بزم رسالت کی بارہ شمعیں
حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بیسوی ایسی خواتین کے نام ملتے ہیں جن کا شمار عظیم للرتبت صحابیات میں ہوتا ہے لیکن ان کے حالات زندگی بہت کم معلوم ہیں یہاں ہم ایسی بارہ صحابیات کے حالات ( جس قدر معلوم ہیں ) نذر قارئین کرتے ہیں ۔
حضرت ام ایوب انصاریہ
اصل نام معلوم نہیں اپنی کنیت ’’ام ایوب‘‘ سے مشہور ہیں ۔ میزبان روسول اللہ ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری کی اہلیہ تھیں ۔ ہجرت نبوی سے قبل اپنے شوہر کے ساتھ ہی اسلام قبول کیا ۔ سرور عالم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو سات ماہ تک حضرت ابو ایوب کے گھر میں ہی قیام فرمایا ۔ اس دوران میں حضرت ام ایوب ہی حضور ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا کرتی تھیں ۔ ابتداء میں حضور ﷺ نے حضرت ابو ایوب کے مکان کی زیریں منزل میں قیام فرمایا ۔ حضرت ابو ایوب اور ام ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اگرچہ حضور ﷺ کی ابنی خواہش کے مطابق بالاخانہ میں منتقل ہو گئے تھے مگر دونوں میاں بیوی کو ہر وقت یہ خیال مضطرب رکھتا تھا کہ وہ تو بالائی منزل میں مقیم ہیں اور مہبط وحی و رسالت نچلی منزل میں ۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ ایک روز بالا خانے بر پانی سے بھرا ہوا برتن پھوٹ گیا ، میاں بیوی اس خیال سے بے قرار ہو گئے کہ پانی بہ کر نیچے جائے گا اور حضور ﷺ کو تکلیف ہوگی ۔گھر میں اوڑھنے کا ایک ہی انہوں نے فی الفور یہ لحاف گھسیٹ کر پانی پر ڈال دیا تاکہ بہتا ہوا پانی لحاف میں جذب ہوجائے ۔ جب پانی کے نیچے بہنے کا امکان نہ رہا تو میاں بیوی نے اطمینان کا سانس لیا ۔
ایک دن اپنے بالائی منزل میں مقیم ہونے کا احساس اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ دونوں میاں بیوی چھت کے ایک کونے میں سکڑ کر بیٹھ گئے اور ساری رات اسی حالت میں جتگ کر گزاردی صبح ہوئی تو حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم ساری چھت کے ایک کونے میں بیٹھ کر جاگتے رہے حضور ﷺنے سبب دریافت فرمایا تو عرض کیا ’’ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ‘ ہر لحظہ یہ خیال سو ہان روح رہتا ہے کہ آپ تو زیریں مزل میں تشریف رکھتے ہیں اور ہم بلاخانہ میں مقیم ہیں ۔ یار سول اللہ ﷺ آپ بالا خانے پر تشریف لے چلئیے حضو ر کے غلاموں کے لئیے آپ کے قدموں کے نیچے رہنا ہی باعث سعادت ہے ‘‘
سرور کونین ﷺ نے ان کی درخواست قبول فرما لی اور حضرت ابو ایوب اور حضرت ام ایوب نے بکمال مسرت نچلی منزل میں اقامت اختیار کرلی ۔
سرور عالم ﷺ ابنے خانہ اقدس میں منتقل ہو جانے کےبعد بھی کبھی کبھی حضرت ابوایوب کے گھر تشریف لے جاتے تھے ۔ دونوں میاں بیوی حضور ﷺ کا پرتپاک خیر مقدم کرتے تھے اور جو کچھ میسر ہوتا حضور کی خدمت پیش کر دیتے ۔ ایک دن حضور ﷺ بھوک کی حالت میں خانہ اقدس سے باہر نکلے ۔ راستے میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق ر مل گئے سرور کونین ﷺ ان دونوں کو ساتھ لے کر حضرت ابو ایوب کے گھر رونق افروز ہوئے ۔ اس وقت حضرت ابو ایوب اپنے مکان سے متصل کھجوروں کے باغ میں تھے اور گھر میں کھانے کی کوئی چیز موجود نہ تھی حضرت ام ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور ﷺ کو اہلا و سہلاً کہا ۔ حضور ﷺ نے پوچھا ابو ایوب کہاں ہے ؟ حضرت ابو ایوب نے حضور ﷺ کی آواز سنی تو کھجوروں کا ایک گچھا توڑ کر دوڑتے ہوئے گھر آئے اور یہ گچھا مہمانان عزیز کی خدمت میں پیش کیا اس کے ساتھ ہی فوراً ایک بکری ذبح کی ۔ حضرت ام ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آدھے گوشت کا اسالن پکایا آدھے کے کباب بنائے اور حضور ﷺ کی خدمت میں کھانا پیش کیا ۔ حضور ﷺ نے ایک روٹی پر کچھ گوشت رکھ کر فرمایا ’’اسے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھیج دو اس پر کئی دن کا فاقہ ہے ‘‘ حضرت ابو ایوب نے تعمیل ارشاد کی اور حضور ﷺ نے اپنے رفقاء کرام کے ساتھ کھانا کھایا قیاس یہ ہے کہ حضرت ام ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کئی اور موقعوں پر بھی اسی طرح حضور ﷺ کی خدمت کی ہو گی۔
حضرت ام ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چند احادیث بھی مروی ہیں ان کے بطن سے حضرت ابو ایوب کی جو اولاد ہوئی ان میں سے ایوب ، خالد ، محمد ، تین بیٹوں اور ایک بیٹی عمرہ کے نام معلوم ہیں ۔
حضرت ام ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سال وفات کے بارے میں کتب سیر خاموش ہیں ۔
حضرت ام سلیط انصاریہ ؓ
نام ونسب معلوم نہیں ہے ۔ صحیح بخاری میں ہےکہ وہ غزوہ احد میں حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ اور کچھ دوسری خواتین کے ساتھ مشک بھر بھر کر زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں ۔حضرت عمر فاروق کو ان کی یہ خدمت مدت العمریا درہی ۔ اپنے عہد خلافت میں ایک مرتبہ انہوں نے مدینہ کی خواتین میں چادریں تقسیم فرمائیں ۔ ایک عمدہ چادر بچ گئی تو کسی نے کہا کہ آب یہ چادر اپنی بی بی ام کلثوم ؓ کو دے دیں ۔ فرمایا ’’ام سلیط ؓ‘‘ اس چادر کی زیادہ مستحق ہیں ، یہ انصار کی ان عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے حضور ﷺ بیعت کی تھی ،وہ غزوہ ٔاحد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں ‘‘ ایک روایت کے مطابق حضرت زینب ؓ بنت رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو ان کے غسل کے موقع پر چند دوسری خواتین کے ساتھ وہ بھی حاضر تھیں ۔ اس سے زیادہ حالات کسی کتاب میں نہیں ملتے ۔
حضرت کبشہ بنت رافع
جلیل القدر صحابی، صدیق انصار سد الاوس حضرت سعدبن معاذ کی والدہ تھیں ، والد کانام رافع بن عبید تھا اور ان کا تعلق خاندان خدرہ سے تھا اہل سیر کا ان کے اسلام پر اتفاق ہے یہ شرف انہیں ہجرت نبوی سے قبل حاصل ہوا ۔ بڑی باوقار خاتون تھیں اور شعر وشاعری میں بھی درک رکھتی تھیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے رشتہ مؤدت قائم تھا ۔ غزوہ احزاب میں بنو حارث کی گڑھی میں ان کے پاس بیٹھی تھیں کہ حضرت سعد بن معاذ رجز پڑھتے ہوئے ان کے سامنے سے گزرے ۔ حضرت کبشہ ؓ نے پکار کر کہا ، بیٹے دوڑ کر جا تو نے بڑی دیر کر دی ، اس غزوہ میں حضرت سعد کو کاری زخم لگا ۔جس کی وجہ سے چند دن بعد رتبہ شہادت پر فائز ہوئے ۔ حضر ت کبشہ ؓ کو اپنے سعادت مند بیٹے کی وفات کا سخت ہوا ور انہوں نے ان کی یاد میں رو رو کر بہت سے ماتمی اشعار پڑھے جن میں حضرت سعد کی بے انتہا تعریف کی حضور ﷺنے یہ اشعار سنے تو فرمایا ۔ جتنی رونے والی عورتیں ہیں جھوٹ بولتی ہیں لیکن ام سعد سچ کہتی ہیں ’’ حضرت کبشہ ؓ حضرت سعد کی وفات کے بعد بہت عرصہ تک زندہ رہیں ۔
حضرت خالدہ بنت حارث
جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن سلام کی پھوپھی تھیں سرور عالم ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں تزول ااجلال فرمیا تو اس وقت حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اپنے باغ میں تھے ، ان کی پھوپھی خالدہ بنت حارث بھی وہیں تھیں کسی نے باغ میں جاکر حضرت عبداللہ بن سلام کو حضور ﷺ کی تشریف فرمائی کی اطلاع دی تو وہ فرط عقیدت سے بے خود ہوگئے اور بے اختیار اللہ اکبر ، کہہ اٹھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تورات کے بہت بڑے عالم تھے اور اس میں نبی آخر الزمان ﷺ کی علامات پڑھ کر آپ ﷺ کے نادیدہ عاشق بن گئے تھے ان کی مسرت اور بے تابی کو دیکھ کر خالدہ ؓ بڑھی حیران ہوئیں اور کہنے لگیں حصین ( حضرت عبداللہ بن سلام کا اصل نام ) ان صاحب کے آنے سے تمہیں اتنی خوشی ہوئی ہے کہ شاہد موسیٰ بن عمران بھی تشریف لاتے تو اتنے خوش نہ ہوتے ؟ حضرت عبداللہ بن سالم نے کہا ’’پھوپھی جان خدا کی قسم ، یہ بھی موسیٰ کے بھائی ہیں اور اسی دین کی تبلیغ کے لئیے دنیا میں تشریف لائے جس کے موسیٰ مبلغ تھے ۔
حضرت خالدہ ؓ نے پوچھا برادر زادے کیا واقعی یہ وہی نبی ہیں جن کی تورات اور دوسرے آسمانی صحائف میں خبر دی گئی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن سالم نے جوا ب دیا ’’بے شک یہ وہی نبی ہیں ‘‘ حضرت خالدہ ؓ نے کہا ’’پھر تو ہماری بڑی خوش بختی ہے کہ وہ ہمارے شہر میں تشریف لائے ۔
اس سوال و جواب کے بعد حضرت عبداللہ ؓ نے بارگاہ نبوت کا قصد کیا حضرت خالدہؓ بھی ان کے پیچھے گئیں اور مشرف بہ اسلام ہو کر لوٹیں پھر اپنے گھر پہنچ کر سب اہل خانہ کو اسلام کی تلقین کی چنانچہ گھر کے سب چھوٹے بڑے سعادت اندوز اسلام ہو گئے بعض روایتوں میں ان کو عبداللہ ؓ بن سلام کی چچی بتایا گیا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب !
حضرت ام جبیدؓ
اوس کے خاندان عبدالاشہل سے تھیں اور حضرت یزید بن سکن انصاری کی صاحبزادی تھیں اصل نام’’حوا‘‘تھا مشہور صحابیہ حضرت اسماءؓ بنت یزید انصاریہ ان کی بہن تھیں سلسلہ نسب یہ ہے ۔
حوا بنت یزید بن السکن بن رافع بن امراء القیس بن زید بن عبدالاشہل بن حبشم بن حارث بن خزرج بن عمر و بن مالک بن اوس ۔ہجرت نبویﷺ کے بعد شرف اسلام سے بہرہ ورہوئیں ۔نہایت راسخ العقیدہ مسلمان تھیں ان کو بیعت رضوان میں شریک ہونے کا فخر حاصل ہے ۔ اس سے زیادہ حالات معلوم نہیں ہیں ۔
حضرت عمرۃ بنت رواحہ
ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا سلسلہ نسب یہ ہے ۔
عمرۃ بنت رواحہ بن ثعلبہ بن امراء القیس بن عمروبن امرء القیس الاکبربن مالک الاعزبن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج اکبر ۔
مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن رواحہ شاعر رسول محمد ﷺ کی ہمشیرہ تھیں، ان کا کا نکاح جلیل القدر صحابی حضرت بشیر بن سعد انصاری سے ہوا ۔ فرزند نقمان بن بشیر بھی مشہور صحابی ہیں حضرت عمرۃ کو اپنے فرزند نعمان سے اس قدر محبت تھی کہ وہ اپنی تمام جائداد انہیں کے نام منتقل کر دینا چاہتی تھیں ۔ چنانچہ اپنے شوہر بشیر کو اس بات پر آمادہ کر لیا اور گواہی کے لئیے رسول اکرم ﷺ کو منتخب کیا ۔ حضرت بشیر بن سعد تھے نعمان کو ساتھ لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ گواہ رہیے کہ میں اپنی فلاں زمین (جائیداد ) اس لڑکے کو دیتا ہوں ’’حضور ﷺ نے فرمایا اس کے دوسرے بھائیوں کو بھی حصہ دیا ہے ؟ انہوں نے کہا ’’نہیں ‘‘ ارشاد فرمایا تو پھر میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا ‘‘ اس پر وہ خاموشی سے گھر لوٹ گئے اور حضرت عمرۃ ؓ نے ارشاد نبوی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ۔ سرور عالمﷺ حضرت عمرۃ ؓ پر بے حد شفقت فرماتے تھے ۔ ایک دفعہ آپ ﷺ کے پاس طائف سے انگور آئے اتفاق سے حضرت نعمان بھی بار گاہ رسالت میں حاضر تھے ۔ اس وقت ان کی عمر چھ سات برس کے لگ بھگ تھی حضور ﷺ نے انہیں دو خوشے مرحمت فرمائے ۔ کہ ایک تمہارا اور ایک تمہاری والدہ ’’عمرۃؓ) کا ۔نعمان دونوں خوشے راستے میں چٹ کر گئے اور ماں کو بتایا تک نہیں چند دن بعد پھر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے پوچھا ’’نعمان وہ انگور اپنی ماں کو دے دئیے تھے ‘‘ ؟ انہوں نے کہا ’’نہیں ‘‘ حضور ﷺنے فرمایا پیار سے ان کے کا ن انیٹھے اور فرمایا ’’یا غدر‘‘ کیوں کار ‘‘ حضرت عمرۃ ؓ کے اس سے زیادہ حالات معلوم نہیں ہیں ۔
حضرت ام رفیدہ ؓ یا رفیدہ ؓاسلمیہ
ان کا نام بعض روایتوں میں ام رفیدہؓ اور بعض میں رفیدہ ؓ آیا ہے ۔طب اور جراحی میں مہارت رکھتی تھیں اور زخمیوں کا علاج معالجہ کیا کرتی تھیں ۔ علامہ ابن سعد کا بیان ہے کہ ان کا خیمہ ، جس میں جراحی اور مرہم پٹی کا سامان تھا مسجد نبوی کے پاس تھا، ایک روایت میں کہ بعض موقعوں پڑ حضور ﷺ نے انہیں مسجد نبویﷺ کے اندر خیمہ لگانے کی اجازت دی تھی ۔ سید الاوس حضرت سعید بن معاذ غزوہ احزاب میں زخمی ہوئے تو حضرت ام رفیدہ ہی نے ان کا علاج کیا تھا ۔ ان کے یہی حالات معلوم ہین ۔
زوجہ جلبیب ؓ
نام ونسب وغیرہ سب تاریکی میں ہیں ، صرف اتنا معلوم ہے کہ انصاریہ تھیں اور سرور عالم ﷺ کے ایک جانثار حضرت جلبیب انصاری ؓ کی اہلیہ تھیں ان کا نکاح عجیب حالات میں حضرت جلبیب سے ہوا ۔ جلبیب کا چہرہ مہرہ کچھ داجبی سا تھا اور قد پست تھا اس لیے کوئی انہیں اپنی لڑکی دینے پر رضا مند نہیں ہوتا تھا آخر حضور ﷺ نے انصار کے ایک خاندان میں ان کی نسبت ٹھہرائی ۔لڑکی کے والدین رشتہ دینے بر شامل ہوئے تو سعادت مند لڑکی نے ان کے سامنے اللہ کا یہ حکم پیش کیا کہ ’’جب اللہ اور رسول ﷺ کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو کسی مسلمان کو اس میں چوں و چراکرنے کی گنجائش نہیں ’’ پھر کہا کہ جو رسول اللہﷺ کی مرضی ہے وہی میری بھی مرضی ہے اور میں جلبیب سے شادی کرنے پر بالکل راضی ہوں ’’رحمت عالم ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ بے حد خوش ہوئے اور دعا کی ’’الہی اس لڑکی پر خیر کا دریا بہادے اور اس کی زندگی کو تلخ نہ کر ۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے جلبیب سے فرمایا کہ میں فلاں لڑکی سے تمہارا نکاح کرتا ہوں ’’انہوں نے عرض کیا ‘‘’’یا رسول اللہ ﷺ آپ مجھے کھوٹا پائیں گئے ‘‘۔ فرمایا نہیں تم خدا کے نزدیک کھوٹے نہیں ہو ‘‘ پھر آپ ﷺ نے حضرت جلبیب کا نکاح اس نیک بخت لڑکی سے کر دیا ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضورﷺ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ ان کی خانگی زندگی نہایت بابرکت ثابت ہوئی حضرت جلبیب نہایت آسودہ حال ہو گئے اور ان کی نیک اہلیہ سے بڑھ کر کوئی عورت متمول اور شاہ خرچ نہ تھی ۔
حضرت سلافہ بنت برآء انصاریۃ ؓ
خزرج کے خاندان سلمہ سے تھیں اور جلیل القدر صحابی حضرت براءؓ بن معرور انصاری کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت ابو قتادہ انصاری سے نکاح ہوا ۔ ان کے صلب سے تین بیٹے عبدالہل ، معبد اور عبدالرحمن پیدا ہوئے ۔ سرور عالم ﷺ سے بڑی عقیدت اور محبت تھی اور ان کی گھریلو زندگی نہایت خوشگوار تھی۔
حضرت انیسہ بنت ابی حارثہ
ان کا تعلق خزرج کے خاندان عدی بن نجار سے تھا زمانہ جاہلیت میں نعمان اوسی کی زوجیت میں تھیں اس کے مرنے کے بعد مالک بن سنان خدری سے نکاح ہوا یہ ہجرت نبوی سے پہلے کا واقعہ ہے بیعت عقبہ کے بعد مدینہ کے گھر گھر میں اسلام پھیلا تو مالک بن سنان اور انیسہ دونوں حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔ جلیل القدر صحابی حضرت ابو سعید خدری بن مالک بن سنان حضرت انیسہ ہی کے بطن سے تھے ، حضرت مالک بن سنان نے غزوۂ احد میں مردانہ وار لڑتے ہوئے شہادت پائی چونکہ انہوں نے کوئی جائیداد نہ چھوڑی تھی ، حضرت انیسہ اور ان کے بارہ سالہ فرزند حضرت ابو سعید سخت تنگ دستی میں مبتلا ہو گئے ۔حضرت انیسہ ؓ نے ایک دن ابو سعید ؓ سے کہا کہ بیٹے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں جاؤ آج انہوں نے فلاں شخص کو کچھ دیا ہے تم کو بھی کچھ نہ کچھ ضرور مرحمت فرمائیں گے ۔’’انہوں نے پوچھا گھر میں کچھ ہے ؟ ماں نے نفی میں جواب دیا تو سیدھے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اس وقت حضور ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ جو شخص تنگدستی میں صبر کرے اللہ اس کو غنی کر دے گا ۔ حضور ﷺ کا ارشاد سن کر حضرت ابو سعید نے دل میں کہا کہ میرےپاس ایک اونٹنی (یاقوتہ ) موجود ہے اس لیے دست سوال دراز کر کے حضور کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ یہ سوچ کر خالی ہاتھ ماں کے پاس واپس آگئے ماں بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے صبر کا یہ پھل دیا کہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی عبرت خوش حالی سے بدل گ‘ی اور وہ مال و دولت میں تمام ( انصار سے بڑھ گئے ۔ اس سے زیادہ حالات معلوم نہیں ہیں ۔
حضرت ام ورقہ ؓ بنت نوفل
اصل نام معلوم نہیں ہے ، باپ کا نام عبداللہ تھا اور جدا علیٰ کانوفل ۔ چنانچہ انہں ام ورقہ بنت عبداللہ بنت نوفل دونوں طرح پکارتے تھے ۔ حافظ ابن حجر نے ’’اصابہ ‘‘ میں ان کا سلسلہ نسب اس طرح لکھا ہے ۔ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث بن عویمر بن نوفل ۔ہجرت نبوی کے بعد شرف اسلام اور حضور ﷺ کی بعیت سے بہرہ ور ہوئیں۔ اس کے بعد انہوں نے بڑے ذوق و شوق سے حضور ﷺ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ انہوں نے پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا ۔ غزوۂ بدر کی تیاری ہونے لگی تو انہوں نے پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا ۔ غزوۂ بدر کی تیاری ہونے لگی تو انہوں نے حضور ﷺسے درخواست کی کہ مجھے بھی اس غزوہ میں اپنے ہمراہ لے چلئیے میں زخمیوں کی خدمت اور مریضوں کی دیکھ بھال کروں گی ۔شاید اللہ تعالیٰ مجھے راہ حق میں شہید ہونے کی سعادت بخشے ۔حضور ﷺ نے فرمایا ’’تم گھر میں ہی رہو اللہ تعالیٰ تمیں پہلی شہادت نصیب کرے گا ‘‘ انہوں نے حضور ﷺکے ارشاد کی تعمیل کی اور غزوہ پر جانے کا ارادہ ترک کر دیا ۔ عبادت سے بڑا شغف تھا ، چونکہ قرآن پڑھی ہوئی تھیں اس لیے حضور ﷺ نے ان کو عورتوں کا امام مقرر فرمادیا تھا اور انہوں نے ان کی درخواست پر ایک مؤذن بھی مقرر فرمایا دیا تھا ان کی اذان سن کر عورتیں نماز با جماعت ادا کر نے حضرت ام ورقہ کے گھر آجاتی تھیں ۔
علامہ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں بیان کیا ہے کہ سرور عالم ﷺ ان پر بے حد شفیق تھے کبھی کبھی بعض صحابہ کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے آؤ شہیدہ کے گھر چلیں ’’ عہد رسالت سے متعلق ان کے اسی قدر حالات معلو م ہیں ۔
حافظ ابن حجر کا بیان ہے کہ حضرت ام ورقہ ؓ نے اپنے ایک غلام اور ایک لونڈی سے وعدہ کیا کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو ’’ ان بد بختوں نے جلد آزاد ہونے کے لئیے ایک رات کو چادر سے ان گلا گھونٹ دیا ۔ صبح کو حضرت عمر فاروق نے لوگوں سے کہا کہ آج خالہ ام ورقہ ؓ کے قرآن پڑھنے کی آواز نہیں آتی ،معلوم نہیں ان کا کیا حال ہے ؟ اس کے بعد حضرت ام ورقہ ؓ کے گھر گئے دیکھا کہ مکان کے ایک گوشہ میں لپٹی بے جان پڑی ہیں ۔
سخت غمزدہ ہوئے اور فرمایا اللہ کے رسول ﷺ سچ فرمایا کرتے تھے کہ شہید کے گھر چلو‘‘ اس کے بعد منبر پر تشریف لے گئے یہ خبر بیان کی ۔ غلام اور لونڈی دونوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ۔ وہ گرفتار ہو کر آئے اور امیر المؤمنین کے حکم کے مطابق انہیں اس بھیانک جرم کی پااداش میں سولی پر لٹکا دیا گیا ۔ اہل سیر نے لکھا ہے یہ دونوں وہ پہلے مجرم ہیں جن کو مدینہ منورہ میں سولی دی گئی ۔
ابن سعد کا بیان کہ حضرت ام ورقہ ؓ نے حضور ﷺ سے کچھ حدیثیں بھی روایت کی ہیں لیکن کسی دوسری کتاب میں ان کی روایت حدیث کا ذکر نہیں آیا ۔
حضرت ام منع انصاریہ ؓ
ان کانام اسماء بنت عمرو بن عدی تھا اور خزرج کے خاندان بنو سلمہ سے تعلق رکھتی تھیں ہجرت نبوی سےقبل سعادت اندوز اسلام ہوئیں اور لیلۃ العقبہ (13 بعد بعثت ) میں رحمت عالم ﷺ کی بیعت سےمشرف ہوئیں اس موقعہ پر یہ سعادت 3 مردوں کے علاوہ صرف ایک خاتون حضرت ام عمارہ ؓ کو نصیب ہوئی یہ وہ بیعت تھی جس میں انصار نے حضورﷺ کو مدینہ تشیریف لانے کی دعوت دی اور اپنی جانوں مالوں اور اور اولادوں کے ساتھ آپ ﷺ کی حفاظت اور مدد کا عہد کیا ۔
حضرت ام منبع ؓ کے اس سے زیادہ حالات معلوم نہیں ہیں ۔