مولانا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفا ت
قحط الرجا ل کے اس دور میں کسی صاحب علم و فضل کا اٹھ جا نا "موت العا لم مو ت العالم" کا مصداق ہے ۔علم دین شریعت کا فقدان اصحا ب علم دین کے اٹھ جا نے سے ہی ہو تا ہے 1995ء میں بہت سے اصحا ب علم و فضل داربقا کی جا نب رخت سفر باندھ گئے ان کے اٹھ جا نے سے خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا بڑا دشوار اور مشکل ہے آنے والا جا نے ہی کے لیے آتا ہے ان آکر جا نے والوں میں بہت سے اوصاف و ممیزات کی مالک ایک شخصیت مولانا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے مو صوف 18دسمبر 1995ءسوموار کے روز اپنے ہاتھوں سے تعمیر کردہ مسجد میں نماز عشا ء ادا کرتے ہو ئے پہلی صف میں دائیں جا نب حالت سجدہ میں دا عی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔
انا الله وانا اليه راجعون
ایسی قابل رشک موت خوش نصیبوں کو ہی نصیب ہو تی ہے باوضو فرض نماز باجماعت پہلی صف میں دا ئیں جا نب حا لت سجدہ میں زبا ن سے رب کا ئنا ت کی روح و ثنا کے ترا نے اجتما عیت میں شریک ہر ایک کے احسان سے سبکدوش رب اکبر کی کبرا یا ئی کا ورد کرتے ہو ئے وہ گئے!!!
سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ ،•، سُبْحَانَ اللَّه الْعَظِيم
مرحوم بے شمار خوبیوں اور اوصاف حمید ہ کے ما لک تھے ذہا نت و فطا نت کی انمول دولت سے مالا مال تھے فن کتا بت کے شاہوار تھے۔عمر عزیز کا بہترین حصہ کتا بت قرآن میں صرف کیا یہی ان کا ذریعہ معاش تھا ۔اس ذریعہ سے حاصل کردہ حلال روزی سے معا شیات کے مسائل و امور حل کرتے رہے اپنے خاندان کے مستحق افراد کی نہا یت کشادہ ظرفی سے امدادکرتے نیز دینی ضروریات میں فراخ دلی سے تعاون کرتے تھے۔
قابل قدر تا لیفات و تصنیفا ت کے علاوہ کے علاوہ مختلف عنوانا ت کے تحت بہت سے مضامین بھی مو صوف کے رشحا ت قلم کے مرہون منت ہیں جو اپنے علمی وقار کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے مقابلے کے متعدد مضامین اور مقالے بھی رقم کئے جو اپنی جامعیت ترتیب کے حسن اور مواد کی ثقاہت اور قوی دلا ئل کی بنا پر اول انعا م کے مستحق قرار دئیے گئے اس کے علاوہ نہا یت دقیق اور مشکل فنی کتا بوں کے سلیس اردو زبان میں ترجمے بھی کئے ۔
امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور و معروف کتا ب "الموفقات " کا ترجمہ کیا علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ مایہ ناز تصنیف اسلامی اصول قانون کی معتبر کتا ب ہے جس میں علامہ مو صوف نے اس فن کا کماحقہ احا طہ کرنے کی پو ری کو شش کی ہے اس کتاب کی نما یا ں خوبی اور وصف یہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے اصحا ب اصولیین کی آراء پر ایک مکمل تبصرہ اور جا مع جا ئزہ ہے لغت اور اسلوب بیان کے اعتبار سے یہ کتاب خاصی دقیق اور مشکل ہے۔ نیز ایک زبان کا دوسری زبان میں ترجمہ کرنا بڑا مشکل کا م ہے ۔دونوں زبانوں کی نزاکت کو بیک وقت ملحوظ رکھنا محا ورات کا خیال کرنا زبان کی دوسری باریکیوں پر دسترس رکھنا وغیرہ مشکل امور ہیں بالخصوص اس وقت جبکہ کتاب بھی فن کی دقیق کتب سے تعلق رکھتی ہو۔
ان کٹھن اور دشوار گزار مرا حل کو مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی مرحوم نے اپنی خداداد صلاحیت و قابلیت کی بنا پر کس خوش اسلوبی اور سلیقہ سے نبھا یا ہے اور اس مشکل گھاٹی کو جس ہمت اور حوصلہ سے سر کیا ہے اس کا سہرا انہی کے سر پر سجتا ہے ۔موصوف کی شب و روز کی مسلسل محنت شاقہ کے نتیجے میں ایک ایسا مفید علمی ذخیرہ علمی دنیا سے شغف رکھنے والوں کے لیے بہم پہنچ گیا ہے جس سے عام آدمی کے لیے استفادہ بڑا مشکل تھا ۔یہ ترجمہ مرکز تحقیق دیا ل سنگھ ٹرسٹ لا ئبریری نسبت روڈ لا ہورنے کروا کر زیور طباعت سے آراستہ کیا ہے۔
اسی طرح علامہ حا فظ ابن حجرعسقلا نی رحمۃ اللہ علیہ کی ما یہ ناز اور نہا یت عمدہ وقیع فقہی ترتیب پر مرتب حدیث کی کتاب "بلوغ المرام " کی مشہور و معروف اور مستند شرح "سبل السلام "کا ترجمہ ہے یہ بھی دینی علوم کے طلبا ء کے لیے ایک قیمتی سر ما یہ ہے ۔یہ ترجمہ بین الاقوامی اسلامی یو نیورسٹی اسلام آباد نے کروایا ہے ۔یہ کتاب ابھی طبع ہو کر منظر عام پر نہیں آئی ۔
اس طرح مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کی تصنیفات اور ترا جم شدہ کتا بوں کی ضخا مت کا اندازہ لگا یا جا ئے تو صرف تا لیفا ت جن پر تبصرہ آگے آرہا ہے 4304(چارہزار تین سوچار)سے زائد صفحا ت بنتے ہیں اور ترجموں کی ضخا نت بھی تین چار ہزارصفحا ت سے کم نہیں اس سے بخو بی اندازہ ہو تا ہے کہ مرحوم نے اپنی زندگی کے لمحا ت کو کسی طرح صرف کیا لمحات زند گی کا ایک لمحہ بھی را ئیگا ں نہیں جا نے دیا اور صحیح مصرف میں صرف کیا ۔
اب ہم مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کے جواہرپاروں اور قلمی کاوشوں پر بالترتیب تبصرہ کریں گے۔
قرآن نافہمی کے اسباب اور ان کا حل
ناشر: مکتبہ دارالسلام وسن پورہ لا ہو ر
اشاعت ششم: 1988ء
ضخامت : 38صفحا ت
یہ پمفلٹ مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مر حوم کی پہلی قلمی کا وش ہے جسے اتنی پذیرائی حاصل ہو ئی کہ خود مصنف کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی مساعی و محنت کو عوام و خواص میں اس قدر تحسین کی نگا ہوں سے دیکھا جا ئے گا ۔
32صفحا ت پر مشتمل ایک پمفلت کا چھ مرتبہ طبع ہو کر منظر عام پر آنا اپنی افادیت اور اہمیت خود واضح کر رہا ہے اور مرتب مو صوف کے شغف بالقرآن کا واضح مظہر ہے کہ انھوں نے کتب الٰہی سے عوام و خواص کی بے اعتنا ئی اور عدم تو جہ کو موضوع سخن بنا کر انہیں قرآن مجید کی جا نب متوجہ کرنے کی سعی و کو شش فر ما ئی کہ قرآن پاک سے بے تعلقی و بے رغبتی ہی دراصل نا فہمی کا بنیا دی بڑا اور نما یاں سبب ہے اور جامد اور اندھی تقلید نے اس پر سونے پہ سہاگہ کاکام کیا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن مجید کو ناظرہ پڑھا نے کے ساتھ ساتھ اس کے معنی کو بھی طا لب علم کی استعداد اور قابلیت و اہلیت کے مطا بق پڑھانا چاہیے تا کہ متبدی طا لب علم برا ہ راست قرآن سے متعارف ہو سکے اور اس طرح اس کا قلبی اور ذہنی رشتہ اس کے ساتھ استوار ہو جا ئے۔
خلا فت و جمہوریت ۔
ناشر :مجلس التحقیق الاسلامی (دارہ محدث )لا ہور
اشاعت اول :1981ءدوم 1985ء
ضخامت :288صفحات
دور حا ضرمیں دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں جمہوری نظا م قائم ہے مگر ہے برا ئے نام جموری حقیقت میں یہ نظا م اپنی اصل صورت اور حقیقی روح کے ساتھ عملاً کسی جگہ بھی قائم نہیں دور جدید کے دیگر بتوں میں ایک بت مغربی جمہوریت بھی ہے جس نے انسانیت کو سر ما یہ داری کے ظا لم شکنجہ میں جکڑ اہوا ہے۔ انسانیت اس نظا م سے بیزار ہے اس کی ستم رانیوں سے بے حد تنگ اس کے ظا لما نہ رویہ اور سفاکا نہ روش سے سخت نالاں ہے۔
اسلامی ممالک بھی اس سرخ و سفید پری کے جال میں پھنسے ہو ئے ہیں ۔نام اسلام کا لیتے ہیں مگر نظا م حکومت غیروں کا اختیار کرتے ہیں ۔اور کام دشمنوں کا کرتے ہیں دعویٰ نظا م اسلام کا لیکن مغربی جمہوریت کو اپنے گلے کا ہا ر بنا یا ہوا ہے ۔حا لا نکہ فی الحقیقت نظا م اسلامی اور موجودہ جمہوری نظا م دونوں الگ الگ نظا م حیا ت اور ضابطہ زندگی ہیں دونوں نظا موں کے علیحدہ علیحدہ اصول و ضوابط ہیں دونوں کا با ہم سمجھوتہ ناممکن ہے۔
مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرحوم نے جمہوریت اور خلا فت کا تقابلی مواز نہ بڑی عرق ریزی سے کیا ہے جنا ب مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے تا ریخ و سیرت کی مستند کتب سے مواد جمع کر کے یہ ثا بت کیا ہے کہ اسلام کا طرز حکومت جمہوری نظا م نہیں بلکہ خلافت ہے۔یہ نظا م دنیا میں تیس برس سے زائد عرصہ تک روئے زمین کے بہت بڑے حصہ پر عملاً نافذ رہا ہے ۔اس کی برکا ت و ثمرا ت سے علمی و تا ریخی دنیا پوری طرح آگا ہ ہے۔
اس کتاب کے تین حصے ہیں پہلے حصہ میں خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے طریق انتخاب پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے دوسرا حصہ دور نبوی اور خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد میں مشہور مجالس مشاورت کے بارے میں ہے اور دیگر ضمنی مبا حث ہیں ان مبا حث میں ان تمام اعترا ضات اور اشکالات کا حل پیش کیا گیا ہے جو جمہوریت نوازوں کی طرف سے آج تک کئے گئے ہیں ۔
تیسرا حصہ ایسے مبا حث پر مشتمل ہے جو دور حاضر میں بالمعموم زیر بحث اور پیش آتے رہتے ہیں آخری مبحث "ملت کے تقاضے اور اسلامی نظا م حکومت کی جا نب پیش رفت"میں ایک مجمل سا خاکہ پیش کیا گیا ہے کہ عصر حاضر میں اسلامی نظا م حیا ت کی طرف کیسے پیش قدمی کی جا سکتی ہے کتاب علمی و عقلی اور نقلی دلائل سے مالامال ہے۔
روح عذاب قبر اور سماع مو تی
ناشر :مکتبہ دارالسلام وسن پورہ لا ہو ر
اشاعت اول :جولا ئی 1985ء
ضخامت152صفحا ت
یہ کتاب خود مصنف کے الفا ظ میں کو ئی مستقل کتاب نہیں بلکہ ان کے سپرد قلم کردہ پانچ مضامین کا مجموعہ ہے گذشتہ سالوں میں ماہنامہ "ترجمان الحدیث "اور ماہنامہ "محدث"میں قسط دار طبع ہو کر منصئہ شہود پر آچکے ہیں ان ان مضامین کا اصل عنوان وہی تھا جو اس کتاب کا ہے یعنی روح عذاب قبر اور سماع موتی۔
یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ جس سے مسلمانوں کے تمام مکتبہ ہائے فکر کی گہری دلچسپی ہے یہ مسائل ایسے ہیں جن میں کچھ لو گ راہ اعتدال سے ہٹ کر افراط اور کچھ تفریط کے راستہ کی طرف مائل ہو گئے ہیں اور کچھ ناداں ایسے بھی ہیں جو افرا ط و تفریط کی حدودبھی پھلانگ گئے ہیں ۔
یہ مسئلہ کچھ ایسا نازک اور پیچیدہ ساہے جسے سلجھانے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے عقل سلیم کے ساتھ ساتھ روش اعتدال پر استقامت بھی ضروری ہے بے جاتعصب اور نامعقول ہٹ دھرمی ایسے مسائل کے حل کے لیے مو زوں اور منا سب نہیں بلکہ یہ سم قاتل کا کردار ادا کرتی ہیں ۔
سماع مو تی اور عذاب قبر وغیرہ کے بارے میں قدیم جدید سلف و خلف علماء میں آراء کا علمی اختلا ف مو جو د ہے بہر حا ل یہ بات اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ علی الاطلا ق سماع مو تی کا ثبوت قرآن و حدیث کی واضح نصوص سے ثا بت نہیں ۔لیکن نصوص کی تاویلات سے اپنے مسلک کو ثابت کرنے پر عقلی قوت صرف کی جا رہی ہے البتہ سماع مو تی کے بارے میں استثنائی صورت کا ثبوت قرآن و حدیث میں موجود ہے جس سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا ۔
جہاں تک عذاب قبر کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت بھی کتاب اللہ اور حدیث رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے اور قبر سے مراد بھی زمین کا ایک گڑھا ہی ہے جس میں مرنے والے کو دفن کیا جا تا ہے اس کے بر عکس جو لوگ زمینی گڑھے کے بجا ئے برزخی قبر ،برزخی مقام اور برزخی جسم وغیرہ قسم کے نظریات کے قائل ہیں تو یہ کو ئی ٹھوس حقائق نہیں محض نظریا ت ہی ہیں جن کی تر دید کے لیے کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مضبوط دلائل ہیں ۔ ان باطل نظریا ت و خیالات کو جدیددور کے جدت پسند حضرات نے بڑی قوت سے عوام میں پھیلا نے کی کوشش کی ہے ۔اس کتاب مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرحوم نے ایسے باطل نظریا ت کا بڑے زور دار طریقے سے مضبوط اور ٹھوس عقلی و نقلی دلا ئل سے جواب دیا ہے جن سے ان کے دلا ئل کی کمزوری کھل کر سامنے آگئی ہے اس کتاب کے مشمولا ت و مندرجات سے مصنف کی وسعت علمی اور عمیق مطالعہ کا امدازہ ہو جا تا ہے کتاب کو مختلف موضوعات پر تقسیم کیا گیا ہے جو درج ذیل ہے۔
1۔سب سے پہلے "الاستفتاء " جس کے ضمن میں مندرجہ ذیل عنوانات ہیں امر ربی کا مفہوم سوال روح کے مسائل روح کی قسمیں تناسخ یا آداگون شہداء کی زندگی سماع مو تی تناسخ اور روح کلی حا لت نزع میں رنج و را حت وغیرہ ۔
2۔روح عذاب قبر اور سماع موتی ۔اس کے تحت درج ذیل عنوانات ہیں ۔زندگی اور موت کے چار مراحل :پہلا مرحلہ موت ہے دوسرا مرحلہ دنیوی زندگی ،تیسرا مرحلہ عرصہ برزخ یعنی عذاب قبر عذاب قبر کی حقیقت عذاب قبر کا عقلی ثبوت عذاب قبر روح اور بدن دونوں کو ہے ۔سماع موتی سماع موتی کے قائلین کا طراز استدلال قرآنی آیات کی تاویل منکرین سماع موتی کے دلا ئل قرآن اور احا دیث صحیحہ اہل قبور کو السلام علیکم کہنا حضور صلاۃ و سلام سلام تشہد اور چوتھا مرحلہ اخروی زندگی ۔
3۔برزخی قبر اور برزخی جسم سے تعارف :قبر کا اصل مقام عزاب قبر کا جسم سے تعلق وغیرہ ،
4۔ڈاکٹر عثمانی صاحب کے دلائل کا جا ئزہ
5۔سماع موتی سے تصرفات اولیاء تک سماع مو تی تصویر کا دوسرا رخ کیا سماع موتی کے قائل مشرک ہیں آئمہ و مشائخ کے اقوال کو حجت سمجھنا انہیں رب بنانے کے مترادف ہے سماع موتی پراجماع امت؟ شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور پیران پیر کی نماز اموات کا احساس و شعور قرآن سے سماع موتی کے دلا ئل سماع موتی اور صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضرات عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سماع موتی پر ایک نظر باب سماع میں حضرات عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی روایات ابن ابی الدنیا کی روایات فوت شدہ بزرگوں سے عورتوں کا پردہ سماع موتی یا احترا م آدمیت امام حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب روایات وغیرہ ۔
متذکرہ بالا عنوانات بخوبی اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ صمنف نے روح عذاب قبر اور سماع موتی کے جدید و قدیم نظریات پر کس عرق ریزی اور وقت نظر سے کلا م کیا ہے معترضین اور قائلین و منکرین سماع موتی کی نازک بحث کو بہترین طرز نگا ر ش اور اسلوب بیان سے قرآن و حدیث کی وضح نصوص سے یوں صاف کیا ہے کہ حقیقی مسئلہ کا چہرہ نکھر کر سامنے آگیا ہے نیز غور و فکر زاویے اور استدلال کے طریقے کی کسی طرح سے اصلا ح کی ہے ۔
عقل پرستی اور انکا ر معجزات ۔
ناشر: مکتبہ دارالسلام وسن پورہ لا ہو ر
ضخا مت :344صفحات
اس کتاب میں عقل پرستوں کے افکار و نظریا ت کا بالمعوم اور حافظ عنایت اللہ اثری گجرا تی کے افکار و خیلا ت نیز ان کی تحریفات اور تاویلا ت کا بالخصوص تجزیہ کیا گیا ہے اور منکرین معجزات کے اعتراضات کے جوابات کا ایسا لا جواب مجموعہ ہے جو اپنی جامعیت کے اعتبار سے منکرین اور متجددین کی خوش فہمیوں مغالطہ آمیزیوں ذہنی و قلبی عیاشیوں کا مسکت جواب ہے نیز مصنف نے اس کتاب میں سیا سی عقلی اور تقلیدی مرا کز سے وابستہ حضرات کی خوب خبر لی ہے۔
اس سے کیسے انکا ر ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء و رسل علیہ السلام کے معجزات متعدد مقامات پر مذکورہیں اور معجزات کی تفصیلا ت کتب حدیث و سیرت میں ملا حظہ کی جا سکتی ہیں ۔آج تک امت مسلمہ انہیں تسلیم کرتی چلی آرہی ہے مگر عقل کے پجاریوں نے ہر دور میں انہیں تسلیم کرنے کے بجا ئے ان کی مضحکہ خیز اور نامعقول دو ازکار تاویلیں کی ہیں اور اپنی عقل کے بگٹٹ گھوڑے دوڑا کر معجزات کا صاف اکا ر کر دیا ہے۔
سب سے پہلے معتزلہ کے گروہ نے بطور عقیدہ عقل کو بر تر تسلیم کیا ۔یہ لوگ فلسفہ یونان سے مرعوب تھے وہ انہی فلسفیانہ موشگافیوں کی روشنی میں معجزات کو دیکھتے تھے اور ان کی تاویلیں کرتے تھے مگر اس دور کے علماء حق نے ان کے اعترا ضا ت اور شبہات کا علمی میدا ن میں مدلل جواب دے کر ان کا ناطقہ بند کر دیا ۔تیرہویں صدی ہجری میں اس فتنہ نے ایک طرف سر زمین عراق میں سر اٹھا یا اور دوسری طرف پا ک و ہند میں سر سید احمد خا ن کی صورت میں پیدا ہوا اس کے ہمنوا اور ہم خیال حضرات نے اسے مزید پروان چڑھا یا تا آنکہ مسٹر غلا م احمد پرویز نے اسے پھیلا نے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا۔
گجرا ت کے حا فظ عنا یت اللہ اثری سر سید احمد خا ن کے خیالات اور افکار و نظریات سے اتنے متا ثر اور گروید ہ ہو ئے کہ انھوں نے جلیل القد پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی باپ کے بغیر پیدا ئش سے صاف انکا ر کر دیا اور دوسرے قرآنی معجزات کو بھی نامعقول تاویلات کے خراد چڑھا دیا ۔یہ صاحب عصری سائنس سے اتنے مرعوب ہو ئے کہ مسلمات کا بھی انکا ر کر بیٹھے ۔
مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مر حوم نے اپنی خداداد بصیرت فہم و تدبر اور تجریہ علمی کی روشنی میں اس ضخیم کتاب میں سلفی عقائد کا علمی طور پر محققانہ اسلوب نگارش سے دفاع کرتے ہوئے عقل کے پجاریوں اور بندگا ن عقل و خرد کی پرزور تردید کی۔ جس کے دلائل کی اہمیت یہ حضرات تاویر محسوس کرتے رہیں گے ان شاء اللہ العزیز ۔۔۔یہ تصنیف اس کو چے میں سر گرداں پھرنے والے پریشان حال گھومنے والوں کے لیے راہنما کا کا م دے گی ۔
اس کتاب کے تین حصے ہیں ۔پہلا حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول :حافظ عنا یت اللہ اثری اور ان کی تا لیفات ۔۔۔باب دوم خرق عادت امور کے مختلف پہلو وغیرہ ۔۔۔باب سوم: خرق عادت امور سے انکا ر کا پس منظر
کتاب کا دوسرا حصہ بھی تین ابواب پر مشتمل ہے۔
باب چہارم :ولادت عیسیٰ علیہ السلام اور قرآن کریم باب پنجم :سورۃ آل عمرا ن کی متعلقہ آیات باب ششم : ولا دت عیسیٰ علیہ السلام اور حدیث وآثار باب ہفتم: حضرت مریم علیہ السلام کے نکا ح یا شوہر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے باپ ہو نے کے نقلی دلا ئل اور دیگر عنوانات کتاب کے حصہ سوم میں پانچ ابواب ہیں ۔
باب ہشتم: حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کی پیدا ئش وغیرہ حضرت صا لح علیہ السلام حضرت لو ط علیہ السلام باب نہم : حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت یو سف علیہ السلام اور چند دلچسپ تا ویلا ت باب دہم : حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یونس علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام حضرت سلیمان علیہ السلام سے متعلقہ مباحث گیارہواں باب: حضرت ایوب علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام اصحاب کہف ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بارہواں باب: خصوصیات کے تحت بے شمار عنوانات ۔
مذکورہ بالا عنوانات کی بہتات اور جامعیت بتا رہی ہے کہ کتاب کا علمی پایہ اور مقام و مرتبہ کیسا ہے یہ اہل علم و بصیرت کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔
سر گزشت نور ستان
ناشر: مجلس التحقیق الاسلامی 99جے ماڈل ٹاؤن لا ہو ر
اشاعت اول : اکتوبر1986ء
ضخامت :84صفحات
نور ستان جیسا کہ خود مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مر حوم نے کتابچہ کے باب دوم میں تحریر کیا ہے افغانستا ن کے بالکل مشرق میں واقع ہے یہ علاقہ افغانستان کے صوبہ کنٹراور صوبہ پغمان کی صوبہ کی تین وادیوں پر مشتمل ہے افغانستان کے کل 28صوبے ہیں ۔اور نور ستان افغا نستا ن کے کل رقبہ کا 5فیصد ہے یہاں پر "دولت انقلا بی نورستان " کے نام سے حکومت قائم ہے اس مملکت کا نظا م حکومت خا لص کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطا بق ہے اس مملکت کی یہی خصوصیا ت اور امتیاز ہے جو کسی مومن کو اپنی جا نب کھنچتا ہے کہ وہ اس نظا م کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے اس کے ثمرات و نتا ئج دیکھے اسی جذبہ شوق اور دلچسپی سے سر شار مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مر حوم دشوار گزار راستوں سے گزر کر نور ستان کی سر زمین تک پہنچے ۔
اس پمفلٹ میں مو صوف نے اپنی روداد سفرکو قلم بند کیا ہے گو یا یہ ایک سفر نامہ ہے جسے مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مر حوم نے اسنو خیز اسلامی مملکت سے دنیا کو متعارف کرانے کے لیے تحریر کیا ہے اس میں دورا ن سفر پیش آنے والی مشکلات دشواریوں اور پریشانیوں کا بڑے حسین اندازمیں ذکر کیا ہے پہاڑوں کے قدرتی خو بصورت اور حسین منا ظر کی تصویر کشی ادبی زبان میں خوب کی ہے اس تصویر کشی سے معلوم ہو تا ہے کہ مو لا نا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرحوم خود بھی لطف انداوز ہو تے ہیں اور اپنے قارئین کو بھی محظوظ کیا ہے اور ان کی ضیافت طبع کے لیے بہترین سامان فرا ہم کیا ہے۔
نیز انھوں نے روداد سفر کے تا ثرا ت کو پانچ ابواب میں سمیٹنے کی کو شش کی ہے باب اول: روزنامچہ سفر نور ستان ،باب دوم: نورستان کے طبعی و معاشرتی حا لا ت باب سوم: نظا م مملکت باب چہارم : نور ستانی مجا ہدین کی امتیا زی خصوصیا ت اور باب پنجم :انقلا بی دولت کے اسباب ۔
مخالفت و مزاحمت کے علی الرغم یہ نو خیز اسلامی مملکت دن دگنی رات چوگنی ترقی کے مرا حل بحسن و خوبی طے کر رہی ہے جو قوم اللہ کے دین کی سر فرازی و سر بلندی اور ترقی کے لیے شب و روز تن من دھن سے جہاد کرتی ہے شرک و بدعت اور الحاد و بے راہ روی کے خلا ف سینہ سپرہو کر اس کے استیصال کے لیے کمر بستہ ہو جا تی ہے اور میدان عمل میں بے دریغ کو د جاتی ہے تا ئید ایزدی اور نصرت الٰہی اس کے ہم رکا ب ہو تی ہے طاغوتی قوتیں بے دین طاقتیں ایسی نڈر اور بے خوف قوم و ملت کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود نہیں کرسکتیں ۔بلکہ باطل قوتیں حق و صداقت کی چٹا ن سے ٹکر ا کر اپنا پھوڑ لیتی ہیں اور خود ہی پاش پاش ہو کر بکھر جا تی ہیں جبکہ حق و صداقت کی علمبردارقوت پوری آب و تا ب اور درخشانی کے ساتھ کندن بن ابھر تی ہے ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر اس کی بالکل صحیح ترجمانی کرتا ہے ۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہےتجھے اونچا اڑانے کے لیے !
ایسی اسلامی مملکت کا قلمی تعا رف مولانا موصوف رحمۃ اللہ علیہ کے نامہ اعمال میں حسنات میں اضا فہ کا مو جب ہے ۔
اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام:۔
ناشر: مکتبہ دار السلام وسن پورہ لاہور
اشاعت اول: جولائی 1987ء
ضخامت:72صفحات
یہ پمفلٹ اگرچہ 72صفحات پر پھیلا ہواہے۔مگر معلومات کا قیمتی خزینہ ہے۔جس میں دور حاضر کے ایک اہم ترین مسئلہ"اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام" کو زیر بحث لایا گیا ہے۔دور رواں میں یہ مسئلہ اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ وجہ ا س کی یہ ہے کہ اس زمانے میں پوری دنیا دو متحارب دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ایک اشتراکیت کا دعوے دار علمبردار روس جو شخصی وذاتی ملکیت کا اصولی طور پرسر ے سے قائل ہی نہیں اور دوسری جانب سرمایہ داری اور سرمایہ پرستی کا ٹھیکیدار وطرفدار امریکہ بہادر جو انفرادی وشخصی ملکیت اور حصول دولت کے ہرجائز وناجائز ذریعہ اورطریقہ کا نا صرف قائل ہے۔بلکہ اس نظریہ کا محافظ اور نگران بھی بنا ہواہے۔امریکہ نواز دوسری ہمنوا حکومتیں اس کی پشت پناہی کررہی ہیں۔قطع نظر اس کے کہ دولت سمیٹنے کے یہ ذرائع انسانی اخلاقیات کے لئے کتنے مہلک اور تباہ کن ہیں۔ جس کے بھیانک نتائج آج دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔
اسلام ان دونوں انتہا پسندانہ نظریات کا شدید مخالف ہے۔ وہ ان انتہاؤں کے درمیان عدل واعتدال کا راستہ اختیار کرتا ہے۔اس مختصر سے کتابچہ میں دونوں فریق کے دلائل کا کتاب الٰہی اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں نہایت معقول اور دیانتدارانہ موازنہ وتقابل کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ فاضلہ دولت کا جواز اسلام میں کن شرائط کے تحت ہے۔نیز مزارعت کے جواز کی کیاحدود ہیں؟تاکہ دورجدید کے نو دولیتے،جاگیردار اور زمیندار مسلمان کو یہ معلوم ہوسکے کہ وہ آج اسلامی نقطہ نظر سے کس مقام پر کھڑا ہے اس کتابچہ کے تین حصے ہیں۔
باب نمبر1:شرعی احکام کی حکمت کے ضمن میں حالات کے لحاظ سے مراعات،کم استعداد والوں کے لیے مراعات ،زیادہ استعداد والوں کے لئے ترغیبات وغیرہ۔
باب نمبر2۔اسلام میں فاضلہ دولت کے تحت فاضلہ دولت یا اکتناز کے حق میں دلائل ،تعامل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جن میں حضرت عبدالرحمان بن عوف،حضرت زبیر بن عوام،حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت عثمان بن عفان رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں،اکتناز دولت کے عدم جواز کے دلائل،انفاق فی سبیل اللہ کے تاکیدی احکام،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات،خلفاء راشدین اور فاضلہ دولت،تعامل صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وغیرہ۔
باب نمبر3۔جاگیر داری اور مزارعت،جاگیر داری بطور عطایا،ناجائز جاگیروں کی وا پسی،تجدید ملکیت کی شرائط ،مزارعت جواز مزارعت والی روایات ،عدم جواز مزارعت کی حدیث،تطبیق کی نئی صورتیں وغیرہ۔
فاضل مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے،فاضلہ دولت کن شرائط وضوابط کے تحت جائز ہے اور وہ کون سی صورتیں ہیں جن میں یہ اسلامی معاشرے کے لئے بلائے جان بن جاتی ہیں۔نیز جاگیرداری ور سرمایہ داری کی اسلام میں کتنی گنجائش ہے اور مزارعت کی کون کون سی صورتیں جائز ہیں۔کے جملہ پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔اس طرح اس مسئلہ کے تقریبا سب نمایاں گوشوں پر کتاب و سنت کی روشنی میں جامع موادآگیا ہے۔استدعا ہے کہ رب کائنات کے حضور کہ وہ مساعی کو شرف قبولیت سے نوازے اور اسے اپنے بندہ کےلئے بلندی درجات کا ذریعہ بنائے۔آمین
احکام ستروحجاب:،۔
ناشر: مکتبہ دار السلام وسن پورہ لاہور
ضخامت:88صفحات
یہ کتابچہ اگرچہ ضخامت کے اعتبار سے بہت وزنی معلوم نہیں ہوتا،مگر اپنے اندر سمیٹے ہوئے مواد کی جامعیت اور ثقاہت کے پہلو سےلا جواب ہے۔خدا نا آشنا تہذیب مغرب نے مغربی اقوام کو ایسی راہ پر گامزن کردیاہے۔جنھوں نے گمراہی وبے راہ روی کی بعید ترین روش اپنا رکھی ہے عینی مشاہدہ وملاحظہ اور تفصیلی مطالعہ کے بعد جس کے متعلق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم نے مندرجہ ذیل اشعار میں اس طرح اظہار خیال فرمایاتھا۔ع
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی مکان نہیں ہے
جسے کھرا تم سمجھ رہے ہو،وہی زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازل پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
تہذیب نوکی پیدا کردہ بے حجابی،عریانی اور فحاشی کی تحریک نے مفاسد کے انبار لگا دیئے ہیں اور بے شمار مسائل میں نسل نو کو الجھا کر راہ اعتدال سے ہٹا دیا ہے۔جس نے سنجیدہ اور شریف گھرانوں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔اہل مغرب کے معقول وسنجیدہ لوگ بھی حیران وپریشان ہیں۔ان کی پریشانی کا اندازہ مغربی میڈیا اور رسائل وجرائد کی روز مرہ کی صدائے احتجاج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
تہذیب جدید کی ظاہری چمک ودمک سے اسلامی ممالک کے تعلیم یافتہ نوجوان اس قدر مسحور ہوچکے ہیں کہ اب وہ عواقب ونتائج سے بے نیاز ہوکر اس کے پیچھے اندھا دھند بھاگے جا رہے ہیں یہ عاقبت نا اندیش حضرات اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ خاتون خانہ کو گھر کی چار دیواری سے باہر نکال اسے چراغ خانہ کےبجائے شمع محفل بنا دیا۔جس کے نتیجے میں شرعی حجاب غائب،اور وہ عریاں ہوکر سامنے آگئی۔جب چہرے کھل گئے تو نگاہوں کے پردے از خود آزاد ہوگئے۔پھر آزاد نگاہوں نے خیالات کو بے باک اور آوارہ کردیا۔اب کیا تھا سینہ،گلا اور ننگے بازوؤں کی نمائش ہونے لگی۔حسن وجمال کی عریانی نے صنفی جذبات واحساسات اوراعضائے شہوت کے پردے چاک کردیے۔پنڈلیاں کھلیں۔ پھر رانیں بھی بے سترہوئیں۔بالاخر وہ کچھ ہونے لگا جس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔
ایسی صورت حال میں علماء حق نے ا پنی بساط علم اور ہمت اور طاقت کے مطابق سیلاب بے حجابی وبے حیائی کے آگے بند باندھنے کی قابل قدر کوکوششیں کی ہی ایسے ہی ایک صاحب دل،درویش منش،گوشہ نشین عالم دین مولانا عبدالرحمان کیلانی مرحوم ہیں جنھوں نے احکام سترہ حجاب کے بارے میں کتاب اللہ اور حدیث نبوی سے تفصیلی مواد پیش کیا ہے۔یہ مواد حجاب کی حکمت،اس کی علت غالئی اور استثنائی صورتوں کے تحت مختلف ابواب پر مشتمل ہے۔
اس کتابچہ میں تہذیب حاضر کا پس منظر،اسباب اور نتائج،ستروحجاب کافرق،احکام حجاب پر اموال وظروف کی اثر اندازی ،احکام ستروحجاب کی ترتیب نزولی،چہرہ اور ہاتھوں کا پردہ۔قائلین اور منکریں حجاب کے دلائل۔بلحاظ احکام معاشرہ کی اقسام۔احکام حجاب کی استثنائی صورتیں۔احکام وستر ہ حجاب کی پابندیاں عورتوں پر زیادہ کیوں ہیں؟پردہ پر مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ اور دور جدید کے مشہور ومعروف اور نامور محدث امام ناصر الدین البانی صاحب کا اس بارے میں موقف،اور ان کے موقف پر گرفت۔یہ اور اس جیسے دوسرے عنوانات جن سے یہ کتابچہ مزین ہے۔
آئینہ پرویزیت:۔
ناشر: مکتبہ دار السلام وسن پورہ لاہور
ضخامت:800صفحات (مکمل چھ حصے ایک جلد میں )
یہ کتاب مولانا کیلانی صاحب مرحوم نے "فتنہ پرویزیت" جو دور حاضر میں فتنہ انکار حدیث کا مظہر ہے،کے جواب میں لکھی ہے بے نظیر وبے مثال اور لاجواب کتاب ہے۔یہ کتاب پرویزیت کے نظریات وخیالات کے رد میں تالیف کی گئی ہے۔
"انکار حدیث"اور حدیث کی غیر معقول من مانی تاویلات کا فتنہ دوسری صدی ہجری میں اس وقت پیدا ہواجب غیر اسلامی نظریات وخیالات سے مرعوبیت رکھنے والے لوگ اسلامی معاشرہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے انارکی پھیلانا شروع کی۔ یہ در اصل دو گروہ تھے جو سرزمین عراق میں ابھرے۔ایک معتزلہ اور دوسرے خوارج۔خوارج اپنے انتہا پسندانہ نظریات سے اسلامی سوسائٹی میں جو انارکی اور پراگندگی پھیلانا چاہتے تھے۔احادیث رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم (جو قرآن مجید کی درحقیقت تشریح وتوضیح ہیں ) ان کے راستہ کی بڑی رکاوٹ تھیں۔معتزلہ عقل پرستوں کا گروہ تھا۔یہ حضرات یونانی فلسفہ سے مرعوب ہیں۔چنانچہ انہوں نے عقل کو معیار حق وصداقت ٹھہرا کر اسلامی نظریات ،دینی عقائد اور اصول واحکام کی ایسی بھونڈی تعبیریں شروع کیں جن کا اسلام سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔
رواں صدی میں اس فتنہ نے پھر سے عراق ہی کی سرزمین میں پر پرزے نکالے،اسی زمانہ میں برصغیر پاک وہند میں سر سیداحمد خان کی صورت میں یہ فتنہ رونما ہوا۔ان کے ہمنواؤں میں سے بالخصوص مولوی چراغ علی،پھر میانوالی کے قصبہ چکڑالہ کے عبداللہ چکڑالوی اور امرتسر کے مولوی احمد دین امرتسری اس شجر خبیث کی آبیاری کرتے رہے۔پھر اسلم جیراج پوری بھی اس کی نشونمائی میں براب حصہ لیتے رہے۔آخر کار چودھری غلام احمد پرویز نے تو اس کی ترقی وترویج اور نشر واشاعت میں اپنی متاع حیات ضائع کردی۔اور تادم واپسیں اس شجر منحوس کی پرورش میں مگن رہے۔
مصنف موصوف رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وجہ سے اسے"آئینہ پرویزیت" کے نام سے موسوم کیا ہے کہ یہ2 بی گلبرگ میں مسٹر پرویز کی زیر سرپرستی انکارحدیث کے زہر کو پھیلاتا اور فروغ دیتارہا ہے۔
اس فتنہ کا سامنا ہر دور میں صاحب علم وعرفان علماء نے بڑی بہادری ،دلیری اور جواں مردی سے کیا ہے علمی وعقلی اعتبار سے اس کا سد باب کرنے کی بڑی سعی کی ہے۔اس دور میں بھی علماء حق نے قلمی جہاد کے ذریعہ بڑا مقابلہ کیا ہے۔مولانا عبدالرحمان کیلانی کا نام کافی نمایاں ہے ۔آئینہ پرویزیت کے نام سے یہ کتاب ان کے قلم کا ایسا شاہکار ہے جس کا جواب ابھی تک منکریں حدیث کے نمائندہ گروہ پرویزیت کے ذمہ بطور قرض ہے۔
اس کتاب کو مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے:
1۔معتزلہ سے طلوع اسلام تک اس کے ضمن میں منکریں حدیث کی ابتداء اس کا ارتقاء اور بتدریج تبدیلیوں کاتذکرہ کیاہے۔ جس میں اسلام میں عقل پرست فرقوں کا آغاز،عجمی تصورات کا پہلا دور ۔جہمیہ،اور معتزلہ کے افکار وعقائد،عجمی تصورات کا دوسرا دور(سرسید احمد خان کے عقائد ونظریات) ،سرسید اور نظریہ ارتقاء عجمی تصورات کا تیسرا دور چند مشہور منکریں حدیث کے حالات اور طلوع اسلام کی سرگرمیاں وغیرہ عنوانات آتے ہیں۔
2۔طلوع اسلام کے مخصوص نظریات :مثلاً حسبنا کتاب اللہ،عجمی سازش ،مساوات مرد وزن،مسئلہ ارتقاء مرکز ملت اور نظام ربوبیت وغیرہ۔
3۔قرآنی مسائل بجواب قرآنی فیصلے:اس حصہ میں قرآنی نماز،قرآنی زکاۃ،قربانی،اطاعت والدین ،ناسخ ومنسوخ،عذاب قبر،وصیت،یتیم پوتے کی وراثت ،تلاوت قرآن پاک،نکاح نابالغاں،تعدد ازدواج غلام اورلونڈیاں ،رجم اور حد رجم۔
4۔دوام حدیث:اس حصہ میں علم حدیث کے اصولی مباحث پر حافظ محمد اسلام جیراج پوری کی جانب سے وارد کیے گئے۔اعتراضات کے مسکت جوابات۔مثلاً تدوین حدیث کب ہوئی؟کیا ظن دی بن سکتاہے؟کیا وحی صرف قرآن تک محصور ہے؟کیا تاریخ اورحدیث نبوی کادرجہ ایک ہے؟نیز وحی جلی وخفی سے متعلق مباحث اور وضع حدیث۔
5۔دفاع حدیث: اس حصہ میں حدیث اور بالخصوص صحیح بخاری کے داخلی موادپر چند بنیادی اعتراضات،حدیث اور چند نامور اہل علم وفکر،جمع قرآن روایات کے آئینہ میں ،تفسیر بالحدیث پر اعتراجات،متعہ کی اباحت وحرمت،بخاری کی قابل اعتراض احادیث ،خلفائے راشدین کی شرعی تبدیلیاں ۔
6۔طلوع اسلام کا اسلام:یہ وہ حصہ ہے جس میں مولانا کیلانی صاحب مرحوم نے طلوع اسلام کے اپنے لٹریچر سےاخذ شدہ حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ انکار سنت کے بعد منکرین حدیث کا اعتقادی اورعملی اعتباری سے صحیح حقیقی اسلام سے دور کا تعلق بھی نہیں رہتا۔
کتاب کے آخر میں ایک ضمیمہ ہے۔جس میں ادارہ طلوع اسلام سے چند بنیادی واساسی استفسارات کئے گئے ہیں۔یہ سوالات مضامین کے اعتبار سے ایسے انداز میں کئے گئے ہیں جو ساری کتاب کا لباب،خلاصہ ور نچوڑ ہیں۔تاحال طلوع اسلام ان سوالات کا معقول جواب دینے سے قاصر رہا ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گا۔
اس گفتگو سے یہ بات واضح ہے کہ اس کتاب کا ہر حصہ اپنی جگہ معلومات کاخزینہ ہے جس سے علم ومعرفت میں گوناگوں اضافہ ہوتاہے مولانا کیلانی صاحب مرحوم نے یہ خدمت انجام دے کر افزونی علم کے خواہشمند حضرات کے لئے نہایت وقیع اور شانداار کا رنامہ انجام دیا ہے جس کے اثرات تادیر اثر پزیر رہیں گے۔حدیث وسنت کے موضوع پر یہ تصنیف گویا ایسا چشمہ رواں ہے جس کی روانی سے آنے والی نسلیں بخوبی سیر ہوتی رہیں گی۔
شریعت وطریقت:۔
ناشر: مکتبہ دارالسلام وسن پورہ لاہور
ضمامت: 528صفحات
بلاشبہ اس کتاب کو مولانا کیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرحوم کے علمی وقلمی رشحات کا شاہکار قرار دیا جاسکتاہے اس میں انہوں نے مروجہ طریقت کو نہایت مضبوط وٹھوس اور مستحکم دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یہ طریقت نہ صرف الگ اورعلیحدہ مذہب ہے۔بلکہ حقیقی اسلام کے ساتھ اس کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔اس کی دین اسلام میں خواہ مخواہ کی رخنہ اندازی سےامت مسلمہ افتراق وانتشار کی دلدل میں پھنس کر رہی گئی ہے۔
مولانا کیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرحوم رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن وسنت آثار صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتعامل امت کی روشنی میں طریقت کے ایک ایک نظریے اور عقیدے کی گہری نظر سے خوب خبر لی ہے۔تجزیہ نگاری میں دیانت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا بات دلائل سے پورے حوالے اور سند سے کی ہے اور واضح کیا ہے۔کہ اس میں فسوں گری میں قرآنی تعلیمات ،ارشادات،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار رضوان اللہ عنھم اجمعین کو کس بری طرح سے مسخ کرنے اور ان کا حلیہ بگاڑنے کی جسارت وجرات کی گئی ہے۔
اس کتاب میں یہی بیان کیاگیا ہے کہ اسلام میں تصوف کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی؟آغاز سے لے کر اب تک اس میں کیسی کیسی اور کتنی آمیزشیں ہوئیں،کیا طریقت کے عقائد ونظریات ،وحدۃ الوجود،وحدۃ الشہود اورحلول وغیرہ کا شریعت اسلامیہ کے عقائد کے ساتھ سمجھوتے اور اتحاد کاکوئی امکان ہے؟طریقت کا باطنی نظام کیا ہے۔اور کیا طریقت شریعت اسلام کے تابع ہے یااس کے متوازی ہے یا پھر اس سے متصادم ہے ؟نیز کرامات کی حقیقت کیا ہے اور انہیں کسی رنگ وروپ میں پیش کیا گیا ہے؟ولایت کی تعلیمات کیا ہیں اور ولی بننے کے طور طریقے اور رنگ ڈھنگ کیا ہیں؟کیا برصغیر پاک وہند میں اسلام کی اشاعت صوفیاء کے ذریعہ سے ہوئی یا اسلام ان کی ہند میں آمد سے پہلے بھی موجود تھا؟اور ان صوفیاء نے جو اسلام پھیلایا وہ کیسا تھا؟ان سوالات کے جوابات اس کتاب میں درج ذیل ابواب میں تسلی بخش انداز میں موجود ہیں:
باب نمبر1:دین طریقت یا رہبانیت(ایک آفاقی مذہب) اس باب کے تحت،اللہ کا پیغام،ایمان بالغیب،رہبانیت کی ابتداء اور کشف ومشاہدہ کی حقیقت،دین طریقت کے مختلف نظریات وغیرہ،اسلام اوررہبانیت،رہبانیت میں کشش کی وجوہات،عوام میں رہبانیت کی مقبولیت کے اسباب، تذکرے اور ملفوظات کا وجود،روایت کرامات میں اختلاف،اویس قرنی کا جبہ،مبالغہ آرائی کا حد وغیرہ،
باب نمبر2:دین طریقت کے نظریات وعقائد:اس باب میں وحدۃ الوجود،وحدۃ الشہود،حلول،اسلام میں عقیدہ حلول کی ابتداءنظریہ وحدۃ الوجود ،اسلام میں وحدۃ الوجود کی آمد،وحدۃ الشہود،وجود وشہود کا فرق،وحدۃالشہود کی تاریخ وغیرہ کاتذکرہ ہے۔
باب سوم:صوفیاء کے نظریات وعقائد،ولایت نبوت سے افضل ہے،کیا تصوف بدعت ہے؟باطنی علوم کی شرعی علوم پر فضیلت ،برزخی احادیث،اور عقیدہ حیاۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ؤ ،شریعت پر طریقت کی بالادستی وغیرہ،صوفیاء کا باطنی نظام اور سیاسی نظام،مناصب اولیاء اللہ کی شرعی بنیادیں،احادیث متعلقہ قطب وابدال وغیرہ صوفیاء پر محدثین اور فقہاء کی گرفت،امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اورمجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے کارنامے۔
باب نمبر۔4۔صوفیاء کے مخصوص مسائل:اولیاء اللہ اور ان کی گرفت ،اولیاء اللہ والیان اسرار ہوتے ہیں،اولیاء اللہ کی گستاخی کا انجام،عشق ومستی ،عشق مجازی اور عشق حقیقی کی تقسیم،عشق مجازی اور حیوانات وغیرہ،جہاد اصغر اور جہاد اکبر،سماع ووجد،جام ومے کی شاعری،تصور شیخ،حضرت خضر علیہ السلام کی شخصیت،رجال الغیب سے استفادہ وغیرہ۔
باب نمبر۔5:صوفیاء کے مخصوص مسائل:شیعت سے لگاؤ بارہ اماموں کا فیض،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے درویش تھے۔جبہ نبوی کی تاریخ حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت کیسے ملی؟ مولانا اشرف علی تھانوی کی پیدائش،خرقہ کی فضیلت ،اولیاء اللہ کے جوتوں کے کرشمے،لوح محفوظ پر نظر،عبادات میں غلو اور بدعات۔اکل حلال اور احتیاط میں غلو،پہیلیوں کی زبان اور اسرار ورموز وغیرہ۔
باب نمبر 6۔آستانے اور مزارات،نداء لغیراللہ ،توسل اور استمداد ،سجدہ تعظیمی ،ولایت یا خدائی،اولیاء اللہ کے غیب کی وسعت اور تصرف ،اولیاء اللہ کے موت وحیات پر تصرف،توجہ،بیعت اور شفاعت،پیران پیر سے توسل کےک فوائد ،مزارات اور خانقاہیں،قبر پرستی اور بت پرستی میں قدر مشترک،قبروں کے متعلق ارشادات نبوی ،قبروں کو سجدہ گاہ بنانا،مزارات پر چراغ جلانا اور مجاوری،قبروں سے متعلق صوفیاء کا ذہنی انتشار۔
باب نمبر7۔ولایت کی تعلیم،ولایت اور کشف وکرامات کا تعلق،اولیاء اللہ کے باہمی مقابلے،اولیاء اللہ کی اقسام،خضر کی تعلیم سے بننے والی ولی،صحبت بزرگان سے بننے والے ولی،تکمیل ولایت کامعیار،اولیاء اللہ اور کیما گری،صوفیاء اور اسلام کی اشاعت کاطریقہ،اولیاء اللہ کا وعظ اور تاثیر کلام،ہندو پاک میں اشاعت اسلام میں صوفیاء کا کردار،صوفیاء کرام می تعلیم ،صوفیاء کی تعلیم وتربیت کا رد عمل۔
باب نمبر8:معجزات وکرامات اور استدراج ،کرامات صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ،ہوا پر حکومت کرنا،حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات اور اولیاء اللہ ،متفرقات۔
باب نمبر۔9۔دلائل صوفیاء مجاہدہ اور ریاضت،بیعت،توجہ یا تصرف باطنی ،مشاہدہ حق وغیرہ۔
باب نمبر10۔شریعت اور طریقت کا تصادم،اولیاء اللہ کے خلاف شرع کام:نکاح سے گریز،جنت دوزخ کا استہزاء ارکان اسلام کااستہزاء۔
اور آخر میں مشائخ عظام سے چندسوالات جو ساری کتاب کا لب لباب اور خلاصہ ہیں۔
کتاب کے10ابواب میں سے چیدہ چیدہ عنوانات سے یہاں متعارف کرایا گیا ہے ان ابواب سے مولانا کیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرحوم کے تبحر علمی،وسعت مطالعہ اور عرق ریزی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا د ائرہ معلومات کتنا وسیع تھا۔صاحب ذوق حضرات کے لئے کتاب ہذا کا مطالعہ امید افزاء ثابت ہوگا۔
تجارت اور لین دین کے مسائل واحکام:۔
ناشر: مکتبہ دارالسلام وسن پورہ لاہور
اشاعت اول:اکتوبر 1991ء
ضخامت:372صفحات
دور رواں میں جہاں اور بے شمار خرابیاں اور برائیاں دین اسلام میں داخل کردی گئی ہیں ،وہاں روز مرہ کے لین دین کے معاملات میں بھی ایسی لا تعداد چیزیں داخل کر دی گئی ہیں۔ جن کا شریعت اسلامیہ سے تعلق ہی نہیں اس کے باوجود ان کو اسلامی سمجھا جا تا ہے حلال کو حرا م اور حرا م کو حلال کرنے کی جسارتیں کی جا رہی ہیں اور ان کو مسلمانوں کے حلق میں چا ر و ناچار اتارنے کی کو ششیں کی جا رہی ہیں نادان مسلمانوں کو تاویلا ت کے چکر میں ڈا ل کر حقیقی راہ سے بہکا یا اور پھسلاہیا جا رہا ہے ۔
اس کتاب میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اکل حلال کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے نیز خریدو فروخت اور لین دین کی جا ئز اور ناجا ئز صورتوں کا ذکر ہے جدید دور کے معاشی مسائل پر بھی کتاب الٰہی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں محاکمہ وموازنہ کیا گیا ہے ہے مولانا کیلا نی صاحب مرحوم نے اس کتاب میں تجارت میں بیع و شراء رزق حلال اور اسلامی طریق تجارت کو بنیا د بنا کر مروجہ ناجا ئز ذرائع آمدن کو عمدہ طور پر روشناس کرایا اور ثا بت کیا ہے کہ وہ دور حا ضر کی تجا رت اور خرید و فروخت میں بے شمار چیزیں شریعت اسلامیہ کے منا فی ہیں ۔
اس کتا ب کے سنجیدہ مطا لعہ سے بہت سے لین دین کے مسائل پیچیدہ گیاں اور الجھنیں صاف ہو جا ئیں گی نیز ایک صحیح مسلمان تا جر کے لیے خلا ف شرع خریدو فرو خت کی راہیں واضح ہو جا ئے گی۔اور اس کے لیے بچنے کا راستہ کھل جا ئے گا ۔
آج پوری دنیا پر سود خورمی کا بھوت سوار ہے مگر اللہ تعا لیٰ کے کچھ بندے اس سے ہنوز بچے ہو ئے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے ضمیر میں بچنے کی خواہش اور تمنا مو جو د ہے مگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہیں اور عزم صمیم نہیں رکھتے کہ اقدام کی جرات کر دکھائیں اس کتاب کے مطالعہ سے صحیح اسلامی فکر اور ذہن رکھنے والوں کے لیے بھی اور مخالف کیمپ کے حضرا ت کے لیے بھی وافراور مفید مواد موجود ہے جو ایسے لوگوں کے لیے مہمیز کا کا م دے گا اور ان کی تربیت کرے ۔
اس کتاب کے کل پندرہ ابواب ہیں جن کے چیدہ چیدہ عنوانات درج ذیل ہیں۔
باب1۔خود غرضی اور ایثار ،باب2: بیع مبرور:اس باب میں بیع اور تجا رت میں فرق بیع مبرور کیا ہے؟ حلال اور پاکیزہ رزق کسب حلال کی اہمیت کسب حرا م سے متعلق ارشادا ت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ
باب3:چند ناجا ئز ذرائع آمدنی: اس میں مے فروشی میسر یا قماربازی میسر کی نئی اقسام :لائری معمہ بازی ریفل ٹکٹ ،ریس کورس ،بت فروشی اور مصوری فوٹو گرا فی فال گیری علم نجوم کہانت فحا شی کے کاروبار قحبہ گری اور سازومضراب وغیرہ کا ذکرہے۔
باب4:ذخیرہ اندوزی ،کنٹرول سٹہ بازی اور بلیک مارکیٹ کسٹم اور سمگلنگ باب 5:سود سود کی حرمت سود کے مفاسد بنک کا سود بنک انٹرسٹ اور کمرشل تجا رتی قرضے اور تجارتی سود تجارتی سود کی حرمت قرآن کریم سے حا میان سود کے چند اعترا ضا ت اور ان کا جواب سود اور قومی معیشت بچت اور سر ما یہ کا ری کا اسلامی نظریہ وغیرہ باب6:سود کی اقسام اور مختلف شکلیں رباء اور شراکتی کھا تے شرح سوداور مارک اپ انعا می بانڈزبلا سود بنکاری اور اسلامی بنکوں کا قیام وغیرہ ۔
متزادفات القرآن
ناشر: مکتبہ دارالسلام وسن پورہ لا ہو ر
ضخامت :1008صفحات
"متزادفات القرآن "فہم قرآن کے لیے ایک منفرد علمی کا وش ہے اپنے موضوع پر مسرت کے ساتھ ساتھ تحیر تک لے جا نے ولا انوکھا شاہکار ۔۔۔
قرآن مجید علم و آگہی اور معرفت و عرفان کا ایسا لا ثا نی اور بے مثل خزینہ ہے کہ اہل تحقیق وجستجو برسوں سے اس بحرذخائر و ناپیدا کنار میں اپنی وسعت علمی اور استعداد فکری کے مطا بق غوطہ زنی کر کے علم و عرفان کے مو تی اور جواہر چنتے چلے آرہے ہیں ۔
ہر دور میں ایسے اصحاب علم و فضل اور صاحب دانش و بینش اٹھتے رہے ہیں جنہوں نے تو فیق ایزدی اور نصرت الٰہی سے اپنی علمی کا وشوں کا رخ قرآن مجید کو نئے رخ اور نئے زاویہ نگاہ سے سمجھنے اور سمجھانے متعارف ہو نے اور متعارف کرانے کی طرف کئے رکھا ۔علماء اسلاف نے تفسیری لغوی صرفی و نحوی اعتبار سے بھی قواعد و ضوابط فصاحت و بلاغت کے قرآنی معیارات کے متعلق معانی و مطا لب کے تصریف و تکرار کے پہلو سے بھی اور ترتیب و نظم کے بارے میں بھی قرآن کے احکا م اور ان کو احا دیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ضیحا ت و تشریحا ت کی روشنی میں پیش کرنے کے لحا ظ سے بھی ایسی گرا ں بہاو گراں قدر خدمات امت مسلمہ کے لیے اپنے علمی ورثہ میں چھوڑی ہیں کہ عہد حاضر کا قابل قدر لفظ "تحقیق "بھی نادم و شرم سارہو کر ردہ گیا ہے۔
اخلاف میں بھی اللہ تعا لیٰ کے بے شمار بندے ایسے ہیں جنہیں قرآن مبین کی علمی خدمات کا وافر حصہ نصیب ہوا ۔ان علماء نے اس میدان میں بڑے قابل تحسین کا م انجام دئیے ۔ایسے علم و عرفان کے چرا غوں میں عبد الرحمٰن کیلا نی مرحوم (جعل الله الجنة مثواه)کا نام نامی ہے جنہوں نے ایک لمبے عرصہ تک "متردادفات القرآن مع فروق الغویہ "کے اچھوٹے مو ضوع پر خا مو شی سے دھیمے دھیمے کا م کیا جو تکمیل پر علمی دنیا میں گوئے سبقت لے گیا ۔
موصوف کی یہ تصنیف اپنی طرز کا ایک منفرد و تحقیقی شاہکا ر ہے جس میں ایک ہزار سے زائد صفحا ت پر قرآن مجید کے ہم معنی اور مترادف الفا ظ کے معا نی کا باریک فرق واضح کیا گیا ہے یہ ایسا دقیق اور ضخیم کا م ہے جسے انجا م دینے کے لیے ایک پو رے ادارے کی خدمات بھی نا کا فی ہو ں گی اور اس فنی کا م کے لیے زبان و ادب کی مہا رت کے ساتھ علم لسانیات پر بھی عبور درکار ہے مگر اس فرد احد نے شب و روز کی محنت صرف کرکے سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ کی یا د تا زہ کر دی کہ تن تنہا ایک گو شہ نشین انجمن آرا ئی سے الگ تھلگ بیٹھ کر کلا م الٰہی کے بارے میں بہت بڑی علمی خدمات انجام دے دی ۔حقیقت جو کچھ ہے وہ تو یہی ہے کہ یہ سب کچھ فیضا ن الٰہی ہے کریم کی کرم نوازی ہے کہ وہ اپنے جس بندہ سے جو خدمت لینا چا ہے لے لیتا ہے ورنہ انسان بے چار ہ کیا چیز ہے سچ کہا ہے کسی شاعر نے۔ع
ایں سعادت بزور بازور نیست
تانہ بخشد خدا ئے بخشدہ
مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کی فطرت جستجواور محنت کے خمیرسے بنی تھی محنت و مشکلا ت کے میدا نوں میں کو د جا نے کی عادی تھی ۔وقت کے تقاضا کے مطا بق اچھوتے موضو عات کی تلا ش میں رہتی تھی "مترادفات القرآن "کا موضوع بھی اور اچھوتا ہے جسے ہا تھ لگا نا معمولی قابلیت و اہلیت کے کسی فرد بشر کے بس کا کا م نہیں ۔بہر حا ل اس کا خیال ذہن میں کیسے ابھرا اور پایہ تکمیل تک کیسے پہنچا ؟ اس کا جواب مولا نا کیلانی مرحوم کے اپنے الفاظ میں سنئے ۔
"بڑا ہوا تو از سر نو قرآن کریم کے مطالعہ کا ذوق پیدا ہوا میں نے دیکھا کہ قرآن کریم کے بہت سے الفاظ کا اردو میں صرف ایک ہی لفظ سے ترجمہ کر لیا جا تا ہے مثلاً خوف خثیت حذر ، وجل وجس ،تقوی اور وھب وغیرہ سب الفا ظ کا ترجمہ "ڈرنا" ہی لکھاجا تا ہے طبیعت میں جستجو کا ذوق تو تھا ہی میں یہ معلوم کرنا چا ہتا تھا کہ قرآن کریم کے ایسے مترادف الفا ظ کا ذیلی فرق کیا ہے؟ لیکن بسا اوقات مایوسی بھی ہو ئی علماء کی طرف رجوع کیا تو مجھے حیرا نی ہوئی کہ اس سلسلہ میں اکثر علماء کا ذہن بالکل صاف ہے۔ انھوں نے یہ فرق معلوم کرنے کی کبھی کو شش ہی نہیں فر ما ئی۔
پھر میں نے مختلف کتب لغت کا مطالعہ شروع کیا کچھ کتابیں ایسی تومل گئیں جن میں عربی زبان کے مترادف الفا ظ کو یکجا کیا گیا تھا مگر ان کا ذیلی فرق بتلا نے کی شاید ضرورت ہی نہ سمجھی گئی ۔اس سلسلہ میں امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کی "مفردات " ثعالبی کی "فقہ اللغہ " ابو بلال عسکری کی" الفروق اللغویہ " اور دور جدید کی کتا ب مقابیس اللغہ
اس طرح عرصہ دراز کی ذاتی محنت لگن جستجو اور تحقیقی کا وش کے بعد اردوزبان میں ایسی کتاب کا گرا ں قدر اضا فہ ہوا جسے اپنی نوعیت کے پہو سے اچھوتی منفرد غیر معمولی افادیت کی حا مل تصنیف قرار دئیے جا نے میں کو ئی مبا لغہ آرائی نہیں ۔اگر یہ بات کہی جا ئے کہ پو رے دینی لٹریچر میں عربی سمیت کسی زبان میں بھی اب تک اس مو ضوع پر ایسی جا مع کتاب منصہ شہود پر نہیں آئی جسے اس کے مقابلہ میں پیش کیا جا سکے تو یہ بات بھی ایک حد تک مبنی بر حقیقت ہے اس کتاب کی دنیا ئے کتب میں آمد سے اردو خواں و اردو داں طبقہ کے لیے بڑی سہولت اور آسانی پیدا ہو گئی ہے کہ یہ حضرا ت بغیر کسی وقت و دشواری کے معلوم کر سکتے ہیں کہ قرآن عزیز میں کس چیز کے لیے کتنے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔اور ان کے مبین ذیلی فرق کیا ہے ؟
یو ں تو عام طور پر ہر زبان میں یہ مسئلہ پا یا جا تا ہے کہ کسی لفظ کے ہم معنی جسے درحقیقت قریب المعنی کہنا زیادہ منا سب ہے کیا کیا اور کو ن کو ن سے الفاظ پا ئے جا تے ہیں اور معانی کے اعتبار سے ان میں فرق کیا ہے؟ بسااوقات یہ فرق بہت ہی لطیف اور عمیق نو عیت کا ہو تا ہے لیکن عربی زبان اور بالخصوص قرآن مجید کی عربی زبان میں بےشمار الفاظ قریب المعنی پا ئے جا تے ہیں ان میں توافق اور تفاوت کی وجہ معلوم کرنا بڑا ضروری ہے اس کے بغیر قرآن مجید کا صحیح ترجمہ اور تفسیر نہا یت مشکل ہے ایسی چند کتا بیں اگر چہ عربی زبان میں پہلے سے مو جو د تھیں مگر ان سے پورا مدعا حا صل نہیں ہوتا تھا ۔
بہر صورت اس کتاب کی تمام خوبیا ں تو اس وقت احا طہ تحریر میں لا نا مشکل ہیں تا ہم چند خصوصیا ت ایسی ہیں جنہیں بیان کئے بغیر تعارف نامکمل رہے گا منجملہ خصوصیا ت میں ایک خصوصی امتیا ز تو یہ ہے کہ شروع ہی میں اردو الفا ظ کی فہرست کے علاوہ ص35 سے 66تک عربی الفا ظ اور مادوں ( ROOTS)کی فہرست بھی اردو معا نی کے ساتھ دے دی گئی ہے اس طرح یہ قرآن مجید کی ایک مختصر اور جا مع ذکشزی بن گئی ہے جس ہے جس سے عام اردو خواں طبقہ بھی عربی الفا ظ کے مادہ کی تلا ش کے قواعد وضوابط سے ضروری واقیفیت حا صل کر کے سہولت اور بڑی آسانی کے ساتھ فا ئدہ اٹھا سکتا ہے اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ اہم ضمیموں کا ضا فہ کر کے کتاب کی افادیت کو چا ر چاند لگا دئیے ہیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
ضمیمہ نمبر 1:میں اسماء معرفہ کو 14عنوانات کے تحت بالتفصیل بیان کیا ہے ان عنوانات کے تحت 27انبیاء ورسل علیہ السلام کے حا لا ت زندگی ملا ئکہ میں سے جبریل علیہ السلام و میکائیل علیہ السلام ہاروت و ماروت وغیرہ کا تذکرہ کتب سماوی زبور انجیل تورات اور قرآن مجید نیز ذوالقرنین حضرت مریمعلیہ السلام حضرت زید ،حضرت نعمان ،طا لوت جا لو ت ابو لہب سامری فرعون ہامان وغیرہ کے تذکرے معبودان باطل کا ذکر دجا ل امکن اسماء اعدادسماء ضمیر اور اسماء اشارہ وغیرہ عبادات اور شر عی اصطلا حا ت کاا ضا فہ اس پر مزید ہے۔
ضمیمہ نمبر2:میں اسماء نکرہ متنوع عنوانات کے تحت جا نوروں ،پرندوں ،نبا تا ت و جمادات ،اجزا ء بدن ،ہتھیا ر ،برتن اور کپڑے وغیرہ کے لیے مستعمل عربی الفا ظ اردو زبان اور تشریح کے ساتھ مذکورہیں ۔
ضمیمہ نمبر 3:لغت اضداد پر مشتمل ہے۔
ضمیمہ نمبر4: میں اردو ان طبقہ کے لیے ایک اہم ضرورت کو پورا کیا گیا ہے یعنی ماضی اور مضا رع میں حرف عین میں حرکت کی تبدیلی سے معا فی میں جو فرق واقع ہو جا تا ہے اسے واضح کیا ہے۔
ضمیمہ نمبر5:میں متفرقات کو لیا گیا ہے پھر الفا ظ کے اضداد غلط العوام اور غلط الخواص پر مفید معلومات فرا ہم کی گئی ہیں ۔کتاب میں جو کچھ دیا گیا ہے بحوالہ دیا گیا ہے نیز الفا ظ کے ما بین فرق کی وضا حت کا بھی حوالہ موجود ہے۔
متذکورہ بالا چند نما یاں خصوصیا ت کی روشنی میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب لغت کے بعد تا ریخ جغرا فیہ اور صرف و نحو کے خا طر اہتمام سے ایک جا مع کتاب بن گئی ہے فصاحت و بلا غت کے اعجا ز بیان کی محیرا العقول اور لطافتوں کے انوار سے قلب و ضمیر کو روشن و منور کرنے کا شوق رکھنے والے حضرا ت کے لیے ایک علمی شاہکار ہے دعا ہے بارگاہ رب کا ئنات کے حضور کہ وہ اس گراں مایہ خدمت کو شرف قبولیت سے نوازے ،عوام کے لیے اس سے صحیح استفادہ کا مو قع پیدا فرمائے اور اسے صاحب تصنیف کے لیے بلندی درجا ت اور سرفرازی کا مو جب بنا ئے رکھے ۔(آمین)
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ
ناشر: مکتبہ دارالسلام وسن پورہ لا ہور
ضخامت :328صفحا ت
اس کتاب میں ایسے مسئلہ کی پیچیدگیوں کو کھولا گیا ہے جس نے ہر زمانہ میں انسان کو اپنی طرف کھنچے رکھا ہے اس کے متعلق امم ماضیہ اور اقوام حا لیہ کے ذہنوں میں طرح طرح کے اوہام اور تخیالات جنم لیتے اور پرورش پا تے رہے ہیں اور آج بھی پرورش پا رہے ہیں دور حا ضر کی مہذب و متمدن قومیں بھی تہذیب یا فتگی اور شائستگی کے بلند بانگ دعوے کے باوجود ان خیا ل ت کے بھنور میں سر گرداں ہیں ۔
چاند ایسی اللہ تعا لیٰ کی خوبصورت حسین و جمیل مخلوق کے بارے میں اچھے یا برے شگون لینا اس کی بعض تاریخوں کو سعد (خوش بختی ) اور بعض کو نحس (بد بختی) کا سبب سمجھا کسی تا ریخ کو آغا ز سفر کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کی خوش کن تقریبات کے لیے منحوس و مسعود خیال کرنا اس کے طلوع و غروب اور اس کے گھٹنے بڑھنے اس کی حرکت اور اس کے گہن کا نسانی قسمتوں پر اچھے برے طریقے سے اثر انداز ہو نے کی تو ہم پر ستی میں آج بھی لو گ مبتلا ہیں حالا نکہ چاند تو قدرتی جنتری ہے جو نیلگوں آسمان پر نمودار ہو کر جلوہ نما ہو تا ہے اور اس طرح دنیا بھر کے لو گوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتا تا رہتا ہے ۔
تقویم چونکہ فطرت انسان کے زیادہ قریب اور عام مشاہدہ میں آنے والی ہے اسی وجہ سے اسلام نے اس فطری طریقہ حساب کو حقیقی اور اصلی طریقہ قرار دیا ہے باوجود فطرت انسانی کے قریب ہو نے اور عام مشاہدہ میں آنے کے اس کے گھنٹےبڑھنے کا راز عام انسانوں پر واشگا ف نہ ہو سکا اسی مخفی راز اور اوجھل حقیقت کو اجا گر کر نے کے لیے یہ تصنیف معرض وجود میں آئی ہے اس کتاب کے تین حصے ہیں ۔
پہلے حصہ میں علم ہیئت کے اہم مسائل مثلاً سیاروں کی گردش کے انسانی زندگی پر انفرادی اور اجتماعی اثرا ت کو تسلیم کر لینے سے نجوم و کواکب پرستی اور اصنام و بت پرستی کا رواج روئیت حلال اور مطالع کا اختلا ف مختلف ممالک اور مشہور شہروں کے درجہ طول بلد و عرض حرکت زمین اور سکون شمس سے متعلق گذشتہ ادوار میں مختلف نظریا ت ہئیت کے موجودہ نظریا ت اور اسلامی نظریا ت کا تقابلی مطا لعہ جس کے اہم ترین مسائل پر عالمانہ و ناقدانہ کلا م کیا گیا ہے دوسرے حصہ میں ہجری اور عیسوی سال میں دن معلوم کرنے اور ہجری اور عیسوی سنین میں باہمی مطا بقت کے طریقے درج ہیں نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے انہی ممیزات و امتیازات اور خصوصیات کی وجہ سے قمری تقویم ہی قدیمی اور حقیقی تقویم ہے۔
اور تیسرے حصہ میں 1ھ/622ءسے لے کر 1680ھ/2252ء تک کی تقابلی تقویم پیش کی گئی ہے۔آخر میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کے اہم واقعات اور آغا ز خلافت سے لے کر 1924ءاختتا م خلا فت تک کے ہجری اور عیسوی سال بقیدہ ماہ درج کئے گئےہیں جو کتاب کی افادیت اور حسن میں اضا فہ کا مو جب ہیں جس طرح شمس و قمر تاروزابد اہل دنیا کے لیے منفعت بخش رہیں گے اسی طرح یہ کتاب بھی لوگوں کے لیے دانا ئی کے پھول نچھاور کرتی اور ان کے لیے راہنما کا کا م انجا م دیتی رہے گی۔
ان شاء اللہ العزیز!