اِمام شافعی ؒاور مسئلۂ تدلیس
ماہنامہ 'محدث'نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں التحقیق والتنقیح في مسئلۃ التدلیس کے نام سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں صاحب ِمضمون نے تدلیس کے حکم کے سلسلے میں امام شافعیؒ کے قول کو بعض دلائل کی بنا پر مرجوح قرار دیا۔ مدلس کی روایت کے قابل قبول ہونے کے بارے میں امام شافعی اور دیگر ائمہ حدیث کا اختلاف ہے اور یہ مسئلہ اس لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ ان دو موقفوں میں سے کسی ایک کے ماننے پر اکثر روایات کے ردّو قبول کا انحصار ہے ۔حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ جو علوم حدیث پر گہری نظر رکھتے ہیں نے زیر نظر مقالہ میں سابقہ موقف پر تعاقب کیا ہے اور شائع شدہ مقالہ کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد، اپنے دلائل پیش کرکے امام شافعی کے موقف کو ہی اَرجح قرار دیاہے۔ ـ (کامران طاہر)
روایتِ حدیث میں تدلیس یعنی تدلیس فی الاسناد کے بارے میں محدثین کرام کا مشہور مسلک ومذہب یہ ہے کہ جس راوی سے سند میں تدلیس کرناثابت ہو تو اُس کی عَنوالی روایت ضعیف ہوتی ہے، مثلاً شیخ اِرشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے لکھا ہے:
''اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ قتادہؒ مدلس ہے جیسا کہ آئندہ اس کی تفصیل آ رہی ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ مدلس کا عنعنہ موجب ِضعف ہے۔ لہٰذا اس کی سند کو صحیح کہنا محل نظر ہے۔ '' ( توضیح الکلام:۱؍ ۱۳۰، دوسرا نسخہ ص ۱۳۷)
مولانا اَثری حفظہ اللہ نے مزید فرمایا: '' اور یہ طے شدہ اُصول ہے کہ مدلس کی معنعن روایت قبول نہیں۔ '' ( توضیح الکلام :۲؍ ۷۶۵، دوسرا نسخہ ۱۰۳۰)
محترم اثری صاحب نے کئی مدلس راویوں کی مُعَنعن(عن والی)روایات پر جرح کی اور ان روایات کو غیر صحیح قرار دیا۔ مثلاً :
1. ابو الزبیر المکی (توضیح الکلام:۲؍ ۵۵۸، دوسرا نسخہ ص ۸۸۹)
2 .قتادہ بن دعامہ ( توضیح الکلام :۲؍ ۲۸۳، دوسرا نسخہ ص ۶۸۸)
3 .سلیمان بن مہران اعمش ( توضیح الکلام :۲؍ ۷۶۵، دوسرا نسخہ ص ۱۰۳۰)
4 .ابراہیم بن یزید نخعی ( توضیح الکلام:۲؍ ۷۵۸۔ ۷۵۹، دوسرا نسخہ ص ۱۰۲۶)
5 .محمد بن عجلان ( توضیح الکلام: ۲؍ ۳۳۱، دوسرا نسخہ ص ۷۲۵)
ان میں سے ابراہیم نخعی اور سلیمان اعمش دونوں حافظ ابن حجر عسقلانی کی طبقاتی تقسیم کے مطابق طبقۂ ثانیہ میں سے تھے۔ دیکھئے :الفتح المبین (۳۵؍۲، ۵۵؍۲)
یاد رہے کہ حافظ ابن حجر کی یہ طبقاتی تقسیم صحیح نہیں ہے اور نہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ نیز دیکھئے: ماہنامہ 'الحدیث' حضرو : ۶۷ص ۲۱۔ ۲۳
تدلیس کے بارے میں مفصل تحقیق کے لئے دیکھئے میری کتاب: تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات (۱؍ ۲۵۱تا ۲۹۰ ، ۳؍ ۲۱۸تا۲۲۳، ۶۱۲تا۶۱۴ )
ہمارا موقف یہ ہے کہ مدلس راوی کثیر التدلیس ہو یا قلیل التدلیس، ساری زندگی میں اُس نے صرف ایک دفعہ تدلیس الاسناد کی ہو اور اُس کا اس سے رجوع و تخصیص ثابت نہ ہویا معتبر محدثین کرام نے اسے مدلس قرار دیا ہو تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں ایسے مدلس کی غیر مصرح بالسماع اور معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے، اِلا یہ کہ اس کی معتبر متابعت ، تخصیصِ روایت یا شاہد ثابت ہو۔تخصیصِ روایت کا مطلب یہ ہے کہ بعض شیوخ سے مدلس کی معنعن روایت صحیح ہویا اس کے بعض تلامذہ کی روایات سماع پر محمول ہوں۔
یہی وہ اُصول ہے جس پر اہلِ حدیث، حنفی ، شافعی، مالکی ، حنبلی، دیوبندی ، بریلوی اور دیگر لوگ فریقِ مخالف کی روایات پر جرح کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں، لیکن عصرِ حاضر میں بعض جدید علماء مثلاً حاتم الشریف العونی وغیرہ نے بعض شاذ اقوال لے کر کثیر التدلیس اور قلیل التدلیس کا شوشہ چھوڑ دیا ہے، جس سے اُنھوںنے اُصولِ حدیث کے اس مشہور اور اہم مسئلے کو لٹھ مار کر غرق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے اس مضمون میں انہی بعض الناس کا ردّ پیشِ خدمت ہے :
1. امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی ؒ ( متوفی ۲۰۴ھ) نے فرمایا:
'' ومن عرفناہ دلّس مرة فقد أبان لنا عورته في روايته'' ( الرسالۃ : ۱۰۳۳)
''جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہوگیا کہ اُس نے ایک دفعہ تدلیس کی ہے تو اُس نے اپنی پوشیدہ بات ہمارے سامنے ظاہر کر دی۔ ''
اس کے بعد امام شافعی ؒنے فرمایا:
''فقلنا:لا نقبل من مدلّس حديثًا حتی يقول فيه:حدثني أو سمعت''
''پس ہم نے کہا:ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے، حتیٰ کہ وہ حدثني یاسمعت کہے۔ '' ( الرسالۃ : ۱۰۳۵)
امام شافعی کے بیان کردہ اس اُصول سے معلوم ہوا کہ جس راوی سے ساری زندگی میں ایک دفعہ تدلیس کرنا ثابت ہو جائے تو اُس کی عن والی روایت قابلِ قبول نہیں ہوتی۔
ابن رجب حنبلی ( متوفی ۷۹۵ھ) نے لکھا ہے:
''ولم يعتبر الشافعي أن يتکرر التدليس من الراوي ولا أن يغلب علی حديثه،بل اعتبر ثبوت تدليسه ولو بمرۃ واحدة'' ( شرح علل الترمذی :۱؍ ۳۵۳ طبع : دار الملاح للطبع والنشر )
''اور شافعی نے اس کا اعتبار نہیں کیا کہ راوی بار بار تدلیس کرے اور نہ اُنھوں نے اس کا اعتبار کیا ہے کہ اس کی روایات پر تدلیس غالب ہو، بلکہ اُنھوں نے راوی سے ثبوتِ تدلیس کا اعتبار کیا ہے اور اگرچہ ( ساری زندگی میں ) صرف ایک مرتبہ ہی ہو۔''
امام شافعیؒ اس اُصول میں اکیلے نہیں بلکہ جمہور علما ان کے ساتھ ہیں، لہٰذا زرکشی کا''وهو نص غريب لم يحکمه الجمهور'' (النکت، ص ۱۸۸) کہنا غلط ہے۔
اگر کوئی شخص اس پر بضد ہے کہ اس منہج اور اُصول میں امام شافعی ؒاکیلے تھے یاجمہور کے خلاف تھے!! تو وہ درج ذیل اقتباسات پر ٹھنڈے دل سے غور کرے :
2. امام ابو قدید عبید اللہ بن فضالہ النسائی (ثقہ مامون ) سے روایت ہے کہ ( امام) اسحق بن راہویہ نے فرمایا:میں نے احمد بن حنبل کی طرف لکھ کر بھیجا اور درخواست کی کہ وہ میری ضرورت کے مطابق(امام)شافعی کی کتابوں میں سے(کچھ) بھیجیں تو اُنھوں نے میرے پاس کتاب الرسالہ بھیجی۔ (کتاب الجرح والتعدیل:۷؍ ۲۰۴ وسندہ صحیح، تاریخ دمشق لابن عساکر:۵۴؍ ۲۹۱۔۲۹۲، نیز دیکھئے مناقب الشافعی للبیہقی:۱؍ ۲۳۴ وسندہ صحیح)
اس اثر سے معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒکتاب الرسالہ سے راضی(متفق )تھے اور تدلیس کے اس مسئلے میں اُن کی طرف سے امام شافعی پر رد ثابت نہیں، لہٰذا اُن کے نزدیک بھی مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہے ، چاہے قلیل التدلیس ہو یا کثیر التدلیس۔
امام ابو زرعہ الرازیؒنے کہا:احمد بن حنبل نے شافعی کی کتابوں میں نظر فرمائی تھی ؍یعنی اُنھیں بغور پڑھا تھا۔ (کتاب الجرح والتعدیل :۷؍ ۲۰۴ وسندہ صحیح)
امام احمد بن حنبل نے اپنے شاگرد عبدالملک بن عبد الحمید میمونی سے کہا: ''اُنظر في کتاب الرسالة فإنه من أحسن کتبه''( تاریخ دمشق لابن عساکر ۵۴؍ ۲۹۱ وسندہ صحیح)
''کتاب الرسالہ دیکھو! کیونکہ یہ اُن کی سب سے اچھی کتابوں میں سے ہے۔ ''
تنبیہ:اس تصریح کے مقابلے میں امام احمد کا قول:''مجھے معلوم نہیں۔'' سوالاتِ ابی داود، ص۱۹۹ (محدث ص۴۳)سے پیش کرنا بے فائدہ اور مرجوح ہے۔
مسائل الامام احمد(روایۃ ابی داود ص ۳۲۲)سے استدلال کرتے ہوئے ایک شخص نے لکھا ہے:'' مگر اس کے باوجود امام احمد ؒ نے ہشیم کے عنعنہ پر توقف بھی کیا ہے۔ '' (محدث،ص۴۲)
عرض ہے کہ اگر امام ہشیم ( جنھیں تدلیس کرنے میں مزہ آتا تھا ) کا عنعنہ مضر نہیں تھا تو اُن کی عَن والی روایت میں توقف کرنے کا کیا مطلب تھا؟کسی روایت میں توقف کرنا اس کی دلیل ہے کہ وہ روایت قابلِ حجت نہیں ہے۔ کیا کسی صحیح حدیث کے بارے میں بھی صحیح کہنے سے توقف کیا جا سکتا ہے؟!
علماے کرام جب کسی روایت کو مدلس کے عنعنے کی وجہ سے ضعیف کہتے ہیں تو اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ راوی مدلس ہے اور روایت ِمذکورہ میں سماع ثابت نہیں ہے۔جب سماع ثابت ہو جائے تو فوراً رجوع کیا جاتا ہے اور روایت کو بغیر کسی توقف کے صحیح تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
فائدہ:
امام اسحق بن راہویہ نے کہا کہ ( امام )احمد بن حنبل نے کتاب الرسالہ کے بارے میں فرمایا:''ھٰذا کتاب أعجب بہ عبد الرحمٰن بن مھدي ''
''یہ کتاب عبدالرحمن بن مہدی کو پسند تھی ۔'' ( الطیوریات: ۲؍ ۷۶۱ ح ۶۸۱ وسندہ صحیح)
3.امام اسحق بن راہویہ ؒکے پاس امام شافعی کی کتاب 'الرسالہ' پہنچی، لیکن انھوں نے تدلیس کے اس مسئلے پر کوئی رد نہیں فرمایا، جیسا کہ کسی روایت سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ تدلیس کے مسئلے میں امام شافعیؒکے موافق تھے۔
4 .امام اسماعیل بن یحییٰ مزنی ؒنے فرمایا:
''کتبتُ کتاب الرسالة منذ زيادة علی أربعين سنة وأنا أقرأہ وأنظر فيه ويقرأ عليّ فما من مرة قرأت أو قُريء عليّ إلا استفدت منه شيئًا لم أکن أحسنه'' (مقدمۃ الرسالہ، ص ۷۳ روایۃ ابن الاکفانی :۵۴ وسندہ حسن، تاریخ دمشق: ۵۴؍۲۹۲، مناقب الشافعی للبیہقی:۱؍ ۲۳۶ بحوالہ مناقب الآبری العاصمی )
''میں نے چالیس سال سے زیادہ عرصہ پہلے کتاب الرسالہ ( نقل کر کے) لکھی اور میں اسے پڑھتا ہوں، اس میں ( غور و فکر کے ساتھ) دیکھتا ہوں اور میرے سامنے پڑھی جاتی ہے، پھر ہر بار پڑھنے یا پڑھے جانے سے مجھے ایسا فائدہ ملتا ہے جسے میں پہلے اچھی طرح نہیں سمجھتا تھا۔''
چالیس سال پڑھنے پڑھانے کے باوجود امام مزنی کو تدلیس کے مذکورہ مسئلے کا غلط ہونا معلوم نہیں ہوا جیسا کہ کسی صحیح روایت میں اُن سے ثابت نہیں ، لہٰذا ظاہر یہی ہے کہ وہ بھی ایک مرتبہ تدلیس کرنے والے راوی کی معنعن روایت کوصحیح نہیں سمجھتے تھے۔
5. امام شافعی کی کتاب الرسالہ میں تدلیس والے مذکورہ قول کو مشہور محدث بیہقی نے نقل کر کے کوئی جرح نہیں کی بلکہ خاموشی کے ذریعے سے تائید فرمائی۔ (معرفۃ السنن والآثار: ۱؍۷۶)
معلوم ہوا کہ امام بیہقی کا بھی یہی مسلک ہے۔
محمد بن عبداللہ بن بہادر الزرکشی ( متوفی ۷۹۴ھ) نے کہا:
'' وقد حکم البهقي بعدم قبول قول من دلّس مرة'' إلخ
''جو شخص ایک دفعہ تدلیس کرے تو اس کے بارے میں بیہقی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کی روایت (معنعن ) غیر مقبول ہے۔ '' (النکت علیٰ مقدمہ ابن الصلاح ص ۱۹۱)
6. خطیب بغدادی نے امام شافعی کے قولِ مذکور کو روایت کیا اور کوئی ردّ نہیں کیا۔ ( دیکھئے: الکفایہ فی علم الروایہ، ص ۲۹۲)
بلکہ تدلیس کے بارے میں:''الغالب علی حدیثہ لم تقبل روایاتہ'' والا قول نقل کر کے خطیب نے فرمایا:
''وقال آخرون: خبر المدلس لا يقبل إلا أن يوردہ علی وجه مبين غير محتمل لإيهام فإن أوردہ علیٰ ذلك قُبل،وهذا هو الصحيح عندنا''
''اور دوسروں نے کہا: مدلس کی خبر ( روایت) مقبول نہیں ہوتی اِلا یہ کہ وہ وہم کے احتمال کے بغیر صریح طور پر تصریح بالسماع کے ساتھ بیان کرے، اگر وہ ایسا کرے تو اس کی روایت مقبول ہے اور ہمارے نزدیک یہی بات صحیح ہے۔ '' ( الکفایہ ص ۳۶۱)
7. حافظ ابن الصلاح شہرزوری شافعی ( متوفی ۶۴۳ھ) نے کہا:
'' والحکم بأنه لا يقبل من المدلّس حتی يبين، قد أجراہ الشافعي رضي اﷲ عنه فيمن عرفناہ دلّس مرة۔ واﷲ أعلم ''
''اور حکم ( فیصلہ) یہ ہے کہ مدلس کی روایت تصریحِ سماع کے بغیر قبول نہ کی جائے، اسے شافعی ؒ نے اس شخص کے بارے میں جاری فرمایا ہے جس نے ہماری معلومات کے مطابق صرف ایک دفعہ تدلیس کی ہے۔ واللہ اعلم''
( مقدمہ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح، ص ۹۹، دوسرا نسخہ، ص ۱۶۱)
معلوم ہوا کہ امام شافعی کی طرح ابن الصلاح بھی ایک دفعہ تدلیس کرنے والے مدلس کی معنعن روایت کو صحتِ حدیث کے منافی سمجھتے تھے۔ابن الصلاح کے اس قول کو اصولِ حدیث کی بعد والی کتابوں میں بھی نقل کیا گیا ہے اور تردید نہیں کی گئی، لہٰذا اسے جمہور کی تلقی بالقبول حاصل ہے۔
8. علامہ یحییٰ بن شرف النووی ( متوفی ۶۷۷ھ) نے مدلس کے بارے میں فرمایا:
''فما رواہ بلفظ محتمل لم يبين فيه السماع فمرسل۔۔۔وهذا الحکم جار فيمن دلّس مرة '' (التقریب للنووي فی اُصول الحدیث ،ص ۹ نوع ۱۲، مع تدریب الراوی للسیوطی: ۱؍ ۲۲۹، ۲۳۰، دوسرا نسخہ ص ۲۰۱)
''پس وہ ( مدلس راوی) ایسے لفظ سے روایت بیان کرے جس میں احتمال ہو ، سماع کی تصریح نہ ہو تو وہ مرسل (یعنی غیر مقبول ؍ ضعیف) ہے۔۔۔ اور یہ حکم اس کے بارے میں جاری ہے جو (صرف ) ایک دفعہ تدلیس کرے۔ ''
معلوم ہوا کہ امام شافعی کی طرح نووی بھی مدلس کی عن والی روایت کو ضعیف و مردود سمجھتے تھے ،چاہے اُس نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ ہی تدلیس کی ہو۔
9. مشہور صوفی حافظ سراج الدین عمر بن علی بن احمد الانصاری : ابن الملقن(متوفی ۸۰۴ھ) نے ابن الصلاح کا قول: ''والحکم بأنه لا يقبل من المدلّس حتی يبين،أجراہ الشافعي فيمن عرفناہ دلّس مرۃ''نقل کیا اور کوئی رد نہیں کیا، لہٰذا یہ ان کی طرف سے امام شافعی اور ابن الصلاح دونوں کی موافقت ہے۔ (دیکھئے المقنع فی علوم الحدیث :۱؍۱۵۸، تحقیق عبداللہ بن یوسف الجدیع)
10. مشہور ثقہ محدث و مفسر حافظ ابن کثیر دمشقی ؒ ( متوفی ۷۷۴ ھ)نے تدلیس کے بارے میں امام شافعی کا قول نقل کیا اور کوئی جرح یا مخالفت نہیں کی۔ دیکھئے: اختصار علوم الحدیث : ۱؍ ۱۷۴، نوع ۱۲
11 .حافظ ابو الفضل عبدالرحیم بن الحسین العراقی اثریؒ( متوفی ۸۰۶ھ) نے فرمایا:
'' والشافعي أثبته بمرة '' ''اور شافعی نے ( تدلیس کو ) اس کے لئے ثابت قرار دیا ہے جو ایک دفعہ ( تدلیس ) کرے۔ ''( الفیۃ العراقی مع تعلیقات شیخ محمد رفیق اثری، ص ۳۲ شعر ۱۶۰)
معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں عراقی بھی امام شافعی کے موافق تھے۔
12. مشہور صوفی سخاوی( متوفی ۹۰۲ھ)نے عراقی کے قول''أثبته بمرة'' کی تشریح میں کہا:
''وبيان ذلك أنه بثبوت تدليسه مرة صار ذلك هو الظاهر من حاله في معنعناته کما إنه ثبوت اللقاء مرة صار الظاهر من حاله السماع،وکذا من عرف بالکذب في حديث واحد صار الکذب هو الظاهر من حاله وسقط العمل بجميع حدييثه مع جواز کو نه صادقًا في بعضه '' ( فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث :۱؍ ۱۹۳)
''اور اس کی تشریح یہ ہے کہ اس کی ایک دفعہ تدلیس کے ثبوت سے اُس کی ( تمام) معنعن روایات میں اس کا ظاہر حال یہی بن گیا ( کہ وہ مدلس ہے) جیساکہ ایک دفعہ ملاقات کے ثبوت سے ( غیر مدلس کا) ظاہر حال یہ ہوتا ہے کہ اُس نے ( اپنے استاد سے ) سنا ہے، اور اسی طرح اگر کسی آدمی کا (صرف ) ایک حدیث میں جھوٹ معلوم ہو جائے تو اس کا ظاہر حال یہی بن جاتا ہے ( کہ وہ جھوٹا ہے) اور اس کی تمام احادیث پر عمل ساقط ہو جاتا ہے، اس جواز کے ساتھ کہ وہ اپنی بعض روایات میں سچا ہو سکتا ہے۔ ''
دو اہم دلیلیں بیان کر کے سخاوی نے امام شافعی کی تائید کر دی اور ان لوگوں میں شامل ہو گئے جو مدلس کی عن والی روایت نہیں مانتے ، چاہے اُس نے ساری زندگی میں صرف ایک دفعہ تدلیس کی ہو۔
13. زکریا بن محمد الانصاری ( متوفی ۹۲۶ھ) نے بھی عراقی کے مذکورہ قول ( دیکھئے فقرہ : ۱۱) کو نقل کر کے اس کی دلیل بیان کی اور کوئی مخالفت نہیں کی ۔(دیکھئے فتح الباقی بشرح الفیۃ العراقی، تحقیق حافظ ثناء اللہ الزاہدی ص ۱۶۹، ۱۷۰)
معلوم ہواکہ اس مسئلے میں وہ بھی امام شافعیؒ سے متفق تھے۔
14. جلال الدین سیوطیؒ ( متوفی ۹۱۱ھ) نے بھی امام شافعی کا قول نقل کر کے کوئی مخالفت نہیں کی لہٰذا یہ ان کی طرف سے تائید ہے۔ دیکھئے تدریب الراوی ( ۱؍ ۲۳۰)
بلکہ سیوطی نے '' ولو بمرة وضح'' کہہ کر تدلیس کو صراحتاً جرح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: الفیۃ السیوطی فی علم الحدیث،ص ۳۱،بتحقیق احمد محمد شاکر
15. حافظ ابن حبان بستی ( متوفی ۳۵۴ھ) نے فرمایا:
''الجنس الثالث: الثقات المدلسون الذين کانوا يدلسون في الأخبار مثل قتادة ويحيٰی بن أبي کثير والأعمش و أبو إسحٰق وابن جريج وابن إسحٰق والثوري وهشيم ومن أشبههم ممن يکثر عددهم من الأئمة المرضيـين وأهل الورع في الدين کانوا يکتبون عن الکل ويروون عمن سمعوا منه فربما دلّسوا عن الشيخ بعد سماعهم عنه عن أقوام ضعفاء لايجوز الإحتجاج بأخبارهم، فما لم يقل المدلّس وإن کان ثقة: حدثني أو سمعت فلا يجوز الاحتجاج بخبرہ،وهذا أصْلُ أبي عبد اﷲ محمد بن إدريس الشافعي ۔ رحمه اﷲ ۔ ومن تبعه من شيوخنا'' ( کتاب المجروحین:۱؍ ۹۲، دوسرا نسخہ :۱؍ ۸۶)
''تیسری قسم: وہ ثقہ مدلسین جو روایات میں تدلیس کرتے تھے مثلاً قتادہ،یحییٰ بن ابی کثیر، اعمش، ابو اسحق ، ابن جریج ، ابن اسحق ، ثوری ، ہشیم اور جو اُن کے مشابہ تھے جن کی تعداد زیادہ ہے، وہ پسندیدہ اماموں اور دین میں پرہیز گاروں میں سے تھے۔ وہ سب سے (روایات) لکھتے اور جن سے سنتے تو اُن سے روایتیں بھی بیان کرتے تھے۔ بعض اوقات وہ شیخ یعنی اُستاذ سے سننے کے بعد ضعیف لوگوں سے سنی ہوئی روایات اس (شیخ) سے بطورِ تدلیس بیان کرتے تھے، ان کی ( معنعن ) روایات سے استدلال جائز نہیںہے۔ پس جب تک مدلس اگرچہ ثقہ ہو حدثنی یا سمعتُ نہ کہے (یعنی سماع کی تصریح نہ کرے) تو اس کی روایت سے اِستدلال جائز نہیں ہے اور یہ ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعیؒ کی اصل (یعنی اُصول) ہے اور ہمارے اساتذہ نے اس میں اُن کی اتباع ( یعنی موافقت ) کی ہے۔
اس عظیم الشان بیان میں حافظ ابن حبان نے تدلیس کے مسئلے میں امام شافعی کی مکمل موافقت فرمائی بلکہ منہج المتقدمین کے نام سے کثیر التدلیس اورقلیل التدلیس کی عجیب و غریب، شاذاور ناقابلِ عمل اصطلاحات کے رواج کے ذریعے سے مسئلہ تدلیس کو بے کار کرنے والوں کے شبہات کا خاتمہ کردیا ہے۔
حافظ ابن حبان نے دوسری جگہ فرمایا:
''وأما المدلّسون الذين هم ثقات وعدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووا مثل الثوري والأعمش وأبي إسحٰق وأضرابهم من الأئمة المتقين(المُتقنين) وأهل الورع في الدين لأنا متی قبلنا خبر مدلّس لم يبين السماع فيه۔ وإن کان ثقة لزمنا قبول المقاطيع والمراسيل کلها لأنه لا يدري لعل هذا المدلس دلّس هذا الخبر عن ضعيف يهي الخبر بذکرہ إذا عرف، اللهم إلا أن يکون المدلّس يعلم أنه مادلّس قط إلا عن ثقة فإذا کان کذلك قبلت روايته وإن لم يبين السماع وهذا ليس في الدنيا إلا سفيان بن عيينة وحدہ فإنه کان يدلّس ولا يدلّس إلا عن ثقة متقن ولا يکاد يوجد لسفيان بن عيينة خبر دلّس فيه إلا وجد ذلك الخبر بعينه قد بيّن سماعه عن ثقة مثل نفسه والحکم في قبول روايته لهذہ العلة ۔ و إن لم يبين السماع فيها ۔ کالحکم في رواية ابن عباس إذا روٰی عن النبي ﷺ ما لم يسمع منه '' (صحیح ابن حبان ، الاحسان:۱؍ ۱۶۱، دوسرا نسخہ :۱؍ ۹۰)
''اور مگر وہ مدلسین جو ثقہ اور عادل ہیں تو ہم ان کی بیان کردہ روایات میں سے صرف ان روایات سے ہی استدلال کرتے ہیں جن میں اُنھوں نے سماع کی تصریح کی ہے، مثلاً ثوری، اعمش ، ابو اسحق اور ان جیسے دوسرے ائمہ متقین ( ائمہ متقنین ) اور دین میں پرہیزگاری والے امام۔ کیونکہ اگر ہم مدلس کی وہ روایت قبول کریں جس میں اُس نے سماع کی تصریح نہیں کی، اگرچہ وہ ثقہ تھا، تو ہم پر یہ لازم آتا ہے کہ ہم تمام منقطع اور مرسل روایات قبول کریں۔ کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس مدلس نے اس روایت میں ضعیف سے تدلیس کی ہو، اگر اس کے بارے میں معلوم ہوتا تو روایت ضعیف ہو جاتی، سوائے اس کے کہ اللہ جانتا ہے۔ اگر مدلس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس نے صرف ثقہ سے ہی تدلیس کی ہے ، پھر اگر اس طرح ہے تو اس کی روایت مقبول ہے اور اگرچہ وہ سماع کی تصریح نہ کرے، اور یہ بات (ساری) دنیا میں سوائے سفیان بن عیینہ اکیلے کے کسی اور کے لئے ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تدلیس کرتے تھے اور صرف ثقہ متقن سے ہی تدلیس کرتے تھے۔ سفیان بن عیینہ کی ایسی کوئی روایت نہیں پائی جاتی جس میں اُنھوں نے تدلیس کی ہو مگر اسی روایت میں اُنھوں نے اپنے جیسے ثقہ سے تصریح سماع کر دی تھی۔ اس وجہ سے ان کی روایت کے مقبول ہونے کا حکم__ اگرچہ وہ سماع کی تصریح نہ کریں__ اسی طرح ہے جیسے ابن عباسؓ اگر نبیﷺسے ایسی روایت بیان کریں جو اُنھوں نے آپ سے سنی نہیں تھی، کا حکم ہے۔ ''
اس حوالے میں بھی حافظ ابن حبان نے مدلس راوی کی اس روایت کو غیر مقبول قرار دیا ہے جس میں سماع کی تصریح نہ ہو اور امام شافعی رحمہ اللہ کی معناً تائید فرمائی ہے۔
حافظ ابن حبانؒ کے اس بیان سے درج ذیل اہم نکات واضح ہیں:
1. جس راوی کا مدلس ہونا ثابت ہو،اس کی عدمِ تصریحِ سماع والی روایت غیر مقبول ہوتی ہے۔
2 .امام شافعی کا بیان کردہ اُصول صحیح ہے۔
3 .امام شافعی اپنے اُصول میں منفرد نہیں بلکہ ابن حبان اور اُن کے شیوخ ( نیز (عبدالرحمن بن مہدی ) احمد بن حنبل ، اسحق بن راہویہ، مزنی، بیہقی اور خطیب بغدادی وغیرہم جیسا کہ ہمارے اس مضمون سے ثابت ہے) نے امام شافعی کی تائید فرمائی ہے۔
4 .کثیر اور قلیل تدلیس میں فرق کرنے والا منہج صحیح نہیں بلکہ مرجوح ہے۔
5 .اگر مدلس کی عن والی روایت مقبول ہے تو پھر منقطع اور مرسل روایات کیوں غیر مقبول ہیں؟
6. مدلسین مثلاً امام سفیان ثوریؒ وغیرہ کی معنعن اور سماع کی صراحت کے بغیر والی روایات غیرمقبول ہیں ، اگرچہ بعض متاخر علما نے اُنھیں طبقہ ثانیہ یا طبقۂ اولیٰ میں ذکر کر رکھا ہو۔
7. حافظ ابن حبان کے نزدیک امام سفیان بن عیینہ صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرتے تھے۔
ہمیں اس آخری شق سے دو دلیلوں کے ساتھ اختلاف ہے:
۱) بعض اوقات سفیان بن عیینہؒ غیر ثقہ سے بھی تدلیس کر لیتے تھے۔ مثلاً دیکھئے تاریخ یحییٰ بن معین (روایۃ الدوري : ۹۷۹) کتاب الجرح والتعدیل ( ۷؍ ۱۹۱) اور میری کتاب توضیح الاحکام ( ج۲؍ص ۱۴۹) لہٰذا یہ قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ قاعدہ اَغلبیہ ہے۔
۲) امام سفیان بن عیینہؒ بعض اوقات ثقہ مدلس (مثلاً ابن جریج) سے بھی تدلیس کرتے تھے۔دیکھئے الکفایہ ( ص ۳۵۹، ۳۶۰ وسندہ صحیح) اور توضیح الاحکام ( ج۲؍ص ۱۴۸)
میں نے یہ کہیں بھی نہیں پڑھا کہ سفیان بن عیینہ ثقہ مدلس راویوں سے بطورِ تدلیس صرف وہی روایات بیان کرتے تھے جن میں اُنھوں نے سفیان کے سامنے سماع کی تصریح کر رکھی ہوتی تھی، لہٰذا کیا بعید ہے کہ ثقہ مدلس نے ایک روایت تدلیس کرتے ہوئے بیان کی ہو اور سفیان بن عیینہ نے اس ثقہ مدلس کو سند سے گرا کر روایت بیان کر دی ہو، لہٰذا اس وجہ سے بھی ان کی معنعن روایت ناقابلِ اعتماد ہے۔ واللہ اعلم
16. حسین بن عبداللہ طیبی (متوفی۷۴۳ھ) نے اپنے اُصولِ حدیث والے رسالے میں امام شافعی ؒ کے اصول کو درج فرمایا ہے اور کوئی تردید نہیں کی، لہٰذا اس مسئلے میں وہ بھی شافعی سے متفق تھے۔دیکھئے الخلاصۃ فی اصول الحدیث (ص ۷۲ تحقیق صبحی سامرائی)
17. ابو بکر صیرفی (متوفی۳۳۰ھ)نے (کتاب الرسالہ کی شرح ) کتاب الدلائل والاعلام میں فرمایا:'' کل من ظهر تدليسه عن غير الثقات لم يقبل خبرہ حتی يقول: حدثني أو سمعت''ہر وہ شخص جس کی تدلیس غیر ثقہ راویوں سے ظاہر ہو جائے تو اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی،اِلا یہ کہ وہ حدثنی یا سمعت کہے ؍ یعنی سماع کی تصریح کرے۔ ( النکت علیٰ مقدمۃ ابن الصلاح از امام زرکشی ص ۱۸۴)
تنبیہ: چونکہ کتاب الدلائل والاعلام میرے پاس موجود نہیں اور نہ مجھے اس کے وجود کا کوئی علم ہے، لہٰذا یہ حوالہ مجبوراً زرکشی سے لیا ہے اور دوسرے کئی علماء نے بھی صیرفی سے اس حوالے کو نقل کیا ہے (مثلاً دیکھئے شرح الفیۃ العراقی بالتبصرۃ والتذکرۃ:۱؍ ۱۸۳۔ ۱۸۴)نیز یہ کہ کتاب سے روایت جائز ہے اِلا یہ کہ اصل کتاب میں ہی طعن ثابت ہو تو پھر جائز نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ضعیف راوی سے ایک دفعہ بھی تدلیس کرنے والے ثقہ راوی کے بارے میں صیرفی کا یہ موقف تھا کہ اس کی صرف وہی روایت مقبول ہوتی ہے جس میں سماع کی تصریح ہو، لہٰذا امام شافعی کے اصول سے صیرفی بھی متفق تھے۔
18. حافظ ابن حجر عسقلانی نے تدلیس الاسناد کے بارے میں کہا :
''وحکم من ثبت عنه التدليس إذا کان عدلاً،أن لا يقبل منه إلا ما صرّح فيه بالتحديث علی الأصح '' ( نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر ،ص ۶۶ ، و مع شرح الملا علی القاری، ص ۴۱۹)
''صحیح ترین بات یہ ہے کہ جس راوی سے تدلیس ثابت ہو جائے، اگرچہ وہ عادل ہو تو اُس کی صرف وہی روایت مقبول ہوتی ہے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔ ''
اس سے معلوم ہوا کہ ایک دفعہ تدلیس ثابت ہو جانے پر بھی حافظ ابن حجر مدلس کا عنعنہ صحت کے منافی سمجھتے تھے۔
حافظ ابن حجر نے اپنے نزدیک طبقۂ ثانیہ کے ایک مدلس اعمش کے بارے میں کہا:
''کیونکہ کسی سند کے راویوں کا ثقہ ہونا صحیح ہونے کو لازم نہیں ہے ، چونکہ اعمش مدلس ہیں اور اُنھوں نے عطا سے ( اس حدیث میں) اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا ہے۔ '' ( التلخیص الحبیر:۳؍ ۱۹ح ۱۱۸۱، السلسلۃ الصحیحۃ:۱؍ ۱۶۵ ح ۱۰۴)
19. محمد بن اسماعیل یمانی (متوفی۱۱۸۲ھ) نے بھی حافظ ابن حجر کے مذکورہ قول (فقرہ: ۱۸) کو بطورِ جزم اور بغیر کسی تردید کے نقل کیا ہے۔ دیکھئے: إسبال المطر علیٰ قصب السکر بتحقیق الشیخ محمد رفیق الاثری ص ۱۱۶،۱۱۷
20. شیخ الاسلام سراج الدین عمر بن رسلان البلقینی( متوفی ۸۰۵ ھ) نے مقدمہ ابن الصلاح کی شرح میں امام شافعی کا قول نقل کیا اور کوئی تردید نہیں کی، لہٰذا یہ ان کی طرف سے اصولِ مذکور کی موافقت ہے۔ دیکھئے: محاسن الاصطلاح :ص ۲۳۵، تحقیق عائشہ عبدالرحمن بنت شاتی
21 . برہان الدین ابو اسحق ابراہیم بن موسیٰ بن ایوب الابناسی ( متوفی ۸۰۲ھ) نے بھی امام شافعی کے مذکورہ اُصول کو نقل کیا اور کوئی مخالفت نہیں کی، لہٰذا یہ ان کی طرف سے اصولِ مذکور کی تائید ہے۔ دیکھئے: الشذي الفیاح:۱؍ ۱۷۷ ان کے علاوہ اور بھی کئی حوالے ہیں،مثلاً دیکھئے:النکت علیٰ ابن الصلاح لابن حجر:۲؍۶۳۴ وغیرہ
.........٭ ......٭.........
1. اُصولِ حدیث کے اس بنیادی مسئلے کے خلاف عرب ممالک میں حاتم شریف العونی ، ناصر بن حمد الفہد اور عبداللہ بن عبدالرحمن سعد وغیرہم نے منہج المتقدمین (والمتاخرین) کے نام سے ایک نیا اُصول متعارف کرانے کی کوشش شروع کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مدلسین کی دو قسمیں ہیں :
1. کثیر التدلیس مثلاً بقیہ بن الولید ، حجاج بن ارطاۃ اور ابو جناب کلبی وغیرہم
2. قلیل التدلیس مثلاً قتادہ، اعمش ، ہشیم ، ثوری ، ابن جریج اور ولید بن مسلم وغیرہم، دیکھئے: منہج المتقدمین فی التدلیسلناصر بن حمد الفہد، ص ۱۵۵، ۱۵۶
ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قلیل التدلیس راوی کی صرف وہی روایت ضعیف ہوتی ہے جس میں اُس کا تدلیس کرنا ثابت ہو ، ورنہ صحیح اور مقبول ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے منہج کی تائید میں درج ذیل دلیل پیش کرتے ہیں:
''یعقوب بن شیبہ نے کہا: میں نے علی بن مدینی سے پوچھا: جو شخص تدلیس کرتا ہے، کیا وہ حدثنا نہ کہے توحجت ہوتا ہے؟ اُنھوں نے فرمایا: ''إذا کان الغالب عليه التدليس فلا حتی يقول: حدثنا'' اگر اس پر تدلیس غالب ہو تو جب تک حدثنا نہ کہے حجت نہیں ہوتا۔'' (الکفایہ ص ۳۶۲ وسندہ صحیح، منہج المتقدمین ص ۲۳ مقدمہ بقلم شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن سعد )
گذشتہ محدث میں اس قول کا حوالہ بھی درج کریں۔؟؟؟
عرض ہے کہ یہ قول آٹھ(۸) وجوہ سے مرجوح اور ناقابلِ حجت ہے:
1. یہ جمہور کے خلاف یعنی شاذ ہے جیسا کہ ہم نے بیس سے زیادہ علماے کرام کے حوالوں سے ثابت کر دیا ہے اور باقی حوالے آگے آ رہے ہیں۔ اِن شاء اللہ
یاد رہے کہ اس قول یعنی الغالب علیہ التدلیس کو جمہور کا موقف قرار دینا غلط ہے۔
2. اس قول کے راوی خطیب بغدادی نے روایت کے باوجود خود اس قول کی عملاً مخالفت کی۔ دیکھئے یہی مضمون، فقرہ نمبر ۶
3. محدثین متقدمین مثلاً تیسری صدی ہجری تک تدلیس کرنے والے عام راویوں کے بارے میں محدثین کرام سے قلیل التدلیساورکثیر التدلیس کی صراحتیں ثابت نہیں ہیں۔
4. یہ مفہومِ مخالف ہے اور نصِ صریح کے مقابلے میں مفہومِ مخالف حجت نہیں ہوتا۔
5. یہ قول منسوخ ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خود امام ابن مدینی نے سفیان ثوری کے بارے میں فرمایا:
''والناس يحتاجون في حديث سفيان إلی يحيٰی القطان لحال الإخبار يعنی عليّ أن سفيان کان يدلس وأن يحيٰی القطان کان يوقفه علٰی ما سمع مما لم يسمع '' ( الکفایہ ص ۳۶۲ وسندہ صحیح)
''لوگ سفیان کی حدیث میں یحییٰ القطان کے محتاج ہیں، کیونکہ وہ مصرح بالسماع روایات بیان کرتے تھے۔ علی بن المدینی کا خیال ہے کہ سفیان تدلیس کرتے تھے اور یحییٰ القطان ان کی صرف مصرح بالسماع روایتیں ہی بیان کرتے تھے۔''
یاد رہے کہ منہج المتقدمین والے امام سفیان ثوری ؒ کو کثیر التدلیس نہیں سمجھتے بلکہ بہت سے علما اُنھیں قلیل التدلیس سمجھتے ہیں، لہٰذا اگر سفیان ثوری کی عن والی اور غیر مصرح بالسماع روایتیں (جن میں صراحتاً تدلیس ثابت نہیں ہے) صحیح و مقبول ہوتیں تو پھر لوگ ان کی روایات میں امام یحییٰ بن سعید القطان کے محتاج کیوں تھے؟
جب قلیل التدلیس راوی کی معنعن روایت میں سماع کی تصریح ضروری نہیں تو پھریہاں لوگوں کا محتاج ہو کر یحییٰ القطان کی طرف رجوع کرنا ناقابلِ فہم ہے۔
یہاں پر بطورِ فائدہ عرض ہے کہ امام یحییٰ بن سعید القطان نے فرمایا:
''ما کتبت عن سفيان شيئًا إلا ما قال: حدثني أو حدثنا إلا حديثين۔۔۔''
''میں نے سفیان( ثوری) سے صرف وہی کچھ لکھا ہے جس میں وہ حدثنی یا حدثنا کہتے تھے، سوائے دو حدیثوں کے۔'' ( کتاب العلل ومعرفۃ الرجال للامام احمد: ۱؍ ۲۰۷ ت ۱۱۳۰، وسندہ صحیح) ( یاد رہے کہ ان دو روایتوں کو یحییٰ القطان نے بیان کر دیا تھا)
معلوم ہوا کہ یحییٰ القطان اس جدید منہج المتقدمین کے قائل نہیں تھے بلکہ اپنے استاذ امام سفیان ثوری کے عنعنے اور عدمِ تصریحِ سماع کو صحت کے لئے منافی سمجھتے تھے، ورنہ اتنی تکلیف کی ضرورت کیا تھی؟
6. ابن مدینی کے اس قول کو نہ اہلِ حدیث نے قبول کیا ہے (مثلاً شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے ابوالزبیر ، قتادہ، اعمش، ابراہیم نخعی اور محمد بن عجلان وغیرہم کی روایات پر تدلیس کی وجہ سے جرح کی ہے ) اور نہ حنفیہ ، شافعیہ ، دیوبندیہ ، بریلویہ اور دیگر لوگ اسے تسلیم کرتے ہیں، مثلاً سرفراز خان صفدر دیوبندی اور احمد رضا خان بریلوی وغیرہم نے کئی مدلس یا تدلیس کی طرف منسوب راویوں کی روایات پر تدلیس کی جرح کی ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔نیز دیکھئے میری کتاب : 'علمی مقالات':۳؍ ۲۲۱، ۶۱۲
عام کتبِ اُصولِ حدیث میں بھی اس قول کو بطورِ حجت نقل نہیں کیا گیا بلکہ اس سے اِغماض اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قول غلط اور مرجوح ہے۔
7. کون کثیر التدلیس تھا اور کون قلیل التدلیس تھا، اس مسئلے کو متقدمین سے ثابت کرنا اور عام مسلمانوں کو اس پر متفق کرنے کی کوشش کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔
8. اختلافی مسائل کی کتابوں اور مناظراتِ علمیہ میں یہ اُصول غیر مقبول ہے بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے۔
2. امام یحییٰ بن معین ؒنے مدلس راوی کے بارے میں فرمایا:''لا يکون حجة فيمـا دلّس'' ''وہ جس میں تدلیس کرے تو حجت نہیں ہوتا۔ '' ( الکفایہ ص ۳۶۲ وسندہ صحیح)
اس قول کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جو روایت عن سے بیان کرے تو حجت نہیں ہوتا۔ فی الحال اس مطلب کی تائید میں چار حوالے پیشِ خدمت ہیں:
1. امام ابو نعیم الفضل بن دکین کوفی (متوفی ۲۱۸ھ) نے سفیان ثوری کے بارے میں فرمایا: ''إذا دلّس عنه يقول: قال عمرو بن مرة '' اور جب آپ اُن ( عمرو بن مرہ) سے تدلیس کرتے تو فرماتے :'' عمرو بن مرہ نے کہا۔ '' ( تاریخ ابو زرعہ دمشقی : ۱۱۹۳، وسندہ صحیح، 'علمی مقالات': ج۱؍ص ۲۸۷)
معلوم ہوا کہ امام ابو نعیم غیر مصرح بالسماع روایت کو مد لس کہتے تھے۔
2. طحاوی نے کہا:اور اس حدیث کو زہری نے عروہ سے نہیں سنا، اُنھوں نے تو اس کے ساتھ تدلیس کی ہے۔ ( شرح معانی الآثار :۱؍ ۷۲، علمی مقالات:۱؍ ۲۸۸)
یہاں زہری کی عن عروہ والی روایت کو 'دلس بہ' قرار دیا گیا ہے۔
3. محمد بن اسحق بن یسار امام المغازی نے ایک حدیث امام زہریؒ سے''فَذَکر'' کہہ کر سماع کی تصریح کے بغیر بیان کی تو امام ابن خزیمہ نے''إن صح الخبر'' کی صراحت کے ساتھ روایت کی صحت میں شک کیا اور فرمایا: ''أنا استثنيت صحة هذا الخبر لأني خائف أن يکون محمد بن إسحٰق لم يسمع من محمد بن مسلم وإنما دلّسه عنه'' ''میں نے اس روایت کی صحت کا استثنا اس لئے کیا کہ مجھے ڈر ہے کہ محمد بن اسحق نے محمد بن مسلم ( الزہری ) سے ( اس روایت کو ) نہیں سنا اور اُنھوں نے تو اس میں تدلیس کی ہے۔ '' (صحیح ابن خزیمہ: ۱؍ ۷۱ ح ۱۳۷)
اس قول میں عدمِ تصریح سماع والی روایت پر تدلیس کا اطلاق کیا گیا ہے۔
4. جریر بن حازم نے ابن ابی نجیح سے ایک روایت عن کے ساتھ بیان کی تو بیہقی نے فرمایا:
'' وهذا إسناد صحيح إلا أنهم يرون أن جرير بن حازم أخذہ من محمد بن إسحٰق ثم دلسه فإنه بيَّن فيه سماع جرير من ابن أبي نجيح صار الحديث صحيحًا۔ واﷲ أعلم ''
''اور یہ سند ( بظاہر) صحیح ہے اِلا یہ کہ وہ لوگ ( علمائ) سمجھتے ہیں کہ جریر نے اسے محمد بن اسحق سے لیا اور پھر اس میں تدلیس کر دی ( یعنی بطورِ عن بیان کر دیا ) پس اگر اس میں جریر کا ابن ابی نجیح سے سماع واضح ہو جائے تو حدیث صحیح ہو جائے گی۔ واللہ اعلم ''
( السنن الکبریٰ :۵؍ ۲۳۰ ، کتاب الحج باب جواز الذکر والانثی في الہدایا)
متعدد علماء نے مدلس کی عن والی روایت کو''ضعیف لتدلیس۔۔۔'' کہہ کر ضعیف قرار دیا ہے ، مثلاً سنن ابن ماجہ ( ۴۲۵۳) کی ایک روایت: ''الولید بن مسلم عن ابن ثوبان عن أبیہ عن مکحول عن جبیر بن نفیر عن عبد اﷲ بن عمروعن النبي ﷺ''کے بارے میں بوصیری نے کہا :
''هذا إسناد ضعيف،فيه الوليد بن مسلم وهو مدلس وقد عنعنه وکذلك مکحول الدمشقي ۔۔۔ '' ( زوائد سنن ابن ماجہ ،ص ۵۵۳ح ۱۴۴۹)
''یہ سند ضعیف ہے ، اس میں ولید بن مسلم مدلس ہیں اور انھوں نے عن سے روایت کی ہے ، اور اسی طرح مکحول الدمشقی ( مدلس ہیں اور اُنھوں نے عن سے روایت کی ہے) ۔۔۔ ''
روایتِ مذکورہ میں ولید بن مسلم کا خاص طور پر تدلیس کرنا ثابت نہیں، بلکہ اُن کے عن کی وجہ سے ہی بوصیری نے اسے تدلیس قرار دیا ہے، حالانکہ وہ اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ ایک جماعت نے اُن کی متابعت کی ہے، جیسا کہ بوصیری کے بقیہ کلام سے بھی ظاہر ہے۔ امام مکحول کا مدلس ہونا ثابت نہیں ، کجا یہ کہ وہ کثیر التدلیس ہوں اور خاص اس روایت میں ان کا تدلیس کرنا بھی ثابت نہیں، لہٰذا بوصیری کا اس روایت کو مکحول کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ مدلس کی عن والی روایت کو علما تدلیس قرار دیتے ہیں اور یہ شرط نہیں لگاتے کہ اگر کسی خاص روایت میں مدلس نے صراحت کے ساتھ تدلیس کی ہو گی تواسے تدلیس قرار دیں گے، ورنہ نہیں! ثابت ہوا کہ عنعنہ کو دلسہ قرار دینا بالکل صحیح ہے۔
3. منہاج المتقدمین کے موقف کا حاملین کا یہ کہنا :
'' مدلس کی 'عن' والی ہر روایت صحیح ہوتی ہے اِلایہ کہ کسی خاص روایت میں تصریح ثابت ہو جائے کہ یہ روایت اُس نے اپنے اُستاد سے نہیں سنی تھی، تو صرف یہ روایت ضعیف ہو گی۔'' حوالہ محدث، سابقہ ؟؟؟
اُصولِ حدیث کی رُو سے غلط ہے ، ورنہ مدلس اور غیر مدلس کی عن والی روایات میں فرق ہی باقی نہیں رہتا۔اگر ثقہ غیر مدلس راوی کی کسی خاص روایت میں یہ ثابت ہو جائے کہ انھوں نے اس روایت کو اپنے استاد سے نہیں سنا تھا تو معلول ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔
فائدہ:سنن ابن ماجہ کی روایت ِمذکورہ میں امام مکحول پر تدلیس کا اعتراض غلط ہے اور عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے، لہٰذا یہ روایت حسن لذاتہ ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں ۔ والحمد للہ!
ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ دلس کالفظ غیر مصرح بالسماع روایت بیان کرنے پر بھی بولا جاسکتا ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امام ابن معین کے مذکورہ قول کا وہی مفہوم لیا جائے جو جمہور محدثین و علما کی تحقیق کے مطابق ہے۔
4. یعقوب بن سفیان الفارسیؒ کے قول:''وحديث سفيان وأبي إسحٰق والأعمش ما لم يعلم أنه مدلس يقوم مقام الحجة'' ''اور سفیان ، ابو اسحق اور اعمش کی حدیث، جب معلوم نہ ہو کہ اس میں تدلیس کی گئی ہے تو حجت کے مقام پر قائم یعنی حجت ہے۔'' کا بھی یہی مطلب ہے جو امام ابن معین ؒ کے قول کا بیان کیا گیا ہے۔
یہ کیسے معلوم ہو گا کہ سفیان ثوری ، ابو اسحق سبیعی اور اعمش نے فلاںحدیث میں تدلیس کی ہے یا نہیں؟تو اس کا جواب آسان ہے کہ اگر ان کے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے تو قطعی فیصلہ ہو گیا کہ انھوں نے تدلیس نہیں کی اور اگر تصریح ثابت نہ ہو تو پھر اس بات کا قوی خوف اور ڈر ہے کہ ہو سکتا ہے انھوں نے اس روایت میں تدلیس کی ہو ، کسی غیر ثقہ سے روایت ِ مذکورہ کو سن کر اسے گرا دیا ہو جیسا کہ سفیان ثوری نے ایک حدیث اپنے نزدیک غیر ثقہ سے سنی تھی جس نے اسے عاصم سے بیان کیا تھا، پھر اسی روایت کو ثوری نے بغیر تصریح سماع کے عاصم سے بیان کر دیا تو اُن کے شاگرد ابو عاصم نے کہا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سفیان ثوری نے اس حدیث میں...... سے تدلیس کی ہے۔ دیکھئے: سنن الدارقطنی:۳؍ ۲۰۱ ح ۳۴۲۳ اور علمی مقالات : ۱؍ ۲۵۲ ،۲۵۳
4. منہج المتقدمین کے شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد حفظہ الله نے امام شافعی کے اصولِ تدلیس کو ' کلام نظری 'کہہ کر یہ عجیب وغریب دعویٰ کیا :
''بلکہ ہو سکتا ہے کہ شافعی نے اس (اُصول) پر خود عمل نہیں کیا، کیونکہ انھوں نے اپنی کتابوں میں بعض جگہ ابن جریج کی معنعن روایات سے حجت پکڑی اور شافعی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ ابن جریج نے یہ روایات اپنے اَساتذہ سے سنی ہیں۔ دیکھئے:کتاب الرسالہ :۴۹۸، ۸۹۰، ۹۰۳اور برائے ابو الزبیر الرسالہ : ۴۹۸، ۸۸۹
عرض ہے کہ یہ کلام کئی وجہ سے باطل ہے :
◌ امام شافعی کا ''إسنادہ صحیح''وغیرہ کہنے کے بغیر مجرد روایت بیان کرنا حجت پکڑنا نہیں ہے۔
◌ یہ ضروری نہیں ہے کہ مدلس کے سماع کی تصریح خود امام شافعی سے صراحتاً ثابت ہو بلکہ دوسری کتاب میں اس کی صراحت کافی ہے جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے مدلسین کی مرویات کے بارے میں علماے کرام کا عمل جاری و ساری ہے۔
◌ روایاتِ مذکورہ کی تفصیل درج ذیل ہے:
◌ الرسالۃ : ۴۹۸ اس میں سماع کی تصریح کتاب الام ( ۱؍ ۸۴) میں موجود ہے۔ دیکھئے: الرسالہ کا حاشیہ ص ۱۷۸؍ نمبر ۹
◌ الرسالۃ:۸۹۰ ابن جریج کی عطا سے روایت قوی ہوتی ہے، لہٰذا سماع کی یہاں ضرورت نہیں، دوسرے یہ کہ یہ سیدنا جبیر بن مطعم ؓکی بیان کردہ صحیح حدیث السنن الصغریٰ للنسائي ۱؍ ۲۸۴ ح ۵۸۶ ترقیم تعلیقاتِ سلفیہ کی تائید میں ہے۔
◌ الرسالۃ: ۹۰۳ روایت ِ مذکورہ موقوف ہے اور اس میں ابن جریج کے ابن ابی ملیکہ سے سماع کی تصریح اخبار مکہ للفاکہی (ج۱؍ص ۲۵۷ح ۴۹۶ وسندہ حسن لذاتہ ) میں موجود ہے۔
◌ الرسالۃ : ۴۹۸ ابو الزبیر کے سماع کی تصریح سنن النسائی ( ۱؍ ۲۸۴ ح ۵۸۶) میں موجود ہے۔
◌ الرسالۃ: ۸۸۹ اس میں ابو الزبیر کے سماع کی تصریح سنن النسائی( ۵۸۶)میں موجود ہے۔
◌ ایک شخص نے کتاب الرسالۃکے فقرہ:۱۲۲۰ ، کا حوالہ(محدث:ص۳۶) بھی امام شافعی کے اُصول کے خلاف بطورِ رد پیش کیا ہے ،حالانکہ اسی حوالے میں'أخبرہ'کے ساتھ سماع کی تصریح موجود ہے۔ثابت ہوا کہ شیخ عبداللہ السعد کا امام شافعی پر معارضہ پیش کرنا باطل ہے۔
5. منہج المتقدمین کے نام سے بعض جدید علما نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ثقہ مدلس کی غیر مصرح بالسماع (عن والی) ہر روایت صحیح و مقبول ہوتی ہے، اِلا یہ کہ کسی خاص روایت میں صراحتاً تدلیس ثابت ہو تو وہ ضعیف ہو جاتی ہے !!
اس مرجوح اور غلط منہج کی تردید کے لئے ہمارے ذکر کردہ اکیس ( ۲۱) حوالے کافی ہیں، تاہم مزید حوالے بھی پیش ِ خدمت ہیں:
22. امام بخاریؒ نے قتادہ عن ابی نضرہ والی ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
''ولم يذکر قتادة سماعًا من أبي نضرة في هذا'' ( جزء القراء ۃ : ۱۰۴) ''اور قتادہ نے ابو نضرہ سے اس روایت میں اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا۔ '' معلوم ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک مدلس کا سماع کی تصریح نہ کرنا صحتِ حدیث کے منافی ہے۔
23. أعمش عن حبیب بن أبی ثابت عن عطاء بن أبي رباح عن (ابن)عمر والی ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے امام ابن خزیمہ نے فرمایا: دوسری بات یہ ہے کہ اعمش مدلس ہیں، انھوں نے حبیب بن ابی ثابت سے اپنے سماع کاذکر نہیں کیا۔ الخ ( کتاب التوحید ص ۳۸، علمی مقالات:۳؍ ۲۲۰)
24. اِمام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ (متوفی ۱۶۰ ھ) نے فرمایا :میں قتادہ کے منہ کو دیکھتا رہتا، جب آپ کہتے:میں نے سنا ہے یا فلاں نے ہمیں حدیث بیان کی ، تو میں اسے یاد کر لیتا اور جب آپ کہتے : فلاں نے حدیث بیان کی ، تو میں اسے چھوڑ دیتا تھا۔( تقدمۃ الجرح والتعدیل ص ۱۶۹ ، وسندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ امام شعبہ بھی مدلس کی عدمِ تصریحِ سماع والی روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔نیز دیکھئے علمی مقالات (ج۱ص ۲۶۱۔ ۲۶۲)
25. حافظ ابن عبدالبر نے کہا: اور انھوں ( محدثین ) نے فرمایا: اعمش کی تدلیس ( یعنی عن والی روایت ) غیر مقبول ہے، کیونکہ انھیں جب ( معنعن روایت کے بارے ) پوچھا جاتا تو غیر ثقہ کا حوالہ دیتے تھے۔ الخ ( التمہید:۱؍ ۳۰ ، علمی مقالات: ۱؍ ۲۷۰)
ابن عبدالبر سے اس کے علاوہ تاسف والا ایک گول مول قول بھی موجود ہے۔ ( دیکھئے: التمہید: ۱۹؍ ۲۸۷ ) لیکن وہ قول جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔
26. محمد بن فضیل بن غزوان ( متوفی ۱۹۵ھ) نے کہا: مغیرہ ( بن مقسم ) تدلیس کرتے تھے، پس ہم اُن سے صرف وہی روایت لکھتے جس میں وہ حدثنا ابراہیم کہتے تھے۔ ( مسند علی بن الجعد: ۱؍ ۴۳۰ ح ۶۶۳ وسندہ حسن ، دوسرا نسخہ : ۶۴۴، علمی مقالات ج۱ص ۲۸۷)
معلوم ہوا کہ محمد بن فضیل بھی مدلس کی وہ روایت، جس میں سماع کی تصریح نہ ہو ضعیف و مردود سمجھتے تھے۔
27. ابن القطان الفاسی ( متوفی ۶۲۸ھ) نے کہا:''ومعنعن الأعمش عرضة لتبين الانقطاع فإنه مدلس''اور اعمش کی معنعن (عن والی) روایت انقطاع بیان کرنے کا نشانہ اور ہدف ہے، کیونکہ وہ مدلس ہیں۔ ( بیان الوہم والایہام :۲؍ ۴۳۵ ح ۴۴۱)
اگر مدلس کی عن والی روایت مطلقاً صحیح ہوتی ہے تو پھر انقطاع کے ہدف اور نشانہ ہونے کا کیا مطلب ؟!
28. زہری عن عروہ والی ایک روایت کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا:
'' الزهری لم يسمع من عروة هذا الحديث فلعله دلّسه '' ( علل الحدیث:۱؍ ۳۲۴ ح ۹۶۸)
''زہری نے عروہ سے یہ حدیث نہیں سنی ، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ انھوں نے اس میں تدلیس کی ہو۔ ''
29. اِمام یحییٰ بن سعید القطان بھی مدلس کی تصریحِ سماع نہ ہونے کو صحتِ حدیث کے منافی سمجھتے تھے، جیسا کہ اُن کے عمل سے ثابت ہے،مثلاً دیکھئے یہی مضمون (فقرہ: ۲۱ ) ابن المدینی رحمہ اللہ کے قول کا رد نمبر ۴۔
30. ابن الترکمانی حنفی نے ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے کہا:
''اس میں تین علتیں (وجۂ ضعف) ہیں:ثوری مدلس ہیں اور انھوں نے یہ روایت عن سے بیان کی ہے۔۔۔ '' ( الجوہر النقی:۸؍ ۲۶۲ ، الحدیث حضرو: ۶۷ ص ۱۷)
معلوم ہوا کہ ابن الترکمانی کے نزدیک بھی ہر روایت میں مدلس راوی کے سماع کی تصریح کا ثبوت ضروری ہے اور مطلقاً عدمِ تصریحِ سماع والی روایت معلول یعنی ضعیف ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں، مثلاً عینی حنفی نے کہا:اور سفیان ( ثوری) مدلسین میں سے تھے اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی اِلایہ کہ اُس کی تصریحِ سماع دوسری سند سے ثابت ہو جائے۔ ( عمدۃ القاری :۳؍ ۱۱۲، الحدیث حضرو: ۶۶ص ۲۷، عدد۶۷ ص ۱۶)
اب عصرِ حاضر کے بعض اہلِ حدیث علماء کے دس حوالے پیشِ خدمت ہیں:
31. مولانا ارشاد الحق اثری صاحب نے حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک طبقۂ ثالثہ و طبقۂ ثانیہ کے مدلسین کی معنعن اور غیر مصرح بالسماع روایات کو غیر صحیح اور ضعیف قرار دیا ہے ، جیسا کہ اس مضمون کے بالکل شروع میں باحوالہ بیان کر دیا گیا ہے۔
32. مولانا محمد داود ارشد صاحب نے امام سفیان ثوری کو مدلس قرار دینے کے بعد لکھا:
''جب یہ بات متحقق ہو گئی کہ سفیان ثوری مدلس ہیں، تو اب سنیے کہ زیر بحث اَحادیث میں امام سفیان ثوری نے تحدیث کی صراحت نہیں کی بلکہ معنعن مروی ہے ، اور مدلس راوی کی روایت سماع کی صراحت کے بغیر ضعیف ہوتی ہے۔ '' الخ ( حدیث اور اہلِ تقلید :۱؍ ۷۲۳ )
33. ذہبیٔ عصر حقاً شیخ عبدالرحمن بن یحییٰ المعلمیالیمانی المکی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کی ایک معنعن روایت کو معلول قرار دیتے ہوئے پہلی علت یہ بیان کی کہ سفیان تدلیس کرتے تھے اور کسی سند میں اُن کے سماع کی تصریح نہیں ہے۔دیکھئے:(التنکیل بما في تانیب الکوثري من الاباطیل: ۲؍ ۲۰) اور الحدیث حضرو : ۶۷ ص ۱۸)
34. محترم مبشر احمد ربانی صاحب نے اعمش کی ایک روایت پر دوسری جرح درج ذیل الفاظ میں لکھی:
'' اعمش مدلس ہیں اور ضعفاء و مجاہیل سے تدلیس کرجاتے ہیں اور اس روایت میں انھوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ '' (اَحکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں:۱؍ ۱۷۶، طبع اوّل ۲۰۰۸ئ) نیز دیکھئے:( آپ کے مسائل اور ان کا حل:۳؍ ۵۳ ، ۳؍ ۵۷۔ ۵۸)
معلوم ہوا کہ ربانی صاحب کے نزدیک مدلس کی معنعن روایت ( غیر صحیحین میں )ضعیف ہوتی ہے اور اس سلسلے میں اُن سے رابطہ کر کے مزید معلومات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔
35. مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے سیدنابلالؓکی طرف منسوب جرابوں پر مسح والی ایک روایت کو ضعیف قرار دیا اور فرمایا: ''في سندہ الأول الأعمش وهو مدلس ورواہ عن الحکم بالعنعنة ولم يذکر سماعه منه ۔۔۔''
اس کی پہلی سند میں اعمش ہیں اور وہ مدلس ہیں ، انھوں نے اسے حکم ( بن عتیبہ )سے عن کے ساتھ روایت کیا ہے اور اُن سے سماع کا ذکر نہیں کیا ۔ الخ ( تحفۃ الاحوذي:۱؍ ۱۰۱ تحت ح ۹۹ باب فی المسح علی الجوربین والنعلین)
36. حافظ ابن حجر کی طبقات المدلسین کے نزدیک طبقۂ ثانیہ کے مدلس یحییٰ بن ابی کثیر کے بارے میں سعودی عرب کے مشہور شیخ عبدالعزیز ابن بازؒنے فرمایا:
''و يحيی مدلس و المدلس إذا لم يصرح بالسماع لم يحتج به إلا ما کان فی الصحيحين '' ( مجموع فتاویٰ ابن باز :۲۶؍ ۲۳۶ بحوالہ مکتبہ شاملہ)
''اور یحییٰ مدلس ہیں اور مدلس اگر سماع کی تصریح نہ کرے تو اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی اِلا یہ کہ جو کچھ صحیحین میں ہے / تو وہ حجت ہے۔ ''
نیز دیکھئے حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب کی کتاب :(اَحکام و مسائل:ج۱ص ۲۴۶ ، ۲۴۷)
37. مولانا محمد یحییٰ گوندلویؒنے مدلس کی عن والی روایت کے بارے میں عام اُصول بیان فرمایا کہ '' مدلس کی معنعن روایت ناقابل قبول ہے۔ '' ( ضعیف اور موضوع روایات ص ۶۸ ، کتاب الایمان سے تھوڑا پہلے ، دوسرا نسخہ ص ۶۶)
گوندلوی صاحب نے سفیان ثوری کی تدلیس ( عنعنے ) کو روایت کی علت ( وجۂ ضعف) قرار دیا ہے۔ دیکھئے :(صحیح سنن الترمذی مترجم: ۱؍ ۱۹۲)
اور فرمایا: ''اس روایت کے ضعف کی وجہ سفیان ثوری کی تدلیس ہے۔ سفیان مدلس ہیں اور مدلس جب عن سے روایت کرے تو قابل حجت نہیں اور مذکورہ روایت بھی عن سے ہے ، جس وجہ سے اس روایت کو صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ '' ( صحیح سنن الترمذی :۱؍ ۱۹۳)
گوندلوی صاحب نے اپنی ایک سابقہ بات سے رجوع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
''راقم نے خیر البراہین میں لکھا تھا کہ سفیان کی تدلیس مضر نہیں مگر ( صح و فی الاصل : بگر) بعد ازاں تحقیق سے معلوم ہوا کہ مضر ہے۔ ''
( ضعیف اور موضوع روایات، ص ۲۵۹ کا حاشیہ ، طبع ثانی، ستمبر ۲۰۰۶ئ)
38. ملک عبدالعزیز مناظر ملتانی رحمہ اللہ ([سابق] مہتمم مدرسہ عربیہ دارالحدیث محمدیہ ملتان) نے قتادہ کی ایک روایت کے بارے میں فرمایا: '' قتادہ چونکہ مدلس اور عنعن سے روایت کرتا ہے ، ایسی حدیث قابلِ حجت نہیں ہوتی۔'' ( فیصلہ رفع الیدین، تبریدالعینین فی اثبات رفع الیدین ص ۳۴، استیصال التقلید و دیگر رسائل ص ۹۰)
39. مولانا محمد ابو القاسم سیف بن محمد سعید البنارسیؒنے ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھا:
''۔۔۔ خود معلوم اور قابل حجت و تسلیم نہیں،کیونکہ اس کا ایک راوی سفیان ثوری مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے۔۔۔ '' الخ (تذکرۃ المناظرین از قلم محمد مقتدی اثری عمری، ص ۳۳۵)
40. حافظ ابن حجر کے نزدیک طبقۂ ثانیہ کے مدلس زکریا بن ابی زائدہ کے بارے میں مولانا خواجہ محمد قاسم ؒنے لکھا ہے :''گذارش ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ والی سند میں زکریا بن ابی زائدہ مدلس ہے جو عن سے روایت کرتا ہے۔ ''
(حدیث اور غیر اہلِ حدیث بجواب حدیث اور اہلحدیث، ص ۷۲)
منہج المتقدمین والے نہ تو امام شافعی رحمہ اللہ کے بیان کردہ اُصول کو مانتے ہیں اور نہ حافظ ابن حجر کی طبقاتی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں، لہٰذا عرض ہے کہ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ (سابق ) مہتمم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ نے ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
'' اس حدیث کی سند میں امام قتادہ ہیں۔ جو تیسرے طبقے کے مدلسین سے ہیں۔ اور وہ عن کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔ یعنی یہ نہیں کہتے کہ میں نے یہ حدیث سنی ۔ اور ایسی حدیث حجت نہیں ہوتی۔ '' الخ ( خیر الکلام ص ۱۵۹، دوسرا نسخہ ص ۱۲۳)
نیز دیکھئے: (توضیح الکلام : ۲؍ ۲۹۵، دوسرانسخہ ص ۷۰۰ بلفظ مختلف )
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں اور عصرِ حاضر میں مسلک حق کا دفاع کرنے والے مناظرین مثلاً مولانا مبشر احمد ربانی، محترم مولانا محمد داؤد ارشد،محترم مولانا ابو الاسجد محمد صدیق رضا اور محترم حافظ عمر صدیق حفظہ اللہ وغیرہم اسی منہج پر قائم ہیں کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی اور یہی مفتیٰ بہ قول ہے اور اسی پر عمل ہے۔
ان چالیس حوالوں کے بعد بریلویوں اور دیوبندیوں کے دس حوالے پیشِ خدمت ہیں:
41. احمد رضا خان بریلوی نے عبداللہ بن ابی نجیح المکی المفسر( طبقہ ثالثہ عند ابن حجر ) کی ایک روایت کے بارے میں لکھا ہے: '' اس کا مدارابن ابی نجیح پر ہے وہ مدلس تھا اوریہاں روایت میں عنعنہ کیا اور عنعنۂ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمد میں مردود ونامستند ہے۔ '' ( فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ عربی عبارات :۵؍ ۲۴۵)
شریک القاضی (طبقہ ثانیہ عند ابن حجر) پر بھی احمد رضا خان نے تدلیس والی جرح بطورِ رضا مندی نقل کی ہے۔ دیکھئے :(فتاویٰ رضویہ:۲۴؍ ۲۳۹)
42 ٍ. بریلویوں کے مناظر محمد عباس رضوی بریلوی رضا خانی نے سفیان ثوری کی ایک روایت کے بارے میں لکھا ہے:
'' یعنی سفیان مدلس ہے اوریہ روایت انہوں نے عاصم بن کلیب سے عن کے ساتھ کی ہے اور اصول محدثین کے تحت مدلس کا عنعنہ غیر مقبول ہے جیساکہ آگے انشاء اللہ بیان ہو گا۔'' ( مناظرے ہی مناظرے، ص ۲۴۹)
عباس رضوی نے سلیمان الاعمش کی ایک معنعن روایت کے بارے میں کہا:
'' اس روایت میں ایک راوی امام اعمش ہیں جو کہ اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں اور مدلس راوی جب عن : سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہوگی۔'' ( واللہ آپ زندہ ہیں، ص ۳۵۱)
43. غلام مصطفی نوری بریلوی نے سعید بن ابی عروبہ ( طبقۂ ثانیہ عند ابن حجر) کی روایت کے بارے میں لکھا ہے:
'' لیکن اس کی سند میں ایک تو سعید بن ابی عروبہ ہیں جو کہ ثقہ ہیں لیکن مدلس ہیں اور یہ روایت بھی انہوں نے قتادہ سے لفظ عن کے ساتھ کی ہے اور جب مدلس عن کے ساتھ روایت کرے تو وہ حجت نہیں ہوتی۔ '' ( ترکِ رفع یدین، ص ۴۲۵ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ گلبرگ اے، فیصل آباد)
44. محمد شریف کوٹلوی بریلوی نے سفیان ثوری کی ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھا:
'' اور سفیان کی روایت میں تدلیس کا شبہ ہے۔'' ( فقہ الفقیہ، ص ۱۳۴)
45. محمود احمد رضوی بریلوی نے کہا: '' اور یہ بھی مسلم ہے کہ مدلس جب لفظ عن سے روایت کرے تو روایت متصل نہیں قرار پائے گی۔۔۔ لہٰذا یہ روایت منقطع ہو گی اور قابل حجت نہ رہے گی ۔'' (فیوض الباری فی شرح صحیح البخاری،حصہ سوم ص ۴۰۶، دیکھئے: علمی مقالات:۳؍ ۶۱۳۔۶۱۴)
46. حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی نے امام سفیان ثوری کی روایت پر جرح کرتے ہوئے کہا: '' اور سفیان تدلیس کرتا ہے۔'' ( تقریر ترمذی ص ۳۹۱ کتب خانہ مجیدیہ ملتان)
47. سرفراز خان صفدر دیوبندی نے کہا:
'' مُدلِّس راوی عَنْ سے روایت کرے تو وہ حجّت نہیں اِلاَّیہ کہ وہ تحدیث کرے یا اسکا کوئی ثقہ متابع ہو مگر یہ یاد رہے کہ صحیحین میں تدلیس مضر نہیں۔وہ دوسرے طرق سے سماع پر محمول ہے۔'' ( مقدمۂ نووی ص ۱۸، فتح المغیث، ص ۷۷، تدریب الراوی ص ۱۴۴)( خزائن السنن :۱؍ ۱)
48. فقیر اللہ دیوبندی نے لکھا ہے:
'' حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ''حکم من ثبت عنه التدليس إذا کان عدلاً أن لا يقبل منه إلا ما صرح فيه بالتحديث علی الأصح'' ( نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر، ص ۴۵)
''عادل راوی سے جب ایک مرتبہ تدلیس ثابت ہو جائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کی وہی روایت مقبول کی جائے گی جس میں تحدیث کی تصریح ہو گی''
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بیان کردہ یہ حکم تمام علما اصول کے ہاں متفق علیہ ہے علامہ عراقیؒ، علامہ ابن عبدالبر ؒکے مقدمۂ تمہید سے مدلس کا یہی حکم نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''فهذا ما لا اعلم فيه ايضًا خلافًا'' ( التقیید والایضاح)
''اس حکم میں علماء اصول کا کوئی اختلاف میرے علم میں نہیں ہے۔''( خاتمۃ الکلام، ص ۴۷۶)
49. ایک غالی دیوبندی امداد اللہ انور تقلیدی نے ایک روایت کے بارے میں کہا:
'' اس کی سند میں اعمش راوی مدلس ہیں۔ اس نے عنعن سے روایت کی ہے اور اس کا سماع حکم سے ثابت ثابت نہیں ہے۔ '' (مستند نماز حنفی، ص ۳۵)
50. محمد الیاس فیصل دیوبندی نے لکھا ہے:
'' اس کی سند میں اعمش راوی مدلّس ہے۔ اس نے عَنعَنَ سے روایت کی ہے اور اس کا سماع حکم سے ثابت نہیںہے۔ '' ( نمازِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، ص ۸۵)
ان حوالوں سے یہ ثابت ہو گیا کہ جمہور محدثین کرام اور علمائے حق کے نزدیک مدلس راوی کی عن والی روایت ( غیر صحیحین میں ) حجت نہیں ہے ، اور اسے 'سر تا سر حقیقت کے منافی' قرار دینا غلط ہے نیز اہلِ حق کے علاوہ دوسرے فرقوں سے بھی یہی اُصول و منہج ثابت ہے، لہٰذا منہج المتقدمین والوں کا بعض شاذ اقوال لے کر کثیر التدلیس اور قلیل التدلیس کا شوشہ چھوڑ کر مسئلۂ تدلیس کا انکار باطل و مردود ہے۔
اس تحقیقی مضمون میں بیان کردہ پچاس حوالوں کے مذکورین کے نام علی الترتیب الہجائی درج ذیل ہیں:
◌ ابن الترکمانی حنفی ◌ ابن الصلاح ◌ ابن القطان الفاسی
◌ ابن الملقن ◌ ابن باز ◌ ابن حبان
◌ ابن حجر العسقلانی ◌ ابن خزیمہ ◌ ابن عبد البر
◌ ابن کثیر ◌ ابناسی ◌ ابو القاسم بنارسی
◌ ابو بکر الصیرفی ◌ ابو حاتم الرازی ◌ احمد بن حنبل
◌ احمد رضا خان بریلوی ◌ ارشاد الحق اثری ◌ اسحاق بن راہویہ
◌ اسماعیل بن یحییٰ المزنی ◌ امداد اللہ انور ◌ بخاری
◌ بلقینی ◌ بیہقی ◌ حسین احمد مدنی
◌ حسین الطیبی ◌ خطیب بغدادی ◌ خواجہ محمد قاسم
◌ داود ارشد ◌ زکریا الانصاری ◌ سخاوی
◌ سرفراز خان صفدر ◌ سیوطی ◌ شافعی
◌ شعبہ ◌ عباس رضوی ◌ عبدالرحمن بن مہدی
◌ عبدالرحمن مبارکپوری ◌ عبدالعزیز ملتانی ◌ عراقی
◌ غلام مصطفی نوری ◌ فقیر اللہ دیوبندی ◌ مبشر ربانی
◌ محمد الیاس فیصل ◌ محمد بن امیر الصنعانی
◌ محمد بن فضیل بن غزوان ◌ محمد شریف کوٹلوی ◌ محمد یحییٰ گوندلوی
◌ محمود احمد رضوی ◌ معلمی ◌ نووی
◌ یحییٰ القطان
◌ امام مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا:
'' وإنما کان تفقد من تفقد منهم سماع رواة الحديث ممن روی عنهم - إذا کان الراوي ممن عرف بالتدليس فی الحديث وشهر به فحينئذ يبحثون عن سماعه في روايته و يتفقدون ذلك منه،کي تنزاح عنهم علة التدليس'' ( مقدمہ صحیح مسلم، طبع دارالسلام ،ص ۲۲ب)
''جس نے بھی راویانِ حدیث کا سماع تلاش کیا ہے تو اس نے اس وقت تلاش کیا ہے جب راوی حدیث میں تدلیس کے ساتھ معروف ( معلوم) ہو اور اس کے ساتھ مشہور ہو تو اس وقت روایت میں اس کا سماع دیکھتے ہیں اور تلاش کرتے ہیں تاکہ راویوں سے تدلیس کا ضعف دور ہو جائے۔''
اس عبارت کی تشریح میں ابن رجب حنبلی نے لکھا ہے:
''وهذا يحتمل أن يريد به کثرة التدليس في حديثه ويحتمل أن يريد (به) ثبوت ذلك عنه وصحته فيکون کقول الشافعي '' ( شرح علل الترمذی:۱؍ ۳۵۴)
''اور اس میں احتمال ہے کہ اس سے حدیث میں کثرتِ تدلیس مراد ہو ، اور ( یہ بھی ) احتمال ہے کہ اس سے تدلیس کا ثبوت مراد ہو ، تو یہ شافعی رحمہ اللہ کے قول کی طرح ہے۔''
عرض ہے کہ اس سے دونوں مراد ہیں یعنی اگر راوی کثیر التدلیس ہو تو بھی اس کی معنعن روایت ( اپنی شروط کے ساتھ) ضعیف ہوتی ہے، اور اگر راوی سے ( ایک دفعہ ہی) تدلیس ثابت ہو جائے تو پھر بھی اس کی معنعن روایت ( اپنی شروط کے ساتھ ) ضعیف ہوتی ہے۔
◌ بعض الناس نے الکفایہ (ص ۳۷۴، دوسرا نسخہ ۲؍ ۴۰۹ رقم ۱۱۹۰) [محدث،ص۴۸]سے معنعن روایت کے بارے میں امام حمیدی کا ایک قول پیش کیا ہے۔
عرض ہے کہ اس عبارت میں تدلیس کا لفظ یا معنی موجود نہیںبلکہ عمرو بن دینار عن عبید بن عمیر میں یہ اشارہ ہے کہ اس سے غیر مدلس کی معنعن روایات مراد ہیں ۔
◌ بطورِ لطیفہ عرض ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک مشہور قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا ہوا آری کے ساتھ اُسے کاٹ رہا تھا ، جس حصے کو وہ کاٹ رہا تھا وہ درخت کی طرف تھا اور یہ خود دوسری طرف بیٹھا ہوا تھا ، پھر نتیجہ کیا ہوا ؟
دھڑام سے نیچے آ رہا اور ایسی 'پھکی' ملی کہ دن میں بھی تارے نظر آ گئے۔
بالکل یہی معاملہ اُس شخص کا ہے جو ایک طرف منہج المتقدمین کے نام سے تدلیس کے دو حصے ( کثیر و قلیل) بنا کر مدلسین کی معنعن روایات کو صحیح سمجھتا ہے اور دوسری طرف اعمش وغیرہ مدلسین ( جن کا کثیر التدلیس ہونا متقدمین سے صراحتاً ثابت نہیں ) کی معنعن روایات کو ضعیف سمجھتا ہے۔یہ شخص اگر نیچے نہ گرے تو کیا آسمان میں اُڑے گا؟!
آخر میں عرض ہے کہ تدلیس کے مسئلے میں دو باتوں کی تحقیق انتہائی ضروری ہے :
1. کیا راوی واقعی مدلس تھا یا نہیں؟ اگر مدلس نہیں تھا تو بری من التدلیس ہے، مثلاً ابوقلابہ الجرمی اور بخاری وغیرہما ، لہٰذا اُن کی معنعن روایت ( اپنی شروط کے ساتھ ) مقبول ہے۔
2. اِرسالِ خفی اور ارسالِ جلی کی تحقیق کر کے مسئلہ واضح کر دیا جائے۔
کاش کہ اپنے قلم کو تناقضات کی وادیوں میں دوڑانے والے صحیح تحقیق کا راستہ اختیار کر کے اس طرف بھی اپنی توجہ مبذول فرمائیں۔
اِعلان
ماہنامہ 'محدث' میں مضامین و مراسلات بھیجنے والے حضرات آئندہ اس فون یا اِی میل پر
رابطہ کر سکتے ہیں۔ کامران طاہر(معاون مدیر)فون:0302-4424736
ای میل:mkamrantahir@gmail.com