فضائل محرم و یوم عاشوراء محدث روپڑی کا ایک علمی و تحقیقی فتوی اور مولانا عویو وبیدی کا تعاقب

قبر میں سوال ’’ ماہذا الرجل ‘‘ کی کیفیت کیا ہے ‘‘ اس عنوان پر محدث روپڑی نے ایک علمی اور تحقیقی فتویٰ لکھا ہے جو اخبار تنظیم اہلحدیث ‘‘میں چھپا ۔ پھر فتاویٰ اہلحدیث جلد دوم کے صفحات کی زینت بنا
مولانا عزیز زبیدی نے حضرت محدث روپڑی ﷫ کی اس تحقیق پر 12 اکتوبر 1979 کے اخبار اہلحدیث  میں تعاقب کیا ہے اختلاف رائے کا اصل مقصد غلط فہمی کا اظالہ اور صحیح صورت حال کا تعین ہو تو ایسی تقید اور اختبلاف رائے نہ صرف قابل برداشت بلکہ ایک مستحسن اقدام ہے ، اس کی ضرورت سے کسی کو انکا نہیں ۔مگر اس قسم کی تنقید میں تین باتوں کا ہونا ضرو ری ہے ۔
$11.                 دلائل آمیز تنقید و تعاقب ۔
$12.                  تحقیر آمیز الفاظ سے اجتناب
$13.                 حق قبول کرنے کےلیے طبیعت کو آمادہ کرنا ۔
اگر تعاقب و تنقید کا مقصد  تلاش حق نہیں ، صرف دوسرے کو نیچا دکھلانا اور اپنے علم و فضل کی برتری ظاہر کرنا ہے تو یہ خیر کا راستہ نہیں اور نہ اس سے حق بات ہاتھ آئی ہے ۔ یہ مانا کہ مولانا عزیز زبیدی علمی حلقوں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں مدیر اہل حدیث نے بھی تعاقب کے شروع میں مولانا موصوف کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے ۔
اپنے او ایک طرف رہے ،بیگانوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ حضرت محدیث روپڑی کاعلم مضبوط ، ان کی تحقیق اہل علم کے لیے ایک روشنی کا مینار ہے ، بایں وصف ان کے اجتہادی مسائل کو حرف آخر کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ ان میں جہاں صواب کا احتمال ہے وہاں خطاء کا بھی امکان ہے ۔ ہر صاحب بصیرت مسائل اجتہاد یہ ہیں اختلاف رائے کا حق رکھتا ہے ۔
اس مسئلہ پر تعاقب کرتے ہوئے مولانا زبیدی نے محدث روپڑی رح کے بارے میں الفاظ استعمال کئیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :
’’دوسرا گروہ جو کہتا ہے کہ درمیان میں سے پردہ اٹھا دیا جاتا ہے آج کل اس گروہ کی وکالت سب سے زیادہ حضرت علامہ حافظ عبداللہ روپڑی ﷫ نے کی ۔ جسے پڑھ کر مجھے خاصی کوفت ہوتی ہے ۔
حقیقی معنی ٰ میں استعمال ‘‘ اس عنوان کے تحت مولانا زبیدی فرماتے ہیں
’’یہ بات بالکل بجا ہے اور ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسم اشارہ قریب کے حقیقی معنیٰ میں استعمال کی اولین صورت یہی ہے کہ وہ محسوس شے ہو  اور سامنے ہو لیکن ہم یہ بات ماننے کے لئیے تیا ر نہیں ہیں کہ عادتاً اور حقیقی معنیٰ میں استعامال کی کوئی شکل نہ بن سکے تو خرق عادت کی حد تک لے جاکر اسکے مشار الیہ کے موجود اور مشہود کرنے کی کوشش بھی ضرور کی جائے۔ نحوی اور معانی بیان کے اس مسئلہ کو محض اپنے مفروضات کی بنا پر اتنی دور لے جا کر ٹخپنی دنیا کہ کہ اب یہ گرامر کا مسئلہ نہ رہے عالم ارواح کی  کوئی سرگزشت بن جائے ۔ لفظ دخصائص سے بے خبری کی ایک ردح فرساد استان ہے ۔
مولانا زبیدی صاحب کی مذکورہ بالا تحریر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ محدث روپڑی کی تحقیق ایک مفروضہ ہے اور راس سے گرائمر  کا تقدس مجروح ہوتا ہے اور یہ عالم ارواح کی سر گزشت نہیں اور ان کی تحقیق کا تقاضا ہے کہ محدث روپڑی ﷫ لفظ و خصائص سے بے خبر ہیں۔
ہمارا مقصد تعاقب کا جواب دینا نہیں اس کا جواب تو حضرت محدث روپڑی  کا خود وہ مقالہ ہے جو انہوں نے قبر میں سوال جواب کی کیفیت کے بارہ میں تحریر فرمایا ہے ۔ ہم تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ محدث  روپڑی کی یہ تحقیق مفروضہ کس طرح ہے ؟ اور ان سے گرامر کے قواعد کی خلاف ورزی کس طرح ہوتی ہے ؟
قبر میں سوال و جواب عالم ارواح کی سر گزشت کیوں نہیں ؟ اور کیا محدث روپڑی الفاظ و خصائص سے بے خبر ہیں ؟ مولانا زبیدی نے خود تسلیم کیا ہے کہ اسم اشارہ قریب کے حقیقی معنیٰ میں استعمال کی اولین صورت یہی ہے کہ وہ محسوس شے ہو اور سامنے ہو ۔ حضرت محدث روپڑی ﷫ نے ’’ہذا‘‘ کے اس حقیقی معنیٰ کی رد سے اگر اس توجیہ کو ترجیح دی ہے کہ میت کے اور آنحضرت ﷺ کے درمیان سے حجاب اٹھ جاتا ہے اور میت کو آپﷺ کا  وجود باوجود نظر آنے لگتا ہے تو پھر ’’ہذا‘‘ کے ساتھ سوال ہوتا ہے ۔ ’’ہذا‘‘ کے اس حقیقی معنیٰ لینے سے نحو ، معانی ، بیان کے کس قاعدہ کی ان سے بے حرمتی ہوئی ہے ۔ ائمہ نحو ،معانی بیان نے بھی یہی کہا ہے کہ جہاں حقیقی معنیٰ بن سکتا ہو مجازی معنیٰ نہیں لینا چاہیے ۔عالم برزخ  میں ’’ہذا‘‘ کا حقیقی معنیٰ مراد لینے سے کون سی شے مانع ہے ؟
جب کہ تمام حالات برزخی اور فرق عادت ہیں ان کا تعلق عالم ارواح سے ہے ۔ وہاں ہمارا علم کام کرتا ہے نہ اداراک ۔ اندریں حالات تعاقب کے حسب ذیل الفاظ نقیص کے ماسوا اور کوئی حیثیت  نہیں رکھتے کہ ’’مفروضات کی بناء پر اتنی دورلے جاکر ٹپخنی دینا کہ اب یہ گرامر کا مسئلہ نہ رہے ، عالم ارواح کی کوئی سر گزشت بن جائے لفظ و خصائص سے بے خبری کی ایک روح فرسا داستان ہے ‘‘
ہم اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتے  البتہ محدث روپڑی کا وہ فتویٰ نقل کئیے دیتے ہیں جو انہوں نے قبر میں سوال و جواب کی کیفیت کے بارہ میں تحریر کیا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ محدث روپڑی ﷫ نے  اس مسئلہ کو بیان کرنے میں کون سا پاپڑ بیلا ہے یعنی ہیرا پھیری کی ہے یہ نہ کوئی  ان کا خانہ ساز مفروضہ ہے او ر نہ انہوں نے گرائمر کے کسی مسئلہ کو مجروح کیا ہے اور نہ وہ لفظ و خصائص سے بے خبر ہیں ۔بلکہ  ان کا یہ فتویٰ علم و تحقیق کا مجموعہ ہے او ر اس سے یہ بھی ظاہر ہو گا کہ مولانا زبیدی نے تعاقب کیا ہے وہ زیادہ تر نا مناسب جذباتی الفاظ کا پلندا ہے جس میں تنقیح مسئلہ کی بجائے تنقیص کا پہلو زیادہ نمایا ں نظر آتا ہے ’’كبرت كلمة تخرج  من افواههم اعاذنا الله منها –
محدث روپڑی کا پورا مضمون نقل کرنے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اس  مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے بعض  کا قول ہے کہ ’’ہذا‘‘ اسم اشارہ کا مشار الیہ ذات مہیں  اوصاف ہیں اور بعض کا قول ہے کہ مشار الیہ ذات ہے ۔ ہیت اور آنحضرت ﷺ کی ذات کے درمیان سے حجاب دور ہو جاتا ہے اور آپﷺ کا وجود  باوجود میت کو قریب نظر آنے لگتا ہے اور پھر اس سے  ’’ ماہذا الرجل ‘‘ کہہ کر سوال کیا جاتا ہے ۔ مولانا زبیدی صاحب کانظریہ بھی  وہی ہے ، جو علماء کے پہلے گروہ کا ہے ’’ہذا ‘‘ کا مشار الیہ نبی ﷺ کے اوصاف  ہیں ہم اس نظریہ کے مخالف نہیں ہین ۔ سوال صرف یہ ہے کہ دوسرے گروہ کے نظریہ اور تحقیق کی تردید میں مولانا زبیدی نے جو دلائل بیان  کئے ہیں وہ تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہیں ۔مثلاً انہوں نے بیان کیا ہےکہ حجاب کا دور ہونا عادت اور مشاہدہ کے خلاف ہے لہذا اس جگہ ’’ہذا‘‘ کا مجازی معنیٰ مراد ہو گا ۔ اگر یہ استدالال درست ہے تو پھر ان احادیث کا مطلب کیا ہو گا جن میں ہے کہ مومن کی قبر حد بصر تک فراخ ہو جاتی ہے ؟ اور ایک حدیث میں ہے 70*70 ہاتھ کھل جاتی ہے اور اس کے لیے جنت کی طرف  دروازہ کھل جا  تا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ  یہ سب باتیں عادت اور مشاہدہ کے خلاف ہیں بایں اوصاف ان کے مانے بغیر کسی مومن کو چارہ نہیں  مذکورہ امور کی حقیقت کو مانتے ہوئے ہذاکے حقیقی معنیٰ کا انکار اس بنا پر کرنا کہ عادت اور مشاہدہ اس کی اجازت نہیں دیتے ۔ اہل ایمان کے  نزدیک اس کی کوئی وقعت نہیں ۔
مولانا زبیدی نے مثال کے طور پر حضرت حسن ﷜ اور یزید کے بارہ میں حضرت معقل اور حضرت معایہ ﷢ کا جو قول بیان کیا ہے اس کا تعلق دنیا سے قبر کے حالات دینا کے واقعات سے مختلف ہیں ۔ اب ہم حضرت محدث روپڑی کا اصل مضمون پورے کا پورا نقل کیئے دیتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ مولانا زبیدی کی تحقیق کس حد تک قابل اعتماد ہے اور ان کے بیان کردہ دلائل میں کس قدر جان ہے ۔ (جاری ہے )
حضرت العلامہ حافظ عبداللہ صاحب  روپڑی ﷫ کے علم و تحقیق کا گرانقدر مجموعہ  فتاویٰ اہلحدیث تین جلدوں میں مکمل دستیاب  قیمت مکمل مجلد  84 روپے  ادارہ احیاء السنۃ النبویہ  ڈی ۔ بلاک ۔ سٹلائٹ ٹاؤن سر گودھا ۔