خلافتِ راشدہ اور وراثت ِانبیاء
اہل حدیث کا مذہب ہے کہ خلافت ِراشدہ حق پر ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان ذوالنورین، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم خلفاے راشدین تھے۔ ان کی اِطاعت بموجب ِشریعت سب پر لازم تھی۔ کیونکہ خلافت ِراشدہ کے معنی نیابت کے ہیں، حضرت ابوبکرؓ کو حضور ﷺ نے اپنی زندگی ہی میں اپنا نائب بنایا تھا۔مرض الموت میں صدیق اکبرؓ کو امام مقرر کیا۔ حالانکہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ بنت ِابوبکرؓ نے یہ سوچ کر کہ کہیں حضرت انتقال فرماگئے تو میرے باپ کی نسبت لوگوں کا گمانِ بدنہ ہو کہ ایسا امامت پر کھڑا ہوا کہ آنحضرت ﷺ جانبر نہ ہوئےعرض کیا کہ حضرت ابوبکرؓ بڑے رقیق القلب ہیں، وہ آپ کی جگہ پر اِمامت نہیںکرسکیں گے۔ آپ عمرفاروقؓ کو امام بنا دیجئے مگر آپ نے ایک نہ سنی۔ بلکہ نہایت خفگی سے فرمایا:
«أنتُنّ صواحب يوسف» (صحیح بخاری:۷۱۲)
''تم ویسی ہی عورتیں ہو جو یوسف کو بہکاتی تھیں۔''
یعنی جن عورتوں کو زلیخا نے دعوت میں بلایا تھا اور اُنہوں نے بھی یوسف علیہ السلام کو زلیخا کی طرف ناجائزمیلان کرنے کی رغبت دی تھی، تم بھی اسی طرح مجھ کو ایک ناجائز کام کی رغبت دیتی ہو کہ میں ابوبکرؓ کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو منصب ِامامت پر مامور کروں۔چنانچہ صدیق اکبرؓ برابر نماز پڑھاتے رہے۔ آخر سرورِ عالم ﷺ کے انتقال پُرملال کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو سب نے خلیفہ مان لیا۔ اتنا بالاجمال واقعہ تو سنی، شیعہ دونوں گروہوں میں متفقہ ہے۔ ایک حدیث جو خاص اہل سنت کی روایت سے اس امر کا قطعی فیصلہ کرتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے مرض الموت میں حضرت عائشہؓ کو فرمایا تھا:
«عن عائشة قالت قال لي رسول اﷲ! في مرضه: اُدعي لي أبا بکر أباك وأخاك حتی أکتب کتابًا فإني أخاف أن يتمنّٰی متمنّ ويقول قائل: أنا ويأبی اﷲ والمؤمنون إلا أبابکر» (صحيح مسلم: رقم ۲۳۸۷)
''اپنے باپ ابوبکرؓ اور بھائی عبدالرحمنؓ کوبلا کہ میں خلافت کا فیصلہ لکھ دوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کوئی کہنے لگے کہ میں خلافت کا حق دار ہوں حالانکہ اللہ کو اور سب مؤمنوں کو ابوبکرؓ کے سوا کوئی بھی منظور نہ ہوگا۔''
اس حدیث سے نہ صرف خلافت ِصدیقی کا فیصلہ ہوتا ہے بلکہ اس مشہور مسئلۂ قرطاس کا بھی تصفیہ ہوتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے قلم دوات طلب کرنے پر صحابہ کے انکار واِقرار کا مشہور ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ
آنحضرت ﷺ نے مرض الموت میں فرمایا تھا۔ قلم دوات منگاؤ، میں تم کو کچھ لکھ دوں میرے بعد جھگڑا نہ ہو۔ اس پر صحابہ کا بایں خیال اختلاف رہا کہ حضور کو بیماری میں تکلیف ہوگی۔ آخر آپ خلافت کی بابت ہی کچھ لکھوائیں گے۔ عرض کیا: حسبُنا کتاب اﷲ ''ہم کو کتاب اللہ قرآنِ مجید کافی ہے۔کیا ضرورت کہ حضور ﷺ کو ایسی تکلیف میں تکلیف بڑھائیں؟''
اس دلیل کے پیش کرنے والے حضرت فاروق تھے۔ جن کی قوتِ استدلال سب کو مسلم تھی۔چنانچہ اکثر نے ان سے اس رائے میں اتفاق کیا اور آنحضرت ﷺ نے بھی معمولی اظہارِ رنج کرکے جیسے عموماً کسی ہمدرد بزرگ کو ایسے موقع پر ہوتا ہے، اُن کو اُٹھا دیا اور فرمایا کہ میں اس وقت جس شغل میں ہوں، تمہارے شغل سے کہیں بہتر ہے۔اس واقعہ پرفریقین (سنی، شیعہ) کی رائیں اور توجیہیں مختلف ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں کہ اس کتاب کا مضمون جو آنحضرت ﷺ نے لکھنا چاہا تھا، خلافت ِعلی کی وصیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمر نے اس باب میں مزاحمت کی۔ جبکہ اہل سنت کا قول ہے کہ آنحضرت ﷺ اگر لکھتے تو حضرت ابوبکرؓ کی خلافت لکھتے۔ مگر آپ نے لکھنے کو ضروری نہ سمجھا کیونکہ آپ بطورِ پیش گوئی فرما چکے تھے کہ يأبی اﷲ والمؤمنون إلا أبا بکر ''اللہ اور مؤمنوں کو سواے ابوبکر کے کوئی پسند ہی نہ ہوگا۔'' اسی وجہ سے عائشہ صدیقہؓ کو ابوبکرؓ کے بلانے کی بابت ارشاد کرکے خاموش رہے اور اسی وجہ سے اس وقت بھی سکوت اختیار کیا۔ یہ حدیث اہل سنت کے لیے ایک قوی دلیل ہے کہ خلافت ِصدیقی منظورِ نبوی ہے۔ نیز مسئلہ قرطاس کی بابت صریح تصفیہ ہے کہ حضور ﷺ وہی بات لکھتے جس کے لکھنے کی خواہش پہلے ظاہر فرما چکے تھے کہ ابوبکرؓ کو خلیفہ بنانا!
٭خاص شیعہ کی طرز پر اس کا الزامی جواب بھی ہوسکتا ہے کہ بقول ان کے آنحضرت ﷺ خلافت ِعلی کے پہنچانے پر مامور تھے اور بقول ان کے آیت:
﴿بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ .... ٦٧ ﴾''جو کچھ تجھ کو اللہ کی طرف سے حکم پہنچا ہے وہ پہنچا دے۔''
انہی معنی کے لیے نازل ہوئی تھی کہ خلافت ِعلی کی بابت جو تجھے حکم دیا گیا ہے، وہ لوگوں کو پہنچا۔ اگر تو نے نہ پہنچایا تو گویا تو نے نبوت کی تبلیغ نہ کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے روکنے سے حضور ایسے بڑے ضروری کام سے جس کا ارشاد جناب ِباری تعالیٰ سے پہنچا ہوا تھا جس کے نہ کرنے پر تمام نبوت کی تبلیغ کالعدم ہوتی تھی، آپ نے لکھوانے میں تساہل فرمایا۔
اگر اس موقع پر حضرت عمرؓ کی مخالفت مانع تھی تو صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی تو حضرت عمرؓ ہی صلح کے مخالف تھے بلکہ زور سے اس مخالفت کو نیک نیتی سے ظاہر کرتے اور پھیلاتے تھے۔ مگر اس نازک موقع پر جہاں ایک طرف کفار کا ہجوم ہے اور دوسری طرح خود صحابی بھی رنج و ملول بیٹھے ہیں، عمرؓ کی مخالفت کی کچھ پروا نہ ہوئی تو اس موقع پر جب کہ تمام حاضرین خدام ہیں، اہل بیت سب حاضر ہیں، عمرؓ کا اس قدر اثر ہواکہ حکم الٰہی کی تبلیغ سے خاموش ہوگئے۔ ہمارے خیال میں ایسا گمان شانِ نبوت ﷺ میں بدگمانی پیدا کرنے کا موجب ہے۔
٭ علاوہ ازیں شیعوں کی طرف سے اس دعویٰ پر کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بابت حضور ﷺ نے خلافت کی وصیت فرمائی تھی، ایک حدیث یہ بھی پیش کی جاتی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:«من کنت مولاه فعلي مولاه»
''یعنی جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کا مولا ہے۔''
چونکہ آنحضرت ﷺ سب ایمانداروں کے مولا ہیں اور اس لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی سب کے مولا ہیں اور مولا کے معنی حاکم اور امیر کے بتاتے ہیں۔ اسی حدیث کا تتمہ وہ الفاظ ہیں جو فاروق اعظمؓ کی طرف سے روایت کئے جاتے ہیں کہ فرمانِ نبویؐ من کنت مولاہ ... الخ سن کر اُنہوں نے کہا تھا:
«بخ بخ يا أبا الحسن أصبحت مولائي ومولا کل مؤمن ومؤمنة» ( مختصرا)
''یعنی اے ابوالحسن علی مرتضیٰؓ! تجھے مبارک ہو کہ تو میرا اور ہرایماندار کا مولا ہوچکا ۔''
لیکن بغور دیکھا جائے تو اس سے بھی شیعوں کا مدعا ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی کو حق خلافت تھا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ وغیرہ نے خلافت ِعلیؓ کو معاذ اللہ ظلم سے غصب کیا۔جس کی وجہ سے وہ موردِ عتاب الٰہی ہوگئے وغیرہ وغیرہ، کیونکہ اس حدیث میں جو مولا کا لفظ ہے جس پر سارا مدار ہے اس کے معنی دوست اور محب ِخالص کے ہیں، نہ کہ حاکم اور امیر کے چنانچہ آپ ﷺ نے خاص اپنی ذات ستودہ صفات کی نسبت بھی فرمایا ہے:
«لا يؤمن أحدکم حتی أکون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين»
''یعنی جب تک میں سب چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور مجھے تم اپنی اولاد اور ماں باپ اور تمام جہان کے لوگوں سے زیادہ پیارا نہ سمجھو گے، مسلمان نہ ہوگے۔''(صحیح مسلم:۴۴)
نیز اسی حدیث میں من کنت مولاہ کے آخر میں بروایت ِامام احمد، ابویعلی اور طبرانی کے یہ الفاظ بھی ہیں:«اللهم والِ من والاه وعادِ من عاداه» (مسند احمد:۱؍۱۱۸) یعنی حضورﷺ نے من کنت مولاہ فرمانے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ
''اے اللہ! جو علیؓ سے محبت کرے اس سے محبت کر اور جو اس سے عداوت رکھے تو بھی اس سے دشمنی کر اور اس کو مبغوض رکھ۔''
اس سے صاف سمجھا جاتاہے کہ آنحضرتﷺ نے خلافت کے متعلق وصیت نہ فرمائی تھی۔ بلکہ اخلاص اور محبت کے متعلق تھی جو ہم کو بھی منظور ہے، کیونکہ موالات کے مقابلہ میں آپ نے معادات کا لفظ فرمایا ہے۔ پس جو اس مقابلے کا مفہوم ہے، وہ صرف اسی قدر ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے عداوت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں جس پر ہمارا بھی اتفاق ہے۔
٭اس سے بڑھ کر اس معنی کا قوی قرینہ بلکہ دلیل کہ آنحضرتﷺ کی ان الفاظ سے مراد صرف وصیت ِمحبت تھی نہ کہ وصیت ِخلافت، واقعہ بیعت ِابوبکر صدیقؓ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ فداہ ابی و امی کے انتقال فرماتے ہی انصارِ مدینہ نے ایک الگ مجلس منعقد کرکے امیر بنانے کی تجویز کی جس پر ابوبکرصدیقؓ اور عمر فاروقؓ یہ خبر سنتے ہی مع ابوعبیدہ امینِ امت کے وہاں برسر موقع پہنچے دیکھا کہ مباحثہ گرم ہے۔
انصار کا ارادہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے امیر مقرر ہو۔ ان صاحبوں کے سوال و جواب کرنے کرانے پر آخر اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ
« منَّا أمير ومنکم أمير» ''یعنی ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے۔''
جس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حدیث نبوی پیش کی کہ
«الأئمة من قريش»... ''یعنی امارت اور امامت قریش ہی میں ہے۔''
جب سب انصار کے روبرو حضرت ابوبکرؓ نے یہ دلیل پیش کی تو کسی کو اس سے انکارِ جرات نہ ہوئی اور آخر کار فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ مقرر ہوگئے۔
اب سوال یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابوبکرصدیقؓ نے انصار کے مقابلہ پر حدیث پیش کرکے اُن کے دعویٰ کو توڑا۔اسی طرح کسی صحابی نے انصار سے یا مہاجرین بلکہ اہل بیت سے حضرت ابو بکر کے سامنے یہ حدیث کیوں پیش نہ کی کہ
آپ تو یونہی خلیفہ بنائے گئے ہیں۔ حالانکہ آنحضرتﷺ نے علی مرتضیٰ ؓ کے لیے وصیت اور تاکید فرمائی ہوئی ہے اور آپ دونوں (ابوبکرؓ اور عمرؓ) صاحبین نے تو علیؓ سے حضرتﷺ کی زندگی میں بیعت ِخلافت کی ہوئی ہے بلکہ مبارکباد بھی دی ہوئی ہے۔پھر آپ کاکیا منصب ہے کہ آپ خلافت کے مدعی ہوں اور تو اور ائمہ اہل بیت اور خاندان بنی ہاشم نے بھی اس دلیل کو معلوم نہیں کیوں پیش نہ کیا، حالانکہ یہ ایسی قوی دلیل تھی کہ اس دلیل کے سامنے کسی کی چوں چرا چل ہی نہ سکتی، کیونکہ ہزاروں آدمی اس کے گواہ موجود تھے۔
لیکن جب حضرت علی مرتضیٰ ؓ اور دیگر ائمہ ہدیٰ اور خاندانِ بنی ہاشم بلکہ مہاجرین وانصار سے کسی نے یہ حدیث اور واقعہ غدیر کو ابوبکرؓ کی خلافت کے خلاف بلکہ خلافت ِصدیقی کے بعد عمرفاروقؓ کی خلافت کے وقت بلکہ بعد ازاں حضرت عثمان ؓ کی خلافت کے وقت بھی پیش نہ کیاجب کہ کوئی امر مشکل نہ تھا۔ صرف عبدالرحمن بن عوفؓ کی رائے پر فیصلہ موقوف تھا اور بالکل الگ دارالندوہ (کمیٹی گھر) میں صرف تینوں صاحب (عبدالرحمن، عثمان، علی رضی اللہ عنہم) بیٹھے ہوئے تھے، اس حدیث کا پیش کرنا کیا مشکل تھا۔پس جب کہ کسی نے بھی اس حدیث سے اِستدلال نہیں کیا۔ نہ کسی اپنے نے، نہ بیگانے نے، مہاجرین نے، نہ انصار نے بلکہ نہ خود علی مرتضیٰؓ نے، تو معلوم ہوا کہ سب صحابہ نے مع اہل بیت اس حدیث من کنت مولاہ سے یہ معنی سمجھے تھے جو ہم نے بیان کئے ، نہ کہ وہ جو شیعہ کا گمان ہے۔
اس مختصر سی تفصیل سے شیعوں کی اُن کل روایتوں کاجواب ہوسکتا ہے جو اس مسئلہ کے متعلق پیش کیا کرتے ہیں جن میں سے بعض میں حضرت علی ؓ کی نسبت امیرالمؤمنین کا لفظ بھی آتا ہے۔ کیونکہ اس دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ روایات غلط ہیں یا مؤول۔ اس تقریر سے حضرت عمر فاروق و عثمان ذوالنورین و علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم کی خلافت کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ خلافت کا مدار اس بات پر ہے کہ رعایا میں سے صلحا لوگ خلیفہ منتخب کریں یا خود خلیفہ اپنے نائب کو منتخب کرجائے اور بعد اس کے لوگ اس سے بیعت کرلیں۔ چنانچہ حضرت فاروقؓ کو خلیفۂ اوّل نے انتخاب کیا اور سب لوگوں نے منظور کیا تھا اور باقی دونوں اہل شوریٰ کے انتخاب سے خلیفہ ہوئے مگر چونکہ اصل بحث سنی شیعہ صرف اس امر پر ہے کہ حضرت علیؓ ہی کا حق خلافت تھا،جو ابوبکرؓ وغیرہ نے معاذ اللہ غضب کیا یا ابوبکرؓ بھی خلیفہ برحق تھا۔ اس واسطے ہم نے اس جگہ مختصر طور سے اس امر پربحث کی ہے کہ حضرت علی ؓ خلیفہ بلا فصل نہ تھے بلکہ جو کچھ ہوا یہی حق تھا۔
وراثت ِانبیاء علیہم السلام
اہل حدیث کا مذہب ہے کہ انبیا علیہم السلام کی وراثت ان کی اولاد اور دیگر ورثا کی طرف منتقل نہیں ہوتی بلکہ مثل صدقہ اور وقف مال کے ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ خلافت کے مسئلہ کے بعد سنیوں اور شیعوں میں بڑا معرکۃ الآرا ہے۔مگر ہم اللہ کے فضل سے اس کو ایسی عمدگی سے حل کریں گے کہ باید و شاید۔ ہمارے نزدیک شیعوں نے اپنی کتابوں اور روایتوں کی بھی پروا نہیں کی اور ناحق اس مسئلہ کی آڑ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بدگمان ہوگئے۔ کچھ تو خلافت کی آڑ میں، کچھ اس مسئلہ کی پناہ میں یہ لوگ جملہ اصحاب کو عموماً اور صدیق کے دشمنوں کو خصوصاً ایسے الفاظ اور القاب سے یاد کیا کرتے ہیں کہ کسی ایماندار کو تو کیا بھلے مانس آدمی کے بھی شایانِ شان نہ ہوں۔خیر ان الفاظ کا دہرانا یا ان کا عوض لینا تو ہمارے رسالہ کے موضوع سے اجنبی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے رسالہ کے ناظرین میں سے کسی ایک کی بھی ہمارے طرزِ مضمون سے دل آزاری ہو۔ اس لیے ہم اپنے بھائیوں کے ظلم کا بھی اظہار نہیں کرتے۔ اس مسئلہ میں چونکہ ہمارا روے سخن خاص شیعوں سے ہے، اس لیے ہم ایک روایت اپنی اور ایک دو روایتیں ان کی بیان کریں گے۔ ہماری روایت اس دعویٰ کے متعلق صحیح بخاری کی حدیث ہے ۔ حضرت ابوبکر سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ
«سمعت رسول اﷲ !يقول:(لا نورث ما ترکنا صدضة)»(رقم :۶۷۳۵)
ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔''
اس بارے میں شیعوں کی حدیث اُصولِ کلینی (جو شیعوں کی مستند کتاب ہے) کی روایت موجود ہے جس کامطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:
«عن أبي عبدﷲ قال: (إن العلماء ورثة الانبياء وذلك أن الأنبياء لم يورثوا درهمًا ولا دینارًا وإنَّما أورثوا أحاديث من أحاديثهم فمن أخذ بشيء منها أخذ حظًا وافرًا)» (اُصول کلينی، کتاب العلم)
''علما، انبیا کے وارث ہیں اس لیے کہ انبیا اپنی وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑا کرتے بلکہ صرف علم کی باتیں چھوڑ جاتے ہیں۔ جو شخص ان علمی باتوں میں سے کچھ حصہ لیتا ہے وہ بہت بڑا حصہ لیتا ہے۔''
پس ان دونوں متفقہ روایتوں سے جو اَمر ثابت ہوتا ہے، وہی اہل حدیث کا مذہب ہے۔ میں نے اس روایت کو بعض مشاہیر شیعہ علما کی خدمت میں پیش کیا، لیکن تعجب ہے کہ جو جواب اُنہوں نے دیا۔اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میرے بیان سے پہلے اس روایت سے ان کے کان آشنا ہی نہ تھے۔آخر اُنہوں نے کہا کہ ایسے مسائل کا فیصلہ امام مہدی علیہ السلام ہی کریں گے۔ جس پر میں نے عرض کیا: بہت خوب ، چشم ما روشن دل ماشاد!
چونکہ یہ مضمون دونوں گروہوں کی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، اس لیے جو سوال اس پر وارد ہوگا، اس کے جوابدہ دونوں گروہ ہوں گے۔پس اگر ہمارے جواب آئندہ سوالات کے اٹھانے کو کافی نہ ہوں تو شیعہ ہی کوئی جواب دیں، کیونکہ بموجب ِروایت کلینی ان کا اور ہمارا مذہب اس مسئلہ میں ایک ہی ہے یا ایک ہی ہونا چاہئے۔
بعض شبہات اور ان کا جواب
(1) ایک سوال اس پر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تمام ایمانداروں کو خطاب کرکے فرمایا: ﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم.....١١ ﴾.... سورة النساء
'' اللہ تم کو تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکی کی نسبت لڑکے کا دگنا حصہ ہے۔''
اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس قسم کے خطاب سرورِ عالم فداہ ابی و امی کو بھی شامل ہوتے ہیں۔ پس آیت قرآنی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی اولاد کوبھی تمام مسلمانوں کی طرح وراثت ملنی چاہئے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آیت ِموصوفہ 'عام مخصوص البعض' ہے یعنی جس قدر اس کا عموم ظاہر میں معلوم ہو رہا ہے، اتنا مراد نہیں بلکہ اس میں سے بعض اقسام دونوں گروہوں (سنی شیعہ) کے نزدیک اس حکم سے باوجودِ شمول آیت کے خارج ہیں۔ چنانچہ حاشیہ پر ہم دونوں گروہوں کی کتب ِوراثت سے عبارت نقل کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے:
''غلام خواہ مسلمان ہو۔ اور باپ کا قاتل اور مسلمان باپ کا کافر بیٹا (وغیرہ ذلک) باپ کے وارث نہ ہوں گے۔''(سراجی و شرائع الاسلام)
حالانکہ آیت ِمرقومہ میں عام حکم ہے۔ پس جس طرح یہ اقسام آیت سے باوجود شمول کے خارج ازحکم ہیں، اسی طرح آنحضرتﷺ کے ورثا بھی خارج ہیں،کیونکہ انبیا کی اولاد وارث مال نہیں ہوتی۔
(2) دوسرا شبہ اس مضمون پر اس آیت سے کیا جاتا ہے جس میں حضرت داؤد علیہ السلام کی وراثت سلیمان تک پہنچنے کا ذکر ہے۔ یعنی ورث سلیمان داؤد پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے باپ حضرت داؤد علیہ السلام سے وراثت پائی تو آنحضرت ﷺ کے ورثا (حضرت فاطمہؓ) کیوں وارث نہ سمجھے جائیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان کو وراثت ِ علمی ملی تھی یعنی نبوت اور حکمت میں سلیمان داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے تھے نہ کہ مال و اَسباب میں۔ علمی وراثت کے توہم بھی معتقد ہیں۔اختلاف تو مالی وراثت میں ہے، اگر مالی وراثت مراد ہوتی تو اس کا ذکر ہی کیا ضروری تھا۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے تو ان کے وارث ہونے میں اشتباہ ہی کیا تھا جس کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوا۔ نیز حضرت داؤد علیہ السلام کے اور بیٹے بھی تھے۔پھر بالخصوص حضرت سلیمان علیہ السلام کو وراثت مالی کیسے پہنچ گئی اور دوسرے محروم کیے گئے۔ ان وجوہ سے صاف معلوم ہوتاہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی علمی وراثت حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچی تھی، نہ کہ مالی۔ پس ہمارا مذہب بروایت ِسنی اور شیعہ، دونوں گروہوں کے معتبر کتابوں سے ثابت ہوگیا۔
٭٭٭٭٭