قانونِ توہین رسالت ؐاور عاصمہ جہانگیر کا کردار

ملک میں اِن دنون قانون توہین رسالت کا چرچا ہے، 31دسمبر کو ملک بھر کے کاروباری مراکز میں اسی سلسلے میں ہڑتال بھی کی گئی ہے۔ اس قانون کا پس منظر کیا ہے اور کون لوگ اس قانون کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اس موضوع پر آج سے چند برس قبل لکھا جانے والا ایک ایمان افروز اور دینی غیرت وحمیت سے بھرپور غیر مطبوعہ مضمون ادارہ محدث کے ریکارڈ میں سامنے آیا۔ فاضل مضمون نگار نے تازہ حالات میں اس موضوع پر کئی مضامین لکھنا شروع کئے لیکن خرابی صحت کی بنا پر کسی ایک کو بھی مکمل نہ کرسکے۔ زیر نظر مضمون سپریم کورٹ بار کی موجودہ صدر عاصمہ جہانگیر کے مذموم کردار کے حوالے سے ہے۔ نا معلوم اس اہم منصب پر فائز ہونےکے بعد ان مہینوں میں توہین رسالت کے قانون کے خلاف منصوبہ بندی میں کن کن مزید کرداروں کا بھی ہاتھ شامل ہوچکا ہو؟ بہرحال یہ مضمون اپنے موضوع پر نادر معلومات اور ایمان پرور جذبات کا بے مثال اظہار ہے۔ ح م
تعزیراتِ ہند میں'۲۹۵؍ الف' کا اضافہ اگر راج پال کی گستاخانہ حرکت کا نتیجہ تھا، تو تعزیراتِ پاکستان میں '۲۹۵؍سی' کا ظہور راج پال کی فکری اولاد عاصمہ جہانگیر کی رسالت مآب ﷺ کی شان میں دریدہ د ہنی کی وجہ سے ہوا۔ ان دونوں دفعات کے قانون کا حصہ بننے کے عمل میں ۵۹ برس حائل ہیں، لیکن ان کے پس منظر میں حیران کن حد تک مماثلت ہے۔ تفصیل اس اجمال کی حسب ِذیل ہے ...
تعزیراتِ ہند ۱۸۶۰ء کی 'دفعہ ۲۹۵' کی رو سے کسی بھی جماعت کی عبادت گاہ کی تذلیل کے مرتکب افراد کو دو سال تک قید کی سزا دی جاسکتی تھی۔ اس دفعہ میں کسی جماعت کے مذہبی جذبات واعتقادات اور بانیانِ مذہب کی توہین کے متعلق وضاحت کے ساتھ ذکر موجود نہیں تھا۔ اس اِبہام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے اور بانیانِ مذاہب کی توہین کے مرتکب افراد قانونی موشگافیوں کی بنا پر عدالتوں سے بری ہوجاتے تھے۔ ۱۹۲۷ء میں بد بخت ہندو ناشر راج پال کی طرف سے 'رنگیلا رسول' کے عنوان سے نہایت گھٹیا، توہین آمیز اور بے حد دل آزار کتاب کی اشاعت پر بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تو ملعون راج پال کی اس گستاخانہ جسارت کے خلاف ردّ عمل کے نتیجے میں حکومت ہند نے تعزیراتِ ہند کی دفعہ ۲۹۵ میں '۲۹۵؍الف' کا اضافہ کیا ،جس کی رو سے کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی جذبات کی بے حرمتی (تحریری یا زبانی( کے مرتکب مجرموں کے لئے دوسال تک کی سزا مقرر کی گئی۔
اس ترمیم یا اضافی دفعہ میں بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کے مرتکب افراد کے لئے سزائے موت کو قانون کا حصہ بنانے کے دیرینہ مطالبے کو منظور نہ کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہی قانون بر قرار رہا ۔
بالآخر ۱۷؍مئی ۱۹۸۶ء کو خواتین محاذِ عمل کے سیمینار منعقدہ اسلام آباد میں عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کی طرف سے حضور اکرم ﷺ کی شانِ مبارکہ میں نازیبا الفاظ کے استعمال نے مسلمانوں کے بر انگیختہ جذبات کو شعلہ جوالہ کا روپ عطا کردیا۔ تحفظ ِناموسِ رسالتؐ کی تحریک نے ایک دفعہ پھر زور پکڑا۔ بالآخر ۱۹۸۶ء میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵۔ سی کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت حضرت محمدﷺکے نامِ اقدس کی توہین کے مرتکب مجرموں کے لئے سزائے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی۔
راج پال سے عاصمہ جہانگیر تک
۱۹۲۷ء کی بات ہے، دریدہ دہن، بدبخت متعصب ہندو راج پال جس نے حضور اکرم ﷺ کے متعلق مذکورہ بالا بے حد اہانت آمیز کتاب شائع کی تھی، اسے لاہور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے جرم میں چھ ماہ قید کی سزا دی۔ اس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے راج پال ملزم کو بری کرتے ہوئے تحریر کیاکہ
''کتاب کی عبارت کتنی ہی نا خوشگوار کیوں نہ ہو، اس سے بہرحال کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔''
اس فیصلہ نے مسلمانوں کی آتش ِغضب کو اور بھڑکادیا۔ مسلمانوں کے احتجاج نے تحریک کی صورت اختیار کرلی۔ 'مسلم کرانیکل'نے اس فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا :
''جج کنور دلیپ سنگھ نے قانون کی غلط تشریح کی ہے، ورنہ قانون میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ وہ راج پال جیسے دریدہ دہن، بے غیرت، گستاخ کا منہ بند کرے ،کیونکہ اس سے بڑھ کر مذہبی دل آزاری کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس سے دنیا کا اور بالخصوص برصغیر کا ہر مسلمان دل گرفتہ اور اپنے رسول ﷺ کے ناموس پر کٹ مرنے کے لئے بے چین ہے۔ اگر عدالت نے اس فیصلہ پر نظر ثانی نہ کی تو کوئی مجاہد اُٹھ کھڑا ہوگا جو اس گستاخ کا سرقلم کر دے گا۔''
بالآخر یہ سعادت غازی علم الدین شہید کے حصے میں آئی...!
مسلمانانِ بر صغیر پاک وہند دشمنانِ اسلام کی گستاخانہ جسارتوں اور توہین رسالتؐ کے واقعات کے خلاف سراپا احتجاج اور دل گرفتہ تھے۔ ان کی طرف سے پر زور مطالبہ کیا جارہا تھا کہ تعزیراتِ ہند میں 'توہین ِرسالت' کی سزا کی دفعہ بھی شامل کی جائے۔ انہی دنوں لاہور کی شاہی مسجد میں ایک عظیم اجتماع ہوا، جس میں ایک محب ِرسولؐ مسلمان راہنما نے خطاب کرتے ہوئے کہا :
''عزیزو! میں کوئی وکیل یا قانون دان نہیں۔ قانون کے بارے میں جو کچھ بھی سیکھا ہے، وہ عدالت کے کٹہرے میں ملزم کی حیثیت سے کھڑے ہوکر سیکھا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آئندہ ایسے فتنوں کے سد ِباب کے لئے اس قانون ہی کو بدلوا دیں اور تعزیراتِ ہند میں ایک مستقل دفعہ کا اضافہ کر کے توہین بانیانِ مذہب کو جرم قرار دیا جائے۔ اب تک کوئی ایسی مستقل سزا آپ کے ملک کے قانون میں موجود نہیں جو اس ملک کے باشندوں کے فرقوں کی دل آزاری پر دی جا سکے۔ اس قانون کا مسودہ میں تیار کیے دیتا ہوں۔ اسمبلی کے ممبر اس میں مناسب ترمیم کرکے ایوان میں پیش کریں اور منظور کرائیں۔ اس طرح آقااور ہادی ﷺ اور ان کے ساتھ دوسرے مذاہب کے محترم پیشوائوں کی شخصیتیں بھی بد زبانی اور بے لگام لکھنے والوں کے حملوں سے محفوظ ہو جائیں گی۔ علمی رنگ میں کسی مذہب یا تاریخی حیثیت سے کسی بانی ِ مذہب پر تنقید کرنا ایک الگ بات ہے، اس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہئے۔ لیکن کھلی توہین جو کسی مذہب کے بارے میں ہو، اسے آج ہندوستان کے قانون میں قطعی جرم قرار دے کر اس کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہوگا۔''
یہ محب ِرسول ﷺ مسلمانوں کا وہ عظیم قائد تھا جسے دنیا محمد علی جوہرؒ کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج کے پیش نظر برطانوی حکومت نے قانون سازی پر آمادگی ظاہر کی۔ ۱۹۲۷ء میں مولانا محمد علی جوہر کی تحریک پر مسلمان اراکین مرکزی قانون ساز اسمبلی کی تائید سے تعزیراتِ ہند میں دفعہ ۲۹۵۔ الف کا اضافہ کیا گیا، جس کی رو سے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کی سزا دو سال مقرر کی گئی۔ (ناموسِ رسول: صفحہ ۴۱۳)
اس دفعہ میں بھی واضح طور پر بانیانِ مذہب کی توہین کی بات شامل نہیں تھی۔ مسلمانوں نے اس پرعدمِ اطمینان کا اظہار کیا، کیونکہ ان کے نزدیک توہین ِرسالت ناقابل معافی جرم ہے، جس کی سزا صرف موت ہے !!
۱۹۴۷ء میں اسلام کے نام پر پاکستان قائم ہوا۔ لیکن کتاب وسنت کی روشنی میں توہین رسالتؐ کے متعلق کسی قسم کی قانون سازی نہ کی گئی۔ بے حد تعجب کی بات ہے کہ اسلامی مملکت پاکستان میں بھی اسلام دشمن عناصر کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں۔ سیکولر اور مذہب بیزار حکمرانوں نے 'رواداری اور وسعتِ ظرفی' کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام اور پیغمبراسلام ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائیوں پر مجرمانہ چشم پوشی کی۔
قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی سرگرمیوں کا ارتکاب زیادہ تر قادیانی فرقے کی طرف سے کیا گیا۔ مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ قادیانیت کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے جرم میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒاور مولانا عبد الستار نیازی کو وقت کے حکمرانوں نے سزائے موت دینے کا اعلان کیا۔ یہ بے حد ستم ظریفی ہے کہ ایک اقلیتی فرقے کے خلاف 'منافرت' پھیلانے کے جرم میں مسلمانوں کے عظیم راہنمائوں کو موت کی سزا سنائی گئی۔ لیکن 'محسن انسانیتﷺ'کی توہین اور اُمت ِمسلمہ کی دل آزاری کے مرتکب افراد کو قرارِ واقعی سزا دینے کے لئے فرنگی سامراج کے قانون کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔
تحفظِ ناموسِ رسالت کے متعلق شرعی سزا کے عدم نفاذ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاتمانِ رسولؐ نے اپنی گستاخیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور شمع رسالتؐ کے پروانوں نے بھی ان کی ناپاک زبانوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کی روایات کو زندہ رکھا۔ ۱۹۶۱ء میں ایک عیسائی مبلغ پادری سموئیل نے مغل پورہ ورکشاپ میں دورانِ تبلیغ آنحضور ﷺ کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ استعمال کیے، جس پر مشتعل ہوکر زاہد حسین نامی نوجوان نے اس گستاخ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۱۹۶۴ء میں عیسائی مشنری کی مشہور دکان 'پاکستان بائبل سوسائٹی' انار کلی نے 'اثمارِ شیریں' کے نام سے ایک کتاب شائع کی، جس میں رسولِ کریم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز مواد موجود تھا۔ مسلمان نوجوانوں کے ایک گروہ نے اس دکان کو آگ لگادی اور اس کے منیجر ہیکٹر گوہر مسیح پر قاتلانہ حملہ کیا، لیکن وہ بال بال بچ گیا۔
۱۹۸۳ء میں مشتاق راج نامی ایڈووکیٹ، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ قادیانی ہے، نے 'آفاقی اشتمالیت' کے نام سے کتاب تحریر کی۔ اس کتاب میں انبیاے کرام علیہم السلام کی ذواتِ مقدسہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی اور انتہا یہ کہ حضور رسالت مآب ﷺ کی شانِ اقدس میں بھی گستاخانہ جسارت کی گئی تھی۔ ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرار داد کے نتیجے میں حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرنے کے احکامات جاری کئے۔ مشتاق راج کے خلاف توہین مذہب کے جرم میں زیر دفعہ ۲۹۵۔ الف تعزیراتِ پاکستان مقدمہ درج کر لیا گیا، کیونکہ تعزیراتِ پاکستان میں 'توہین ِرسالت' جیسے سنگین اور انتہائی دل آزار جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ اسی لئے مشتاق راج کی گرفتاری عمل میں نہ آئی جس سے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ تمام اسلامی مکاتب ِ فکر کے علما اور ممتاز قانون دانوں نے کانفرنس منعقد کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اسلام میں توہین رسالت کی سز ا ، سزائے موت مقرر کی جائے!
مشتاق راج کی گستاخانہ جسارت کے خلاف مسلمانوں کے جذبات ابھی گرم ہی تھے کہ عاصمہ جہانگیر کی طرف سے ۱۷؍مئی کو پیغمبر اسلام کی شان میں سخت بے ادبی کا مذموم واقعہ پیش آیا۔اس حیا باختہ عورت نے معلم انسانیت ﷺ کو (اس کی منہ میں خاک)'اَن پڑھ' کہہ دیا۔ یہ ہفواتی بکواس عاصمہ نے افرنگ زدہ،آوارگی ٔ نسواں کی علمبردار عورتوں کے اسلام آباد میں منعقد کردہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ روزنامہ جسارت کی رپورٹ کے مطابق :
'خواتین محاذِ عمل اسلا م آباد کے ایک جلسے میں صورتِ حال اس وقت سنگین ہو گئی، جب ایک خاتون مقرر عاصمہ جیلانی نے شریعت بل کیخلاف تقریر کرتے ہوئے سرورِ کائنات ﷺ کے بارے میں غیر محتاط زبان استعمال کی۔
اس پر ایک مقامی وکیل نے احتجاج کیا اورکہا کہ رسولِؐ خداکے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔جس پر دونوں کے درمیان تلخی ہو گئی اور جلسے کی فضا کشیدہ ہو گئی۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنی تقریر میں 'تعلیم سے نابلد' اور 'ان پڑھ' کے الفاظ استعمال کیے تھے۔'' (جسارت ،کراچی ۱۸؍مئی ۱۹۸۴ء)
عاصمہ جہانگیر ا س وقت عاصمہ جیلانی کہلاتی تھی۔اس سیاہ بخت نے محسن انسانیت ﷺ کے لیے جان بوجھ کر وہی لفظ استعمال کیا جو یورپی مستشرقین اسلام او ر پیغمبر اسلام ﷺ کی تحقیر اور اہانت کی غرض سے کرتے ہیں۔جس سیمینار میں عاصمہ نے یہ الفاظ ادا کیے، وہ شریعت بل کی مخالفت میں ہو رہا تھاا ور ظاہر ہے ایسی مخالفانہ فضا میں ان الفاظ کی کوئی دوسری تاویل یا تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی سیمینار کے حاضرین کے مطابق عاصمہ کی تقریر کاسیاق وسباق ایسا تھا جس میں اس کا کوئی اور مفہوم لیا جاسکتا ہو۔ اس سیمینار میں سب 'پڑھے لکھے' لوگ تھے افسوس کوئی ترکھان کا بیٹا غازی علم الدین شہید نہ تھا جو اس گستاخِ رسول زبان کو بند کرانے کے لیے عملی اقدام کر گزرتا۔
بہر حال عاصمہ کے الفاظ مسلمانوں کی سخت دل آزاری کا باعث بنے، جس پر سیمینار میں شدید ہنگامہ برپا ہوگیا۔ جس طرح ۱۹۲۷ء میں راج پال کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کا لاوا بھڑک اُٹھا تھا ،بالکل اسی طرح اس بدبخت عورت کی دریدہ دہنی سے پاکستان کے مسلمانوں میں اضطراب اور غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ راج پال تو ایک متعصّب ہندو تھا ،لیکن اب کی بار گستاخانہ جسارت کا ارتکاب ایک ایسی عورت کی طرف سے کیا گیا، تھا جو ایک قادیانی ہونے کے باوجود اپنے 'مسلمان'کہلوانے پر مصر ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے خلاف احتجاج بالآخر تعزیراتِ پاکستان میں ۲۹۵۔ سی کے اضافے پر منتج ہوا۔ جناب محمد اسمٰعیل قریشی نے اپنی معرکہ آراء تصنیف 'ناموسِ رسولؐ اور قانونِ توہین رسالت' میں اس واقعے کا پس منظراس طرح بیان کیا ہے:
'اس کے بعد ماہ مئی۱۹۸۶ء میں ایک خاتون ایڈووکیٹ عاصمہ جیلانی نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے معلم انسانیت حضور ختمی مرتبت ﷺ کے بارے میں 'ناخواندہ'(Illiterate)اور 'تعلیم سے نابلد' جیسے نازیبا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کیے، جو سامعین اور تمام اُمت ِمسلمہ کی دل آزاری کا باعث تھے۔ جس پر راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے معزز اراکین میں عبد الرحمن لودھی اور ظہیر احمد قادری ایڈووکیٹ نے سخت احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ وہ ان توہین آمیز الفاظ کو واپس لے کر اس گستاخی پر معافی مانگے، لیکن اس کے انکار پر سیمینار میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔
جب یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو راقم الحروف کی تجویز پر ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کا ایک غیر معمولی اجلاس لاہور میں منعقد ہوا، جس میں عاصمہ جہانگیر کی اس قابل اعتراض تقریر پر انتہائی غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر توہین رسالت کی سزائے حد کو پاکستان میں نافذ کرے اور اس جرم کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دے، ورنہ اس کے سنگین نتائج کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔
راقم الحروف کی درخواست پر لاہور میں وکلا اور علما کا ایک مشترکہ اجلاس ماہ جون ۱۹۸۶ء میں منعقد ہوا، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے سر بر آور دہ علما اور ممتاز قانون دان حضرات نے شرکت کی اور متفقہ طور پر حسب ِذیل قرارداد منظور کی گئی:
''ہم دین اور قانون سے وابستہ لوگ برملا اس کا اعلان کرتے ہیں کہ سرزمین پاکستان کا کوئی مسلمان اس ملک میں اسلام اور پیغمبر ؐاسلام کے بارے میں کسی قسم کی اہانت آمیز بات کو کسی نوع برداشت نہیں کر سکتا اور نہ ہی سیکولر ذہن رکھنے والے عناصر کو یہ اجازت دینے کے لئے تیار ہے کہ وہ یہاں اپنی مذموم اور شرانگیز سرگرمیوں کو جاری رکھے اور فتنہ وفساد پھیلانے کی کوشش کرے۔ ہم واشگاف الفاظ میں ان عناصر کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے سے باز آجائیں ورنہ اس کے نہایت سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔''
اس قرار داد پر مولانا عبد الستار خان نیازی، علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ، علامہ علی غضنفر کراروی صدر اتحاد بین المسلمین، ڈاکٹر خالد محمود صدر جمعیت علماے برطانیہ، میاں محمد اجمل قادری امیر انجمن خدام الدین، مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ ناظم دار العلوم جامعہ نعیمیہ لاہور، مولانا عبد المالک شیخ الحدیث علومِ اسلامیہ منصورہ، مولانا عبد الرحمن مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، مولانا محمد اجمل خان نائب صدر جمعیت علماے اسلام، مولانا گلزار احمد مظاہری ؒصدر جمعیت اتحاد علماے پاکستان اور دیگر علماے کرام نے دستخط کیے۔
ان کے علاوہ ممتاز وکلا نے بھی اس قرار داد پر اپنے دستخط ثبت کیے۔ جس کے بعد یہ قرارداد حکومت پاکستان، صوبائی حکومتوں اور اراکین قومی اسمبلی کو بھیجی گئی ۔
۲۹۵سی کی منظوری
قریشی صاحب مزید لکھتے ہیں :
''عاصمہ جہانگیر کی اس قابل اعتراض تقریر کا نوٹس سب سے پہلے قومی اسمبلی میں اسلامی جذبہ سے سرشار خاتون ایم این اے محترمہ نثار فاطمہ نے لیا اور اُنہوں نے وہاں پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھائی کہ عاصمہ جہانگیر کے ان توہین آمیز الفاظ کے خلاف حکومت فوری کاروائی کرے، لیکن چونکہ اس وقت قانون میں توہین رسالت کے جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی، اسی لیے اس کے خلاف کوئی مؤثر کاروائی نہ ہو سکی۔''
فدایانِ رسولِ عربی ﷺ کی جدو جہد کے سامنے حکومت نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ۱۹۸۶ء میں تعزیراتِ پاکستان میں ترمیم کی۔ فوجداری قوانین میں ترمیمی ایکٹ پاس کیا گیا اور دفعہ ۲۹۵۔ سی کا اضافہ کیا گیا جو توہین ِرسالت کے جرم پر عمر قید یا موت کی سزا مقرر کرتا ہے۔ ۲۹۵۔ سی کتاب وسنت پر مبنی مسلمانوں کے مطالبہ کی حرف بہ حرف تکمیل نہیں تھا، کیونکہ اس میں توہین رسالت کے جرم کی واحد سزا، سزائے موت کے ساتھ ساتھ 'عمر قید' کو بھی بطورِ سزا شامل کیا گیا تھا۔ لہٰذا مسلمانوں کی طرف سے اس پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔
لیکن دشمنانِ دین مبین پر بالعموم اور عاصمہ جہانگیر پر بالخصوص حکومت کی طرف سے یہ نیم دلانہ قانون سازی بھی بے حد شاق گذری۔ قادیانی اُمت کے ذہین دماغوں نے اس قانون کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مذموم پراپیگنڈہ کے لئے جامع منصوبہ بندی کی اورقادیانی ذرائع ابلاغ نے اسے آزادئ مذہب اور آزادئ اظہارِ رائے کے بنیادی حقوق کے منافی ہونے کا واویلا کیا۔ امریکہ اور یورپ میں متحرک قادیانی تنظیموں نے اپنے مربی و سرپرست مغرب کو متاثر کرنے کے لئے اسے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ڈکلریشن کی خلاف ورزی قرار دیا۔ مغرب کے مذہب بیزار طبقہ، جو 'انسانی حقوق' کے مغربی 'ورژن' کو گذشتہ چند عشروں سے اپنا 'دین ومذہب' سمجھے ہوئے ہے، پر اس بے بنیاد پراپیگنڈہ کا فوری اثر ہوا۔
ویسے بھی مغربی صہیونی لابی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بدنام کرنے کے بہانوں کی تلاش میں رہتی ہے اور برطانوی استعمار کے ' کاشت کردہ' قادیانی پودے کی حفاظت کے لئے اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال کرنا فرضِ عین سمجھتی ہے۔ مغرب کی پاکستان دشمنی عاصمہ جہانگیر جیسے اسلام دشمن افراد کے لئے اپنے فریب کا جال بچھانے کوبے حد حوصلہ افزا ثابت ہوئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن کاقیام ؛ قانونِ توہین رسالت کی مخالفت
عاصمہ جہانگیر نے مغربی سرپرستوں کی آشیر باد کے ساتھ جسٹس درّاب پٹیل کے ساتھ مل کر ۱۹۸۷ء میں 'پاکستان انسانی حقوق کمیشن' کی داغ بیل ڈالی۔ قادیانی حقوق کا تحفظ اس کمیشن کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔۲۴؍اپریل ۱۹۸۷ء کو عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا :
''کمیشن کو نہ صرف ۱۹۷۳ء کے آئین میں مندرجہ انسانی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کرنی ہے بلکہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج کئے گئے انسانی حقوق کا آئیڈیل حاصل کرنا ہے۔ کمیشن کو بہت سے ایسے قوانین کو منسوخ کرانے کی کوشش بھی کرنا ہوگی جو یک طرفہ ہیں۔ اُنہوں نے اس ضمن میں حدود آرڈیننس، قانونِ شہادت میں مرد وعورت کی حیثیت، غیر مسلموں کو مسلمانوں کی شہادت اور عورت کو مرد کی گواہی پر سزا، قادیانیوں اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والا قانون، قانونِ توہین رسالت اور جداگانہ انتخابات جیسے قوانین کا ذکر کیا۔'' (نوائے وقت: ۲۵؍ اپریل ۱۹۸۷ء)
۱۹۸۶ء میں قانونِ توہین رسالت کے نفاذ کے بعد عاصمہ جہانگیر کی طرف سے شدید جذباتی ردّ عمل سامنے آیا ہے۔ اس قانون کو ختم کرانا اس کی زندگی کا اہم ترین نصبُ العین معلوم ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے انسانی و مادی ذرائع کو اس نے اس مقصد کے حصول میں بھرپور استعمال کیا ہے۔ کمیشن کی طرف سے جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹوں کے علاوہ سیمینار، انٹرویو اور جلسے جلوسوں کے ذریعے اس نے اس قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' اور مغرب میں انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں سے قریبی تعلقات استوار کرتے ہوئے ان اداروں کی طرف سے پاکستانی حکومت پر ۲۹۸ اور ۲۹۵۔ سی کو واپس لینے کے لئے دباؤ ڈلوایا۔
۱۹۸۷ء سے لے کر آج تک 'ایمنسٹی انٹرنیشنل'کی ایک بھی سالانہ رپورٹ ایسی نہیں ہے جس میں پاکستانی قادیانیوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی بے بنیاد، من گھڑت اور شرانگیز واقعات کی داستانوں کا طویل تذکرہ اور پاکستانی حکومت سے احمدیوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ شامل نہ ہو۔ 'ایمنسٹی انٹرنیشل' کی رپورٹوں کے گہرے مطالعے کے بعد یہ اندازہ کرنا زیادہ مشکل امر نہیں ہے کہ ان رپورٹوں کا اصل ماخذ ومصدر عاصمہ جہانگیر کی زیر سرکردگی کام کرنے والا 'انسانی حقوق کمیشن' ہے۔ انسانی حقوق کمیشن اور 'ایمنسٹی انٹرنیشنل'کی رپورٹوں میں حیران کن حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔
۱۹۹۴ء میں'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کی رپورٹ کا ایک مفصل باب قادیانیوں کے بارے میں تھا، جس کا ترجمہ قادیانی رسالہ 'الفضل' نے اپنی یکم جولائی ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں 'پاکستان میں جماعت ِاحمدیہ پر مظالم کے سلسلہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ ' کے عنوان سے شائع کیا۔ اس رپورٹ میں ۲۹۵۔ سی،۲۹۵۔بی اور ۲۹۵۔ سی کا مفصل ناقدانہ جائزہ لینے کے بعد حکومت ِپاکستان سے درج ذیل سفارشات کی گئی ہیں:
''ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بارہا حکومتِ پاکستان سے احمدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ستمبر ۱۹۹۱ء میں ايمنسٹی نے ایک رپورٹ 'پاکستان میں احمدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی' شائع کی، جس میں جماعتِ احمدیہ کے افراد پر اپنے مذہبی حقوق کی پر امن طور پر ادائیگی کے نتیجہ میں مقدمہ بازی کے جاری رہنے اور جیل کی سزائیں دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے :
''ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستان میں نت نئی کڑی قانون سازی کی وجہ سے جماعتِ احمدیہ کے افراد کو محض اظہارِ رائے کی آزادی کے حق اورمذہبی آزادی کے حق کو استعمال کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا جا سکتا اور پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے۔''
اس رپورٹ کا یہ جملہ ملاحظہ کیجئے :
''توہین رسالت یا بعض گروہوں کے مذہبی جذبات کے مجروح کرنے کی مقرر کردہ سزا میں تبدیلی کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جس کے خلاف اس دفعہ کے تحت مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ تاہم خاص طور پر جماعتِ احمدیہ کے افراد کئی سالوں سے اس قانون کی وجہ سے مصیبتیں سہہ رہے ہیں۔''
یہ طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن، جس کے اہم عہدیداروں کی اکثریت کا تعلق قادیانی فرقے سے ہے، کی طرف سے 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کو یہ بنی بنائی رپورٹیں ارسال کی جاتی ہیں اور جب یہ رپورٹیں لندن سے شائع ہوتی ہیں تو پاکستان میں قادیانی لابی انسانی حقوق کے نام پر ان کی بھرپور تشہیر کرتی ہے۔ پاکستانی حکومت پر بے جا دبائو کے قابل مذمت ہتھکنڈے شروع کر دئیے جاتے ہیں۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن عملاً مغربی صہیونی لابی کی اسلام دشمن تنظیموں کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔
سلامت مسیح کیس اور عاصمہ جہانگیر
نومبر ۱۹۹۳ء میں سیکولر مزاج پیپلز پارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد عاصمہ جہانگیر کی توہین رسالت کے قانون کے خلاف سرگرمیوں میں یکدم شدت پیدا ہوگئی۔ خاتون وزیر اعظم سے ذاتی مراسم کو اُس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ ۱۹۹۴ء میں جب سلامت مسیح اور رحمت مسیح پر توہین رسالت ؐکا مقدمہ قائم ہوا تو عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی اپنی روایت کے عین مطابق میدانِ عمل میں کود پڑیں اور بعض مسیحی راہنمائوں اور سیکولر صحافیوں کی جماعت کے تعاون سے اس مقدمے کو پاکستانی پریس میں تشہیر دی۔ یکطرفہ جارحانہ بیان بازی میں حقائق کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی اس معمولی مسئلے کو غیر معمولی طور پر اُچھالا، اوروہ اودھم مچایا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ عاصمہ جہانگیر اور حناجیلانی مغربی ذرائع ابلاغ کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی تھیں۔ آئے دن ان کے انٹرویو اور بیانات سی این این، بی بی سی اور مغربی اخبارات کی زینت بن رہے تھے۔
عاصمہ جہانگیر نے قانونِ توہین رسالتؐ کو بار بار انسانی حقوق کے منافی اور فتنہ قرار دینے کا عمل جاری رکھا،لیکن اس کی اپنی اس فتنہ پردازی کا نوٹس کوئی نہیں لے رہا تھا۔اس کی مسرت آسمان کی بلندیوںکو چھو رہی تھی، جب انہی دنوں پاکستان کی خاتون وزیر اعظم نے گوجرانوالہ میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس کے موقف کی تائید کرتے ہوئے قانونِ توہین رسالت کو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا۔ سلامت مسیح کو جرم ثابت ہونے پر ایڈیشنل سیشن جج گوجرانوالہ نے موت کی سزا سنائی، لیکن جلد ہی حکومت کی مداخلت پر اسے ضمانت پر رہائی ملی۔ برطانوی وزیر اعظم جان میجر کے مشیر فلپ جے پارہم نے جان میجر کی طرف سے پاکستان یونائیٹڈ کرسچین کے سربراہ جارج فیلکس کے نام خط میں پاکستانی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر کیا :
''اگرچہ سلامت مسیح پر مذہبی توہین کا الزام برقرار ہے، مگر یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم بے نظیر کی ذاتی مداخلت کی بنا پر سلامت مسیح کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔'' (روزنامہ جنگ ۹؍ اگست ۱۹۹۴ء)
سلامت مسیح اور رحمت مسیح نے سزائے موت کے خلاف جب لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تو عاصمہ جہانگیر اور مغرب زدہ لابی نے 'پریس ٹرائیل' کا ہنگامہ برپا کر دیا۔ بقول مولانا زاہد الراشدی:
''ہائی کورٹ میں جس تیز رفتاری کے ساتھ اپیل کے مراحل طے کئے گئے اور جو طریق کار اختیار کیا گیا ،اس کی روشنی میں ملزموں کی بریت، رہائی اور بیرونِ ملک روانگی پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔'' ( مجلہ الشریعہ : جنوری ۱۹۹۶ء)
ایوب مسیح کیس، بشپ جان جوزف کی خود کشی اور عاصمہ جہانگیر کا کردار
سلامت مسیح کیس کے بعد پہلی مرتبہ عاصمہ جہانگیر کے مغربی مسیحی تنظیموں سے گہرے مراسم منظر عام پر آئے۔ اس مقدمہ میں مغربی ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی دلچسپی نے عاصمہ جہانگیر کے لئے پاکستان میں مسیحی تنظیموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کا راستہ ہموار کیا۔ اس نے بعض مسیحی راہنمائوں کو قانونِ توہین رسالتؐ کے خلاف تحریک چلانے پر آمادہ کیا۔ اب اس نے توہین رسالتؐ کے مرتکب مسیحی نوجوانوں کے مقدمات میں غیر معمولی دلچسپی لینا شروع کی۔ آنجہانی بشپ جان جوزف کی مبینہ خود کشی کے بعد بعض مسیحی گروہوں کی طرف سے پرتشدد مظاہروں کے پس پشت دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ عاصمہ جہانگیر کا کردار خاصا اہم رہا ہے۔
۱۱؍ مئی ۱۹۹۸ء کو چیف بشپ کیتھ نے اخباری انٹرویو میں عاصمہ جہانگیر کے منفی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :
''چیف بشپ کیتھ نے دکھ کا اظہار کیا کہ عاصمہ جہانگیر جیسے انسانی حقوق کے علمبردار پاکستان میں مسلمانوں اورعیسائیوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ مسیحی افراد سمیت دیگر بشپ حضرات کو بھی غلط گائیڈ کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر پاکستان میں عیسائیوں کے مقدمات تو مفت لڑتی ہیں اور کوئی فیس نہیں لیتیں، لیکن اُنہیں باہر سے 'لمبے پیسے' مل جاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ فرانسس جوزف جیسے لوگ عاصمہ جہانگیر اور ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے پروردہ ہیں۔ فرانسس جوزف جو نہایت غریب آدمی تھا، یہ YMCA لاہور میں ایک چپڑاسی کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ الیگزینڈر جان ملک نے اسے گاڑی اور پیسوں کے ناجائز استعمال کے سلسلے میں وہاں سے نکال دیا تھا اور آج وہ عاصمہ جہانگیر کی بدولت ۱۳؍ لاکھ کی گاڑی میں پھر رہا ہے، اس نے اپنے بچوں کی شادی پر رائے ونڈ میں لاکھوں روپے خرچ کئے۔ ایسے بہت سے لوگ عاصمہ جہانگیر اور دوسرے لوگوں کے آلہ کار ہیں اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔'' (روزنامہ 'آزاد': ۱۱؍مئی ۱۹۹۸ء)
روزنامہ 'خبریں' میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ،انہوں نے کہا کہ
''وہ دفعہ ۲۹۵؍ سی کے تحت دی جانے والی سزائوں کے بارے میں پریشان ہیں اور جلد ہی عاصمہ جہانگیر کے ذریعے اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کریں گے ۔''
روزنامہ جنگ کے صفحہ اوّل پر یہ خبر شائع ہوئی :
''بشپ کی موت میں این جی اوز ملوث ہو سکتی ہیں۔'' (مؤرخہ ۱۲ مئی ۱۹۹۸ء )
۱۳ ؍مئی ۱۹۹۸ء کے 'نوائے وقت' میں چیف بشپ کیتھ لیزی کا یہ بیان شائع ہوا :
''بشپ جوزف کے قتل کے پیچھے امریکی ڈالر اور عاصمہ جہانگیر کے چہرے ہیں۔' '
اسی دن 'خواتین محاذ عمل' جس کی کرتا دھرتا عاصمہ جہانگیر ہیں، کی طرف سے اخبارات میں یہ پریس ریلیز شائع ہوا :
''خواتین محاذ عمل نے توہین رسالتؐ کا قانون فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور خاص طور پر اس کے آرٹیکل ۲۹۵۔ اے سے ڈی تک کو ختم کرنے پر زور دیا ہے، کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ بشپ جان جوزف کی خود کشی سے پاکستان میں اقلیتوں میں پائی جانے والی بے چینی کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو اپنی حمایت کا یقین دلاتا ہے۔''
آنجہانی بشپ جان جوزف کی آخری رسوم میں شریک عیسائیوں سے خطاب کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے یہ اشتعال انگیز بیان داغا :
''۲۹۵۔ سی اور کتنی جانیں لے گا۔ اقلیتوں کے خلاف اس امتیازی قانون کو ختم کیا جائے۔'' (روزنامہ دن: ۹؍مئی ۱۹۹۸ء)
بشپ جان جوزف کی خود کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے مسیحی جلوس سے تقریر کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے ایوب مسیح کیس کی اپیل میں خود پیش ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ انسانی حقوق کی جہاں بھی پامالی ہوئی، وہاں پر احتجاج کے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
ساہیوال سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق، ''توہین رسالتؐ کے ملزم ایوب مسیح کے خلاف مقدمہ کی پیروی کے لئے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کے ذریعے محمد حنیف ڈوگر ایڈووکیٹ کو نامزد کیا گیا۔''  (روزنامہ دن، ہفت روزہ 'تکبیر' ۲۱؍ مئی ۱۹۹۸ء)
عاصمہ جہانگیر کے اصل عزائم کا پردہ چاک ہو چکا۔ اس کی انسانی حقوق کے 'چمپئن' ہونے کی حیثیت بھی مشکوک ہوگئی۔ قومی اخبارات اپنے اداریوں اور مضامین میں عاصمہ جہانگیر کے کردار کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، چند سال قبل یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ روزنامہ 'خبریں' نے اپنے اداریے میں عاصمہ جہانگیر کے منفی کردار پر ان الفاظ میں تنقید کی:
''بشپ جان جوزف کی مبینہ خود کشی کو بہانہ بنا کر عاصمہ جہانگیر اور مسیحی برادری کے بعض زعما توہین رسالتؐ کے قانون کے خلاف جو مہم چلا رہے ہیں، وہ ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر غیر حکومتی ادارے بنانا اور پھر پاکستان، اسلام اور اسلامی قوانین کے خلاف دریدہ دہنی کے ذریعے امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے نقد امداد حاصل کرنا، ان تنظیموں اور افراد کا شیوہ ہے۔ فادر جوزف کی مبینہ خود کشی کو بھی کیش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔''
''عاصمہ جہانگیر کا یہ بیان کہ توہین رسالتؐ کا قانون فتنوں کا باعث ہے، ان کی ذہنی روش اور فکر کا عکاس ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی قبیل کی سبھی عورتوں کو اسلام بطورِ مذہب ہی (نعوذ باللہ) فتنہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ نام نہاد ترقی پسند عناصر امریکی ڈالروں کے لئے اسلام کو گالی دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر (بدقسمتی) سے مسلمان ماں باپ کی اولاد ہیں۔
متعدد مسیحی راہنمائوں نے بھی فادر جوزف کی خود کشی کو مشکوک قرار دیا ہے، لیکن یہ طبقہ اُنہیں 'شہید' قرار دینے پر تلا ہوا ہے، ہماری عاصمہ جہانگیر اور دوسرے حضرات سے بھی گزارش ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے لئے فتنہ وفساد پھیلانے کی کوشش نہ کریں۔ حکومت کو بھی ایسے عناصر کا محاسبہ کرنا چاہئے جو مسلمانوں اور مسیحی برادری کے درمیان فساد پھیلانے کا موجب بن رہے ہیں۔'' (روز نامہ خبریں، لاہور: ۱۵؍ مئی ۱۹۹۸ء )
عاصمہ جہانگیر اور انسانی حقوق کمیشن کے ڈائریکٹر آئی اے رحمن (قادیانی) نے ۱۸؍ مئی ۱۹۹۸ء کو 'جائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائٹس' کے سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا :
''توہین رسالتؐ سے متعلق قانون کی دفعہ ۲۹۵۔سی مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔ صرف ۲۰ فیصد جاہل مولوی اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں، اکثریت توہین رسالتؐ قانون کی حامی نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات مکمل طور پر سیکولر تھے۔''  (روزنامہ 'دن' : ۱۹؍ مئی ۱۹۹۸ء)
آئی اے رحمن مسلمہ طور پر قادیانی ہے اور عاصمہ جہانگیر کے قادیانی ہونے میں بہت کم لوگوں کو شک ہے۔ وہ اپنے 'مسلمان' ہونے کا دعو یٰ کرتی ہے، لیکن اس کا ہر قول وفعل اسلام کی مخالفت پر مبنی ہے۔ وہ ایک قادیانی کے نکاح میں ہے، اس پر نہ تو اسے کوئی شرمندگی ہے اور نہ ہی ایک غیر مسلم کی منکوحہ ہونے سے اس کے 'اسلام' پر فرق پڑتا ہے۔ مندرجہ بالا بیان ظاہر کرتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن نے بزعم خویش کسی دار الافتا کے مفتی صاحب کا روپ بھی دھار رکھا ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ مقامِ رسالتؐ سے ناآشنا اور قرآن وسنت کے حروفِ ابجد سے قطعی طور پر نابلد، اسلام بیزار، اشتراکی ولادین افراد کی طرف سے نہایت اعتماد کے ساتھ یہ 'فتویٰ' داغا جارہا ہے کہ قانونِ توہین رسالتؐ''مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔''
مسلمان نما اسلام دشمنوں کے فریب ودجل کا یہ بھی انداز دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس پر مبنی اسلام سے متصادم نظریات کو 'عین اسلام' بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ ناواقف عوام کو بے وقوف بنایا جائے اور اسلامی معاشرے میں اسلام کی کھلی مخالفت کے نتیجے میں درپیش آنے والے خطرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا جائے۔ برس ہا برس سے عاصمہ جہانگیر حدود آرڈیننس، امتناعِ قادیانیت آرڈیننس، قانونِ توہین رسالتؐ، کو 'اسلام کے منافی' اور اپنے خود ساختہ 'آوارگی ٔ نسواں' کو فروغ دینے والے 'نسوانی حقوق' کو 'اسلام کے عین مطابق' قرار دے کر رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش میں غلطاں رہی ہے۔
توہین رسالتؐ کی سزا بطورِ حد سزائے موت، کتاب وسنت اور سنت خلفاے راشدین وائمہ مطہرین، اجتہاد ائمہ فقہ اور علمائے امت کی متفقہ رائے کی رو سے ثابت ہے۔ امام ابن تیمیہ ؒ اور قاضی عیاضؒ نے اپنی معرکہ آراء تصانیف الصارم المسلول علی شاتم الرسولﷺ اور کتاب الشفاءمیں توہین رسالتؐ کی سزا کے متعلق قرآنی آیات، احادیث ِمبارکہ اور اقوال صحابہ ؓوائمہ کرام کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔
امام ابن تیمیہ ؒنے فتویٰ دیا ہے کہ شاتم الرسول واجب ِقتل ہے اور اس کی توبہ اور معافی قابل قبول نہیں۔ امام مالک ؒ کا قول ہے کہ ''حضورِ اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی گردن اُڑادی جائے۔'' حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ایک یہودی عورت حضور اکرمؐ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ ایک شخص نے ہمیشہ کے لئے اس کا منہ بند کردیا، تو حضور اکرمؐ نے اس کا خون باطل قرار دیا۔ (سنن ابو داود)
اس مختصر مضمون میں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے۔ مجاہد ِناموس رسالتؐ جناب اسمٰعیل قریشی، جن کی شبانہ روز جدوجہد سے قانونِ توہین رسالتؐ پاس ہوا، نے اپنی گراں ما یہ تالیف 'ناموسِ رسولؐ اور قانونِ توہین رسالتؐ' میں اس موضوع کے متعلق اسلامی، یہودی اور نصرانی بنیادی ماخذ سے بے بہا معلومات جمع کرکے ثابت کیا ہے کہ توہین رسالتؐ کی سزا اسلام، عیسائیت اوریہودیت میں صرف موت ہے۔اسلامی علوم وکتب سے تو عاصمہ جہانگیر جیسے مغرب زدہ افراد کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ اگر وہ اپنے خبثِ باطن اور علمی بد دیانتی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے اس تاریخی فیصلے کی ورق گردانی ہی کر لیتی جس میں فاضل عدالت نے طویل عرصہ تک دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ توہین رسالتؐ کی سزا صرف موت ہے، تو اُنہیں ضرور آ گاہی ہو جاتی کہ 'جاہل' کون ہے؟
٭وفاقی شرعی عدالت کے اس بنچ پر مولوی نہیں بلکہ ہماری عدلیہ کے قابل فخر ارکان جسٹس گل محمد خان (چیف جسٹس)، جسٹس عبد الکریم خان کندی، جسٹس عبادت یار خان، جسٹس عبد الرزاق تھہیم اور جسٹس فدا محمد خان موجود تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے قانونِ توہین رسالت ؐکی حمایت کرنے والوں کو 'جاہل' قرار دے کر بالواسطہ طور پر وفاقی شرعی عدالت کے ان جج صاحبان کو بھی 'جاہل' قرار دے دیا ہے، جنہوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں یہ فیصلہ صادر فرمایا۔
٭عاصمہ جہانگیر اور اس کے ہم خیال بدبخت 'دانشوروں' کو معلوم ہونا چاہئے کہ تاجدارِ ختم نبوتؐ، امام الانبیا، سرورِ کائنات ﷺ کی حرمت وناموس پر کٹ مرنا ہر مسلمان کی زندگی کی آرزو ہے۔ یہ محض '۲۰ فیصد مولویوں' کی حمایت کی بات نہیں ہے، مسلمانوں کے بچے بچے کے دل کی آواز ہے کہ توہین رسالتؐ کے مرتکب خبیث مجرموں کی سزا صرف موت ہے۔ اُنہیں یہ بھی اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ 'مولوی' کی مخالفت کی آڑ میں اسلام کے بنیادی عقائد کی اہانت کا ان کا دیرینہ، اشتراکی وقادیانی حربہ اب کارگر نہیں ہوگا ،کیونکہ رسولِ عربی ﷺ کے جان نثار اسلام سے ان کی دشمنی، ان کے خبث ِباطن اور باطل عزائم سے اب بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں۔ اب آپ کو اخلاقی جرا ت سے کام لینا ہوگا۔
پردوں میں چھپ کر وار کرنے سے آپ کے چہرے چھپ نہیں سکیں گے،جیسا کہ بیرسٹر خالد اسحق صاحب نے 'نیوز لائن' کے رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''قائداعظم سیکولر نہیں تھے۔ اُن کو سیکولر کہنا محض پرلے درجے کی الزام تراشی ہے۔'' (شمارہ فروری ۱۹۹۸ء)
٭عاصمہ جہانگیر، آئی اے رحمن اور بعض مسیحی راہنما اپنے بیانات میں قانونِ توہین رسالتؐ کو فکر قائد اعظم کے منافی قرار دیتے ہیں۔ ان نام نہاد ترقی پسند اور روشن خیال افراد کے نزدیک 'سیکولر ازم' کا جو مفہوم ہے، قائد اعظم کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ ان کی 'سیکولر ازم' توہین رسالتؐ کے جواز ڈھونڈتی ہے،جبکہ قائد اعظم سچے محب ِرسول ؐتھے۔ وہ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر شاتم رسولؐ کے مقدمہ کی پیروی کرنے کے لئے بمبئی سے لاہور خود تشریف لائے تھے۔ آج یہ فتنہ پرداز محسن انسانیت ﷺ کی ناموس کے تحفظ پر مبنی قانون کو 'فتنہ' قرار دیتے ہوئے نہیں جھجکتے۔ قائد اعظم کی محبت رسولؐ کا یہ عالم تھا کہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اُنہوں نے لنکنز اِن (Lincon's Inn) کا انتخاب محض اس لئے کیا تھا کہ اس کے دروازے پر اسم محمد ﷺ بھی دیگر قانون دانوں کے درمیان لکھا گیا تھا۔
٭عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن کا یہ دعویٰ بھی حقائق کا منہ چڑا رہا ہے کہ ''توہین رسالت کی حمایت صرف ۲۰ فیصد مولوی کر رہے ہیں اور اکثریت اس کی حامی نہیں۔'' کاش اس دروغ گوئی سے پہلے وہ اس شریعت پٹیشن کو یک نظر دیکھ لیتی جو محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ نے وفاقی شرعی عدالت میں گزاری۔ اس درخواست پر ۷۸؍ افراد کے دستخط موجود ہیں ،جن کی بھاری اکثریت سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے سابق جج صاحبان، معروف وکلا، سابق اٹارنی وایڈووکیٹ جنرلز پر ہی مشتمل ہے۔ اس فہرست میں مستند علما کی تعداد چھ سات ہے۔ آنجہانی بشپ جوزف کی موت کے بعد صدرِ مملکت، حکومتی وزرا، سیاستدانوں، علما، قانون دانوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے راہنمائوں کے قومی پریس میں شائع ہونے والے بیانات کے سرسری مطالعے سے بھی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ناموسِ رسالتؐ مسلمانوں کا متفقہ واجتماعی مسئلہ ہے۔
عاصمہ جہانگیر اور ان کے حواری جس آسانی سے جھوٹ، غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرتے ہیں، وہ اس 'طبقہ دانشوراں' کا کلچر ہے۔ اُنہیں شرم دلانے کا فائدہ بظاہر کچھ نہیں ہے، کیونکہ ان کے شرم وحیا کے پیمانے مغرب سے مستعار ہیں۔
٭سوال پیدا ہوتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر 'مسلمانی' کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلام اور بانی اسلامؐ کی مخالفت پر کمربستہ کیوں ہے؟ اس کا جواب بالکل سادہ اور آسان ہے کہ وہ اسی طرح 'مسلمان' ہے جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی کا ہر پیروکار اپنے آپ کو 'مسلمان' سمجھتا ہے۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی قادیانیت کے مزاج میں داخل ہے۔ اس بات کی تائید ہمیں فرزند اقبال، ڈاکٹر جاوید اقبال کی تالیف 'زندہ رود' میں موجود حضرت علامہ اقبال کے اس قول سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت علامہ ؒنے فرمایا تھا :
''میرے شبہات نے اس تحریک (قادیانیت) کے خلاف مکمل بغاوت کرلی، جب میں نے اپنے کانوں سے اس تحریک کے ایک رکن کو نبی کریم ﷺ کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے سنا۔''
٭عاصمہ جہانگیر کی قابل اعتراض سرگرمیوں کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا جارہا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے نام پر پاکستان کے خاندانی نظام پر پہلے ہی یہ کاری ضرب لگاچکی ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر وہ پاکستان میں ایک عظیم فتنہ کی بنیادرکھ چکی ہے جس کا مظاہرہ حالیہ مسیحی اقلیت کے پرتشدد دنگا وفساد کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ وہ شرمناک بے باکی سے جو منہ میں آتا ہے، بک دیتی ہے۔ اس کی زبان درازیوں کا سلسلہ حد انتہا کو چھو چکا ہے۔ اس کی جسارتوں کا اندازہ لگائیے کہ وہ ۹۷% مسلمان آبادی والی اسلامی نظریاتی مملکت میں توہین رسالتؐ کے قانون کو 'فتنہ' قرار دیتی ہے۔ ہر صاحب ِعقل ودانش اس شرانگیز بیان کی زہرناکی اور امن عامہ کے لئے اس کے موجب ِفساد ہونے کا اندازہ آسانی سے لگا سکتا ہے۔ اس ملک میں امن عامہ کے فساد کے خطرے کے پیش نظر علما اور سیاستدانوں کو 'حفاظتی نظر بندی' میں لے لیا جاتا ہے ،لیکن یہ امر تعجب کا باعث ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی امن عامہ کو تباہ کرنے والی سرگرمیوں کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانونِ توہین رسالتؐ کو 'فتنہ' قرار دینا کیا توہین رسالتؐ نہیں ہے۔ ۱۰ مئی ۱۹۹۸ء کے نوائے وقت میں مسلم لائرز فورم کے ارکان کا بیان شائع ہوا :
''توہین رسالتؐ کے قانون کی مخالفت پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے، کیونکہ اعلیٰ عدالتیں توہین رسالتؐ کے قانون ۲۹۵۔ سی کو آئینی قرار دے چکی ہیں۔''
۲۹۵۔ سی کا متن درج ذیل ہے، جسے قانون توہین رسالت کہا جاتاہے:
''جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نقوش کے ذریعہ، یا کسی تہمت، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بلا واسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔'' (مجموعہ تعزیراتِ پاکستان)
قانونِ توہین رسالتؐ میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اس کی رو سے محض واضح توہین آمیز الفاظ کی ادائیگی ہی نہیں،بلکہ 'کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بالواسطہ' طور پر بھی رسالت مآب ﷺ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی سزا کی مستوجب ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی فتنہ مجسم خاتون وکیل کاقانون توہین رسالتؐ کو 'فتنہ' قرار دینا ۲۹۵۔ سی کی رو سے قابل گرفت ہے۔ آخر کب تک اس مغربی صہیونی لابی کی ایجنٹ عورت کو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا شغل جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی رہے گی؟ یہ سوال عاصمہ جہانگیر کے دل آزار بیانات سے زخم خوردہ و دل گرفتہ ہر مسلمان کی زبان پر ہے۔ حکومتِ پاکستان نے جس طرح ماضی میں جرات مندی سے بشپ جان جوزف کی خود کشی پر امریکی وزارتِ خارجہ کے رد عمل کو مسترد کر دیا، بالکل اسی جراتِ ایمانی سے مغرب کے تنخواہ دار ایجنٹوں کی سرکوبی کے لئے تادیبی اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو آئندہ مجروح نہ کر سکیں۔نبی آخر الزمان ؐکاہر سچا پیروکار عاصمہ جہانگیر جیسی گستاخ رسول ﷺ عورت کو پابند ِسلاسل دیکھنے کا متمنی ہے !!

٭٭٭٭٭