يوم بنصف صاع(15)
"اگر ایک انسان اپنے بچے کو تعلیم دلوائے تو  وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ہر روز آدھا صاع خیرات کرے"
ایک اور حدیث میں بچے کے حقوق اس طرح بیان ہوئے ہیں:
"حق الولد على الوالد أن يحسن اسمه ويحسن أدبه"
"بچے کا اپنے باپ پر یہ حق ہے کہ وہ اس کو بہترین  علم سکھائے اور اس کا بہترین نام رکھے"
ایک حدیث ہے:
"ادبوه لسبع وزوجو  لسبع عشر "(17)
"ا پنے بچے کو سات سال کی عمر سے تعلیم دینا شروع کرو،سترہ سال کی عمر میں اس کی شادی کرو"۔۔۔ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
أكْرِمُوا أوْلادَكُمْ وأَحْسِنُوا آدَابَهُمْ.(18)
"اپنے بچوں کی تکریم کرو اور انہیں بہترین علم سکھاؤ۔"
ایک حدیث اور ملاحظہ ہو:(19)
وَأَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ مِنْ طَوْلِكَ وَلَا تَرْفَعْ عَنْهُمْ عَصَاكَ أَدَبًا وَأَخِفْهُمْ فِي اللَّهِ
"تم اپنی اولا د پر اپنا مال خرچ کرو اور نہیں ادب سکھا نے کے لیے سختی کرو خدا کا خوف ان میں پیدا کرو۔"
یاد رہے یہاں لفظ ادب استعمال ہوا ہے اس میں جہاں تعلیم شامل ہے وہاں اس میں تربیت بھی شامل ہے۔ ہم نے اس کا ترجمہ موضوع کی منا سبت  سے صرف علم کیا ہے ۔
نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے والدین کو تمام بچوں میں عدل اور مساوات قائم کرنے کا حکم دیا ہے ایک صحا بی نے اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو ایک غلام ہبہ کیا اس نے اس عمل پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی گواہی رکھنا چا ہی نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: کیا تم نے سب بچوں کو غلام ہبہ کیا ہے۔ ؟ اس نے کہا نہیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :"میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا "(20)
اس کے بر خلا ف تا ریخ عالم اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اسرائیلی رومی اور صرف بڑے بیٹے ہو اہمیت دیتے ہیں عربوں میں وراثت صرف اس بیٹے کو ملتی تھی جو تلوار اٹھا سکے اور پھر بچوں کو تو کسی خا طر میں نہیں لاتے تھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرما یا :
جس شخص کے ہاں عورت ہو (بہن یا بیٹی) وہ اسے زندہ نہ گا ڑے اسکی توہین نہ کرے اور لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح نہ دے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ "
جسم  کے حقو ق ۔
محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی جا ن کے حقوق کو محض اپنے ہم مذھب انسانوں یا غیر مذہب انسانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس میں انسان کے اپنے اعضا ء کو بھی شامل کیا ہے اسلام کے نزدیک انسانی اعضا ء جوارح اللہ کی امانت میں ان کے آرام و آسائش بھی ہمارے اوپر فرض ہے انہیں کا ری میں صرف نہ کریں ورنہ قیامت کے روز یہ ہمارے خلا ف گواہی دیں گے لہٰذا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود کشی کو حرا م قرار دیا ۔فر ما یا :
لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا لجسدك عليك حقاً ، وإن لعينك عليك حقاً
"تیری جا ن کا تم پر حق ہے تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے اور تیری دونوں آنکھوں کا تجھ پر حق ہے۔"(21)
اس کے ساتھ ساتھ انسانی اعضا ء کو کا ٹنا یاانہیں بگا ڑنا سب حرا م ہیں ۔
انسانوں کے حقوق ۔
انسانی جا ن کے تحت  ایک اور محروم  طبقہ ہمارے سامنے آتا ہے وہ یتیموں کا طبقہ اقوام کے چارٹر میں یتیموں کی دیکھ بھا ل یا نگرا نی کے کو ئی حقوق نہیں ملتے عربوں کی با ہمی جنگ و قتال بے شمار لو گ مارے  جا تے تھے ان کے بچے بے یا ر مدد گار رہ جا تے تھے۔۔انکے رشتہ داران پر ظلم کرتے تھے ۔کہ اگر وہ صاحب جا ئیداد ہو تے تھے تو ان کا نکا ح اپنے ہاں ہی کر دیتے تھے تا کہ اس کی جائیداد ہڑپ کی جا سکے۔ اور اگر بچی ہو تی تھی تو اس سے خود نکا ح کر لیتے تھے ۔اگر یتیم غریب ہو تا تو اسے فروخت کر دیتے تھے نبی پا ک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیوگا ن کے نادار طبقہ کے طرح ان کے حقوق بھی متعین پہلے فرمایا:
أنا وكافل اليتيم في الجنة هكذا
."قیا مت کے روز میں اور یتیم کی کفا لت کرنے والا اس طرح ہوں گے۔" (پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انگشت شہادت اور وسطی انگشت کو برابر کر کے دکھایا )
نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :
"جب یتیم جوان ہو جا ئے اس کا مال اس کے حوالے کردو اس کے مال میں سے رتی برابر بھی اس کی اجا زت کے بغیر خرچ کرنا حرا م ہے۔
جدید دور میں تو ہر ملک میں یتیم خا نے کھلے ہو ئے ہیں ۔عہد رسالت میں ہر گھر میں کو ئی نہ کو ئی یتیم پل رہا ہو تا تھا ۔شریعت اسلامیہ میں قاضی پر فرض عائد ہو تا ہے کہ وہ ان بے سہارا بچوں کے سر پرست بنیں ان کی جا ئیدادوں کی نگرا نی کریں اور ان کی شادی کا بندوبست کریں ۔
غلاموں کے حقوق ۔
انسانی جا ن سے متعلق ایک اور پس ماندہ طبقہ غلا موں کا ہے اقوام متحدہ کے چارٹر نے کاغذوں کی حد تک تو اس پر پابندی لگا دی ہے لیکن پتہ نہیں اس پر عمل کب ہو گا یہی یورپی اقوام ہیں جو سیاہ فام غلا موں کی اکثریت کو پکڑ کر اپنے ممالک میں لے گئیں اور ان سے ڈھورڈنگروں کی طرح کا م لیتی رہی ۔
محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں غلا می کی غلط صورتیں معاشرے میں اس طرح رچ بس چکی تھی کہ ان کا ختم کرنا فوری طور پر ممکن نہ تھا لہٰذا آپ نے ان کو ظلم و ستم سے بچانے اور ان کی حا لت بہتر بنا نے کے لیے سخت ہدایا ت جا ری فر ما ئیں اور انہیں نہ صرف بنیا دی انسانی حقوق دیے بلکہ ان کو غلامی کے طوق سے نجا ت دلا نے کے لیے بے شمار صورتیں مہیا فر ما ئیں تا کہ ان کی آزادانہ صلا حیتیں پروان چڑھیں اور وہ اسلامی معا شرہ کا ایک موثر طبقہ بن سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں غلا موں کا طبقہ نما یا ں نظر آتا ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غلا موں کی آزادی پر بہت بڑے اجرو ثواب کی نوید سنا ئی حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اگر چہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے مگر انھوں نے سو غلام آزاد کئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے صرف ایک قسم کے کفارے کے طور پر چالیس غلام آزاد کئے ہیں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک ہزار اور عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے تیس ہزار غلام آزاد کئے جو تا ریخ عالم میں ایک ریکارڈ ہے۔خود نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد کردیا تھا حضرت زید بن حا رثہ کو آزاد کر دیا گیا تھا مگر وہ اپنے والدین کے ہا ں جا نے پر راضی نہ ہو ئے اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری عمر نبی پا ک  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدموں میں گزاردی ۔
نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غلا موں کو مال غنیمت سے بھی حصہ عطا کیا ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان تمام تو ہین آمیز اور ذلت نما القابات واسماء کو یکسر بدل دیا جن سے کسی انسان کی تحقیر ہوتی تھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :" کو ئی آقا اپنے غلا م کو عبدی نہ کہے (یعنی میرا غلام ) بلکہ فتای کہے (یعنی میرا جوان) "غلاموں کو نصیحت کی کہ وہ اپنے مالک کو رب نہ کہیں بلکہ مولی کہیں ایک حدیث میں نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :
"یہ جن کو تم غلا مک کہتے ہو یہ بھی تمھا رے بھا ئی ہیں جن کو خدا نے تمھا رے ماتحت کیا ہے لہٰذا جس شخص کو خدا نے تمھا رے ماتحت کیا ہے اس کو وہی کھلا ؤ جو تم کھا تے ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور اس کو اتنا کا م نہ دو جو اس کی طا قت سے باہر ہو اور اگر کو ئی مشکل کا م دو تو اس کام میں شریک ہو کر خود بھی اس کی مدد کرو(22)
ان احکا مات کا اثر ہوا کہ آقا اور غلام میں تمیز مشکل ہو گئی ۔
تاریخ اسلام کا معجزہ دیکھیں کہ یہی آزاد کردہ غلام بعد میں محدثین مفسرین اور فقہاء بلکہ حکمران بنے نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  کی غلا موں سے محبت کے بارے میں وہ الفاظ ملا حظہ ہوں جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی زندگی کے آخری لمحا ت میں ارشاد فر ما ئے تھے۔
الصَّلاَةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ "نماز اور غلاموں کا خیال رکھنا "
ایک بار حضرت ابو ذر غفا ری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کالی کا  بیٹا کہہ دیا حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  سے شکایت کی تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا :
إنَّكَ امرؤ فيكَ جاهِلِيةٌ "تم وہ انسان ہو جس کے اندر ابھی جاہلیت چھپی ہو ئی ہے۔ناظرین یہ حقیقت مد نظر رہے کہ آفاقی حقوق انسانی (Universal Human Rights)اور بنیا دی انسانی حقوق(Fundamental Human Rights)  میں فرق ہے ہم نے اوپر کے مبا حث میں آفا قی حقوق انسانی کا تذکرہ کیا ہے لیکن محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انسانی جان کے مزید حقوق بھی دئیےہیں جو بنیاد ی حقوق کہلا تے ہیں مثلاً والدین کے حقوق پڑوسی کے حقوق بیوی کے حقوق بچوں کے حقوق رشتہ داروں کے حقوق حا جت مندوں اور مساکین کے حقوق مہما ن کے حقوق وغیرہ حتیٰ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں جا نوروں کے حقوق بھی دئیے ہیں جن کا چرچا  اقوام متحدہ W.W.Fکے ذریعے کرتی ہے اور پودوں کے حقوق دئیے ہیں جن کے لیے آج ہر حکومت نے محکمہ تحفظ جنگلا ت یا تحفظ ماحول قائم کر رکھا ہے۔
مالی حقوق:۔
اب تک ہم نے سیرت رسول کی روشنی میں ان حقوق کا تذکرہ کیا ہے جو انسانی جا ن سے متعلق میں ذیل میں ہم ان حقوق کا تذکرہ کرتے ہیں جو انسانی معاشی یا مالی حقوق سے متعلق ہیں نبی پا ک  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معاشرہ نہ تو صنعتی معاشرہ تھا اور نہ ہی زرعی معاشرہ تھا لہٰذا جدید معا شی نظریا ت کی مو ٹی مو ٹی اور بھا ری بھر کم اصطلا حا ت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت میں نہیں ملیں گی ۔مثلاً اجتماعیت سر ما یہ داری ملی جلی معیشت آزاد منڈی آزاد مقابلہ بچت قدر زائد پرولتا ریہ طبقاتی کشمکش پرولتاریہ کی آمریت بغیر ریاست کے معاشرہ وغیرہ اور نہ ہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسے نعرے دئیے جو اساطیری اور دیومالا ئی اور ماوراءفطرت ہوں اور جو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکتے ہوں جیسے "یوٹوپیا" یا "الجمہوریہ " میں درج شدہ بلند بانگ دعوے البتہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انسانی معاشرتی زندگی کا لب لباب دنیا کے سامنے الہا می اور اور سیدھی سادھی تعلیمات کی شکل میں ضرور پیش کیا ہے مثلاً محنت کی عظمت استحصال کا خاتمہ عوام کی خوشحالی اور دولت کی منصفا نہ تقسیم ۔
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات میں اشترا کیت اور سر ما یہ داری کی تمام خوبیا ں تو موجود ہیں لیکن ان دونوں کی تمام نجا ستوں اور خباثتوں سے مبرا ہیں ۔
چنانچہ نبی پا ک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سب سے پہلے تو محنت کی عظمت کو بیان کیا اور ہر مسلمان پر کسب حلال فرض کیا ۔ذرائع آمدورفت کے حسن و قبح کی تفصیل بتائی ۔ربو سٹہ جوا لائری ذخیرہ انداوزی ملا وٹ قمار بازی نشہ آور اشیاء کی خریدو فروخت ناپ تول میں کمی وغیرہ کما ئی کی ان تمام اشکا ل کو حرا م قرار دیا ۔پھر کھانے پینے کی اشیا ء میں حلال و حرا م کی تمیز سکھا ئی ۔ذرائع معاش پر اجارہ داری کی حوصلہ شکنی کی۔ پیرا سائٹ اور کمپراڈور انسانوں کو اسلامی معاشرہ کے لیے لغت قراردیا ۔
محنت کی عظمت کے بارے میں فر ما یا :
"كسب الحلال فريضة بعد الفريضة "
"حلال طریقہ سے کمانا نماز کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے" فرمایا :
أَفْضَلِ الْكَسْبِ ، فَقَالَ : بَيْعٌ مَبْرُورٌ ، وَعَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ.
"بہترین کمائی ایمانداری کی تجارت ہے اور انسان کا اپنے ہاتھ سے کمانا ہے "ایک بار آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک محنتی صحا بی کو دیکھا ۔اس کے ہا تھ پر نشان پڑے ہو ئے تھے ۔تب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :" یہ وہ ہا تھ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو پسند ہیں ۔"
دنیا کی معاش کا دارومدار زمین پر ہے نبی پا ک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس حقیقت کی طرف پندرہ صدیاں پہلے اشارہ فر ما یا ؛
 اطلبوا الرزق في خبايا الأرض"تم زمین کی گہرائیوں سے رزق حاصل کرو"
ظاہر ہے زمین کی گہرا ئی سے مراد کھیتی باڑی اور معدنیا ت کا حصول ہے نبی پاک   صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کے احترا م کے بارے میں فر ما یا :
"قیامت کے روز میں تین آدمیوں کے خلا ف خود مستغیث ہوں گا ایک اس شخص کے خلا ف جس نے میرا نام لے کر عہد کیا مگر بعد میں پھر گیا ۔دوسرا اس شخص کے خلا ف جس نے آزاد انسان کو بیچ کر اس کی کما ئی کھا ئی اور تیسرے اس شخص کے خلا ف جس نے مزدورسے  محنت  تو پوری لی مگر اس کی اجرت ادا نہ کی۔
مزدور کا پسینہ خشک ہو نے سے پہلے اس کی ضروری ادا کرنا اسلامی فریضہ ہے یہی وہ امر ہے جن کو آدم سمتھ  نے تمام معاشیا ت کی بنیا د قرار دیا اور بعد میں کارل مارکس نے اسے جدلیا تی رنگ دے کر کمیونزم کا فلسفہ پیش کیا ۔
نبی پا ک صلی اللہ علیہ وسلم  نے معا شی اور تجارتی لین دین میں حسن معاملہ اور ا یفا ئے عہد کو بنیا د قرار دیا فرما یا :
التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشهداء
"سچا اور ایمان دار تاجر قیامت کے روز نبیوں صدیقین اور شہداء کے گروہ میں شامل ہو گا "
نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاشی امور میں عدل کے ساتھ ساتھ احسان کا سبق بھی دیا اس سے زندگی میں حسن اور سہولت پیدا ہوتی ہے بلکہ بعض ہنگا می حا لا ت میں اسے ضروری قرار دیا فر ما یا :
"جس شخص کے پاس زائدسواری ہے وہ اسے دیدے جس کے پاس سواری نہیں ہے جس شخص کے پاس زائد مال ہے وہ اسے دیدے جس کے پاس مال نہیں ہے جس شخص کے پاس جو چیز بھی زائد ہو وہ اسے دیدے جو اس سے محروم ہے۔
حقوق و فرا ئض میں عدل و احسان کے اسلامی تصور سے معاشرے میں احساس کمتری اور احساس محرومی دونوں کو ختم کیا جا سکتا ہے نبی پا ک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :" جو شخص کسی غیر آباد زمین کو آباد کرے گا ۔وہ اسی کی ملکیت  ہے۔یہ نظر یہ جدید دور کے (Land for Tiller)کے نظریہ کے یک گونہ مشایہ ہے۔ایک دوسرا نظریہ دیا ۔
" ما عال من اقتصد "جس نے میانہ روی اختیار کی وہ کبھی کنگال نہیں ہوا ۔جدید معاشی نظریا ت کا یہی وہ بنیا دی نکتہ ہے جس پر بڑی بڑی نظریا تی عمارا ت کھڑی کی گئیں ہیں نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بچت کی تلقین کی۔ نمودو نما ئش کو حرا م قرار دیا اور دولت کو سینت سینت کر رکھنے کی بجا ئے اسے خرچ کرنے کا حکم دیا فر ما یا :
"اگر تم میں سے کسی کو  خدا نے دولت دی ہے تو وہ اس کے چہرے اور جسم پر نظرآنی چاہیے۔
حوالہ جا ت :۔
1۔لہٰذا یہ دعویٰ تو بدرجہ اولیٰ بے بنیا د ہے کہ انسانی حقوق کو سب سے پہلے یورپی اقوام نے مدون کیا ۔
2.Encyclopeadia Britanica Voll 11 P828 William B enton Chicago University 1961Inernational Encyclopeadia of the Social Sciences Voll 6 P 543. تنقید کے لیے :
3۔قاضی عبدالنبی بن عبدالرسول الاحمد نگری جامع العلوم فی اصطلا حا ت ص43ج2البنان بیروت 1395ھ/1975ء۔۔
4۔جرجانی التعریفات ص79مصطفیٰ الالبالی الحلی مصر 1357ھ/1938ء۔۔
5۔الحا کم ابو عبد اللہ نیشاپوری المستدرک کتاب البروالصلۃ بابالتوبہ والا نا بہ ۔
6۔بخا ری محمد بن اسما عیل صحیح کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبھائم۔
7۔ایضاً کتاب التفسیر باب يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا
8۔صحیح بخا ری کتاب النکا ح باب عشرۃ النساء ۔
9۔صحیح بخا ری کتاب النکا ح باب قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا
10۔ صحیح بخاری کتاب النکا ح باب موعظہ الرجا ل زوجہا وتفسیر سورۃ التحریم 
11۔مسلم محمد بن الحجاج کتاب النکا ح باب الوصیہ بالنساء ۔
12۔ولی الدین تبریزی مشکوۃ المصابیح کتاب  الاداب باب الشفقہ والرحمۃ علی الخلق ۔
13۔سنن ابو داؤد  کتاب الاداب باب فضل من عال یتیما۔
14۔ صحیح بخاری کتاب الاداب باب الساعی علی الارسا ملہ مسند احمد بن حنبل ج3 ص412ج4ص77،78،
15۔مسند ج5ص102۔
16۔زبیدی المرتضی اتحا ف السادۃ المتقین ص317ج6۔
17۔ایضآً۔
18۔سنن ابن ما جہ کتاب الاداب باب براالوالد والا حسان الی البنا ت ۔
19۔مسند احمد بن حنبل ج5ص338۔
20۔سننابوداؤد کتاب السیوع باب الرجل بفضل بعض ولدہ فی النحل ۔
21۔ كتاب الصوم باب  حق الجسم في الصوم
22۔ایضا ً کتاب الاداب باب ماینهي عن السباب