تدوین احادیث کے اسباب و مناہج
اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہو نے کی حیثیت سے تفہیم وا دراک اور اسے اعتقاد وعملاً اپنا نے کے لیے قرآن مجید اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنا نہا یت ضروری ہے کیونکہ ان دو نوں سے اعتقادی اور عملی مسائل و احکا م کے چشمے پھوٹتے ہیں اسی وجہ سے دو نو ں کے احکا م کو اسلا می شریعت کا بنیا دی مصدر و منبع ہو نے کی حیثیت حاصل ہے قرآن مجید ان احکا م کا اجما ل اور احا دیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تفصیل و تو ضیح اورشارح و ترجمان ہیں یعنی دونوں ایک دوسرے کے لیے لا زم و ملزوم ہیں ۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
1۔"علم القرآن اگر اسلامی علوم میں دل کی حیثیت رکھتا ہے تو حدیث شہ رگ کی ۔ یہ شہ رگ اسلامی علوم کے تمام اعضاء وجو ارح تک خون پہنچا کر ہر آن ان کے لیے تا زہ زندگی کا سامان پہنچاتا رہتا ہے آیت کا شان نزول اور ان کی تفسیر احکا م القرآن کی تشریح و تعین اجمال کی تفصیل عموم کی تخصیص مبہم کی تعیین سب علم حدیث کے ذرریعہ معلوم ہو تی ہے"(1)
2۔"اسی طرح حامل قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت حیا ت طیبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلا ق و عادات مبا رکہ اقوال و اعمال سنن و مستحبات اور احکا م واشادات اسی علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں "(2)
3۔اسی طرح خود اسلام کی تا ریخ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے احوال اور ان کے اعمال و اقوال اور اجتہادات وااستنباطات کا خزانہ بھی اسی (علم حدیث ) کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے "(3)
4۔علامہ رحمۃ اللہ علیہ آخر میں فر ما تے ہیں :"اس بنا پر اگر یہ کہا جا ئے تو صحیح ہے کہ اسلام کے عملی پیکر کا صحیح مرقع اسی علم کی بدولت مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے قائم ہے اور ان شاء اللہ تا قیامت رہے گا ۔
لیکچر اراداراہ علوم اسلا میہ یو نیو رسٹی آف آزادجموں و کشمیر میر پو ر کیمپس آزاد کشمیر علامہ جعفر الکتانی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
"یقیناً وہ علم جو ہر ارادہ رکھنے والے کے لیے ضروری ہے اور ہر عالم و عابد کو اس کی ضرورت پڑتی ہے وہ یہی علم حدیث و سنت ہے یعنی جو بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی امت کے لیے مشروع ومسنون قرار دیا "(15)
اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے عربی اشعار نقل کئے ہیں جن کا ترجمہ ہے ۔
"نبی کا دین اور شریعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احا دیث ہیں اور یہ وہ عظیم علم ہے جس کی پیروی کی جا تی ہے جو اس میں اور اس کی نشر واشاعت میں مشغول ہو اس کے نشانات مخلوق میں باقی رہتے ہیں۔ (6)
احا دیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ضرورت و اہمیت اور عظمت ورفعت کے پیش نظر آغاز اسلام سے مسلمانوں نے انہیں پوری محنت اور اخلا ص و عقیدت کے ساتھ سمجھنے اور عملی زندگی میں اپنا نے کے ساتھ ساتھ مدون کرنے کا اہتمام بھی کیا اور ایسی خدمات سر انجا م دیں جن کی دنیا کے دیگر مذاہب میں کو ئی نظیر نہیں ملتی ۔
چنانچہ مو لا نا محمد علی صدیقی کا ندھلوی نے حا فظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ:
"اقوام عالم میں سے کسی کو اسلا م سے پہلے یہ تو فیق میسر نہیں ہو ئی کہ اپنے پیغمبر کی باتیں صحیح ثبوت کے ساتھ محفوظ کر سکے ۔یہ شرف صرف ملت اسلا میہ کو حاصل ہے کہ اس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک کلمہ کو صحت اور اتصال کے ساتھ جمع کیا۔ آج روئے زمین پر کو ئی ایسا مذہب نہیں ہے جو اپنے پیشوا کے ایک کلمہ کی سند بھی صحیح طریق پر پیش کر سکے اس کے برعکس اسلام نے اپنے رسول کی سیرت کا ایک ایک گوشہ پوری صحت و اتصال کے ساتھ محفوظ کیا ہے "(7)
سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ پہلوؤں کو ۔۔۔سینوں اور سفینوں ۔۔۔میں محفوظ کرنے کا یہ بے نظیر و بے مثا ل اہتمام اس لئے کیا گیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرا می کو اللہ تعا لیٰ نے تا قیامت انسانیت کے لیے "اسوحسنہ "یعنی بہترین نمونہ قراردیا (8)جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال افعا ل احوال اور شب روز کے جملہ معمولا ت پر مشتمل ہے اللہ سبحا نہ وتعا لیٰ نے جس طرح آپ کی حیا ت طیبہ کو "بہترین نمونہ " قرار دیا اسی طرح اس کی تمام تفصیلا ت کو نسل درنسل منتقل کرنے کے لیے احا دیث و سنن کے حفظ و ضبط کا ایک مستقل نظا م قائم کر دیا ۔
صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس "اسوحسنہ" کے ایک ایک لمحہ کو نہ صرف اپنے دل و دماغ میں بٹھا یا اور اس پر عمل پیرا رہے بلکہ اسے قیامت تک محفوظ کرنے کے لیے روایت و تحریر کا سلسلہ بھی شروع کر دیا شمع رسالت کے ان پروانوں نے حضور علیہ الصلا ۃ والسلام کی نجی زندگی سے لے کر بین الاقوامی سیاسی معاملات تک کو ضبط کیا پھر تابعین اور پوری پوری زندگیاں اس مقدس مشن میں صرف ہو تی رہیں اس طرح احا دیث نبویہ کا ایک ضخیم اور قابل فخر ذخیرہ احا دیث کو مدون کرنے میں تا ریخی نہیں بلکہ مطلقاً دینی تقاضے کا ر فر ما تھے چنانچہ مو لا نامحمد حنیف ندوی فر ما تےہیں ۔
"۔۔۔حدیث وسنت کی تدوین تاریخی تقاضوں کے بجا ئے خالصتاً دینی عوامل کی بنا ء پر ہو ئی اور اپنے دا من میں یہ اس طرح سے استناد اتصال اور تسلسل کو لیے ہو ئے ہے جس کی دنیا کے تا ریخی لٹریچر میں کہیں نظیر نہیں پا ئی جا تی "(9)
تدوین حدیث کے اس پر عزم دلچسپ اور مسلسل سفر میں محدثین کرا م نے مختلف نوعیت کے اسالیب و منا ہج اپنا ئے جو ارتقا ئی عمل سے گزرتے ہو ئے نقطہ عروج پر جا پہنچتے رہے ان اسالیب و منا ہج کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جامعین و مدونین میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا ذوق اور خاص نقطہ نظر ہو تا ہے جس کے مطا بق وہ کتب مدون کرتا ہے اس لیے کتب حدیث کے قارئین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کی ہر صنف کے جا معین کے ذوق انداز و طرق اور اسالیب و منا ہج سے بخوبی آگا ہ ہوں تا کہ کما حقہ کتب سے استفادہ کر سکیں ۔عدم واقیفیت کی صورت میں بہت وقت کا سامنا کر نا پڑتا ہے بالخصوص محققین حضرا ت کو۔
تدوین حدیث کا دوسرا مرحلہ(75ھ تا125ھ)
(موضوعی/غیر موضوعی تدوین حدیث)
پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز (101ھ) کے حکم سے سرکاری سطح پر کتابی صورت میں احادیث کی تدوین کا کام شروع ہوا جس کے نتیجہ میں متعدد کتب مدون ہوکر عالم وجودمیں آئیں۔مثلاً(1) کتب قاضی ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ (112ھ)(2) رسالہ سالم بن عبداللہ (106ھ) فی الصدقات (3) دفاتر الزھری رحمۃ اللہ علیہ (132ھ) امام بن مکحول رحمۃ اللہ علیہ (118ھ) کی کتاب السنن(5) اور ابواب الشعبی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت عامر بن شراحیل رحمۃ اللہ علیہ (103ھ) وغیرہ(22)،یہ پانچ کتب پہلی صدی ہجری کے آخر میں وجود میں آچکی تھیں کیونکہ"حضرت عمر بن عبدالعزیز کی وفات 101ھ میں ہوئی لہذایہ سب کتابیں اس سے قبل لکھی جاچکی تھیں۔"(23)
کتابت کے ذریعے تدوین حدیث کا یہ دوسرا مرحلہ ہے جس میں مندرجہ بالا کتب کے علاوہ اور بھی متعدد کتب لکھی گئیں۔(24) یہ مرحلہ"پہلی صدی ہجری کے ربع آخر(یعنی 75ھ کے بعد) سے لے کر دوسری صدی ہجری کے ربع اول(یعنی 125ھ) تک پھیلا ہوا ہے۔"(25)
جہاں تک اس عرصہ کے اندر(یعنی 75ھ کے بعد اور 125ھ سے قبل) تدوین احادیث کے اسالیب و مناہج کا تعلق ہے۔۔تو مدونین حضرات عموماً موضو عاتی ترتیب کا لحاظ رکھے بغیر اپنی اپنی کتب میں احادیث کو مدون کرتے تھے۔لیکن مصادر سے پتہ چلتا ہے کہ بعض جامعین حضرات نے اس عرصہ میں موضوعات کی مناسبت سے احادیث کو جمع کیا ہے۔اس انداز تدوین کی نمائندہ مثال امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ (103ھ) کی کتاب"الابواب" ہے جسے انہوں نے مختلف ابواب میں تقسیم کرکے ہرباب میں ایک ہی موضوع سے متعلق باہم مشابہ ومماثل احادیث کو ذکر کیا مثلاً زکاۃ طلاق وغیرہ،چنانچہ علامہ جعفرالکتانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:۔
وأما جمع حديث إلى مثله في باب واحد فقد سبق إليه الشعبى ، فإنه روى عنه قال : هذا باب من الطلاق جسيم ، وساق فيه أحاديث".(26)
"جہاں تک احادیث کو ایک باب میں جمع کرنے کاتعلق ہے۔تو اس میں امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے سبقت کا شرف حاصل کیا،چنانچہ ان سے روایت کیا گیاکہ انہوں نے فرمایا:یہ طلاق کےمسائل کا بہت بڑٖا باب ہے۔اور اس باب میں انہوں نے احادیث کو ذکر کیا"
اس سے ثابت ہوا کہ ابواب کے اسلوب پر مرتب ہونے والی اولین کتاب ابواب الشعبی رحمۃ اللہ علیہ (تابعی 19ھ ۔103ھ) پہلی صدی ہجری میں عالم وجود میں آچکی تھی۔
اس کے علاوہ ابو العالیہ رحمۃ اللہ علیہ ۔الریاحی،رفیع بن مہران رحمۃ اللہ علیہ (90یا 93ھ) کے پاس فقہی ابواب پر مرتب شدہ متعدد کتب تھیں۔(27) ایک اور کتاب جو قرآن کریم کی تفسیر پر مبنی احادیث پر مشتمل تھی حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ (110ھ) نے تصنیف فرمائی تھی۔(28) یہ بھی عمومی ترتیب کے مطابق ایک باقاعدہ کتاب بھی جوایک مخصوص موضوع پر پہلی صدی ہجری میں لکھی گئی ۔امام زید بن علی بن الحسن رحمۃ اللہ علیہ (122ھ) نے بھی اپنی کتاب"المجموع" کو موضوعات اور فقہی ابواب پر مرتب کیا ہواتھا۔اس میں 228 مرفوع احادیث،320 آثار علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور 2 آثار حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ فقہ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔(29) یہ کتابت حدیث کادوسرا مرحلہ ہے۔جو75ھ سے 125ھ تک پھیلا ہوا ہے۔
یہ مبوب کتب کی محض ابتداء تھی اوریہ کتب تدوین احادیث کے اسالیب ومناہج کے ترقی پزیر مرحلہ سے گزر رہی تھیں اس لئے ان کے جامعین کے انداز وطرق کا ترقی پزیر اور غیر پختہ ہونا ایک بدیہی امر ہے۔باقاعدہ تبویب وتہذیب کا کام125ھ کے بعد شروع ہوا اور اس کے ساتھ تدوین حدیث کے اسالیب ومناہج اپنے ترقی یافتہ مرحلے میں داخل ہوئے۔یہاں سے کتابت حدیث کا تیسرا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔
تدوین حدیث کاتیسرا دور(125ھ تا200ھ)(فقہی ابواب کے تحت احادیث کو جمع کرنا)
125 ہجری کے بعد تدوین احادیث کا اسلوب یہ تھا کہ علماء کرام فقہی ابواب باندھ کراحادیث مدون کرتے اورایک باب کے بعد دوسرا باب علی الترتیب تحریر کرتےجاتے پھر ابواب کو ایک تصنیف میں یکجاکردیتے۔احادیث کے ساتھ اقوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور فتاویٰ تابعین رحمۃ اللہ علیہ کو بھی جگہ دیتے(30) اس طرح حدیث کی ایک منظم ومرتب کتاب عالم وجود میں آجاتی جیسے:
1۔کتاب الآثار جسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (150ھ) کے شاگرد رشید امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ (182ھ) نے ان کے ارشادات وفرمودات اور مسودات کی ر وشنی میں مرتب کیا،اس حقیقت کی منہ بولتی تصویرہے ۔
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کتاب الاثار کو روایت کیا ہے ،امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
والموجود من حديث أبي حنيفة مفردا إنما هو كتاب (الآثار) التي رواها محمد بن الحسن عنه
"امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ امام زفر رحمۃ اللہ علیہ اور امام حسن بن زیاد نے بھی کتاب الاثار کو روایت کیا ہے ۔
2۔پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (971ھ) نے کتاب الاثار ہی کے اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے اپنی "موطا" کے لئے احادیث کو مدون کرناشروع کردیا۔امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (911ھ) لکھتے ہیں:
من مناقب ( أبي حنيفة ) التي انفرد بها أنه أول من دون ( ص 9 ) علم الشريعة ورتبه أبوابا ثم تابعه ( مالك بن أنس ) في ترتيب ( الموطأ ) ولم يسبق ( أبا حنيفة ) أحد
"امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ان خصوصی مناقب میں سے جن میں وہ منفرد ہیں،ایک یہ ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں جنھوں نے علم شریعت کو مدون کیا اور ان کو ابواب پرترتیب دیا پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا کی ترتیب میں ان ہی کی پیروی کی اور اس سلسلے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر کسی کو سبقت حاصل نہیں"
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ترتیب یوں رکھی کہ باب ذکر کرکے پہلے عنوان کے مطابق احادیث بیان کرتے پھر اس کی مناسبت سے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال وفتاویٰ بیان کرتے ۔اس کتاب میں تقریباً سات سو احادیث اور تین ہزار مسائل درج ہیں۔علامہ جعفر کتانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:(33)
ويُذْكر أن جميع مسائلها ثلاثة آلاف مسألة، وأحاديثها سبع مائة حديث،
"علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فصنف ( الإمام مالك ) ( الموطأ ) بالمدينة وتوخى فيه القوي من حديث أهل الحجاز ومزجه بأقوال الصحابة وفتاوى التابعين ومن بعدهم
"چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے(مدینہ میں) موطا تصنیف کی اور اس میں اہل حجاز کی قوی احادیث درج کرنے کا اہتمام کیا اور اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ،تابعین رحمۃ اللہ علیہ ، اور اتباع تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال وفتاویٰ بھی شامل فرمائے۔"
مولانا تقی الدین ندوی مظاہری لکھتے ہیں:
"کتاب لاثار وموطا دونوں حدیث کی ایسی کتابیں ہیں جو پہلے(باقاعدہ) فقہی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کی گئیں۔"(35)
موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ بھی موطات ہیں جو اصل میں موطا مالک ہی کے نسخے ہیں انہیں مختلف علماء نے روایت کیا ہے۔
1۔موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت امام ابو عبداللہ محمد بن الحسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ (189ھ) یہ کتاب چھپ چکی ہے۔
2۔موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت عبدالرحمان بن القاسم بن خالد بن جنادہ المصری العتقی رحمۃ اللہ علیہ (191ھ)
3۔موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو محمد عبداللہ بن وہب بن مسلم الفہری المصری رحمۃ اللہ علیہ (197ھ)
4۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو یحییٰ معین بن عیسیٰ بن دینار المدنی القزاز رحمۃ اللہ علیہ (198ھ)
5۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو عبدالرحمان عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب الحارثی المکی رحمۃ اللہ علیہ (221ھ) مطبوع۔
6۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو عثمان سعید بن کثیر بن عفیر بن مسلم المصری الانصاری رحمۃ اللہ علیہ (226ھ)
7۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو زکریا یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر المصری رحمۃ اللہ علیہ (231ھ)
8۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو محمد یحییٰ بن کثیر بن مصمودی الاندلسی رحمۃ اللہ علیہ (234ھ) مطبوع۔
9۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو عبداللہ مصعب بن عبداللہ بن مصعب الزبیری المدنی رحمۃ اللہ علیہ (236ھ)
10۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو محمد سوید بن سعید الحدثانی رحمۃ اللہ علیہ (240ھ)
11۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت مصعب بن عبدالرحمان بن عوف(العوفی المدنی رحمۃ اللہ علیہ )(242ھ)
12۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو حذافہ احمد بن اسماعیل السمی المدنی البغدادی(259ھ)
13۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت سلمان بن برد رحمۃ اللہ علیہ (222ھ)
14۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت یحییٰ بن یحییٰ تمیمی رحمۃ اللہ علیہ
15۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت محمد بن مبارک الصوری
16۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بہ روایت ابو عبداللہ بن یوسف الدمشقی التنیسی رحمۃ اللہ علیہ
ان نسخوں کا تذکرہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "بستان المحدثین" میں ہے۔میں نے انہیں اپنی ترتیب سے یہاں بیا ن کیا ہے۔
موطا ابن ابی ذئب از امام ابو الحارث محمد بن عبدالرحمان بن مغیرہ بن حارث مدنیـ(159ھ) یہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے موطا سے بڑا تھا اور پہلے تیار ہوا تھا۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرح امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ (160ھیا161ھ) نے بھی"کتاب الاثار" ہی اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے اپنی کتاب"جامع سفیان" کو مرتب کیا اور اس میں احادیث کے ساتھ اقوال وفتاویٰ کو بھی مدون فرمایا:(36)
اس بحث سے ثابت ہوا کہ دوسری صدی ہجری کے آخر تک تدوین حدیث کا مندرجہ بالا اسلوب(یعنی فقہی ابواب باندھ کراحادیث بیان کرنا)ہی رائج رہا جس سے مقصود صرف یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا علمی ورثہ محفوظ ہوجائے۔
اسلوب مسانید کی ایجا د:۔
اس دوسری صدی ہجری کے آخر میں ایک جدید اسلوب ایجا د ہوا جس کا پہلے کو ئی تصور نہیں تھا اس جدید طریقہ کے تحت احا دیث کو روایت کرنے والے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نا موں کی منا سبت سے مرتب کیا جا نے لگا خواہ وہ احا دیث صحیح ہوں حسن ہوں یا ضعیف خواہ ان کا تعلق ایک مسئلہ سے ہو یا متعدد و مختلف مسائل سے ہوا اور جو مجموعے کتا بیں کتابی صورت میں اس اسلوب پر مدون ہو کر سامنے آتے انہیں "مسانید " کا نا م دیا جا تا جو مسند کی جمع ہے محدثین کی اصطلا ح میں مسند سے مرا د حدیث کی کتاب ہے جس میں ہر صحا بی کی مرویات الگ الگ اس کے نام کے ساتھ مذکور ہوں (37)
علامہ ابن حجر عسقلا نی رحمۃ اللہ علیہ اس نئے اسلوب کے متعلق لکھتے ہیں ۔
"دوسری صدی ہجری کے محدثین کے طریقہ تدوین کے سلسلے میں ان کے معاصرین نے بھی ان ہی کی پیروی کی (یعنی احا دیث کے ساتھ اقوال صحا بہ رضوان اللہ عنھم اجمعین و تا بعین رحمۃ اللہ علیہ بھی ذکر کرتے رہے)یہاں تک کہ دوسری صدی ہجری کے خا تمہ پر بعض آئمہ کی یہ را ئے پختہ ہو گئی کہ ایسی کتب مدون کریں جن میں صرف احادیث ہوں (38)
اس دور میں مسانید کے مروجہ اسلوب پر محدثین نے بہت ساری مسانید تیا ر کیں جیسے مسند ابی داؤد طیا لسی رحمۃ اللہ علیہ ((204ھ) مسند عبد اللہ بن مو سیٰ العبسی رحمۃ اللہ علیہ (203ھ) مسندمسدد بن مسرہد رحمۃ اللہ علیہ (228ھ) مسند اسحا ق بن را ھویہ رحمۃ اللہ علیہ (237ھ) اور مسند امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (جو تمام مسانید میں ممتا ز حیثیت کی ما لک ہے) وغیرہ محدیث کو یہ اسلوب بہت پسند آیا تو انھوں نے اپنی تو جہ اس کی جا نب پھیر لی۔نتیجہ متعدد مسند عالم وجود میں آگئے حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
ثم اقتفي الائمة بعد ذلك أثرهم، فقل إمام منالحفاظ إلا وصنف حديثه على المسانيد،
"پھر اس کے بعد دیگر آئمہ بھی ان ہی کے نقش قدم پر چلے حفا ظ حدیث میں شاید ہی کوئی امام ہو جس نے مسند کی تر تیب پر اپنی احا دیث کو مرتب نہ کیا ہو۔
اس اہم اسلو ب پر مدون ہو نے والی دیگر کتب میں سے کچھ حسب درج ذیل ہیں:۔
1۔مسند امام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (58ھ)تحقیق ڈا کٹر عبدالغفور
2۔مسند ابی بکر عبداللہ بن الزبیر الحمیدی رحمۃ اللہ علیہ (219ھ)
3۔مسند اسد بن موسیٰ الاموی (212ھ)
4۔مسند امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (204ھ)
5۔مسند ابی بکر عبدالرزاق بن ہمام بن نافع الصنعانی (211ھ)
6۔مسند عبد بن حمید رحمۃ اللہ علیہ (249ھ)
7۔مسند ابی یعلیٰ الموصلی رحمۃ اللہ علیہ (307ھ)
8۔مسند(مسند عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ابی بکر بن سالم البغدای رحمۃ اللہ علیہ (355ھ)
9۔مسند شہاب الدین ابی عبداللہ محمد بن سلامہ ین جعفر القضاعی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (454ھ)
10۔مسانید امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ (150ھ) یہ کل سترہ مسانید ہیں جن کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیاتھا۔ان میں سے پندرہ کوابو الموید محمد بن محمود بن محمد بن الحسن الخطیب الخوارزی رحمۃ اللہ علیہ (655ھ) نے ایک جلد میں جمع کرکے اس کا نام"جامع المسانید" رکھا۔
جہاں تک مسانید کے اسلوب ترتیب کا تعلق ہے تو اس میں مولفین کے اپنے اپنے انداز اور طرق ہیں۔بعض نے حروف تہجی،بعض نےقبائل ونسب اور بعض نے اسلام میں سبقت کا لحاظ رکھتے ہوئے مسانید کو مرتب کیا۔اس اسلوب ترتیب سے عدم واقفیت مسانید سے استفادہ کی راہ میں دقت کاسبب بنتی ہے۔(40)
موضوعات وابواب کے اسلوب کا تیسرا دور:۔
جب مسانید کی تدوین کا آغاز ہوا تو محدثین کی یہی کوشش رہی کہ جس طرح بھی ہوسکے احادیث کو بغیر تفریق کے یکجا کردیا جائے۔اس طرح احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تو ہوگیا مگر اس سے استفادہ کرنامشکل ہوگیا کیونکہ احادیث کوموضوع کی مناسبت سے مرتب نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے عملی زندگی میں رہنمائی کے لئے مطلب کی حدیث تلاش کرنے کی خاطر پورے ذخیرے کو کھنگالنا پڑتاتھا۔اس مشکل نے محدثین کوموضوعات وابواب پر احادیث کو مدون کرنے اور فقہی احکام مثلا نماز،روزہ،حج وزکاۃ وغیرہ کے مطابق انہیں مرتب کرکے(41) مختلف انواع میں تقسیم کرنے کا احساس دلایا تو انہوں نے اس طرف توجہ دی جن محدثین نے اس اسلوب پراحادیث کی تدوین کی،ان کو ہم تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔
اولاً۔وہ جنھوں نے صرف ان حدیثوں کی تدوین کی جو انکے نزدیک صحیح تھیں جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (256ھ) امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ (261ھ) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (261ھ) ان کی مدونات کو"جوامع" کہتے ہیں جو"جامع" کی جمع ہے،جامع حدیث کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں درج ذیل آٹھ مضامین کی احادیث مدون کردی گئی ہوں:
1۔سیر: یہ سیرت کی جمع ہے یعنی وہ احادیث جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے واقعات پر مشتمل ہوں۔
2۔آداب:ادب کی جمع ہے ،یعنی آداب معاشرت مثلاً کھانے پینے کے آداب۔
3۔تفسیر:یعنی وہ احادیث جو تفسیر قرآن کے متعلق ہوں۔
4۔عقائد:یعنی وہ احادیث جو مضامین جو عقائد ایمانیہ سے متعلق ہوں۔
5۔فتن:فتنہ کی جمع ہے یعنی وہ بڑے بڑےواقعات جن کی پیشن گوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔
6۔اشراط: یعنی علامات واحوال قیامت کی احادیث۔
7۔احکام: یعنی عملی احکام جن پر فقہ مشمتل ہوتی ہے ،ان کو سنن بھی کہتے ہیں۔
8۔مناقب:منقبت کی جمع ہے یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور صحابیات @ اور مختلف قبائل اور طبقات کے فضائل کے متعلق احادیث۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں:
"جامع محدثین کی اصطلاح میں وہ کتاب ہے جس میں مقررہ آٹھ قسم کی حدیثیں پائی جاتی ہوں یعنی ،عقائد،احکام،رقاق،آداب،تفسیر،تاریخ وسیر،فتن اور فضائل ومناقب "(42)
اس طرح"جوامع" تدوین احادیث کے اسالیب میں سے ایک مستقل اسلوب ٹھہرا۔
جامع معمر بن راشد(154ھ)اور جامع سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ (161ھ) اس نوع یا اس اسلوب کی قدیم کتب ہیں جو کہ نایاب ہیں (43) ان مدونات کے علاوہ اس قیبل کی کچھ دیگر مدونات یہ ہیں:
1۔جامع ابی محمد سفیان بن عینیہ الکوفی ثم المکی رحمۃ اللہ علیہ (198ھ)
2۔الجامع الصغیر ازامام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃ اللہ علیہ (256ھ)
3۔جامع محمد بن اسحاق بن خزیمہ النیشا بوری رحمۃ اللہ علیہ (311ھ)
4۔جامع یعقوب بن اسحاق الاسفر ائینی المعروف بابی عوانہ رحمۃ اللہ علیہ (313 یا 316ھ)
5۔جامع ابی حامد احمد بن محمد بن حسن الشرقی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (325ھ)
6۔جامع عثمان بن سعید بن السکن البغدادی ثم المصری رحمۃ اللہ علیہ (353ھ)
7۔جامع ابی حاتم محمد بن احمد بن معاذ التمیمی الدارمی البستی المعروف بابن حبان رحمۃ اللہ علیہ (4ھ) اس کتاب کا کر مستقل طور پر بعد میں آئے گا۔
ثانیاً۔وہ جنھوں نے صحیح نوعیت کی احادیث کے ساتھ بعض حسن اور ضعیف احادیث کو بھی اپنی کتب میں مدون کردیا جیسا کہ امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ (255ھ) ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ (272ھ) ابو داود رحمۃ اللہ علیہ (275ھ) امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ (303ھ) اور امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ (385ھ) وغیرہ نے کیا،ان ائمہ کی مدونہ کتب کو "سنن" کہتے ہیں۔محدثین کی اصطلاح میں "سنن ان کتب کو کہتے ہیں جن میں صرف مرفوع احادیث فقہی ابواب کی ترتیب پر مرتب ہوں(44)اور ان میں موقوف یا مقطوع نوعیت کی مرویات نہ ہوں کیونکہ موقوف اور مقطوع مرویات پر محدثین کے نزدیک سنن کا نہیں بلکہ احادیث کا اطلاق ہوتا ہے"(45)
سنن اور جوامع میں فرق ہوتاہے وہ اس طرح کہ جوامع میں عقائد،سیرت اور مناقب وغیرہ جیسے ابواب بھی ہوتے ہیں جبکہ سنن میں یہ ابواب نہیں ہوتے بلکہ ان کے مباحث صرف فقہی ابواب اور احادیث احکام تک محدود ہوتے ہیں۔اس نوع کی قدیم کتب میں سے سنن امام مکحول رحمۃ اللہ علیہ (116ھ)،سنن ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ (150ھ) اور سنن وکیع بن الحراح رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ہیں۔اس طرح تدوین احادیث کے اسالیب میں سے"سنن" ایک مستقل نوعیت کا اسلوب قرار پایا جو ا صل میں اسلوب"ابواب" کی ایک فرع ہے۔
اس اسلوب پر مدون ہونے والی دیگر کتب میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں:
1۔سنن ابی بکر محمد بن اسحاق بن یسار المدنی رحمۃ اللہ علیہ (151ھ)
2۔سنن عبدالرزاق بن ہمام بن نافع الصنعانی رحمۃ اللہ علیہ (211ھ)
3۔سنن ابی عثمان سعید بن منصور بن شعبہ الخراسانی رحمۃ اللہ علیہ (229ھ)
4۔سنن ابی جعفر محمد الصباح الرازی البزار رحمۃ اللہ علیہ (227ھ)
5۔سنن ابن عمرو سھل بن سھل زنجلہ الرازی رحمۃ اللہ علیہ (240ھ)
6۔سنن محمد بن عبداللہ بن عبدالحکیم المصری الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (268ھ)
7۔سنن ابی اسحاق اسماعیل اوور اسحاق البصری المالکی رحمۃ اللہ علیہ (382ھ)
8۔سنن ابی بکر محمد بن یحییٰ الھمدانی رحمۃ اللہ علیہ الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (347ھ)
9۔سنن حافظ ابی علی سعید بن عثمان بن سعید البغدادی ثم المصری رحمۃ اللہ علیہ (353ھ)
10۔سنن ابی بکر احمد بن علی بن احمد بن محمد بن الفرج بن لال الھمدانی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (398ھ)
11۔سنن ابی القاسم ھبۃ اللہ بن الحسن بن منصور الطبری الرازی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (418ھ)
12۔سنن یوسف بن یعقوب البغدادی رحمۃ اللہ علیہ (418ھ)
13۔السنن الکبریٰ والصغیر از امام احمد بن الحسین بن علی البیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458ھ)
ثالثا: وہ محدثین ہیں جنھوں نے فقہی کتب ابواب کی ترتیب کے لحاظ سے احکام کے متعلق احادیث کومرتب کیا۔ان کی مدونات کو"مصنفات" کہا جاتا ہے جو مصنف(یعنی ترتیب) کی جمع ہے۔"محدثین کی اصطلاح میں "مصنف" وہ کتاب ہے جو فقہی ابواب پر مرتب اور مرفوع،موقوف اور مقطوع احادیث پر مشتمل ہویعنی اس میں احادیث نبویہ،اقوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور فتاویٰ تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ فتاویٰ تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ بھی ہوتے ہیں۔"(46)مصنف عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ (221ھ) اور مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ (235ھ) اس نوع کی مشہور مطبوع کتابیں ہیں۔اس طرح تدوین حدیث کے اسالیب میں سے ایک اسلوب مصنفات ہواجو موطات،جوامع اورسنن کی طرح اسلوب"ابواب" کی ایک مستقل شاخ ہے۔
اس اسلوب پر مدون ہونے والی دیگر مدونات میں سے کچھ یہ ہیں:
1۔مصنف ابی سلمۃ حماد بن سلمہ البصری رحمۃ اللہ علیہ (167ھ)
2۔مصنف ابی سفیان وکیع بن الجراح الکو فی رحمۃ اللہ علیہ (196ھ)
3۔مصنف ابی الربیع سلیمان بن داود العتکی البصری رحمۃ اللہ علیہ (234ھ)
4۔مصنف حافظ بقی بن مخلد بن یزید القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (272ھ)
(مزید تفصیلات کےلئے دیکھئے مجلہ"القلم" جلد 2 شمارہ 2ستمبر 1994ء میں سے انگریزی مقالہ Musammas Litrature”"از پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت ص28-1)
مصنف اور سنن میں فرق اس طرح ہے کہ"مصنف میں مرفوع،موقوف اور مقطوع مرویات ہوتی ہیں جبکہ سنن میں صرف مرفوع احادیث ہوتی ہیں کیونکہ موقوف اور مقطوع مرویات ان (یعنی محدثین) کی اصطلاح میں سنن کہلاتی"(47) اس فرق کے سوا مصنف اور سنن دونوں ایک جیسی ہیں،علامہ محمد علی صدیقی کاندھلوی لکھتے ہیں کہ:
"دوسری صدی میں یہ سنن سے مصنف کا کام لیاجاتا تھا مگر تیسری صدی میں سنن کے ہی کے لئے مصنف کا نام وجود میں آگیا۔اگرچہ بعد میں سنن میں خصوصی اورمصنف میں کچھ عموم ساآگیا"(48)
مصنف اورجامع میں فرق:ان دونوں میں فرق کی نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ جامع میں مذکورہ بال آٹھ مضامین کے متعلق احادیث ہوتی ہیں ۔جبکہ"مصنف میں صرف وہ احادیث فقہ واحکام ہوتی ہیں جن کاتعلق شہری زندگی میں فقہ اور قانون سے ہوتا ہے"(49)
مصنف اور موطا میں فرق:جہاں تک ان دونوں میں فرق کا تعلق ہے تو وہ صرف وجہ تسمیہ تک محدود ہے۔یعنی صرف دونوں کے ناموں میں اختلاف ہے حقیقت کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں۔ڈاکٹر محمود طحان لکھتے ہیں کہ:
"موطا محدثین کی اصطلاح میں وہ کتاب ہے جو فقہی ابواب پر مرتب اور مرفوع،موقوف اور مقطوع احادیث پر مشتمل ہو،پس وہ(یعنی موطا) بالکل مصنف ہی کی طرح اگرچہ اسم کا اختلاف ہے؟(50)
تدوین احادیث کا ایک منفرد اسلوب:۔
ابواب(موطات،مصنفات،جوامع،سنن) ومسانید کے اسلوب کے علاوہ تدوین حدیث کا ایک انفرادی نوعیت کا اسلوب"اختلاف الحدیث" ہے جس کے تحت صرف ان احادیث کو مدون کیا گیا جن کے معانی ومطالب مشکل تھے۔اور وہ متعارض احکام پر دلالت کرتی تھیں۔جن کتب میں اس قسم کی احادیث کو مدون کرکے ان کے باہمی اختلاف وتناقض ،ان کے معانی ومطالب اور ان کے مشکل کی صحیح وضاحت کی گئی ہے،ان میں سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (204ھ) کی"اختلاف الحدیث"(51) امام ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ (263ھ) کی"تاویل مختلف الحدیث" اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (302ھ) کی "مشکل الآثار" و" شرح معانی الاثار" ہیں(52) اختلاف الحدیث تدوین حدیث کے اسالیب میں سے ایک منفرد اسلوب ہی نہیں بلکہ علوم الحدیث میں سے ایک اہم علم بھی ہے،"هذالفن من اهم علوم الحديث"(53)یعنی متعارض حدیث میں جمع و تطبیق کا فن علوم حدیث کے اہم فنون میں سے ایک ہے۔
اس نئے رجحان واسلوب کا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے کہ مامون نے جب خلق قرآن کے مسئلہ کو کھڑا کیا تو معتزلہ کو محدثین حضرات پرمسلط ہونے کاموقع مل گیا،انہوں نے حدیث اور محدثین پر اعتراضات کرنا شروع کردیئے۔تو محدثین اہلسنت ان کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔انہوں نے معتزلہ کے وارد کردہ مطاعن واعتراضات اور ان مرویات کو جمع کرنا شروع کردیا جن کو معتزلہ متناقض ومشکل قرار دے چکے تھے۔پھر محدثین اہل سنت نےایک ایک کرکے متکلمین معتزلہ کے مطاعن اور اعتراضات کا علمی جواب دیا جس سے حدیث اور محدثین کا دامن ان مطاعن سے پاک ہوگیا جیسا کہ امام ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے "تاویل مختلف الحدیث فی الرد علی اعداء الحدیث" مدون کرکے کیا(54)
تدوین حدیث کاایک انوکھا اسلوب:۔
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ (358ھ) نے اپنی"جامع صحیح" میں احادیث کی تدوین کے لئے ایک منفرد مگر انوکھا اسلوب ایجاد کیا۔انہوں نے کتاب کو پانچ قسموں یعنی اوامرو نواہی،اخبار مباحات اور افعال النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مرتب کیا پھر ان اقسام میں سے ہر قسم کو چند انواع میں منقسم کیا ہے۔صحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی ترتیب نرالی ہے وہ نہ ابواب پر مرتب ہے اور نہ ہی اس کی ترتیب مسانید کے اسلوب پر ہے اس لئے مولف نے اسے "التقاسیم والانواع" کے نام سے موسوم کیا ہے۔اس کتاب کے محاسن وغوامض بیان کرنا نہایت مشکل کام ہے۔(55) اس جدت اور انفرادیت کے پیش نظر اس سے استفادہ کرنا دشوار ہے۔
معاجم:۔
بعض محدثین حضرات نے تدوین احادیث کے لئے"معاجم" کے اسلوب کو اختیار کیا۔معاجم معجم کی جمع ہے۔محدثین کی اصطلاح میں"معجم حدیث کی وہ کتاب ہے جس میں احادیث کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ، یا شیوخ یا ان کے دیار وبلاد کی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہو اور اس میں حروف تہجی کا لحاظ رکھاگیا ہو"(56) اس اسلوب پر جن کتب میں احادیث کو مدون کیا گیا ہے ان میں سے مشہور ومطبوع امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ (360ھ) کی معاجم ثلاثہ ہیں:
اس اسلوب پر جن کتب میں احادیث کومدون کیا گیا ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔معجم الصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ از ابو العباس محمد بن عبدالرحمان بن محمد الدغولی رحمۃ اللہ علیہ (315ھ)
2۔معجم عبدالباقی بن قانع بن مرزوق بن واثق بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (351ھ)
3۔المعجم الکبیر از امام ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی رحمۃ اللہ علیہ (360ھ)
اس میں حروف تہجی کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ناموں کے تحت 60000 احادیث کو جمع کیا گیا ہے ،سوائے ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے "کیونکہ ان(یعنی امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ ) کے پیش نظر یہ ارادہ تھا کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات کو الگ مستقل مرتب کریں۔اسی وجہ سے ان کی مرویات میں سے کسی کو اس میں بیان نہیں کیا گیا ہے"(57) اس کے متعلق ابن وحیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
هو أكبر معاجم الدنيا. وإذا أطلق في كلامهم المعجم؛ فهو المراد، وإذا أريد غيرُه؛ قُيِّدْ
"یہ دنیا کا سب سے بڑا معجم ہے اور جب محدثین کے کلام میں مطلقاً معجم بولا جائے تو یہی مراد ہوتاہے اور اگر کوئی دوسرا معجم مراد ہو تو اس کے ساتھ قید کا اضافہ کیا جاتا ہے:
3۔المعجم الاوسط از امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ :اس میں انہوں نے اپنے شیوخ واساتذہ کے ناموں کو درج کیا ہے اور انہی حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا ہے۔اس میں 1200 احادیث بیان کی ہیں۔(59)
5۔المعجم الصغیر از امام طبرانی یہ صرف ایک جلد میں ہے اور اس میں انہوں نے ایک ہزار شیوخ کی احادیث کو اس طرح ذکر کیا ہے کہ عموماً ایک شیخ(استاد) سے صرف ایک حدیث روایت کی ہے۔
6۔معجم ابی بکر احمد بن ابراہیم ابن اسماعیل الجرجانی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (371ھ)
7۔معجم عبدالرحمان بنی یحییٰ بن جمیع الغسانی رحمۃ اللہ علیہ (402ھ)
8۔معجم الشیخ از ابو القاسم رحمۃ اللہ علیہ (427ھ)
اربعین:۔
بعض محدثین حضرات نے احادیث مدون کرنے کایہ اسلوب اور طریق کار اختیار کیا کہ"چالیس احادیث کوا یک باب میں یامختلف ابواب میں ایک ہی سند یامختلف سندوں کے ساتھ جمع کردیا"(60)
جن کتب میں اس نوعیت کا انداز اختیار کیا گیا ان کو"اربعینیات"کہا جاتا ہے۔اربعینیات"اربعین" کی جمع ہے جس کے معنی ہیں"چہل حدیث" یعنی چالیس حدیثیں۔چنانچہ بے شمار محدثین حضرات نے"اربعین" لکھی ہیں اور ان کا مقصد تالیف اما م بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس حدیث پر عمل کرنا ہے جو کہ انہوں نے شعب الایمان میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً نقل کی ہے:
قال سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ما حد العلم الذي اذا بلغه الرجل كان فقيها فقال من حفظ عن امتي اربعين حديثا من امر دينها بعثه الله عز وجل فقيها وكنت له شافعا وشهيدا
"فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ علم کی تعریف کیا ہے کہ جب آدمی اس تک پہنچ جائے تو فقیہ کہاجاسکے۔تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے میری امت کے لئے چالیس حدیثیں ان کے امور دینی کے بارے میں محفوظ کردیں تو اسے اللہ فقیہ اٹھائے گا قیامت کے روز اور اس دن اسے سفارشی اور گواہ بنایاجائےگا"
اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے بہت سے علماء نے اربعینیات لکھ ڈالیں جن کی تالیف و تدوین اور ترتیب میں ان کے مقاصد مختلف تھے"بعض نے توحید وصفات کی احادیث پر اعتماد کیا،بعض نے احادیث احکام پر،بعض نے احادیث عبادات اوربعض نےاحادیث مواعظ ورقائق پر اکتفا کیا"(62)
جہاں تک اربعینیات کی تعداد کا تعلق ہے تو یہ بہت زیادہ ہے۔(63) البتہ چند مشہور اربعینیات درج ذیل ہیں:
1۔اربعین عبداللہ بن مبارک المروزی رحمۃ اللہ علیہ (181ھ) اسےاولیت کاشرف حاصل ہے۔
2۔اربعین احمد بن حرب نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ (234ھ)
3۔اربعین ابی بکر محمد بن حسین البغدادی الاجری رحمۃ اللہ علیہ (360ھ)
4۔اربعین ابی بکر محمد بن ابراہیم الحنفی الکلابازی رحمۃ اللہ علیہ (380ھ)
5۔اربعین امام دارقطنی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (385ھ)
6۔اربعین ابی بکر محمد بن عبداللہ الجوزقی النیشا پوری الحنفی رحمۃ اللہ علیہ (388ھ)
7۔اربعین امام محمد بن عبداللہ حاکم رحمۃ اللہ علیہ (405ھ)
8۔اربعین ابی سعد المالینی رحمۃ اللہ علیہ (413ھ)
9۔اربعین ابی نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (430ھ)
10۔اربعین عبدالرحمان بن احمد الصابونی النیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ (449ھ)
11۔اربعین امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458ھ)
اجزاء:۔
تدوین احادیث کے اسالیب میں سے یہ ایک اہم اسلوب ہے اس کے تحت جن کتب میں احادیث مدون ہوتی ہیں انہیں اجزاء کہا جا تا ہے۔
اجزاء جز ء کی جمع ہے۔جزء سے مراد حدیث کی وہ کتاب ہے:
1۔جس میں مولف کسی ایک صحابی کی مرویات کو مدون کردے مثلاً:جزء ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو مدون کیاگیا ہے۔
2۔جس میں مولف کسی ایک شیخ کی روایت جمع کردے جیسے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی احادیث کوکتاب کی صورت میں مدو ن کیا۔
3۔جس میں مولف کسی ایک جزء کےمتعقل جملہ مرویات کو مدون کردے جیسے:
1۔جزءمارواہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ عن الصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ از عبدالصمدطبری رحمۃ اللہ علیہ (178ھ)
2۔جزاء ابی عاصم الضحا ک بن مخلد بن الضحا ک البصری رحمۃ اللہ علیہ (212ھ)
3۔جزاء ابی عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن المثنی بن عبد اللہ بن انس بن ما لک الانصاری البصری رحمۃ اللہ علیہ (215ھ)یہ امام بخاری کے استا د ہیں ۔
4۔جزء رفع الیدین ازامام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃ اللہ علیہ (258ھ)
5۔جزء ابن عرفہ بن یزید العبدی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ (258ھ)
6۔جزءابی مسعود احمد بن الراف بن خا لد الضی الرازی رحمۃ اللہ علیہ (258ھ)
7۔جزء ابی العباس محمد بن جعفر بن محمد بن ہشا م بن قیم الد مثقی رحمۃ اللہ علیہ (328ھ)
8۔جزء الجہر بسم اللہ ازامام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ (385ھ)
9۔کتاب الراۃ از امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458)
(4)اگر جا مع میں مذکور آٹھ مو ضوعات میں سے کسی مو ضوع کو اختیار کر کے ایک کتاب مدون کر دی جا ئے تو اس پر بھی "جزء" ہی کا اطلا ق ہو تا ہے چنانچہ باب النیہ پر ابو بکر بن ابی الدنیا (28ھ) نے ایک مبسوط کتا ب لکھی ہے اور علا مہ آجری (360ھ)نے روئیت باری تعا لیٰ پر کتا ب لکھی ہے ۔
(64)اس نو عیت کی کتب کو علامہ کتانی رحمۃ اللہ علیہ نے "الکتب المفردۃ " میں شامل کیا ہے (65)الکتب المفردۃ بھی اجزاء حدیثیہ ہی کے زمرے میں شامل ہیں۔
چند ایک کتب (مفردقہ ) درج ذیل ہیں ۔
1۔کتب خطب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ازابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ 234ھ)
2۔کتاب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ازابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ (234ھ)
3۔اموفقیات فی الحدیث از زبیر بن بکا ر ابو عبد اللہ بن ابی بکر مکی (256ھ)
4۔امثا ل النبی صلی اللہ علیہ وسلم از حا فظ عبد الرحمن بن خلا د الرامہر مزی رحمۃ اللہ علیہ (360)
5۔الملخص فی الحدیث از ابو الحسن علی بن محمد بن خلف الما لکی (403ھ)
6۔البعث والشور (حشر نشر) از امام ابو بکر البیہقی رحمۃ اللہ علیہ 458ھ)
(5)علاو ہ ازایں و حدانیات ،ثنائیات عشریات اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الوحد ان بھی اسی قبیل سےہیں (66)
(6)علا مہ تقی عثمانی لکھتے ہیں ۔
"بعض حضرا ت نے کتب حدیث کی ایک اور نو ع "الرسالۃ " بھی بیا ن کی ہے اور اس کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ کتا ب حدیث جس میں صرف ایک شیخ کی احا دیث جمع کی گئی ہوں ۔لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ کو ئی مستقل نو ع نہیں ہے بلکہ "الجزاء " کا مترا دف ہے "(67)
(7)محدثین کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ انھوں نے ابواب رواۃ اور مخصوص مسائل وغیرہکے علاوہ بعض حدیثوں کے طرق اور سندوں کو ایک علیحدہ کتاب میں جمع کیا جیسے "قبض العلم الخ " طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے طرق اور اسانید پر ایک کتاب لکھی اور حدیث "من کذب علی متعمدا ۔۔الخ "کے طرق کو امام طبرا نی رحمۃ اللہ علیہ نے جمع کیا ہے احا دیث "طلب العلم فریضہ ۔۔۔" کے طرق پر بعض محدثین نے جدا گا نہ کتابیں لکھی ہیں (68)ایسی کتب بھی اجزاء حدیث ہی کے قبیل سے ہیں ۔
(8)علاوہ ازیں جزء کا طلا ق اس کتاب پر (بھی ) ہو تا ہے جو جا مع اور مسند دونوں سے عام ہو تی ہے اور کبھی اس پر بھی ہو تا ہے جو کسی خاص موضوع پر تا لیف کی جا تی ہے(69)
تدوین احا دیث بہ ترتیب حروف تہجی
احا دیث کی جمع و ترتیب میں محدثین کا یک اسلوب یہ بھی ہے کہ "انھوں نے احا دیث کو حروف تہجی کی ترتیب کے لحا ظ سے مدون کیا مثلاًانماالاعمال بالنیات کو حرف الف میں بیان کیا وعلی ھذا القیاس اس اسلوب و منہج کو ابو منصور الدیلمی رحمۃ اللہ علیہ (558)نے مسند الفردوس میں ابن طا ہر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عد ی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الکامل "میں اور علامہ جلالالدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الجامع الصغیر" میں اختیار کیا " (70)
اطرا ف :۔
تدوین احا دیث کے اسالیب میں سے ایک اسلوب احا دیث کو اطراف پر مرتب کرنا ہے جس کا قاعدہ یہ ہے کہ " پہلے حدیث کا بتدا ئی حصہ بیان کیا جا تا ہے پھر اس کی اسانید (طرق) کو جمع کیا جا تا ہے خواہ اس میں مخصوص کتب کا حو الہ دیا جا ئے یا نہ دیا جائے "(71)محدثین پہلی صدی ہجری کے ربع ثا لث میں اس اسلوب کو استعمال میں لائے چنانچہ ڈا کٹر مصطفیٰ الاعظمی لکھتے ہیں ۔
المحدثون منذ الربع الثالث من القرن الاول منهج الاطراف
جن کتب کو اس اسلوب پر مدون کیا جا ئے انہیں محدثین کی اصطلاح میں " کتب الاطراف " کہتے ہیں ۔"اطرا ف سے مراد ہر ایسی کتاب ہے جس میں مصحنف نے حدیث کاایک ایسا طرف (73) یعنی حصہ جمع کردیاجس پر غور کرنے سے باقی ماندہ حدیث کا مضمون سمجھ میں آسکتا ہو اس کے بعد ہر متن حدیث کی اسانید کا مکمل یا بعض کتب کے حوالے سے ذکر ہو۔۔۔(74)
اس اسلوب کا فا ئدہ یہ ہے کہ بسا اوقات ایک شخص کو کسی حدیث کے اول یا آخر ی الفاظ تو یا د ہو تے ہیں لیکن نہ پو ری حدیث ذہن میں ہو تی ہے اور نہ اسکی اسنادی حیثیت کا علم ہو تا ہے ۔ایسے موقع پر اطراف (کے اسلوب ) پر مدون کتب بے حد کا م دیتی ہیں ۔(75)
اطرا ف حدیث پر بے شمار کتب مدون ہوئی ہیں مثلا ً:
1۔اطراف الصحیحین ازابو مسعود ابرا ہیم بن محمد الد مثقی رحمۃ اللہ علیہ (401ھ)
2۔اطراف الصحیحین از ابو محمد خلف بن محمد الواسنی رحمۃ اللہ علیہ (401ھ)
3۔الاشرافعلی معرفۃ الاطراف (اطراف سنن اربعہ ) از حا فظ ابو القاسم علی بن الحسن بن عساکر رحمۃ اللہ علیہ 571ھ)
4۔ تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف (یعنی اطراف صحا ح ستہ) از جمال الدین ابو الحجاج یو سف بن عبد الرحمٰن المزی رحمۃ اللہ علیہ (742ھ) یہ کتاب سب سے زیادہ متداول ہے ۔
5۔الکشاف فی معرفۃ الاطراف از حا فظ محمد بن علی الدمشقی رحمۃ اللہ علیہ (765ھ)
6۔اطراف المساندی العشرۃ از ابو عباس احمد بن محمد البوصیری رحمۃ اللہ علیہ (840ھ)
7۔اتحا ف المحرۃ باطرافہ العشرۃ از احا فظ بن حجر العسقلا نی رحمۃ اللہ علیہ (852ھ)
8۔ذخا ئر الموادیث فی الدلا لۃ علی مواضع از عبد الغنی النا بلسی رحمۃ اللہ علیہ (1142ھ)
استدراک
اس اسلوب کے تحت محدث کسی دوسری کتاب کے مؤلف کی متروکہ مرویا ت جو اس کی مقرر کردہ شرائط پر پوری اتراتی ہوں کو تلاش کر کے ایک کتاب میں مدون کرتا ہے پروفیسر ابو زھو لکھتے ہیں ۔
"محدثین کے نزدیک استدراک کا مطلب ہے ان احا دیث کو جمع کرنا جو حدیث کی کسی کتاب کی شروط کے مطا بق ہوں مگر مصنف نے ان کی تخریج اپنی کتا ب میں نہ کی ہو۔"(76)
جن کتب میں اس اسلوب پر احادیث مدون کی جا تی ہیں انہیں مستدرکا ت کہتے ہیں جس کا واحد "مستدرک" ہے یعنی " ہر وہ کتاب جس میں مؤلف نے کسی دوسری کتاب پر استدراک کر کے اسی کی شرا ئط پر پو ری اترنے والی ایسی احا دیث کو مدون کیا ہو جو اس کتاب میں مدون ہونے سے رہ گئی ہوں "(77)
اس اسلوب پر مدونہ کتب میں سے مشہور یہ ہیں ۔
1۔المستدرک علی الصحیحین ازا مام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ محمد الحا کم النیشارپوری رحمۃ اللہ علیہ (405ھ)
2۔المستدرک علی الصحیحین از حا فظ ابو ذرعبد بن احمد بن محمد الہروی الما لکی رحمۃ اللہ علیہ (434ھ)
استخراج
محدثین کے ہاں ایک اسلوب یہ بھی را ئج ہے کہ وہ پہلے سے مدونہ کتب حدیث میں سے کسی کتاب کو اپنی سند سے اس طرح روایت کرتے ہیں کہ سلسلہ سند سےمدون (78) کے نام کو نظر اندا ز کر دیتے ہیں اور اپنی سند کو مدون کے شیخ یا اس سے اوپر کے کسی راوی سے ملا لیتے ہیں ۔اس اسلوب و عمل کو " استخرا ج " کہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو کتب عالم و جود میں آتی ہیں وہ " مستخرجا ت " کہلا تی ہیں ۔
مستخرجا ت مستخرج کی جمع ہے حا فظ عراقی کے قول کے بمطا بق مستخرج کا مطلب یہ ہے کہ "کو ئی مصنف کسی کتاب کی احا دیث کو کتاب کے جا مع و مولف کے علاوہ اپنی سند سے روایت کرے اور اس کی سند مؤلف کتاب کے شیخ کے ساتھ یا اس سے اوپر جا کر مل جا ئے ( 79)یعنی متحدہ ہو جا ئے "کواہ یہ اتحا د و شرا کت صحا بی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جا حا صل ہو جبکہ سابقہ کتاب کی تر تیب متن اور طریقہ اسناد کا لحا ظ رکھا ہو"(80)یعنی دونوں کتب کی ترتیب اور متون و اسانید میں کچھ فرق نہیں ہو تا ۔
گو یا مستخرج حدیث کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں کسی دوسری کتاب کی احا دیث کو اپنی ایسی سند سے روایت کیا گیا ہو جس میں پہلی کتاب کے مؤلف و مدن کا واسطہ نہ آتا ہو ۔
اس اسلوب پر مدونہ کتب میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں ۔
1۔المستخرج از حا فظ ابو بکر محمد بن رجا ء الاسفرائینی (286ھ)
2۔المستخرجاز احمد بن محمد ابرا ہیم البلا ذری رحمۃ اللہ علیہ (339ھ)
3۔المستخرج از ابو عبد اللہ محمد بن یعقوب بن یو سف الشیانی النیشاری پوری رحمۃ اللہ علیہ (344ھ)
4۔المستخرج از ابو سعید احمد بن ابی بکر پوری رحمۃ اللہ علیہ محمد النیشاری پوری رحمۃ اللہ علیہ (353ھ)
5۔المستخرج از حا فظ ابو بکر احمد بن ابرا ہیم بن اسما عیل جرا جا نی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (371ھ)
6۔المستخرج از ابو بکر محمد بن عبد اللہ بن زکریا الشیانی النیشاری
7۔المستخرج از حا فظ ابو بکر احمد بن موسیٰ مردویہ اصفہا نی رحمۃ اللہ علیہ (416ھ)
8۔المستخرج از ابو محمد الحسن ابی طا لب محمد بن الحسن البغدادی رحمۃ اللہ علیہ (439ھ)صحیحین پر بالخصوص درج ذیل مستخرجا ت کے اسماء ملتے ہیں ۔
1۔المستخرج الاسما عیلی رحمۃ اللہ علیہ (371ھ)مستخرج ابن ابی ذھل رحمۃ اللہ علیہ (378ھ) علی صحیح البخا ری رحمۃ اللہ علیہ
2۔المستخرج ابی عوانہ الاسفرائینی رحمۃ اللہ علیہ (310ھ) مستخرج الحمیری رحمۃ اللہ علیہ (311ھ) و مستخرج ابی حا مد الحرد رحمۃ اللہ علیہ (355ھ)علی صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ
3۔المستخرج ابی نعیم الاصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (430ھ) مستخرج ابی الاخرم رحمۃ اللہ علیہ (344ھ)ومستخرج ابی بکرالبرقانی رحمۃ اللہ علیہ (425ھ)علی الصحیحین 81)
علل حدیث :۔
تدوین و تصنیف حدیث کے طرق میں سے ایک اہم طریقہ یہ بھی ہے جس کے تحت ایسی احا دیث کو مدون کیا جا تا ہے جو بظا ہر کسی سقم سے خا لی ہوں مگر ان میں کو ئی ایسا مخفی سبب(82)موجود ہو جو ان کی صحت کو مشکوک کر دے پھر ان مخفی اسباب و علتوں کو بیان کر دیا جا تا ہے اور احا دیث کے تمام طرق کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ رواۃ کے اختلا ف کو بھی بیان کیا جا تا ہے چنانچہ پرو فیسر عبد العزیز الخولی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔
ومن أعلى المراتب في تصنيف الحديث تصنيفه معللاً ؛ بأن يجمع في كلحديث طرقه واختلاف الرواة فيه
"تصنیف حدیث میں سب سے اعلیٰ تصنیف وہ ہے جس میں احا دیث کی علتوں کو بیان کرنے کے ساتھ ہر ایک حدیث کے تمام طرق (اسانید) اور اختلا ف رواۃ کو بیان کیا جائے"
کیونکہ "جب تک کسی حدیث کے طرق واسانید یکجا ہوں اس کی خطا کا پتہ نہیں چل سکتا (84)اس اہم اسلوب پر مدونہ کتب میں سے مشہور یہ ہیں ۔
1۔امام ابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ (234ھ)کی کتاب العلل" اس کی تر تیب ابواب پر ہے۔
2۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (241ھ)کی " العلل"ومعرفتہ الرجال"
3۔امام بخاری : (256ھ)کی "کتاب العلل"
4۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ (261ھ)"کتاب العلل"
5۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (261ھ)کی" العللاکبیر وا" العلل الصغیر"
6۔امام ابو زکریا بن یحییٰ الضی البصری رحمۃ اللہ علیہ (307ھ)کی" علل"الحدیث"
7۔امام ابن ابی حا تم الرازی (327ھ)کی "علل الحدیث "
8۔امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ (375ھ)کی" العللالواردۃ فی الاحدیث النبویۃ"
غریب الحدیث
اور علل الحدیث کی طرح یہ بھی تدوین احا دیث کے اسالیب میں سے ایک اہم اسلوب ہے ۔اس کے تحت ان احا دیث کو مدون کرنے کا اہتمام کیا جا تا ہے جن کے متون کے الفا ظ و معانی مشکل ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ان احا دیث کے فہم وادراک میں دقت پیش آتی ہے محدثین حضرات نےاس نوعیت کی احا دیث کو خا ص انہماک و شغف کے ساتھ مدون کرنے میں حسب ذیل انداز و طرق اپنا ئے ۔
1۔"بعض نے صرف ان احا دیث کو مدون کیا جن کے الفاظ اور معانی مشکل تھے تو انھوں نے ایسی احا دیث کے لیے مستقل کتب تا لیف کیں جن میں صرف متن حدیث بیان کر کے اس کے غریب (نادر) الفاظ اعراب اور معانی کی وضا حت کر دی مگر انھوں نے احکا م کو ذکر نہیں کیا جیسا کہ ابو عبید قاسم بن سلام (متوفی224ھ)نے اپنی کتاب "غریب الحدیث" میں اور ابو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتسیبہ رحمۃ اللہ علیہ الدینوی(المتوفی:276ھ)نے اپنی کتاب "غریب الحدیث میں کیا "(85)
2۔"بعض نے مذکورہ بالا امور (یعنی غریب الفاظ کی تشریح کر دینے اعراب کو بتا دینے اور معانی کو سمجھا دنیے ) کے علوہ اپنی کتب میں احکام اور فقہاء کرام کی آراء کو بھی بیان کیا جیسے ابو سلیمان محمد بن الخطابی نے" معالم السنن " اور اعلاالسنن" میں کیا "(86)
3۔اور بعض محدثین نے صرف الفاظ کے ذکر کرنے پر اکتفاکیا اور متن حدیث بیان نہیں کہا بلکہ متن سے صرف غریب الفا ظ کو نکال کر ترتیب کے ساتھ مدون کیا اور ان کی تو ضیح کر دی جیسا کہ ابو عبید اللہ احمد بن محمد الہروی رحمۃ اللہ علیہ نے "کتاب الغریب"میں کیا "(87)
اس اسلوب میں مدون ہو نے والی چند مذکورہ کتب کے علا وہ حسب ذیل مشہور و معروف ہیں ۔غریب الحدیث ازامام ابو عمر شمر بن حمدویہ (256ھ)
2۔غریب الحدیث ااز امام ابو اسحا ق ابرا ہیم بن اسحا ق الحزمی رحمۃ اللہ علیہ (276ھ)کے بعد فوت ہو ئے)
3۔کتاب التقریب فی علم الغریب از قاضی نو ر الدین محمد بن الحمدانی رحمۃ اللہ علیہ (334ھ)
4۔کتاب الغربیین(یعنی غریب الحدیث اور غریب القرآن ) ازامام ابو عبید العبدی الہروی رحمۃ اللہ علیہ (400ھ)
5۔الفائق فی غریب الحدیث از امام محمد بن عمر الزمحشری المقزلی رحمۃ اللہ علیہ (538ھ)
6۔مشارق الانوار علی صحا ح الاثا ر از قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ ابو الفضل رحمۃ اللہ علیہ
7۔مطا لع الانوار علی صحاح الاثا ر از حا فظ ابو اسحا ق ابرا ہیم بن یو سف الواھرانی الخمری رحمۃ اللہ علیہ (569ھ)
8۔غریب الحدیث میں امام ابو السعادات مجدالدین المبارک بن محمد المعروف بابن الاثیر رحمۃ اللہ علیہ (606ھ)کی "کتاب النھا ریۃ "عمدہ تا لیف ہے ۔
الغرض مختلف ادوار میں احا دیث نبویہ کی جمع و تدوین اور تصنیف وتا لیف کے لیے مختلف نوعیت کے اسالیب و مناہج اپنائے گئے۔جن کے اثرا ت مو جو د ہ مطلبوعہ مصادر حدیث میں روز روشن کی طرح نما یا ں ہیں ۔ ان اثرا ت ہی کی وجہ سے مصادر حدیث کے انداز و طرق میں تنوع پا یا جا تا ہے اور ہر مصدر ایک دوسرے سے مختلف دکھا ئی دیتا ہے جو بذات خود احا دیث کی حفاظت کا ایک طا قتور ذریعہ ہے ۔
علم حدیث ۔۔۔جو کہ (من ابرك العلوم واشرف الفنون علي وجه الارض)ہے
کے ساتھ شغف رکھنے والے حضرا ت جانتے ہیں کہ تدوین حدیث کے اسالیب و مناہج کا یہ اختلا ف اور مصادر حدیث کے انداز طرق کا یہ تنوع حقیقت میں ذخیرہ احا دیث کی صحت اور اس کے ضعف پر اثر اندا ز نہیں ہو تا بلکہ ان مصادر سے استغفار ہ کرتےوقت اکثر و بیشتر اوقات نہ جا ننے والے کے لیے وقت و پریشانی کا باعث بنتا ہے کئی مبتدئین کو "حوالے جا تی " کا م کرتے وقت مطلوبہ احا دیث تک رسا ئی کےرا ستہ میں صعوبت و دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہر مو لف کا اپنا اپنا ذوق اور خاص نقطہ نظر ہو تا ہے جس کے مطا بق وہ کتابی صورت میں احا دیث مدون کرتا ہے اس لیے عا م قارئین بالخصوص محققین حضرا ت اور حدیث شریف کے استذہ کرام اور طلبا ء کے لیے ضروری ہے کہ وہ تدوین حدیث کے اسالیب و منا ہج پھر ان پر مدون ہو نے والی کتب کے جامعین کے ذوق نقطہ نظر اغرا ض و مقاصد اور ان کے انداز و طرق کے تنوع سے بخوبی آگا ہ ہوں تا کہ کماحقہ ان کی مدونات سے استغفادہ کر سکیں ۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کتب حدیث کی مزاج ژناسی کے بعد ہی با حشین و محققین حجرا ت کے لیے ان سے استفادہ کرنا آسان ہو سکتا ہے؟
نتا ئج :۔
تدوین حدیث کے ان اہم اسالیب و منا ہج کو بیان کر لینے کے بعد جو نتا ئج سامنے آسکتے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔
1۔یہ کہ مو جو دہ مصادر حدیث کسی حادثا نی عمل کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ان کی تدوین و تر تیب کے پس منظر میں بہترین دفاع اور اعلیٰ وارفع اغرا ض و مقاصد کا ر فر ما ہیں جن کے تحت مختلف نو عیت کے اسلیب و منا ہج پر احا دیث کی تدوین ہو ئی۔
2۔احا دیث کی تدوین محض دینی تقاضوں دینی عوامل اور دینی محرکا ت کی بنا ء پر ہو ئی ہے اور اس تدوینی عمل میں خا ص قسم کا تسلسل و اتصال پا یا جا تا ہے۔
3۔جہاں تک مستتشرقین اور منحرفین کا تعلق ہے تو ان کے اعتراضا ت کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے تدوین حدیث کے اسالیب و منا ہج محدثین حضرات کے اپنا ئے ہو ئے اندازو طرق میں کا ر فرما اغرا ض و مقاصد اور تدوینی عمل میں ان کے ضبط و تقوی اور محتاط رویوں کی وجو ہا ت کو ملخوط خا طر نہیں رکھا ورنہ بہت سارے اعتراضا ت کے جوابات انہیں وہیں مل جا تے تو وہ بے اعتدالیوں اور نا انصافیوں سے کام نہ لیتے ۔
حواشی و حوالہ جا ت :۔
1۔تدوین حدیث مو لا نا منا ظر احسن گیلا نی ص8مکتبہ اسحا قیہ کراچی
2۔محولہ بالا
3۔محولہ بالا
4۔محولہ بالا
5۔(مقدمة الرسالة المسطرفة العلامة محمد جعفر الكتاني)(1345ھ)اصح المطابع کرا چی
6۔محولہ بالا
7۔امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور علم حدیث مو لا نا محمد علی صدیقی کا ندھلوی ص546انجمن دار العلوم الشہابیہ سیا لکوٹ 1981ء
8۔دیکھئے سورۃ الاحزاب :210
9۔مطا لعہ حدیث مو لا نا حنیف ندوی ص ز ادارہ ثقافت اسلا میہ لا ہو ر ط دوم :1987ء
10۔صحیح بخا ری الامام محمد بن اسما عیل البخا ری رحمۃ اللہ علیہ (256ھ)ا:554
11۔دیکھئے فتح الباری شرح البخا ری الحا فظ محمد بن حجر عسقلا نی رحمۃ اللہ علیہ ج9ص184،مصطفیٰ البابی الحلی با لقاہرۃ تقید العلم العلا مۃ الخطیب البغدادی ص89 تحقیق الدکتور یو سف المعش 1994ء الا صا بہ فی تمیز الصحا بہ ج 4ص101اس کے حاشیہ پر " الاستیعاب فی الاصحا ب " چھپی ہے المکتبۃ التجاریۃ مصر 1939،
12۔سنن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ باب فی زکا ۃ الساعۃ ،صحیح بخا ری کتاب الزکا ۃ باب زکا ۃ الغنم
13۔صحیح بخا ری باب الشروط فی الجہا د
(14۔سنن ابی داؤد باب اقطاع الا رضین 79،21
15۔طبقات ابن سعد ج 1 ص270 ط مصریہ
16۔محولہ با لا ص271،مزید تفصیل کے لیے دیکھئے الوثائق السیا سیۃڈاکٹر محمد حمید اللہ ط ثا لثہ بیروت 1389ھ ڈا کٹر صاحب نے اس کتا ب میں 386خطوط ہدایت نامے معاہدے اور خطبے درج کئے ہیں جن میں سے 291 کا تعلق حضور علیہ الصلا ۃ والسلام سے ہے۔
17۔تفصیل کے لیے دیکھئے درا سات الحدیث النبوی و تا ریخ تدوینہ الدکتور مصطفیٰ الاعظمی ص92و مابعد ھا المکتب الاسلامی (1992ء بحوث فی تا ریخ السنۃ المشرقہ الدکتور اکرم ضیا ء العمری ص229،228۔ط: 1984ء
18۔آثا ر الحدیث ڈاکٹر علامہ خا لد محمود ص349دارالمعارف لا ہو ر
19۔تفصیل کے لیے دیکھئے درا سات الحدیث النبوی محولہ بالا ص 42۔92۔
20۔ان چا روں ذرائع و اسالیب کی تفصیلا ت کے لیے دیکھئے حفاظت حدیث ڈاکٹر خا لد علوی ص57و مابعد ھا المکتبہ العلمیۃ لا ہور 1971ءحجیت حدیث علا مہتقی عثمانی ص 109 و ما بعد ھا ادارہ اسلامیا ت لا ہو ر 1991ء
21۔دیکھئے تا ریخ الترا ث العربی فواد سزکین ج1ص227ترجمہ الدکتور محمود حجازی المکتبۃ العربیہ النعودیہ 1982ءدرس ترمذی تقریر جا مع ترمذی علامہ تقی عثمانی ج1 ص36 ترتیب و تحقیق مو لا نا رشید اشرف سیفی مکتبہ
"دارالعلوم الاسلامیہ کراچی 1984ء
(22)مزید تفصیل کےلیے دیکھئے درا سات فی الحدیث النبویہ محولہ با لا ص167،143۔حجیت حدیث مو لا نا تقی عثمانی محولہ با لا ص150،140۔
23۔درس ترمذی محولہ با لا ص45،
24۔ان کتب میں سے کو ئی بھی کتاب ہم تک نہیں پہنچی ہے کیونکہ "علماء نے ان تصانیف کو اپنی کتب میں ظم کر لیا اور اس طرح ان کی جدا گا نہ حیثیت با قی نہ رہی چونکہ یہ تصانیف جن احا دیث پر مشتمل تھیں وہ علماء کو زبا نی یا د بھی تھیں اس لیے وہ ان احا دیث کو اپنی تصانیف میں سمونے کے لئے حق بجا نب تھے الحدیث والمحدثون الاستاذ محمد ابو زھو ص129مصر اولی :1958ء
25۔تاریخ الترا ث العربی محولہ با لا ص 227
26۔الرسالۃ المستطرفۃ محولہ با لا ص 10،نیز دیکھئے تو جیہ النظر الی اصول الاثر الشیخ طا ہر الجزائری ص8مصر 1329ھ
27۔دراسات فی الحدیث النبوی محولہ با لا ص148
28۔السنۃ قبل لتدوین الدکتور محمد عجاج الخطیب ص338،القاھرۃ 1963ء
29۔دیکھئے المختصر الو جیز فی علوم الحدیث الدکتور محمد عجاج الخطیب ص83موسسۃط اولی 1985ء
30۔دیکھئے الحدیث والمحدثون محولہ با لا ص244
31۔مقدمہ تعجیل المنفعۃ الامام محمد بن حجر العسقلا نی رحمۃ اللہ علیہ
32۔تبیض الصحیفہ الامام جلا الدین السیوطی ص36
33۔الرسالۃ المستطرفۃ محولہ با لا ص13
34۔حدی الساری(مقدمۃ فتح الباری) الامام محمد بن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص6دارالفکر والرسالۃ المستطرفۃ محولہ با لا ص7
35۔محدثین عظا م اور ان کے علمی کا نا مے مو لا نا تقی الدین ندوی مظا ہری ص63مجلس نشریات کراچی
36۔منہا ج البخا ری مو لا نا معرا ج الاسلام ج1 ص23عرفا ن القرآن اعوان ٹا ؤن لاہو ر
37۔تفصیل کے لیے دیکھئے فوائد جا معہ برعجا لہ نافعہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ص49شارح مو لا نا محمد عبد الحلیم چشتی کرا چی 1964ءوالرسالتہ المستطرفۃ محولہ با لا ص 53
38۔حدی الساری محولہ با لا ص6۔
39۔محولہ با لا ص6۔
40۔تفصیل کے لیے دیکھئے فوائد جا معہ نا فعہ محولہ با لا ص 49183۔50،ترتیب مسانید کا یہ معروف اسلوب ہے لیکن محدثین کے ہا ں مسند کا اطلا ق ان کتب پر بھی ہوتا ہے جو صحا بہ کے نا موں پر مرتب نہیں ہو تیں بلکہ فقہی ابواب یا حروف یا کلمات پر مرتب ہو تی ہیں کیونکہ ان کتب کی احا دیث کی سند حضور علیہ الصلا ُ والسلام تک مذکور ہوتی ہے چو نکہ وہ مسند اور مرفوع احا دیث کا مجموعہ ہو تی ہیں اس لیے ان کو مسند کہا جا تا ہے جیسے مسند بیہقی بن مخلد اندلسی اور صحیحین وغیرہ (دیکھئے الرسالۃ المستطرفۃ محولہ با لا ص 74،975اصول التخریج و دراسۃ الاسانید الدکتور محمود الفحا ن ص40بدون مکا ن و تاریخ الطبع
41۔تدوین حدیث کا یہ اسلوب اس سے قبل دو مرحلوں سے گزر چکا تھا پہلا مرحلہ :75ھ سے لے کر 125ھ تک اس عرصہ میں مو ضوعات وابواب پر احا دیث مدون کرنے کی بنیا د پڑ چکی تھی جیسے امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ (103ھ)کی کتاب "الابواب "وغیرہ دوسرامرحلہ 125ھ سے لے کر اسی دوسری صدی ہجری کے آخر تک اس مرحلہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فقہی ابواب کے اسلوب پر احا دیث کی تد وین کی
42۔فوائد جا معہ برعجالہ نا معہ محولہ با لا ص 47
43۔دیکھئے الرسالۃ المستطرفۃ محولہ با لا ص4مزید تفصیل کے لیے دیکھئے امام اعظم اور علم الحدیث محولہ با لا ص 404۔398،
44۔جیسےکتاب الطہارۃ کتاب الصلا ۃ اور کتاب الزکا ۃ وغیرہ آخر تک جیساکہ فقہی ترتیب ہو تی ہے تا کہ احکا م شریعت کے استنباط کے لیے فقہاء حضرا ت ان سے استفادہ کر سکیں ۔
(45۔الرسالۃ المستطرفۃ محولہ با لا ص 32
46۔التخریج و دراسۃ الاسانید محولہ با لا ص134،
47۔محولہ با لا ص134،
48امام اعظم اور علم الحدیث محولہ با لا ص439
49محولہ با لا ص 439،
50۔اصول التخریج محولہ با لا ص135۔
51۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس مو ضوع پر قلم اٹھا یا (تیسیرمصطلح الحدیث الدکتور محمود الطحا ن ص57،دارالکتب العربیۃ بشاور بدون تا ریخ الطبع ) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے عہدسے قبل متعارض و متضاد احا دیث پر علماء کے درمیان مناقشات ہوا کرتے تھے لیکن ان سے پہلے کسی نے اس باب میں کتاب تا لیف نہیں کی (تفصیل کے لیے دیکھئے ابو جعفر الطحا دی رحمۃ اللہ علیہ واثرہ فی الحدیث عبد المجید محمود ص265القاہرہ 1975)دیکھئے کشف الظنون حاجی خلیفہ ج 1ص33ترکی
53۔تیسیرمصطلح الحدیث محولہ با لا ص57
54۔دیکھئے الحدیث والمحدثون محولہ با لا ص355(الف) یعنی وہ اخبار جن کی پہچا ن کی ضرورت ہو تی ہے جیسے بدء الوحی اسراء اور باتیں جن کی وجہ سے حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کو تمام انبیاء پر فضیلت حا صل ہے ۔
55۔تدریب الرادی ج1ص109میر محمد کتب خا نہ کراچی ط دوم :1972ء
56۔محولہ با لا ص242،
57۔بستان المحدثین (اردو) شاہ عبد العزیز محدث دہلویص87ترجمہ مو لا نا عبد السمیع میر محمد کتب خا نہ کرا چی
58۔اصول التخریج محولہ با لا ص45
(59۔تفصیل کے لیے دیکھئے المعجم الوسبط الامام الطبرا نی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص۔7،6تحقیق الدکتور محمو د الطحا ن مکتبہ الر یا ض ط اولی بدون تا ریخ
60۔فوائد جا معہ محولہ با لا ص50
61۔مشکاۃکتاب العلم فصل ثا لث ج1ص36
62۔مقدمۃ تحفۃ الاحوذی (شرح جا مع الترمذی رحمۃ اللہ علیہ امام عبد الرحمٰن عبد الرحیم المبار کفوری رحمۃ اللہ علیہ (1355ھ) ج1 ص106المکتبۃ السلفیۃ بالمدینہ المنورہ بدون تا ریخ الطبع
63۔دیکھئے کشف الظنون محولہ با لا باب الائف میں کتب اربعینیات کے اسماء اور باب الثین میں اربعینا تکی شرح کے نام
(64۔اس کا ذکر فوائد جا معہ بر عجا لہ نافعہ محولہ بالا ص50اور مقدمہ تحفۃ الاحوذی محولہ بالا ج1ص104میں کیا گیا ہے ۔
65۔دیکھئے الرسالۃ المستطرفۃ محولہ با لا ص58و مابعد ھا
66۔محولہ با لا ص65۔64علوم الحدیث (اردو ) صبحی صالح ص162مترجم غلا م احمد حریری
67۔درس ترمذی محولہ با لا ج1ص 53،
68۔فوائد جا معہ محولہ با لا ص186،
69۔محولہ بالا ص163،
70۔تا ریخ فنون الحدیث محمد عبد العزیز الخولی ص46دار القلم بدون تا ریخ الطبع
71۔محولہ بالا ص46،
72۔دارسات الحدیث النبوی محولہ بالا ص334
73۔طرف الحدیث کا معنی ہے اس کے متن کا جزء جو پورے متن پر دلالت کرے مثلاً کلکم ر اع "بني الاسلام علي خمس"یہ حدیث کا بتدا ئی جزو ہے جس کی مدد سے پوری حدیث تلا ش کی جا سکتی ہے۔
74۔اصول التخریج محولہ با لا ص49،
74۔تیسیر مصطلح الحدیث محولہ با لا ص69،
75۔تفصیل کے لیے دیکھئے اصول التخریج محولہ با لا 49،
76۔الحدیث والمحدثون محولہ با لا ص407۔
77۔اصول التخریج محولہ با لا ص116
78۔فا عل ہے یعنی مدون کرنے والا دوا دین حدیث مثلاً صحا ح و سنن وغیرہ میں ہر حدیث "حدثنی "حدثنا"یا"اخبرنا "(فلا ں نے مجھے یا ہمیں بتا یا ،یا خبر دی وغیرہ وغیرہ )سے شروع ہو تی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مدوفین و جا معین کتب بھی سلسلہ سند کا ایک حصہ ہو تے ہیں ۔
79۔تدریب الراوی محولہ ج1 ص112۔
80۔الرسالۃ المستطرفۃ محولہ با لا ص32۔
81۔مستخرجا ت کی تعداد کے لیے دیکھئے تدریب الراوی محولہ با لا ج11ص11والرسالہ المستطرفۃ محولہ با لا ص26،و ما بعد ھا ۔
82۔مثلاً منقطع حدیث کا مو صول ہو نا مو قوف کا مرفوع ہو نا اور ایک حدیث کو دوسری میں دا خل کرنا (علوم الحدیث (اردو) صبحی صالح محولہ با لا ص147،مزید تفصیل کے لیے دیکھئے اسی کتاب کے ص232،
83۔تا ریخ فنون الحدیث محولہ با لا ص46،
84۔تدریب الراوی محولہ با لا ج1 ص253۔
85جا مع الاصول من الحدیث الرسول الامام ابو السعادات مبا رک بن محمد ابن الاثیر الجزی رحمۃ اللہ علیہ (606ھ)ج1 ص17،تحقیق حا مد محمد الفقی داراحیا ء الترا ث العربی بیروت ط ثا نیہ :1980ء
86محولہ با لا ص 17۔18۔
87۔محولہ بالا ص18علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ نے ان نکا ت کو کتب حدیث کی تدوین و تالیف کے اغرا ض و مقاصد کے ضمن میں بیان کیا ہے۔