مغربی جمہوریت

پاکستان کے مسلمان شہر ی کیا چاہتے ہیں ۔ اسلام یا جمہوریت ؟
’’اسلام‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بھیجا ہوا نظام ہے ۔ اس میں ہر اس شعبہ زندگی کے لیے  ہدایات موجود ہیں جوایک مسلم کو پیدائش سے لے کر وفات تک پیش آسکتا ہے ۔ اس کا اپنا معاشی نظام بھی ہے اور اقتصادی بھی سیاسی نظام بھی ہے اور معاشرتی بھی ۔ غرضیکہ اسلام ایک  مکمل نظام حیات ہے یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان میں ’’سو شلزم  ہماری معیشت ‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تو اس سر زمین میں علمائے کرام  نے بالاا تفاق واشگاف الفاظ میں سو شلزم کے کفر ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا ۔ یہ بالکل بجا تھا اور بر وقت بھی۔
لیکن مجھے اس بات پر بہت جبرت ہے کہ ان علمائے کرام و زعمائے عظام نے ’’جمہوریت ہماری سیاست ‘‘ پر کیوں نہ اعتراض فرمایا۔ نہ صرف یہ کہ اس پر اعتراضص نہیں کیا  بلکہ خود بھی جمہوری ملک  ‘‘ جمہوری نمائندے ‘‘ فوجی حکومت ‘‘و غیرہ وغیرہ نعرے لگارہے  ہیں اور بیانات دے رہے ہیں کسی بھی مکتب فکر کے عالم دین نے جہاں تک میری معلومات ہیں اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ۔
میں ان لوگوں سے اب ادب ہو کر یہ پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اگر سو شلز م کے معاشی نظریات کی اسلام میں پیوند کاری جائز نہیں تو کیا اسلامی سیاست میں جمہوریت کی پیوند کاری جائز ہے ؟ اگر اسلام کا اپنا معاشی نظام ہے اور اسے مار کسی نظریات سے بھیک مانگنے کی قطعا ضرورت نہیں تو اسلام کا اپنا سیاسی نظام بھی ہے اسے یورپی  طرز سیاست یعنی جمہوریت سے دریوزہ گری کی بالکل ضرورت نہیں ۔ اور اسلام کا  سیاسی نظام ہے خلافت
اسلام کے دشمنوں نے مسلمانوں کے لئیے بہت سارے شیطانی جال تیار کئیے ہیں اور زندگی کے ہر شعبہ میں وہ جال پھیلا رکھے ہیں [1]۔ تاکہ اگر ایک جگہ سے مسلمان بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائے تو دوسری جگہ پھنس جائے ۔ کہیں اقوام متحدہ ہے ، کہیں عالمی ریڈ کر اس ، کہیں عالمی بہبود اطفال ہے تو کہیں عالمی عدالت[2]  ۔ غرضیکہ اتنے جال ہیں کہ کہیں نہ کہیں جا کر مسلمان ، جب تک نصرت الہی شامل حال نہ ہو ، کسی جال کا شکار ہو ہی جاتا ہے اور اپنے  ان جالوں اور ماہر انہ چالوں کا شیطان نے اللہ سبحان و تعالیٰ کے سامنے بر ملا اظہار کر بھی دیا تھا ۔ قرآن پاک میں اللہ سبحانہ نے اس کے اس چیلنج کو نقل فرمایا :
﴿ثُمَّ لَـٔاتِيَنَّهُم مِن بَينِ أَيديهِم وَمِن خَلفِهِم وَعَن أَيمـٰنِهِم وَعَن شَمائِلِهِم... ﴿١٧﴾...الأعراف
’’ اور میں ضرور ضرور (انہیں بہکانے کیلئے  ان کے آگے سے آؤں گا  ان کے پیچھے  سے آؤں گا دائیں سے آؤں گا ، بائیں سے آؤں گا!
توجس طرح اس نے معاشیات میں شوشلزم کا جال ہمرنگ زمین بچھایا ، اسی طرح سیاست  میں جمہوریت کا پر فریب نعرہ لگایا ۔چنانچہ  شیطان کامیاب رہا کہ شوشلزم کے خطرات سے قوم کو آگاہ کرنے والے علماء وزعماء جمہوریت کی شیطانی تدبیر کو نہ پا سکے اور اگر کوئی جانتاتھا تو  اس نے اس کا اظہار نہ کیا اور اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی برتی اور عالم دین کی یہ کوتاہی نہایت سنگین جرم ہے ۔ حدیث پاک میں ہے ۔
’’في كتاب السنة الأ جرى من طريق الوليد بن مسلم عن معاذ بن جبل رضي الله تعالي عنه قال قال رسول الله ﷺ اذا حدث في امتي البدع  وشتم اصحابي فيظهر العالم علمه فمن لم يفعل فعليه  لعنة الله و الملأ ئكته والناس اجمعين (كتاب الاعتصام للشاطبيج 1 ص 87 طبعه اولي مطبع منا
جمہوریت کا مطلب :
جمہوریت(democracy) عوامی حکومت کو کہتے ہیں یعنی وہ ریاست جس کا انتظام عوام کی رائے کے مطابق سر انجام پائے جسے عوام پسند کریں وہ درست اور جسے عوام  نا پسند کریں وہ غلط ۔ اور جب کسی امر پر اختلاف ہو جائے تو کثرت رائے جدھر ہو گی وہی طے پاتا ہے اس کی وضاحت کے لیے ایک ایک مثال پیش کرتا ہو ں ۔تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ یورپ کے ایک ملک میں عوام نے لواطت  مرد کا مرد سے برا کام کرنا کی اجازت چاہی ۔ لیکن حکومت کے نمائندوں نے اسے ناپسند کیا ۔ مگر  عوام کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا چنانچہ اس برائی کے لیے کثرت رائے معلوم کی گئی کثرت رائے اسی طرف تھ کہ اس کی اجازت ہونی چاہیے تو پارلیمنٹ اس مطالبہ کے سامنے جھک گئی اور یہ بات آئین میں داخل ہو گئی کہ مرد کو مرد سے نکاح  حاصل کرنے کا حق حاصل ہے یہ ہے جمہوریت ۔ گویا جمہوریت میں نا جائز و جائز قرار دینے کا حق اکثریت کا ہے یہی وجہ ہے کہ جمہوری ملک میں جائز حکمران وہ ہے جسے اکثریت عوام نے منتخب کیا ہو اور جو حکمران اس طرح برسر اقتدار نہ آیا ہو وہ غاصب ہے چور ہے ۔ جمہوریت  یہ کہ کثرت رائے  کے سامنے  سر تسلیم خم کر دیا جائے ۔
جمہوریت اور اسلام :
کثرت رائے کے سامنے جھک جانے کو دوسرے لفظوں میں آپ یو ادا کر سکتے ہیں کہ حاکم اعلیٰ اکثریت ہے ۔ اکثریت کا کہنا حکم ہے ۔ قانون ہے اس کی خلاف وزری جرم ہے اور یہ بات اسلام سے سر تا سر متصادم ہے ۔ کیونکہ اسلام  کا کہنا یہ ہے کہ حاکم اعلیٰ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے ۔  حکم اور قانون کا درجہ صرف ارشاد باری تعالیٰ کو حاصل ہے اور باری تعالیٰ کے نمائندے انبیاء علیہم  السلام ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا :
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ (الانعام 57 یوسف 40)
’’حکم چلانے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے ‘‘
اس لیے کہ وہ اس کائنات کا شہنشاہ ہے قرآن پاک میں ہے ۔
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا (المائدہ :17)
’’اور آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی جگہ  کا بادشاہ صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔
اور زمین پر کسی ملک میں جب کسی کو اقتدار ملتا ہے تو اللہ سبحانہ  و تعالیٰ کا دیا ہوا ملتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِيْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ (البقرۃ : 258)
’’کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو حضرت ابراہیم ﷤ سے ان کے رب کے بارے میں جھگڑا (اس کے بعد ) کہ اللہ تعالیٰ نے اسے باد شاہی  بخشی ‘‘
اور آل عمران سورت میں سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا :
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ
’’کہہ دو اے اللہ ملک کے بادشاہ ! تو جس کو چاہے بادشاہی دے اور جس سے بادشاہی چاہے چھین لے ‘‘
تو جب زیمن و آسمان  میں اس کی شہنشاہیت ہے اور  اسی کی حکمرانی ہے تو بندوں کو یہی زیب دیتا ہے کہ اسی کو اپنا فیصل مانیں ۔ اللہ سبحانہ نے فرمایا :
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْۤا۠ اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ (النساء 66)
’’و چاہتے ہیں کہ طاغوت کے پاس اپنے فیصلے لے کر جائیں حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ  اس (کو اپنا فیصل ماننے ) سے انکار  کر دیں ‘‘
امام ابن کثیر  اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’فا نها ذامة لمن عدل عن  الکتاب و السنة و تحاکم الی ماسو ا هما وهو المراد  بالطاغوت هنا ۔
’’یہ آیت اس شخص کی مذمت کرتی ہے جو قرآن و سنت سے روگردانی کر کے کسی اور کے پاس اپنا فیصلہ لے کر جائے اور طاغوت سے مراد وہی فیصل ہے ۔
تو جب کوئی شخص کتا وسنت کو چھوڑ کر عوام کا فیصلہ پسند کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حاکم اعلیٰ ہونے کا انکار کرتا ہے ۔ اسکا حاکم اعلیٰ (sovericn  ) وہی ہے جس کے پاس وہ اپنا فیصلہ لے کر گیا ۔ ایسا شخص ازروئے اسلام کافرہے ۔ اللہ سبحانہ نے فرمایا :
وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ (المائدہ 44)
’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافرہی ہیں‘‘
اور اللہ سبحانہ نے فرمایا :
﴿ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾...النساء
’’ تمہارے رب کی قسم یہ لوگ ایماندار نہیں بن سکتے تا آنکہ تمہیں اپنے جھگڑوں کا فیصل نہ مان لیں پھر ان کے دلوں میں آپ کے فیصلہ پر کڑھن نہ ہو اور وہ (آپ کا فیصلہ دل و جان سے ) تسلیم کرلیں‘‘
اور انسان ایماندار جبھی بنے گا جب کہ وہ اپنے ہر معاملہ میں حضرت رسول اللہ ﷺ کے پاس فیصلہ لے کر جائے اور تمام معاملات زندگی  حدیث نبوی  کے مطابق نمٹائے اور صرف یہی نہیں بلکہ جب حدیث مل جائے تو دل میں یہ کیفیت بالکل نہ ہوکہ حدیث تو سر آنکھوں پر لیکن اگر یوں ہوتا تو بہتر تھا ۔
مندرجہ بالا آیات سے واضح ہو گیا کہ حاکم اعلیٰ(soverign) اللہ تعالیٰ ہے لیکن از روئے جمہوریت  حاکم اعلیٰ عوام ہیں ، اکثریت ہے ۔ اب آپ خود فیصلہ فرمائیے کہ ایا اسلام میں جمہوریت ہو سکتی ہے ؟ اور اسلامی جمہوریت کا نعرہ لگانا درست ہے ؟ ان آیات نے واضح طور پر بتا دیا کہ جمہوریت شرک ہے جمہوریت میں سب سے اونچا  مقام  عوام کا ہے جب کہ اسلام میں سب سے اونچی  ہستی اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے ۔ جمہوریت کی روسے اگر  سو میں سے اکاون کہیں کہ شراب کی اجازت ہونی چاہیے تو اجازت ہو جائے گی لیکن ازروئے اسلام اگر ساری دنیا کے لوگ  اس بات بر متفق ہو جائیں کہ شراب حلال ہے ، تو پھر بھی شراب حلال  او ر جائز نہ ہوگی ۔ اس لئے کہ شہنشاہ  کائنات کا حکم ہے کہ یہ حرام ہے  تو پھر اسلام اور جمہوریت کا کیا تعلق ؟ مصرمیں فرعون نے یہ نعرہ لگایا تھا’’ انا ربکم الاعلی ‘‘ (تمہارا سب سے بڑا رب میں ہو ں ) اور جمہوری نظام میں یہ کہا جاتا ہے کہ سب سے   عظیم طاقت عوام  ہیں تو پھر فرغونیت اور جمہوریت میں فرق کیا رہا ؟ وہاں بھی اللہ تعالیٰ کوسب سے عظیم قرار نہ دیا گیا اور یہاں بھی وہی ہوا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں اللہ سبحانہ کا منصب فرد واحد  وکو دیا گیا اور یہاں وہ منصب تمام عوام کو تفویض کیا گیا ۔
اسلام میں خلافت ہے :
اسلام کا سیاسی نظام خلافت ہے یعنی اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اس تمام کائنات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا وہی اس کائنات کا بلا شرکت غیرے شہنشاہ و فرمانروا ہے ، اس کائنات  میں کئی ایسی ہستی نہیں جو اس کے حکم کو معطل کر سکے ۔
اللہ سبحانہ نے فرمایا :
واللہ یحکم لا معقب لحکمه (الرعد 41)
’’ اللہ سبحانہ ن وتعالیٰ فیصلہ فرماتا ہے ، کوئی بھی اس کے فیصلہ کو روک نہیں  سکتا ‘‘
زمین پر اپنا حکم نافذ کرنے کےلئیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسا کو تخلیق  فرمایا اور اسے اپنا خلیفہ (نائب ،نمائندہ ) قرار دیا[3]۔
و اذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفة (البقرة 300)
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا ، بے شک میں زمین  پر اپنا نائب پیدا کرنیوالا ہوں، اس آیت نے بتلا یا  کہ انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ (نائب ) ہے ۔ یہ خود بھی احکام  باری تعالیٰ  پر چلے اور دوسروں کوبھی اس کے حکم کا پابند بنانےکی پوری کوشش کرے ۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے جب انسان کو زمین  پر بھیجا ۔ اسی وقت متنیہ فرمایا تھا کہ  میرے حکم پر چلنا ورنہ اچھا نہ ہو گا ۔فرمایا:
﴿قُلنَا اهبِطوا مِنها جَميعًا ۖ فَإِمّا يَأتِيَنَّكُم مِنّى هُدًى فَمَن تَبِعَ هُداىَ فَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٣٨﴾ وَالَّذينَ كَفَروا وَكَذَّبوا بِـٔايـٰتِنا أُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ ۖ هُم فيها خـٰلِدونَ ﴿٣٩﴾...البقرة
’’ہم نے کہا تم سب اس (جنت ) سے نیچے اتر جاؤ جب تمہارے پاس میری جانب سے  ہدایت (احکامات شریعت ) آئی ، تو جس نے میری ہدایت کی پیروی (تعمیل ) کی انہیں نہ کسی قسم کا ڈر خوف ہو گا نہ غم ، اور جن لوگوں نے ہماری آیات (ہدایات ) کا انکار کر دیا اور انہیں جھٹلایا ، یہ لوگ دوزخی ہیں ۔ وہاں ( دوزخ میں ) ہمیشہ کے لئیے رہیں گئے ‘‘
حضرت رسو ل اللہ ﷺ کو بھی یہی ہدایت فرمائی :
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا (الطور48)
’’تم اپنے رب کے حکم بر ڈٹے رہو ۔ بے شک تم ہماری نگاہوں کے سامنے ہو ‘‘
ایک دفعہ حضرت رسو اللہ ﷺ نے شہد اپنے اوپر حرام کر لیا اس پر اللہ سبحان و تعالیٰ نے حکم بھیجا :
َيايُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ
اے نبی تم وہ چیز کیوں حرام ٹھہراتے ہو جسے اللہ سبحانہ نے تمہارے لیے حلال ٹھہرایا (کیا ) آپ اپنی ازواج کو خوش کرنا چاہتے ہیں ؟
مندرجہ بالا آیات سے ثابت  ہواکہ اسلام میں حاکم اعلیٰ اللہ سبحانہ ہے اس کے سوا کسی بھی اور کو حکم دینے کا حق حاصل نہیں اور نہ ہی اپنے لئیے احکام شریعت سے ہٹ کر کوئی راشتہ متعین کرنے کا حق ہے ۔ بلکہ انسان اللہ سبحانہ کی ہدایات کا پابند ہے وہ جو کچھ بھی کرے گا یا کرنے کو کہے گا ، سب اللہ سبحانہ کی ہدایات کے مطابق کرے گا ۔ جس طرح کہ پاکستان کا سفیر دوسرے ملک میں اپنے ملک کے  حکمران اور عوام کے مفادات کی نگہداشت کرتا ہے ، بالکل اسی طرح انسان اللہ رب العزت کے ارشادات کی زمین پر نگہداشت کرے یہی مطلب ہے سورۃ ق و القرآن المجید کی اس آیت کا ۔
هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِيْظٍۚ۰۰۳۲
(یعنی اللہ کی طرف ) سے یہ جنت وہ ہے جس کا  تم میں سے ہر ایک  جھکنے اور نگہداشت کرنیوالے  وعدہ کیا گیا ہے ‘‘ اور یہی مطلب اس حدیث کا ہے ۔
’’يا غلاح احفظ الله يحفظك ‘‘
’’ اے لڑکے اللہ تعالیٰ ( کے احکامات )کی حفاظت و نگہداشت کرنا ،  اللہ تمہاری  حفاظت کرے گا‘‘
یعنی انسان زمین پر اللہ سبحانہ ، کا نمائندہ ہے اس کا خلیفہ اور نائب ہے تمام افعال و معاملات اس کی خوشنودی سامنے رکھ کر کرے گا اسی کو خلافت کہتے ہیں اور یہی اسلام  کا سیاسی نظام ہے نہ کہ اکثریت کی خوشنودی کو مد نظر رکھنا جو کہ جمہوریت کی اساس ہے ۔ اسلام میں اکثریت کی مذمت ہے :
اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا کہ لوگوں کی اکثریت برائی کی طرف جاتی ہے :
وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ۰۰۴۹ (مائده 49)
’’ اور لوگوں میں سے زیادہ برے ہوتے ہیں ‘‘
اور یہی بات شیطان نے اللہ سبحان کو چیلنج دے کر کہی تھی کہ لوگوں کی اکثریت میرا  ساتھ دے  گی ۔ اس کی بات اللہ ذو الجلال نے قرآن پاک میں بیان فرمائی تاکہ ہم اس کے چیلنج  کو غلط ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کریں اور اپنا وزن شیطان کے نہیں ، اللہ و رسول کے پلڑے میں ڈالیں ۔ شیطان نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا تھا :
وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ۰۰۱۷
’’ اور تو ان (بنی نو ع انسان ) میں سے زیادہ کو شکر گزار نہیں  پائے گا ‘‘ اس نے  یہ بھی کہا تھا :
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَۙ۰۰۸۲اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ۰۰۸۳
’’بولا ،مجھے تیر عزت کی قسم میں ان (بنی آدم ) سب کو بہکاؤں گا ۔ سوائے تیرے مخلص بندوں کے ( ان پر میرا بس نہیں چلے گا )‘‘
اور قیامت کے روز اللہ سبحانہ تعالیٰ انسانوں کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ تم میں سے شیطان کے بہکاوے میں آنے والے زیادہ تھے :
وَ لَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا١ؕ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ۰۰۶۲
’’ اور اس نے تم میں سے زیادہ مخلوق کو گمراہ کر دیا ۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے تھے ؟ اکثریت اللہ تعالیٰ کی  نا شکرگزار ہوتی ہے :
’’ ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۰۰۶۱
’’ اللہ  سبحانہ لوگوں پر فضل کرنے والی ہستی ہے لیکن ان ( لوگوں ) میں اکثریت ناسپاسوں  کی ہے ‘‘ حضرت رسول اللہ ﷺ کو اللہ سبحانہ نے تسلی و تشفی دے کر فرمایا :
وَ مَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ۰۰۱۰۳
’’ تمہیں خود لالچ ہو ( کہ یہ ایمان لے آئیں  لیکن ) ان میں سے زیادہ تر ایمان قبول نہیں کریں گئے‘‘
اور ایک جگہ یوں فرمایا :
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ
’’ اور  اگر تم  نے زمین کے باسیوں کی اکثریت کی بات مانی تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکادیں گے ۔ ممکن ہے کوئی شخص یہ سمجھے کہ یہ سب آیات کفار کے بارے میں نازل ہوئیں ، لیکن یہ خیال درست نہیں ۔ ایمانداروں میں بھی اکثریت غلط رو ہوتی ہے اللہ سبحانہ نے فرمایا ۔
وَ مَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ۰۰۱۰۶
’’ او ان (بنی آدم ) میں سے اکثر اس طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ  ساتھ ) وہ مشرک بھی ہوتے ہیں ۔[4]
اس کے علاوہ اگر آپ فرداً فرداً قرآن پاک میں مذکورانبیاء علیہم  السلام اور  ان کی امتوں کا حال پڑھیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہمیشہ اکثریت غلط لوگوں کی رہی ہے ۔
انتخابات میں اکثریتی پارٹی :
اوپر ہم نے بہت اختصار کے ساتھ قرآن پاک کی روشنی میں واضح کیا کہ اکثریت غلط لوگوں کی ہوتی ہے ۔ انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے والوں سے انکے  مخالفین تعداد میں بہت زیادہ تھے ہی ۔ لیکن جو لوگ انبیاء علیہم السلام پر ایمان لے آتے ہیں ان میں بھی اکثریت غلط راہ پر چلنے والی ہوتی ہے ۔ سوائے حضرت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ﷜ کے ۔ پھر  حدیث میں تابعین اور تبع تابعین کو بھی آپﷺ نے خیر کے الفاظ سے یاد فرمایا ۔
مگر دیگر انبیاء علیہم السلام کے ساتھی تو اکثریت میں غلط رو تھے ۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو ساتھیوں کے سواسب نے انہیں سر میدان دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے  ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے انہیں بیچ دیا ۔ لیکن حضرت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ایسے نہ تھے ۔
اس لئیے بدر کے میدان میں صحابہ ﷜ نے حضرت رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ہم حضرت موسیٰ﷤ کے ساتھیوں جیسے نہیں ۔ صحابہ ﷜ کا حضرت موسیٰ﷤ کے صحابہ پر طنز کرنا یہود کو کھا گیا  چنانچہ انہوں نے مسلمانوں میں ایک گروہ پیدا کیا جنہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ بھی آپ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مرتد ہو گئے ۔نعوذ باللہ !
اس طرح یہود نے اپنا مقصد پورا کر لیا کہ اگر ہمارے نبی کے صحابہ بے وفا تھے تو تمہارے  رسول  کے صحابہ کون سے وفادار تھے ؟ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ان کی زندگی میں بے وفا ہو گئے ۔ اور تمہارے رسول ﷺ کے ساتھی  ان کی زندگی  میں منافقوں کی طرح اپنے نبی کے ساتھ رہے اور آپ ﷺ کی وفات پانے کے بعد کھل کر اسلام سے خارج ہو گئے ۔ ورنہ تمہارے رسول کے صحابہ کو ہمارے رسول کے صحابہ پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ۔ کاش مسلمان دشمنوں کی اس سازش کو سمجھتے ۔
الغرض اکثریت نیک اور عقل مند لوگوں کی نہیں ہوتی اور یہ اصول صرف انسانوں ہی میں نہیں ۔ ہر جگہ اور ہر چیز میں ہے ۔ پتھروں کے مقابلہ میں ہیرے جواہر کم ہوتے ہیں ،سونے  کے مقابلہ میں لوہا زیادہ ہوتا ہے ۔ صنوبر کا درخت سو سال میں جا کر تیار ہوتا ہے ۔ جب کہ گھاس پھونس چند ہفتوں میں اور اللہ سبحان و تعالٰی کا ارشاد ہے ۔
قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَ الطَّيِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ١ۚ
’’کہہ دو کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں ہو سکتے خواہ تمہیں ناپاک کی اکثریت بھلی ہی کیوں لگے ‘‘ تو پھر یہ اصول کتنا غلط ٹھہرا کہ اکثر یتی پارٹی اقتدار سنبھالے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اچھی پارٹی  ملک کی باگ ڈور ہاتھ میں لے ۔ لیکن دین جمہوریت میں ؏
برعکس نہند نام زنگی کا فور
والی بات ہے ۔
جمہوریت عقل کی کسوٹی پر :
کافر ممالک جمہوریت کی جتنی چاہیں تعریف کریں لیکن اس  کے عقلی طور بھی غلط ہونے میں ذرہ برابر شبہ نہیں ۔ یہ کتنا زبردست دھاندلی والا اصول  ہے کہ ایک چوٹی کے عالم دین کا بھی ایک ہی ووٹ اور ایک فاسق و بدکر دار کا بھی  ایک ووٹ ایک بہت بڑے قانون دان کا بھی ایک ہی ووٹ اور جنگلوں میں بھیڑ بکریاں چرانے والے علم و  دانائی اور تہذیب  وتمدن سے بے گا نہ شخص کا بھی ایک ووٹ ۔ دنیا اس اصول کو درست کہتی ہے تو کہے لیکن سلیم العقل شخص اسے درست تسلیم نہیں کر سکتا اور یہی ارشاد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ١ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَؒ۰۰۵۰
كہہ دو کہ کیا نا بینا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم غورو فکر سے کام نہیں لیتے دوسری جگہ فرمایا ۔
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ
’’کہہ  دو کہ کیا صاحب علم اور علم سے کو را برابر ہو سکتے ہیں؟
سورۃ رعدآیت 16 میں اور سورۃ فاطر آیت 19 میں فرمایا کہ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے ۔ نہ روشنی اور تاریکی برابر ہو سکتی ہے ۔ اسی لیے علامہ اقبال  نے بھی جمہوریت کو غلط کہا جب ازروئے عقل کم تر اور بہتر برابر نہیں تو جو لوگ بڑھیا اور گھٹیا دونوں کو برابر  تولیں تو پھر ہم ؏
بریں عقل و دانش بیاید گریست
ہی کہ سکتے میں علامہ اقبال  نے اس برائی کو کتنے عمدہ طریقہ سے بیان کیا ہے فرماتے ہیں
فرنگ آئین جمہوری نہا داست                    رسن از گردن دیو ے کشاداست
ایک جگہ ان الفاظ میں جمہوریت کی مذمت فرمائی ۔
’’گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو     کہ از مغز دوسدخر فکر انسانی نحی آید
ار مغان حجاز میں جمہوریت کا مکر وہ چہرہ الفاظ سے صاحب بصیرت لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔
تو نے کیا دیکھا نہیں مغریب کا جمہوری نظام ،چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
گو قائداعزم نے یہ جنگ جمہوری طریقوں سے لڑی لیکن ان کے سامنے یہ مجبوری تھی کہ کافر کے اقتدار میں وہ اسی طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے تھے مگر اس کے بعد والی حکومتوں کو یہ مجبوری و ر پیش نہ تھی ۔ لیکن پاکستان کی گاڑی جمہوریت کی پٹڑی پر ہی چلتی رہی ۔ کسی بھی جماعت  نے احیائے خلافت کا نعرہ نہ لگایا ہر پارٹی کا یہی مقصد رہا کہ اقتدار تک پہنچا جائے اور اقتدار کو حاصل کرنے کے لئیے چونکہ عوام کی اکثریت کا ہمنوا بنانا ضروری تھا اس لیے دین کا دعویٰ کرنے اور اسلامی نظام  کا نعرہ لگانے والے بھی قبروں پر گئے پھولوں کی چادریں چڑھائیں اور دوسرے طریقوں سے قبروں کا وہ احترام ظاہر کیا جو شریعت میں شرک کہلاتا ہے حالانکہ شرک اسلام میں سب سے بڑا جرم ہے اور اسی کو مٹانے کے لئے اللہ سبحانہ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول  مبعوث فرمائے ۔پھر اسلام کا دعوی ٰ کرنے والی جماعتوں نے اسلام کی اساس یعنی  توحید کو ہی جب ڈھایا تو پیچھے  کیا رہ گیا ؟ اگر یہ لوگ اس نظریہ سے قبروں پر گئے  کہ اقتدار مل جانے کے بعد اپنی اور لوگوں کی اصلاح کرلیں گے تو یہ نظریہ بہت غلط ہے اور یہ لوگ از روئے اسلام اللہ تعالیٰ کی نظر میں معذور نہیں گئے جائیں گے اس لیے کہ اس طرح تو حضرت رسول اللہ ﷺ کو قریش  کے لوگ اقتدار پیش کر رہے  تھے ۔ آپ ﷺ توحید کی تبلیغ سے دست بردار ہو کر اقتدار قبول فرما لیتے اور اقتدار پر قابض ہو کر اپنے نظریہ کے مطابق اسلامی ریاست تشکیل دے لیتے لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تھا کہ:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ۰۰۹۴
’’جس کا تمہیں حکم دیا گیا تم اسے دو ٹوک بنا دو اور مشرکوں سے منہ موڑلودوسرى جگہ اللہ سبحانہ نے فرمایا ۔
ياَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ
’’اے رسول ﷺ جو تمہاری طرف وحی کی جاتی ہے اسے (لوگوں تک ) پہنچا دیجیئے  اگر تم نے ایسا نہ کیا  تو تم نے اس کے پیغام کی تبلیغ نہیں کی ۔
اور اللہ ذوالجلال نے فرمایا :
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ۠۰۰۸وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ۰۰۹
’’ تو تم  جھٹلانے والوں کی بات نہ ماننا یہ چاہتے ہیں کہ تم نرم ہو جاؤ کچھ یہ نرم ہو جائیں ‘‘
اسی طرح سیاسی جماعتوں نے جب دیکھا کہ مبتدعین تعداد میں زیادہ ہیں ، از روئے جمہوریت  جب تک ہم اکثریت کی ہمدردیاں نہ جیت لیں ، اقتدار ہمیں نہیں مل سکتا تو ان جماعتوں  نے شرک کی طرح بدعات کو بدعات سمجھنے کی باوجود انہیں رواج دیا ان کو یہ نظر آیا کہ اس طرح ہم اپنے  مخالفین کو جن کو کہ مبتدعین اپنے راہنما سمجھتے ہیں چاروں شانے چت گرادیں گے لیکن یہ بات ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی کہ تم تو انہیں کیا گراؤ گے لیکن شیطان نے تمہیں صراط مستقیم سے ہٹا کر گمراہی کی پکڈنڈیوں پر لگا دیا اور چاروں شانے چت گرادیا ہے ۔ اور یہ جمہوریت کو پاکستان کی اساس تسلیم کرنے ہوا۔ یعنی جمہوریت نے اہل پاکستان کو شرک و بدعت کی راہ پر لگا دیا ۔ الا من رحم ربی ۔
پاکستان میں الحاد وبے دینی کے جو طوفان اور جھگڑ چل رہے ہیں اس کی ذمہ داری بھی جمہوریت  کو تسلیم کر لیا تو اس کے تمام اصول یہاں برگ و بار لانے لگے ۔ جمہوریت کے اصولوں میں ایک زبر دست اصول ’’آزادی اظہار رائے ‘‘ بھی ہے ۔ اس اصول کا سہارا لے کر یہاں طاغوتی قوتیں کھل کھیلیں ۔ امریکہ نے یہاں عیسائیت کا پر چار کرایا۔ روس نے سو شلزم کے حامی کھڑے کیئے ۔ قادیانیت بڑھی پھولی ، فحاشی و عریانی ابنے جوبن پر آئی ،غلیظ لڑیچر چھپا ۔ یہاں تک کہ یحیی خان کے زمانہ میں کھلم کھلا اسلام کے خلاف کفر بکا جانے ل؍ا قوم کے خزانہ سے تنخواہ بانے والے اساتذہ نے قوم کے نونہالوں کو اچھی تربیت دینے کے بجائے الحاد لیکچر دینا شروع کیا ۔ اسلام کو چودہ سو سال پرانا گندا جوہڑ قرار دیا ۔ محمد بن قاسم  کو لٹیرا کہا گیا  اور ایک کافر راجہ دہر کو ملک کے ہیرو  کے نام سے یاد کیا گیا تا کہ آنکہ پیپلز پارٹی  کے زمانہ اقتدار میں سندھ کی صوبائی اسمبلی میں رانا چندر سنگھ نے اس بنیاد پر کہ میں عوام کا  نمائندہ ہوں ، جمہوری نمائندہ ہوں ، اسلام کے خلاف زہر افشانی کی ۔ یہ سب کچھ جمہوریت کو تسلیم کر لینے کی وجہ سے ہوا ۔ حالانکہ اسلام میں یہ حکم ہے کہ اگر ذمی اسلامی شعائر کی تضحیک  اڑائے یا اللہ سبحانہ و تعالیٰ یا حضرت رسو ل اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے تو اسلامی حکومت کا اس سے کیا ہوا معاہدہ منسوخ ہو جا تا ہے ، اس کی جان ، مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا واجب ٹھہر تا ہے ۔ بخاری شریف اور دوسری حدیث کی کتابوں میں یہ ثابت ہے کہ جب ذمیوں نے ایسی حرکات  کیں تو حضرت رسول اللہ ﷺ نے انہیں قتل کروادیا ۔ مثلاً کعب بن اشرف ، ابن ابی الحقیق وغیرہ ۔
آزادی اظہار رائے کے نام بر لسانی و صوبائی عبیت کی آگ بھڑکائی گئی اور  اس طرح پاکستان کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ۔ سندھ، سرحد ، اور مشرقی پاکستان میں یہ فتنے پرورش پاتے رہے حتیٰ کہ ان فتنوں نے خوفناک اثر دہاکی شکل اختیار کرلی ۔ نتیجہ یہاں تک پہنچا کہ پاکستان کا ایک باز و کٹ کر الگ  ہو گیا یہ سب کچھ جمہوریت کو تسلیم کرنےکی وجہ سےہوا۔ اسی جمہوریت کی وجہ سے سہر وردی نے مخلوط انتخاب کا نعرہ لگایا اور مسلمان نے ابنے اس ازلی دشمن یعنی ہندوکو ،جس سے ہم نے الگ ہو کر زمین کا ایک خطہ حاصل کیا تھا کہ یہاں ہم اسلام کو نافظ کریں گے ، ووٹ کا کلہاڑا پکڑا دیا کہ یہ لو کلہاڑا اور سر زمین پاکستان کی جڑوں پر اس کی دھار کی تیزی آزماؤ ۔ہندو نے ذرا نہ کوتاہی برتی اور آخر کار مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔
جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ہمیشہ پاکستان کی حکومت کے لیے جو نمائندے منتخب ہوئے انہیں دو گروہوں میں بانٹ دیا گیا ۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف  حزب اقتدار کے ہر رکن کا  یہ کام  رہا کہ اپنے گروپ کی  ہر برائی پر پردہ ڈالے اور حزب اختلاف کا یہ  کام رہا کہ حزب اقتدارکی نیکیوں کو بھی برائی کے روپ میں پیش کرے ۔حالانکہ از روئے اسلام دونوں کا طریق کار غلط ہے ۔ حزب اقتدار کے ہر رکن نے برائی میں دوسرے رکن کا تعاون کیا ۔حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے :
وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ
’’گناہ اور ظلم میں کسی کا تعاون نہ کرو ‘‘
اور حضرت محمد  رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا :
’من رای منکم منکرا فیغیرہ بیدہ وان لد یستطع فبلسانه  ۔(الحدیث)
’’تم میں سے جو شخص برائی دیکھے وہ اسے ہاتھ سے ختم کر دے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان  سے  ختم کر دے ‘‘
یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو حزب اقتدار نے ترک کر دیا ۔ اور حزب اختلاف نے یوں خلاف شریعت کیا کہ اگر حزب اقتدار صحیح کام بھی کرے تو اس میں کیڑے نکالو۔کیچڑ اچھا لو ۔ حالانکہ اللہ سبحانہ فرماتا ہے ۔
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى
’’اور نیکی اور تقوی میں (ایک دوسرے کا )تعاون کرو‘‘
اور اس طرح بھی خلاف شرع ہوا کرنا رو ا کسی کو ذلیل کرنا اسلام میں سنگین جرم ہے ۔ لیکن حزب اختلاف ،حزب اقتدار کو رسواکرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ تاکہ عوام کو ان سے متنفر کر سکے اور آئندہ عوام انہیں ووٹ نہ دیں ۔ حدیث پاک میں ہے ۔
اهراق عرض المؤمن كقتله
’’مومن کو ذلیل کرنا اسے قتل کرنے جیسا (گناہ ہے )‘‘
جب عوام نے دونوں گروپوں کا یہ وطیرہ دیکھا تو وہ اندھیرے میں رہنے لگے اس لیے صحیح خبر نہیں حزب اختلاف کی صحیح خبر بھی اسی پیمانہ پر  رکھی گئی کہ ذلیل کرنے کےلیے کہہ رہے ہیں اور حزب اقتدار تو پردہ پوشی کر ہی رہاتھا ۔ چنانچہ عوام بھلے برے کی پہچان کرنے سے عاجز ہو گئے ۔ اور حزب اقتدار کا ہر رکن اپنی پشت پر برسراقتدار پارٹی دیکھ کر لوٹ کھسوٹ میں لگ گیا اس سے ملک میں چور بازاری  رشوت ستانی ، حکومت کے ٹھیکوں میں نکما کام وغیرہ برائیاں پیدا ہوئیں اور ان سے افراط زر  نے جنم لیا ۔ اسی طرح جمہوریت کی وجہ سے ملک کا معاشی استحکام متزلز ل ہو گیا ۔


[1]   امام ابن الجوزی نے حتی المقدور کچھ  شیطانی جال اپنی تلبیس  ابلیس نام کتاب میں ذکر کئیے  ہیں ۔ آج نئی تلبیس ابلیس لکھنے کی ضرورت ہے جس میں سائنسی ترقی کے بعد شیطانی جالوں اور ماہرانہ چالوں کا تذکرہ ہو ۔ کلیم
[2]  یہ سب ادارے یہودیوں کی سر پرستی میں ہیں ۔
[3]  انسان یا کوئی دیگر مخلوق اللہ کا خلیفہ نہیں بن سکتی کیونکہ خلافت کے معنی نیابت  اور قائم  مقامی کے ہیں ، اللہ تعالٰی نے اپنا اختیار کسی کو سونپا ہے اور نہ کسی کو قائم مقام بنایا ہے بلکہ صحیح  حدیث کی رو سے کبھی اللہ تعالیٰ انسانوں کے خلیفہ ہوتے ہیں  ،سفر کی مسنون دعا میں ہے ۔ الہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاہل (اے اللہ تو سفر کا اساتھی  ہے اور گھر والوں میں خلیفہ ہے ) شیخ  الاسلام ابن تیمیہ   اسی موضوع پر اپنے طویل فتویٰ میں فرماتے ہیں ’’ من اعتقد ان الانسان خلیفۃ اللہ فقد کفر ‘‘ (جس نے انسان کے بارے میں خدا کا خلیفہ ہونے کا عقیدہ  رکھا وہ کافر ہو گیا ۔ علامہ مادر دی  ابنی کتاب ، الاحکام السلطانیہ ‘‘ جمہورسلف کے نزدیک ایسے شخص  کو فاسق قرار دیتے ہیں ۔ دراصل یہ فکر غالی  صوفیاء کے عقائد سے در آمد ہے اور ہم اس مضمرات کی ظرف توجہ کئیے بغیر عموماً آیت مکورہ میں بھی یہی معنی کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ اسی آیت میں خلیفہ اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت ہے اور نہ آدم  کا ذکر ۔ بلکہ اس آیت میں زمین میں ایسی مخلوق کی آباد کاری کا ذکر ہے جن میں باہمی خلافت کا نظام قائم ہو گا۔ یعنی لوگوں میں فتنہ و فساد کے بعد اللہ تعالیٰ ایمان اور عمل صالح ک حاملین کو ان کی جگہ آباد کرتے رہیں گے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں  اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ۔ خلافت کا یہ مفہوم آیت کریمہ و جعل الیل والنہار خلفۃ (اللہ تعالٰی نے رات دن کو ایک دوسرے کا خلیفہ بنایا ہے ) سے واضح  ہے اسی نظام کے پیش نظر  فرشتوں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ فساد اور خون کرنے والے کو بھیجنے  کا کیا فائدہ ؟ جس کا جواب بعد میں حضرت آدم علیہ السلام  کی طرف سے اپنی اولاد (جس میں بڑے بڑے نیک لوگوں کی وجہ سے نیکی غالب بھی ہے اور برائی  کے ذکر کے بعد صاحب قدر و منزلت بھی ، کی مکمل فہرست پیش کرنے دیا گیا ۔ آیت بالا  کی وہی تفسیر درست ہے جو تفسیر  انسان کا بہترین مقام ابن جریر اور ابن کثیر وغیرہ میں ہے اللہ کے ’’عبد‘‘ (بندے) کا ہے ۔ البتہ انبیاء اللہ کے نمائندہ (رسول) ہوتے ہیں اور  خلفا ارشدہ انکے نائب اور خلیفہ ۔ اس معنی ٰ میں بھی خلافت نبی کی ہوتی ہے نہ کہ اللہ کی ۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق﷜ کو کسی نے خلیفۃ اللہ کہا تو آپ نے فرمایا : لست خلیفۃ اللہ بل انا خلیفۃ رسول اللہ (میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ ہوں ) قرآن کریم اور کسی صحیح  حدیث میں شرافت کے لئیے بھی خلیفہ کی اضافت کسی انس وجن یا فرشتے کے لئیے نہیں ملتی ۔ حالانکہ  ناقۃ  اللہ ۔ بیت اللہ ۔روح اللہ ۔ کلمۃ اللہ ۔ وغیرہ تشریفی اضافتیں وجود ہیں (مزید تفصیلات کے لئیے ملاحظہ ہو  الفتاوی الکبریٰ لابن تیمیہ (مدیر)
[4]  اس آیت میں ایمان سے مراد خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا یقین ہے ورنہ جب توحید کے یقین کے ساتھ طلب بھی پیدا ہو جائے تو پھر شرک بڑا مشکل ہوتا ہے ایسی توحید طلبی کا نام توحید الوہیت اور توحید عبارۃ ہے جو انبیاء کی اصل دعوت ہے قرآن کریم میں جا بجا توحید ربوبیت کا اقرار کرنے کے بعد توحید الوہیت کی دعوت ہے ۔سورۃ شعراء پ 20 کی آیات  امن خلق السموات والارض ۔۔۔۔۔قل ہاتو ابرہانکم  ان کنتم صدقین سے یہ انداز کلام ملاحظہ ہو ۔ (محدث)