آسیہ مسیح اور قانونِ توہین رسالت

آسیہ بی بی کا تعلق ننکانہ صاحب کے نواحی علاقے اِٹانوالی سے ہے۔ پانچ بچوں کی ۴۵ سالہ ماں آسیہ بی بی کو مقامی سیشن عدالت سے توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ آسیہ بی بی پر الزام ہے کہ اس نے گذشتہ سال کئی افراد کی موجودگی میں توہین رسالت کی، جس کے بعد اسے پولیس کے حوالے کیا گیا۔پولیس نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵۔سی کے تحت اس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ اس مقدمے کی تفتیش ایس پی انویسٹی گیشن شیخوپورہ محمد امین شاہ بخاری نے کی اور ان کا کہنا ہے کہ دورانِ تفتیش آسیہ بی بی نے مسیحی برادری کے اہم افراد کی موجودگی میں اعتراف ِجرم کیا اور کہا کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے، لہٰذا اسے معاف کردیا جائے۔ آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال کچھ مسلمان خواتین نے اس کے سامنے کہا کہ قربانی کا گوشت مسیحیوں کے لیے حرام ہوتا ہے جس پر غصے میں آکر اس نے کچھ گستاخانہ کلمات کہہ ڈالے جس پر وہ معافی مانگتی ہے۔ آسیہ بی بی نے اپنے خلاف مقدمے کے مدعی قاری سالم سے بھی معافی مانگی، لیکن اس کا موقف یہ تھا کہ توہین رسالت کے ملزم کو معافی نہیں مل سکتی۔
ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب نوید اقبال نے گواہوں کے بیانات اور واقعاتی شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ۸ نومبر۲۰۱۰ء کو آسیہ مسیح کے لیے سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا اعلان کیا۔ اس سزا کے بعد وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کوبے گناہ قرار دیا اور ساتھ ہی تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی کو بھی ظالمانہ قرار دے دیا۔
کچھ دنوں بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر شیخوپورہ جیل پہنچ گئے۔ اُنہوں نے بھی آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور کہا کہ وہ آسیہ بی بی کو صدر آصف علی زرداری سے معافی دلوا دیں گے۔ سلمان تاثیر نے بھی ۲۹۵سی پر تنقید کی۔ جس کے بعد آسیہ بی بی پس منظر میں چلی گئی اور ۲۹۵سی پربحث شروع ہوچکی ہے۔ یہ بحث آسیہ بی بی کو مزید متنازع بنا رہی ہے کیونکہ یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ آسیہ بی بی کے نام پر ایک ایسے قانون کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے۔پوپ بینیڈیکٹ کی طرف سے آسیہ بی بی کے رہائی کے مطالبے کے بعد کئی پاکستانی علما اس معاملے کا عافیہ صدیقی کے معاملے کے ساتھ تقابلی جائزہ لے رہے ہیں اور یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ جن عناصر کو آسیہ بی بی کے ساتھ ناانصافی نظر آرہی ہے، وہ عافیہ صدیقی کے معاملے میں خاموش کیوں رہتے ہیں؟
بہتر ہوتا کہ آسیہ بی بی کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی بجائے اسے افہام وتفہیم سے حل کیا جاتا۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں کئی افراد کی طرف سے ۲۹۵سی کا غلط استعمال کیا گیا لیکن یہ غلط استعمال صرف مسیحیوں کے خلاف نہیں کیا گیابلکہ مسلمانوں کے خلاف بھی ہوا۔بالکل اسی طرح جیسے کئی مرتبہ دفعہ۳۰۲ میں بے گناہ افراد پر قتل کا الزام عائد کردیا جاتا ہے، اسی طرح ۲۹۵سی میں بھی بے گناہ افراد پر توہین رسالت کا غلط الزام عائد کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ پچھلے ۲۰ سالوں کے دوران توہین رسالت اور توہین قرآن کے الزام میں۷۰۰ سے زائد مقدمات درج ہوچکے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ مقدمات مسلمانوں کے خلاف درج کرائے گئے ہیں،لہٰذا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ ۲۹۵سی کا نشانہ صرف غیر مسلم بنتے ہیں۔ قانون میں کوئی خامی نہیں ہے البتہ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے۔ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کے لیے بھی سخت سزا قانون میں موجود ہے۔ جن افراد نے ماضی میں جھوٹے الزامات لگائے اگر ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تو ۲۹۵سی کا غلط استعمال نہ ہوتا۔
اگر شہبازبھٹی اور سلمان تاثیر اپنی دانست میں آسیہ بی بی کو بے گناہ سمجھتے ہیں تو ان کے پاس دو مناسب راستے موجود تھے۔ اوّل یہ کہ وہ کسی اچھے وکیل کا انتظام کرتے اور آسیہ بی بی کے خلاف سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیتے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ہائی کورٹ نے توہین رسالت کے ملزمان کو رہا کردیا، کیونکہ ان پر الزام ثابت نہ ہوسکا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ پنجاب حکومت سمیت ملک کی اہم دینی جماعتوں کی قیادت اور جید علما کو اعتماد میں لے کر ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جاتی اور کمیٹی کو یہ اختیار دیا جاتا کہ آسیہ بی بی کے بے قصور ثابت ہونے کی صورت میں صدر آصف علی زرداری سے اس کی سزا معاف کرنے کی سفارش کی جاتی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہبازبھٹی اور سلمان تاثیر نے جو کچھ بھی کیا، اس میں اصل مقصد آسیہ بی بی کو بچانا نہیں بلکہ ۲۹۵سی کو اُڑانا نظر آتا ہے۔
۲۹۵سی کے تحت توہین رسالت کی سزا موت پر نہ صرف بریلوی، دیوبندی، اہل تشیع اور اہل حدیث کے جید فقہا اور علماء کا اتفاق ہے بلکہ یہ قانون پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور شدہ ہے۔ ۲ جون ۱۹۹۲ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے یہ قرارداد منظور ہوئی کہ توہین رسالت کی سزا موت ہونی چاہئے۔ اس سے قبل وفاقی شرعی عدالت حکومت کو حکم دے چکی تھی کہ توہین رسالت کی سزا عمر قید کی بجائے موت مقرر کی جائے۔ قومی اسمبلی میں اس معاملے پر بھرپور بحث ہوئی جس کے بعد ۲۹۵سی کی منظوری ہوئی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قانون جنرل ضیاء الحق کے دور میں لایا گیا تھا، اس لیے اس قانون کو ختم کردیا جائے۔ یہ بڑی عجیب منطق ہے جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کا رکن یوسف رضا گیلانی پیپلزپارٹی کی حکومت کا وزیراعظم بن جائے تو قبول لیکن وہی جنرل ضیاء الحق توہین رسالت کا قانون لائے تو قبول نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ توہین رسالت کے قانون کی تشکیل کے لیے آئینی تحریک قیام پاکستان سے کئی سال قبل مولانا محمد علی جوہرؒ نے شروع کی تھی جب لاہور ہائی کورٹ کے جج کنور دلیپ سنگھ نے ایک قابل مذمت کتاب ''رنگیلا رسول'' کے ناشر راج پال کو محض یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس کی کتاب مروّجہ قانون کی کسی دفعہ کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتی۔ مولانا محمد علی جوہر نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ قصور جج کا نہیں، قانون کا ہے اور یوں توہین رسالت کے لیے قانون سازی کا مطالبہ ۱۹۲۷ء میںشرو ع ہوا۔ دو سال کے بعد ۱۹۲۹ء میں ایک مسلمان نوجوان غازی علم دین شہید نے راج پال کو لاہور میں قتل کردیا۔ غازی علم دین کو سزائے موت دی گئی تو علامہ اقبالؒ نے ان کی رہائی کے لیے قائداعظمؒ کووکالت پر آمادہ کیا۔ غازی علم دین کی پھانسی کے بعد علامہ اقبالؒ نے ان کے جنازے میں شہید کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
یاد رہے کہ غازی علم دین شہید کے جنازے میں میت کے لیے چارپائی کا بندوبست سلمان تاثیر کے والد ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر نے کیا تھا۔ اگر برصغیر میں توہین رسالت کا قانون موجود ہوتا تو غازی علم دین کی طرف سے راج پال کو قتل نہ کیا جاتا۔ توہین رسالت سے فساد پھیلتا ہے، توہین رسالت کے قانون پر صحیح عمل درآمد سے فساد کے تمام راستے مسدود کئے جاسکتے ہیں۔اگر کوئی اس قانون کو بدلنے کی کوشش کرے گا تووہ پاکستان میں فساد پھیلانے کا باعث بنے گا ، لہٰذا آسیہ بی بی کے نام پر اس قانون کو ٹارگٹ نہ کیا جائے۔ آسیہ بی بی اگر واقعی بے گناہ ہے تو اس کی رہائی کے لیے اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ اس سلسلے میں میڈیا کو بہت ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور جس کسی نے بھی زیادتی کی ہے اسے بے نقاب کرنا چاہئے۔ (روزنامہ جنگ، لاہور: ۲۵ نومبر)

٭٭٭٭٭