مولانا عبد الرحمٰن کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریا ت (اپنی تا لیفا ت کی روشنی میں )

مولانا عبد الرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ ایسی شخصیا ت میں سے تھے جن کا وجود امت مسلمہ کے لیے خیرو برکت کا با عث ہو تا ہے کیونکہ اسلام کی با لا دستی ان کی زند گی کا مشن تھا جبکہ مو لا نا مو صوف ہمیشہ نمود و نما ئش سے با لا تر ہو کر خدمت دین متین میں مصروف رہنے والے اور حصول شہرت کی خا ر داروادیوں سے دا من بچا کر مسلمانوں کی بہتری کے لیے کو شاں رہنے والے تھے اس مملکت خداداد میں جب بھی کو ئی مسئلہ اٹھتا تو اسلام کا یہ گم نام سپا ہی کا غز اور قلم سنبھا لتا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں درپیش مسئلے کا حل پیش کر کے امت کی را ہنما ئی کا فریضہ سر انجا م دیتا وہ اخلا ق حسنہ کے زیور سے آراستہ تھے اور ہر بڑے یا چھوٹے کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے وہ خواتین کی اسلامی تعلیم و تربیت پر خصوصی تو جہ دیا کرتے تھے اسی غرض سے انھوں نے ایک مدرسۃ البنا ت کا اجر ابی کر رکھا تھا جس  کی سر پرستی وہ خود فر ما یا کرتے تھے راقم کو کچھ عرصہ محترم حا فظ عبد الرحمٰن مدنی صاحب کی را ہنما ئی میں ان کے مدرسہ میں تدریس کا موقع میسر آیا جب بھی وہاں مو لانا مرحوم سے ملا قات ہوتی تو اخلا ق سے پیش آتے اور اپنے حلقہ یاراں میں جلوہ افروز احباب سے مجھ نا چیز کا تعارف کرانے میں کو ئی خفت محسوس نہ کرتے جب وہ عنان قلم تھا مے ہو ئے تحقیق کے میدان میں اترتے تو علمی سفر کا حق ادا کردیتے تھے اور الجھے ہو ئے مسئلہ کا ایسا آسان اور مدلل حل پیش کرتے کہ علم دوست احباب محظوظ ہو ئے بغیر نہ رہ سکتے  ،ہمہ وقت وہ اپنی تصنیف و تا لیف کی سر گرمیوں میں مگن رہتے اور اس کا م کی انجا م وہی میں کو ئی دقیقہ فروگذاشت نہیں جا نے دیتے  تھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے دنیا سے رحلت فر ما جانے کے باوجود ان کا علمی سر ما یہ تالیفا ت کی شکل میں موجود ہے جو ہمہ تر جدید مسائل و نظریا ت پر مشتمل ہے اور تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے ۔
عقل اور وحی کے تقابل میں مو لانا کیلا نی کی معتدل را ئے:۔
مولا نا کیلا نی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تصنیفات سے مستفید ہو نے والے حضرات پر یہ بات عیاں ہے کہ آپ  باز مخا لف کی پروا کئے بغیر عقیدہ سلفیہ کے دھنی تھے تقلید مغرب سے سخت متنفر تھے اتباع سنت سے سر شار اور دین حق کے شیدا ئی تھے وہ ہر میدا ن میں وحی الٰہی کو عقل انسانی پر فوقیت دیتے تھے فلکیا ت پر بھی گہری نظر رکھتے تھے سائنسی  نظر یا ت سے باخبر تھے اور معاشیا ت و سیاسیات  پر بھی انہیں عبور حاصل تھا قرآن کریم میں ذکر ہونے والے عقائد و احکا م کو وہ بلا تاویل و تحریف مان لینے کے قائل تھے اور انہیں سمجھنے میں عقلی اور سلفی مو شکا فیوں کو کو ئی اہمیت نہیں دیتے تھے جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں: "بس ایک مسلمان کا ایمان یہ ہو نا چا ہیے کہ جو کچھ قرآن میں مذکورہ ہے اس کو جوں کا توں تسلیم کرے اسے عقل اور فلسفہ کی سان پر چڑھا کر اس کی دوراز کار تاویلات و تحریفا ت پیش کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں اور نہ ہی قرآن ایسی فلسفیانہ مو شگا فیوں کا متحمل ہو سکتا ہے کیونکہ جن لوگوں پر یہ قرآن نازل ہوا تھا وہ امی اور فلسفیانہ  موشگا فیوں سے قطعاً نا بلد تھے۔(آئنیہ پرویزیت :ص35)
عقائد کے معاملہ میں اکثر گمرا ہ ہو نے والے فرقوں کے انحرا ف کی اصل وجہ یہی تھی کہ انھوں نے فلسفی نظریا ت سے متا ثر ہو کر بجا ئے وحی کے عقل کو را ہنما بنا لیا اگر چہ عقل اللہ تعا لیٰ کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے اسی کے ذریعے سے انسان اور حیوان میں فرق کیا جا تا ہے لیکن اگر وحی پر عقل کو حا کم بنا لیا جا ئے تو یہ عقلمندی کی بجا ئے عقل پرستی شمار ہو تی ہے جس کے مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ  مر حوم سخت مخا لف تھے اور وہ عقل کااصل مقام متعین کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
"اگر عقل وحی کے تابع ہو کر چلے تو یہ خا لق کا ئنا ت پر بے پناہ ایمان و یقین کا سبب بنتی ہے اور اگر عقل وحی سے بے نیا ز ہو کر چلے تو بسا اوقات ضلا لت و گمرا ہی کی انتہا ئی پنہائیوں میں جا گرا تی ہے یہیں سے عقل اور وحی کے مقامات کا تعین ہو جا تا ہے۔(آئینہ پرویزیت :ص78)
اور وہ اپنی تا لیفات "شریعت و طریقت " میں مقام عقل کی وضا حت کرتے ہو ئے راقم طرا ز ہیں ۔
"دین کے اصول عقائد و احکا م کو عقل کےحوالہ نہیں کیا گیا بلکہ عقل کو وحی کے تا بع کر کے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے خا لق کا ئنا ت نے اپنے خاص فضل و کرم سے انبیا ء  علیہ السلام  پر وحی نازل فر ما کر انسان کو کا ئنا ت میں اس کے صحیح مقام کی نشاندہی بھی کر دی ہے بالفاظ دیگر  کسی نبی کی صداقت تک پہنچنے  کی حد تک تو انسان اپنی عقل سے کا م لینے میں مختار ہے لیکن کسی نبی پر ایمان لا نے کے بعد اے یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ اس کی ہر ہر خبر کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھے بلکہ اب نبی کی را ہنما ئی واجب ہو تی ہے اسی چیز کا نا م دین ہے "(ص18)
عقل کی مثا ل آنکھ سی ہے اور وحی الٰہی  سورج کی مثل ہے آنکھ کے لیے ضروری ہے کہ سورج کے تابع رہ کر اس کی روشنی سے فائدہ اٹھا ئے ۔لیکن اس کے لیے یہ گنجا ئش نہیں کہ وہ نظا م شمسی کے کسی جزپر اعترا ض اٹھا ئے اور اس میں کیڑے نکا لنے کی کوشش کرے  ورنہ قصور آنکھ کا ہو گا نہ کہ نظا م شمسی کا کیونکہ آنکھ اگر نظا م شمسی کے بعض اجزا کا ادراک کر سکتی ہے تو اس کے اکثر اجزا کی حقیقت معلوم کر لینا اس کے بس کا روگ نہیں ہے با لکل اسی طرح عقل کا کا م بھی یہ ہے کہ وحی الٰہی کے تا بع و رہ کر اس کی ضیا پا شیوں سے مستفید ہوا ور وحی کے ذکر کردہ احکا م کی حکمتوں کو معلوم کرنے کا اختیار بھی اسے حا صل ہے لیکن عقل کو وحی پر حکمران بننے یا اس کے بعض اجزا کا انکا ر کرنے کی اجا زت اسے نہیں دی گئی ورنہ قصور عقل کا ہو گا وحی کا نہیں ۔
عقل کے دائرہ کا ر کو متعین کرتے ہو ئے مو لانا مزید لکھتے ہیں ۔
"ہمارے خیا ل میں عقل کے کام مندرجہ ذیل قسم کے ہو نے چا ہئیں ۔
1۔وحی کے بیان کردہ اصول و احکا م کے اسرار و حکمتوں کی تو ضیح و تشریح ۔
2۔احکا م کے نفا ذ کے عملی طریقوں پر زمانہ کے حالات کے مطا بق غور کرنا اور پیش آمد ہ رکا وٹوں کو دور کرنا ۔
3۔مو جود دور کے نظریا ت کے مقابلہ میں وحی کے نظریا ت کی بر تری ثا بت کرنا اور ان کو مدلل طور پر پیش کرنا ۔
4۔تحریف شدہ ادیا ن پر اسلام کی برتری  اور فوقیت کو دلائل سے ثا بت کرنا اور بیرونی حملوں کا دفاع کرنا۔
5۔انفس و آفاق کی وہ آیات جن میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے ان میں تحقیق و تفتیش کر کے انہیں آگے بڑھا نا اور ان سے مطلوبہ فوائد حاصل کرنا ۔
یہ اور اس جیسے کئی دوسرے کا م ہیں جن میں عقل سے کا م لیا جا سکتا ہے ۔
آئینہ پرویزیت :ص79)
لیکن اس کے برعکس اگر وحی پر عقل کی بر تری تسلیم کر لیا جا ئے جیسا کہ عقل پرست حضرات کا وطیرہ ہے اور عقل کو اجزاء وحی پر حکومت کرنے کی آزادی دے دی جا ئے تو اس کا نتیجہ امت میں افترا ق و انتشار کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور بڑھتے ہو ئے فرقہ پرستی کے سیلا ب کو رو کا نہیں جا سکے گا ۔جیسا کہ وہ فرماتے ہیں ۔
"مذاہب عالم میں جب بھی کبھی بگا ڑ پیدا ہوا ہے انہی دو چیزوں عقل اور وجدان کے استعمال میں افراط و تفریط سے ہوا ہے ۔عقل نے جب وحی الٰہی میں بے تنقید و مدا خلت کی اور اسے کلا م اور فلسفہ کی سان پر چڑھا یا تو اس سے کیا گل کھلے اور کتنے ہی فرقے وجود میں آئے " (شریعت  وطریقت :ص19)
کو ئی شخص ہر لحا ظ سے اپنے کا مل ہو نے کا دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ بہت سی خوبیوں کے باوجود وہ بے شمار عیوب و نقائص کا مجموعہ ہے بنا بریں انسانی عقل کے کا مل ہو نے کا دعویٰ ہی خلا ف عقل ہے جبکہ وحی الٰہی ہر لھا ظ سے کا مل ہے لہٰذا نا قص عقل کو کا مل وحی پر حکمرا ن نہیں بنا یا جا سکتا نقص عقل کی وضا حت کرتے ہو ئے مو لا نا لکھتے ہیں ۔
"انسان کی عقل محدود ہے زندگی میں بے شمار ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جن میں اکثر عقل بھٹک جا تی ہے مثلاً اس کا ئنا ت کی ابتادا ء کیسے ہو ئی ؟وہ دنیا میں کس حیثیت سے آیا ہے؟ مرنے کے بعد روح بھی فنا ہو جا ئے گی ؟ اور اگر ایسا نہیں تو پھر اس کی آئندہ زندگی کس طرح کی ہو گی؟ یہ ایسے سوالات  ہیں جن کا عقل کی کسوٹی پر تجربہ  و مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا "(شریعت و طریقت :ص17)
مولانا کے نزدیک سنت کی اہمیت :
مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ  ایسے سوالات کے جوابات کے لیے قرآن و سنت پر ہی اکتفا کرنے کے قائل ہیں اور قرآنی آیات کے مطا لب کے متعین کرنے میں بجائے عقل کے وہ حدیث و سنت کو اساس قرار دیتے ہیں ۔جیسا کہ وہ فرماتے ہیں 
"اگر حکمت یا سنت کو قرآن سے الگ کر لیا جا ئے تو قرآن کے الفا ظ کی حفا ظت بے معنی ہو کر رہ جا تی ہے "(آئینہ پرویزیت :ص172)
لیکن جو لو گ حدیث و سنت کو قرآن کریم سے الگ سمجھتے ہیں اور اس غلط فہمی کی بنا پر ایک کی بجا ئے دو اسلام کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں مو لا نا مرھوم ایسے نظریہ کو جہا لت قرار دیتے ہیں اور حدیث و سنت  کو قرآن کریم کی عملی تعبیر سمجھتے ہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں ۔
"درحقیقت کتاب و سنت ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں ایک میں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے شریعت نا زل ہو نے کے اعتبار سے ربویت اور حاکمیت کا پہلو اجا گر ہے تو دوسرے میں شریعت کی عملی تعبیر کے اعتبار سے اطا عت اور نمونہ کا پہلو گو یا کتاب میں الفا ظ کا پہلو غا لب ہے اور سنت میں معنی اور مفہوم کا پہلو" (آئینہ پرویزیت: ص157)
اس کے بعد وہ چند مثا لوں سے اس بات کی وضا حت کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے مجموعے تو بے شک الگ الگ ہیں لیکن ان دونوں میں ایک دوسرے کے التزام کا ذکر مو جو د ہے اور وہ قرآن پر عمل کے لیے اتباع سنت کو ضروری قراردیتے ہیں ۔اور افتراق و انتشا ر سے بچنے کے لیے صاحب  قرآن  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوہ حسنہ کی پیروی کو نا گزیر سمجھتے ہیں اس کے لیے ان کا یہ اقتباس ملا حظہ ہو۔
"قرآن سےہدا یت و را ہنما ئی حاصل کرنے کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں قلب سلیم اور عقل صحیح اگر کو ئی شخص انہی دو شرطوں کو ملوظ رکھ کر یعنی خلوص نیت سے اور خا لی الذھن ہو کر قرآن مجید کا مطا لعہ کرے تو وہ حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس طریق کا ر کوتسلیم کرنے اور اس کی اتبا ع کرنے پر مجبور ہو جا تا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قرآنی احکا م کی تعمیل کے دورا ن اختیا ر کر کے امت مسلمہ کو دکھلا یا تھا اس طریق کار کو قرآن   نے  اسوہ حسنہ قرار دیا اور اس کی اتباع کو مسلمانوں کے لیے تا قیامت واجب الاتباع قراردیا ہے۔کیونکہ اس کی اتباع کے بغیر قرآن پر عمل کرنا نا ممکن ہو جا تا ہے حتیٰ کہ اگر یہ کہہ دیا جا ئے کہ شرک کے بعد قرآن نے جتنا زور اطاعت و اتباع رسول اور اس کے ادب و احترا م پر دیا ہے اتنا اور کسی بات پر نہیں دیا تو یہ بے جا بات نہ ہو گی۔(آئینہ پرویزیت :ص4)
انکا ر سنت کے محرکات :
کسی بیما ری کے علاج کے لیے سب سے پہلے اس کی صحیح تشخیص کی ضرورت ہو تی ہے جس کے بغیر علاج کا ر گر نہیں ہو سکتا اسی لیے مو لا نا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ  انکا ر سنت کے اصل محرکات سے نقاب کشائی کرتے ہیں اور حدیث و سنت سے فرار کی وجہ بیان کرتے ہوئے فر ما تے ہیں ۔
"سنت رسول کی حجیت سے انکا ر کے فتنہ نے دوسری صدی میں سر اٹھا یا تھا میں اس طبقہ کے بہت سے لٹریچر کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ انکا ر سنت کی بنیا دی محرکات دو ہی چیزیں ہیں (1)فلسفیانہ یا سائنٹیفک نظریا ت سے مرعوبیت (2) اتباع ہوائے نفس ۔۔۔یعنی ایک مسلمان کی طرز بود و باش اعمال و افعال اور اکتساب رزق پر سنت رسول جو پابندیا ں عائد کرتی ہے ان سے فرار و گریز" (آئینہ پرویزیت: ص4)
مولانا مرحوم کے نزدیک فتنہ انکا ر حدیث کا زمانہ قدیم ہے اور اس فتنے کے ڈانڈے  معتزلہ سے جا ملتے ہیں ۔جو وحی پر عقل کو غا لب کرنے کے پر چا رک تھے چنانچہ وہ لکھتے ہیں ۔
"یہ اتفاق کی بات ہے کہ اس دور میں فتنہ انکا ر سنت یا اعتزال کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہو گئی ۔جس کی وجہ سے یہ فتنہ تقریباً سوا سو سال زندہ رہا اور جب یہ سر پرستی ختم ہو گئی  یہ فتنہ بھی آپ ہی اپنی مو ت مر گیا اور اس کی مو ت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ سنت رسول کی حجیت سے انکا ر ایک ایسا نظریہ تھا جو اسلام کے مزاج سے بالکل لگا ؤ نہیں کھا تا تھا (آئینہ پرویزیت: ص4)
پرویزیت کی پذیرائی کیوں؟ :
عام طور پر یہ سمجھا جا تا ہے کہ منکرین حدیث اس حدیث کا انکا ر کرتے ہیں جو عقل کی کسوٹی پر پو ری نہیں اترتی اور عقل عام اسے قبول کرنے سے اباء کرتی ہے لیکن کیلا نی صاحب مرحوم کے نزدیک انکا ر حدیث کی اصل وجہ یہ نہیں کہ وہ عقل کے خلا ف ہو کیونکہ کو ئی صحیح حدیث عقل عا م کے خلا ف نہیں ہو سکتی درا صل انکا ر کا سبب اتباع ہوائے نفس ہے اور دوسرے لوگوں کو اپنے دام فریب میں پھا نسنے کے لیے نصوص قرآنی کو لوگوں کی خواہشات کے مطا بق ڈھالنے کا حربہ ہے جیسا کہ وہ رقم طراز ہیں ۔
"برصغیر پا ک و ہند میں اس طبقہ (انکا ر حدیث ) کا سب سے بڑا ترجمان ادارہ "طلوع اسلام" ہے جس نے چند ایسے نظریا ت کی داغ بیل ڈا لی ہے جو اس کی شہرت اور پذیرائی کا اچھا خاصہ سبب بن گئے ہیں ۔مثلاً ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی ہمنوائی نے اسے کالجوں میں پرھنے والے طلبہ میں منقول بنا دیا ہے حتیٰ کہ پرویز صاحب ڈارون جیسے ہی سائنسٹ حضرا ت  کو حقیقی علماء کا مصداق سمجھتے ہیں نظریہ مساوات مردو زن ادارہ اپوایا اسی قبیل سے تعلق رکھنے والے دوسرے اداروں کی خواتین کے دل کی آواز ہے ۔انکار سنت اور نظریہ مرکز ملت نے حج صاحبان کو اجتہاد کے بے پناہ اختیار دے کر ان میں پذیرا ئی حاصل کر لی ہے اور نظریہ نظا م ربوبیت انتظا میہ سے تعلق رکھنے والے حکمرا ن طبقہ کے لیے بہت خوش آئندہے اور یہی وہ طبقے ہیں جو کسی ملک کے تہذیب و تمدن اور مستقبل پر اثر اندا ز ہو تے ہیں ۔(آئینہ پرویزیت : ص5)
منکرین حدیث تقریر و تحریر کے ذریعے لوگوں کو یہ تا ثر دینے کی کو شش کرتے رہتے ہیں کہ خدائی وحی صرف قرآن میں منحصر ہے اس لیے اللہ تعا لیٰ نے اس کی حفا ظت کی ذمہ داری لی ہے۔لیکن احا دیث و روایا ت وحی ا لٰہی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی حفا ظت کی کو ئی ضمانت دی گئی ہے لہٰذا صحت حدیث کے لیے قرآنی مطا بقت شرط ہے اس طرح اپنے قارئین اور سامعین کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ وحی الٰہی یعنی قرآنی نظا م کے علمبرادر ہیں مگر وہ قرآن کریم کی ان نصوص و آیات کو منظر عام پر نہیں لا تے جن میں اللہ تعا لیٰ کی اطاعت کےساتھ ساتھ صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتبا ع کا حکم اور اسوہ حسنہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بیان قرآں کا درجہ دیا گیا ہے بنا بریں کیلا نی صاحب مر حوم کے ہاں ایسے لو گ حدیث و سنت کے علاوہ قرآن کریم کے ساتھ بھی مخلص نہیں نہیں ہیں اور وہ حجیت حدیث سے متعلق چند قرآنی آیا ت درج کرنے کے بعد فر ما تے ہیں ۔
"مندرجہ ذیل بالا آیا ت سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے قرآن کے ساتھ ساتھ اس کے بیان کی حفا ظت کی ذمہ داری بھی لے رکھی ہے مگر ادارہ "مطلوع اسلام "بیان کے متعلق اللہ تعا لیٰ کی ذمہ داری کا نام لینے سے بھی بدکتا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہو جا تا ہے کہ سنت رسول کو پس پشت ڈا لنے کے بعد یہ حضرات قرآن کے ساتھ کس حد تک مخلص ہیں ۔
(آئینہ پرویزیت :179)
فتنہ انکا ر حدیث کی سر کوبی کیونکر ؟
مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ  انکا ر حدیث کے مرض کو واشکاف کرنے کے بعد اس کا صحیح علا ج بھی بتاتے ہیں اور یہ فتنہ جو نت نئے روپ بدل کر سامنے آتا ہے اس کے مکروفریب کو سامنے رکھ کر اس کے سد باب کے طریقہ کار کو نمایاں کرتے ہو ئے لکھتے ہیں۔
"آج کا منکر حدیث طبقہ جوابوں کے جواب بھی پیش کر رہا ہے اور انپر مزید اعترا ضا ت بھی وارد کر رہا ہے نیز اس نے تشکیک کے چند مزید پہلواجا گر کر کے انکا ر سنت کے فتنہ کی کئی نئی را ہیں بھی کھول دی ہیں اندر یں حا لا ت میرے خیا ل میں دو پہلوؤں پر کا م کرنے کی ضرورت ہے ،ایک تو یہ کہ اصولی بحثوں سے ہٹ کر برا ہ راست منکرین حدیث کے اعترا ضا ت کو ہی بنیا د بنا کر ان کا جواب پیش کرنا چا ہیے اور دوسرے یہ کہ انکا ر  سنت کے بعد جو نظریا ت یہ حضرات پیش فرما رہے ہیں ان کا قرآن اور صرف قرآن کی روشنی میں پو را پورا محا سبہ کرنا چا ہیے ان پہلوؤں پر بھی اگر چہ کچھ کا م ہو چکا ہے تا ہم یہ دونوں پہلو ہنوز تشنہ تکمیل ہیں "(آئینہ پرویزیت:ص 6)
مولا نا کی تقلید مغرب سے نفرت ۔
منکرین حدیث عا م طور پر مغربی افکا ر سے متا ثر ہو تے ہیں اور اس وجہ سے ان کی اسلام سے وابستگی بھی ماند پڑ جا تی ہے مگر وہ اپنے آپ سے اسلام کا لیبل ہٹا نا بھی گوارانہیں کرتے اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تشریحا ت سے رو گردا نی کر کے وہ قرآنی آیا ت کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو مغربی افکا ر کے رنگ میں رنگی ہو تی ہے جبکہ مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ   مغربی تہذیب و ثقافت کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی ظا ہری ٹیپ ٹاپ سے فریب خوردہ مسلمانوں کی حا لت زار کے با رے میں فر ما تے ہیں ۔
"ہمارے جدید تعلیم یا فتہ مہذب طبقہ کو اس تہذیب کی ظا ہری چمک دمک نے کچھ ایسا مسحور کر رکھا ہے کہ وہ اس کے عواقب و نتا ئج سے آنکھیں بند کر کے اس تہذیب کو اپنے ملک و قوم کی ترقی کا راز اسی میں سمجھتا ہے۔
(احکا م سترو حجا ب :ص3)
مولانا کیلا نی رحمۃ اللہ علیہ  اور فہم قرآن ۔
اگر اللہ تعا لیٰ کسی شخص کو اپنی کتا ب کی صحیح سمجھ عطا کردے اور اسے قرآن کی روشنی میں غلط نظریا ت کی تر دید کی صلا حیت حا صل ہو جا ئے تو یہ اللہ تعا لیٰ کا بہت بڑا انعام ہے ۔مو لانا مرحوم کو اس میدا ن میں بھی وافرحصہ ملا تھا اور وہ قرآنی آیا ت کے ساتھ غلط افکا ر پر ضرب لگا نے کی استعادررکھتے تھے چنانچہ مادہ پرستوں نے جب مادہ کو قدیم اور ازلی کہا اور کا ئنا ت کو اتفاقات کا نتیجہ قرار دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اتفا ق سے مادہ کے مختلف اجزاء کے کمیا دی عمل سے پانی معرض وجود میں آیا پھر اتفا ق ہی سے اس ما دہ کے مختلف اجزاء کے کمیادی عمل سے زند گی کی نمود ہو ئی جو نبا تا ت اور حیوانا ت کی راہوں سے گزرتی ہو ئی انسانی شکل میں آئی ہے اور انسان بھی دوسری مو جو دات کی طرح پیدا ہو تا اور ختم ہو جا تا ہے ،مزید بریں بعض لوگوں نے اس مغربی نظر یہ ارتقاء کو قرآنی نظریہ قرار دے ڈا لا اور اسے قرآنی آیا ت ے کشید کرنے کی کو شش کی تو مولانا نے اس نظر یہ کو ایمان باللہ کے منا فی قرار دیا جس سے آخرت کے دن پر ایما ن کی نفی بھی ہو جا تی ہے اور اس کی تر دید میں یہ قرآنی آیت پیش کی۔
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ‌ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
"یعنی وہ کہتے ہیں ہماری زندگی تو اس دنیا کی زند گی ہے ہم مرتے اور جیتے ہیں ہمیں زمانہ ہی ہلا ک کرتا ہے اور ان کو اس کا کچھ علم نہیں صرف ظن سے کا م لیتے ہیں ۔"
مزید فر ما تے ہیں :آیت با لا واضح ہے کہ اس گروہ کے نظریا ت محض ظن اور قیا س پر مبنی ہیں جن  کے نیچے کو ئی ٹھوس سائنٹیفک بنیا د نہیں اس گروہ کو دہریہ مادہ پرست یا مادیین کہتے ہیں "(آئینہ پرویزیت :ص45)
ایسے ملحدا نہ اور کا فر انہ نظریا ت کو قرآن کریم پر مسلط کرنا اور قرآن مجید کی با ت ماننے کی بجا ئے الٹا اپنی بات قرآن سے منوانے کی کوشش  کرنا سراسر گمرا ہی اور انانیت پر مبنی ہے اور تفسیر بالرا ئے کے قبیل سے ہے قرآن کریم سے ہدایت حا صل کرنے کے لیے قلب سلیم کی شرط ہے مولانا کیلا نی  رحمۃ اللہ علیہ  سورۃ بقرہ کی آیت۔
يُضِلُّ بِهِ كَثِيرً‌ا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرً‌اکے تحت اس شرط کی یو ں وضا حت کرتے ہیں ۔
"قرآن واقعی سب کے لیے ہدایت ہے مگر جو قلب سلیم کے ساتھ اس سے ہدایت حاصل کرنا چا ہے اور جس کا دل کج رواور فاسق نہ ہو ۔جو قرآن کی روشنی کے تا بع ہو کر چلنا چا ہے نہ کہ قرآن کو اپنے قلب و ذہن کے تا بع کرناچا ہے سارے بدو یا مولوی  یا ہر زمانہ کے سقرا ط اس سے ہدا یت ہی نہیں پا تے بیشتر گمرا ہ بھی ہو جا تے ہیں اور مشاہدہ بھی اس بات کی تا ئید و تو ثیق کرتا ہے کہ اکثر گمرا ہ فرقوں اور مذاہب با طلہ کے بانی انتہا درجہ کے ذہین و فطین قسم کے لو گ ہو تے ہیں "(آئینہ پرویزیت:ص80)
انسانی علم چو نکہ نا قص ہے اس لیے مو لا نا مر حوم کے نزدیک انسانی نظریا ت کو قرآن و سنت کے سر تھوپنا یا ان کے مقابلہ میں انسانی نظریا ت پر انحصار کرنا مناسب نہیں ہے ،جیسا کہ وہ فر ما تے ہیں ۔
"جب انسان کا علم اللہ تعا لیٰ کے علم کے مقابلہ میں کم ہے تو پھر کم از کم ایک مسلمان کو کیا حق ہے کہ وہ کتاب اللہ یا کسی صحیح حدیث کے مقابلہ میں اپنے  یا دوسرے لوگوں کے علم اور نظریا ت پر انحصار کرے "( الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ‌ بِحُسْبَانٍ:ص81)
مولانا کیلا نی  رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔معاشیا ت کے میدا ن میں
قرآن و سنت میں بصیرت کے ساتھ ساتھ مولانا کیلا نی  رحمۃ اللہ علیہ معاشیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور معاشی مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کرنے میں انہیں مہا رت تا مہ حاصل تھی اور اس پر ان کے تصنیف "تجا رت اور لین دین کے مسائل و احکا م "قابل مطا لعہ ہے ہم اس کتاب میں سے ایک آدھ اقتباس پیش کرنے پر ہی اکتفا کریں گے جس سے اس کتاب کی افادیت اور اس کے مصنف کی اس فن میں بصیرت کی نشاندہی ہو سکے ۔
مولانا کیلا نی  رحمۃ اللہ علیہ  سرمایہ دارانہ نظا م معیشت  پر اسلامی نظا م معیشت کی بر تری کے قائل تھے اور اس نظا م کو دیگر تمام نطا م ہائے معیشت سے بہتر اور مفید سمجھتے تھے جیسا کہ وہ سرما یہ دارانہ نظا م معیشت اور اسلامی نظا م معیشت میں گردش زر کی رفتا ر کو ایک مثا ل سے اجاگر کرتے ہو ئے لکھتے ہیں  ۔
"معا شرہ کی مثا ل اس گہرے پا نی کی سی ہے جو کسی کھلے منہ والے برتن میں پڑا ہو ہواکی لہریں پا نی کی اوپر کی سطح کو متحرک رکھتی ہیں جس کا اثر تھوڑا بہت در میانی حصہ تک بھی پہنچ جا تا ہے لیکن نچلا حصہ بالمعموم ساکن رہتا ہے یا بہت کم اثر قبول کرتا ہے یہی صورت حا ل سورج کی گرمی کی بھی ہے کہ وہ پا نی کی اوپر کی سطح کو گرم کردیتا ہے جس اثر درمیانی حصہ پر پہنچ جا تا ہے لیکن گہرا ئی والا پا نی عموماً ٹھنڈا ہی رہتا ہے یا بہت کم اثر پذیر ہو تا ہے یہ صورت حا ل سر ما یہ دارانہ نظا م معیشت میں واقع ہو تی ہے جہاں غریب کا کو ئی پرسان حا ل نہیں ہو تا رویے کی گردش صرف اس حد تک ہو تی ہے کہ وہ بمشکل بسااوقات کر سکتے ہیں یا اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں اور اسلامی نظام معیشت کی مثا ل یہ ہے جیسے اس پانی کو نیچے سے آگ کے ذریعہ جو ش دے تو پانی نیچے سے اٹھ کر تمام پانی کو گرم اور متحرک کردے گا اوپر کے پا نی کو نیچے آنا پڑے گا اور نیچے پانی ضرور اوپر اٹھے گا کیونکہ امراء کی دولت میں جو اسلام نے غریب کا حق مقرر کیا ہوا ہے وہ صرف خیرا ت نہیں کہ امیرلو گ محض اپنی مہربانی سے کسی پر نظر کرم کر کے اپنی ذمہ داری سے عہد ہ برآجا ئیں اور پھر یہ بھی چا ہیں کہ وہ غریب ان کے ممنون احسان بھی ہوں ،تو جس طرح جو ش کھایا ہوا پا نی سارے پانی کو متحرک بنا دیتا ہے اسی طرح غریب طبقہ میں سر ما یہ کا ری کی تخم ریزی گردش دولت کی رفتار کو کئی گنا تیز کر دیتی ہے اور یہ تو علم معاشیات کا مسلمہ اصول ہے گردش دولت کی رفتار جتنی تیز  ہو گی معا شرہ کی معیشت اسی رفتار سے مظبوط ہو تی جا ئے گی۔(تجارت اور لین دین کے مسائل و احکا م :ص104)
الغرض سر ما یہ دارانہ نظا م میں سر ما یہ دار لو گ ہی دونوں ہا تھوں سے دولت سمیٹنے میں سر گرم رہتے ہیں اور اس نظا م کی تمام معاشی اصلا ھا ت سے امیر لو گ ہی فا ئدہ اٹھا تے ہیں یو ں دن بدن بڑی مچھلیاں اپنے سے چھوٹی مچھلیوں کو ہڑپ کئے جا تی ہیں اور غریب طبقہ ہمیشہ سر ما یہ داروں کے پا ؤں تلے دبا رہتا ہے۔
جبکہ اسلامی نظا م معیشت میں سب سے زیادہ تو جہ غریب طبقہ پر ہی دی جا تی ہے اور اسے حرکت دے کر آگے لا نے کی کو شش کی جا تی ہے اور معاشرہ کے نادار طبقہ کو سر ما یہ داروں کے نیچے سے چھڑا نے کی فکر کی جا تی ہے جیسا کہ برتن کو نیچے سے جو ش دیا جائے تو سب سے پہلے وہ پا نی متحرک ہو گا جو برتن کی نچلی سطح میں دبا ہوا ہو۔
مولا نا کیلانی رحمۃ اللہ علیہ  کا مطالعہ فلکیا ت ۔
مولا نا کیلانی رحمۃ اللہ علیہ  راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے دوسرے مذاہب پر اسلامی شعائر کی فوقیت کے قائل تھے اسی طرح وہ شمسی تقویم پر قمری تقویم کی بر تری کو دلا ئل سے ثابت کرتے تھے لہٰذا ہجری سن کی چند خصوصیا ت گنواتے ہو ئے اس کی ایک خصوصیت "مساوات اور ہمہ گیری" کے عنوان کے تحت ذکر کرتے ہو ئے فرما تے ہیں ۔
"اسلام دین فطرت ہے لہٰذا مصالح عامہ پر مبنی ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے یہی پسند فر ما یا کہاسلامی مہینے ادلتے بدلتے مو سم میں آیا کریں لہٰذا قمری تقویم کو بنیا د قرار دیا ۔اگر اسلام کنیساکے طریقے کو گوارہ کر لیتا (یعنی شمسی تقویم کو قبول کر لیتا ) تو رمضا ن کا مہینہ (ماہ صیا م ) کسی ایک مقام پر ہمیشہ ایک ہی موسم میں آیا کرتا جس کا لا زمی نتیجہ یہ ہو تا کہ نصف دنیا کے مسلمان جہاں مو سم گرم اور دن بڑے ہو تے ہیں ہمیشہ تنگی اور سختی میں پڑجا تے ہیں اور باقی نصف دنیا کے مسلمان جہاں مو سم سرد اور دن چھوٹے ہوتے ہیں ہمیشہ کے لیے آسانی میں رہتے روزے کے علاوہ سفر حج کا بھی یہی حا ل ہو تا لہٰذا مساوات اور جہانگیری کا تقاضا یہی تھا کہ ما ہ سال کا حساب قمری تقویم پر مبنی ہو اور اسے کنیسا جیسی انسانی اخترا عا ت سے پا ک رکھا جا ئے "
( الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ‌ بِحُسْبَانٍ:18)
ہجری تقویم یا سن ہجری کا نظا م چا ند سے وابستہ ہے جو انسانی تر میمات سے پا ک ہے اور اس میں مہینوں کے دنوں کی تعدادتیس ہو تی ہے تو کبھی انتیس دن کا بھی ہو تا ہے مولانا کیلانی رحمۃ اللہ علیہ  مہینوں کے دنوں کی کمی بیشی کا سبب بیان کرتے ہو ئے فرما تے ہیں ۔
"سیاروں کے مدار پورے گو ل نہیں ہو تے بلکہ بعض قوانین حرکت کے تحت بیضوی شکل اختیار کر جا تے ہیں جب کو ئی سیا رہ گردش کرتے کرتے اپنے مرکزی سیارے یا ستارے کے قریب ہو تا ہے تو اس کی رفتار نسبتاً تیز ہو جا تی ہے اور جب دور ہو تا ہے تو یہ رفتا ر قدرے ست ہو جا تی ہے چا ند چونکہ زمین سے اور زمین سورج سے وابستہ ہے لہٰذا اس دوہری گردش اور رفتا ر کی کمی بیشی کا ہی یہ اثر ہو تا ہے کہ قمری مہینہ کبھی انتیس دن کا ہو تا ہے اور کبھی تیس دن کا"( الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ‌ بِحُسْبَانٍ:121)
بایں ہمہ جدید نظریا ت کو اس وقت ہی قبول کیا جا سکتا ہے جبکہ وہ وحی الٰہی سے مطا بقت رکھنے ہوں لیکن اگر وہ قرآن و سنت کی نصوص سے متصادم ہوں تو انہیں باطل قرار دینا چا ہیئے ۔جیسا کہ مولا نا کیلانی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں ۔
"جدید نظریا ت صرف اسی صورت میں قابل قبول سمجھے جا ئیں گے جبکہ وہ وحی سے مطابقت رکھتے ہوں بصورت دیگر ان نظریا ت کا یا تو بد لا ئل بطلا ن کرنا چا ہیئے یا ان کی ایسی معقول توجیہ پیش کرنی چا ہیئے جس سے قرآنی ارشادات پر حرف نہ آئے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اس وقت کا انتظار کرنا چا ہیئے  جبکہ یہ نظر یہ وحی کے مطا بق ہو جا ئے اور بالآخر یہ نظر یہ سائنٹیفک تحقیقات کے بعد وحی کے مطا بق ہو نا لا زم ہے ۔کیونکہ وحی ایک حقیقت ہے اور نظریا ت انسان کی محدود عقل کا کرشمہ اور یہی وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُکا صحیح مطلب ہے" (آئینہ پرویزیت:ص72)
مو لا نا کیلا نی کا علم سیاسیات کا جا ئزہ۔
عام طور پر سیا ست دان ایسے لو گوں کو سمجھا جا تا ہے جو جمہوریت کے بت کی پو جا کرنے والے اور جھوٹے وعدے کر کے لو گوں کے ووٹ ٹھگنے والے ہوں تو جو شخص جھوٹ بو لنے میں پو ری مہا رت رکھتا ہواسے ٹا پ کا سیا ست دان سمجھا جا تا ہے جبکہ اسلامی سیاست خدا خوفی اور حق گو ئی کا نا م ہے اور دین اسلام جمہوریت  کے بر عکس "نظا م خلافت" کا علمبردار ہے  اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں جمہوریت کو اپنا نے والا کبھی اسلام سے مخلص نہیں ہو سکتا ۔جیسا کہ مو لا نا فر ما تے ہیں ۔
"ہمارے خیال میں جیسے دن اور را ت یا اندھیرا اور روشنی میں سمجھوتہ نا ممکن ہے ۔بالکل ایسے ہی دین اور لا دینی یا خلا فت اور جمہوریت میں بھی مفا ہمت  کی بات نا ممکن ہے۔لہٰذا اگر جمہوریت کو اختیا ر کرنا ہی ہے تو اسے تو حید و رسالت سے انکا ر کے بعد ہی اپنایا جا سکتا ہے۔"
نیز فر ما تے ہیں ۔
"جمہوریت ایک لا دینی نظا م ہے اور اس کے علمبردار مذہب سے بیزار جبکہ خلا فت کی بنیا د ہی خدا اس کے رسول اور آخرت کے تصور پر ہے ۔اور اس کے اپنانے والے انتہائی متقی اور بلند اخلا ق انسان تھے"(خلا فت و جمہوریت :ص218)
اسلام نظا م خلا فت کا داعی ہے ۔جس کے تحت ایسے شخص کو نظا م ریا ست کی ذمہ داری سونپی جا تی ہے جو متقی اور پرہیز گا ر ہو اور روز قیامت اللہ تعا لیٰ کی عدالت میں جوابدہ ہی کا احساس ذہن میں رکھ کر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمر بستہ رہتا ہو اور نظا م خلا فت کی برکا ت سے ریا ست کا ہر فرد یکساں مستفید ہو تا ہے جبکہ جمہوری نظا م میں صرف اپنی پارٹی سے منسلک افرا د کو نوازا جا تا ہے اور یہ ایسا قبیح نظا م ہے جس کے تحت منتخب ہو نے والے لو گ کبھی بھی اسلام اور عوام کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ،کیونکہ جمہوری نظا م میں ملک کے اطرا ف و اکناف سے کو ڑا کرکٹ اکٹھا کر کے مر کز میں لا کر ڈھیر کر دیا جا تا ہے مولا نا کیلانی رحمۃ اللہ علیہ  ایسے وضعی نظا م کے نقصانات سے پردہ کشائی کرتے ہو ئے مزید فر ما تے ہیں ۔
"اکثرت را ئے کو معیار حق قرار دینا ایک ایسی اصولی غلطی ہے جو لا تعداد غلطیوں اور بے شمار جرا ئم کو اپنے اندر سمیٹے ہو ئے ہے ۔الیکشن کے ایا م میں جو طو فا ن بد تمیزی بپا ہو تا ہے وہ صرف اسی لئے ہو تا ہے کہ ہر نما ئندہ کی یہ کو شش ہو تی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حا صل کر سکے ۔اب اس کو شش میں جو بھی جا ئز اور ناجائز حربے استعمال کئے جا تے ہیں جس طرح فریق ثا نی کی ذات پر سوقیا نہ حملے کئے جا تے ہیں ۔کنویسنگ اور جلسے جلوسوں پر جس بے دردی سے سر ما یہ بر باد ہو تا ہے پھر انتخا بی مہم انسان کے اخلا ق پر کس قسم کے نا پاک اثرا ت چھوڑتی ہے کہیں ووٹوں کی خریدو فروخت ہو تی ہے کہیں تعلقات کے دباؤکہیں غنڈہ گردی اور دھمکیوں سے کہیں پولیس کے تعا ون اور ہنگا موں سے ووٹ حاصل کئے جا تے ہیں اور بالآخر کا میابی سے وہ صاحب ہمکنا ر ہوتے ہیں جنہوں نے پیسہ بے دریغ خرچ کیا ہو۔ یا پھر کو ئی ایسا بڑا بد معا ش اس معرکہ میں کا میاب ہوتا ہے جس  کو ووٹ دینے کی صورت میں لوگ اس سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوں یہ کچھ تو الیکشن کے دورا ن ہو تا ہے الیکشن ختم ہو جا تا ہے لیکن اس کے باقیات با ہمی خا نہ جنگیاں عداوتیں ،بغض و عناد وغیرہ ابھی دلوں میں با قی ہو تے ہیں کہ دوسرے الیکشن کی آمد ہو جا تی ہے اس طرح یہ سلسلہ کبھی ختم ہو نے میں نہیں آتا ۔یہ کچھ تو اسمبلیوں سے باہر ہو تا ہے ۔اب اسمبلیوں میں پھر جماعتوں کو اپنی کثرت را ئے کی ضرورت پیش آتی ہے تو آپس میں جوڑ توڑ اور گٹھ جو ڑ کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور کوئی مشورہ یا بحث شروع ہو تو بسا اوقات لڑا ئی جھگڑے یا ہاتھا پا ئی تک نوبت پہنچ جا تی ہے اجلا س ہنگا مہ  آرائی کی وجہ سے ملتوی کر دئیے جا تے ہیں پھر جو نما ئندے ووٹوں کی کثرت کی بنا پر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں عموماً خود غرض ہوا پرست اور نااہل قسم کے لو گ ہو تے ہیں جو لوگوں کے جا ن و مال کے ما لک بن بیٹھتے ہیں جن کی نیت اور ہمت ابتداہی سے اس کے سوا کچھ نہیں ہو تی کہ انہیں حکومت کی کرسی مل جا ئے پھر مخلوق خدا آرام سے رہے یا تباہ ہو ان کی بلا سے اور جب کو ئی معاملہ زیر بحث آتا ہے تو ان میں سے اکثر کو یہ معلوم ہی نہیں ہو تا کہ معاملہ کے متعلق را ئے طلب کی جا رہی ہے بس ان کا کا م صرف اتنا ہو تا ہے کہ جس طرف زیادہ ہاتھ اٹھتے نظر آئیں ادھرہی اپنے بھی کھڑے کر دئیے جا ئیں ۔ان تمام تر خرا بیوں کی ذمہ داری صرف کثرت را ئے کو معیار حق قرار دینے پر ہے ۔اگر اختلا ف را ئے کے وقت فیصلہ امیر مجلس کے سپرد ہو تو ان میں سے اکثر مفا سد کی جڑ کٹ جا تی ہے (خلا فت و جمہوریت :161)
مغربی جمہوریت کے مفا سد میں سے یہ بھی  ہےکہ عورت بھی کرسی اقتدارکے حصول میں سرگرم ہو جا تی ہے اور وہ سترو حجا ب کی اسلامی پابندیوں کو پس پشت ڈا ل کر اس میدا ن میں کو د جا تی ہے۔ مولاناکیلا نی رحمۃ اللہ علیہ   اسلامی نقطہ نظر سے عورت کی سر براہی کی حیثیت بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
"اہل علم خوب جا نتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو سیا ست و امارت  کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا ہے اور عورت و مرد کا دائرہ کا ر الگ الگ مقرر کر دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے درمیان گھریلو کا موں کی سر انجا م دہی کے سلسلہ میں جھگڑا پیدا ہوا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہی فیصلہ فر ما یا تھا کہ گھر کے اندر کے کا م تو فا طمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سر انجا م دے اور گھر کے باہر کے کا م علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (خلافت و جمہوریت :271)
اور اس کی وجہ ذکر کرتے ہوئے فر ما تے ہیں ۔
"وجہ یہ ہے کہ نہ عورت کی جسمانی ساخت اور فطری  صلا حیت ایسی ہے کہ امارت و سیاست جیسے معاملات میں وہ حصہ لے اور اسلام امیر کے لیے جن شرائط کی پابندی لگاتا ہے ان پر پو ری اتر سکے اور نہ ہی اسلام ایسی بے حیا ئی اور مرد عورت کے اختلا ط کی اجازت دیتا ہے جس کے بغیر ایسے امور میں حصہ لینا نا ممکن ہے نیز ایسی صورت  میں عائلی نظا م بھی تبا ہ ہو کر رہ جا تا ہے جو اسلامی نقطہ نگا ہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔جب اہل ایر ان نے بنت کسریٰ پوران (نوشیرواں کی پو تی اور شیر ویہ کی بہن ) کو اپنا بادشاہ بنا لیا ۔یہ  خبرحضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوپہنچی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فر ما یا ۔
لَنْ يُفْلِحْ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً (بخاری ،کتاب المغاری 
"وہ قوم ہرگز نہیں فلاح  پا سکتی  جس نے اپنا سر براہ ایک عورت کو بنا لیا ہے۔"ایک اسلامی معاشرے میں ایسے امور کا عورتوں کے ہا تھ میں چلے جا نا کو ئی اچھی علا مت نہیں ہوتی"(خلا فت و جمہوریت :ص109)
دعاہے کہ اللہ تعا لیٰ اس مملکت خداداد میں نفا ذ اسلام سے متعلق مولاناکیلا نی رحمۃ اللہ علیہ   کی نیک خواہشات کو بروئے کا ر لا ئے اور اس ملک کو ایک لا دین عورت کی سر برا ہی کی بجا ست سے پا ک صاف فر ما ئے ۔تا کہ عوام کو اسلامی فیوض و برکا ت سے مستفیض ہو نے کا موقع فرا ہم ہو سکے۔(آمین یا رب العا لمین )