عذاب قبر حق ہے (صجیج بخاری(

حدیث رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لانا ایمانیات میں شامل ہے۔
عذاب القبر کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اور باطل فرقوں کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔اور جن فرقوں نے اس عقیدہ کا اظہار کیا۔انہیں اس مقصد کے لئے حدیث کا بھی انکار کرناپڑا۔حالانکہ احادیث صحیحہ کا انکار قرآن ہی کا انکار ہے۔قرآن وحدیث دونوں ہی ہیں۔اور ان میں سے کسی ایک انکار وحی کا انکار ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٣﴾...الاعراف
"جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو۔اور اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو۔مگرتم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔"(الاعراف:3)
معلوم ہو اکہ اتباع صرف اسی کی ہے۔جو رب کی طرف سے نازل کیاگیا۔اس کے سوا کسی اور کی اتباع ممنوع ہے۔مگر اس نصیحت کو کم ہی لوگ مانتے ہیں۔کیونکہ کوئی اپنے بڑوں کی اتباع وپیروی کرتاہے۔کوئی اپنے اماموں اور علماء کی اتباع کرتاہے اور کوئی اپنے نفس کی اتباع کرتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾...محمد
"اے ایمان والو!  اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی۔اور ان کی اطاعت سے منہ موڑ کر اپنے اعمال ضائع نہ کرو"
اللہ تعالیٰ یا رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں سے کسی ایک کی اطاعت سے انکار،اعمال کو ضائع(برباد) کرنے کے مترادف ہے۔اوراطاعت کے لحاظ سے دونوں اطاعتوں میں کوئی فرق نہیں  کیونکہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه... ٨٠﴾...النساء
"جس نے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی،اس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی"
اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی طرف سے کوئی بات نہ کہتے تھے بلکہ وہ جوفرماتے تھے وحی کی بناء پر فرمایا کرتے تھے:
﴿ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾...النجم
"وہ(نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ ان کا بولنا تو وحی کی بناء پر ہے کہ جو ان پر نازل کی جاتی ہے"
ایک مقام پر رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیثیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے:
﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾...النحل
"اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر ذکر(قرآن کریم) نازل فرمایا ہے تاکہ جو کچھ ان کے لئے نازل کیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی تشریح ووضاحت کرکے لوگوں کو بتادیں اور تاکہ لوگ غور فکر کریں"
اس آیت سے واضح ہوا کہ قرآن کریم کے احکامات اور فرامین کی نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے قول وفعل کے ذریعے  تشریح وتوضیح فرمانے پر مقرر کئے گئے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  چلتے پھرتے قرآن تھے۔جناب سعد بن ہشام رحمۃ اللہ علیہ   بیان کرتے ہیں کہ میں عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی اے ام المومنین!مجھے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اخلاق کے متعلق خبر دیجئے؟عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا:،خلقه القرأن یعنی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا خلق قرآن تھا۔کیا تم نے قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤﴾...القلم
"اور بے شک آپ اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں"
(مسنداحمد ج6 ص91،تفسیر ابن کثیر ج4 ص402)
اللہ تعالیٰ  نے قرآن کریم میں حکم دیا:(وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ)"نماز قائم کرو"اب نماز کس طرح قائم کی جائے ۔اس کا مکمل طریقہ جناب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عملا سکھایا یعنی استنجاء وضو،نماز کی اور اس کا مکمل طریقہ:

قیام،رکوع،سجود،قراءت،فرائض،نوافل،اذان،اقامت،پنچ وقتہ نمازیں غرض نماز کے ہر ہر مسئلہ کی تشریح ووضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے قولاوفعلاً فرمادی اور امت سے  ارشاد فرمایا:صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي "نماز اسی طرح پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو"(بخاری)

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(وَآتُوا الزَّكَاةَ) یعنی"اورزکاۃ ادا کرو" اب زکوۃ کیسے ادا کی جائے اور کتنی ادا کی جائے۔اس کا مکمل طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں بیان فرمادیا۔اسی طرح دین کے دوسرے معاملات کی وضاحت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے قول وعمل کے ذریعے کی ہے پس ثابت ہوا کہ دین قرآن وحدیث کانام ہے۔

اب اگر کوئی شخص اپنے کسی باطل عقیدہ کی وجہ سے کسی حدیث کا انکار کردے تو اس نے حدیث کاانکار کرکے گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کا انکار کردیا اورفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا انکار کرنے والا ان کا انکار کرنے والاہے۔اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کریم کی من مانی تشریح بیا ن کریں گے لہذا  اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تشریح وتفسیر کی ذمہ داری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ہی کے ذمے لگادی اور قیامت تک کسی بھی اس بات کا حق نہیں دیا کہ وہ قرآن کریم کی کوئی جدید تشریح بیان کرےاور جو لوگ خوارج،معتزلہ،جہمیہ،قدریہ،مرجیہ،پرویزی،عثمانی،مسعود یا منکرین حدیث وغیرہ کی کسی تشریح پر  راضی ہوچکے ہیں تو گویا انہوں نے قرآن کریم کا انکار کردیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کسی کو بھی قرآن کریم کی تشریح کاحق حاصل نہیں ہے۔ثابت ہوا کہ حدیث کا انکار کرنے والے نہ صرف منکرین حدیث ہیں بلکہ وہ منکرین قرآن ہی ہیں اور جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قر آن کریم کو تو مانتے ہیں اورحدیث کا انکار کرتے ہیں۔تو انہوں نے قرآن کریم کو بھی نہیں مانا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا﴿١٥٠﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٥١﴾ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴿١٥٢﴾...النساء
"جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں  اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر وایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں،وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے وہ سزا مقرر کررکھی ہے جو انہیں ذلیل وخوار کردینے والی ہوگی برخلاف اسکے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں،ان کو ہم ضرور ان کے اجرعطا کریں گے اور اللہ بڑا در گزر فرمانے والا اور رحم کرنے والاہے"
ثابت ہواکہ اللہ اور اس کے رسولوں کو ماننے کا مطلب یہی ہے کہ سب پر ایمان رکھا جائے اور ان میں سے کسی کے درمیان بھی تفریق نہ کی جائے یعنی اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں اللہ کو مانتاہوں لیکن رسولوں کاانکار کرتا ہوں۔تو یہ بھی ماننا نہ ہوا اور کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں بعض رسولوں کومانتاہوں اور بعض کا انکار کرتا ہوں تو یہ بھی کھلا کفر ہے۔
اسی طرح کسی کا یہ دعویٰ کہ میں قرآن کریم کو تو مانتاہوں لیکن حدیث رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نہیں مانتا تو واضح رہے کہ ایسا شخص قرآن کریم کا بھی انکاری ہے کیونکہ اس نے قرآن کریم کے حکم وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ "اور رسول کی اطاعت کرو"کا انکارکردیا ہے۔
بعض لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کریم کی فلاں آیت سے ٹکراتی ہے اس کامضمون قرآن کریم کے فلاں مضمون کے خلاف ہے تو یہ لوگ بھی اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اور حدیث کو قرآن کریم سے ٹکرانے والے فرق باطلہ ہی تھے اور انہوں ہی نے یہ اصول  وضع کیے تھے واضح رہے  یہ باطل عقیدہ بھی شیعہ کاہے۔چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی میں ہے:۔
"فماوافق كتاب الله فخذوه، وما خالف كتاب الله فردوه "
"پس جو(حدیث) کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے لے لو اور جو کتاب اللہ کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دو"
اب اگر کوئی یہ اصول بیان کرے تو سمجھ لیں کہ وہ شیعہ مذہب کی تبلیغ کررہا ہے کیا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ   اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ   وغیرہ دین سے اس قدر ناواقف تھے کہ انہوں نے قرآن کریم کے خلاف آئی ہوئی احادیث کواپنی اپنی کتابوں میں جگہ دی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ احادیث قرآن کریم کے خلاف نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم کی توضیح وتفسیر بیان کرتی ہیں۔مثال کے طور پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ ...١٧٣﴾...البقرة "تم پرحرام کیا گیا ہے مردہ۔۔۔"(البقرہ:173)
قرآن کی اس آیت سے واضح ہواکہ مردہ(یعنی جو حلال جانور اپنی طبعی موت مرجائے)حرام ہے۔ اور اب کسی بھی مردہ کوکھانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ حرام ہے۔ لیکن حدیث میں ہے:
"هوالطهور مَاؤُهُ الْحل ميتَته "
"سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا"مردہ" (مچھلی)حلال  ہے"
(رواہ مالک والترمذی وابوداود والنسائی وابن ماجہ والدارمی ،مشکاۃ الصابیح وسندہ صحیح)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مچھلی اگرچہ مردہ ہے۔لیکن اس کاکھانا حلال ہے اگرچہ بظاہر حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے۔ لیکن جب قرآن وحدیث میں اختلاف ہوگا تو ان میں تطبیق دی جائے گی یعنی اگرچہ ہرمردہ حرام ہے لیکن مچھلی مردہ ہونے کے باجود بھی حلال ہے۔کیونکہ یہ ایک استثنائی صورت ہے۔اور دیکھا گیا ہے کہ منکریں عذاب قبر اور منکرین حدیث بھی اس"مردہ" کے مزے لے کر کھاتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث پر سچے دل سے ایمان رکھا جائے اور ان پر شک وشبہ نہ کیا جائے۔
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿١٥﴾...الحجرات
"حقیقت میں تو وہ مومن ہے جو اللہ اور اس کے  رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔وہی سچے لوگ ہیں"
احادیث کے متعلق اگرذرا بھی ایمان متزلزل ہوجائے تو گویا اس شخص کا پورا اسلام ہی مشکوک ہوجائے گا۔اور جولوگ انکار حدیث کی تبلیغ کررہے ہیں تو وہ اس سلسلہ میں یہودونصاریٰ اوردشمنان اسلام کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے ہیں یا وہ اسلام کی پابندیوں سے جان چھڑا کر یہ چاہتے ہیں کہ مردم شماری میں ان کا نام مسلمانوں کی لسٹ میں بھی رہے جبکہ دوسری طرف وہ اسلام کی پابندیوں سے بھی آزاد رہیں۔
اختلافات کےحل کا قرآنی اصول:۔
جب کسی مسئلہ میں لوگوں کے درمیان اختلاف ونزاع ہوجائے اور لوگ اس مسئلہ کے متعلق مختلف آراء ونظریات پرکھتے ہوں تو ایسی صورت میں اس کے حل کی کیا صورت ہوگی؟اس کا جواب قرآن کریم نے اس طرح دیا ہ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴿٥٩﴾...النساء
" اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔"
معلوم ہوا کہ جب  بھی کسی مسئلہ میں اہل اسلام کے درمیان اختلا ف ہوگا تو اس کے حل کی صورت یہ ہوگی کہ مسئلے کا حل قرآن وحدیث سے دریافت کیا جائے گا۔یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قرآن وحدیث کو حکم  قرار دے دیا ہے۔اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان کا دعوے دار ہے تو وہ اختلافی مسائل کا حل قرآن وحدیث میں ہی تلاش کرے گا بصورت دیگر ایسے شخص کا دعویٰ ایمان ہی مشکوک ہے۔لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ مختلف فرقے اختلافی مسئلہ کا حل قرآن وحدیث کے بجائے اپنے منظور نظر شخصیات سے کرتے ہیں اور جو حل انھیں اپنے امام،اپنے قائد،اور اپنے امیر جماعت سے مل جائے تو  وہ اسے قبول کرتے ہیں اور قرآن وحدیث کی  طرف نظر  اٹھا کربھی نہیں دیکھتے حنفی اپنے امام کی بات کو حرف آخر سمجھتا ہے اور احادیث صحیحہ کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں۔اسی طرح مالکی اپنے امام،شافعی اپنے امام،حنبلی رحمۃ اللہ علیہ   اپنے امام،خوارج،معتزلہ ،جہمیہ ،مرجیہ،پرویزی،عثمانی،مسعودی وغیرہ اپنے اپنے  بانی وامام کی بات کو حجت اورحرف  آخر سمجھتے ہیں اور وہ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ کے بجائے" فَرُ‌دُّوهُ إِلَى الامام"یا"  إِلَى امیرالجماعة" پر عمل پیرا ہیں۔ایک حنفی کے سامنے جب احادیث صحیحہ آتی ہیں تو وہ ان احادیث صحیحہ پر عمل پیرا ہونے کےلیے اس لئے تیار نہیں ہوتا کہ اس نے اپنے امام کی تقلید اختیار کررکھی ہے اور اسی تقلید نے اسے سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر عمل کرنے سے روک رکھا ہے۔اسی طرح ایک عثمانی کے سامنے جب عذاب قبر کی صحیح احادیث  پیش کی جاتی ہیں تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان ارشادات کو ڈاکٹر عثمانی کے کہنے پر رد کردیتاہے گویا ڈاکٹر عثمانی کی شخصیت اس کے لئے حجت ودلیل بن چکی ہے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ان کی نگاہ میں اپنا مقام کھو چکی ہے۔اس طرز عمل کو اب کیا نام دیا جائے اور کس کفر یاشرک سے اسے تعبیر کیاجائے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا انکار کرکے کوئی شخص مومن رہ سکتاہے؟ارشادربانی ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴿٦٥﴾...النساء
" سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں"
معلوم ہوا کہ نبی کو اختلافی مسائل میں حکم نہ ماننے والا  ایمان سے خارج ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ مرتبہ مسلمان یا توحیدی کہے۔ایک اور مقام پر ارشادہے:
﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿١١٥﴾...النساء
" جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے"
قرآن وحدیث  راہ ہدایت ہے اور راہ ہدایت پر چلنا ہر مسلم پر لازم ہے لیکن جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد یعنی حدیث کے معلوم ہوجانے کے بعد بھی اس کو ترک کردیتاہے تو وہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت کررہا ہے اور مومنین یعنی  صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے راستے کو چھوڑ کرکسی دوسری راہ پر چل پڑا ہے۔تو اس کا انجام ظاہر ہے یعنی جہنم کے سوا اس کا اور کونسا ٹھکانہ ہوسکتا ہے چنانچہ ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾ ...النور
"پس جو لوگ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو(کسی ناگہانی) آفت یا دردناک عذاب کے آجانے سے ڈرنا چاہیے"(النور:63)
اس مضمون کی دیگر آیات بھی موجود ہیں لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں:
عقیدہ عذابُ القبر:۔
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  پر سچے دل سے ایمان لانے کے بعد جو شخص بھی عذاب قبر کے بارے میں احادیث کا مطالعہ کرے گا تو وہ اس حقیقت کو پالے گا کہ قبر کا عذاب ایک حقیقت ہے عذاب القبر کا تعلق چونکہ مشاہدے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے،اس لئے کہ ہم اس کا ادراک نہیں کرسکتے۔بس یوں سمجھ لیں کہ جیسے،فرشتوں،جنات،جنت وجہنم کو ہم اللہ اوررسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کہنے سے  تسلیم کرتے ہیں،اسی طرح عذاب القبر کو بھی ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ عذاب القر کے متعلق بے شمار احادیث صحیحہ موجودہیں۔جو درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہیں اور ان احادیث کاانکار گویا قرآن کریم کے انکار کے مترادف ہے۔ان احادیث میں چند احادیث کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:
1۔جناب براء بن عازب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آیت:
﴿يُثَبِّتُ اللَّه الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ... ٢٧﴾...ابراهيم
"اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی"(ابراہیم:27)
کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت عذاب القبر کے بارے میں نازل فرمائی(قبر میں ) میت سے کہا جاتاہے کہ تیرا رب کون ہے؟پس وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔پس یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ"اللہ تعالیٰ ثابت وقائم رکھتا ہے ایمان والوں کو سچی بات کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی"(صحیح مسلم) نیز ملاحظہ فرمائیں:صحیح بخاری،کتاب الجنائز وکتاب التفسیر ومشکاۃ المصابیح کتاب الایمان،باب اثبات عذاب القبر۔
اس حدیث سے واضح ہوا کہ عذاب القبر کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے اور سورہ ابراہیم علیہ السلام   کی آیت نمبر27 عذاب القبر ہی کے بارے میں نازل فرمائی۔اورقبر میں میت کو اٹھا کر بٹھایا جاتاہے۔(جیسا کہ صحیح بخاری کی اس حدیث میں یہ بات موجود ہے) اور اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں قبر کا سوال وجواب حق ہے اور اہل اسلام میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔سوال وجواب کے وقت روح کو بھی قبر کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور قبر کے مسئلے کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے اس لئے اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرناگمراہی اور جہالت ہے۔کیونکہ میت کی دنیاوی زندگی ختم ہوچکی ہے اور اب وہ آخرت کے مراحل سے گزررہی ہے اور اس عنوان پر آگے کچھ مزید تفصیل بیان کی جائے گی۔
منکرین عذاب القبر احادیث کے انکار میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ وہ حدیث پر تنقیدکرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین کا بھی ارتکاب کرجاتے ہیں اور یہ تک نہیں سمجھتے کہ ان کے قلم نے کیا لکھ مارا ہے اس کی ہم بہت سی مثالیں بیان کرتے ہیں،لیکن یہ مختصر کتابچہ اس کا متحمل نہیں ہے لہذا یہاں ایک  ہی مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عثمانی صاحب کا ایک مقلد(ابو انورجدون) اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"اسی طرح یہ فرقہ پرست اور قبر پرست قرآن کی مندرجہ زیل آیت سے ارضی قبر کی زندگی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ"اللہ تعالیٰ ایمانداروں کودنیا میں بھی ثابت قدم رکھے گا اور آخرت میں بھی۔"یعنی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ایمانداروں کی مدد کرے گا۔
چونکہ اس آیت کا ذکر بخاری کی حدیث میں عذاب القبر کے ساتھ کیا گیا ہے اس لئے بعض جاہل اور گمراہ بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے عقیدے(مردہ قبرمیں زندہ ہوجاتاہے )(حالانکہ کسی کابھی یہ عقیدہ نہیں۔راقم الحروف) کا ثبوت قرآن کی یہ آیت ہے"(دعوت قرآنی اور یہ  فرقہ پرستی ص67)
یہ ہے ابو انور جدون کی"دعوت قرآن"اور ان کا"ایمان خالص" کہ اس آیت کے متعلق خود نبی کریم نے بیان فرمایا ہے کے اس کاتعلق عذاب القبر کے ساتھ ہے لیکن موصوف نے یہ کہنے والے پرفرقہ پرست،قبر پرست،جاھل،گمراہ ہونے کا فتویٰ لگادیا ہے ظاہر ہے کہ احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس طرح توہین کرنے والا مومن کہلانے کاحقدار نہیں ہوسکتا
2۔حضرت انس بن مالک  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشا د فرمایا:
"بے شک بندہ جب قبر میں رکھاجاتاہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اوروہ بھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہاہوتا ہے۔کہ اس کے پاس دو  فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق کیا کہتا ہے پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں اس سے کہا جاتا ہے کہ تو ا پنا ٹھکانہ جہنم سے دیکھ کہ جسے اب  اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے ۔نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ  پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتاہے۔"
جناب قتادہ رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا کہ ہم سے ذکرکیاگیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کردی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبزو شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔پ پھر قتادہ رحمۃ اللہ علیہ   نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بقیہ حدیث بیان کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
'اور منافق یا کافر سے کہاجاتاہے کہ تو اس شخص(محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے ۔پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا میں وہی کہتا ہوں کہ جو لوگ کہتے تھے پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا اور اس سے راہنمائی حاصل کی،یہ کہہ کر اسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کے تمام جانور سنتے ہیں"صحیح بخاری،کتاب الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر۔صحیح مسلم ایضاً(قتادہ رحمۃ اللہ علیہ   کا قول صرف صحیح مسلم میں ہے)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کو جب قبر میں رکھاجاتاہے تو اسے قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتاہے اور اس سے سوال وجواب ہوتا ہے۔مومن کو قبر میں راحت  وآرام ملتا ہے۔جبکہ منافق وکافر کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ میت،دفن کرکے واپس جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آوازسنتا ہے۔اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میت یہ جان لے کہ جس اہل وعیال کے لئے اس نے آخرت کو فراموش کررکھا تھا،آج وہ اسے تنہا چھوڑ کرجارہے اور قبر میں ایمان اور نیک اعمال کے سوا کوئی چیز اسے نجات نہیں دلا سکتی۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس حصہ کو خلاف قرآن قرار دے دیا ہے۔حالانکہ یہ حدیث خلاف قرآن نہیں ہے بلکہ ایک استثنائی صورت ہے۔جیسا کہ  پیچھے ہم نے"مردار" کی مثال بیان کی تھی۔عثمانی فرقہ کے بانی ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی صاحب نے اس حدیث کو صحیح مانا ہے۔لیکن اس کی تاویل کی ہے ان کا  پہلے یہ کہناتھا کہ اس حدیث میں حقیقت نہیں بلکہ مجاز بیان کیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ جوتیوں کی آوازسنی جاسکتی ہے کہ میت کے پاس فرشتے آجاتے ہیں اس کے بعد انہوں نے اس حدیث کی دوسری تاویل یہ  پیش کی کہ میت فرشتوں کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے اور اس بات کوثابت کرنے کے لئے انہوں نے جمع اورتثنیہ کی بحث بھی کی ہے۔لیکن(اول) تو اس حدیث کے سیا ق وسباق نے ان کا ساتھ نہیں دیا(دوم) صحیح مسلم کی مختصر حدیث اس باطل تاویل کا بھانڈا پھوڑ دیتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے:جناب انس بن مالک  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا:
"إِنَّ الْمَيِّت إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالهِم إِذَا انْصَرَفُوا"
"بے شک جب میت کو قبر میں رکھا جاتا تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے جبکہ وہ (اسے دفناکر) واپس لوٹتے ہیں"(صحیح مسلم کتاب الجنۃ)
اس حدیث میں فرشتوں کے آنے کا ذکر ہی نہیں ہے اور صرف دفن کرنے اور والپس لوٹنے والوں کا ذکر ہے۔لہذا اس حدیث سے وہ مفروضہ باطل ہوجاتاہے۔
3۔جناب زید بن ثابت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک مرتبہ بنو نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا خچر بدکا اورقریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو گرادے ناگہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد  فرمایا کہ ان قبر والوں کو کوئی جانتاہے۔ایک شخص نے کہا میں (جانتاہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کہ یہ کب مرے ہیں؟وہ بولا شرک کے زمانے میں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
إِنَّ هَذِهِ الأمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلا أَنْ لا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ
"یہ میت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے پس اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ تم(مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑدو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی قبر کاعذاب سنادے جس  طرح میں سنتا ہوں"
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ہم نے کہا کہ ہم جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہو۔ہم نے کہا ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ظاہر اور باطن  فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ہم نے کہا ہم ظاہری اورباطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:تم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو ۔ہم نے کہا ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی  پناہ چاہتے ہیں۔(صحیح مسلم کتاب الجنۃ ومشکاۃ المصابیح ومسنداحمد 190/5 ومصنف ابن ابی شیبہ 373/3) اس حدیث کو جناب زید بن ثابت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے جناب ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بیان کیا ہے۔اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ (مسند احمد 296/3)حضرت ام مبشر رضی اللہ تعالیٰ عنہا  (مسند احمد 362/6) مصنف ابن ابی شیبہ 373/3) صحیح ابن حبان الصحیحہ 430/3) اور جناب انس بن مالک  رضی اللہ تعالیٰ عنہ (مسنداحمد 201۔103وغیرہ) بھی بیان کرتے ہیں اور جناب انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے متعدد روایات میں یہ واقعہ مروی ہے۔
اس حدیث سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کو اس ارضی قبر میں عذاب ہوتاہے اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ تمناتھی کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عذاب قبر کوسنتے ہیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت بھی عذاب قبر کو سنے لیکن  پھر اس خوف سے کہ لوگ عذاب قبر کی شدت کو سن کرمردے ہی دفن کرنا چھوڑ دیں گے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  یہ دعا نہ فرمائی۔ظاہرہے کہ مردے اسی ارضی قبر ہی میں دفن ہوتے ہیں،اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس خواہش کا اظہار فرمایا۔
4۔عائشہ صدیقہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے ر وایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی ۔اس نے قبرکے عذاب کا ذکر کیا اور عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔پس عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے عذاب قبر کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا:
نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ "جی ہاں قبر کا عذاب حق ہے"
حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے ہمیشہ دیکھا کہ رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز نہیں چھوڑی مگر اس میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگی(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر)
اورصحیح بخاری کی دوسری روایت میں  عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں کہ مدینہ کی دو بوڑھی عورتیں ا ن کے پاس آئیں اور کہنے لگیں:۔
"إِنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ"
"بے شک قبر والے اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں"
پس میں نے ان عورتوں کو جھوٹا قراردے دیا اور مجھے یہ بات اچھی نہ لگی کہ میں ان کی بات کو مانوں۔پھر وہ عورتیں چلی گئیں اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس  تشریف لائے۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا کہ دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئی تھیں۔اور میں نے پورا واقعہ بیا ن کیا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"صَدَقَتَا إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ كُلُّهَا"
"ان دونوں نے سچ کہا بے شک قبر والوں کو(ان کی قبروں میں ) عذاب ہوتاہے جسے تمام چوپائے سنتے ہیں۔"
پس اس (واقعہ) کے بعد میں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کوئی نماز نہیں پڑھی مگر اس میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگی۔(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من عذاب القبر)
اس حدیث سے بھی واضح طور پر ثابت ہوا کہ مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتاہے۔اور اس عذاب کو تمام چوپائے سنتے ہیں اور اس سلسلے میں دیگر احادیث بھی موجود ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیا ن کرتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  دو قبروں  پر سے گزرے۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ان قبر والوں کو عذاب ہورہا ہے اور انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتاتھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھجور کی ترٹہنی لی اور اسے درمیان میں دو حصوں میں  تقسیم کردیا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو ان دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  آپ نے ایسا کیوں کیا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوجائیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں  تخفیف کردے گا"(بخاری ومسلم۔مشکاۃ المصابیح باب آداب الخلاء)
اس حدیث کے بارے میں صحیح مسلم میں حضرت جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب قبر میں کمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعا اور شفاعت کے ذریعے ہوئی تھی۔(صحیح مسلم 418/2)
بخاری کی ایک دوسری رویت میں ہے کہ لوگ ان گناہوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بڑے گناہ ہیں۔ان احادیث سےکئی باتیں معلوم ہوئیں:
1۔میت کو عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے اور ان احادیث میں یہی عام قانون بیان ہوا ہے۔منکرین عذاب القبر چند استثنائی صورتین ذکر کرکے جو عذاب القبر کا انکار کرتے ہیں تو یہ بات بالکل غلط ہے۔کیونکہ اس طرح منکریں عذاب القبر اپنی عقل  پر  تو ایمان رکھتے ہیں اور قرآن وحدیث کا انکار کرتے ہیں اور عملاً وہ اپنے نفس کی  پوجا کررہے ہیں۔
2۔عذاب قبر میت کو ہوتاہے زندہ کو نہیں۔اور میت کا مطلب ہے :مردہ لاش کہ جس میں روح موجود نہیں ہوتی۔اور احادیث میں قبر کے عذاب کا ذکر میت ہی کے متعلق ذکر ہواہے لیکن منکر ین عذاب القبر کا خیال ہے کہ بغیر روح کے عذاب کیا معنی رکھتاہے گویامنکرین عذاب القبر احادیث پر نہیں بلکہ اپنی عقل نارسا پر ایمان رکھتے ہیں۔
3۔احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ میت عذاب کی وجہ سے چیختی چلاتی ہے اور اس کے چیختے چلانے کی آواز جن وانسان کے علاوہ قریب کی ساری مخلوق سنتی ہے اور جن وانسان چونکہ مکلف مخلوق ہیں،اس لئے ان کو عذاب کا سنانا،مصلحت کے خلاف ہے ۔البتہ کبھی کبھی عذاب قبرکی کوئی جھلک اللہ تعالیٰ لوگوں کو دکھابھی دیتا ہے۔کہ جس کی گواہی اخبارات اکثردیتے رہتے ہیں۔
4۔جناب ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
"جب میت کو چار  پائی پر  رکھ دیا جاتاہے۔اور لوگ اس کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ میت نیک ہوتی ہے۔تو کہتی ہے کہ مجھے آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہیں ہوتی تو اپنے  گھر والوں سے کہتی ہے۔ہائے بربادی مجھے کہاں لئے جارہے ہو۔اس میت کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے اور اگر وہ سن لے تو بے ہوش ہوجائے۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول المیت وھو علی الجنازۃ مسنداحمد 48،51/3)
یہ حدیث صحیح بخاری میں تین مقامات پر کتاب الجنائز میں موجود ہے۔اور جناب ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
"جب نیک آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھاجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ  "مجھے آگے لے چلو،مجھے آگے لے چلو"اور جب برے آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ہائے بربادی وافسوس! مجھے تم کہا ں لے جارہے ہو"(سنن نسائی کتاب الجنائز باب السرعۃ بالجنازۃ وصحیح ابن حبان 764 ومسند احمد 500/2)
اور البیہقی کی روایت میں مومن اور کافر کے الفاظ آئے ہیں۔(السنن الکبریٰ ج4 ص21)
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوگیاکہ عذاب میت کو ہوتاہے۔اور یہ بھی ثابت ہواکہ میت گفتگو کرتی ہے اور عذاب کے آثار دیکھ کر چیختی چلاتی ہے جسے انسان کے علاوہ ہرچیز سنتی ہے چونکہ انسان وجنات کو عذاب سنانا مصلحت کے خلاف ہے۔کیونکہ ان سے اس عذاب کو پردہ غیب میں رکھا گیا ہے۔لہذا یہ مکلف مخلوق اس عذاب کو نہیں سن سکتی۔
قبر کاتعلق آخرت کے ساتھ ہے:۔
جب عذاب القبر کی احادیث ذکر کی جاتی ہیں تو منکرین عذاب القبر ان احادیث پر ایمان لانے کی بجائے الٹا ان پر عقلی قسم کے اعتراضات شروع کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عذاب القبر کی احادیث کو مان لیا جائے تو اسطرح پھر ہمیں تیسری زندگی کا قائل ہونا پڑے گا۔اور اسکا مطلب یہ ہوگا کہ قبر کا مردہ اب زندہ ہوچکا ہے۔دیکھتا ہے سنتا ہے اور یہ بات قرآن کریم کے خلاف ہے حالانکہ اگر یہ عقل کے پجاری قرآن وحدیث پر ایمان لے آتے تو انہیں قرآن وحدیث میں یہ بات ملتی کہ قبر کا تعلق د نیا یا دنیاوی زندگی سے نہیں بلکہ آخرت کے ساتھ ہے اور دنیا سے اب ان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔مردہ کو کوئی شخص بھی قبر میں زندہ نہیں مانتا۔یعنی دنیاوی زندگی کاکوئی بھی قائل نہیں ہے اور اگر کسی نے ان کی زندگی کا ذکر کیا ہے تو اسے مراد"برزخی زندگی" ہے۔
1۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ ﴿٢٧﴾...ابراهيم
"ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے"
نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آیت کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ عذاب القبر کے متعلق نازل ہوئی(بخاری)
اس آیت میں دو مقامات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی دنیا اور آخرت جہاں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ ثابت قدم اورمضبوط رکھتاہے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضاحت فرمادی کہ قبر کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے کیونکہ آیت عذاب القبر کےمتعلق نازل ہوئی۔ایک اور حدیث میں جناب عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے ،وہ بیان کرتے ہیں:
كان النبي صلي الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت قال : « استغفروا لأخيكم ، وسلوا الله التثبيت ، هو الآن يسأل
(اخرجہ ابوداود فی الجنائز باب الاستغفار عندالقبر للمیت فی وقت الانصراف :3221 والحاکم فی المستدرک 370/1 وقال ھذا حدیث صحیح الاسناد و قال الذھبی صحیح ورواہ ابن النی فی عمل الیوم والیلۃ باب ما یقول اذا فرغ من دفن المیت رقم 585ومشکاۃ المصابیح باب اثبات عذاب القبر)
"نبی کریم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوتے ہی فرماتے کہ اپنے  بھائی کے لئے استغفار کرو۔اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو،اس لئے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جارہاہے۔"
یہ حدیث بھی مندرجہ ذیل بالا آیت کی پوری طرح وضاحت اور تشریح کرتی ہے:
2۔عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا و الآخرة (بخاری ومسلم مشکاۃ ص527)
"ہر نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو مرض موت میں دنیا وآخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے"
یعنی اگروہ چاہے تو مزید مدت دنیا میں قیام کرلے اور چاہے تو آخرت کے قیام کو اختیار کرلے۔اس حدیث میں بھی موت کے بعد کی زندگی کو آخرت قرار دیا گیا ہے۔
3۔جناب عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
إن القبر أول منزل من منازل الآخرة "قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے"
(الترمذی،ابن ماجہ،مشکاۃ المصابیح ج1ص48وقال الشیخ الالبانی سندہ حسن)
4۔عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے مرض الموت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں:
فجمع الله بين ريقي وريقه فى آخِرِ يَوْمٍ مِنْ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الآخِرَةِ
"پس اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لعاب کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن جمع فرمادیا"(صحیح بخاری ج2 ص640)
5۔جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ایک بیوی صفیہ بنت ابی عبید  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   جواپنے کھیتوں میں رہاکرتی تھی۔انہوں نے موت کو قریب دیکھ کر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو  پیغام بھیجا:
إنى لفى آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الآخِرَةِ (سنن نسائی)
"میں دنیا کے آخری دن میں اور آخرت کے پہلے دن میں ہوں"یعنی قریب الموت ہوں۔
قرآن وحدیث میں مرنے کے بعد کےلیے اور قیامت کے لئے آخرت کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے البتہ بعض اہل علم نے مرنے کے بعد سے قیامت تک کے احوال کے لئے برزخی زندگی اور عالم برزخ کی اصلاح ایجاد کی ہے۔
برزخ کیا ہے"
لغت میں برزخ کے معنی آڑ،  پردہ،حاجز اور فاصل کے ہیں۔دو حالتوں یا دو چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو،اسے برزخ کہتے ہیں۔قرآن کریم میں برزخ کا لفظ تین مرتبہ آیاہے:
﴿مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ﴿٢٠﴾...الرحمن
"اسی نے دودریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں ۔دونوں میں سے ایک آڑ ہے کہ(اس سے) وہ تجاوز نہیں کرسکتے"
﴿وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا ﴿٥٣﴾ ...الفرقان
" ور وہی ہے جس نے دو سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری کڑوا، اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کردی "
ان آیات سے معلوم ہوا کہ برزخ دو دریاؤں کے درمیان ایک آڑ کانام ہے۔
ایک  اور مقام پر ارشاد ہے:(المومنون:99۔100)
﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ﴿٩٩﴾ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚكَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴿١٠٠﴾...المؤمنون
" یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے (99) کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک "
اس آیت میں برزخ کو دنیا اور آخرت کے درمیان ایک آڑ قرار  دیا گیا ہے یعنی مرنے والوں پر اب جو حالات قیامت تک گزریں گے انہیں دیکھنا اور جاننا ہمارے بس سے باہر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے درمیان ایک پرد ہ حائل کردیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ میت پر قبر میں جو حالات گزرتے ہیں ہم ان کا مشاہدہ نہیں کرسکتے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عذاب قبر کی جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔ان پر ہمارا ایمان ہے۔
قبر کسے کہتے ہیں؟ارضی قبر کے علاوہ کسی دوسری قبر کا وجود ہے؟
قبر جس کی جمع قبور آتی ہے۔لغات کی کتابوں میں اس کا مطلب یوں لکھا ہے:
"وہ گڑھا ہے جس میں مردے کو دفن کرتے ہیں"(علمی اردو لغت جامع،ص1067)
"دفن کرنے کی جگہ"(فیروزاللغات اردو/عربی ص550)
قبر کا ذکر قرآن کریم میں آٹھ مرتبہ آیاہے اور ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر معروف قبر کو کہتے ہیں جو زمین میں بنائی جاتی ہے اور اس قبر کے علاوہ قرآن کے علاوہ قرآن وحدیث میں کسی اور مقام کو قبر نہیں کہاگیا ہے ،چنانچہ اس سلسلہ کے ایک دو مقامات ملاحظہ فرمائیں:
﴿وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ ... ٨٤﴾...التوبة
"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان(منافقین) میں سے کسی کی قبر پر کھڑے نہ ہوں"
﴿وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ﴿٢٢﴾ ....فاطر
"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کو نہیں سناسکتے جو قبروں میں (مدفون) ہیں"
ان مقامات کے علاوہ سورۃالحج :17 سورۃ الانفطار:4۔سورۃ العادیات:9،سورۃ الممتحنہ:13،سورہ عبس:21،22،اور سورہ التکاثر:102 میں بھی قبر کا ذکر آیا ہے۔
قرآن کریم میں قبر کے لئے اجداث کا لفظ بھی آیا ہے جس کی واحد حدیث ہے:
﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ ﴿٥١﴾...يس
"اور صور میں پھونکا جائے گا پس یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے قبروں سے نکل پڑیں گے"
اس آیت کے علاوہ سورۃ القمر آیت نمبر7 اور سورۃ المعارج آیت نمبر 43 میں بھی اجداث کا لفظ آیا ہے۔اس طرح ان گیارہ مقامات پر قبر کا لفظ اسی معروف قبر کے لئے استعمال ہواہے کہ جو زمین میں بنائی جاتی ہے۔
ان آیات میں سے صرف ایک آیت سے برزخی قبر کا مفہوم کشید کیا گیا ہے  اور وہ آیت یہ ہے:
﴿ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ﴿٢١﴾ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ ﴿٢٢﴾...عبس
"پھر اسے موت دی اور قبر دی پھر جب چاہے گا ،اسے اٹھا کھڑے گا"
بعض لوگوں نے اس سےیہ مفہوم اخذ کیا ہے کہ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ موت دیتا ہے اور  پھر سے قبر دیتا ہے اور چونکہ ہر انسان کو یہ معروف قبر نہیں ملتی کیونکہ کوئی جل کرراکھ بن جاتا ہے اور کسی کو جانور کا کھا کر فضلہ بنادیتاہے۔لہذا ثابت ہوا کہ ہر انسان کوبرزخ میں قبر ملتی ہے۔ اور یہی اس کی اصل قبر ہے جسے برزخی قبر کہا جاتاہے۔لیکن یہ بات اس آیت کے سیاق کے خلاف ہے کیونکہ اگلی ہی آیت میں یہ بتادیاگیا ہے اللہ جب چاہے گا،اسے قبر سے اٹھائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ انسان قیامت کے دن اس زمین والی قبر ہی سے اٹھایا جائے گا۔قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
﴿وَأَنَّ اللَّـهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ ﴿٧﴾...الحج
"اور بے شک اللہ ان لوگوں کوجو قبروں میں ہیں (قیامت کے دن)اٹھائے گا"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ   اس آیت کے مفہوم کو ایک باب قائم کرکے اس طرح واضح کرتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ،ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اورعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی قبروں کا بیان۔۔۔اقبرہ،اقبرت الرجل ،اقبرہ کے معنی ہیں میں نے اس کے لئے قبر بنائی۔قبرتہ کے معنی ہیں میں نے اس کوقبر میں دفن کیا۔(صحیح بخاری،کتاب الجنائز)
اقبرہ کا مطلب ہے "اس کوقبر میں رکھوادیا"اقبر،اقبار سے جس کے معنی قبر میں رکھنے اور رکھوانے کے ہیں۔ماضی کا صیغہ واحدمذکر غائب،ضمیر واحد  مذکر غائب ہے۔(لغات القرآن ج1ص183)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ   کی وضاحت سے معلوم ہواکہ وہ قبر کا وجود زمین ہی میں مانتے ہیں اور کسی برزخی قبرسے وہ واقف نہیں ہیں۔پس فاقبرہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے(دوسرے انسانوں کے توسط سے) قبر عطا کی۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے قرض کی تحریر لکھوانے والے کاتب کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسے قرض کی تحریر لکھوانے میں انکار نہیں کرنا چاہیے:(كما علمه الله) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے لکھنا سکھایا ہے۔(البقرہ:282) اب جس طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے خوداسے لکھنا نہیں سکھایا بلکہ دیگر انسانوں کے ذریعے لکھنا سکھایا ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسرے انسانوں کے ذریعے قبر عطا کی ہے۔قرآن کریم اپنی وضاحت خود کرتاہے۔اورقرآن کی آیات کی تشریح ووضاحت،قرآن کی دوسری آیات پر یا احادیث نبویہ کرتی ہیں۔اور قرآن کریم کی آیا ت سے واضح ہوچکاہے کہ قبر اس معروف قبر کو کہتے ہیں کہ جو زمین میں بنائی جاتی ہے۔
ہر انسان کی قبر زمین ہی ہے:۔
ہر انسان کی قبر زمین میں بنتی ہے،چاہے اسے جلا کر راکھ کردیا جائے اور چاہے اسے کسی درندہ یامچھلی نے کھاکر فضلہ بنادیا ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ ﴿٥٥﴾...طه
"ہم نے تم کو اسی زمین سے  پیداکیا اور اسی میں ہم تم کو(موت کے بعد) لے جائیں گے اور (قیامت کے دن) پھر دوبارہ اسی سے ہم تم کو نکالیں گے"(طہٰ:55)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک عام قانون بیان فرمایا اور وہ یہ ہے کہ چونکہ ہر انسان زمین سے پیدا ہوا ہے لہذا مرنے کے بعد وہ زمین ہی میں دوبارہ لوٹ جائے گا۔ اور ہر قیامت کے دن وہ اسی زمین سے ہی نکالا جائے گا۔گویا ہر انسان کی قبر زمین ہی ہے اور وہ آخر کار زمین میں ہی جائے گا کیونکہ قیامت کے دن اسی زمین ہی سے دوبارہ اٹھنا ہوگا۔دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
﴿قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ ﴿٢٥﴾...الاعراف
"فرمایا:اسی(زمین) میں تمہارا جیناہوگا اور اسی  میں مرنا ہوگا اور اسی سے(قیامت کے دن) تم نکالے جاؤ گے"
جناب نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:
﴿ وَاللَّـهُ أَنبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا ﴿١٧﴾ ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا ﴿١٨﴾...نوح 
"اور اللہ نے تم کو  زمین سے عجیب طرح سے اگایا،پھر تمھیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے تمھیں یکا یک نکال کھڑاکرے گا"(نوح:17،18)
قرآن کریم میں ایک مقام پر یوں بھی ارشاد فرمایا گیاہے:
قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ عَدَدَ سِنِينَ ﴿١١٢﴾ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ ﴿١١٣﴾ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (المومنون:113۔114)
"اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا:"بتاؤ،زمین میں تم کتنے سال رہے؟" وہ کہیں گے"ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھرے ہیں،شمارکرنے والوں سے پوچھ لیجئے"ارشاد ہوگا:"تم تھوڑی ہی دیر دنیا میں ٹھرے کاش تم نے جانا ہوتا"
دوسرے مقام پراس کی وضاحت یوں فرمائی گئی ہے:
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِ‌مُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ‌ سَاعَةٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ ﴿٥٥﴾ وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّـهِ إِلَىٰ يَوْمِ الْبَعْثِ ۖ فَهَـٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَـٰكِنَّكُمْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (الروم :55،56)
" اور جس دن قیامت برپا ہو جائے گی گناه گار لوگ قسمیں کھائیں گے کہ (دنیا میں) ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے، اسی طرح یہ بہکے ہوئے ہی رہے (55) اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا وه جواب دیں گے کہ تم تو جیسا کہ کتاب اللہ میں ہے یوم قیامت تک ٹھہرے رہے۔ آج کا یہ دن قیامت ہی کا دن ہے لیکن تم تو یقین ہی نہیں مانتے تھے "
ان آیات نے روز روشن کی طرح واضح کردیا کہ یہ انسان قیامت تک زمین ہی میں رہے گا جیسا کہ فِي الْأَرْ‌ضِ عَدَدَ سِنِينَ کے الفاظ واضح کررہے ہیں۔اگرانسان زمین کے جائے کسی اور مقام پر ہوتایا اس کی کوئی اور قبر ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس  کی ضرور ضرور  وضاحت فرمادیتا لیکن ظاہر ہے کہ اس انسان نے اس زمین میں رہنا ہے اور قیامت کے دن بھی اسی زمین سے اس طرح نکلناہے لہذا ایسی زمین اس کی قبر اور مستقر ٹھہری۔چنانچہ قرآن کریم میں دو مقامات پر مُسْتَوْدَعٌ جہاں وہ سونپا جائے گا(یعنی قبر) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔(دیکھئے الانعام:99 اور ہود 6) بلکہ ایک مقام پر دو ٹوک الفاظ میں فرمایا گیا:
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْ‌ضَ كِفَاتًا ﴿٢٥﴾ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا (مرسلات:25،26)
"کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کررکھنے والی نہیں بنایا،زندوں کے لئے بھی اور مردوں کے لئے بھی معلوم ہوا کہ انسان زندہ ہو یا مردہ اس نے زمین میں ہی رہنا ہے۔زندہ اس کے سینے پر زندگی گزارتے ہیں اور مردہ اس کے پیٹ میں رہتے ہیں۔"
قرآن کریم کی آیات اور احادیث  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں بھی قبر اسی معروف قبر کو کہا گیا ہے کہ جو زمین میں بنتی ہے۔اور اس سلسلے میں اتنی بے شمار احادیث موجود ہیں کہ اگر ان کا ذکر کیا جائے توا یک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔حدیث کی ہر کتاب نے محدثین نے کتاب الجنائز قائم کرکے اس سلسلے کی احادیث ذکر کی ہیں۔بلکہ منکرین عذاب القبر کے کتابچوں میں بھی اس سلسلہ کی جو احادیث موجود ہیں وہ بھی اس مفہوم کوواضح کرتی ہیں۔
لیکن حدیث کی کسی کتاب میں کوئی ایسی حدیث موجود نہیں ہے کہ جس سے ثابت ہوتا ہوکہ قبر برزخ میں ہوتی ہے۔البتہ شیعوں کی کتابوں میں ایسی روایت موجود ہے کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر برزخ میں ہوتی ہے۔چنانچہ ابن بابویہ قیمی،عمران بن زید سے اور وہ ابو عبداللہ جعفر صادق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا:" اللہ کی قسم ہمارے تمام شیعہ جنت میں ہیں"۔۔۔لیکن قسم اللہ کی کہ میں برزخ سے ڈرتا ہوں تمھارے حال پر۔میں نے کہا کہ برزخ کیا ہے؟فرمایا:" قبر،تم میں سے کسی کے مرنے کے وقت سے روزے قیامت تک (کا وقفہ) "(تحفۃ اثناء عشریہ :ص 149)
معلوم ہوا کہ"برزخی قبر" کا تصور ملت جعفریہ میں پایا جاتا ہے اور وہاں سے اسے اسمگل کرکے امت مسلمہ میں پھیلایا جارہاہے اور اسی نظریہ کو نا ماننے والوں کو کافرقرار دیاجارہاہے۔غور کیجئے کہ شیعت کے لئے کیسے کیسے ہاتھ کام کررہے ہیں؟فاعتبروا یا اولوا الابصار!
منکرین  عذاب قبر ،قبر کو گڑھا کہتے ہیں،اور ان کا خیال ہے کہ قبر اس گڑھے کو نہیں کہتے بلکہ قبر تو برزخ میں ہوتی ہے ۔جبکہ اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی معروف قبر کو ہی القبر کہا ہے ،گڑھا نہیں!!!
برزخ میں جسم وروح کی کیفیت:۔
روح اورجسم کی جدائی کا نام موت ہے۔اورقیامت تک روح اور جسم میں جدائی رہے گی اور جب قیامت برپا ہوگی تو روح کو دوبارہ جسم میں داخل کردیا جائے گا اس طرح روح جسم کے اس ملاپ سے انسان کو دوبارہ دوسری زندگی عطا ہوگی اوریہ ایسی زندگی ہوگی کہ اس پر کبھی موت واقع نہیں ہوگی۔
یہ ثابت ہوچکاہے کہ جسم قیامت تک زمین میں اپنی قبر میں رہے گا البتہ روح جنت یا جہنم میں قیامت تک رہے گی اور اس کے بہت سے دلائل ہیں جن میں سے بعض کا ہم یہاں زکر کرتے ہیں۔
مومن کی روح جنت میں رہتی ہے۔ اور وہاں جنت کی نعمتیں کھاتی ہے جناب کعب بن مالک  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ إِذَا مَاتَ طَائِرٌ ، تَعْلُقُ بِشَجَرِ الْجَنَّةِ ، حَتَّى يُرْجِعَهُ اللهُ ، تَبَارَكَ وَتَعَالَى ، إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اللهُ (مسند احمد 455/3ومسند حمیدی 385/2 وسنن نسائی 225/1 وموطا امام مالک وسنن ابن ماجہ ص316 وموارد الظمان ص187 ومشکاۃ المصابیح 516/1 وقال الالبانی سندہ صحیح)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مومن کی روح جنت میں رہتی ہے اور قیامت کے دن ہی اسے اس کے جسم کی طرف لوٹایا جائے گا اور دوسری طرف جسم جو قبر میں ہوتا ہے اس کے متعلق بھی حدیث کی وضاحت موجود ہے(اور اسکےمفصل دلائل پیچھے ذکر ہوچکے ہیں) چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا:
"جب انسان مرجاتا ہے تو صبح وشام اس کا ٹھکانہ اس پر  پیش کیا جاتا ہے اگر وہ اہل جنت میں سے ہوتاہے تو اس پر جنت پیش کی جاتی ہے اور اگروہ جہنمیوں میں سے ہوتا ہے تو اس پر جہنم پیش کی جا تی ہے اور اس سے کہا جاتاہے:
"هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى تُبْعَثَ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"(رواه البخاری ومسلم واللفظ له)
" یہ تیرا ٹھکانہ ہے جس میں تجھے قیامت کے دن یہاں سے اٹھا کر داخل کردیا جائے گا"
اوپر کی حدیث میں تھا کہ مومن کی روح جنت میں ہوتی ہے اور اس حدیث میں کہ میت کے قبر کی قبر میں اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا  ہے کہ قیامت کے دن تجھے یہاں سے اٹھا کر اس میں داخل کردیا جائے گا۔
ان دلائل سے واضح طور پر ثابت ہوجاتاہے کہ مومن کی روح جنت میں عیش وآرام کرتی ہے،وہاں کی نعمتیں کھاتی ہے،پرندوں کی طرح اڑتی رہتی ہے اور دوسری طرف کافر ومشرک اور منافق کی روح جہنم میں رہتی ہے اور عذاب سے دو چار ہوتی رہتی ہے۔
جبکہ مومن کی میت نئی نویلی دلہن کی طرح قبر میں آرام کر تی اور سوتی ہے(بخاری وترمذی ) اس کی طرف جنت کا دروازہ کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔(ابو داود،مسند احمد،ابن ماجہ) صبح شام اسے جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھا یا جاتاہےلیکن کافر ومشرک اور منافق کی میت پر قبر میں عذاب ہوتا رہتا ہے اس کی طرف جہنم کی طرف سے کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور صبح وشام اسے جہنم میں اس کا ٹھکانا دکھا یا جاتاہے۔
مومن کی روح کے جنت میں رہنے کے اور بھی بہت سے دلائل ہیں مثلاًَ:۔
عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"شہداء کی  روحیں جنت میں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہوتی ہیں"
اور اسی حدیث میں ان کی اس خواہش کا بھی ذکر ہے کہ وہ کہتی ہیں:
"اے ہمارے پروردگار ہماری یہ خواہش ہے کہ ہماری  روحوں کو ہمارے جسموں میں دوبارہ لوٹا دیا جائے تاکہ ہم تیری راہ میں دوبارہ شہید ہوں"(مسلم)
ایک شہید کا سورۃ یٰسین میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب اس کی قوم نے اسے شہید کردیا۔
قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ (یٰسین:26)"اس سے کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا"
حارثہ بن سراقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جو جنگ بدر میں شہید ہوگئے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے متعلق فرمایا کہ:
"وہ جنت الفردوس میں ہے"(بخاری)
جناب ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"میں نے ایک شخص کو جنت میں دیکھا کہ وہ جنت میں عیش وآرام کررہا تھا محض اس بناء پر کہ اس نے راستہ  سے ایک ایسے درخت کو کاٹ کرپھینک دیا تھا کہ جو لوگوں کو تکلیف دیتاتھا"(مسلم ومشکاۃ ص168)
اور کافر کی  روح کے جہنم میں رہنے اورعذاب بھگتنے کے متعلق بھی احادیث موجود ہیں:قوم نوح علیہ السلام   کے متعلق قرآن کریم میں ہے:
مِّمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِ‌قُوا فَأُدْخِلُوا نَارً‌ا (نوح:25)
"اپنے گناہوں کے سبب وہ  غرق ہوئے اور پھر جہنم میں داخل ہوگئے"
حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
"میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کا بعض حصہ بعض کو تباہ وبرباد کررہا تھا اور میں نے عمرو ابن الحئی الخزاعی کو دیکھا کہ وہ  جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہاہے اور وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے (عرب میں) بتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی"
(بخاری ومسلم عن جابر،مشکاۃ:ص 456)
ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت کو  صرف ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل کردیا گیا(رواہ مسلم)
ان دلائل کو میں نے اپنی کتاب"الدین الخالص" اور عقیدہ عذاب القبر(قرآن وحدیث کی روشنی میں ) میں تفصیل سے بیا ن کردیا ہے ان دلائل کی بناء پر منکرین  عذاب قبر نےجنت اور جہنم کو برزخی قبریں قراردے دیا ہے ان کا خیال ہے کہ چونکہ ان کو اب ثواب وعذاب ہورہا ہے اور یہ سارا معاملہ برزخ میں ہے لہذا جنت وجہنم ان کی برزخی قبریں ہیں اور دوسری طرف عذاب القبرکی احادیث کا انہوں نے بالکل انکار کردیا ہے:
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُ‌ونَ بِبَعْضٍ
ڈاکٹر عثمانی صاحب کا کہنا ہے کہ مرنے کے بعد روح کو ایک نیا برزخی جسم دیا جاتا ہے  کہ جس میں اس روح کو داخل کردیا جاتاہے اور پھر قیامت تک ثواب وعذاب کا سلسلہ اس پر جاری رہتاہے۔
ہم نے  واضح کیا ہے کہ موت سے قیامت تک کے اس عرصہ میں روح جسم سے جدا رہتی ہے اور قیامت کے دن ہی اسے اس کے جسم  میں دوبارہ داخل کیا جائے گا لہذا قیامت سے پہلے روح کا کسی جسم میں داخل ہونا اور اس جسم کا زندہ ہونا اور پھر قیامت آنے پر اس نئے جسم کا فوت ہوجانا اور پھر پرانے جسم کا زندہ ہونا،اس کے یہ معنی ہوئے کہ ڈاکٹر عثمانی تین زندگیوں اور تین موتوں کے قائل ہیں۔جب کہ انہوں نے اپنے کتابچہ میں زوردیا ہے کہ زندگیاں اور موتیں دو دو ہیں۔اور جو شخص دو زندگیوں اور دو موتوں سے زیادہ کا قائل ہوگیا تو وہ ان کی نگاہ میں کافر ہے۔اس طرح ڈاکٹر موصوف مستقل طور پر تین زندگیوں اور تین موتوں کی قائل ہوکر اپنے فتوے کی زد میں خودآرہے ہیں۔
استثنائی صورتیں:۔
یہ اصولی بات ہے کہ عام قانون سے کسی بات یا مسئلہ کا ثبوت اخذ کیا جاتاہے۔اوراستثنائی حالتوں یا معجزات کو دلیل نہیں بنایا جاتا۔عذاب القبر کا ثبوت بھی ان تمام احادیث سے ہے کہ جس میں عذاب القبر کا ذکر ہے البتہ جن لوگوں کو جلا کر  راکھ بنادیاجاتا ہے یا جو کسی درندے یا مچھلی کا لقمہ بن کر فضلہ بن جاتے ہیں تو یہ ایک اسثتنائی صورت ہے۔اور اسے دلیل بنا کر عذاب القبر کا افکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عذاب القبر کا ثبوت محکم دلائل کے ساتھ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے جس سے محدثین کرام اور علماء امت نے عذاب  القبر کے ثبوت  فراہم کئے ہیں۔البتہ جو لوگ جل کر راکھ ہوگئے یا  فضلہ بن گئے تو وہ بھی آخر کار اپنی زمین والی قبر  میں داخل ہوکررہیں گے جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہوچکاہے۔اورصحیح بخاری ،صحیح مسلم اور موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ   وغیرہ کی روایات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کا واقعہ بیان فرمایا کہ جس کی وصیت پر اسے جلا کر راکھ کردیا گیا اور اس کی آدھی راکھ سمند ر میں آدھی راکھ ہوا میں اڑا دی گئی ۔پھر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا اور اس کی راکھ اکھٹی کی گئی اور ہوا کو حکم دیا گیا اور راکھ جمع کی گئی جہاں تک کہ وہ آدمی بن کرکھڑا ہوگیاتو اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا"تو نے یہ سب کیوں کیا؟"اس نے جواب دیا"اے میرے  پرودرگار !تیرے ڈر کی وجہ سے پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا"
اسی طرح جب میت کو دفن کیا جاتاہے تو سوال وجواب کے وقت اس کی طرف روح لوٹائی جاتی ہے اور اسی سلسلہ میں صحیح احادیث موجود ہیں۔در اصل اعادہ روح کوئی الگ مسئلہ نہیں ہے بلکہ عذاب القبر کے ساتھ ہی اس کا تعلق ہے اور یہ سب اخروی معاملہ ہے اور یہ بھی ایک استثنائی صورت ہے لیکن بعض لوگوں نے اعادہ روح پر بھی اعتراضات کئے ہیں اور یہ کہا ہے کہ اس طرح تین زندگیاں اور تین موتیں لازم آتی ہیں اور یہ چیز قرآن کریم کے خلاف ہے۔
ہر انسان پر ہر روزموت واقع ہوتی ہے:۔
اس طرح کے تمام اعتراضات کم فہمی اور کم علمی کا نتیجہ ہیں دنیا میں ہر روز جب انسان سوتا ہے تو اس کی روح اس سے نکالی لی جاتی ہے اور جب وہ جاگتاہے تو اس کی روح دوبارہ اس کی طرف لوٹا دی جاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰ أَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٦٠﴾... الأنعام
"اور وه ایسا ہے کہ رات میں تمہاری روح کو (ایک گونہ) قبض کردیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو جانتا ہے پھر تم کو جگا اٹھاتا ہے تاکہ میعاد معین تمام کر دی جائے پھر اسی کی طرف تم کو جانا ہے پھر تم کو بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے"(الانعام۔60)
اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص پر جو رات کو سوتاہے موت طاری فرمادیتا ہے اورصبح کے وقت اسے دوبارہ زندہ کردیتا ہے اور ا س طرح وہ شخص قیامت سے پہلے بے شمار موتیں اور بے شمار زندگیاں حاصل کرلیتا ہے اور قیامت سے پہلے بار بار اس کی طرف"اعادہ روح" بھی ہوتا رہتاہے۔دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
﴿ اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ ...الزمر
"اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ غور کرنے والوں کے لیے اس میں یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں"
اس آیت میں جہاں بے شمار موتوں اور بے شمار زندگیوں کاتذکرہ ہے وہاں"اعادہ روح" کا بھی تذکرہ موجود ہے جو ہر شخص کے بیدار ہونے پر اس کی طرف ہوتا ہے۔لہذا جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ قیامت سے پہلے اعادہ روح نہیں ہوتا تو ان کا یہ قول بلا دلیل وبلا برھان ہے۔احادیث میں بھی نیند کو موت قرار دیا گیا ہےچنانچہ سونے اور جاگنے جو دعائیں احادیث میں آئی ہیں ان میں نیند کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ سونے اور جاگنے کی جو دعائیں احادیث میں آئی ہیں ان میں نیند کو موت سے تعبیرکیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی صبح کی نماز قضا ہوگئی۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
"إن الله قبض أرواحكم حيث شاء وردها حيث شاء "
"بے شک اللہ نے جب چاہا تمھاری روحین قبض کرلیں۔اورجب چاہا ان ارواح کو تمہاری طرف لوٹا دیا"(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ باب الاذان بعدذھاب الوقت وکتاب التوحید باب فی المشیۃ والارادۃ)
دنیا کی زندگی میں روزانہ"اعادہ روح" ہوتاہے ۔لیکن کسی شخص نے بھی آج تک ان دلائل سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیاکہ اس سے کئی زندگیاں اور کئی موتیں مراد ہیں۔اسی طرح مرنے کے بعد کی زندگی میں اگر احادیث صحیحہ میں سوال وجواب کے وقت"اعادہ روح" کا ذکر آیاہے۔تو اس سے بھی کسی نے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا کہ اس سے کئی زندگیاں اور کئی موتیں مراد ہیں۔ بلکہ کافر تک دو زندگیوں اور موتوں کے قائل ہیں۔(دیکھئے سورہ المومن:11) جب کافر بھی دو زندگیوں اور دو موتوں کے ہی قائل ہوں گے تو ایک مسلمان کس طرح زیادہ زندگیوں کا قائل ہوسکتا ہے  ۔معلوم ہوا کہ برزخیوں کا یہ اعتراض ہی بدعت ہے۔
اب اگر آخرت میں سوال وجواب کے لئے روح کو لوٹا دیا جائے تو اس سے کس طرح تین زندگیاں اور تین موتیں مراد ہوں گے؟آخرت کے حالات کو ہم دنیا پر قیاس نہیں کرسکتے اور وہاں میت کے ساتھ جو کچھ ہوتاہے ہم اس سے بے خبر ہیں کیونکہ دنیا وآخرت کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ایک برزخ حائل کردی ہے اور پھر یہ تفریق روا رکھنا کہ دنیا میں ہرروز انسان مرے اور ہرروز اس کی روح اس کی طرف لوٹائی جائے۔اور اس سے کئی زندگیاں اور کئی موتیں مراد نہ ہوں۔اورآخرت و برزخ میں اگر ایک مرتبہ اس کی طرف روح لوٹ آئے تو یہ بات قرآن کے خلاف پا جائے؟
ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے دو زندگیاں اور دو موتیں ہی دی ہیں لیکن اس اصول میں بھی استثناء موجود ہے چنانچہ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے:
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّـهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ...٢٤٣﴾...البقرة
" کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا مرجاؤ، پھر انہیں زنده کردیا ہے "
اس طرح کی دیگر مثالیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں۔
معلوم ہوا کہ اگرچہ دو زندگیاں اوردو موتیں اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہیں لیکن اس عام اصول میں بھی استثناء موجود ہے۔ اس طرح قبر میں اعادہ روح بھی ایک استثناء ہے۔کہ جس سے انکار ممکن نہیں کیونکہ اس کا ثبوت بھی احادیث صحیحہ سے ہے اور پھر یہ دنیا کا نہیں بلکہ آخرت کا معاملہ ہے۔
عذاب القبر کو سمجھنے کے لئے دو مثالیں:۔
منکرین عذاب القبر،عذاب القبر کا انکار اس لئے کرتے ہیں کہ یہ عذاب انہیں دیکھائی نہیں دیتا اور ا نکے حواس اسے محسوس نہیں کرتے۔اگر میت کو واقعی عذاب ہوتاہے تو آخر اس میت میں تغیر وتبدل کیوں نظر نہیں آتا؟توا اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب غیب کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کو ہم سے غیب میں رکھا ہے اور اس پر صرف ایمان رکھنے کا حکم دیاگیا ہے  ہمارے ارد گرد بہت سے کام ہوتے ہیں جنھیں ہم نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی محسوس کرتے سکتے ہیں اس کی ہم دو مثالیں قرآن کریم سے پیش کرتے ہیں۔
1۔اللہ  تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔
﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ۩ ﴿١٨﴾...الحج
" کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ کے سامنے سجده میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی۔ ہاں بہت سے وه بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ثابت ہو چکا ہے، جسے رب ذلیل کردے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے "
اس آیت سے ثابت ہواکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے یہاں تک کہ سورج چاند،ستارے،پہاڑ،درخت،چوپائے اور انسان وغیرہ سب ہی اللہ کو سجدہ کرتے ہیں لیکن انسان کے علاوہ ہمیں کوئی مخلوق سجدہ کرتے دیکھائی نہیں دیتی۔جیسے منکرین عذاب القبر کو قبرستان میں ایک جانور بھی (لفظ مٹا ہوا ہے)نظر نہیں آتا۔اس طرح کتنے جانور ہمیں چلتے پھرتے دیکھائی دیتے ہیں  لیکن ان میں سے ایک بھی سجدہ ریز ہوتا نظر نہیں آتا۔اسی طرح اونچے پہاڑوں میں سے کوئی بھی پہاڑ کسی کو سجدہ کرتا نظر نہیں آتا۔اب منکرین عذاب القبر کیا کریں گے وہ اس آیت پر ایمان لائیں گے یا پھر اس آیت کا انکار کردیں گے؟کیونکہ یہ آیت بھی عقل ظاہر سے ٹکراتی ہے۔
2۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:(بنی اسرائیل:44)
﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ﴿٤٤﴾ ...الحج
" ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے اسی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔ وه بڑا بردبار اور بخشنے والا ہے "
اس آیت سے واضح ہوا کہ ہر چیز  تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان ان کی تسبیح کے بیان کرنے کو نہیں سمجھتا کیونکہ یہ چیز اس کی عقل وحواس سے بالا تر ہے اب قابل غور بات ہے کہ جب ہر چیز ہی اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن ان کا یہ عمل ہم سے پوشیدہ ہے اور ہمارے حواس اس کا ادراک نہیں کرسکتے اس طرح میت کو جو عذاب ہوتا ہے وہ بھی ہمارے حواس سے بالا تر ہے اور ہمارے حواس اسے محسوس نہیں کرسکتے بس ہم بن دیکھے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
قبر کی زندگی کی مثال:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سونے والے کو"مرنے والے" سے تشبیہ دی ہے۔(انعام۔20 اور زمر 42)(آیات پیچھے گزر چکی ہیں۔احادیث میں بھی نیند کوموت قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح مرنے والے کو بھی سونے والے سے تشبیہ دی گئی ہے:
قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْ‌قَدِنَا ۜ ۗ هَـٰذَا مَا وَعَدَ الرَّ‌حْمَـٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْ‌سَلُونَ
"کہیں گے(ہائے افسوس) ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے(جگا) اٹھایا؟یہ وہی تو ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کیا تھا"(یٰسین:52)
اور حدیث میں ہے کہ مردہ سے کہا جاتا ہے:نَمْ صَالِحًا "اچھی نیند سوجا"(بخاری) دوسری حدیث میں ہے:نم نومة العروس " سوجا جیسی نئی نویلی دلہن سوتی ہے"(ترمذی)
گویا قبر والے کی زندگی کی مثال سونے والے کی  طرح ہیں جس طرح ایک سونے والا جب کوئی خواب دیکھتا ہے،اس کا جسم اسے پوری  طرح محسوس  کرتاہے بالکل اسی طرح ثواب وعذاب کو یہ مردہ جسم  پوری طرح محسوس کرتا ہے۔
عثمانی فرقہ کا طریقہ استدلال:۔
عثمانی فرقہ جسے برزخی فرقہ بھی کہا جاتا ہے،ان کاطریقہ استدلال بڑا ہی عجیب وغریب ہے۔لوگ جب عذاب القبر کی احادیث پر تنقید کرنے لگتے ہیں تو انہیں ضعیف،موضوع اور قرآن کریم کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور بغیر دلیل کے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں روایت میں شیعہ راوی ہے لہذا یہ روایت موضوع ہے لیکن دوسری طرف وہ خود جن روایات سے استدلال کرتے ہیں ان میں بھی شیعہ راوی ہوتے ہیں اور ایسے راوی بھی کہ جنھیں اس فرقہ کے سرخیل اور بانی ڈاکٹر عثمانی نے جھوٹا قرار دے رکھا ہے۔لیکن وہ ان کی روایات نقل کرتے ہیں جیسا کہ ان کا لٹریچر پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ بعض دفعہ یہ اپنی تائید میں من گھڑت اور جھوٹے واقعات بھی نقل کرجاتے ہیں۔یعنی مطلب کی ہر بات ان کے ہاں دلیل ہے اور جو دلیل ان کے خلاف جاتی ہے  اسے غلط قرار دے دیتے ہیں۔اعادہ روح کے بارے میں ایک برزخی لکھتاہے۔کہ اس روایت کے شیعہ راویوں نے اللہ پر جھوٹ کہا ہے۔ حالانکہ جب راوی شیعہ ہیں اور شیعہ ہونے کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بھی بولتے ہیں تو پھر ان کی حدیث نقل کرناکیامعنی رکھتا ہے؟یہ کیا مذہب ہے  کہ راوی شیعہ بھی ہیں،اللہ پر جھوٹ بھی بولتے ہیں اور پھر انہی راویوں کی روایات کو دلیل کے طور پر پیش بھی کیا گیا ہے؟ایک چیز اپنےلیے جائز بلکہ زبردست دلیل اور دوسروں کے لئے ناجائز بلکہ"شجر ممنوعہ"
دینی حالات میں عقل کو ہی معیار اور میزان بنانا درست نہیں ہے:۔
ایمان باللہ کاتقاضا ہے کہ انسان جب کوئی مسئلہ بیان کرے تو اس کے دلائل قرآن وحدیث سے پیش کرے مزید دلی اطمینان کے لئے عقلی استدلال بھی پیش کردے تو بہت اچھا ہے۔لیکن چونکہ قرآن وحدیث ان کے باطل عقائد کی قطعاً تائید نہیں کرتے لہذا یہ احادیث صحیحہ کے مقابلےمیں صرف عقل پر انحصار کرتے ہوئے عقلی گھوڑے دوڑانے لگتے ہیں اور ہر حدیث پر عقلی اعتراض وارد کرتے ہیں حالانکہ یہ طرز عمل ایمان کے منافی ہے۔لازم ہے کہ قرآن وحدیث پر  ایمان رکھا جائے اور ان کی باطل تاویلات سے اجتناب کیا جائے۔اسی میں ایمان کی سلامتی ہے ۔دین کا دار ومدار عقل اور رائے پر نہیں ہے۔جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ:۔
"دین کا دارومدار رائے(اور عقل) پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اوپر مسح کرنے سے اور بلاشبہ میں نے دیکھا ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  موزوں کے اوپر مسح کرتے تھے"(رواہ ابو داود الدارمی۔معناہ۔مشکاۃ المصابیح ص54)
اسی طرح ریح کے خارج ہونے سے وضو کیا جاتا ہے۔حالانکہ ریح کہاں سے خارج ہوتی ہے اور دھویا کن اعضاء کوجاتا ہے؟معلوم ہواکہ دین کا دارومدار"ایمان" یعنی مان لینے پر ہے،عقل پر نہیں۔
عقیدہ عذاب القبر سے عقیدہ توحید کو نقصان؟
عذاب القبر کے انکار کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس سے عقیدہ توحید کو نقصان پہنچتا ہے اور (بقول ان کے) مردہ کو قبر میں زندہ ماننے سے عقیدہ توحید متزلزل ہوجاتاہے۔حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے۔اس لیے کہ مردہ کو کوئی بھی قبر میں زندہ نہیں مانتا یعنی دنیاوی زندگی کا کوئی بھی قائل نہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شہداء کو زندہ کہا۔بلکہ مردہ گمان کرنے سے بھی منع فرمادیا۔اب جن احادیث کی بناء پر ان کو جنت میں زندہ ثابت کیا جارہا ہے ان میں انہی کے اصول کے مطابق جھوٹے اور شیعہ راوی ہیں اور ممکن ہے کہ شیعہ راویوں نے اللہ پر جھوٹ کہا ہو،لہذا قرآن سے ثابت ہوا کہ شہداء زندہ ہیں،ان کو مردہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتاورنہ ایمان سلامت نہیں رہے گا اور مردہ جسم ہوتا ہے۔روح کو کوئی مردہ نہیں کہتا ۔پس ثابت ہوا کہ شہداء قرآن کی رو سے زندہ ہیں اب ان کے زندہ ہونے سے عقیدہ توحید پرکوئی زد نہیں پڑتی اور پھر ڈاکٹر عثمانی خود مرنے والوں کو نئے جسم کے ساتھ زندہ مانتے ہیں لہذا اس طرح ان کےفتویٰ کی زدان پر ہی پڑتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عقیدہ توحید کی تبلیغ کے لیے جن برگزیدہ ہستیوں کو پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا وہ انتہائی درجہ کے صالح،متقی،پرہیز گار اور صادق وامین تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا لقب ہی صادق وامین پڑ گیا تھا۔عقیدہ توحید کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں صالح ومتقی علماء کرام کو  پیدا کرتا ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ دین حق کی حفاظت پر مامور کرتا ہے: إن العلماء ورثة الأنبياء (ترمذی)"علماء کرام انبیاء علیہ السلام   کرام کے وارث ہوتے ہیں"
﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ ... ٢٨﴾ ...فاطر
"اللہ کے بندوں ہی سے علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیامت کی علامات ہی سے ایک بڑی علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ:
"علماء دنیا سے اٹھ جائیں گے اور جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے۔ان سے دین کی باتیں پوچھیں گے اور وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے۔(اس طرح وہ) خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرے کو بھی گمراہ کریں گے۔"(بخاری ومسلم۔مشکاۃ ص33)
اسلام اور عقیدہ توحید کو جس قدر نقصان جاہلوں کے گروہ پہنچارہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ  ا تنا نقصان غیر مسلموں نے بھی کبھی نہیں پہنچایا۔یہ نادان دوست اسلام کے لبادے میں اور جہالت کی وجہ سے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچارہے ہیں اور اس طرح یہ انکار حدیث اور پھر انکار قرآن کی راہ ہموار کررہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے اور باطل سے مکمل طور پر اجتناب کی توفیق دے۔(آمین )ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب!!!