امام قرافی ؒاور اُن کی کتاب 'الفروق' کا تعارف
شریعت کے مقاصد پر کئی عظیم تصانیف پائی جاتی ہیں جن میں سرفہرست امام الشاطبی ؒ کی 'الموافقات' ہے۔ عزالدین بن عبدالسلام کی 'القواعد الکبریٰ' اور امام ابن قیم ؒکی 'اعلام الموقعین' بھی اسی فن سے متعلق ہیں۔ ابن عبدالسلام کے شاگرد امام القرافی کی کتاب 'الفروق' نے بھی اسی موضوع پر شہرت پائی ہے۔ اس کتاب میں ۲۷۴ فروق کا ذکر کیا گیا ہے۔کتاب کے تفصیلی تعارف میں 'الفروق' کے معنی و مطلب پربحث ہوگی، یہ علم اپنی ندرت کی بنا پر اُردو کتب میں قابل ذکر جگہ نہیں پاسکا ہے۔
میرے سامنے مؤسسۃ الرسالۃ (بیروت) کا شائع کردہ نسخہ ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ اس کتاب اور صاحب ِکتاب کا تفصیلی تعارف اُردن کے عالم شیخ عمر حسن القیام طیبی نے دو مقدموں کی شکل میں پیش کیاہے۔ اس کتاب کے حاشیہ پر ابن الشاط (ابوالقاسم، القاسم بن عبداللہ بن محمد بن الشاط الانصاری ۶۴۳ تا۷۲۳ھ) کی کتاب إدرارالشروق علی أنواء الفروقدی گئی ہے۔ جس میں ابن الشاط نے القرافی کے دیئے گئے 'الفروق' کی تنقیح کی ہے اور جہاں جہاں محشی نے دلائل میں ضعف پایا، وہاںاس کا تذکرہ کردیا یہاں تک کہ مالکی علما نے یہ خوب کہا: ''القرافی کی 'الفروق' کو تھام کے رکھو، لیکن اس میں سے وہی قبول کرو جسے ابن الشاط نے قبول کیا ہو۔''
میں نے سب سے پہلے دونوں مقدمات کو انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے اور پھر اصل کتاب میں سے 'الفروق' کا اختصار اس انداز سے کیا ہے کہ مصنف کی ترتیب کا خیال نہیں رکھا ہے بلکہ اُن الفروق کا ذکر پہلے کیاہے جو عصر حاضر کے مسائل سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور زبان و اُسلوب کے اعتبار سے نسبتاً آسان پیرائے میں بیان ہوئے ہیں۔ گو میں نے اپنی ترتیب کا لحاظ رکھا ہے لیکن قوسین میں اصل کے اعتبار سے مذکورہ 'فرق' کا نمبر دے دیا ہے۔ مثلاً فرق نمبر ۱ (نمبر ۳۶) یعنی اصل کتاب میں یہ فرق نمبر ۳۶ کی حیثیت سے ذکر کیاگیا ہے۔ اگر مزید تشریح کی ضرورت ہو تو میں نے ایسے اضافات کو 'فائدہ' یا 'فوائد' کا ذیلی عنوان دے کر ذکر کیا ہے۔ گویا اس کتاب کی عربی عبارات کو اختصار کے ساتھ اُردو کا قالب پہنانا میری ایک حقیر سی کوشش ہے جس میں 'فوائد' کا اضافہ میرے اپنے فہم و اِدراک کا نتیجہ ہے۔
اب اس تمہید کے بعد شیخ طیبی کے تعارفی مقدمات کا اختصار ملاحظہ ہو:
امام قرافی
امام قرافی کا پورا نام مع نسبت یوں ہے: امام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی العلاء ادریس بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن یلّینالقرافی مصری مالکی۔
امام قرافی کی طرف نسبت 'قرافہ' نامی جگہ کی طرف ہے جو اس علاقے کا نام ہے جہاں فاتح مصر عمرو بن العاص نے ایک شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس شہر کا ایک محلہ قبیلہ قرافہ کے وہاں آباد ہونے کی وجہ سے قرافہ کہلایا۔ عام طور پر قبائل کے نام بھی کسی سردار یا اہم شخصیت کے نام پر رکھے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ قرافہ اس قبیلے کے اَجداد میں سے ایک خاتون کا نام تھا۔ امام قرافی کی نسبت ان کے خاندان کے یہاں آباد ہونے کی وجہ سے ہے، نہ کہ اصل کے اعتبار سے۔ وہ خود اپنے رسالہ العقد المنظوم في الخصوص والعموم میں لکھتے ہیں:
''میرا قرافی کی نسبت سے مشہور ہونا اس لیے نہیں ہے کہ میںاس قبیلے میں سے ہوں بلکہ اس لیے کہ یہاں کچھ دیر ہماری سکونت رہی ہے۔ میں اصلاً مراکش کے علاقہ صنہاجہ سے ہوں، البتہ میری پیدائش ۶۲۶ھ میں مصر میں ہوئی اور یہیں میں پلا بڑھا۔''
امام قرافی نے قاہرہ کے مدارس ہی میں تعلیم پائی۔ گو اُنہیں مالکی مذہب کے ائمہ میں سے شمار کیا جاتا ہے، لیکن اُنہیں بقولِ امام سیوطیؒ مجتہد کا درجہ حاصل ہے کہ وہ ہمیشہ دلیل کے پابند نظر آتے ہیں، چاہے مذہب کی مخالفت ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔
اساتذہ کرام
اُنہیں یہ بلند درجہ اس لیے ملا کہ اُنہوں نے اپنے زمانہ کے مشہور اہل علم کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا۔ اُن کے اساتذہ میںمندرجہ ذیل مشہور علما و فقہا شامل ہیں:
1.ابو محمد عزالدین بن عبدالسلام سلمی دمشقی (۶۶۰ھ): مذہب ِشافعی کے مشہور عالم جنہوں نے مقاصد ِشریعت کے موضوع پر ایک انتہائی قابل قدر کتاب تصنیف کی جسے 'القواعد الکبریٰ' کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کتاب کے مقابلے کی تصنیف مشکل سے ملے گی۔ البتہ شاطبی کی 'الموافقات' اس کے ہم پلہ کتاب ہے۔ القرافی اپنے ان شیخ کے ساتھ مصر میں ان کی آمد (۶۳۸ھ) سے لے کر اُن کی وفات (۶۶۰ھ) یعنی بیس سال سے زائد اُن سے استفادہ کرتے رہے۔ شیخ کے دوسرے تلامذہ میں ابن دقیق العید، ابوشامہ مقدسی، علاء الدین الباجی اور حافظ دمیاطی نے بھی میدانِ علم وفضل میں شہرت پائی۔
القرافی نے جہاں اپنے شیخ سے بے پایاں استفادہ کیا، وہاں ایک با ت کھٹکتی بھی رہی کہ وہ اکثر اپنے شیخ کی عبارت بغیر ان کا حوالہ دیے نقل کئے جاتے ہیں۔ یہاں امام نووی کی یہ بات قابل ذکر ہے کہ ''نصیحت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی بھی قابل ذکر یا اچھوتا نکتہ ہو تو اس کی نسبت اس کے قائل کی طرف کی جانی چاہئے ، جو ایسا کرے گا تو اس کے عمل اور حالات میں برکت پیدا ہوگی، لیکن جس نے یہ سجھانے کی کوشش کی کہ یہ میرا اپنا کلام ہے تو بہتر ہے کہ اس کے علم سے استفادہ نہ کیا جائے۔''
2. اُن کے دوسرے استاذ ابن الحاجب ہیں، جن کا پورا نام ہے: ابوعمرو عثمان بن عمر بن ابی بکر الکردی (۵۷۰ھ تا۶۴۶ھ)۔ اپنے زمانہ میں آپ مالکی مذہب کے امام رہے ہیں، اُن کی چند تصانیف یہ ہیں:
1.جا مع الامہات جز مالکی مذہب کی اصل الاصول کتاب'المدونۃ' کا اختصار ہے۔
2. نحو و صرف میں الکافیۃ اور الشافیۃ
3. الا َمالی: مذکورہ دوکتب سے زیادہ تفصیل موجود ہے۔
4. منتہی السول الأمل في علمي الأصول والجدل
3. تیسرے اہم استادشیخ الشریف الکرکی،ابومحمد، محمد بن عمران بن موسیٰ الحسینی (۶۸۸ھ) ہیں۔ان کی ولادت شہر فاس (مغربِ اَقصیٰ) میں ہوئی لیکن پھر مصر ہجرت کرگئے جہاں القرافی نے ان سے استفادہ کیا۔ ابن فرحون نے اُنہیں مصر و شام میں شافعی اور مالکی مذہب کا امام قرار دیا ہے۔
4. چوتھے استاد خسرو شاہی، عبدالحمید بن عیسیٰ بن عمریہ (۵۸۰ تا۶۵۲ھ) ہیں۔ یہ امام رازی کے تلامذہ میں سے ہیں۔ فقہ اور اُصول فقہ میں بڑا نام پایا۔
ان کی تصنیفات میں موضوع فقہ پرالمھذب کا اختصار،ابن سینا کے المقالاتکا اختصار اور تتمہ الآیات البینات شامل ہیں۔
5. پانچویں استاد قاضی القضاۃ شمس الدین ابوبکر محمد بن ابراہیم بن عبدالواحد مقدسی حنبلی (۶۰۳تا۶۷۶ھ) ہیں جن کا شمار حنبلی مذہب کے اماموں میں سے ہوتا ہے۔ یہ بھی مصر منتقل ہوگئے تھے۔ القرافی نے ان سے 'کتاب وصول ثواب القرآن' کی سماعت کا ذکر کیا ہے۔
امام قرافیؒ کی تصنیفات
القرافی کی تیئس مصنفات کا ذکر کیا جاتاہے۔ جن میں سے مندرجہ ذیل کتب اہم ہیں:
1. الأجوبة الفاخرة عن الأسئلة الفاجرة في الردّ علی الیہود والنصارٰی
2. الإحکام في تمییز الفتاوٰی عن الأحکام وتصرفات القاضي والإمام
3. تنقیح الفصول في الأصول
4. الذخیرۃ ۱۴ جلدوں میں تحقیق کے ساتھ المغرب سے شائع ہوچکی ہے۔
5. الفروق جس کا پورا نام ہے: ''أنوار البروق في أنواء الفروق''
6. نفائس الأصول في شرح المحصول
7. الیواقیت في أحکام المواقیت
کتاب الفروق کا تعارف
امام سیوطی نے علم الفروق کا تعارف ان الفاظ سے کیا:
''وہ علم جس میں ایسے مسائل کے بارے میں فرق بیان کیا جاتا ہے جو بظاہر ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں لیکن اپنے سبب اور حکم کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔''
اس لحاظ سے اس علم کے لیے فقہ سے اتنی گہری ممارست ہونی چاہئے کہ فقیہ اُن اسباب کی تہ تک پہنچ سکے جو حکم میں مؤثر ہوتی ہیں،کیونکہ اس طرح ہی دو متشابہ مسائل کے درمیان فرق کا پتہ چل سکتا ہے، اس علم کی اساس دو ستونوں پرقائم ہے:
1. قواعد ِکلیہ اور2.مقاصد ِشرعیہ کا جاننا: قواعد ِکلیہ سے مراد وہ اصطلاحی تعریفات ہیں جو فقہی انداز میں چند قانونی اُصولوں کو انتہائی جامعیت اور اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اور جنہیں فقہا شریعت کے مختلف دلائل سے اَخذ کرتے رہے ہیں۔
شیخ مصطفی الزرقا لکھتے ہیں کہ فقہا کی اصطلاح 'قواعد' اور قرافی کے مذکورہ 'قواعد' میں فرق پایا جاتا ہے۔ قرافی کے نزدیک دو متشابہ موضوعات میں بنیادی احکام کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔اس کا اندازہ اُن کے لگائے ہوئے عنوانات سے ہوجاتا ہے مثلاً اُن کے چند عنوانات ملاحظہ ہوں:
1. شہادت اور روایت میں فرق 2. قاعدہ 'انشائ' اور قاعدہ 'خبر' میں فرق 3. ان دو قواعد میں فرق
وہ مسائل جن میں جہالت اور ناواقفیت مؤثر ہوتی ہے اور وہ مسائل جہاں وہ مؤثر نہیں ہوتی ہے۔ گویا قاعدہ سے مراد ایک خاص موضوع میں بنیادی حکم مقصود ہوتا ہے ، نہ کہ اصطلاحی معنی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کتاب میں ایسے فقہی قاعدے اور دستوری نکات بیان نہیں ہوئے کہ جنہیں قواعد و ضوابط اور اسباب و علل کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے۔
اس کتاب کا دوسرا ستون مقاصد ِشرعیہ ہیں۔ یہ وہ علم ہے کہ جس کی جڑیں صحابہ کرام کے فتاویٰ اور فیصلوں میں دیکھی جا سکتی ہیں اور جو امام شاطبی ؒکی 'الموافقات' میں پورے جوبن پر نظر آتا ہے۔ گو اُن کے راستے میں فقہی مذاہب سے قابل مذمت تعصب اور اجتہاد کے دروازوں کو بند کردینے جیسی رکاوٹیں حائل تھیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مالکی مذہب میں شریعت کے مقاصد کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
ابوبکر بن العربی (۵۴۳ھ) کہتے ہیں:
''امام شافعی اور دوسرے ائمہ شریعت کو اس نگاہ سے نہیں دیکھتے کہ جس سے امام مالکؒ سے دیکھتے ہیں، اور وہ مصلحت اور مقاصد کا خاص خیال نہیں رکھتے بلکہ ظاہری اُمور پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔'' (احکام القرآن:۲؍۶۲۳)
امام ذہبیؒ نے امام مالکؒ کی سیرت میں لکھا ہے :
''بہرصورت مالکی فقہ کا کیا کہنا کہ امام مالک کی اکثر آراء درست پائی گئیں۔ اُن کے اعزاز کے لیے یہی کافی ہے کہ اُنہوں نے حیلوں بہانوں کا چور دروازہ اُٹھا کے بند کردیا اور مقاصد کی طرف خاص توجہ دی۔'' [سیر اعلام النبلاء : ۸؍۹۲]
امام ابن تیمیہ نے بھی اجمالاً اس بات کا ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
''مدینہ نبویہ کے رہنے والوں کا مذہب مشرق و مغرب کے تمام شہروں کے رہنے والوں کے مذہب سے زیادہ صحیح ہے، اُصول میں بھی اور فروع میں بھی۔'' (صحۃ أصول مذہب أہل المدینۃ:ص۱۹)
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ القرافی نے اس فن کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے اپنے شیخ عزالدین بن عبدالسلام سے خاص طور پراستفادہ کیا ہے۔اور فقہ مقاصد کے ضمن میں اُن کی آراء چار طرح پر ظاہر ہوتی ہیں:
1. مقاصد اور اس کی تمام اقسام کی تعریف بیان کرنا اور پھر دلائل میں تعارض کے وقت مقاصد کی بنیاد پر حکم کا لگانا۔
2. اَحکام کو مقاصد کے ساتھ مربوط کرنا۔ مثلاً اُن کا یہ کہنا کہ مال کی حفاظت کے لیے چور کا ہاتھ کاٹا جانا، نسب کی حفاظت کے لیے سنگسار کیا جانا، عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے کوڑے مارنا اور ان میں پھر اہمیت کے اعتبار سے ترتیب کو ملحوظ رکھنا۔
3. اکثر قواعد اور فروق میں مصالح اور مفاسد کا خیال رکھنا اور ان دونوں میں توازن کے اعتبار سے کسی چیز پر حکم لگانا۔
4. سدالذرائع (یعنی حرام چیز کی طرف جانے والے راستوں کا بند کرنا) اور اس کی تمام اقسام کا خاص خیال رکھنا۔
یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جن فقہا نے مقاصد شریعت کو ملحوظ رکھا ہے، اُنہوں نے اجتہاد کا راستہ اختیا رکیا ہے۔ گو ان کی نسبت کسی ایک فقہی مذہب کی طرف رہی ہے، لیکن اس معاملہ میں وہ کسی ایک مذہب کی تقلید نہیںکرتے بلکہ دلیل کی روشنی میں مقصد ِشریعت کی رعایت ملحوظ خاطررکھتے ہوئے حکم لگاتے ہیں۔ ہمیں یہ طرزِ استدلال مندرجہ ذیل تمام کتب میں نظر آتا ہے :
ابن عبدالسلام کی القواعد الکبرٰی
ابن رُشد کی بدایة المجتہد
الغزالی کی غیاث الأمم
ابن تیمیہ کی القواعد الفقہیه النورانیة اور السیاسة الشرعیة
ابن قیم کی زاد المعاد، إعلام الموقعین اورالطرق الحکمیة في السیاسة الشرعیة
الکاسانی کی بدائع الصنائع
القرافی کی الذخیرہ اور الفروق
ابن دقیق العید کی شرح عمدة الأحکام
الشاطبی کی الموافقات
شریعت کے مقاصد کی پاسداری میں جہاں ابن عبدالسلام، امام ابن تیمیہ اور شاطبی رحمہم اللہ نے موضوع کو خوب نکھارا ہے، وہاں امام القرافی کی گہری بصیرت اُن موضوعات میں بھی نظر آتی ہے جو اُن کی فکر ِثاقب کانتیجہ ہیں۔ مثلاً اُنہوں نے زمانے کی تبدیلی کی بنا پر فتویٰ میں تبدیلی کی اہمیت کو اُجاگر کیاہے اور ان جامد فقہا پر نکیر کی ہے جو کتابوں میں تحریر شدہ 'عبارت' سے سرمُو تجاوز کرنا پسند نہیں کرتے۔ اور اس طرح اُنہوں نے نبیﷺ کے اقوال اور افعال میں موقع و محال کی مناسبت سے تفریق کی ہے جسے فرق نمبر ۳۶ میں واضح کیا گیاہے یعنی کون سے اقوال و افعال کا تعلق بحیثیت امیر و حاکم کے ہے اور کن کابحیثیت ِقاضی سے، اور کون سے عمومی حیثیت کے حامل ہیں جو تبلیغ دین یا فتویٰ کے ضمن میں آتے ہیں؟ تیسرے یہ کہ اُنہوں نے جابجا مصالح و مفاسد کا اعتبار کیاہے کہ جس کی ضرورت ہر زمانے میں رہی ہے۔
یہاں اس بات کا خیال رہے کہ فقہ المقاصد کا یہ فنِ عظیم ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور اس میدان میں صرف وہی اہل علم اُتر سکتے ہیں جو شریعت کی گہری بصیرت رکھتے ہوں تاکہ کہیں قرآن و سنت کی محکم نصوص، تغافل کا شکار نہ ہوجائیں۔ مقصد ِشریعت آیا مقصد ہے یا نہیں؟ اس نتیجہ تک پہنچنے کے لیے پہلے تو تمام نصوص کا احاطہ کیا جاتا ہے جسے منہج استقرائی سے تعبیر کیا جاتاہے اور پھر جزئی احکام کو ایک ایسے عمومی قانون کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جس شریعت میں بے شمار دلائل اور شواہد موجود ہوتے ہیں، تب کہیں جاکہ اُسے شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد شمار کیا جاسکتا ہے ، اور بقول امام شاطبیؒ:
''شرعی مقصد، شریعت ہی کا وضع کردہ ہے اوراس طرح لوگوں کو خواہشات کی پیروی سے نکالنا مقصود ہوتا ہے تاکہ جس طرح اضطراری طور پر ایک شخص اللہ کا بندہ ہے ، اسی طرح اختیاری طور پر بھی وہ اللہ کا بندہ بن سکے۔''
آئندہ سے ہم ہر شمارے میں کسی دو باہم متقارب اصطلاحات کے مابین 'فروق' کو ایک ایک کرکے قارئین محدث کی خدمت میں پیش کریں گے۔ اِن شاء اللہ
جامعۃ لاہور الإسلامیۃ کے علمی مجلے ماہنامہ 'رشد' لاہور کی
'علم القراء ات' پر تین خصوصی اشاعتیں
اُردو زبان میں قراء ات کا انسائیکلوپیڈیا مجموعی صفحات : ۳ ہزار تقریباً
تمام مکاتب ِفکر کے فتاویٰ شخصیات و تاریخ قراء ات شجرہ ہائے قراء ات
قراء ات پر مستشرقین اور منکرین کے اعتراضات او ران کے شافی جوابات
نامور قراء کے انٹرویوز دنیا بھر میں مطبوعہ مصاحف ِقراء ات کی عکسی نقول
پتہ برائے خریداری:
۹۹؍ جے ماڈل ٹائون، لاہور... فون:35839404, 35866476