اسلامک ہیومن رائٹس فورم

عربی کے کسی رسالے میں ایک کہاوت پڑھی تھی  کہ ایک مصور دیوار پر نقش ونگار بنا رہا تھا اور تصویر میں ایک انسان اور ایک شیر کو اس کیفیت میں دکھا رہا تھا کہ انسان شیر کاگلا گھونٹ رہا ہے۔اتنے میں ایک شیر کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے تصویر کو  ایک نظر دیکھا۔مصور نے تصویر میں شیر کی دلچسپی دیکھ کر اس سے پوچھا سناؤ میاں!  تصویر اچھی لگی؟شیر نے جواب دیا کہ میاں!اصل بات یہ ہے کہ قلم تمھارے ہاتھ میں ہے۔ جیسے چاہے منظر کشی کرو،ہاں اگر قلم میرے ہاتھ میں ہوتا تو یقیناً تصویر کا منظر اس سے مختلف ہوتا۔
کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا عالم اسلام کو آج مغربی میڈیا کے ہاتھوں کرنا پڑ رہا  ہے ۔ابلاغ کے تمام تر ذرائع پرمغرب کا کنٹرول ہے۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹڈ میڈیا دونوں کے سرچشمے اس کی تحویل میں ہیں۔متعصب یہودی کا دماغ اورسیکولر عیسائی دنیا کے وسائل اکھٹے ہوچکے ہیں۔
سیکولر لابیاں انسانی معاشرے میں مذہب کی دوبارہ اثراندازی سے خائف ہوکر مذہب کا ر استہ روکنے کے لئے سیاست،معیشت،میڈیا لابنگ اورتحریف وتحریص کےتمام ذرائع استعمال کررہی ہیں اور مسیحی دنیا کا مذہبی عنصر بھی مرعوبیت کے عالم میں بالادست سیکولر عیسائی قوت کا آلہ کار بنے رہنے میں عافیت محسوس کررہا ہے۔
مغرب کی سیکولر لابیوں کے اعصاب پر یہ خوف سوار ہے کہ انسانی معاشرہ دو  صدیوں میں مذہب سے بغاوت کےتلخ نتائج بھگت کر اب مذہب کی طرف واپسی کے لئے ٹرن لے رہا ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے سواکسی اور قوم کے پاس مذہب کی بنیادی تعلیمات(آسمانی وحی اور پیغمبر کی تعلیمات وسیرت) اصلی حالت یں موجود ومحفوظ نہیں ہیں۔اس لئےاسلام منطقی طور پر ا ن کی معاشرہ کے مستقبل کی واحد امید بنتا جارہاہے۔چنانچہ یہودی دماغ اور سیکولر قوتوں کی  صلاحیتیں اور وسائل اب صرف اس مقصد کے لئے صرف ہورہے ہیں کہ اسلام اور اسلامی اصولوں کے علمبردار مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے زور سے نفرت کی ایسی فضا قائم کردی جائے جو اسلام کی طرف انسانی معاشرہ کے متوقع رجوع میں رکاوٹ بن سکے۔
اسلام اور دیندار مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا اور لابیوں کا سب سے بڑا ہتھیار ان کے حقوق کا نعرہ ہے اور انہیں گوئبلز کا یہ سبق ا چھی طرح یاد ہے کہ "جھوٹ بولو!اور اتنی بار بو لو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں"چنانچہ اسی فلسفہ کے مطابق اسلام کو انسانی حقوق کے مخالف کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے عورتوں،اقلیتوں،اور کمزور طبقات کی دہائی دے کر اسلام کو جبر کے نمائندے کے طور پر  پیش کیا جارہا ہے حالانکہ اسلام وہ مذہب ہے جس نے:۔
1۔انسان کو سب سے پہلے حقوق کا شعور بخشا۔
2۔حکمرانوں اور رعیت کے درمیان معیار زندگی کے تفاوت کو عملاً ختم کیا۔
3۔قانون میں مساوات کا سبق دیا۔
4۔خلیفہ وقت کو عوام کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔
5۔عورت کو  رائے،تعلیم اور وراثت کے حقوق عطا کئے۔
6۔اقلیتوں کو احترام،تحفظ اور مذہبی آزادی سے بہرہ ور کیا۔
7۔رنگ ونسل اور زبان وعلاقہ کے امتیازات سے معاشرہ کو پاک کیا۔
8۔خلیفہ اول حضرت ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے "مجھے خلیفۃ اللہ نہ کہا جائے"کہہ کر تھا کریسی اور پاپائیت کی جڑ کاٹ دی۔
9۔خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عوام کے مشورہ کےبغیر کسی خلیفہ کی بیعت کی نفی کرکے تشکیل حکومت میں عوام کی شرکت کے اصول کااعلان کی۔
10۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے دریائے فرات کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کی موت کی زمہ داری قبول کرکے رعایا کی جان ومال کے تحفظ کاحکمرانوں کوذمہ دار قرار دیا۔
11۔خلیفہ سوم حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے جواب میں خود کوحج کے اجتماع میں عوام کے سامنے پیش کرکے حاکم وقت کے"عوامی احتساب" کی شاندار روایت قائم کی اور
12۔خلیفہ چہارم حضر ت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے قاضی کی عدالت میں زرہ کے مقدمہ میں شکست کو خندہ  پیشانی سے قبول کرکے عدلیہ کی بالادستی کا عملی نمونہ پیش کیا۔
آج اس اسلام کے بارے میں مغربی میڈیا اور لابیاں پراپیگنڈہ کررہی ہیں کہ یہ مذہب سولائیزیشن ،انسانی حقوق اور معاشرتی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس پر"گوئبلز زندہ باد" کے نعرے کے سوا اور کیا تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔
مگر بدقسمتی سے اسلام کے خلاف مغربی  میڈیا اور لابیوں کےا س یکطرفہ اور معاندانہ   پراپیگنڈے میں ہم مسلمانوں کا کرداربھی ان کی معاذنت کر رہا ہے اور ہمارے اجتماعی طرز عمل کی وجہ سے مغربی میڈیا کاروں اور لا بسٹوں کو یہ سہولت مل رہی ہے کہ وہ اسلام کے خلا ف اپنے بے بنیاد لزامات کو آسانی  کے ساتھ آگے بڑ ھا سکیں ۔
ایک اس وجہ سے اسلام کے فطری اصولوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات و روایات کو آج کی زبان میں دنیا کے سامنے لا نے میں کو ئی سنجیدہ اور منظم محنت نہیں کر رہے جس کے باعث اسلام کے خلا ف یک طرفہ مہم لو گوں کے ذہنوں میں اپنی جگہ بنا نے میں کو ئی رکاوٹ محسوس نہیں کر رہی اور دوسرا اس وجہ سے کہ معاشرہ کے مظلوم اور نادار طبقات و افراد کی مظلومیت اور حقوق کے بارے میں اسلام کے نام پر کلمہ حق بلند کرنے کا دینی فریضہ ہم نے ایک عرصہ سے ترک کر رکھا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہی معا شرے کے نادار اور بے بس افراد و طبقات کا سہارا لے کر مغربی لا بیاں اور ان کے حواری خود ہمارے معاشرے میں ہمارے خلا ف سر گرم عمل ہیں اور ہم اپنی بے حسی اور بے عملی کے ہا تھوں دن بدن ایک طرف ہو تے جا رہے ہیں ۔بلکہ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ہمارا یہ طرز عمل جو اسلامی تعلیمات و روایات کے سر اسر منا فی ہے آج کی دنیا کے سامنے وہی اسلام کی پہچا ن اور تعا رف بن چکا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا اور لا بیا ں اسلا م کی کردار کشی کے میدا ن کو اپنے لیے ہموار پا کر گذشتہ چند برسوں میں تگ و تاز کے نئے میدا نوں کی طرف قدم بڑھا چکی ہیں اور اب ان کے ساتھ مغرب کی طا قتور حکومتیں بھی کھل کر اسلام کے خلا ف صف آرا ء ہو گئی ہیں دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کی ذمہ داری قبول نہ کریں اور اگر کسی جگہ کو ئی اسلامی حکم یا قانون نافذ ہے تو اسے معطل یا غیر موثر کر دیا جا ئے۔اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے معا شرتی نظا م کے خلا ف "ثقافتی جنگ" لڑی جا رہی ہے جس کے مورچوں میں ریڈیو ٹی وی سنیما اور اخبارا ت کے ساتھ اب عدالتوں کا اضا فہ بھی ہو گیا ہے جہاں ماں باپ کی مرضی کے بغیر محبت کی شادی کو سند جواز فرا ہم کر کے عورت کو طلا ق کا مساوی حق دے کر اور شادی کو محض "سوشل کنٹریکٹ "قرار دے کر اسلام کے خلا ف خاندانی نظا م کو بیخ و بن سے اکھا ڑ دینے کے منصوبے بن رہے ہیں ۔
ستم بالا ئے ستم یہ ہے کہ مغرب خود نکا ح و طلا ق کو مذہب سے لا تعلق اور محض "سوشل کنٹریکٹ" قرار دے کر شادی کے دا ئمی رشتے کا تقدس کھوچکا ہے اور اب اس رشتے کو دوام اور تقدس فرا ہم کرنے کے لیے متبادل ذرا ئع تلا ش کررہا ہے جیسا کہ روزنامہ لا ہو ر 22جون 1996ء کی اشاعت میں بی بی سی کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ میکسیکو میں کم عمری میں محبت کی شادیوں کا تناسب 65فیصدتک پہنچ گیا ہے اور طلاق کی شرح میں بھی مسلسل اضا فہ ہو رہا ہے جبکہ اس صورتحا ل سے بچنے کے لیے متعدد جوڑے قانونی معاہدے کر رہے ہیں تا کہ نکا ح عمر بھر قائم رہ سکے چنانچہ ایک جوڑے نے اس مقصد کے لیے جو قانونی معاہد ہ کیا ہے اس کی تفصیلا ت سولہ صفحا ت پر پھیلی ہوئی ہیں مگر ہمارے لیے مغرب کا حکم یہ ہے کہ ہم اس میں ضرور ہاتھ دیں جس سے ڈسے جا نے پر مغربی معاشرہ کی بلبلاہٹ انسانی تاریخ میں عبرت بن کررہ گئی ہے الغرض مغرب کی ثقافتی یلغار آج ہمارے گھروں میں دا خل ہو گئی ہے (الفا ظ مٹے ہوئے ہیں ) بناکروہ ہمارے معاشرتی نظا م اور  خاندانی ڈھانچے کا تیاپانچہ کردینا چاہتی ہے اور اس میں صرف مغربی لابیاں اور میڈیا قصور وار نہیں بلکہ ہماری بے حسی،بے عملی،اور اپنی ملی ودینی ذمہ داریوں سے روگردانی بھی اس کے ساتھ برابر کی حصہ دار ہے۔
ان حالات میں بعض اہل دانش نے متعدد مشاورتی نشستوں کےبعد "اسلامک ہیومن رائٹس فورم" کے نام سے ایک سوسائٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد یہ قرار پایا ہے کہ:
1۔اسلام کے  مثالی نظام اجتماعیت بالخصوص انسانی حقوق کے بارے میں اسلامی تعلیمات وروایات سے آج کی دنیا کو متعارف کرایا جائے۔
2۔معاشرہ کے نادار،مظلوم اور بے بس طبقات وافراد کی خبر گیری کی اسلامی روایات کو زندہ کیا جائے۔اور ان کی معاونت ودادرسی کے ہر ممکن ذرائع اختیار کیے جائیں۔
3۔مغرب کی نظریاتی اورثقافتی یلغار کا پوری جرات وحوصلہ کے ساتھ سامنا کیا جائے۔اور اس کے  خلاف اہل علم ودانش اور رائے عامہ کو بیدار ومنظم کیا جائے۔
4۔مغرب کی غیر  فطری ثقافت کےکھوکھلے پن کو واضح کیا جائے اور اس کے نقصانات اور خرابیوں کو سائنٹفیک انداز میں اجاگر کیاجائے۔
"اسلامک ہیومن رائٹس فورم"میں علماء کرام ،قانون دان،صحافی،اساتذہ،اوردیگر طبقات کے اہل دانش شامل ہیں۔اور مذکورہ بالا مقصد اور  پروگرام سے دلچسپی رکھنے والے ہر شہری سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ا پنی ملی ودینی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس مہم میں ہمارے ساتھ شریک ہوگا۔