علمائے اہل حدیث کے تحریری مناظرے
انگریزی اقتدار کی آخری نصف صدی برصغیر کی مذہبی دنیا بہت ہنگامہ خیز گزری ہے۔اس دور میں برصغیر میں مناظروں کا بہت زور تھا۔علمائے اہل حدیث نے سینکڑوں تقریری اور تحریری مناظرے کئے،علمائے اہل حدیث میں مولانا ابو الوفاثناءاللہ امرتسری،مولانا ابوالقاسم بنارسی،مولانا محمد ابراہیم میری سیالکوٹی،مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی،مولانا محمد بشیر سہسوانی اور مولانا محمد جونا گڑھی نے بے شمار تقریری تحریری مناظرے قادیانیوں،آریوں،مقلدین احناف،منکرین حدیث،عیسائیوں اور شیعوں سے کئے۔ذیل میں چند مشہور تحریری مناظروں کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
مولانا عبدالحئی بڈہانوی:۔
مولانا شاہ عبدالئی بڈہانوی مولانا شاہد عبدالقادر دہلوی اور مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی کے شاگرد تھے اور مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید دہلوی کے ہم درس تھے۔مولانا عبدالئی علوم اسلامیہ کے متبحر عالم تھے۔علامہ محسن بن یحییٰ بہاری فرماتے ہیں۔مولانا شاہ عبدالحئی حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کے خلفاء میں سے تھے،جملہ علوم الاسلامیہ بالخصوص فقہ میں ان کو کمال حاصل تھا۔8شعبان 1243ھ علاقہ سوات بنیر میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔
مناظرہ:۔
یہ رسالہ اس مناظرہ کی رواداد ہے۔جو مولانا عبدالحئی بڈہانوی اورمولانا رشید الدین کشمیری کے مابین"شرک وبدعت" کے موضوع پر ہوا تھا۔
مولانا سید عبدالجبار سہسوانی:۔
مولانا سید عبدالباری 1226ھ میں پیدا ہوئے،مولانا سید امیرحسن سہسوانی سے جملہ علوم اسلامیہ کی تعلیم حاصل کی اور حدیث کی سند شیخ الکل مولانا سید محمد نزیر حسین دہلوی سے حاصل کی۔فن مناظرہ میں ان کو ید طولیٰ حاصل تھا۔عیسائیوں اور آریوں سے آپ کے بہت مناظرے ہوئے۔ادیان باطلہ میں انہیں کمال حاصل تھا۔سرسید احمد خاں اور مولانا سید نواب صدیق حسن خاں آپ کے علم وفضل کے معترف تھے۔9ذی الحجہ 1303ھ،8 ستمبر 1886ء کو آپ نے انتقال کیا۔
فتح المبین علی اعداء الدین:۔
یہ کتاب اس مناظرہ کی روداد ہ جو مولانا سید عبدالباری سہسوانی اور ایک عیسائی پادری کے مابین ہواتھا۔عنوان مناظرہ مسئلہ توحید وتثلیث تھا۔
مولانا محمد بشیر سہسوانی:۔
مولانا محمد بشیر سہسوانی 1287ھ میں پیدا ہوئے۔مولانا سید امیر حسین سہسوانی ،علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری الیمانی اور شیخ الکل مولاناسید محمد نزیر حسین محدث دہلوی آپ کے اساتذہ میں شامل ہیں۔فراغت کے بعد بسلسلہ درس وتدریس آگرہ اور بھوپال میں مقیم رہے فاتحہ خلف الامام کی فرضیت پر آپ کی مشہور کتاب"برہان العجاب" ہے۔فن مناظرہ میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا۔اور مرزا قادیانی سے دہلی میں حیات مسیح پر آپ کا مناظرہ ہوا۔ربیع الاول 1326ھ کو آپ کا دہلی میں انتقال ہوا اور شیدی پورہ کے قبرستان میں حضرت مولانا سید محمد نزیر حسین دہلوی کے پہلو میں دفن ہوئے۔
الحق الصریح فی اثبات حیات السیح:۔
یہ کتاب اس مناظرے پر مشتمل ہے جو1309ھ میں بمقام دہلی،مولانا محمد بشیر سہسوانی اور مرزا غلام احمد قادیانی کے مابین"حیات مسیح" کےعنوان سے ہوا تھا۔
مولانا محمد سعید محدث بنارسی:۔
مولانا محمد سعید بنارسی کا تعلق کنجاہ ضلع گجرات کے ایک سکھ خاندان سے تھا۔مولاناشیخ عبیداللہ نو مسلم(صاحب تحفۃ الہند) کی تحریک سے اسلام قبول کیا۔مولانا حافظ عبداللہ غاذی پوری،اورشیخ الکل مولانا سید نذیر حسین دہلوی سے جملہ علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا۔فراغت کے بعد کچھ عرصہ مدرسہ احمدیہ آرہ میں تدریس فرمائی۔اس کے بعد بنارس کواپنا مسکن بنایا اور اپنی ساری زندگی درس وتدریس اور اشاعت اسلام میں صرف کردی،18رمضان 1322ھ(27نومبر 1904ء)کو بنارس میں انتقال کیا۔
کیفیت مناظرہ(جوناگڑھ):۔
یہ رسالہ اس مناظرہ کی مکمل رواداد ہے۔جو مولانا محمد سعید محدث بنارسی(اہل حدیث) اورمولوی ولی محمد(حنفی) بعنوان"وجوب تقلید شخصی" ہواتھا۔1302ھ میں یہ رسالہ شائع ہوا۔
کیفیت مناظرہ(مرشد آباد)
مولانا محمد سعید محدث بنارسی بھی اس مناظرہ میں موجود تھے۔آپ نے بھی اس مناظرہ کی روادادقلمبند کی یہ مناظرہ ایک ہفتہ تک جاری رہا اور مناظرہ کا یہ اثر ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اہل حدیث ہوگئے۔مناظرہ جمادی الاول 1305ھ کو شروع ہوا تھا۔
مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی:۔
مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی 1270ھ میں پٹنہ بہار میں پیدا ہوئے۔آپ شیخ الکل مولانا سیدمحمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔مولانا عبدالحق حقانی(مصنف تفسیر حقانی)دہلی میں آپ کے ہم درس تھے۔مولانا عبدالعزیز ایک متبحر عالم،مناظر اور محقق تھے۔مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرۃ النعمان کا جواب حسن البیان کے نام سےدیا۔ایسی لاجواب اور عمدہ کتاب اس سے پہلے نہیں لکھی گئی۔مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی نے 1336ھ میں انتقال کیا۔
الفوائد التحقیقة من الدرد التفریظیة:۔
یہ کتاب اس تحریری مناظرہ کی روداد ہے۔جو بعنوان "جواز بناء عیدگاہ"مابین مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اور مولانا محمد سعیدمحدث بنارسی ہواتھا اور یہ مناظرہ حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے حکم سے جاری نہ رہ سکا۔حضرت شیخ الکل مرحوم ومغفور نے اس پر اپنی ایک تقریظ تحریر فرمائی اور اپنا فیصلہ صادر فرمایا۔
رواداد مناظرہ مرشدآباد:۔
یہ کتاب اس مناظرہ کی رواداد ہے جو مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی(اہل حدیث) اور مولانا عبدالحق حقانی(حنفی) کے مابین جمادی الاول 1305ھ بمقام مرشد آباد(مغربی بنگال) ہواتھا۔ عنوان مناظرہ وجوب تقلید شخصی تھا۔ اور اس مناظرے کا یہ اثر ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اہل حدیث ہوئے تھے۔اس کتاب کے مرتب مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی تھے۔
مولانا محمد بن ابراہیم میمن جونا گڑھی:۔
مولانا محمد کا مولد ومسکن جوناگڑھ تھا۔آپ کے اساتذہ میں مولانا عبدالوہاب دہلوی،مولانا عبدالرحیم غزنوی اور مولانا محمد اسحاق منطقی جیسے فاضل اساتذہ شامل ہیں۔مولانا محمد بن ابراہیم ایک جید عالم دین تھے۔فقہ حنفی پر کامل عبور تھا۔تفسیر ابن کثیر اوراعلام الموقعین ابن القیم کااردو ترجمہ آپ کی شاہکار تصانیف ہیں۔آپ صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔اور تصانیف کی تعداد 150 کے قریب ہے ۔مولانا محمد بن ابراہیم 1890ء میں جونا گڑھ میں پیدا ہوئے اور 1941ء میں جونا گڑھ ہی میں انتقال کیا۔
مناظرہ محمدی:۔
یہ کتاب اس تحریری مناظرہ کی رواداد ہے جومولانا محمدبن ابراہیم(اہل حدیث) اور مولوی نظام الدین عرف ملتانی کے مابین بعنوان تقلید شخصی بمقام اوان ضلع ہوشیار پور(مشرقی پنجاب) 1342ھ میں ہواتھا۔
رحمت محمدی:۔
یہ کتاب ا س تحریری مناظرہ پر مشمتل ہے جو مولانا محمد بن ابراہیم میمن جوناگڑھی اور مولانا عبدالستار کے مابین بعنوان"شرکیہ الفاظ سے سانپ،کتے وغیرہ کے کاٹنے پر دم کرنا جائز ہے یا ناجائز" اس کتاب میں دونوں علمائے کرام کے دلائل درج ہیں۔
رکوع محمدی:۔
یہ کتاب اس مناظرہ کی رواداد ہے۔جو 14 ذی قعدہ 1334ھ بعنوان"رفع الیدین عندالرکوع وعند رفع الراس"مابین مولانا عبدالحکیم نصیر آبادی(اہلحدیث) اورمولانا احمدسعید دہلوی(حنفی دیوبندی) بمقام دہلی ہواتھا۔مولانا محمد بن ابراہیم میمن جوناگڑھی۔مولانا عبدالحکیم نصیر آبادی کے معاون تھے۔ اس لیے یہ کتاب مولانا مرحوم نے مرتب فرمائی اور انہی کے نام سے منسوب ہوئی۔
مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی:۔
مولانا محمد یوسف 17 ذی الحج 1300ھ کو شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے ہوش سنبھالا تو اہل سنت کامسلک اختیارکیا اور مولوی سید مشتاق علی دیوبندی سے علوم اسلامیہ کی تکمیل کی۔مولاناعبدالعزیزرحیم آبادی سے فن مناظرہ میں استفادہ کیا اور اہلحدیث مسلک اختیار کیا 1357ھ میں آپ نے انتقال کیا۔
پادری صاحب کا اظہارندامت:۔
یہ کتاب اس مناظرہ کی رواداد پر مشتمل ہے۔جو مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی اورپادری بشیر کے مابین 16۔17۔جون 1936ء بمقام الٰہ آباد(یو۔پی) بعنوان"نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوررہبانیت"پر ہوا تھا۔
مولاناابو القاسم سیف بنارسی:۔
مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی مولانا محمد سعیدبنارسی کے بڑے صاحبزادے تھے۔آپ کے اساتذہ میں مولانا سید عبدالکبیربہاری،مولانا سید نذیرحسین احمد جعفری،مولانامحمد سعید بنارسی،استادپنجاب مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی،مولاناسید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ،مولاناشمس الحق عظیم آبادی اورعلامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی کے نام ملتے ہیں۔مولاناابوالقاسم جملہ علوم اسلامیہ کے متبحر عالم،مناظر اورصاحب درس وتدریس تھے۔آپ کی تصنیفات حل مشکلات بخاری(4جلد) تنقید التقلید اور السیر الحثیث فی براءۃ اہل حدیث بہت مشہور ہیں۔1949ء میں آ پ کا بنارس میں انتقال ہوا۔
علاج در ماندہ در کیفیت مباحثہ ٹانڈہ:۔
یہ کتاب اس تحریری مناظرہ کی رواداد ہے۔جو مولانا محمد ابو القاسم سیف بنارسی اور مولوی فاخر حنفی ۔الٰہ آبادی کے مابین بمقام ٹانڈہ ضلع فیض آباد جمادی الاخری 1221ھ بعنوان عقائد شرکیہ ہوا تھا یہ مناظرہ مکمل نہیں ہواتھا شعروشاعری میں ہوکر رہ گیا۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ :۔
شیخ الاسلام مولانا ابو الوفاثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ برصغیر پاک وہند کے ایک ممتازعالم،خطیب،دانشور،مفتی،محقق،مصنف،مفسر اور مناظر تھے۔مولاناثناء اللہ جیسی باکمال ہستیاں گاہے بگائے پردہ عدم سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہیں۔بقول حکیم الامت علامہ اقبال ع۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
مولانا ثناء اللہ جیسی باکمال ہستی مجموعہ حسنات تھی۔آپ پوری ملت اسلامیہ کے مشترکہ سرمایہ تھے۔جو بیک وقت مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب دیتے تھے۔علامہ سید سلمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ"جب بھی کسی مخالف اسلام نے اسلام پر حملہ کیاتو سب سے پہلے جو شخص اس کے حملے کو روکنے کے لئے میدان میں آتا تھا وہ مولانا ثناء اللہ ہوتے"مولانا ثناءاللہ مرحوم نے مولانا احمد اللہ امرتسری،مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی،مولانا محمود الحسن دیو بندی،شیخ الکل مولانا سید محمد نزیر حسین محدث دہلوی اور مولانا احمد حسن کان پوری سے جملہ علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا۔آپ نے قرآن مجید کی 2 تفاسیر (اردو اور عربی میں) لکھیں۔15مارچ 1948ء کو سرگودھا میں انتقال کیا۔
مناظرہ الٰہ آباد:۔
یہ رسالہ اس مناظرہ کی رواداد پر مشتمل ہے۔جو مولانا ثناء اللہ امرتسری اور پادری عبدالحق کے مابین ہوا۔5 اگست 1934ء مسئلہ توحید وتثلیث کے عنوان سے ہواتھا۔اس مناظرہ میں ایک لطیفہ بھی ہوا۔جب مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔کہ عیسائی الوہیت مسیح کے قائل ہیں۔اس پر پادری عبدالحق نے کہا کہ"کون کمبخت الوہیت مسیح کا قائل ہے"
مباحثہ ناھن:۔
یہ رسالہ اس مناظرہ کی رواداد پر مشتمل ہے۔جو مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ اور پنڈت بھوجدت آریہ مسافر کے مابین بمقام ناھن بعنوان"قرآن مجید الہامی کتاب ہے یا وید"ہوا تھا۔
مناظرہ خورجہ:۔
یہ کتاب اس مناظرہ کی رواداد پر مشتمل ہے۔جو مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مہاشہ شانتی سراب اور بابورام چند ردہلوی کے مابین 19مارچ تا 21 مارچ 1918ءبمقام خورجہ ضلع بلند شہر ہوا تھا۔اس مناظرہ کا موضوع تھا"مذہب حق کی تعریف اور اس کے معیار پر بحث"
مناظرہ جبل پور:۔
یہ کتاب اس مناظرہ کی رواداد ہے جو مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ اور مہاشہ وھرم بیرجی(آگرہ) کے درمیان 31مئی تا 2جون 1915ء(جبل پور) ہوا تھا۔اس مناظرہ کا عنوان تھا۔"توحید فی الصفات اور روح ومادہ حادث ہے یا قدیم"
مناظرہ دیوریا:۔
یہ کتاب اس مناظرہ کی رواداد ہے جو شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری اور پنڈت داشنا نند عرف کرپارام جگر انومی کے مابین بتاریخ 16اگست تا 21 اگست 1903ء دیوریا میں ہوا تھا۔اس مناظرہ کا موضوع تھا کہ"وید اورقرآن میں کون الہامی" ہے۔
بحث تناسخ:۔
یہ رسالہ اس مناظرہ پرمشتمل ہے۔جو مولاناثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ اور ماسٹر آتما رام کے مابین ہواتھا۔اس مناظرہ میں تناسخ اور مادہ کے ابطال پر بحث ہوئی تھی اور روح کامسئلہ بھی زیر بحث آیاتھا۔
رکوب السفینة في مناظرة النگينة
یہ کتاب اس مناظرے کی رواداد پر مشتمل ہے۔جو شیخ الاسلام مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری اور ماسٹر آتما رام کے مابین 5جون 1904ء تا 14 جون 1904ء بمقام نگینہ ضلع بجنورہوا تھا۔اس مناظرہ میں برصغیر کے جید علمائے کرام(حنفی واہلحدیث ) موجود تھے۔
قادیانی مباحث دکن:۔
یہ رسالہ اس مناظرہ کی رواداد پر مشتمل ہے جو مولانا ثناء اللہ امرتسری اورقادیانی علماء کے مابین بمقام سکندر آباد حیدر آباد دکن 31 جنوری 1923ء کو ہواتھا۔
فتح ربانی ذر مباحثہ قادیانی:۔
یہ کتاب اس مناظرہ کی رواداد ہے جو شیخ الاسلام مولاناثناء اللہ امرتسری اور مولانا غلام رسول آف راجیکی(قادیانی) کے مابین بمقام امرتسر 29،30اپریل 1916ء بعنوان" حیات وفات مسیح اورصداقت مرزا"ہوا تھا۔
فاتح قادیان:۔
یہ تاریخی مناظرہ بمقام لدھیانہ (مشرقی پنجاب) 17تا21 اپریل 1912ء شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری اور منشی قائم علی قادیانی کے مابین بعنوان"مرزا کا اشتہار:مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ"ہواتھا۔یہ مناظرہ انعامی مباحثہ کے نام سے مشہور ہوا۔اور مولانا امرتسری نے تین صد روپے انعامی رقم جیتی اور ثالث نے مولانا امرتسری کو"فاتح قادیان" قرار دیا۔
برھان القرآن:۔
یہ کتاب اس مناظرہ کی رواداد ہے جو شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری اورمولوی احمد الدین(منکرحدیث) کے مابین 1923ء میں بعنوان"حجیت حدیث" ہوا تھا۔
حجیت حدیث اور اتباع رسول:،۔
یہ کتاب ا س مناظرہ کی رواداد ہے۔جو مولانا ثناء اللہ امرتسری وار مولوی احمد الدین (منکر حدیث) کے مابین ہواتھا۔مولوی احمد الدین کا کہنا تھا کہ نبی کو اصل مطاع(بماتحت حکم خدا) ماننا شرک ہے اور مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ نبی کو اصل مطاع بماتحت خدا ماننا ہمارا اور مسلمانان دنیا کا ایمان ہے۔
برھان الحدیث یا حسن الحدیث:۔
یہ کتاب اس تحریری مناظرہ پر مشتمل ہے جو مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولوی احمد الدین ( منکر حدیث ) کے مابین 1935ء"حجیت حدیث" کے عنوان سے ہواتھا۔
فیصلہ رفع الیدین:۔
یہ کتاب ا س مناظرہ کی رواداد ہے۔جو مولاناثناء اللہ امرتسری اور مولانا غلام محمد گھوٹوی(شیخ الجامعہ عباسیہ بہاوپور) کے مابین بعنوان" رفع الیدین عند الرکوع وعند رفع الراس" بمقام جلالپور پیروالہ(ضلع ملتان) بتاریخ 5 اکتوبر 1928ء کو ہوا۔اس مناظرہ کے مصنف دیوان محمد غوث صاھب تھے جو خود بڑے صاحب وعلم وفضل تھے انہوں نے فیصلہ مولانا امرتسری کے حق میں دیا۔
تنقید تقلید:۔
یہ کتاب اس تحریری مناظرہ کی روادادپر مشتمل ہے جو شیخ الاسلام مولاناثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا سید مرتضیٰ حسن دیوبندی کے مابین مسئلہ"وجوب تقلید شخصی" پر ہوا تھا۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی:۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی 1865ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔مولانا ابو عبداللہ عبیداللہ غلام حسن سیالکوٹی،مولاناحافظ عبدالمنان وزیرآبادی اور شیخ الکل مولانا سید محمدنزیر حسین دہلوی سے جملہ علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا۔آپ بہت بڑے عالم دین اور مفسر قرآن تھے۔فن مناظرہ میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا۔تصانیف میں قادیانیت کی تردید میں آپ کی کتاب"شہادۃ القرآن"(2 جلد) ایک لاجواب کتاب ہے۔اس کے علاوہ"سیرۃالمصطفیٰ" تاریخ اہل حدیث ،عصمت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،تفسیر سورۃ کہف اور تفسیر واضح البیان" آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔مولانا محمد ابراہیم نے 12 جنوری 1956ء کو انتقال کیا۔
کشف الحقائق:۔
یہ کتاب اس مناظرے کی رواداد ہے۔جو امام العصر مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ اور قادیانی علماء کے مابین جون 1923ء میں سیالکوٹ میں ہواتھا اور اس مناظرے میں موضوع"حیات مسیح اورمولوی ثناءاللہ کے ساتھ آخری فیصلہ "تھا۔
مناظرہ:۔
یہ کتاب اس تحریری مناظرہ کی رواداد ہے۔جو امام العصر مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی اور مولوی عبداللہ چکڑالوی (اہل قرآن) کے مابین ہواتھا۔مناظرہ کا عنوان تھا۔أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَمولانا سیالکوٹی کاموقف تھا کہ الرسول سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اورچکڑالوی کا دعویٰ تھا کہ الرسول سے مراد"قرآن مجید" ہے۔
فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ شیعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہلسنت کی نظر میں:۔
یہ رسالہ اس مناظرہ کی رواداد پر مشتمل ہے جو امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور شیعہ عالم مولوی ابو یوسف مبارک علی کے مابین بعنوان"اہل تشیع" اہلسنت کی نظر میں برے کیوں ہیں" ہوا تھا اوریہ رسالہ 1315ء میں آگرہ سے شائع ہوا۔