جنوری 2011ء

قانونِ توہین رسالت: منظوری اورخاتمے کے مابین

پاکستان میں امتناعِ توہینِ رسالت کا قانون ایک بار پھر لادین طبقہ کے پیدا کردہ شبہات اور اعتراضات کی زدمیں ہے۔سیکولر لابی کے لگاتار دباؤاور عالمی قوتوں کے پرزور اِصرارکا مقصدیہ ہے کہ پاکستان میں اسکو کتابِ قانون سے حذف یاکم ازکم غیرمؤثر کردیا جائے۔جبکہ ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے حکومت کا یہ بنیادی فرض بنتاہے کہ یہاں براہِ راست کتاب وسنت کو نافذ کرکے پاکستان کے مقصد ِوجود کے مطابق ضروری اقدامات کئے جائیں۔

پاکستان کے سیکولر عناصر کو پہلے روز سے پاکستان کا اسلامی تشخص قبول نہیں اور وہ آئے دن اس کو ختم کرنے کی تمام تر کوششیں بروئے کار لاتے رہتے ہیں۔ اس لابی کو پہلے حدود قوانین پر شدید اعتراضات تھےجنہیں پرویز مشرف کے دور میں آخرکار 'ویمن پروٹیکشن بل' کے نام سے غیرمؤثر کرنے میں شرمناک کامیابی حاصل کی گئی، ان لوگوں کا اگلا مرحلہ پاکستان کے 'قصاص ودیت کے قوانین' ہوں گےجنہیں عالمی سطح پر موت کی سزا کے خاتمے کی تحریک سے ہم آہنگ کرکے پاکستان میں ان اسلامی قوانین کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں پاکستان کے نام میں 'اسلامی' کا لفظ بھی کھٹکتا ہے اور اگلے دنوں میں پاکستانی دار الحکومت کا نام 'اسلام آباد' اور پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ طیبہ بھی کھٹکنا شروع ہوجائے گا۔ ان لوگوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حکومتی فیصلہ کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یہی وہ طبقہ ہے جو نصاب سے قرآنِ مجید اور اسلامی تاریخ کے نامور کردار حذف کرانے کے لئے کوشاں ہے اور پاکستان کی تاریخ اور کلچر کا ناطہ ہندو مت، راجہ داہر اور موہن جوداڑو کی تہذیب سے جوڑنا چاہتا ہے۔ کلچر اور ہندوستانی تہذیب سے والہانہ شغف کی بنا پر اس طبقہ کو برصغیر کی تقسیم بھی بہت کھٹکتی ہے، اور یہ بھارت سے فلمی کلچر کی درآمد کے علاوہ غیرمشروط تجارتی ومعاشرتی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔
آسیہ مسیح کے واقعہ کے تناظر میں ایک بار پھر یہ طبقہ قانونِ توہین رسالت کی تنسیخ کے حوالے سے انتہائی متحرک ہوچکا ہے اور اس متحرک اقلیت کی نمائندہ شیری رحمن نے اپنی ماضی کی الحادی روایات کے عین مطابق،قومی اسمبلی میں مؤرخہ 24 نومبر ٢٠١٠ء کو ایک بل جمع کرایا ہے، جیسا کہ اس سے 2006ء قبل حدود قوانین کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کی اسی دین بیزار رہنما نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا تھا، اور 2004ء میں پاکستان میں قتل غیرت کے جرائم پر مطلوبہ قانون سازی بھی اس نے ایک بل کی صورت پیش کی تھی۔ حالیہ بل کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ امریکہ نوازحکومت سےاور بہت سے ظالمانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ قانون توہین رسالت کا خاتمہ بھی کروا لیا جائے۔ ملک میں اس وقت توہین رسالت کے قانون کے حوالہ سے جاری مظاہرےاور مباحثے کا یہی پس منظر ہے۔قانون توہین رسالت پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات اور شبہات کا ایک جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے، مزید برآں ایک مختصر تاریخی تجزیہ کے ساتھ اس قانون کو غیرمؤثر کرنے کی مرحلہ وار تفصیل پیش کی جارہی ہے جس کی روشنی میں آئندہ کا منظرنامہ بڑی حد تک واضح ہوجائے گا :
کیا پاکستان ایک سیکولر ملک ہے؟
توہین رسالت کے قوانین کے خلاف پاکستان کا ملحد وسیکولر طبقہ اور عالمی قوتیں اس لئے مجتمع ہیں کہ اُنہیں پاکستان جیسی ایٹمی قوت کا اسلامی تشخص بہت چبھتا ہے۔سیکولرنظریات کے ناطے وہ ہر اس قانون اور علامت کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو اسلام کے نام پر وجود میں لائی گئی ہو۔ یہ لوگ اسلام کے کسی قانونی تصور کو ریاستی سطح پر نافذ کرنے کے شدید مخالف ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اگر اہانت ِرسول کا کوئی قانون اسلام میں موجود ہو بھی، تب بھی اس کو ریاستی سطح پر 'جرم' کی بجائے مغرب کی طرح یہاں بھی محض مذہبی بنیاد پر 'ایک گناہ' کی حیثیت تک محدود کردیا جائے اور ان قوانین کی تنفید سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ جبکہ دوسری طرف یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا وجود ہی کلمہ طیبہ کا مرہونِ منت ہے۔ قرار دادِ مقاصد کی منظوری اور اس کے بعد1973ء کے متفقہ آئین میں پاکستان میں کئی ایک اسلامی قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔ اگر بانی پاکستان کی کسی تقریر میں پاکستانی معاشرہ کے بارے میں کوئی احتمالی الفاظ ملتے بھی ہیں جن کا مخصوص پس منظر ہے،تو بعد ازاں اُن کے دیگر متعدد بیانات اور واضح قومی پیغامات سے اس کی صریح نفی ہوجاتی ہے۔ قراردادِ مقاصد کے ذریعے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے حقیقی رخ اور اہداف ومقاصد کا دستوری تعین کیا جاچکا ہے جس کو بعد میں آئین پاکستان 1973ء میں واضح تر الفاظ میں کئی ایک قانونی دفعات کی بھی شکل دے دی گئی۔لیکن نامعلوم سیکولر دانشور آئین کی حاکمیت کا دم بھرنے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود اتنے صریح استدلال کو کیوں نظر انداز کردینے پر مصر ہیں۔پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ہو، خلافِ شریعت قانونی دفعات کی بات ہو یا پاکستان کے نام کا مسئلہ ہو، حدود قوانین ہوں یا شرعی عدالتیں، ان کو دستور میں طے شدہ طریق کار کے مطابق پاکستان کی اسمبلیوں نے منظور کیا ہے۔ ان صریح زمینی اور قانونی حقائق کی روشنی میں پاکستان کے سیکولر عناصر کا مغالطہ اور مباحثہ اساس کے لحاظ سے ہی غلط ہے اور اُنہیں پاکستان کی عظیم اکثریت کا یہ موقف کہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے شدید خواہش مند ہیں، تسلیم کرلینا چاہئےاور اپنے اس لگاتار خلافِ دستور جرم سے باز آجانا چاہئے جو وہ غیرملکی قوتوں کی آشیر باد سے اہلیانِ پاکستان پر بزورِ جبر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
کیا قانون ِتوہین رسالت جنرل ضیاء الحق مرحوم نے نافذ کیا تھا؟
یہ دعویٰ جاتاہے کہ یہ قانون ایک آمر ضیاء الحق نے متعارف کرایا تھا، جبکہ امر واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ آمروں کے بنائے ہوئے قوانین سے تو پاکستان میں لادینیت اور فحاشی کو تحفظ حاصل ہورہا ہے جس کے خلاف کوئی آواز اُٹھائی نہیں جاتی اور تحریک بپا نہیں کی جاتی۔ پاکستان میں خلافِ اسلام عائلی قوانین ہوں یا ویمن پروٹیکشن بل، یہ دونوں قوانین واضح طورپر فوجی آمر ایوب خاں اور پرویز مشرف کے لاگو کردہ ہیں، اس کے باوجود سیکولر حلقوں اور بزعم خود 'سول سوسائٹی' میں ان کو بسر وچشم قبول کیا جاتا ہے اور اسلامی قوانین کے خلاف فضائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ان پر'آمر کے قوانین' کی پھبتی کسی جاتی ہے۔
1973ء کے متفقہ دستور کی دفعہ نمبر 227 میں اہلیانِ پاکستان کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ خلافِ اسلام دفعات کی نشاندہی کرکےان کو اسلام کے مطابق تبدیل کرا سکتے ہیں۔بھٹو کے زیر نگرانی تیار کردہ اس دستور کے دیے ہوئے حق کو استعما ل کرتے ہوئے مجاہد ناموس رسالت محمد اسمٰعیل قریشی ایڈوکیٹ نے 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت میں ایک رِٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں مذہبی دل آزاری کےسابقہ قوانین کو ناکافی قرار دیتے ہوئے،ان میں توہین رسالت کے جرم کی سزا کے تعین کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اِس دوران17 مئی١٩٨٦ء کو سیکولر ایجنڈے کی اَن تھک منادی عاصمہ جہانگیرنے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں نبی کریمﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا جس کی روک تھام کے لئے قومی اسمبلی میں محترمہ نثار فاطمہ نے توہین رسالت کے مجرم کے لئے سزاے موت کا بل پیش کیا جس کے نتیجے میں فوجداری ترمیمی ایکٹ نمبر 3 (سال 1986ء)کے ذریعے 295سی کی صورت میں توہینِ رسالت کا قانون نافذ کیا گیا لیکن اس قانون میں توہین رسالت کی سزا 'سزاے موت یا عمر قید مع جرمانہ' کی صورت میں رکھی گئی تھی۔
چونکہ اس بل سے یہ قانون عین اسلام کے مطابق نہ ہوسکا ، اور جناب محمد اسمٰعیل قریشی کی رٹ پٹیشن کی ضرورت باقی رہی، اس بنا پر وفاقی شرعی عدالت میں داخل اس رٹ پٹیشن کا فیصلہ اکتوبر 1990 کو آیا جس میں 295سی سے عمر قید کی سزا حذف کرنے کی سفارش کی گئی اور فاضل عدالت نے یہ بھی قراردیا کہ حکومت ِپاکستان نے یہ اگر مجوزہ تبدیلی نہ کی تو 30 اپریل 1991ء کے بعد 'عمر قید کی سزا' کے الفاظ خود بخود حذف ہوجائیں گے۔ یادر ہے کہ اس فیصلہ میں یہ سزا تمام انبیا کرام کی گستاخی تک وسیع کرنے کی سفارش بھی کی گئی تھی۔1
یہ فیصلہ ملک کی اعلیٰ وفاقی شرعی عدالت کے پانچ فاضل جج صاحبان نے ملک کے جید علماے کرام کی معاونت سے صادر کیا ۔ ان جج صاحبان کے نام یہ ہیں:
1. چیف جسٹس گل محمد خاں سابق جج لاہور ہائی کورٹ
2. جسٹس عبد الکریم خاں کنڈی سابق جج پشاور ہائی کورٹ
3. جسٹس عبد الرزاق تھہیم سابق جج کراچی ہائی کورٹ
4. جسٹس عبادت یار خان سابق جج کراچی ہائی کورٹ
5. جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خاں پی ایچ ڈی ،اسلامی قانون
مذکورہ تاریخ تک حکومت نے مطلوبہ قانون سازی نہ کی جس کے نتیجے میں فاضل عدالت کا فیصلہ از خود نافذ ہوگیا۔ یہ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کا پہلادور تھا اور حکومت سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کی تیاری کررہی تھی۔اسی دوران عوام کے پرزور مطالبے پر نواز حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا، اور حکومت نے اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں بل پیش کردیا۔ اس موقع پر ناموسِ رسالت کے قائدین نے اس بل کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کو بے فائدہ قراردیتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر حکومت اس سے متفق ہے تو سپریم کورٹ میں اپیل کی پیروی نہ کرے،نتیجتاً یہ قانون خود ہی مطلوبہ ترمیم کے ساتھ نافذ ہوجائے گا۔ تاہم 2 جون 2010ء کو قومی اسمبلی میں یہ قانون زیر بحث آیا اور اسمبلی نے 'عمر قید' کی سزا کے خاتمے کو منظور کردیا اور 8 جولائی 1992ء کو پاکستان کی سینیٹ نے بھی اس بل کو اتفاقِ رائے سے منظور کیا۔
گویا توہین رسالت کا حالیہ قانون تین مختلف سمتوں سے ہونی والی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان کے مجموعہ تعزیرات کا حصہ بنا ہے:
1. جناب محمد اسمٰعیل قریشی کی 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت کو دی جانے والی درخواست اور اس پر وفاقی شرعی عدالت کا 1990 کا فیصلہ (یہی اس قانون کا اصل محرک ہے)
2. قومی اسمبلی میں آپا نثار فاطمہ کا پیش کردہ بل اور اس کے نتیجے میں محدود قانون سازی
3. آخر کار جون1992ء میں پاکستانی پارلیمان میں سزاے عمر قید کے خاتمے کا بل پیش ہونا اوراس کا منظور ہوجانا، گو کہ اس آخری مرحلہ کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں مقررہ تاریخ گزرجانے کے بعدقانون خود ہی تبدیل ہوچکا تھا، تاہم پارلیمان کی قانون سازی نے اس ترمیم کی مزید تائید کر دی۔ اب اس قانون کو دستور 1973ء میں دیے ہوئے حق کے استعمال یا قومی اسمبلی کی 1992ء میں منظوری کا نتیجہ قراردیا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ ہر دو اقدامات کسی آمر کے ذریعے حاصل نہیں ہوئے۔2
4. بلکہ حقیقت ِواقعہ تو یہ ہے کہ قانون توہین رسالت تو فاضل عدالت اور پارلیمنٹ کی متفقہ منظوری کا حاصل ہے، جبکہ اس کو غیر مؤثر کرنے کی باضابطہ ترمیم 2004ء ميں پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں ہوئی، جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے۔
یہ اسلام کا ایک متفقہ شرعی تقاضا اور پاکستانی پارلیمنٹ کا منظور شدہ قانون ہے ، اس کے باوجود افسوس ناک امر یہ ہے کہ ١٨ سال سےاس قانون کے نفاذ کے باوجود آج تک کسی کو توہین رسالت کی سزا نہیں دی جاسکی جس کی ایک وجہ سیکولر عناصر کا یک طرفہ، بدترین پروپیگنڈا اورشدید عالمی دباؤ ہےتو دوسری طرف پاکستانی حکومتوں کی منافقت بھی ہے کہ اس قانون کے معاً بعد سے اس قانون میں ایسی ترامیم کردی گئیں جس سے قانون ناقابل عمل ہوگیا۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ سیکولر قوتوں کے شدید پروپیگنڈہ کے نتیجے میں جو شخص بھی توہینِ رسالت کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ اہانت اس کے لئے خصوصی 'اعزاز' کا سبب بن جاتی ہے۔جس طرح عاصمہ جہانگیر کی توہین رسالت کے بعد آج ہماری قوم نے عدلیہ کے ایک اعلیٰ منصب یعنی سپریم کورٹ بار کی صدارت کا اعزاز اُسے بخشا ہے اور اس کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھرپور منصوبہ بندی اور لابنگ کی ہے، اسی طرح توہین رسالت کے دیگرمرتکبین کو عاصمہ جہانگیر کا انسانی حقوق کمیشن عالمی قوتوں کا تحفظ فراہم کرتا اور اُنہیں خصوصی پروٹوکول عطا کرواتا ہے۔ ماضی میں سلامت مسیح کا کیس ہو یا رحمت مسیح کا، شانتی نگر کا واقعہ ہو یا جوزف روبنسن کا ،ان واقعات میں آسیہ مسیح کے کیس کی طرح ملزمین کو ہمیشہ عالمی ہمدردی اور خصوصی اِعزاز ہی حاصل ہوا ہے۔
یاد رہے کہ 'نیشنل کمیشن برائے عدل وامن' کی رپورٹ کی رو سے پاکستان میں 1986 تا 2009ء تک کل 986 کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے479 کا تعلق مسلمانوں سے اور صرف 119 کا تعلق عیسائیوں سے ہے۔ان تمام مقدمات میں کسی ایک کو بھی سزائے موت
نہیں دی گئی۔اس سے ایک طرف حکومت کےمنافقانہ کردارکا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف اس اعتراض کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف بنایا گیا ہے۔
دیگر ممالک میں قانونِ توہین رسالت کے مماثل قوانین
کہا جاتا ہے کہ اس قانون سے پاکستانی میں مذہبی انتہاپسندی میں اضافہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص ایک کٹر اور شد ت پسند ملک کے طورپر نمایاں ہوتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہےکہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو بلاوجہ مطعون اور پاکستان کے مذہبی اقدامات کے بارے غیرمعمولی حساسیت کا مظاہرہ بلاوجہ ہی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے قانون میں صرف مسلمانوں کے نبی آخر الزمان کو ہی یہ تحفظ وتقدس حاصل نہیں بلکہ تمام انبیا اور جملہ اَدیان کو یہاں قابل سزا جرم3 قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں مذہبی جذبات کے احترام کا یہ تحفظ صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کو بھی حاصل ہے، اس کے بعد اس الزام کی بھی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف یا مذہبی امتیاز پر مبنی ہے۔دفعہ 295سی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے:
دفعہ٢٩٥ (ج): ''پیغمبر اسلامﷺ کے بارے توہین آمیز الفاظ وغیرہ استعمال کرنا: ''جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نقوش کے ذریعے، یا کسی تہمت، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بلاواسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمد ﷺ کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا۔''
٭اسلام کا قانونِ توہین رسالت تو کائنات کی عظیم الشان ہستی کی ذات کے تقدس کے بارے میں ہے جس کی عظیم الشان خدمات کی مثال انسانی تاریخ کسی بھی حوالے سے پیش کرنے سے قاصرہے۔ نبی کریمﷺ کی اس ہمہ جہتی عظمت کا اعتراف مسلمانوں سمیت غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔ جبکہ دیگر ممالک میں ایسا ہی تحفظ ان کے ایسے حکمرانوں کو حاصل ہے جو گناہوں اور کوتاہیوں میں بری طرح غرق ہیں۔ان میں سے ایک ملکہ برطانیہ بھی ہے جس کے تقدس کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے۔
٭ ایسا ہی تحفظ یہودیوں کے ہولوکاسٹ (ہٹلر کے دور میں یہودیوں کے خلاف ڈھائے گئے مظالم) کو بھی حاصل ہے جس میں یہودی جذبات کا احترام نہ کرنے والوں اور ایک تاریخی واقعہ کے بارے میں مطلوبہ اظہار نہ کرنے کو سنگین سزا کامستحق قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ سزا فرانس، جرمنی، ہنگری، ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں موجود 4ہے۔
٭ علاوہ ازیں ہرملک میں چند انسانوں کے بنائے ہوئے دستور کی مخالفت کرنے والےشخص کو ریاست کا باغی قرار دے کر آج کی ریاست اس سے جینے کا حق چھین لیتی ہے اور اسے موت کی سزا دیتی ہے5۔ صد افسوس کہ کائنات کی سب سے عظیم ہستیﷺ کو مغرب کی متعصب تہذیب وہ تحفظ دینے کی روا دار نہیں جو وہ اپنے دستور کی 'کتاب ِمقدس'کو دیتے ہیں۔ آج کی حکومتیں ریاست سے بغاوت کو تو قابل گردن زدنی قرار دیتی ہے لیکن مذہب سے بغاوت کو جرم نہیں سمجھتیں ۔
٭ سیکولرزم کی مالا جپنے والی یہ مغربی ریاستیں آئے روز پاکستان کو تو توہین رسالت کے جامع قانون کے خاتمہ کی تلقین کرتی ہیں لیکن اپنے آپ کو ایک سیکولر ریاست باور کرانے کے باوجود اپنے ہاں عیسائیت کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنے اور اس کو برقرار رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ ان کی 'منتخب اخلاقیات' کا نوحہ لکھا جائے یا اُنہیں منافقت اور دھوکہ دہی کا مجرم سمجھا جائے۔ جیسا کہ امریکہ نے اپنے ہاں عیسائی حقوق کے تحفظ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور امریکہ کی سپریم کورٹ توہین مسیح سےمتعلق اپنے ایک فیصلہ 6میں واضح طور پر یہ قرار دیتی ہے کہ
''امریکہ میں چرچ اور سٹیٹ ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں، لیکن دیگر مذاہب کے مقابلہ میں امریکہ میں مسیح کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہے۔ امریکہ کے بڑے عہدیدار بائبل پر ہی حلف لیتے ہیں، چنانچہ عدلیہ، مقننہ او رانتظامیہ کا مذہب سے یک گونہ تعلق بالکل واضح ہے۔ اس بنا پر آزادئ مذہب، آزادئ پریس اوربنیادی حقوق،توہین مسیح کے قانون اور اس کی بابت قانون سازی میں قطعاً مزاحم نہیں ہیں۔'' (مختصراً)
یاد رہے کہ امریکہ میں دیگر مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات کی توہین قابل مؤاخذہ جرم نہیں، البتہ توہین مسیح کی سزا موت کی سزاکے خاتمہ کے بعد عمر قید کردی گئی ہے۔
٭ ایسے ہی جب برطانیہ میں جب شاتم رسول سلمان رشدی کو تحفظ دینے کا واقعہ پیش آیا تو برطانیہ اس کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوگیا ۔ برطانیہ کے مسلمان باشندوں نے یہ مطالبہ کیا کہ برطانیہ میں توہین مسیح کے قانون کے ساتھ توہین محمدﷺ کی شق کو بھی شامل کرلیا جائے تو برملا اس سے انکار کیا گیا او رواضح جانبداری دکھائی گئی کہ برطانیہ صرف عیسائیوں کے حقوق کا ہی محافظ ہے۔ یہ ہے مذہبی غیرجانبداری کا دعویٰ کرنے والوں کا مکروہ چہرہ!
اس موقع پر برطانیہ کے وزیر قانون جان پیٹس نے مسلمانوں کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے تحریری طورپر بتلایا کہ حکومت ِبرطانیہ توہین مسیح کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم کو جائز قرار نہیں دیتی۔ پھر برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت 'ہاؤس آف لارڈز' نے اس بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے حکومت ِبرطانیہ کے موقف کو درست قرار دیا اور لکھا کہ
''برطانوی قانون کی روسے مذہب ِاسلام پر جارحانہ حملہ غیرقانونی نہیں ہے۔ اگر حکومت ِبرطانیہ قانونِ توہین مسیح میں اسلام کے قانون توہین رسالت کی کوئی شق شامل کردے تو برطانیہ کی اعلیٰ عدلیہ اس کو یہاں نافذ کرنے سے گریز کرے گی۔ ''
یہ رویہ صرف یورپ وامریکہ کا ہی نہیں بلکہ یورپ کی 'ہیومن رائٹس کورٹ' کو بھی جب مسلمانوں نے اس ضمن میں درخواست دی تو اُس نے مسلمانوں کی یہ درخواست مسترد کردی۔7
توہین رسالت کی سزا کیا 'انسانی حقوق' کے منافی ہے؟
اوپر بیان کردہ حقائق کے بعد یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ جب توہین مسیح کا قانون مغرب کے اکثر ممالک میں نافذ العمل ہے اور یورپی ممالک کی عدالتیں ان کے فیصلوں کو نافذ کرتی اور یہ بھی قرار دیتی ہیں کہ یہ قانون انسانی حقوق کے خلاف نہیں ہے تو پھر پاکستان میں کیوں کر اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاسکتا ہے؟
یورپ کے بعض ممالک مثلاً ڈنمارک، اسپین، فن لینڈ، جرمنی، یونان، اٹلی ، آئرلینڈ، ناروے ، آسٹریا، نیدر لینڈ وغیرہ میں بھی مذہبی جذبات کی توہین پر سنگین سزائیں موجود ہیں اور برطانیہ میں تو ملکہ کی توہین کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کےبعد پاکستان میں اس قانون کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے کی کیا تک ہے؟
دراصل انسانی حقوق کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رہنمائی سے کٹ کر انسانوں نے اپنے تئیں بعض حقوق کا تعین کرلیا ہے۔ دوسری طرف اسلام نام ہی اس امر کا ہے کہ کوئی انسان اپنے آپ کو مخلوق تسلیم کرکے خالق کی رضا کے لئے مطیع وفرمانبردار ہوجائے۔ او رجو حقوق اس مطیع بندے کو اس کا خالق دے، یعنی حقوق العباد تو اِن حقوق تک اکتفا کرے۔ اسلام کے نظریۂ حقوق میں سب سے بالا تر حق اس ذاتِ گرامیﷺکا ہے جو انسان کو اس کے خالق ربّ العٰلمین سے جوڑتی ہے۔اگر اس ذات پر ایمانِ کامل ہو اور اس کی محبت واطاعت موجود ہو تو اس کے نتیجے میں ہی قرآنِ کریم او رخالق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اسلام کی نظر میں تما م حقوق سے بالا ترحق ذات گرامی ﷺ کا ہے، جسے اسلام میں 'امّ الحقوق' کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بالمقابل مغرب کا نظریۂ حقوق 'خالق کے تصور سے ناآشنا اورانسان پرستی' کے رویے کا حاصل ہے۔ ایک طرف حقوق العباد کی بات ہے تو دوسری طرف حقوقِ انسان کی بات ہے۔ دونوں حقوق کا سرچشمہ اور نظریہ وڈھانچہ ہی مختلف ہے تو دونوں میں ظاہری مطابقت حاصل ہوبھی جائے تو بھی جزوی مماثلت سے کیا حاصل۔الغرض انسانی حقوق کے ایجنڈے پر کارفرما جدید مغربی ریاست سب سے بالا تر حق ریاست کا قرار دیتی ہے تو اسلام سب سے بالاتر حق اس ملت ِاسلامیہ کے مرکز ومحور کا قرار دیتاہے جس سے چودہ صدیوں سے پوری اسلامیت وابستہ چلی آرہی ہے۔ اور اسلام یہ حق ، ذاتِ گرامی کو منصب ِرسالت کی بنا پر دیتا ہے جو محمدﷺ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تمام انبیاے کرام کا بھی حق ہے۔اسلام کی نظر میں یہ حق اللہ کے حق اطاعت سے مقرون ومتصل ہے اور اس پر قرآنِ کریم کی درجنوں آیات شاہد ہیں۔
قانون امتناعِ توہین رسالت کو غیر مؤثر کرنا
پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو سیکولر عناصر نے کبھی قبول نہیں کیا اور اس قانون کے نفاذ کے فوراً بعد سے پاکستان کو عالمی اداروں کی طرف سے ملنے والی تمام تر امداد اس قانون کے خاتمہ سے مشروط رہی ہے۔ اگر برطانیہ، فرانس یا امریکہ نے کبھی کوئی تجارتی لین دین، یا اسلحے کی خریدوفروخت کا معاہدہ کیا ہے تو اسے بھی اس قانون کے خاتمے سے مشروط کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بارہا اس بنا پر پاکستان کے خلاف رپورٹیں پیش کی ہے،حالانکہ بیشتررپورٹوں میں کوئی شے حقائق پر مبنی نہیں۔ ان عالمی اداروں کی رپورٹیں پاکستان میں مغرب کے گماشتوں کی تیار کردہ ان فرضی رپورٹوں کا چربہ ہوتی ہیں جنہیں وہ ادارے اپنے علاقائی یا عالمی مقاصد کے تحت ایک تسلسل سے امریکہ واقوام متحدہ وغیرہ میں ارسال کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال اس لگاتار مہم بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کےحکمران اس قانون کو نافذ کرنے کی بجائے اسےختم کرنے کے درپے ہوگئے۔
نواز شریف جس کے پہلے دور حکومت میں قومی اسمبلی نے یہ قانون منظور کیا تھا، اس کے دوسرے دورِحکومت میں اس قانون کی تاثیر پر اس طرح شب خون مارا گیا کہ اس پر جس قدر افسوس کیا جائے، کم ہے۔حکمرانوں میں نہ تو ایسی سیاسی قوت ہے کہ وہ اس قانون کو براہِ راست نشانہ بنا سکیں اور نہ ہی پاکستان کا دستور اس خلافِ شرع اقدام پران کی حمایت کرتاہے، چنانچہ حکمرانوں نے ہمیشہ اصل قانون کی بجائے قانون کے اجرا کے طریقہ کار میں ترمیم کی درپردہ کوششیں کیں۔
1. بینظیر حکومت اور قانون توہین رسالت: جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا موجودہ قانون 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ اور پھر جولائی 1992ء میں پارلیمان کی قانون سازی کے نتیجے میں حتمی ہوکر کتابِ قانون کا حصہ بنا،لیکن قانون کی تشکیل کے موقع پر 1992ء میں ہی پیپلز پارٹی کی قیادت اس حوالے سے شدید پریشانی اور خلجان میں مبتلا تھی۔
٭قائد ِحزب اختلاف بینظیر بھٹو نے جولائی 1992ء میں پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کے موقع پر اس بے چینی کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ
''پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں ایسا قانون غیر ضروری ہے ، یہاں کی مسلم اکثریت خود ہی اپنے نبی کے تقدس کی حفاظت کرسکتی ہے۔پارلیمنٹ کے ذریعے ایسا قانون منظور کرانا ملک کو بنیاد پرست ریاست بنانے کی کوشش ہے جس سے عوام کے حقوق سلب ہوں گے اور پاکستان بدنام ہوگا۔''8
٭ اگلے سال اقتدار میں آتے ہی بینظیر حکومت نے 'لاء کمیشن' کے ذریعے 20 دسمبر 1993ء کو اسلامی نظریاتی کونسل سے اس قانون میں ترمیم کی سفارش کی اور یہ مطالبہ کیا کہ اس جرم کو ناقابل دست اندازی پولیس بنادیا جائے۔
٭ اپریل 1994ء میں بینظیر حکومت کی وفاقی کابینہ نے اس جرم کی سزا محض 10 سال قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ دیا۔جولائی1994ء میں اس حکومت کے دو وزرا: وزیر تعلیم ڈاکٹر شیرافگن اور وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے یہ بیانات دیے کہ توہین رسالت اب ایک قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں رہا، اب اس کی رپورٹ سیشن کورٹ یا کم ازکم علاقہ مجسٹریٹ کے پاس ہی بطورِ استغاثہ درج ہوگی۔ مزید برآں غلط شکایت پر 10 سال کی سزا بھی لاگو کردی گئی ہے۔9
پولیس کے قابل دست اندازی جرم نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس جرم کی سزا دلوانا، دیگر جرائم کی طرح پاکستانی حکومت کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس جرم کے وقوع پر سیشن کورٹ میں شکایت درج کرانے پر ہی اس کے خلاف کاروائی ہوگی، اور پہلے شکایت کنندہ کو جرم کا وقوع ثابت کرنا ہوگا۔ گویا یہ جرم ریاست کے خلاف نہیں بلکہ مسلمان کے خلاف ہے، جس کی تلافی کے لئے اسے شکایت کرکے حکومت کی مدد حاصل کرنا ہوگی۔اس ترمیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ شکایت کنندہ مسلمان کووقوعہ کے اندراج کے تمام اخراجات نہ صرف خود ہی برداشت کرنا ہوں گے، بلکہ گواہوں کے ذریعے وقوعہ کو ثابت بھی کرنا ہوگا۔ اس ترمیم کا مقصد واضح طورپر اس جرم کی سزا کے نفاذ ميں رکاوٹیں کھڑی کرنا تھا۔
2. نواز شریف حکومت اور قانونِ توہین رسالت: بینظیر کے دور ِحکومت1996ء میں سینٹ کےقائد ِحزبِ اختلاف راجہ ظفر الحق نے 7 مارچ 1996ء کو امریکی حکومت کے مطالبے پر اس قانون کے طریقہ کار میں اس تبدیلی کو انتہائی مایوس کن قرار دیا۔ لیکن 1998ء میں جب نواز شریف حکومت کا دوسرا دور تھا، تو اس وقت وفاقی وزیر مذہبی واقلیتی اُمو رنے 7مئی 1998ء کو یہ بیان دیا کہ حکومت اس قانون میں تبدیلی کے بجائے طریقہ کار میں تبدیلی پر غورکررہی ہے۔اور وہ یہ کہ '' توہین رسالت کی سماعت عام عدالت کی بجائے سپیشل کورٹ میں کی جائے۔ علاوہ ازیں ایسے کیس چلنے سے قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس جائیں تاکہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ یہ کیس چلنا بھی چاہئے یا نہیں؟''10
افسوسنا ک امریہ ہے کہ یہ بیان دینے والی مبارک شخصیت وہی تھی جنہوں نے بینظیر دور میں اس قانون میں تبدیلی کی بھرپور مخالفت کی تھی لیکن اپنے دورِ حکومت میں وہ خود اس قانون میں تبدیلی پر کمر بستہ ہوگئےحتیٰ کہ نواز حکومت کے وفاقی وزیر قانون خالد انور نے تو چند دنوں بعد یہ بیان بھی دے دیا کہ ''حکومت قانونِ توہین رسالت میں بھی ترمیم کرے گی۔''11
اس پس منظر کے ساتھ آخر کار وزیر اعظم نواز شریف نے جون 1998ء کو اس قانون کے طریقہ کار میں تبدیلی کی منظوری دے دی۔ ا س موقع پر روزنامہ 'نوائے وقت' میں شائع ہونے والی خبر کا متن یہ تھا:
''وزیراعظم میاں نواز شریف نے وفاقی وزیرمذہبی واقلیتی اُمور سینیٹر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ پر توہین رسالت کے مبینہ واقعات میں FIR کے اِندراج کے قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے ۔ یہ انکشاف قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر مملکت ڈاکٹر روفن جولیس نے سینیٹر راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کے دوران کیا ۔اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ جہاں توہین رسالت کا مبینہ واقعہ پیش آئے،اس علاقے کے اچھی شہرت کے حامل دوایمان دار، سچے مسلمان اور دو عیسائی منتخب کیے جائیں ۔ ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور ان چار اَفراد سمیت چھ اَفراد پر مشتمل ایک کمیٹی اس واقعہ کی تحقیقات کرے گی اور اگر تفتیش کے دوران جرم ثابت ہوگیا تو کمیٹی کی رپورٹ پرFIRدرج کی جائے گی۔ ''12
افسوس ناک امر یہ ہے کہ صدرِ مملکت محمد رفیق تارڑ، وفاقی وزیر مذہبی اُمور سینیٹر راجہ ظفر الحق اور نواز شریف وشہباز شریف جیسے بظاہر 'عاشقانِ رسول' کی حکومت میں قانون توہین رسالت کو غیرمؤثر کرنے کے قانونی تقاضے پورے کرلئے گئے۔یہ وہی لوگ تھے جو اس سے قبل عوام میں سستی مقبولیت کے لئے اس قانون کی برملا حمایت کیا کرتے تھے۔
بینظیر حکومت نے اس قانون کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دیا، لیکن اصل قانون میں تبدیلی نہ کرسکی۔ جبکہ نواز حکومت نے ایسی کمیٹی کو اس کی شکایت کے لئے ضروری قرار دیا ، جو ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور دو مسلمان، دو عیسائی سچے افراد پر مشتمل ہو۔اس قد رسنیئر افسران اور ہر محلہ میں مسلم عیسائی افراد کی موجودگی کی مشکل اور تاخیری شرائط کے ذریعے جرم کی سزا کے نفاذ میں ایسی سنگین رکاوٹیں کھڑی کی گئیں کہ قانون بظاہر باقی رہے لیکن اس کی سزا کسی کو نہ ہوسکے۔ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کی بیش بہا مصروفیات اوراس پر مستزاد اُن کےعموماً دین گریز رجحانات کا واضح نتیجہ یہ تھا کہ ایسے جرم کی سزا آغا ز میں ہی اس قدر مشکل بنا دی جائے کہ اس کی شکایت کرنے سے قبل کوئی مسلمان بیسیوں بار سوچے۔
3.مشرف حکومت اور قانونِ توہین رسالت: جنرل پرویز مشرف نے 21مئی 2000 کو یہ اعلان کیا کہ قانون توہینِ رسالت کا غلط استعمال ہورہا ہے، اس لئے اس کے طریقۂ نفاذ میں مزید تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن عوام کے شدید ردّ عمل کے بعد عملاً اس تبدیلی کوملتوی کردیا گیا۔مئی 2004ء میں جنرل مشرف نے قانونِ توہین رسالت پر دوبارہ نظرثانی کا اعلان کردیا۔ان دنوں اعجاز الحق وزیر مذہبی اُمور تھے، اُنہوں نے جولائی 2004ء میں یہ بیان جاری کیا کہ توہین رسالت کی غلط شکایت کرنے والے کو موت کی سزا دی جائے گی، گویا اصل جرم کی سزا کے عین برابر ۔ وزیر موصوف کی یہ قانون فہمی اور سفارش بھی شرمناک جسارت سے کم نہ تھی۔ آخرکار نومبر 2004ء میں پاکستان میں قتل غیرت کے جملہ قوانین کے ساتھ قانونِ توہین رسالت میں بھی تبدیلی کردی گئی۔ یاد رہے کہ قتل غیرت کے حوالے سے قانون سازی کے مطالبے میں بھی شیری رحمٰن پیش پیش تھی، اور اس موقع پر اس نے قومی اسمبلی میں 'خواتین کو با اختیار بنانا'کے عنوان سے ایک بل جمع کرایا تھا۔
قانونِ توہین رسالت میں مشرف حکومت نے جو ترمیم پیش کی، اس کا تعلق بھی طریقۂ نفاذکی تبدیلی سے تھا۔ واضح رہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156 کا تعلق وقوعہ جرم کی رپورٹ سے ہے، اس میں نومبر 2004ء میں پیش کئے جانے والے 'کریمنل لاء ایکٹ 2004ء' کی دفعہ 9 کی رو سے 156 اے اور بی، دو ترامیم کا اضافہ کیا گیا۔156 بی کا تعلق تو حدود قوانین کی رپورٹ سے تھا، جبکہ 156 ا ے کا تعلق قانونِ توہین رسالت کی تنفید سے۔اس بل کی منظوری کے بعدضابطہ فوجداری میں 156 اے کااضافہ کردیا گیا، جس کا متن یہ تھا:
١٥٦/اے: تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ٢٩٥ سی کے تحت جرم کی تفتیش : ''سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے سے کم رتبے کا کوئی پولیس آفیسر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت درج مقدمے کے ملزم سے تفتیش نہیں کرسکے گا۔''
یہ قانون اس وقت ضابطہ فوجداری میں محولہ دفعہ کے تحت موجود اور نافذ عمل ہے۔
4.زرداری دور میں قانونِ توہین رسالت کو غیرمؤثر او رتبدیل کرنے کی کوشش موجودہ دور میں آسیہ مسیح کے کیس کے ذریعہ ایک بار پھر قانونِ توہین رسالت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ننکانہ کی آسیہ مسیح کی دریدہ دہنی اور بار بار اس کا اعتراف، اپنی بقید ِحیات بہن کے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح جس کی بنا پر اس علاقہ کے عیسائی بھی آسیہ کے مخالف ہیں، اور مسیحیت کی تبلیغ کے ساتھ اس کی شانِ رسالت میں گستاخی کی تمام تفصیلات13میڈیا پر آچکی ہیں۔اس کے باوجود 20 نومبر کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا اپنی بیٹیوں اور بیوی کےہمراہ شیخوپورہ جیل میں اس سے ملاقات کرنا اور اس کو بےگناہ قرار دینا، بعد ازاں حکومت کا شاتمہ آسیہ مسیح کو شیخوپورہ جیل سے نامعلوم مقام پر منتقل کرنا اور صدر زرداری کو اس کی سزا معافی کی درخواست، ایسی عجیب وغریب چیزیں ہیں جو حکمرانوں کی توہین رسالت کے مجرموں کے ساتھ غیر معمولی ہمدردی کا برملا اظہار کررہی ہیں۔
آسیہ مسیح نے شانِ رسالت میں چند مسلمان خواتین کی موجودگی میں مؤرخہ 14جون 2009ء کو گستاخی کا ارتکاب کیا۔ اور ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ جناب محمد نوید اقبال نے کئی ماہ پرمحیط تفصیلی سماعت کے بعد 8نومبر 2010ء کو ملزمہ کو سزاے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔جس کے بعد20 نومبر کو گورنر پنجاب نے جیل جا کر ، پورے عدالتی عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے آسیہ کو بے گناہ قرار دیا۔معلوم ہوا کہ قانون کے اجرا کی راہ میں ماضی میں تمام تر رکاوٹیں حائل کرنے کے باوجود، آخرکار سیشن کورٹ سے بھی کسی ملزمہ کو سزا ہوجائے تو پاکستان کے لادین عناصر اس کو بھی گواراکرنے کو تیار نہیں۔چنانچہ اُنہوں نے اصل قانون میں تبدیلی کی ضرورت کا اِدراک کرتے ہوئے اس بار مزید پیش قدمی کی۔
میڈیا میں اس واقعہ کے نمایاں ہونے کے چند ہی دنوں کے دوران شیری رحمٰن نے 24 نومبر کو قومی اسمبلی میں قانونِ توہین رسالت کے خلاف ترمیم کا بل [بنام توہین رسالت ترمیمی ایکٹ2010ء] داخل کردیا ۔ بل میں کوئی نئی بات نہیں، بلکہ اس بار اس کا مقصد ایک طرف اصل قانون میں تبدیلی اور دوسری طرف اس قانون کے ضمن میں شکایت کرنے والے کو نشانِ عبرت بنا دینا ہے۔
1. دفعہ 295 بی میں قرآنِ کریم کے تقدس کو پامال کرنے کی سزا عمر قید کی بجائے صرف پانچ سال قید یا جرمانہ کردی جائے۔
2. جبکہ 295 سی میں توہین رسالت کی سزا کو موت کی بجائے 10 سال قید یا جرمانہ سے تبدیل کردیا جائے۔
3. یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ 203 اے کی صورت میں یہ اضافہ کیا جائے کہ توہین کے تمام قوانین، 295اے بی اور سی کی غلط رپورٹ کرنے والے کو وہی سزا دی جائے جو اس جرم کے ارتکاب کی صورت میں بنتی ہے۔گویا توہین رسالت کی سزا کی غلط رپورٹ کرنے والے کو وہی سزا دی جائے جو توہین رسالت کے مرتکب کو دیا جانا مطلوب تھی۔
4. اقلیتوں کے تحفظ کے لئے مطالبہ یہ بھی ہے کہ 298 ای کی ایک شق کا اضافہ کیا جائے جس کی رو سے مذہبی منافرت پھیلانے میں ایسی معاونت جوامتیاز اورتشددکو تحریک دے، اس کے مرتکب کو سات سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزا ئیں دی جائے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اس قدر سنگین اہانتوں کے مرتکب کے لئے سزائے قید یا جرمانہ ، ہردو کا امکان برقرار رکھا گیا ہے، جبکہ جرمانہ کا کوئی تعین بھی نہیں کیا گیا ۔ گویا توہین رسالت کے مرتکب کو چند روپے جرمانہ بھی کردیا جائے تو قانوناً اس کی گنجائش موجود ہے۔
تبصرہ وتجزیہ
مذکورہ بالا ترامیم سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی ترامیم ہیں جو قانونِ توہین رسالت کی منظوری کے معاً بعدبے نظیر بھٹو کی وفاقی کابینہ نے 1994ءمیں پیش کی تھیں کہ توہین رسالت کی سزا 10 سال قید اور غلط شکایت کرنے والے کو بھی وہی سزا دی جائے۔
مشرف دور میں کی جانے والی قانونی تبدیلی میں بظاہر تو ایف آئی آر کی تفتیش کے طریقۂ کار میں تبدیلی تجویز کی گئی تھی لیکن درحقیقت یہ تبدیلی قانون توہین رسالت کے تحت درج مقدمات میں پیش رفت کو سست بلکہ بے اثر بنانے کے لئے عمل میں لائی گئی تھی۔
فوجداری قانون کا یہ مسلمہ اُصول ہے کہ جب بھی کسی تھانہ کے انچارج پولیس آفیسر کو کسی قابل دست اندازی پولیس جرم کی اطلاع موصول ہو تو اس پر لازم ہے کہ
وہ اس اطلاع کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرے اور اس کے بعد اپنی تفتیش کا آغاز کرے۔ تفتیش کے بعد اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ اطلاع غلط یا بے بنیاد تھی تو وہ دیگر اختیارات کے علاوہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ١٥٧ کے تحت متعلقہ مجسٹریٹ کو تحریری رپورٹ بھیجوا کر مزید کاروائی کو نہ صرف روک سکتا ہے بلکہ حتمی رائے قائم کرنے کے بعد دفعہ ١٨٢کے تحت جھوٹا مقدمہ درج کروانے پر، اطلاع دہندہ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے عدالت سے باقاعدہ سزا بھی دلوا سکتا ہے۔ اس طے شدہ قانونی طریقے سے انحراف کرکے توہین رسالت کے معاملے میں تفتیش کو ایس ایچ او کے بجائے ایس پی کے حوالے کرنا ایک تو رائج الوقت قانونی تقاضوں سے ہٹ کر ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کا ہر شخص جانتا ہے کہ ایک وسیع و عریض سرکل میں صرف ایک ایس پی تعینات ہوتا ہے۔ بے شمار دیگر انتظامی اُمور اسکے ذمہ ہوتے ہیں۔ عام آدمی کا اپنے علاقے کے تھانہ تک پہنچنابھی دشوار ہوتا ہے۔ دوسرے قصبات اور علاقوں سے سفر کرکے ایس پی صاحب کے دفتر میں حاضر ہونا اور پھر مسلسل شامل تفتیش ہونے کے مراحل سے گزرنا عملی طور پر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس جرم کے ارتکاب کی اطلاعات کا اندراج درپیش مشکلات کی وجہ سے از خود کم ہوجائے گا اور جو افراد ایس پی تک رسائی کرکے اطلاع فراہم بھی کردیں گے، اُنہیں بھی پہلے ایک مجرم کی طرح تفتیش کے مراحل سے گزرنا پڑے گا اور گواہوں کے سفروحضر کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے کہ توہین رسالت کے متعلق مقدمات کے اندراج اور مقدمات پر کارروائی کو عملی طور پر ناممکن بنایا جارہا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قانون توہین رسالت کی مخالفت کرنے والی این جی اوز دیگر خود ساختہ وجوہات کے علاوہ یہ اعتراض بھی بہت شدومد سے کرتی ہیں کہ قانونِ توہین رسالت ایک امتیازی قانون ہے۔ جبکہ ہمارے نزدیک ترمیمی قانون کے ذریعے اس کا طریقۂ تفتیش ضابطہ فوجداری میں بیان کردہ عام طریقے سے الگ کرنا بجائے خود ایک امتیازی اقدام ہے۔ جس کے نتیجے میں لازمی طور پر فریقین کو مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ لہٰذا مغرب نواز این جی اوز کے اپنے نکتہ نظر کی روشنی میں بھی امتیازی خصوصیت کے باوصف یہ ترامیم قابل استرداد ہیں۔ قانونی ماہرین اور مسلم مفکرین کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلے میں عوام الناس میں آگہی کی ایک تحریک چلائیں اور ارکانِ اسمبلی کو درست سمت میں رہنمائی مہیا کرکے اُنہیں اس تبدیلی کے خلاف متحرک کریں۔ نیزقانونِ توہین رسالت کے اجرائی قانون میں تاخیری حربوں کے انسداد کی بھی تحریک چلائیں، جن کی بنا پر اس قانون کی بنا پر کسی کو سزا دلوانا انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے۔
جہاں تک اصل قانون توہین رسالت میں تبدیلی کا تعلق ہے تو یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ 10 سال قید یا چند روپے جرمانہ کی سزا کا قانون شریعت ِاسلامی سے سنگین انحراف ہے، جو خلافِ اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ دستورِ پاکستان کی دفعہ 227 وغیرہ کے بھی خلاف ہے،جن میں پاکستان کے تمام قوانین کو اسلام کے مطابق کرنے کا دعو یٰ کیا گیا ہے۔
اندریں حالات پاکستان کے حکمرانوں، مقتدر طبقہ اور مسلمان عوام پر یہ لازم ہوتا ہے کہ اس خلافِ اسلام تبدیلی کو ہر مرحلہ پر ردّ کرنے کی بھر پور کوششیں کریں تاکہ پاکستان میں شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے اپنے حقیقی انجام کو پہنچ سکیں۔ دنیا بھر میں ناموسِ رسالت کو اس قدر اَرزاں کردیا گیا ہے کہ انسانی تاریخ اس ہمہ گیر ومسلسل زیادتی واہانت کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک پاکستان میں بھی اگر شانِ مصطفیٰ ﷺ کی حفاظت نہ کی جاسکی اور سالہا سال میں ہونے والی ایک مثبت قانونی پیش قدمی کو تحفظ نہ دیا جاسکا تو پھر دیگر اسلامی قوانین کی کیا قدر و وقعت باقی رہ جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسی قوت ونصرت عطا فرمائے جس سے اس دور میں ناموسِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کو ان کے مکروہ انجام تک پہنچایا جاسکے۔ آمین!


حوالہ جات

1. PLD, FSC 1991, p.10

2. مزید تفصیل کیلئے: 'قانون توہین رسالت' از محمد اسمٰعیل قریشی: ص 155

3. مجموعہ تعزیراتِ پاکستان: دفعہ 295،295 الف، 298

4. مزید تفصیل کے لئے : ترجمان القرآن: دسمبر2010ء ص10

5. مثلاًدیکھئے: دستورِ پاکستان کی دفعہ6

6. کیس كا نام : موکس بنام سٹیٹ

7. دیکھئےمضمون :'قانون توہین رسالت کے نئے معنی ومفہوم' از محمداسمٰعیل قریشی روزنامہ 'نوائے وقت'

8. روزنامہ جنگ،کراچی:١٠ اگست19٩٢ء

9. روزنامہ دی نیوز: 14 جولائی 1994ء

10. روزنامہ'خبریں' لاہور : 9 مئی 1998ء

11. روزنامہ 'خبریں' لاہور: 24 مئی 1998ء

12. روزنامہ 'نواے وقت ' لاہور: 14 جون1998ء

13. مکمل تفصیل: مقدمہ توہین رسالت کے اصل حقائق: ماہنامہ 'ملیہ' فیصل آباد، دسمبر 2010ء ، ص 16 تا 23