کیا ’’ اسماعیلیہ ‘‘ مسلمان ہیں؟
حصہ اول:۔اس حصے میں ایسے عقائد ونظریات کا ذکر ہے جن میں کم از کم نا کی حد تک مسلمانوں اور اسماعیلیوں میں اشتراکیت موجود ہے۔
الف:ارکان اسلام۔۔۔۔۔۔۔1۔کلمہ ء شہادت
اسلام میں داخل ہونے کے لئے کلمہ شہادت کازبان سے اقرار کرنا ضروری ہے ۔اس کلمہ ک دو اجزاء ہیں۔یعنی اشهد ان لا اله الا الله اوراشهد ان محمد رسول الله اور اگر کوئی مسلمان بھی ان دونوں اجزاء یا دونوں میں سے کسی کا زبانی یا معنوی طور پر انکار کردے،یا اس سے ایسے اعمال سرزد ہوں جن سے اس کلمہ کے کسی جزو کی تردید ہوتی ہو تووہ شخص دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔قادیانیوں نے اس کلمہ کے دوسرے جزو کا معنوی طور پر انکار کیا۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تا قیامت واجب الاتباع تسلیم کرتے ہوئے ایک اور"نبی کی نبوت" کو تسلیم کرلیا تو پاکستان کی عدالت عالیہ نے اس فرقہ کو1975ء میں غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔
تمام اہل سنت کے برعکس اسماعیلیہ فرقہ کے کلمہ شہادت کے اجزا دو نہیں بلکہ تین ہیں:
اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان محمد رسول الله واشهدان امير المومنين علي الله(1)
علاوہ ازیں ان کے ہاں پہلے دو اجزاء (جو سب مسلمانوں میں مشترک ہیں) کا بھی وہ مفہوم نہیں۔جو دوسرے مسلمانوں کے ہاں پایا جاتاہے۔کلمہ کے پہلے جزء لا اله الا الله کا عام مفہوم یہ ہے کے اللہ کے سوا کوئی معبود یا عبادت کے لائق نہیں۔اگرچہ بعض مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات الوہیت یعنی مشکل کشائی اور حاجت روائی وغیرہ میں اپنے زندہ یا فوت شدہ بزرگوں اور پیروں کو بھی شامل کرلیا تاہم غیر اللہ کو سجدہ کرنا ایسا عمل ہے جسے مسلمانوں کے تمام فرقے حرام سمجھتے ہیں مگر اسماعیلی اپنے حاضر امام کو سجدہکرتے اور اس کام کو کارثواب اور اصل عبادت سمجھتے ہیں۔درج ذیل اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
1۔اس دنیا میں جو مومن پہلے تھے اور جو مومن اس وقت ہیں اور جو آئندہ ہوں گے سب مومن "شاہ پیر"(2) کی عبادت کرتے تھے،کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
2۔"پیر شاہ ہمارے گناہ بخش دیتے ہیں۔۔۔امام حاضر کو ہم "پیر شاہ" کہتے ہیں(3)
3۔امام (علی) کے ظاہر ہونے کے بعد اللہ نے اسلام مقبول کیا اورپیغمبر کا دور ختم ہوا اس کے بعد کوئی پیغمبر اس دنیا میں نہیں آیا۔اس کے معنی یہ ہیں کہ امام کا ظہور اللہ کا ظہور ہے ۔جس کی پہچان اللہ کی پہچان ہے۔جس کی بندگی اللہ کی بندگی ہے جس کی حمد اللہ کی حمد ہے جس کی بیعت اللہ کی بیعت ہے جس کی فرمانبرداری اللہ کی فرمانبرداری ہے"(4)
ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیلیہ نے زبانی اقرار کے باوجود،اپنے حاضر امام میں تمام صفات الوہیت ماننے کی بناء پر معنوی طور پر لا اله الا الله کی تردید کی ہے۔اور عملی طور پر جس طرح تردید کی ہے اس کا بیان آگے آئے گا۔
اب کلمہ شہادت کے دوسرے جزو محمد رسول الله کی طرف آئیے۔اس کا عام مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اورثابت شدہ تمام اقوال وافعال قیامت تک کےلیے تمام مسلمانوں کے لئے واجب الاتباع ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل کے مقابلے پر کسی کا قول یا فعل ترک کردیا جائے اسماعیلیہ کا زبانی دعویٰ یہی ہے کہ جیسا کہ اسماعیلیہ (5) تعلیمات پرائمر کے ص5پر"ذہنی مشق" کے عنوان کے نیچے یوں لکھا ہواہے:
اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن شریف
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث شریف
حاضر امام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرمان مبارک
پیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گنان شریف
مگرعملاً حاضر امام کے فرمان مبارک کےمقام کے بالمقابل حدیث شریف کا تو ذکر ہی کیا،وہ فرمان مبارک قرآن کےمقابلہ میں یاتو اس کے ہم پلہ ہوتے ہیں یا اس سے بلند تر درجہ رکھتے ہیں۔
درج ذیل اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
1۔"قرآن شریف کی صحیح سمجھ اور اس کے چھپے بھیدوں کے صحیح معنی اور صحیح علم امام حاضر کوہی ہوتاہے۔امام حاضر قرآن ناطق(بولتا ہوا قرآن) ہے،اس لئے اس کے فرمانوں کے مطابق عمل کرنا چاہیے"(6)
2۔"نزول وحی کا سلسلسہ ختم ہونے کے بعد زمانہ کے اماموں کی معرفت ان کے فرمانوں کی شکل میں جو ہدایات کی جاتی ہیں وہ اللہ کے کلام کے برابر ہیں"
3۔اللہ نے حضرت پیغمبر کی معرفت تیس پورے نازل کئے (باقی دس پارے) زمانہ کے اماموں کی معرفت ان کے فرمانوں کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں"(7)
در ج بالا ہر دو اقتباسات میں فرامین حاضر امام کو قرآن کےہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔لیکن درج ذیل فرمان میں فرمان تو درکنار گنان کا درجہ بھی قرآن سے بڑھا دیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیے:
4۔آپ لوگوں کو جو علم ہے وہ گنان ہے۔قرآن شریف کو تیرہ سوسال ہوچک ہیں ۔وہ ملک عرب کی آبادی کے لئے ہے۔جبکہ گنان کوسات سو سال ہوئے ہیں اور تم لوگوں کے لئے گنان ہے اور اسی پرعمل کرنا"(8)
قرآن کو چھوڑنے اور گنان کو اپنانے کی وجہ بھی خوب بتلائی ہے۔آنجہانی سر آغاخان سوم سلطان محمد شاہ اپنے فرامین کی قرآن پر بالادستی کا اظہار یوں فرمارہے ہیں:
5۔"دین کی ہدایت کے لئے صرف کتابیں اور تحریری الفاظ ہی کافی نہیں"(لندن جماعت خانہ۔11جون 15ء)(9)
6۔"اسماعیلیوں کے پاس ہدایت کے لئے کوئی تحریری کتاب نہیں بلکہ حیات امام ہے"(بمبئی 28 دسمبر 1945ء)(10)
غور فرمایئے کہ جب فرامین مبارک بلکہ گنان شریف کے مقابلے میں قرآن شریف کی بھی کچھ حیثیت نہ ہوتو حدیث شریف کس کھیت کی مولی ہوئی۔اب اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اسماعیلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے امام حاضر کا درجہ بلند تر سمجھتے ہیں ۔درج ذیل سوال جواب ملاحظہ ہو:
سوال:پیغمبر یعنی ناطق اور اساس یعنی "امام"ان دونوں میں سے درجہ کس کا بڑا ہے؟
جواب۔اساس کادرجہ بڑا ہے کیونکہ جو کام پیغمبروں سے نہیں ہوسکتا تھا وہ"اساس" امام کرتے تھے اور پیغمبروں میں سے اماموں کو بنانے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ہواتھا۔اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اساس کادرجہ بڑا ہوتاہے۔پیغمبراللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں اور اسکے ذریعہ اللہ کی پہچانکراتے ہیں جبکہ"اساس" یعنی امام اپنی ذاتی طاقت سے بذات خود ہدایت کرتے ہیں۔اپنی پہچان آپ کرواتے ہیں اور ان کو کسی کی مددکی ضرورت نہیں ہوتی(11)
ان تصریحات سے معلوم ہوجاتاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مفہوم عام مسلمان سمجھتے ہیں اسماعیلیوں کے ہاں یکسر مفقود ہے۔
کلمہ شہادت میں اثنا عشری شیعوں نے بھی ایک تیسرے جز ء علی ولی اللہ کا اضافہ کرلیا۔جسکے معنی ہیں کہ علی اللہ کے وصی ہیں۔یعنی اللہ کا حکم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدانہیں خلیفہ بنا۔
اور اسماعیلیوں نے جو اضافہ کیا وہ ان امیر المومنین علی اللہ ہے جس کے معنی ہیں کہ علی اللہ ۔علی اللہ سے ہیں۔ہم اپنے اس معنی کے تائیدمیں درج ذیل گنان پیش کرتے ہیں:
"اس وقت نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتلایاکہ:
بھائی فرشتو!آپ کو ایک بہت ہی اچھی بات بتلاتا ہوں(کہ جب علی پیدا ہوئے تو) انہوں نے اپنا تعارف مجھ کو خود ہی کروایا کہ وہی تو(علی) پوری کائنات کا خالق ہے۔اس لیے علی کوصحیح اللہ کہیے۔اس عقیدہ میں ذرہ برابر کمی نہ کریں"(12)
2۔"اول ہی سے جو اللہ ہے اسے علی کہیے۔"
"نبی محمد نے اپنے شوہر(یعنی علی) کو پہچانا"(13)(نعوذ باللہ من ذلک الھفوات)
3۔"جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ علی کا دیدار کیا تو سب سے اول ان کو صحیح اللہ پایا"(14)
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ علی تو صحیح اللہ ہیں اور دوسرے امام حاضر بھی اللہ کا مظہر ضرور ہیں۔ان کا کلام،کلام اللہ سے بڑھ کر تو ہوسکتاہے مگر کمزور نہیں ہوسکتا۔اب خود ہی فیصلہ کرلیجئے کہ مسلمانوں کے کلمہ شہادت اور اسماعیلیوں کے کلمہ شہادت کے مفہوم میں کوئی قدر مشترک باقی رہ جاتی ہے؟
نماز(دوسرا رکن اسلام)
کلمہ شہادت کے بعد اسلام کا دوسرا رکن،جس کی قرآن میں سات سو بار تکرار سےتاکیدآئی ہے ۔یہ پانچ وقت کی نماز مسجد میں جاکر باجماعت ادا کرناضروری ہے ۔اسماعیلی فرقہ اس وقت نماز کاتارک ہے اور اسے تسلیم نہیں کرتا۔وہ صلوۃ کے معنی"دعا" کرکے اس شرعی تکلیف سے آزاد ہوگئےہیں۔اس سلسلسہ میں اسلامی تعلیمات کے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
1۔ہمارے نزدیک اس(لفظ صلوۃ) سے مرادوہ خاص عبادت ہے جو مقررہ اوقات پر کی جاتی ہے۔مقررہ اوقات پر دعاپڑھنا ہر مو من پر فرض ہے۔قرآن پاک میں دعا کے لئے صلوۃ کا لفظ بھی استعمال ہواہے"(15)
3۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکے مطابق صلوۃ(دعا) مومن کی معراج ہے"(16)
مسجد کے بجائے جماعت خانہ:،۔
اسماعیلی چونکہ نماز نہیں پڑھتے لہذا اپنی "دعا گاہ" کو مسجد بھی نہیں بلکہ "جماعت خانہ "کہتے ہیں۔بلکہ دنیابھر کے اور ہر فرقہ سے تعلق رکھنےوالے مسلمان اپنی عبادت گاہ کو مسجد ہی کہتے ہیں۔اقتباس ذیل ملاحظہ فرمائیے:
"یوں تو دعا کیسے بھی ادا کی جاسکتی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ دعا پڑھنے کے لئے مومن مولا کے گھر یعنی جماعت خانہ جائے"(17)
دعا بھی روزانہ صرف دو بار فرض ہے:۔
یعنی صبح کی اورشام کی دعا۔آج کل جودعا جماعت خانوں میں پڑھی جاتی ہے یہ حاضر امام کریم حسینی کی منظور شدہ ہے جو انہوں نے 21 مارچ 1970ء کو منظور (18)کی۔اس سے پہلے یہ صلوۃ یا دعا کونسی اور کیسے پڑھتا تھا،یہ (لفظ مٹا ہواہے)ہمیں معلوم نہیں۔
موجودہ منظور شدہ دعا کے چھ حصے ہیں۔چھٹے حصہ میں اسماعیلی اماموں کا شجرہ ہے ہر حصے کے خاتمہ پر سجدہ کیا جاتاہے جس میں پڑھا جاتاہے" اللهم لك سجودي وطاعتي " جب سجدہ کرلیاجاتاہے تو ہر جماعت خانہ میں سامنے حاضرامام کی قد آدم تصویر موجود ہوتی ہے۔ جس کے مطلب یا وضاحت کی ہمیں ضرورت نہیں ۔مکھی اور کامڑیا(جماعت خانہ کے منتظمین وغیرہ) کا منہ چونکہ مومنین یا دینداروں کی طرف ہوتا ہے،اس لئے ان کے لئے ان کے سامنے علیحدہ حاضرامام کی تصویر لگی ہوتی ہے۔اب آپ خود فیصلہ کرلیجئے کہ نماز کے سلسلہ میں اسماعیلیوں اورعام مسلمانوں کے درمیان کیا فرق مشترک باقی رہ جاتی ہے؟
3۔زکوۃ:۔
اسلام کا تیسرا اہم رکن جس کا حکم قرآن میں تقریباً ستربارآیا ہے اس کا عام مفہوم یہ ہے ہر غنی یا صاحب نصاب مسلمان ہر سال بعد اپنی بچت کا چالیسواں حصہ نکال کراللہ کی راہ میں دے دیتاہے۔زکوۃ،انفرادی طور پر نکالی جائے یا اجتماعی طور پر اس کا کیا حصہ وفادار افراد کو دیاجاتاہے۔گویا زکوۃ کے پیسہ کا بہاؤ امیر طبقہ سے غریب کی طرف ہوتاہے۔
اسماعیلی فرقہ میں ایسی زکوۃ کا تصور تک نہیں۔اس کے بجائے ان کے ہاں کا ہردیندار اپنی آمدنی کا دسواں حصہ(دسوند) نکا ل کراپنے امام حاضر کو پیش کرنے کا پابند ہوتاہے پھر اسے امام حاضر کے علاوہ اپنے پیر کے لئے بھی آمدنی کا چالیسواں حصہ نکالنا ہوتاہے۔اوراس کے علاوہ شکریت اور دوسری کے نذرانے الگ ہیں۔درج ذیل گیان ملاحظہ فرمائیے:(19)
"ست گرجی(سچے گوروجو یعنی حاضر امام)کی خدمت"دسوند"دیتے رہیے۔
اور چالیسواں حصہ "پیر " کو دیتےرہیے
اور بےشمار شکریت دیتے رہیے
جو خلوص کے ساتھ دسوند اورشکریت دیتے ہیں۔
انکی جب آخری گھڑی آئے گی( یعنی موت کا وقت) تو یہ آپ(امام) کے پاس پہنچیں گے"اب دیکھئے زکوۃ اور دسوند میں درج ذیل بنیادی فرق ہیں:
1۔۔زکوۃ بچت پر لگتی ہے جبکہ"دسوند"آمدنی پر لگتا ہے۔
2۔زکوۃ کی شرح ڈھائی فیصد یا چالیسواں حصہ ہے جبکہ دسوندکی شرح تحریر میں دس فیصد اور عملاً ساڑھے بارہ فیصد ہوتی ہے یاآٹھواں حصہ ہوتی ہے۔
3۔زکواۃ صرف مالداروں پر لگتی ہے،جبکہ دسوند امیر وغریب سب کے لئے ہے۔
4۔زکوۃ میں زکوۃ ادا کرنے والے کی ضروریات کا لحاظ رکھاجاتاہے۔لیکن دسوند میں کچھ خیال نہیں رکھا جاتا۔
5۔زکوۃ کی رقم کا کثیر حصہ غریبوں کی جیب میں جاتاہے۔جبکہ دسوند کی رقم امام حاضر(جو پہلے ہی امیر کبیر ہیں) کی جیب میں جاتی ہے۔
6۔زکوۃ باقی مال کو معمولی قسم کی لغزشوں سے پاک کرتی ہے۔سود یا حرام کی کمائی زکاۃ کو پاک نہیں کرسکتی۔لیکن دسوند ادا کرنے کے بعد بقایامال خواہ کس طریقے سے کمایا ہو پا ک ہوجاتاہے۔
اندریں حالات دسوند کو کسی حد تک انکم ٹیکس کا نام تو دیا جاسکتاہے لیکن اس کا اسلامی فریضہ زکوۃ سے کوئی تعلق نہیں۔
4۔روزہ:۔
اسلام کا چوتھا رکن پورے ماہ روزہ رمضان کے روزے اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر فرض قراردیئے ہیں۔لیکن اسماعیلی اس فریضہ سے بھی آزاد ہیں۔اسکے عوض انکے ہاں درج ذیل دوطرح کے روزے رکھے جاتے ہیں:
1۔جمعہ بیچ(یعنی وہ جمعہ جو چاند کی پہلی کو آئے) کاروزہ۔
"جمعہ بیچ تقریباً ہر چھ ماہ میں ایک مرتبہ آتی ہے اور ہر ایک دین دار کو یہ روزہ فرض ہونے کی بناء پر اسے عمل میں لانے کی کوشش کرنی چاہیے سوائے کسی ناگزیر وجہ بیماری کے"(20)
2۔چاند کے بعد ساتویں تاریخ کاروزہ۔
"1962ء سے مولانا حاضرامام(شاہ کریم حسینی) کے فرمان کے مطابق اس روزے کو شاہ مولا کے روزے کا نام دیاگیا ہے ۔اس روزے کے دن جماعت خانہ میں گنان شریف،فرمان مبارک اورکلام بولا اور پڑھا جائے"(21)
اب دیکھئے ہر ماہ میں ایک روزہ یا سال کے بارہ روزے تو موجود امام نے 1962ء سے فرض کیے اس سے پہلے اسماعیلیوں پر صرف دو روزے یعنی جمع بیچ کے روزے فرض تھے؟یہ دو روزے کس امام نے اور کب فرض کئے تھے،یہ ہمیں معلوم نہیں۔نیز ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ماہ رمضان کے تیس روزے جو اللہ نے فرض کئے تھے وہ کس امام نے اور کب معاف کردیے تھے۔
5۔حج:۔
اسلام کا پانچواں رکن ،ہر صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک بار بیت اللہ کاحج اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر فرض قرار دیاہے۔اسماعیلی حضرات اس فریضہ سے بھی آزادہیں۔کوئی اسماعیلی کاروبار کی غرض سے یا ازراہ سیروتفریح مکہ چلاجائے اوروہاںحج یا عمرہ کرلے تو اسے اس بات کی اجازت ہے حج یا عمرہ کو ایک فریضہ سمجھ کر کوئی اسماعیلی ارادتاً اور تکلفاً وہاں نہیں جاتا۔
ب۔دیگر اسلامی شعائر:۔
ارکان اسلام کے علاوہ کچھ ایسے اسلامی شعار بھی ہیں جنھیں مسلمانوں کے سب فرقے تسلیم کرتے ہیں مگر اساعیلیوں نے ان میں یا تو نئی راہ نکال لی ہے یابالکل متضاد روش اختیار کررکھی ہے اور وہ درج ذیل ہیں:
1۔سلام اور سلام کا جواب:۔
مسلمانوں کے تمام فرقوں میں مسنون سلام وجواب السلام علیکم اور وعلیکم السلام ہے۔لیکن اسماعیلی فرقہ اس مسئلہ میں متضاد روش اختیار کرتا ہے۔ان کے ہاں سلام وجواب کو مندرجہ ذیل دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
1۔جب کوئی دیندار جماعت خانہ میں جائے تو کہتا ہے "ہےزندہ؟" دوسرے اسے جواب دیتے ہیں "قائم پایا"(22)
در اصل اس سوال وجواب میں اساعیلیوں کا ا پنے امام کےمتعلق حی قیوم ہونے کے عقیدے کو بار بار دہرایا جاتاہے۔آنے والا پوچھتا ہے کیا ہمارا امام زندہ ہے؟اورجواب دینے والا کہتا ہے"ہم نے تو اسے قائم ہی پایا ہے۔"اس طرح ہر آن مریدوں کے ذہن سازی کی مہم جاری رہتی ہے۔
2۔اور جماعت خانہ سے باہر جب کسی کو سلام کہنا ہوتو کہنے والا کہتا ہے"یاعلی مدد" جواب دینے ولا کہتا ہے "مولا علی مدد" ان کی درسی کتاب میں یہ مضمون یوں ادا کیاگیا ہے:
"یا علی مدد" ہماراسلام ہے۔"مولا علی مدد" سلام کا جواب ہے"(23)
2۔نو روز اور سال نو:۔
مسلمانوں کاہجری سال چاند سے تعلق رکھتاہے اور یہ یکم المحرم کو شروع ہوتاہے تاہم یہ دن مسلمانوں کا کوئی تہوار نہیں ہے اسماعیلی اس مسئلہ میں بھی متضاد روش رکھتے ہیں۔ان کا سال شمسی ہیے جو 21 مارچ کو شروع ہوتاہے اور اس دن اسماعیلی تہوار بھی مناتے ہیں ۔درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
"نور روز کی خوشی منانا اسماعیلیوں کی ایک قدیم روایت ہے اسکی سالانہ مجلس 21 مارچ کو صبح صادق کے بعد ہر ایک جماعت خانے میں منعقد کی جائے۔21مارچ کو مذہبی نقطہ نگاہ سے ہمارا نیا سال شروع ہوتاہے۔"(24)
اب تو یہ ظاہر ہے کہ 21 مارچ(نور روز) سے مجوسیوں اور سورج پرستوں کو تو عقیدت ہوسکتی ہے مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق؟
3۔تہذیب مغرب سے دلدادگی:۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب کی نقیض(ضد) ہے۔اسماعیلیوں میں عورت کا پردہ نام کی کوئی چیز نہیں۔جماعت خانوں میں البتہ عورتوں کے الگ بیٹھنے کی جگہ مقرر ہوتی ہے لیکن کئی قسم کی مجالس میں عورتیں اور مرداکھٹے ہوتے ہیں حاضر امام اور آپ کے باپ دادا کا تہذیب مغرب سے دلدادگی کا یہ عالم ہے کہ حاضر امام کی والدہ لارڈ پرنس کی بڑی صاحبزادی ہیں۔آپ نے برطانیہ،سوئٹزرلینڈ اور ہاورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرکے گریجویٹ کی ڈگری لی ہے۔لیکن دینی تعلیم کی شاید آپ کو ضرورت ہی نہ تھی ہوسکتاہے کہ زیر نور خدا کی طرح یہ دینی علم بھی ان اماموں میں نسلاً بعد نسل از خود ہی منتقل ہوتا رہتاہے۔
امام حاضر کے دادا آغاخان سوم ریس کورس کے انتہائی شیدائی تھے اور ان کے بیشتر گھوڑوں نے بازی جیتی ہے۔حاضر امام اورآپ کے آباواجداد کا لباس اور وضع قطع بھی تہذیب مغرب کی دلدادگی پر بڑی واضح دلیل ہے۔علاوہ ازیں تمام جماعت خانوں میں امام حاضر کی قدآدم تصویر کی موجودگی اور آپ کے پیروکاروں کا ان کے آگے سربسجودہونا مستزادہے۔غور فرمایئے ان تمام امور میں سے کوئی بات بھی اسلامی نقطہ نگاہ سے ایک مذہبی رہنما کے شایان شان ہوسکتی ہے؟
4۔اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت کے بجائے اخفا:۔
ہر مسلمان پر اسلامی تعلیمات کی اشاعت فرض ہے۔قولاًبھی اور عملاً بھی۔مسلمان جہاں بھی گئے۔وہاں مساجد تعمیر کیں،دینی مدارس قائم کئے۔اور علماء نے اپنی تصانیف کے ذریعے حتیٰ الوسع دینی تعلیم کی نشرو اشاعت کو اپنا معمول بنایا مگر اسماعیلی فرقہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر کہیں ان کے جماعت خانے ہیں بھی تو وہ عوام پر بند ہیں ان کے مذہبی تعلیم کے مدارس صرف نائٹ سکولزہیں جہاں غیر اسماعیلی بچوں کو داخل نہیں کیا جاتا۔ان کی مذہبی کتابیں صرف اسماعیلیہ ایسوسی ایشنز ہی چھاپ سکتی ہیں۔جنھیں کوئی غیر اسماعیلی خرید بھی نہیں سکتا۔اس سلسلہ میں میں"ہماری مقدس مذہبی رسومات"کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
'جماعت خانے کے احاطے میں جماعت کی سہولت کے لئے اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کی طرف سے مذہبی کتابیں خریدنے کا خاص بندوبست کیا جائے گا اس کے علاوہ کسی بھی شخص یا ادارے کو مذہبی کتاب جمع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔سوائے اس کے کہ کسی خاص حالات کے تحت اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کی طرف سے اجازت لی گئی ہو"(25)
اسلام افشاء وتبلیغ کا دین ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ اور فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ کا حکم تھا۔اس لحاظ سے اسماعیلی مذہب اسلام کے عین ضد ہے غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فرقہ کی کچھ تعلیمات ایسی بھی ہیں جنھیں یہ اوراق میں منتقل ہونے ہی نہیں دیتے بلکہ یہ رازایسے ہیں جو سینہ بہ سینہ چلتے ہیں۔جیسا کہ ابو عبداللہ شیعی کے متعلق پانچویں درسی کتاب میں لکھا ہے کہ:
"حضرت امام( رضی عبداللہ) علیہ السلام) (اسماعیلیوں کے دسویں امام) نے ابو عبداللہ کو لائق اور قابل آدمی دیکھ کر واعی ابن حوشب کے پاس تعلیم کی غرض سے یمن بھیج دیا۔چنانچہ انکے زیر تربیت ابو عبداللہ نے اسماعیلی مذہب کے راز سیکھے۔جب اسماعیلی تعلیمات میں بالکل پختہ ہوگئے تو حضرت امام علیہ السلام کے حکم سے آپ کو داعی بنا کر مغرب(شمالی افریقہ) کی طرف بھیج دیا گیا"(26)
اسماعیلی راہبوں کو کیا راز سکھلائے جاتے تھے؟یہ بات ان کے لٹریچر سے نہیں مل سکتی اس فرقے کا ایک عظیم داعی حسن بن صباح)(م1134ء/518ھ) بھی تھا جس کے متعلق لکھا ہے کہ وہ:
"حضرت امام مستنصر باللہ کے زمانے کے ایک عظیم داعی اور بہادر فدائی تھے۔جنھوں نے قلعہ الموت فتح کیاتھا"(27)
اب اس عظیم داعی کے کردار سے کچھ نہ کچھ ان خفیہ رازوں پر روشنی پڑ جاتی ہے اس داعی کا کردار یہ تھا کہ وہ:
"ایک دہشت پسند تنظیم اور خفیہ جماعت کابانی تھا۔ اس نے کو ہ البرز میں واقع قلع الموت(الموط) کو فتح کیا،وہ اپنے مریدوں کو حشیش پلوا کر بے ہوش کردیتا تھا پھر وہ انہیں اس فردوس میں پھراتا جو اس نے وادی الموت میں بنائی تھی۔اس بہشت میں اس نے بہت سی خوبصورت عورتیں رکھی ہوئی تھیں۔اس دہشت پسند جماعت کے ارکان کو فدائین کہا جاتا تھا اور ان فدائیں سے مشہور ہستیوں کے قتل کا کام لیا جاتا اور اس کے عوض انہیں بہشت میں رہائش مہیا کی جاتی تھی۔اس کے جانشین صدیوں اپنے فدائیں کے بل بوتے پر اپنے ملحدانہ خیالات کی نشر واشاعت کرتے رہے۔وسط ایشاء کے بڑے بڑے حکمران ان سے لرزہ براندام رہتے تھے آخر ساتویں صدی ہجری میں ہلاکو خاں نے قلعہ الموت کو فتح کیا اور ان کی پشت اور ملجا ماویٰ کو کو تہس نہس کرکے ایک عالم کو ان کے مظالم سے رہائی دلائی۔"(28)
غالباً ایسے ہی کچھ راز ہوتے تھے جو اس فرقہ کے داعیوں کو سکھلائے جاتے تھے۔
حصہ دوم:۔
اس حصہ میں چند ایسے امور کا ذکر کیا جائے گا جو ا سماعیلی فرقہ میں تو روح رواں کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اسلام سے ان کاکچھ تعلق نہیں ہے اور یہ دو طرح کے ہیں:
الف۔عقائد سے متعلق۔اور(ب)عبادات وشعائر سے متعلق
الف:۔اسماعیلی عقائد:۔
عقائد سے متعلق تین امور قابل ذکر ہیں:الف۔امامت۔(ب)نور امامت اور(ج) شان امامت:۔
1۔امامت:۔
امامت کا عقیدہ صرف اسماعیلیوں میں ہی نہیں بلکہ شیعہ حضرات کے تمام فرقوں میں پایا جاتا ہے۔قرآن کریم کی رو سے مسلمانوں کا امام صرف ان میں ان کا سب سے متقی شخص ہی ہوسکتا ہے۔اور تقویٰ کا نسلا بعد نسل اولاد اور ان کی اولاد میں منتقل ہوتے چلے جانا عقلا محال ہے۔دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک مثال ایسی ملتی ہے جہاں چار پشتوں تک یہ سلسلہ رہا۔یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی تھے۔پھر ان کے بیتے اسحاق علیہ السلام نبی ہوئے۔پھر ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام نبی ہوئے اور پھر ان کے بیٹے یوسف علیہ السلام نبی ہوئے اس کے بعد یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔اب اثنا عشری تو یہ سلسلہ بارہ اماموں تک چلا کر بارہویں امام کو غائب بتلاتے ہیں جبکہ اسماعیلی(نزاری) بوہرے اس کو تا قیامت جاری رکھنے کے قائل ہیں۔اس وقت نزاری اسماعیلیوں کے 49 ویں امام شاہ کریم حسینی ہیں اور مستطوی اسماعیلیوں یا بوہروں کے 51 ویں امام ملا طاہر سیف الدین ہیں۔اسماعیلی بھی ابتداء کسی امام کے غائب ہونے اور پھر کسی وقت بطور امام مہدی ظاہر ہونے کے قائل تھے جیسا کہ ان کا ا پنے ساتویں امام محمد بن اسماعیل کے متعلق عقیدہ تھا۔اور اس لئے اس فرقے کو سبعیہ(یعنی سات اماموں والا) بھی کہتے ہیں جبکہ اثناء عشری ا پنے اماموں کا سلسلہ چلا رہے تھے پھر اثناء عشری نے ا پنے بارہویں امام،اما م مہدی کے غائب ہونے اور دوبارہ کسی وقت ظاہر ہونے کے عقیدہ کو اختیار کرلیاتو اسماعیلیوں کے عقیدہ میں غالباً رقابت کے طور پر ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ انہوں نے اپنے پہلے عقیدہ کوچھوڑ کر ازسر نو امامت کے سلسلہ کو جاری کردیا۔(29) جو آج تک جاری ہے۔
شیعان علی نے ابتداء ہی میں یہ توطے کرلیا کہ اما مت اولاد علی کا حق ہے۔ مگر اس کی جزئیات میں بہت سے اختلافات واقع ہوئے مثلاً امامت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں ہو یا صرف بنو فاطمہ میں؟کیسانی نے حضرت علی کے بیٹے محمد بن حنفیہ کو امام تسلیم کرلیا اور الگ فرقہ بن گیا لیکن شیعہ کے باقی فرقے صرف بنو فاطمہ کو ہی امامت کاحق دار سمجھتے ہیں اور عجیب تر بات یہ ہے کہ اسماعیلی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے بیٹے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت سے خارج کردیتے ہیں جبکہ اثناء عشری دوسراامام حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی تسلیم کرتے ہیں۔
نسلی امامت کے سلسلہ میں اس اختلاف کا بھی فیصلہ نہ ہوسکا کہ آیا یہ امامت صرف بڑے بیٹے کاحق ہے یا چھوٹا بھی امام بن سکتا ہے۔اسماعیلیوں نے امام جعفر صادق کے بڑے بیٹے کو امام تسلیم کرتے حالانکہ وہ امام جعفر صادق(م148ھ) کی وفات سے پانچ سال پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔اثنا عشری ان کے چھوٹے بیٹے موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کرتے ہیں۔پھر اسماعیلیوں میں سے بھی کچھ لوگ چھوٹے بیٹے کی امامت کے قائل ہوگئے۔مستعلوی بوہرے اسی وجہ سے نزاریوں سے الگ ہوئے کہ انہوں نے مستصم باللہ کے چھوٹے بیٹے مستعلی کو امام تسلیم کرلیا۔جو اس وقت سلطان تھے اور بڑے بیٹے نزار اور ان کے بیٹے ان کی قید میں تھے۔
تیسرااختلاف بعض اماموں کے مستور ہونے یا ان کو مستور کردینے سے ہوا۔مستور ہونے،کامطلب قیامت کے قریب ظاہر ہونے کا عقیدہ تقریباً سب شیعہ فرقوں میں پایا جاتا ہے۔کسی فرقے کی نزدیک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فوت نہیں ہوئے بلکہ بادلوں میں مستور ہیں ۔اسماعیل بھی مستور تھے محمد بن اسماعیل بھی ،اثنا عشری کے بارہویں امام مہدی بھی اور مستطیوں کے امام طیب بھی ۔ایسے ہی اختلافات نے شیعوں کو بے شمارفرقوں میں تقسیم کردیا۔
اہل سنت کے عقیدے کے مطابق امامت کو بطور حق نسلا بعد نسل آگے منتقل کرنے کا عقیدہ سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔اور اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اماموں کےمعصوم ہونے اور ان کی غیر مشروط اطاعت کا عقیدہ معنوی طور پر عقیدہ ختم نبوت کا نقیض(متضاد) ہے۔
2۔نور امامت:۔
نور امامت اسماعیلیوں کا برتر اصول ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نور حضرت علی میں منتقل ہوا۔وہ خدا کے اوتار تھے۔پھر یہ نورنسلاً بعد نسل ان کے اماموں میں منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔اسماعیلی اپنے امام حاضر کو حاضر ناضر سمجھتے ہوئے اس سے رفع حاجات اور مشکل کشائی نیز گریہ وزاری کی دعائیں حتیٰ کہ سجدہ بھی یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ ان کے اماموں میں اللہ کا نور منتقل ہوکر آچکا ہے۔لہذا ان کا حاضر امام خدا کا قائم مقام یا اوتار ہے۔
انتقال نور کے سلسلہ میں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ سرف بڑے بیٹے کی طرف ہی منتقل ہوتا ہے یا دوسرے کی طرف بھی ہوسکتاہے؟اگر یہ صرف بڑے بیٹے کی طرف ہی منتقل ہوتا ہے۔تو حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس نور سے کیوں محروم کیا جاتاہے۔اورحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یہ نور کیوں تسلیم کیا جاتا ہے؟اور اگر یہ چھوٹے بیٹوں کی طرف بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ تو ا ثنا عشریوں کا کیا قصور ہے جنھوں نے بڑے بیٹے اسماعیل کی غیر موجودگی یا وفات کی وجہ سے چھوٹے بیٹے موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کرلیاتھا یا بوہروں کا کیا قصور ہے جنھوں نے اس نور کی نزار کی بجائے مستعلی میں تسلیم کر لیاتھا۔
انتقال نور کے سلسلے میں یہ بات بھی باعث تعجب ہے کہ 11 جولائی 1957ء کو آغاخاں سوم سلطان محمد شاہ نے ا پنے بڑے بیٹے پرنس علی خاں اور چھوٹے بیٹے پرنس صدر الدین دونوں کی موجودگی میں ا پنے پوتے یعنی پرنس علی خاں کے بیٹے شاہ کریم حسینی کے امام حاضر ہونے کا اعلان کیا اوربیٹوں کو امامت اور نور امامت سے محروم کردیا۔اس واقعہ سے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔کہ انتقال نور کا صرف امام حاضر کو ہی علم ہوتاہے۔ اور دوسروں کو اس وقت معلوم ہوتاہے جب امام حاضر اعلان کرے۔یہ اصول بھی واقعات پر فٹ نہیں بیٹھتا۔اس طرح توحضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں امامت سے محروم ہوجاتے ہیں۔کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے قبل کسی کو بھی امامت کا اعلان نہیں فرمایاتھا۔اسی طرح جناب اسماعیل بھی اپنے بیٹے محمد کے امام ہونے کا اعلان نہ کرسکے تھے اور اس کی بھی بہت سی مثالیں ہیں۔
بہرحال انتقال نور کے سلسلے میں ان کے ہاں کوئی مستقل اصل نظر نہیں آتی۔اسی بے ضابطگی کی وجہ سے اسماعیلی مذہب دور فاطمین سے لے کر آج تک تفرقہ وتشت کا شکار ہوکر روبہ انحطاط چلا آرہاہے۔
3۔شان امامت:۔
ہم کلمہ طیبہ کے بیان میں ذکر کر آئے ہیں کہ اسماعیلیوں کے امام حاضر کا کلام یا فرامین مبارکہ درجہ میں کلام اللہ کے برابر یا اس سے بڑھ کر تو ہوسکتا ہے۔اس سے کم تر نہیں ہوسکتا ان کے نزدیک امام معصوم بھی ہوتاہے اور کلام اللہ کاحقیقی علم تو صرف اسے ہی ہوتاہے یہ عقیدہ در اصل شان رسالت اورختم نبوت دونوں کانقیض ہے۔
شان امامت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس سے ایسے ہی عاجزی وزاری سے دعا کی جانی چاہیے مثلاً ان درج ذیل گریہ وزاری کی دعائیں ملاحظہ فرمائیے:
"یا نور مولانا شاہ کریم حسینی حاضر امام چاند رات کے تمام ممبران کی اور حاضرخدمت کی کل مشکلات آسان کریں"
"یا مولانا حاضرامام!گت جماعت کے کل گناہ معاف کریں۔"
"یا مولانا حاضرامام!گت جماعت کو دسوند شکریت میں پورا رکھیں"
"یا مولانا حاضرامام!گت جماعت کو حقیقی سمجھ عطا فرمائیں"
"یا مولانا حاضرامام!گت جماعت کا ایمان سلامت رکھیں"
"یا مولانا حاضرامام!گت جماعت کو سکھی سلامت آباد رکھیں"
"یا مولانا حاضرامام!گت جماعت کو اپنے گھر کی اور گت جماعت کی خدمت کرنے کی اعلیٰ توفیق دے"
"یا مولانا حاضرامام!گت جماعت کو عبادت بندگی کرنے کی اعلیٰ ہمت بخشیں"
"یا مولانا حاضرامام!گت جماعت کو اپنا ظاہری باطنی نورانی دیدار نصیب کریں"
"یا مولانا حاضرامام!گت جماعت کی عرض ونیتی گریہ وزاری اپنے حضور پر نور میں قبول کریں"(30)
سو یہ ہے شان امامت۔بتلائیے یہ شان اللہ تعالیٰ سے کس صورت کم ہے؟
ب:عبادات وشعائر:۔
مندرجہ ذیل عبادات وشعائر فرقہ اسماعیلیہ میں تو موجود ہیں۔لیکن اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں:
1۔ستاڑے ڈالنا:۔
ستاڑے اسماعیلیوں کی ایک مذہبی رسم ہے جس میں سات دن تک تسبیح پڑھی جاتی اور دعائیں مانگی جاتی ہیں۔اس رسم کو جماعت خانے میں اس وقت ادا کیا جاتاہے۔جب ملک کو جنگ،سیلاب،زلزلے،قحط یا ایسی ہی کسی دوسری آفت کا سامنا ہو۔اسی طرح اگر کسی مومن پر برا وقت آن پڑے تو ستاڑا ڈالا جا تاہے۔اور پوری جماعت مل کر اس مشکل کے لیے دعائیں کرتی ہے۔علاوہ ازیں روحانی بہبودی حاصل کرنے کے لیے ستاڑے ڈالے جاتے ہیں۔(31)
ستاڑے کی تسبیح کاطریقہ:۔
"دوسری دعا کے بعد یا علی،یا محمد کی تسبیح پوری ہونے پر ایک لینٹی کا پاٹھ(ایجی کرپاکرہے دکھ دارید ٹکاڑو) بولاجائے اور ا س کے بعد مندجہ ذیل تسبیح نکالی جائے:اللہ الصمد(11دانے)سبحان اللہ (11دانے)بی بی فاطمہ کی تسبیح اللہ اکبر (11دانے) سبحان اللہ (11دانے) الحمد للہ (11دانے) اس کے بعد جماعت کی گریہ وزاری کی دعائیں ہیں جس میں مندرجہ ذیل دعاؤں کا اضافہ کیا جائے:
یا نور مولانا شاہ کریم حسینی حاضر امام ستاڑے کی برکت سے گت جماعت کے کل گناہ معاف کریں گے گت جماعت پر رحم کریں اورراضی ہوں گت جماعت کی کل مشکلات،آفت اور بیماریاں دور کریں۔گت جماعت کی نیک امیدیں پوری کریں"(32)
یہ ستاڑے ڈالنا اتنی اہم عبادت ہے ،جو سال میں چار دفعہ ضرور کرنی ہے چھوٹے گاؤں میں کسی خاص حالت کے تحت کم تعداد میں ستاڑے ڈالے جاسکتے ہیں۔ تاہم سال میں ایک مرتبہ ستاڑا ڈالنا لازمی ہے۔(33)
2۔نادی:۔
مومن جماعت خانے میں جاتا ہے تو امام حاضر کی مہمانی کے طور پر کوئی نہ کوئی چیز پلیٹ میں رکھ کر ساتھ لے جاتا ہے۔اورمکھی کامڑیا کے سامنے رکھی ہوئی تپائی پر(جسے وہ اپنی زبان میں پاٹ کہتے ہیں)
رکھ دیتاہے ۔پاٹ پر ایسی اشیاء کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔نیز یہ اشیاء جب تبرک کامقدس درجہ حاصل کرچکتی ہیں۔تو ان کی جماعت خانہ میں برسرعام بولی کر دی جاتی ہے متبرک ہونے کی وجہ سے ان اشیاء کی قیمت میں بہت اضافہ ہوجاتاہے۔ اسی بولی یا نیلامی کانام ان کی زبان میں "نادی" ہے۔نادی سے یہ رقم ہر جماعت خانہ میں روزانہ ہزاروں تک جاپہنچتی ہے۔اورتہواروں کے دن اس آمدن میں اوربھی زیادہ اضافہ ہوجاتاہے۔ایسی تمام رقوم امام حاضر کے کھاتے میں جمع ہوجاتی ہیں اور اسی طرح اسماعیلی روزانہ اپنے امام کی مہمانی کا حق ادا کرتے رہتے ہیں۔
3۔چھانٹے:۔
اگر عام پانی پر ناد علیا والی مشہور مشرکانہ رباعی پڑھ کر تین بار اس پانی پر دم کیا جائے۔تو یہ پانی چھانٹے (یا چھینٹے مارنے) کے لئے ہے۔یہ چھانٹے(الف) گناہوں کی معافی کے لیے(ب)دسوند میں بھول چوک کے لئے(ج) قیامت کے دن کی شفاعت کےلیے(د) بیمار کے بستر پر شفا اورصحت کے لئے ۔)ص) غسل میت کے بعد مغفرت کےلئے وغیرہ وغیرہ ڈالے جاتے ہیں چھانٹے کی رسم کے وقت چھانٹے ڈلوانے والا"بندہ گناہ گار گت بخشنے شاہ پیر بخشے"کہے۔اس کے بعد چھانٹا ڈالنے والا شخص تین مرتبہ چھانٹا ڈالتے ہوئے ہریار"فرمان" کہے اور اس وقت چھانٹا ڈلوانے والا "یا علی،یا محمد"کہے"(34)
اسماعیلیوں کی اس مذہبی رسم کی اہمیت ان مواقع سے بخوبی لگائی جاسکتی ہے جن پر ہم نے نمبر لگا دیے ہیں۔
4۔گناہوں کی معافی:۔
امام حاضر کی مہمانی کے بہت سے طریقے اسماعیلیوں میں رائج ہیں۔پہلا تو وہی ہے جس کا ذکر نادی کے سلسلے میں آچکا ہے۔اقتباس ذیل میں اس طریقہ کے علاوہ دوسرے بھی چند طریقوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:
"جب یہ ممکن نہ رہا کہ امام الوقت مریدوں کے گھر جاکر ان کی دعوت قبول فرمائیں تو مریدوں نے امام کی مہمانی جماعت خانہ میں کرنی شروع کی۔آج بھی مہمانی جماعت خانے میں روزانہ پیش کی جاتی ہے ۔مرید اسے روز مرہ کے کھانے پینے کی اشیاء کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔عموماً تہواروں پر مہمانی جوش وخروش کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔"
"مولانا حاضر امام کی تشریف آوری کے موقع پر بھی نہ صرف مرید ا پنے خاندانوں کی جانب سے مہمانیاں پیش کرتے ہیں بلکہ اداروں کی جانب سے بھی مہمانیاں پیش کی جاتی ہیں چنانچہ محبت کا یہ اظہارامام کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہے "(35)
ا ب مریدوں کی محبت حاصل کرنے کے لئے یا اماموں نے"محبت حاصل کرنے" کے نام پر مریدوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے جو طریقے وضع کئے ہیں۔ان میں چند ایک کاذکر تو اقتباس بالا میں آچکا اورچند ایک یہ ہیں:
1۔پنچ بارہ سا لی منڈلی(مجلس) میں شامل ہونے کا ہدیہ75روپےتھا ۔اب گرانی کی وجہ سے شاید ریٹ بڑھ گیا ہے۔
2۔بیت المال کی منڈلی(مجلس) میں شامل ہونے کا ہدیہ 280 ر وپے تھا اب گرانی کی وجہ سے شاید بڑھ گیا ہے۔
3۔اور اگر ایک مشت پانچ ہزار روپے ادا کردیے جائیں۔تو زندگی بھر کی مہمانی کا حق ادا ہوجاتا ہے۔اور ایسے آدمی کو امام سے اور امام کو ایسے آدمی سے بہت محبت ہوتی ہے اور اس کے گناہ بخشوں دیئے جاتے ہیں۔(لائف مجلس)
4۔اور اگر کوئی بیس ہزار روپے یکمشت ادا کردے تو اس کی محبت کے کیا کہنے۔ایسا آدمی نور علی نور کے درجہ پر فائز ہوتا ہے گناہ سے بالکل پاک صاف ہوجاتاہے اور مرتے ہی سیدھا جنت الفردوس میں جاپہنچتاہے۔بسا اوقات نوبیاہتا جوڑے یکمشت چالیس ہزار روپے اداکرکے جنت میں سیٹیں کنفرم کروالیتے ہیں۔یہ اور اس قسم کے کئی نذرانے ہیں ،مثلاً بیعت کرنے کے،نومولود کا نام رکھنے کے یا نوبیاہتا جوڑے پر ہاتھ رکھنے کے وغیرہ وغیرہ۔جن سے امام کی محبت اور مہمانی حاصل کی جاتی ہے۔اور یہ ایسے امور ہیں جن کا ذکر ان کے لٹریچر میں آنا محال ہے۔
غور فرمایئے اسلام میں ایسی مہانیوں اور رقوم لے کر گناہ سے معافی کے اعلان کردینے کی کوئی گنجائش ہے؟
حوالہ جات:۔
1۔شکشن مالا۔منظور شدہ،درسی کتاب مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند ممبئی۔
2۔گنان برہم پرکاش۔مجموعہ مقدس گنان ص 1297 از پیر شمس الدین مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند بمبئی۔
3۔شکشن مالا کے جی سبق نمبر 4 ص12 منظور شدہ درسی کتاب برائے مذہبی نائٹ سکول مطبوعہ ایسوسی ایشن برائے ہند بمبئی۔
4۔کلام الٰہی اور فرمان امام ص 54 از عالیجاہ سلکان نور محمد۔
5۔شائع کردہ ہزہائی نس آغاخان شیعہ امامی اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کراچی نمبر ۔3
6۔شکش مالا111 سبق نمبر 2،ص 8 درسی کتاب برائے مذہبی نائٹ سکول مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند بمبئی۔
7۔کلام الٰہی اور فرمان امام ص 63 از عالیجاہ سلطان نور محمد مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے تنزانیہ۔
8۔کلام امام مبین آغا خان سوم کے فرامین کا مجموعہ حصہ نمبر 1فرمان نمبر 31 ص81 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند بمبئی۔
9۔پمفلٹ شان امامت ص2 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان۔
10۔ایضاً مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کراچی۔
11۔مارگ ورثیکا حصہ 1ص 68 از مشزی علی بھائی بابوانی منظور شدہ درسی کتاب برائے مذہبی نائٹ سکولز مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند بمبئی۔
12۔گنان مومن چیتا منی از سید امام شاہ مجموعہ مقدس گنان ص107 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند بمبئی۔
13۔گنان مومن چیتامنی از سید امام شاہ ص144 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند بمبئی۔
14۔گنان مومن چیتا منی از سید امام شاہ ص 106 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند بمبئی۔
15۔اسماعیلی تعلیمات حصہ نمبر 4 ص10 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔
16۔اسماعیلی تعلیمات حصہ نمبر 4 ص 11 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔
17۔ اسماعیلی تعلیمات حصہ نمبر 4 س11 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔
18۔مذہبی رسومات ص1،ذیلی عنوان مقدس دعا بلیٹن مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔
19۔گنان مومن چیتا منی از سید امام شاہ۔مجموعہ مقدس گنان ص 140 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن ہند بمبئی۔
20۔ہماری مقدس مذہبی رسومات ص20 بلیٹن شائع کردہ مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔ بتاریخ 21 مارچ 1972ء۔
22۔مذہبی رسومات ص 1 بلیٹن مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔
23۔شکشن مالا(درسی کتاب برائے مذہبی نائٹ سکولز) سبق نمبر 2 ص6،7 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند بمبئی۔
24۔مذہبی رسومات ص19،20،بلیٹن مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔ مورخہ 21 مارچ 1972ء۔
25۔مذہبی رسومات ص20 بلیٹن شائع کردہ مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔ مورخہ 21 مارچ 1972ء۔
26۔اسماعیلی تعلیمات حصہ نمبر 5 ص37 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔
27۔اسماعیلی تعلیمات حصہ 3 ص 23 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔
28۔ماخوذ از (1) فیروز لغات فارسی حصہ اول ص 366(2) انسائیکلو پیڈیا اردوفیروز سنز اور (3) دائرہ المعارف الاسلامیہ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی زیر عنوان"حسن بن صباح"
29۔دائرہ المعارف الاسلامیہ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور۔زیر عنوان"اسماعیلیہ"۔
30۔مذہبی رسومات ص9 بلیٹن مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔مورخہ 21 مارچ 1972ء۔
31۔اسماعیلی تعلیمات حصہ نمبر 5 ص 26 مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔
32۔مذہبی رسومات ص 5 بلیٹن مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔مورخہ 21 مارچ 1972ء۔
33۔مذہبی رسومات ص 15 بلیٹن مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔
34۔مذہبی رسومات ص 6 بلیٹن مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔مورخہ 21 مارچ 1972ء۔
35۔اسماعیلی تعلیمات حصہ چہارم ص 16،17،مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان ۔کراچی۔