سامراج کی زیر نگرانی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کے اصل عزائم

۔مغرب کے فکری دستر خوان کے خوشہ چین عجب تضادات کا شکار ہیں:
سواد اعظم کے دباؤ کے زیراثران میں اتنی اخلاقی جرات تو نہیں کہ وہ کھلم کھلا اسلام کے کامل دین ہونے کے خلاف کچھ کہہ سکیں۔لیکن ان کی فکر کے تمام دھارے اسلام کی مخالفت سمت میں بہہ رہے ہیں تاہم انہیں اصرار ہے کہ انہیں بہرحال مسلمان سمجھا جائے۔
2۔ان کو تاہ فکرفرنگ زدہ دانشوروں سے اگر دریافت کیا جائے کہ آخر مغرب کے پیش کردہ بلند بانگ انسانی حقوق کی طولانی فہرست کا وہ کونسا گوشہ ہے جو اسلام کے عالمگیر معاشرے کی تشکیل کے وسیع دائرے میں شامل نہیں ہے تو وہ کسی ایک بھی نکتے کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں۔
3۔اگرچہ وہ مسلمان کہلانے پر مصر ہیں۔لیکن اسلام کے نام پر شروع کی جانے والی کسی بھی تحریک میں شرکت کا داغ اپنے اوپر لینے کو تیار نہیں۔اسلام میں انسانی حقوق کاجو وسیع نظام موجود ہے۔مغرب کے انسانی حقوق کاخاکہ اس کے عشر عشیر بھی نہیں ہے۔لیکن"کل"کوچھوڑکر"جزو" کو محض زعم باطل میں مبتلا ہوکر اختیار کیے ہوئے ہیں کہ  ترقی پسندی اورروشن خیالی کے حصول کا ان کے نزدیک واحد راستہ یہی ہے۔
4۔درحقیقت وہ فکری اعتبار سے نہ تو وہ صحیح معنوں میں ترقی پسند ہیں اور نہ روشن خیال،ان کے فکر کی ہر تان وعظمت آدم اور شرف انسانیت کے تصورسے متصادم ہے ان کی سرگرمیوں کا سار محور عظمت  انسانی سے زیادہ مغربی آقاؤں کے سامنے اپنے آپ کو ترقی پسند کے روپ میں پیش کرنا ہے۔
5۔ان کے ذہن مغربی ژولیدگی سے مزین ہیں۔اور ان کی زبانوں کو مغرب کے زہریلے پروپیگنڈے کی چاٹ لگی ہوئی ہے۔ان کے ذہن ہر اس ہتک آمیز فلسفے ،اصطلاح اور لفظ کی جگالی کرتے رہتے ہیں جو انہیں مغرب کے ذرائع ابلاغ سے ملتاہے۔اسلام پسندوں کی تضحیک وتوہین میں وہ اپنے مغربی آقاؤں سے بھی دو چار ہاتھ آگے ہیں۔
6۔وہ اسلام پسندوں کو ملا  اور اس طرح کے دیگر القابات سےنوازتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں تمام برائیوں کی جڑ دین دار علماء ہیں ،اگرچہ وہ خود شر مجسم ہی کیوں نہ ہو!!!
علماء اور اسلام پسندوں کی کردار کشی اور ان کے خلاف ان کا بے بنیاد زہریلا پراپیگنڈہ بلاوجہ  نہیں ہے۔در  حقیقت علماء ان کی سفلی خواہشات اور اسلام دشمنی کو واشگاف کرکے ان کے مکروہ عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ ہیں۔علمائے اسلام انبیاءعلیہ السلام  کے وارث ہونے کے ناطے سے عوام الناس کے لئے رہنما اور روشنی کا مینار ہیں جن سے عوام صحیح ہدایت کے راستے کا شعور حاصل کرتے  رہتے ہیں ۔لہذا یہ مغربی گماشتے مسلمانوں کو علماء سے بدظن کرکے نہ صرف  انہیں ان کی روشن اور درخشاں تاریخ سے جدا کرنا چاہتے ہیں۔بلکہ انہیں فکری انارکی اور نظریاتی انتشار میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کو انکے ماضی سے کاٹ کر اصل تشخص سے محروم کرکے مغربی رنگ میں رنگنا اور ان کی گروٹوں میں استعماری ثقافت کا مستقبل طوق کسنا مغرب کا اہم ترین  پروگرام ہے۔
7۔عاصمہ جہانگیر اوراس قبیل کے ملت دشمن عناصر مغرب کے اس مذموم پروگرام کی تکمیل کا ایک موثر ہتھیار ہیں۔خودپروہ زنگاری میں رہ کر عاصمہ جہانگیر جیسے عقلی پسماندگی اور اخلاقی دیوالیہ پن کے شکار افراد کو سامنے لا کرمسلمانوں کو تباہی کے اندھے غار میں دھکیلنے کے خطرناک منصوبہ کو عملی جامہ پہنارہے ہیں۔
8۔عاصمہ جہانگیر کے نام نہاد طبقانی"انسانی حقوق" میں والدین اور خاوند کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔وہ اپنے طرز عمل سے ان دونوں طبقات کو"انسانیت" سے خارج سمجھتی ہیں۔یہ محض الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے۔کیا عاصمہ جہانگیر اپنی "طویل" انسانی حقوق کی جدو جہد میں کوئی ایک مثال بھی  پیش  کرسکتی ہے جس میں اولاد کے ہاتھوں ذلیل ورسوا باپ کی عزت وناموس کے تحفظ کے لئے اس نے کبھی آواز بلند کی ہو۔یہی حال بیوی کے بالمقابل "خاوند" کے معاملے کا ہے۔
9۔عاصمہ جہانگیر کا انسانی حقوق کا تصور مغالطہ انگیز مفروضات پر مبنی ہے ان کے مخصوص تصور کے مطابق جب کبھی کوئی لڑکی والدین کے خلاف بغاوت کرے گی یا کوئی بیوی (خواہ وہ بدکار ہی کیوں نہ ہو) خاوند کی اطاعت سے باہر آنے کی کوشش کرے گی تو وہ بلاتحقیق"والد"اور"خاوند" کو ظالم ٹھہرا کر"لڑکی اور بیوی" کو مظلوموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے کوشاں ہوجائے گی۔وہ مرد وزن میں طبقاتی تقسیم کی غرض سے نام نہاد مساوات کا غیر مختم پراپیگنڈۃ کرتی رہتی ہیں۔لیکن ان کے نزدیک عورت ہرحال میں معصوم ہوتی ہے۔جس سے کسی برائی کا ظہور ہوہی نہیں سکتا۔البتہ مرد ہر اعتبار سے ظالم وفاسق ہے۔
اسکے نزدیک انسانی مساوات کا تصور صرف وہی قابل عمل اور پسندیدہ ہے جس سے عورت کی بغاوت کا رستہ کھلتا ہو۔اس سے بدترین فکری تنگ نظری اور جنسی طبقاتی تقسیم کا تصور بھی مشکل ہے۔
10۔جہاں کہیں اسلامی نظام حیات کی اساسی قدروں کو ٹھیس پہنچنے کا احتمال ہو یا مشرقی معاشرے کی حیا پروراور مقدس روایات کا جنازہ نکل رہا ہو۔وہاں ان کے انسانی حقوق کا پھریرا حرکت میں آجاتاہے۔اور وہ فوراً ان کی  پشت پناہی کے لئے اخلاقی ومالی طور پر کمر کس لیتی ہیں۔"انسانی حقوق" کے گھٹیا اشتہاریوں کے ذریعہ وہ متحدہ محاذ بنالیتے ہیں۔اس طرح ایسے مواقع کو نادر سمجھ کر زرائع ابلاغ میں یکطرفہ پروپیگنڈے کا طومار باندھ دیا جاتا ہے۔جس سے اصل مقصود قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور ٹیلی ویژن میں مسلسل بیان بازی کرکے مغرب کے Paymasters سے اپنی خدمات کا معاوضہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔کیونکہ ان کے نزدیک اسلامی اقدار کی پامالی سے زیادہ خوش کن امر اور کوئی نہیں ہے۔
11۔پاکستان کے انسانی حقوق کے نام نہادعلمبردار افراد کی فکری ودعملی (Diarchy) اور منتخب اخلاقیات(Selective Morality) کا بھونڈا پن ملاحظہ فرمایئے کہ:
 ایک دس سالہ غیر معروف عیسائی اقبال مسیح کے بارے میں مبینہ نا انصافی اور صائمہ جیسی نا پختہ ذہن لڑکی کی والدین کے خلاف بغاوت کے  معاملات کے سلسلہ میں اس قدر وسیع پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ عالمی پریس بھی اس کا نوٹس لینے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن اشتراکی رو س دس سال تک افغانستان میں ظلم وبربریت کا بازار گرم رکھتا ہے جس کے نتیجے میں 20 لاکھ افراد شہید ہوجاتے ہیں لیکن ان کی طرف سے ایک بھی حرف مذمت نوک زبان پر نہیں آتا۔کیونکہ ان کا فکری کعبہ مکہ مدینہ کی بجائے ماسکو رہا ہے۔سوویت یونین کے زوال کے بعد اب نیویارک کو وہ اپنا قبلہ وکعبہ سمجھتے ہیں۔
امریکہ ا پنے استعماری عزائم کی تکمیل کےلیے خلیج میں جنگ مسلط کرتاہے۔ہزاروں عورتوں اوربچوں کو بمباری کے ذریعے ہلاک کردیا جاتاہے۔ایران کا مسافر بردار طیارہ گرادیا جاتاہے لیکن یہ ان کے نزدیک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا۔چونکہ اس کا ار تکاب ان کا مربی امریکہ کرتاہے۔
12۔غور فرمائیے کہ عاصمہ جہانگیر،صائمہ وحیدکے غم میں تو گھلی جارہی ہے۔لیکن کشمیر میں لٹتی ہزاروں بیٹیوں کی چیخیں اسے سنائی نہیں دیتیں کیونکہ وہ امریکی اور ہندو سامراج کے خلاف آوازاٹھا کر ا پنے  آپ کو"رجعت پسند" کہلوانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
یہ واقعات کیا ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔کہ عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے نام پر کی جانے والی جدوجہد ایک صریح فراڈ اور ڈھونگ جو وہ عالمی صہیونی طاقتوں کی وفاداری ثابت کرکے ان کی(Paid) ایجنٹ اور نمک خوار بننے کےلئے کررہی ہے۔بقول شخصے:
انہیں کے مطلب کی کہہ رہاہوں،زبان میری ہے بات ان کی۔