مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ (خا ندانی تعارف اور دینی و علمی خدما ت کا جا ئزہ )
مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمہ اللہ تعا لیٰ (وسن پورہ لا ہو ر ۔۔۔جن کا انتقال 18دسمبر 1995ء مطا بق 25رجب 1416ھ کو ہوا ۔۔۔۔جما عت اہلحدیث کے ان علماء میں سے ایک ممتاز عالم اور صاحب قلم بزرگ تھے جنہوں نے نام و نمود کی خواہش کے بغیر نہا یت خا مو شی سے ٹھوس دینی اور علمی خدمات سر انجا م دیں ۔ مو لا نا مر حوم کا تعلق اس کیلا نی خا ندان سے ہے جو ہمیشہ کتا بت میں معروف ہو نے کے علاوہ دینی و علمی روایات کا بھی حا مل چلا آرہا ہے زیر نظر تحریر میں اختصار کے ساتھ انہی دو مو ضو عات پر روشنی ڈا لی گئی ہے پہلے حصہ میں تو کیلا نی خا ندان کا تعارف پس منظر اور ان کی دینی خدما ت کا تذکرہ ہے جبکہ دوسرے حصہ میں مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی کی بیش قیمت تصانیف پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔
خاندانی تعارف و پس منظر :۔
ان کے بزرگوں میں حا جی محمد عارف سب سے پہلے کیلیانوالہ میں آکر مقیم ہو ئے ان کے بیٹوں میں امام الدین اور محمد الدین تھے جن سے ان کا سلسلہ نسب پھیلا ایک اور بیٹے سلطا ن احمد بھی تھے مو لا نا عبد الرحٰمن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کے جدا امجد امام الدین تھے جو مدرسہ غزنویہ امرتسر کے فیض یا فتہ تھے ۔ ان کے آگے تین بیٹے تھے ۔نور الٰہی،عبد الحی اور عبد الواحد ،مو لا نا امام الدین کے بڑے بیٹے نو رالٰہی اور ان کی اولا د مولوی نور الٰہی صاحب سے جو بہت عمدہ کا تب تھے اور خوش نویسی ہی ان کا ذریعہ معاش تھا چار بیٹے ہوئے ۔محمد سلیمان محمد ادریس ،عبد الرحمٰن اور عبد الغفور اور یہ چاروں بھا ئی ماشاء اللہ اپنے آبائی پیشے کتابت کے علاوہ علم و فضل میں بھی ممتاز رہے ۔یہ سب کیلیانوالہ کی نسبت سے جوان کے آباؤ واجداد کا کئی پشتوں سے مسکن تھا کیلا نی کہلاتے ہیں ۔
مولانا محمد سلیمان کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی1988ء)کھیالی ضلع گو جرانوالہ میں رہائش پذیر ہو گئے تھے وہا ں انھوں نے لڑکیوں کا ایک دینی مدرسہ بھی قائم کیا جو ان کی نظا مت میں چلتا رہا اور اب تک وہ کا م کر رہا ہے اس کے علاوہ انھوں نے بلوغ المرا م مع سبل السلام کا اردو ترجمہ کیا جو مطبوعہ شکل میں مو جو د ہے اور عوام و خواص اس سے استفادہ کر رہے ہیں مشکوۃ شریف کے اردو ترجمے کا کا م مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کیا تھا لیکن وہ اس کی تکمیل نہیں کرپا ئے اس کے اردو ترجمہ و حا شیہ کا بقیہ کا م بھی مو لا نا محمد سلیما ن کیلا نی رحمہ اللہ تعا لیٰ نے کیا اور بھی بعض کتابوں کے ترجمے انھوں نے کئے ۔غفرالله له ولوالديهم اجمعين!
ان کی اولا د میں مو لا نا عبد الوحید کیلانی عبد الو کیل اور عبد الحلیم کیلا نی ہیں مو لا نا سلیمان رحمۃ اللہ علیہ اپنے بھا ئیوں میں سب سے بڑ ےتھے اور وفات بھی سب سے پہلے پا ئی ۔غفراللہ لہ ورحمہ دوسرے مولانا محمد ادریس کیلا نی (متوفی1996ء)تھے جنہوں نے تقریباً 6سال کی عمر میں اپنے شوق سے قرآن کریم بھی حفظ کر لیا تھا ۔ورنہ اس عمر میں حفظ کرنا نہایت مشکل کا م ہے۔ لیکن شوق و وارفتگی ایسی چیز ہے کہ اس سے جا دہ صد سالہ بھی لمحوں میں طے ہو جا تا ہے بہر حا ل مولانا حا فظ محمد ادریس صاحب مرحوم کیلانوالہ میں ہی مقیم رہے اور کتابت کے ساتھ کیلیانوالہ کی مسجد اہلحدیث کی امام و خطابت اورلوگوں کی دینی تربیت و رہنما ئی کا فریضہ بھی سرانجا م دیتے رہے 14،15سال سے وہاں شعبہ حفظ بھی ان کی زیر نگرا نی قائم تھا اور وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل لڑکیوں کے لیے دینی مدرسہ کا قیام بھی عمل میں آگیا تھا ۔انھوں نے حجرت الاستاذ مولانا محمد عطا ء اللہ حنیف (قدس اللہ ضریحہ ) کی "التعلیقات السلفیہ علی سنن النسا ئی (سنن نسا ئی پر عربی حا شیہ ) کی کتا بت فر ما ئی تھی اسی طرح احسن التفاسیر کی نہ صرف کتا بت کی بلکہ آخری تین جلدوں کی تخریج بھی فر ما ئی علاوہ ازیں فتا وی نذیر یہ کی تین جلدوں کی کتا بت کے علاوہ اس میں عربی اور فارسی عبارتوں کا حا شئے میں ترجمہ بھی کیا بہر حا ل انھوں نے بھی بھر پو ر با سعادت زندگی گزاری اور تا ہم واپسیں دینی و علمی خدمات میں مصروف رہے غفراللہ لہ ۔
ان کے صاحبزادگا ن میں محمد اقبال کیلا نی پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی الریا ض جو متعدد دینی کتا بوں کے مصنف بھی ہیں مثلاً کتاب الصلوۃ کتاب الصیام کتا ب الزکا ۃ کتاب الحج کتاب اتباع السنۃ کتاب الطہا رۃ اور کتاب الجہا د وغیرھا۔ان کتابوں کو اللہ تعالیٰ نے قبول عام سے نوازا اور وہ متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو کر مسلسل چھپ رہی ہیں دوسرے بیٹے ہیں محمد ریاض جو تربیلا میں بسلسلہ ملا زمت مقیم ہیں یہ بھی عربی کے بہت اچھے کا تب ہیں ۔انھوں نے تفسیر جا مع البیان (عربی) کی کتابت کے علاوہ تنقیح احادیث المشکوۃ "(عربی)کی تیسری اور چوتھی جلد کتابت کی ہے تیسرے اور چوتھے بیٹے ہیں محمد خا لد اور ہا رون الرشید ۔ان کا لا ہور میں دینی کتابوں کی جلد سازی کا کا م ہے ۔علاوہ ازیں اپنے والد کے جاری کردہ ادارہ حدیث پبلی کیشنز کے زیر اہتمام وہ اپنے بڑے بھا ئی اقبال کیلا نی کی مذکورہ با لا کتب کی نشرو اشاعت کی ذمہ داری سنبھا لے ہوئے ہیں ۔
مولوی نور الٰہی مرحوم کے تیسرے بیٹے مولوی عبد الغفور صاحب ہیں جنہوں نے وار برٹن کو اپنا مسکن بنا یا ہوا ہے انھوں نے ساری عمر دینی کتب کی کتا بت میں گزاری اور بڑی بڑی اہم کتابوں کی کتابت کی۔ ویسے تو الحمداللہ صحت مند ہیں لیکن سال خوردہ ہو نے کی وجہ سے اب نظر پور ی کا م نہیں کرتی ۔اس لیے اب ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہے ہیں ان کی دینی خدمات یہی ہیں کہ دینی کتا بوں کی کتاب کرتے رہے تا ہم ان کی علمی خدمات راقم کے علم میں نہیں علاوہ ازیں مدرسہ مراۃ القرآن والحدیث واربرٹن کے انتظامی امور میں بھی سر گر می سے حصہ لیتے ہیں حفظہ اللہ تعالیٰ ان کی اولا د میں حکیم جمیل اختر ،نوید احمد،اور حا فظ عا کف سعید کیلا نی (جو علوم اسلامیہ کے فا ضل ہیں ) شامل ہیں ان کی تین بیٹیا ں مولانا فضل الرحمٰن ہزاروی (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) پشاور حافظ عبد المتین (الریا ض ) اور ہارون الرشید (لا ہو ر ) کے گھر آباد ہیں ۔
مولانا عبد الرحمٰن کیلا نی :۔
چوتھے بیٹے مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ تھے جن کی وفات اس تحریر کا مو جب ہے۔آپ عمر کے اعتبار سے تیسرے تھے اور وفات بھی الاکبرفا لا کی ترتیب سے ہی آئی ہے ۔اتفاق دیکھئے کہ تینوں بھا ئیوں کی وفا ت میں چا ر چار سال کا وقفہ ہے، بہر حا ل یہ بھی عربی کے بہت عمدہ کا تب تھے ان کو اللہ تعا لیٰ نے یہ شرف عطا فر ما یا کہ تقریباً پچاس قرآن کریم کی انھوں نے اپنے ہا تھ سے کتا بت کی، ایک قرآن تو اس طرح لکھا کہ تمام مکی سورتیں خا نہ کعبہ میں اور تمام مدنی سورتیں مسجدنبوی میں بیٹھ کر لکھیں ۔یہ وہی قرآن ہے جو پاک ہند کے مسلمانوں کے لیے ان کے مانوس رسم الخط میں سعودی حکومت نے حما ئل سائز میں چھا پا ہے اور وہ ہر سال لا کھوں کی تعداد میں چھپتا اور تقسیم ہو تا ہے دوسرے لفظوں میں پاکستان میں مروجہ رسم قرآنی میں سب سے زیادہ چھپنے والے قرآن کی کتابت کی سعادت بھی آپ کے حصے میں آئی ان کی دینی و علمی خدمات کا دائرہ اپنے مذکورہ تینوں بھا ئیوں سے زیادہ وسیعہے اس پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے ،مناسب معلوم ہو تا ہے کہ پہلے مختصر اً خا ندانی تعارف ہو جا ئے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسے دینی خا ندان بہت کم رہ گئے ہیں جو کئی پشتوں سے دینی اقدار و روایات کے حا مل اور پا بند چلے آرہے ہیں اس اعتبار سے یہ خا ندان ایک ممتاز مقام کا حا مل ہے اور اس لا ئق ہے کہ اس سے لوگوں کو روشناس کرا یا جا ئے تا کہ یہ روایت نہ صرف یہ کہ اس خا ندان میں بر قرار رہے بلکہ دوسرے خا ندان بھی اس روایت کو اپنائیں اور اس کے مطا بق اپنا دینی تشخص قائم کریں ۔
مولانا کی اولا د میں بالترتیب ڈا کٹر حبیب الرحمٰن صاحب ڈا کٹر حا فظ شفیق الرحمٰن ، پروفیسر نجیب الرحمٰن اور انجینئر حا فظ عتیق الرحمٰن ہیں ان کی چا ر بچیاں ہیں اور چاروں عالمہ فا ضلہ ہیں اور دین کی تعلیم و تبلیغ میں شب و روز مصروف بلکہ سب سے بڑی بیٹی (مولانا عبد الوکیل علوی صاحب کی اہلیہ )نے تو "اسلام میں عورت کا مقام " نامی ایک مفصل کتاب تحریر فر ما ئی ہے۔جس کا حصہ اول چھپ چکا ہے۔ آپ نے مو لا نا عطا ء اللہ حنیف سے حدیث کی تعلیم حاصل کی جما عت اسلامی (حلقہ خواتین )میں بہت سر گرم کردار اداکیا ۔لا ہو ر کی نا ظمہ بھی رہ چکی ہیں محدث میں بھی اکثر و بیشتر آپ کے مضا مین مسز ثریا علوی کے نام سے طبع ہو تے رہتے ہیں ۔ان کی منجلی بیٹی (حا فظ عبدالرحمٰن مدنی کی اہلیہ )بھی اچھے علمی ذوق اور تبلیغی جذبے کی حا مل ہیں نیز خا تو ن خانہ کی تر بیت کے لیے گھروں کے اندر آسان ترجمہ و تفہیم قرآن حدیث کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کئے ہو ئے ہیں۔جس کے 40سے زائد مرا کز صرف لا ہو ر میں کا م کر رہے ہیں جہاں وہ اور ان کی تر بیت یا فتہ دوسری خواتین مستقل طور پر درس قرآن دیتی ہیں ان سے چھوٹی بیٹی حا فظہ اور عالمہ ہیں جو کرا چی میں اپنے قیام کے دورا ن دینی تعلیم و تربیت اور دروس قرآن کے وسیع سلسلے کو چلاتی رہیں ۔اب کچھ عرصہ سے لا ہور آچکی ہیں اور یہاں قدم بقدم اپنے کا م کو وسعت دے رہیں ہیں سب سے چھوٹی بیٹی (انجینئر عبد القدوس سلفی کی اہلیہ) عورتوں کے ایک کا لج میں لیکچرار بھی ہیں اور اپنے والد مر حوم مولانا عبد الرحمٰن کیلا نی کے قائم کردہ مدرستہ البنات کی نا ظمہ بھی ۔بہت اچھے علمی ذوق کی حا مل ہیں ۔
یار رہے کہ مو لا نا کیلا نی کی با قیات صالحا ت میں یہ دینی ادرہ "مدرسہ تدریس القرآن والحدیث للبنات" ایک یادگار حیثیت کا حا مل ہے کم و بیش 20 سال سے مصروف کا راس دینی مدرسہ کا تعلیمی و تنظیمی معیار قابل رشک ہے اور اہلحدیث خواتین کی ایک بڑی تعداد اس ادارہ سے فارغ التحصیل ہے ملک کے چند نامور خواتین مدارس میں اس کا شمار ہو تا ہے آپ کے والد مر حوم کی شبانہ روز محنتوں کا ثمر ہے ان کے شوہر نامدار انجینئر عبد القدوس سلفی نے بتا یا کہ مولا نا مر حوم نے اپنی زندگی کے آخر ی دور میں جو تفسیر لکھی پہے جسے وہ پوری کر گئے ہیں اور آج کل اس کی کتابت ہو رہی ہے اس میں ان کی اہلیہ نے والد مر حوم کی حوالوں کی مرا جعت وغیرہ میں خاصی مدد کی ہے ۔آپ بہت اچھی مقررہ بھی ہیں اس لیے تبلیغ و دعوت کے محا ذ پر بھی خوب سر گرم ہیں ۔
سلمهن الله تعالي وبارك في اعمارهن وجهودهن
مولانا عبد الرحمٰن کیلا نی مر حوم کی پہلی بیوی جس سے تمام مذکورہ اولاد (ذکورجمع اناث تھی بڑی مبلغہ اور نیک خا تو ن تھیں شادی کے بعد انھوں نے قرآن کریم حفظ کیا ان کی صحبت اور تربیت کا نتیجہ ہے کہ ان کی تمام بیٹیاں بھی دین کی داعیہ اور مبلغہ ہیں علاوہ ازیں اس خاندان میں قرآن کریم حفظ کرنے کا جذبہ بھی عام ہے چنانچہ جہاں آپ کے دو بیٹے حا فظ قرآن ہیں وہاں دو بیٹیاں بھی قرآن کی حا فظہ اور قاریہ ہیں اور زیور علم و عمل سے بھی آراستہ و پیرا ستہ ۔كثر الله امثالهم
مولانا مرحوم کے بڑے بیٹے ڈاکٹر حبیب الرحمٰن کیلا نی نے بتلا یا کہ صرف ہم ساتھ بہن بھائیوں کی اولا د میں 35بچے بچیا ں قرآن مجید کے حا فظ ہیں مثلاً حا فظ عبد الرحمٰن مدنی کے دس بچے ہیں اور الحمد اللہ سب کے سب قرآن مجید کے حا فظ ہیں عبد الوکیل علوی صا حب کے آٹھ بچے حا فظ قرآن ہیں اسی طرح دوسرے بہن بھا ئیوں کے بچے بچیاں قرآن کی حافظ ہیں ۔منا سب معلوم ہو تا ہے کہ حفظ قرآن کے سلسلے میں ایک بات عرض کر دی جا ئے اور وہ یہ کہ قرآن کریم کا حفظ یقیناً ایک شرف و فضل کی بات ہے اور قرآن کریم کے ساتھ خصوصی تعلق وابستگی کی علا مت لیکن شہری حضرا ت کا صرف یہ شوق کہ ان کا بچہ قرآن کا حا فظ ہو جا ئے اور حفظ کے بعد اسے پھر دنیا وی تعلیم یا کا روبار میں لگا دیا جا ئے کو ئی زیادہ مفید نہیں ہے ایسے بچے عام طور پر قرآن کریم کو یاد رکھنے سے معذور ہو تے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کا سینہ قرآن کی نعمت سے خا لی ہو جا تا ہے کیونکہ حفظ کے بعد ان کا رخ یکسر تبدیل ہو جا تا ہے جس کے تقاضے دوسرے ہو تے ہیں جن میں قرآن کو یاد رکھنا اور اس کے لیے خصوصی وقت نکا لنا نہا یت مشکل ہو تا ہے الا من شاء اللہ ،اس لیے ا صل ضرورت اس بات کی ہے کہ حفظ قرآن کے ساتھ بچے کو دین کا عالم بھی بنا یا جا ئے ۔
علم دین کا راستہ چونکہ ایثار و قربانی کا متقاضی ہے اس میں بچوں کا مستقبل بظاہر زیادہ روشن نہیں ہو تا صرف اللہ پر اعتماد اور توکل کا جذبہ ہو تا ہے جس سے سر شار لوگ مستقبل کے سنہری خوابوں اور حسین امیدوں سے بے نیا ز ہو کر اپنے بچوں کو قرآن و حدیث کا علم سکھا تے ہیں یوں گو یا بد قسمتی سے یہ کمزوری اور تو کل کا فقد ان اہل دین اور علماء کے اندر بھی آگیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچیوں کو بھی قرآن کا حا فظ بنا کر اپنے دین دار ہو نے کا ثبوت تو فرا ہم کر دیتے ہیں لیکن علوم دین کے پتھر کو صرف چوم کر چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو اس وادی پر خار کی آبلہ پائی سے بچا لیتے ہیں ۔۔۔گویا، ع ،رند کے رند رہے اور ہا تھ سے جنت نہ گئی۔
کے مصدا ق اہل دین و اہل تقویٰ کا مصداق بھی قرار پا ئے اور دین کی خاطر دنیا چھوڑنے کی آزمائش سے بھی صاف بچ گئے۔
مولوی امام الدین کے دوسرے بیٹے (حا فظ عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ )اور ان کی اولا د بہر حال مولوی امام الدین صاحب مر حوم کے بیٹے مو لا نا نور الٰہی کے مذکورہ چار بیٹے تھے ۔جن کا تذکرۃ اختصار سے گزشتہ صفحا ت میں ہوا ۔
امام الدین کے دوسرے بیٹے کا نا م حا فظ عبد الحی صاحب تھا یہ بھی اپنے نور الٰہی کی طرح عالم دین تھے ان کی ایک علمی یا د گا ر "مراۃ القرآن "نا می کتا ب ہے جو لغا ت القرآن پر ہے یہ نا یا ب ہو گئی تھی (چند سال قبل مولانا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے دو بارہ شائع فر ما یا تھا )ان کے بیٹوں میں مو لا نا محمد مسلم صاحب ہیں جو چا ندی کو ٹ (منڈی واربرٹن ) کی آبائی مسجد کی امامت و خطا بت اور مسند دعوت و تبلیغ پر فا ئز ہیں ان کے بیٹوں میں مو لا نا عبد الصمد رفیقی صاحب ہیں جو مدینہ یو نیورسٹی کے فاضل اور بہت اچھے علمی ذوق کے حا مل ہیں ۔علاوہ ازیں مدرسہ مراۃ القرآن والحدیث للبنا ت (واربرٹن) میں صدر مدرس ہیں ۔
دوسرے بیٹے محمد سلیم کیلا نی ہیں جو خوتین کے مدرسہ مذکور کے مہتمم ہیں ان کے بیٹوں میں حا فظ عبد المتین اور قاری عبد العظیم ہیں دونوں دین کے عا لم بھی ہیں اور دینی و علمی خدمات میں مصروف اول الذکر مکتبہ دارالسلام الریا ض (سعودی عرب) میں ہیں اور ثا نی الذکر مکتبہ دارالسلام لا ہو ر کے جنرل مینجر ہیں ان کے علاوہ ان کے تین بیٹے اور ہیں ۔جو اہلحدیث جا معات میں زیر تعلیم ہیں ۔گو یا ان کے پانچوں بچے دینی خدمات میں مصروف ہیں اور بچے ہی نہیں ،ان کی بچیا ں بھی دینی علوم کی فا ضلہ اور دین کی تعلیم و تدریس میں شب و روز مصروف ہیں ان کی بڑی صاحبزادی مو لا نا محمد ادریس فاروقی صاحب کی اہلیہ محترمہ ہیں یعنی سوہدرہ کے ایک قدیم دینی و علمی گھرا نے میں ہیں اور وہاں دینی خدمات میں مصورف ہیں دوسری صاحبزادی مو لا نا عبد الما لک مجا ہد صاحب مدیر مکتبہ دارالسلام الریا ض لا ہو ر کی اہلیہ محترمہ ہیں انھوں نے ساتھ سال دینی علوم کی تحصیل کے لیے جھوک دادو جیسے دور افتادہ گا ؤں میں گزارے جہاں آج سے چند سال قبل تک پاکستا ن میں واحد مدرستہ البنا ت تھا اب تو بہت سے شہروں اور قصبوں میں لڑکیوں کی دینی تعلیم کے لیے مدرسے قائم ہو گئے ہیں یہ محترمہ بہت اچھے علمی ذوق کی حا مل ہیں "مطلع الفجر" جو مکتبہ دارالسلام کے زیر اہتمام خواتین کا ایک جریدہ اس میں ان کے درس القرآن اور درس حدیث وغیرہ کے عنوانات سے مضا مین چھپتے ہیں علاوہ ازیں الریا ض (سعودی عرب) میں مدرسہ فاطمہ الزھراء کے نام سے بچیوں کی تعلیم کے لیے ایک دینی مدرسہ قائم کیا ہوا ہے جس کا انتظا م وانصرا م ہی ان کے ہا تھ میں نہیں ہے بلکہ تدریس کے فرا ئض بھی خود سر انجا م دیتی ہیں اور خواتین کے اجتماعا ت میں ہفتہ داری درس بھی ارشاد فر ما تی ہیں گو یا ۔
ایں سلسلہ طلا ئے نا ب است
ایں خا نہ ہمہ آفتا ب است
مو لا نا محمد سلیم کیلا نی کی خوش بختی وفیروز منڈی قابل رشک ہے کہ وہ خود بھی منڈی واربرٹن میں ایک وسیع مسجد اور مدرسہ بنا م مراۃ القرآن والحدیث للبنا ت کے نا ظم ہیں اور دن را ت دین کی خدمت میں مصروف اور ان کی ساری اولا د (ذکورو اناث ) بلکہ ان کی بہو ویں بھی شب و روز دینی علوم تعلیم و تدریس تبلیغ و دعوت اور ان کی نشرو اشاعت کے لیے وقف ہیں ۔یہ خدا کی دین ہے جسے وہ پروردیگا ر دے ۔ع
ایں سعادت بہ زور بازو نیست
تانہ بخشد خدا ئے بخشدہ
حا فظ عبد الحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تیسرے بیٹے مو لا نا عبد السلام کیلا نی ہیں یہ جماعت کے معروف اور ممتاز علماء میں سے ہیں مدینہ یو نیورسٹی کے فا ضل اور الدعوۃ والارشاد ریاض کی طرف سے معبوث ہیں جا معہ لا ہور الاسلامیہ میں تدریس کے فرا ئض انجام دئیے کئی سال انھوں نے یوگنڈا میں گزارے پھر پاکستان آگئے اور علماء اکیڈمی (بادشاہی مسجد) میں سالہا سال تدریسی فرا ئض سر انجا م دئیے یہاں سے پشاور چلے گئے اور اس کے بعد جامعہ سلفیہ اسلام آباد کی مسند تدریس پر رونق افروز رہے آج کل کینیا میں بطور مبعوث مقرر ہیں ۔بعض کتا بوں کے مصنف بھی ہیں ان کی تدریسی خدمات کا دائرہ کا فی وسیع ہے حفظہ اللہ تعا لیٰ ۔
مولوی امام الدین کے تیسرے بیٹے اور ان کی اولا د :۔
مو لوی امام الدین مر حوم کے تیسرے بیٹے کا نام عبد الواحد ہے ان کی اولا د میں محمد اسحاق شاہین (مر حوم ) جنا ب زبیر احمد صاحب اور حکیم منصور العزیز ہیں حکیم منصور صاحب بہت اچھے ادبی ذوق کے حا مل ہیں اسی لیے حکمت کے ساتھ قلم و قرطاس سے بھی ان کا رابطہ ہے اور اردو رسائل و جرا ئد میں ان کے مضا مین چھپتے رہتے ہیں ۔جنا ب زبیر احمد صاحب لا ہو ر میں ایک طبا عتی پریس کے مالک ہیں مذکورہ بزرگوں کی اولا د میں یہ واحد نما یاں شخص ہیں جو اپنے خا ندان کی دینی روایا ت کے بر خلا ف کلین شیو ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے خا ندان سے کیلانی نسبت ختم کر کے اس کی جگہ سپرا کہلانا اور لکھوانا پسند کرتے ہیں ۔
یہ درست ہے کہ "سپرا" جٹ برادری کی ایک شاک ہے جس کے ساتھ وابستگی کا یہ اظہار کرتے ہیں اور تعا رف کے طور پر لوگوں کو اپنی برادری کی بابت بتلا نا بھی جا ئز ہے لیکن کیلا نی کی نسبت میں جو شرف و امتیا ز ہے وہ سپرا کہلا نے میں ہر گز نہیں ہے۔ کیلا نی کی نسبت سے اس خا ندان کا تصور سامنے آتا ہے جو جماعت اہلحدیث میں اپنی سادگی اور دینی علمی روایا ت و اقدار کی پا بندی میں ممتاز سمجھا جا تا ہے ،جبکہ سپرا کی نسبت میں یہ امتیا زی تشخص اور جما عت میں حا صل شرف و وقار ختم ہو جا تا ہے دوسرا نقصان اس کا یہ ہو گا کہ اس وقت اس خا ندان کا ایک دینی تشخص ہے جس کو وہ سامنے رکھتا ہے اور جما عت کے دوسرے افرا د بھی اسے ملحوظ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے دین کی بنیا د پر یہ خاندان دوسرے لوگوں سے اور دورسے لو گ بھی اس خا ندان کے افرا د سے رشتہ ناطہ کرنے میں کو ئی تا مل یا حجا ب محسوص نہیں کرتے ۔اور یہ ایک بہت اچھی روایت ہے جو شریعت کے مطابق ہے اسے مستحکم اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اسے ختم یا محدود کرنے کی ۔جب کہ سپرا کہلا نے میں یہ ہو گا کہ بتدریج روایت ختم ہو جا ئے گی اور برا دری کی عصبیت شدت اختیا ر کر لے گی ۔جس کا نتیجہ با لآخر یہ نکلے گا کہ سپرا یا اس کی ہم رتبہ برادری کا رشتہ پسندید ہ قرار پا ئے گا چا ہے اس کی وابستگی دین کے ساتھ نہ ہو اور ایک دین دار رشتہ ناپسند یدہ چا ہے وہ اپنی اقدار و روایا ت میں کتنا ہی ممتاز ہو اس لیے ہماری خواہش بھی ہے اور استداعا بھی کہ یہ خا ندان اپنی کیلا نی نسبت کو ہی بر قرار رکھے اس سے بلند تر ہو نے کی نہ سوچے کہ یہ بلندی دینی لحا ظ سے خطر نا ک اور دین کو نظر اندا ز کرنے کا با عث بنے گی ۔ع۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جا تے ہیں
مانو نہ ما نو جان جہاں اختیا رہے
حا جی محمد عارف کے دوسرے بیٹے محمد الدین کی اولا د
یہ تفصیل تو تھی حا جی محمد عارف کے بیٹے امام الدین کی اولا د کی ان کے دوسرے بیٹے محمد الدین تھے جن کی اولا د کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
محمد الدین کے تین بیٹے تھے۔ غلا م مصطفیٰ عبد الرحیم اور عبد لقادر
غلا م مصطفیٰ کے دو بیٹوں کا نا م محمد یو نس اور محمد یو سف ہے۔
محمد یو نس (مر حوم ) کے بیٹوں میں مو لا نا عبد الما لک مجا ہد مدیر مکتبہ دار السلام (الریا ض لا ہو ر) اور طا رق (الریا ض )اور محمد ایوب ( کرا چی ) ہیں مو لا نا مجا ہد صاحب کی خدمات محتا ج تعرف نہیں اللہ تعا لیٰ ان کی زند گی اور عمل میں مزید بر کت عطا فر ما ئے
محمد یو سف کے بیٹوں میں محمد مسعود مینجر احد پریس (مکتبہ دار السلام لا ہور ) محمد محمود محمد یقوب اور خا لد فاروق ہیں محمد یو سف صاحب بڑے معیا ری کا تب رہے ہیں "تفہیم القرآن "کی کتا بت انہی کے شاہکا ر ہے ۔ان کے صاحبزاد گا ن میں محمد یعقوب حسن کتابت میں باپ کے صحیح جا نشین اور بہترین کا تب ہیں ان کے حسن کتا بت کا تازہ نمو نہ تفسیر"احسن البیان "ہے۔
عبدالرحیم صاحب کی اولا د میں مو لا نا کرا م اللہ ساجد عنا یت اللہ اور احسان اللہ ہیں اکرام اللہ صاحب خوش نویس ہو نے کے علاوہ اچھے خطیب اور صاحب قلم ہیں اور مختلف علمی جرائد سے وابستہ چلے آرہے ہیں ایک بڑا عرصہ ماہنا مہ "محدث " لا ہو ر کے مدیر معاون رہے ۔کئی سال ماہنامہ "ترجمان الحدیث " لا ہو ر میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جب کہ مدیر اعلیٰ خود پر چے کے بانی علا مہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ تھے اور آج کل ماہنامہ "حرمین " جہلم کی ادارت سے وابستہ ہیں ۔
عنا یت اللہ صاحب اپنے آبائی اور خاندانی پیشے کتا بت سے ہی وابستہ ہیں یہ بھی فن کتابت کے ماہر ہیں اللہ تعا لیٰ نے انہیں بھی کتا بت کے حسن سے خوب نوازا ہے۔ مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتا ب "مترا دفات القرآن " کی کتا بت بھی آپ کے حسن قلم کا شا ہکا ر ہے ۔آج کل مکتبہ دارالسلام کے لیے ایک قرآن کریم کی کتا بت کر رہے ہیں اللہ تعا لیٰ تکمیل کی تو فیق سے نوازے ۔
عبد القادر صاحب کے دو بیٹے تھے عبد الغفا ر صاحب اور عبد الستا ر ۔یہ دونوں بھا ئی بھی اپنے آبائی پیشہ کتا بت سے منسلک تھے اور آگے ان کی اولا د بھی جبکہ عبد الغفا ر صاحب مر حوم رحمہمااللہ بہت اعلیٰ خوش نو یس اور بڑے زود نو یس تھے ۔کہتے ہیں کہ گھر یلو امور کی انجا م وہی کے ساتھ ایک دن میں ایک پارہ کی کتا بت کر لیتے تھے ۔انھوں نے بھی متعدد قرآن مجید کی کتا بت کی۔
حا جی محمد عارف کے تیسرے بیٹے سلطا ن احمد تھے جن کی اولا د میں بھی قرآن مجید اور دینی کتب کی کتا بت کے ساتھ ساتھ دینی علم کی ترویج ہو ئی ۔ محدث کے سابق مدیر معاون مو لا نا عبد القوی لقمان کیلا نی انہی کے پوتے ہیں۔اور مدینہ یونیورسٹی سے فا رغ التحصیل ہو کر دینی خدما ت میں مصروف ہیں ۔
کیلا نی خا ندان کی چند امتیا زی خصوصیا ت :۔
یہ کیلا نی خا ندان کا مختصر سا تعا رف ہے۔ اسے پیش کرنے سے اصل مقصد اس خا ندان کے اکا بر و اصاغر کی دین سے وابستگی اور اسلا می شعائر و اقدار کی پا بندی کی وضا حت کرنا ہے تا کہ دوسرے لو گ اور خاندان بھی اپنا یہی تشخص قائم کریں اس خا ندان کے تقریباً تمام افرا د میں چند خصوصیا ت عموماً پا ئی جا تی ہیں ۔
سب کے چہرے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مزین ہیں (سوائے معدودے چند ا فرا د کے) دینی شعا ئر و اقدار کی پا بندی اور احکا م و فرا ئض اسلا م کی بجا آوری ان کا امتیازی وصف ہے۔مزاج و طبیعت کے سادہ اور مکر و کید سے متنفرہیں ۔
علوم دین سے محبت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ با قا عدہ مدرسوں میں پڑھے بغیر ان میں کئی حضرا ت ایسے ہیں جو علم دینی کے حا مل ہیں دینی مو ضوعات پر کتا بیں تحریر کرتے ہیں جس کی نما یا ں مثا لوں میں ۔حا فظ عبد الحئی صاحب کی "مرا ۃ القرآن " ہے مو لو ی محمد یو سف صاحب بن غلا م مصطفیٰ کی بھی "رد شرک و بدعت " پر ایک کتا ب ہے اکرا م اللہ ساجد صاحب بھی اداریے وغیرہ خوب لکھ لیتے ہیں ۔اور مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ تو ان سب میں گو ئے سبقت لے گئے ہیں جنہوں نے مختلف مو ضو عات پر متعدداہم کتا بیں تا لیف فر ما ئیں جن کی تفصیل آگے آئے گی مو لا نا سلیمان کیلا نی مرحوم اور اقبال کیلا نی حفظہ اللہ استا ذ ملک سعود یو نیورسٹی الریا ض ) بھی نما یا ں ہیں ان سب کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
مولا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی و دینی خدمات :۔
اب کچھ باتیں مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی مرحوم کے متعلق جو اس مضمون کا اصل باعث اور مو ضوع خا ص ہیں مو لانا مر حوم بھی مذکورہ تمام خوبیوں اور صفا ت سے متصف تھے علاوہ ازیں اپنے رہا ئشی علا قے (وسن پورہ لا ہور ) میں مدرسہ تدریس القرآن والحدیث للبنا ت کے نا م سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا جس سے اب تک بے شمار لڑکیاں دینی علوم سے آراستہ ہو چکی ہیں ان کی تمام اولا د بھی شرع کی پا بند ہے تا ہم علمی حیثیت سے کو ئی بھی تا حا ل اپنے باپ کا جا نشین نہیں یہ امر خصوصیا ت سے قابل ذکر ہے کہ مو لا نا کیلا نی کی سب بیٹیاں اپنی اپنی خدما ت کی وجہ سے ملک بھر میں ممتا ز حیثیت کی حا مل ہیں اور ان کی خدما ت کا دا ئرہ کا ر کا ف وسیع ہے اس معاملے میں جنا ب محمد سلیم کیلا نی صاحب کا کردار بھی قا بل تعریف ہے کہ ان کی اولا د نے حتیٰ کہ بچیوں نے بھی دینی مدارس میں باقاعدہ دینی تعلیم حا صل کی ہے اور دیگر بچے کر رہے ہیں ۔زادهم الله علما وشرفا۔
مولانا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی میدا ن کتا بت خا ص طور پر قرآن مجید کی کتا بت ہی کا تھا تا ہم ابتدا ئے عمر میں انھوں نے اور بھی کا م کئے فوج میں بھی رہے اور درمیانی عمر میں انھوں نے بعض کاروبار بھی کئے جیسے بھٹہ (خشت سازی کا کا م ) وغیرہ لیکن اس میں وہ اپنی سادہ طبع کی بنا پر نا کا م رہے اور نقصان سے دو چا ر ہو ئے با لا خر پھر اپنے خا ندانی پیشے کی طرف لو ٹ آئے ۔
ایک مر تبہ خود انھوں نے را قم سے بیان کیا کہ جب مجھے مذکورہ کا روبار میں نقصان ہوا تو تمام دوست احباب نے صدمے کا اظہا ر کیا ۔لیکن حضرت الاستاذ مو لا نا محمد عطا ء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ نے خوشی اور مسرت کا اظہا ر فرما یا ۔جس پر میں تعجب کا اظہار کیا ۔ اور حضرت مو لا نا مر حوم سے کہا کہ سب لو گوں نے اس نقصان پر ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا اور آپ مسرت کا اظہار فر ما رہے ہیں ؟ تو حضرت مو لا نا نے فر ما یا کہ میں اس لیے مسرت کا اظہار کر رہا ہوں ۔کہ اللہ تعا لیٰ نے آپ کو دنیا وی کا روبار کے لیے نہیں بنا یا آپ کے اندر اچھی علمی استعداد ہے اسے بروئے کا ر لا تے ہو ئے دین کا کا م آپ کو کرنا چا ہیے تھا ۔اگر آپ کا رو بار میں کا میا ب ہو جا تے تو یہ علمی استعداد ضا ئع ہو جا تی اور آپ دنیا کے اسیر ہو کر رہ جا تے مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے آپ کو ضا ئع ہو نے سے بچا لیا اور دینی و علمی خدمت کا مو قع مہیا فر ما دیا ۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ فکر صحیح تھی ان کی اس فکر نے بہت سے قا بل جوہروں کو ضا ئع ہو نے سے بچا یا وہ ہر صاحب علم کو یہی بات سمجھا تے تھے کہ روکھی سوکھی کھا ؤ لیکن علم و دین سے وابستہ رہ کر علم ودین ہی کی خدمت کرو۔اسی لیے وہ مدارس دینیہ سے فا رغ ہو نے والے طلبا ء کے لیے مولوی فاضل وغیرہ کے سر کا ری امتحا نات کو بھی سخت نا پسند کرتے تھے کیونکہ ایسے طلباء پھر مسا جد و مدارس کی بجا ئے اسکولوں کا لجوں کی سر کا ری ملا زمت کو ترجیح دیتے ہیں اور وہاں جا کر شب و روز محنت کی بجا ئے دنیا کمانے کی فکر میں ہو جا تے ہیں ۔حا لا نکہ قوم مدا رس دینیہ کے ساتھ اس لیے تعا ون کرتی ہے کہ یہاں دین اور دینی علوم کے خا دم تیا ر ہوں تا کہ معاشرے کی دینی ضروریا ت پو ری ہوں جن سے حکومتیں غا فل ہیں مدرسوں کا مقصد سر کا ری ملا زم پیدا کرنا نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے اب یہ رد عام ہو گئی ہے اور مدرسوں سے بھی امام خطیب مفسر و محدث فقیہ و مفتی اور مصنف و مدرس پیدا نہیں ہو رہے جو ان کا اصل مقصد ہے بلکہ اس کے بر عکس سکول ماسٹروں اور لیکچراروں کی کھیپ ہی تیار ہو رہی ہے۔فالی الله المشتکی
بہر حال حضرت مو لا نا رحمۃ اللہ علیہ تعا لیٰ کے غیر متوقع اظہا ر مسرت سے مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کے قلب و دماغ پر اچھا اثر پڑا اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے اور پھر واقعی یکسوئی کے ساتھ دینی و علمی کا موں میں مصروف ہو گئے۔
مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کا ذوق تو پہلے ہی علمی تھا انھوں نے دارالسلام کے نام سے اپنا ایک مکتبہ بھی قائم کیا ہوا تھا اس مکتبہ کی طرف سے ایک کتا ب حج کے مسائل پر بھی چھپی تھی اور ایک رسالہ مو لا نا طاہر محمد سورتی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی چھپا تھا جس کا نام "برزخ اور عذاب قبر" تھا یہ رسالہ مشہور منکر حدیث اسلم جیراج پو ری کے رد اور عذاب قبر کے اثبات میں تھا ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب غا لباً ابھی مکتبہ سلفیہ کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا کیونکہ معلوم ہو تا ہے کہ مو لا نا سورتی رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء و ہدا یت ہی پر شا ئع ہوا ہے۔ اس کے پیش لفظ میں اگرچہ ان کا نا م نہیں ہے ۔لیکن اس کا اسلوب تحریر واضح کرتا ہے کہ وہ حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ بھوجیا نی کا تحریر کردہ ہے۔
اس کے بعد فترت کا وہ دور آتا ہے جس کا ذکر پہلے ہوا ۔حضرت الا ستاذ رحمۃ اللہ علیہ کی تو جہ سے علم اور نشرو اشاعت سے ٹو ٹا ہوا یہ سلسلہ پھر بحا ل ہو گیا اور پھر ایسا بحا ل ہوا کہ مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آپ کو دینی علوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور مدرسۃ البنا ت کے انتظامی امور کے علا وہ ان کے شب و روز علمی مشا غل ہی میں صرف ہو تے ۔چنانچہ اس وقت سے تا دم واپسی مختلف بلکہ متنوع مو ضو عات پر متعدد کتا بیں تحریر فرما ئیں اور بعض نہا یت دقیق اور علمی کتا بوں کے تر جمے بھی کئے جنہیں دیکھ کر سخت حیرا نی بھی ہوتی ہے کہ نمودو نما ئش کے بغیر جس کی وجہ سے زیادہ معروف بھی نہ تھے اور انکا شمار بھی معروف علماء میں نہیں ہو تا تھا لیکن ان کے کا موں میں جو علمی تنوع دیکھا گیا ہے وہ کبار علما ء میں بھی مفقود ہے علاوہ ازیں ان کی استعداداور رفتا ر کا ر بھی نہا یت تعجب انگیز رہی ہے ایسا معلوم ہو تا ہے ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے ان کے اوقات میں خا ص بر کت ڈا ل دی تھی اور وہ سالوں کا کا م مہینوں میں اور مہینوں کا کا م ہفتوں میں اور ہفتوں کا کا م دنوں میں کر لیتے تھے ۔اللہ تعا لیٰ ان کی مساعی حسنہ کو قبول فر ما ئے ۔
کتا بوں کا مختصر تعارف :۔
مر حوم کی لکھی ہو ئی کتا بوں کا مختصر تعارف حسب ذیل ہے۔
1۔شریعت و طریقت : یہ کتاب کا فی باریک خط میں درمیانہ سائز کے 528صفحا ت پر مشتمل ہے اس میں شر یعت کے مقابلے میں ایک اور شریعت جو گمرا ہ قسم کے صوفیوں نے بنا ئی ہو ئی ہے۔جسے وہ طریقت سے تعبیر کرتے ہیں اس کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے اس ضمن میں اس کے آغا ز اس کے عقائد و نظریات (وحدت الو جود وحدت الشہود حلول وغیرہ) اس کی خود ساختہ کرا ماتاور دیگر بہت سے اہم مبا حث پر تفصیل سے روشنی ڈا لی گئی ہے بہت دلچسپ نہایت معلومات افزا اور بڑی بصیر ت افروز کتاب ہے علاوہ ازیں اپنی گمرا ہیوں کے جواز و اثبات میں صوفیاء قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں غلط تا ویلیں کرتے ہیں ان کی بھی مدلل تر دید کی گئی ہے مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کتاب بہت مفید اور قابل مطا لعہ ہے اس کتاب کا عربی ترجمہ مو لانا عبد القوی کیلا نی نے کیا ہے جو عنقریب ریاض (سعودی عرب) میں چھپ کر منظر عام پر آنے والی ہے ان شا ء اللہ ۔
2۔مترا دفا ت القرآن: اس میں قرآن مجید میں وارد متعدد ہم معنی الفاظ کے در میان جن مترادفات کہا جا تا ہے جو باریک فرق ہے اور اسرار و معا نی اور لطائف کے جو خزانے پنہا ں ہیں۔فاضل مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے دیدہ ریزی سے انہیں بے نقاب کیا ہے یہ علمی کاوش اپنے انداز کی ایک منفرد کا وش ہے ہر صاحب علم بالخصوص قرآن کے معانی و مطا لب کے سمجھنے کا شوق رکھنے والوں کے لیے بہت مفید اور رہنما کتاب ہے جس سے علم و بصیرت میں اضا فہ اور قرآن کی صداقت و بلا غت پر یقین پختہ ہو تا ہے۔
3۔آئینہ پرویزیت: انکا ر حدیث کا فتنہ اگر چہ قدیم ہے لیکن بر صغیر پا ک وہند میں اس کو بال و پر مہیا کرنے والے سر سید احمد خا ن اور ان کے ساتھی عبد اللہ چکڑالوی اور اسلم جیراج پوری وغیرہ ہیں اور پاکستان میں اسے پھیلا نے والوں میں مسٹر غلا م احمد پرویز سب سے نما یاں ہیں حتیٰ کہ انکا ر حدیث کا امتیازی نام ہی "پرویزیت " اختیار کر گیا ہے اس کتاب میں مو لا نا کیلا نی مر حوم نے خا صی تفصیل سے چھ جلدوں میں اس مو ضو ع پر بحث کی ہے اور انکا ر حدیث کی تا ریخ اور اس کا پس منظر بیان کرنے کے علاوہ ان کے ان دلا ئل کا جا ئزہ لیا ہے جو وہ حدیث کے بطور ماخذ دین ہو نے کے لئے پیش کرتے ہیں ۔یہ کتاب جہاں ایک طرف نو جوانوں اور جدید تعلیم یا فتہ حضرات کے لیے نہا یت مفید ہے تا کہ وہ منکرین حدیث کے مغالطات کا شکا ر نہ ہو ں اور اگر کو ئی ہو گئے ہوں تو ان کے ذہنوں سے شبہا ت کے کانٹے دور ہو جا ئیں تو دوسری طرف علماء کے لیے بھی اس کا مطا لعہ غایت ضروری ہے تا کہ وہ اس فتنے کی اور اس کے دلا ئل کی حقیقت سے پورے طور پر آگا ہ رہیں اور اس کی مدد سے دوسرے مسلمانوں کی بھی صحیح رہنما ئی کر سکیں ۔پرویزیت کی تاریخ اور اس کے رد میں یہ نہا یت مفصل مبسوط اور دلا ئل و حقائق سے بھر پو ر کتا ب سے بڑے سائز کے 1008صفحا ت پر مشتمل ہے ۔
4۔(الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ)یہ کتاب درمیانی سائز کے 328صفحا ت محیط ہے یہ کتاب تین حصوں میں مستقیم ہے پہلے حصے میں علم ہیئت کے نظریا ت اور اسلامی نظریا ت پر دوسرے حصے میں ہجری اور عیسوی سنین کے دن معلوم کرنے اور ان کے درمیان مطا بقت کے طریقے پر بحث ہے اور تیسرے حصے میں سن ایک ہجری (بمطا بق 622عیسوی) سے 1680ھ (بمطابق 2252 عیسوی ) تک تقابلی تقویم پیش کی گئی ہے۔ یہ کتاب بھی فا ضل مصنف رحمۃ اللہ علیہ کی محنت اور علم و معلومات کی وسعت پر دلالت کرتی ہے مو لانا مرحوم نے اس کتاب کی تر تیب کے حصب ذیل مقاصد بیان فر ما ئے ہیں ۔چنانچہ وہ کتاب کے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں ۔
اس کتاب کو مرتب کرتے وقت درج ذیل مقاصد میرے پیش نظر رہے ۔
1۔آج کل دنیا کے بیشتر ممالک میں عیسوی تقویم ہی را ئج ہے اور ہجری تقویم کو نا قابل التفاء سمجھا جا رہا ہے حتٰ کہ مسلمانوں اور مسلمان ممالک کے ہا ں بھی یہی صورت حا ل ہے حا لا نکہ اپنے چند اور چند خواص کی بنا پر قدیمی اور حقیقی تقویم قمری تقویم کی بنیا د ہیں۔
2۔اکثر ممالک اور اکثر تہذیبوں میں سیاروں کی حرکا ت کے علم کے ساتھ ساتھ سیاروں کے انسانی زندگی پر انفرا دی اور اجتماعی اثرا ت کو بھی تسلیم کیا جا تا رہا ہے اور کہا جا تا ہے جس سے نجوم پرستی اصنا م پرستی اور دیوی دیوتا ؤں کا رواج پڑگیا اسلام نے علم ہیئت میں غور و فکر کرنے کی تر غیب کے ساتھ سیاروں کے اثرا ت کی کلیتا نفی کی اور اسے واضح شرک قرار دیا پے لہٰذا ایسے اثرا ت کی دلا ئل سے تردیدکی گئی ہے ۔
3۔علم ہئیت کے مو جودہ نظریات میں کچھ ایسے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے مطا بق ہیں کچھ متعارض ہیں اور کچھ متصادم ہیں میں نےایسے تمام امور کا شرعی نقطہ نظر سے تقابل پیش کر دیا ہے تا کہ مسلمان مغرب سے آنے والے ہر نظر یہ کی اندھی تقلید کے بجائے وحی الٰہی سے روشنی حاصل کرنے کی روش اختیار کریں تا کہ جو بات وحی الٰہی کے مخالف ہو اس سے مرعوب ہو نے کی بجا ئے نہ صرف یہ کہ اسے قبول نہ کریں بلکہ علمی دلا ئل و برا ہین کے ساتھ اس کی تر دید کے طریق کو اپنا ئیں ۔
4۔ہم نے عیسوی تقویم میں دن معلوم کرنے کا طریقہ تو سکول میں پڑھا تھا لیکن ہجری تقویم کو شاید اس بات کا مستحق ہی نہ سمجھا گیا کہ اسے بھی سلیس میں شامل کیا جا ئے ۔میں نے اس کتاب کے دوسرے حصہ میں کئی ایسے طریقے بیان کر دئیے ہیں جن سے ہجری تقویم میں دن معلوم کیا جا سکتا ہے اور ان میں سے اکثر میری اپنی ذہنی کلوش کا نتیجہ ہیں ۔
5۔ہجری تقویم اور عیسوی تقویم کے سنین میں مطا بقت بھی ایک اہم مسئلہ ہے بالخصوص مورخین مصنفین اور مولفین کو تو اکثر اس کی ضرورت پیش آتی ہے اور بسا اوقات وہ اس معاملہ میں غلطی بھی کرجا تے ہیں میں نے دوسرے حصہ میں ایسی مطابقت کے چند ایک طریقے بیان کر دئیے ہیں ۔اور تیسرا حصہ تو با لخصوص اس مسئلہ میں تیار حوالہ ( Rea Referance)کا کام دیتا ہے ۔
کتاب کے آخر میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ سے متعلق اہم واقعات کے ہجری اور عیسوی سنین بقید ماہ و سال درج کر دئیے ہیں ان شاء اللہ کتاب کی افادیت میں اضا فہ کا باعث ہوں گے۔
5۔خلا فت و جمہوریت : آج کل بیشتر ملکوں میں مغربی جمہوریت را ئج ہے اور مغربی مفکرین اور اہل سیاست نے اس کے بہتر ہو نے کا صور اس زور سے پھونکا ہے کہ علماء تک بھی اس سے متا ثر ہو گئے ہیں حتیٰ کہ اس کی خرا بیاں اور نقصانات واضح طور پر سامنے آنے کے باوجود ان لوگوں کا صرار ہے کہ اس سے بہتر کو ئی نظا م حکومت نہیں چنانچہ اسلامی ممالک بھی اس کی زلف کے اسیراور اس کی عشوہ طرازیوں سے مسحور ہیں حا لا نکہ اس جمہوریت نے ان کو ان کے مذہب اسلام سے دور کرنے میں بنیا دی کردار ادا کیا ہے اب بھی کر رہی ہے ان لوگوں سے جب جمہوریت کے خلا ف باتیں کی جا تی ہیں تو یہ عذر لنگ پیش کرتے ہیں کہ اس دور میں اسلامی نظا م سیا ست و حکومت کا کو ئی واضح نقشہ ہورے سامنے نہیں ہے دراں حا لیہ کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے علمائے اسلام کی متعدد کتا بیں اسلام کے نظا م حکومت یعنی خلا فت پر مو جود ہیں ۔
مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرحوم کی یہ کتا ب بھی اس مو ضوع پر ایک نہا یت اہم کتاب ہے جس میں جمہوریت کے مفا سد اور نقصانات پر تفصیل سے روشنی ڈا لی گئی ہے علاوہ ازیں اسلام کے نظا م خلا فت اور اس کے خدوخا ل کو بھی مدلل انداز میں واضح کر کے عصر حاضر کے چیلنج کا نہایت معقول جواب پیش کیا گیا ہے اس سلسلے میں اسلامی نظر یا تی کو نسل اور وفاقی شرعی عدالت کے سوال ناموں کا جواب بھی اس کتاب میں شامل ہے ان دونوں کے جوابات سے بھی مبا حث مذکورہ پر مزید روشنی پڑتی ہے اور بہت سے اشکالات و شبہا ت کا ازالہ ہو تا ہے یہ کتا ب بھی ہر صاحب علم اور باشعورشخص کو پڑھنی چا ہیے تا کہ وہ مغربی جمہوریت کی حقیقت اور نظا م خلا فت کی خوبیوں کو ایک ساتھ سمجھ سکے ۔
6۔تجا رت اور لین دین کے مسائل و احکا م : مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تا لیف بھی نہا یت اہم ہے آج کل ایک تو اکثر مسلمان تا جر حلال و حرا م اور جا ئز و نا جا ئز کے درمیان تمیز کرنے کے روادار نہیں ہیں اور حدود شریعت بلکہ عام اخلا قی ضا بطوں تک کا بھی اہتمام نہیں کر رہے علاوہ ازیں کا رو بار کی بعض جدید صورتیں بھی ایسی ہیں ۔کہ ان کی حلت و حرمت سے عا م لو گ بلکہ بہت سے علماء تک بھی واقف نہیں یا وہ اجتہا د طلب ہیں اس لیے ایمان دار مسلمان تا جروں کے لیے جو حرا م سے بچنا چا ہتے ہیں ۔ کئی مشکلات ہیں ۔
مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ مر حوم نے اپنی تا لیف میں تجا رت و کا رو بار سے وابستہ حضرات کی رہنما ئی کے لیے تجارت اور لین دین کے احکا م و مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈا لی ہے اور بہت سے جدید مسائل نیز سود ، انشورنس (بیمہ ) وغیرہ کا متبا دل شر عی حل بھی پیش کیا ہے علاوہ ازیں زکوۃ کے تمام ضروری مسائل اور وراثت کے اسلامی اصول و قوانین بھی بیان کئے ہیں ۔یوں یہ کتاب اپنے مو ضو ع پر جا مع بھی ہے اور فکر انگیز و بصیرت افر وزبھی مسلمان عوام اور علما ء دونوں کی ضرورت اور دونوں کے لیے یکساں مفید اور رہنما کتاب ہے۔
7۔روح عذاب قبر اور سماع مو تی: ایک گروہ تو آج کل ایسا پیدا ہوا ہے جو عذاب قبر کا منکر ہے (منکرین حدیث تو پہلے ہی اسے نہیں ما نتے) اور ایک گروہ وہ ہے جو سماع موتی کا اس حد تک قائل ہے کہ مردے ہر ایک کی فر یا د نہیں سنتے بلکہ حا جت روائی و مشکل کشائی بھی کرتے ہیں ۔چنانچہ جھوٹے سچے بزرگوں کی قبریں ان کے ہاں مرجع خلا ئق اور قبلہ حا جا ت بنی ہو ئی ہیں اس کتاب میں ان دونوں گرہوں کی تر دید اور ان کے دلا ئل کا تو ڑ پیش کیا گیا ہے یہ کتاب بھی بیش قیمت مبا حث اور علمی مواد پر مشتمل اور عام وخا ص کے لیے یکسا ں مفید ہے ۔
8۔احکا م ستر و حجا ب : اس میں ستر و حجا ب کے ضروری مس ائل احکا م کے ساتھ ہاتھ اور چہرے کے پردے کے مسئلے پر بھی گفتگو کی گئی ہے جس کے بعض علمائے اسلام قائل نہیں واضح کیا گیا ہے کہ یہ مو قف دیگر دلا ئل شرعیہ سے مطا بقت نہیں کیا رکھتا اس لیے نا گزیر صورتوں کے علاوہ جسم کے دیگر حصوں کی طرح عورت کے لیے چہرے اور ہاتھ کا پردہ بھی ضروری ہے علاوہ ازیں جو لو گ (مغربی مفکرین اور ان کے ہم نوا ) سر ے سے پردے بلکہ جنسی خواہش کی تسکین کے لیے نکا ح کے ضروری ہو نے کے ہی قائل نہیں اور وہ حیونوں کی طرح انسانوں کے اندر بھی جنسی آزادی کو فروغ دینا چا ہتے ہیں ان کے دلا ئل کی بھی تر دید کر کے پردے اور نکا ح کی اہمیت کو اجا گر کیا گیا ہے اس اعتبار سے 80صفحا ت کا یہ رسالہ "بقامت کہتر بقیمت بہتر " کا مصداق ہے۔
9۔اسلام میں فا ضلہ دولت کا مقام : انسان کی اپنی ضرویات سے زائد مال کے بارے میں افرا ط تفریط عام ہے کمیونزم نے سرے سے نجی ملکیت ہی کا انکا ر کیا اور سر ما یہ دارانہ نظا م نے اسے کسی بھی حد اور قید کا پا بند بنا نا گوار انہیں کیا ۔جب کہ اسلام نے اس کے بارے میں دونوں انتہاؤں سے گریز کر کے اعتدال کا راستہ اختیار کیا ہے اس کتاب میں اسی نقطہ اعتدال کا بیان ہے اور بتلا یا گیا ہے کہ فا ضل دولت کا اسلام میں کیا مقام ہے ؟ کن صورتوں میں وہ جا ئز اور کن صورتوں میں اس کو خرچ کرنا ضروری ہے؟ اس ضمن میں مسئلہ مزار عت اور اس کی جا ئز و نا جا ئز صورتوں پر بھی ضروری بحث ہے۔
10۔عقل پرستی اور انکا ر معجزات :مولانا کیلا نیمر حوم کی یہ کتا ب بھی بڑی اہم ہے اس میں حا فظ عنا یت اللہ اثری گجرا تی کی تصنیف "عیون زمرم" اور البيان ا لمختار والقول ا لمختارکا ردہے ۔اول الذکر کتاب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولا دت یعنی بن باپ کی پیدائش کا اور دوسری کتاب میں دیگر انبیاء علیہ السلام کے معجزات کا انکا ر کیا گیا ہے ۔اثری صاحب کی دونوں کتا بوں میں ان خوارق عادات واقعات و معجزات کا انکا ر کے لیے (جو انبیا ء علیہ السلام کو عطا کئے گئے) ان کی ایسی ایسی دور ازکار تا ویلا ت اور مفیہانہ تو جیہا ت کی گئی ہیں کہ سرپیٹ لینے کو جی چا ہتا ہے اور نہا یت دیدہ دلیری سے قرآن کی معنوی تحریفات کی شوخ چشمانہ جسارت کا ارتکا ب اس پر مستزاد فا ضل مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی با لغ نظری سے اثری صاحب کے پوچ دلا ئل کا جا ئزہ اور تحریفا ت کا پردہ چا ک کیا ہے جو دیکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ان مبا حث کو پڑھنے کے بعد صاف محسوس ہو تا ہے کہ اثری صاحب اور ان کے ہمنواؤں کا معاملہ غالب کے الفا ظ میں یہی ہے کہ ع۔ لڑتے ہیں اور ہا تھ میں تلوار نہیں !اس کے علاوہ بھی مو لا نا موصوف رحمۃ اللہ علیہ کی بعض کتابیں ہیں جیسے سیرت پر ایک کتاب ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیکر صبرو ثبات اور دوسری کتاب ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالا ر اسی طرح ان کے علاوہ سیرت طیبہ کے دو مقالوں پر آپ کو انعا م بھی ملا ایک مختصر جا مع کتا بچہ قرآن نا فہمی کے اسباب ہے جس میں قرآن کے فہم کے لیے بہت مفید مبا حث ہیں علا وہ ازیں انھوں نے بعض عربی کتا بوں کے اردوترجمے بھی کئے ان میں ایک زکوۃ کے جدید مس ائل کی کتاب کا ترجمہ ہے مو لانا مرحوم نے حضرت الاستاذ مو لانا محمد عطا ء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء ہدا یت پر کیا تھا یہ کتا ب ایک مرتبہ چھپ کر ختم ہو گئی ہے ضرورت ہے کہ اسے دوبارہ شائع کیا جائے۔
شیخ ابن باز حفظہ اللہ مفتی اعظم سعودی عرب کے فتا وٰیٰ کی ایک جلد اردوکے قالب میں ابھی حا ل ہی میں مکتبہ دارالسلام الریا ض سے چھپ کر آئی ہے اس کا ترجمہ مو لا نا مرحوم ہی کا کیا ہوا ہے۔اسی طرح اصول فقہ کی ایک معروف اور مبسوط کتاب ہے الموفقات (للشاطبی رحمۃ اللہ علیہ ) اس کا اردو ترجمہ آپ نے دیا ل سنگھ ٹرسٹ کا لائبریری لا ہو ر کے ایماء پر کیا اس کے دو حصے شائع بھی ہو گئے ہیں اہل علم جا نتے ہیں کہ یہ مو ضوع کتنا ادق اور خا لص علمی ہے اور اس قسم کی علمی کتا بوں کو اردو میں ڈھا لنا کتنا مشکل ہے لیکن مو لا نا مر حوم نے یہ مشکل گھاٹی بھی آسانی سے عبور کر لی۔مولا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ علمی کا ر نا مہ بھی علمی دنیا کے لیے ناقابل فرا مو ش ہے۔
سبل السلام کا اردو ترجمہ : معلوم ہوا ہے کہ اسلامی یو نیورسٹی اسلام آباد کی دعوت پر مولا نا مر حوم نے بلوغ المرام کی عربی شرح سبل السلام کو بھی اردو کے قالب میں ڈھال دیا ہے جو مذکورہ یو نیورسٹی کے زیر اہتمام ان شا ء اللہ شائع ہو گا ۔
قرآن کریم کی تفسیر: آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک آخری کا ر نا مہ جو سب پر گو ئے سبقت لے گیا ہے قرآن کریم کی ایک مفصل تفسیر ہے یہ تفسیر گوابھی زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہو ئی ہے تا ہم وہ اسے مکمل کر گئے ہیں اور نصف کے قریب اس کی کتا بت بھی ہو گئی ہے مو لانا مر حوم اسے بہت جلد منظر عام پر لا نا چاہتے تھے۔لیکن افسوس وہ اسے مطبوعہ شکل میں نہیں دیکھ سکے۔ بہر حا ل اس کی کتا بت کا کا م جاری ہے اور امید ہے کہ ان کے صاحبزادگا ن ،جو علمی ذوق سے بہرہ ور اور دینی وعلمی خدمت کے جذبے سے سر شار ہیں اسے جلد سے جلد منصہ شہود پر لا نے کی کو شش کریں گے تا کہ یہ تفسیر بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جا ئے۔مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے چھوٹے بیٹے انجینئر عتیق الرحمٰن کیلا نی ادارہ محدث کے تعاون سے اس کو طبع کر رہے ہیں ۔
تفسیر وحیدی کی اشاعت : آج سے چند سال قبل مولانا کیلانی مرحوم نے تفسیرمولانا وحید الزمان کے اپنے ترجمے کے ساتھ قرآن مجید کے حا شے پے شائع ہوئی تھی ۔لیکن یہ قرآن مجید بڑے جلی قلم میں تھا جس کی وجہ سے اس قرآن کی ضخامت بہت زیادہ تھی اور جسے آج کل سوائے چند بوڑھے افراد کے جن کی نظر کمزور ہو ،پسند نہیں کرتے علاوہ ازیں یہ اب نایا ب بھی تھا مو لا نا مرحوم نے اس تفسیر کو عام درمیانی سائز کے قرآن مجید کے حا شئے پر نئی کتا بت کے ساتھ شائع کروایا تھا مگر کتاب زیادہ باریک اور غیر واضح ہونے کی وجہ سے یہ تفسیری حواشی ولا قرآن مجید زیادہ پسند نہیں کیا گیا لہٰذا اس کی تلافی کے لیے ان حواشی کو دوبارہ کمپیوٹر کتابت کے ساتھ شائع کرنے کا پروگرام تھا کتا بت کا مرحلہ مکمل ہو چکا تھا کہ مو ت کا بلا و ا آگیا اور اپنی تفسیر قرآن کے ساتھ نئے سرے سے مرتب" تفسیر وحیدی "کو بھی مطبوعہ شکل میں نہیں دیکھ سکے ۔"تفسیر وحیدی" کی دوبارہ کتابت وطبا عت کا منصوبہ مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے چھوٹےصاحبزادے انجینئر عتیق الرحمٰن کیلانی کی خواہش پر شروع کیا گیا تھا وہ اسے ریاض (سعودی عرب ) میں چھپوانا چا ہتے تھے امید ہے کہ اب یہ منصوبہ اپنے آخری مر حلے میں ہو گا ۔
افرا د خا ندان کے ساتھ تعاون اور اس کے لیے وصیت :۔
مذکورہ علمی و دینی خدمات کے علاوہ مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بہت بڑی رفا ہی خدمت یہ بھی ہے کہ اپنے خا ندانکے افراد کی ایک بڑی تعداد کو فن کتابت سے روشناس کروایا اور کتابت سکھا کر انہیں اپنے اپنے خا ندانوں کی کفا لت کے قابل بنا یا نفسا نفسی کے اس دور میں یہ ان کی ایک بہت بڑی خدمت ہے جس کا تعلق صلہ رحمی اور لوگوں کو نفع پہچانے سے ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں بڑی تا کید اور فضیلت ہے اپنی اولا د کو بھی انھوں نے وصیت کی ہے کہ اہل خا ندان کے ساتھ معاونت صلہ رحمی میں کبھی کوتا ہی نہیں کرنا اور ان کے دکھ درد میں قدمے سخنے اور درہمے شریک رہنا مو لا نا مرحوم کا یہ جذبہ بھی مفقود ہو تا جا رہا ہے اور یوں افراد خا ندان کے ساتھ باہمی تعا ون اور خیرخواہی کا سلسلہ بھی کمزور تر بلکہ رقابت اور حسد میں تبدیل ہو تا جا رہا ہے ۔جو اسلامی نقطہ نظر سے نہایت ناپسندیدہ ہے۔بہر حا ل علم و فضل کے ساتھ مزاج و طبیعت کے یہ سادگی اور اخلا ق و کردار کی یہ رفعتیں جن سے مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ متصف اور بہرہ ور تھے بہت ہی کامیاب ہیں اللہ تعا لیٰ انہیں ان خوبیوں اور ان کے کا موں کا بہترین صلہ آخرت میں عطا فر ما ئے اور ہم سب کو ان خوبیوں کے اپنا نے کی اور ان کے سے کا م کرنے کی تو فیق عطا فر ما ئے۔
غفرالله له ورحمة وبرد مضجعه وجعل الجنة مثواة...أمين يارب العالمين