سید اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ

نا م            سید احمد
والد کانام                   سید محمد عرفان           
تاریخ ولادت            6 صفر 1201ھ مطابق 29 نومبر 1786 ء بروز پیر
مقام پیدائش             رائے بریلی، ہندوستان
خاندان  کے ایک بزرگ شاہ علم اللہ اہل وعیال کے ساتھ سفر حجاز کی نیت سے اپنے وطن نصیر  آباد سے روانہ ہوئے ۔ لیکن رائے بریلی پہنچ کر ایک خدارسیدہ  بزرگ کے اصرار پر یہیں  قیام کیا ۔ اور پھر مستقل  آباد ہوگئے ۔
چار سال کی عمر میں مکتب میں بٹھائے گئے  ۔ لیکن طبعیت  کو تعلیم سے لگاؤ نہ تھا ۔ اس لیے  تین سال کی مسلسل کوشش کے بعد رواجی تعلیم چھوڑی  دی ۔ اس  دوران  میں فارسی عربی  تعلیم  اور قرآن مجید کی چند سورتیں یاد ہو سکیں اور دین کے ضروری مسائل سے بھی پوری طرح آگاہی ہوگئی ۔ کچھ  فارسی شعراء  کے پسندیدہ اشعار بھی یاد تھے ۔ چنانچہ  اپنی بعد کی زندگی  میں جب انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں ڈال دیا تھا تو اکثر یہ اشعار زبان پر رہتے جو ان کے دل میں بھڑل کنے والے نصب العین کے عشق کا بہترین اظہار ہیں ۔
اے آنکہ زنی دم از محبت            از ہستی خویشتن بہ پرہیز
برخیز و بہ بیغ  تیز بہ نشیں                              یا از سرراہ دوست برخیز
اور یہ شعر زوق عبودیت کا نمونہ ہے ۔
توکریم مطلق و من گداچہ کنی جزاین کہ بخوانیم
دردیگرے خاکہ من یکجا روم چو  برانیم !!
بچپن سے ہی ان کی فطرت گویا انہیں جہاد کے لیے تیار کر رہی تھی ۔ چنانچہ طبعیت مردانہ  اور سپاہیانہ کھیلوں کی طرف بہت مائل تھی ۔ ہم عمر لڑکوں کی ٹولیاں مرتب کر کے ان کو فوجیوں کی طرح آمنے سامنے لانا ، ایک دوسرے کے قلعہ بر حملہ کرنا اور کبڈی بہت پسندیدہ کھیل تھے ۔ ورزش  کرنے  ڈنٹر ،مگدر ہلانے ، پانی کے دھارے میں بہاؤ کے خلاف تیرنے کا خاص شوق تھا ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ آئندہ زندگی میں دنیا کے چلتے ہوئے دھارے کے خلاف تیرےنےکی یہ سب تیاریاں تھیں جو ان کی فطرت ان سے کرارہی تھی ۔
سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں چند ساتھیوں کے ساتھ لکھنو تشریف  لے گئے ۔ یہ سفر  پیدل کیا ۔کچھ دن لکھنؤ میں رہ کر تنہا دہلی روانہ ہو گئے ۔سفر میں کمزور اور بے سہارا مسافروں کی امداد کا خاص اہتمام رہا ۔ دہلی پہنچ کر شاہ عبدالعزیز﷫ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مقصد حصول علم تھا ۔اور کسب  فیض ۔
تقریباً ساڑھے تین سال دہلی قیام کے بعد رائے بریلی واپس تشریف لے گئے ۔کچھ عرصہ قیام رہا ، اس دوران میں شادی بھی ہوئی ۔ پھر بعض مقاصد کی تکمیل کے لیے نواب امیر خاں کی سپاہ میں جاکر شامل ہو گئے ۔ اور اس میں سات سال رہے اور جب اس نے انگریزوں سے صلح کے بعد آزادی ترک کر کے ریاست ٹونک کی گدی قبول کر لی تو اس  سے علیحدہ ہو کر دہلی تشریف لے گئے ۔ اب ان کا تقویٰ اور طہارت نفس ایک نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے ۔
سید صاحب نے اس دوران میں باقاعدہ غور فکر ، سیاسی حالات کے مطالعہ اور ملک میں گرتی اور ابھرتی طاقتوں کے جائزے سے مسلمانوں کے بھیانک مستقبل کا اندازہ کر لیا تھا اور ان کے ذہن میں اصلاح  وتجدید  کی ایک تجویز مرتب ہو چکی تھی ۔ ان کے نزدیک اس سارے انحطاط اور سارے زوال کا ایک ہی واحد علاج تھا ۔
$1Ø    پیہم زوال پزیر مسلمان قوم کو دینی خطوط پر منظم کیا جائے ۔
$1Ø    جہاد کی روح کو دوبارہ زندہ کیا جائے ۔
$1Ø    باطل طاقتوں سے لڑ کر دین حق کو غالب کر دیا جائے ، چاہیے مخالفوں کو کتنا ہی ناگوار ہو ۔
لیکن اس کے لیے ایک تنظیم کی ضرورت تھی ، ایک مضبوط گروہ جو اللہ کی راہ میں جان ومال کی بازی لگا سکے ۔ انہوں نے اس کا م کی ابتدا کر دی ۔
دہلی کے اکابرین میں سے مولانا شاہ اسماعیل ، مولانا عبدالحی اور مولانا محمد یوسف پھلتی نے بیعت کی اور کام کا آغاز ہو گیا ۔ اس بیعت نے سید صاحب کی شہر ت دور دور تک بہنچا دی ۔ اس لیے کہ یہ بزرگ دہلی کے سب سے بڑے علمی خاندان شاہ ولی اللہ کے مقتدر بزرگ تھے ۔
اب جگہ جگہ سے دعوت نامے آنے لگے ۔ چنانچہ تبلیغی  دوروں کا آغاز ہو گیا ۔ جہاں جہاں سے دعوت  تبلیغ و اصلاح آتی رہی ، سید صاحب خود یا ان کے رفقاء وہاں پہنچ کر لوگوں کو اس نصعب العین سے منسلک کرتے رہے ، جو ان کے پیش  نظر تھا ۔ اور راہ حق میں لٹا نے کے لیے جانوں اور مالوں کا ذخیرہ کرتے رہے ۔ اس سارے عرصے میں لوگوں نے دیکھا کہ اس نئی تحریک کا داعی اپنے مقصد س کتنی  گہری  وابستگی اور خلوص رکھتا تھا ۔ اور اس کے اس خلوص اور قبلی لگاؤ نے ہر اس شخص کو ان سے متاثر کیا جو ان سے ملا یا جستجوئے حق کا جذبہ لے کر ان کے پاس آیا ۔
چنانچہ آب اس ابتدائی دور تربیت میں لوگوں کو جہاد کی دعوت دیتے رہے ۔ جہاد کے فضائل  بیان کرتے رہے ، جہاد کی تیاریاں کرتے رہے ، اور اپنے ساتھیوں کو وہ سب صعوبتیں سہنے کی مشق کراتے رہے جو میدان جنگ  میں کے حامی بے سرو سامان سپاہیوں کو پیش آسکتی ہیں ۔
آپ نے سپہ گری ، ورزش ، اور مشقت اٹھانے کی اپنے ساتھیوں کو خاص طور پر ہدایت کی اور ان یک ہمت افزائی کی اور پھر خود اس کا عملی  نمونہ بھی پیش کرتے رہے ۔ اگرچہ  اس ابتدائی دور میں آپ کے تعمیر ی کام کا بیشتر حصہ تبلیغ مسائل دین اور رسم و رواج کے حاہلانہ بند ہوں کا انسداد اور بدعات کا استحصال ہی رہا ۔
1236ھ مطابق 3 اگست 1821ء کو سید صاحب حج کے لیے تیار ہو گئے اور اعلان کر دیا کہ جو چاہیے ان کے ساتھ حج کے لیے جا سکتا ہے ۔ سب کے اخراجات کا ذمہ انہوں نے خود اپنے اوپر لے لیا ۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ اکثر علماء نے سفر میں خطرات کو سامنے رکھ کر حج کی عدم فرضیت کا فتویٰ دے دیا دیا تھا جوسید  صاحب کے نزدیک  دین کا ایک ستون گرا دینے کے مترادف تھا ۔ انہوں نے تمام خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس فرض کو قائم کرنے کےلیے نہ صرف خود حج کا ارادہ کیا بلکہ ہر شخص کو اپنے ساتھ چلنے کااذن عام دے ددیا ۔ اور اس کے اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کر دیا ۔ چنانچہ   قارد مطلق نے اسکے  سامان بھی فراہم کر دئیے ۔ اس لیے کہ بندوں کے پاس توکل کی دولت موجود تھی ۔ اور آقا کی عطا کا یہ عالم ہوا کہ دس جہاز سید صاحب کے رفقاء سفر سےبھر  کر حج کے لیے گئے ۔ 29 شعبان 1239ھ مطابق 29 اپریل 1824 ء سید صاحب بخیر و عافیت واپس وطن تشریف لائے ۔
حج سے واپسی کے بعد و اصل کا م شروع ہوا جس کے لیے اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں کو جنگ کے بدلے خریدا ہوا ہے ۔ سید صاحب کے سامنے اب وہ مرحلہ آگیا تھا جس کے لیے وہ اپنی جان عزیز کو لیے لیے پھر رہے تھے ۔ اب وہ دن دور نہ تھا جب وہ ہدیہ جان حضور حق میں پیش کیا جانے والا تھا ۔ ان کے سامنے کسی سلطنت کا حصول نہ تھا ، کسی بادشاہت کا قیام نہ تھا ۔ نہ خزانے کی طلب تھی صرف ایک جذبہ تھا جو مومن کے قلب سے اٹھ  کر اس کی دگ گلو کے قریب اس وقت تک پھڑکتا رہتا ہے جب تک وہ گردن اللہ کی راہ میں کٹ نہیں جاتی یعنی ۔
$1Ø    صرف اللہ کی رضا کاحصول
$1Ø    صرف مالک کو خوش کرنے کا شوق
$1Ø    صرف احیائے دین کا شوق
یہی کچھ فقیر بے نوا کی متاع تھی ۔ اور اس متاع کے ساتھ وہ دنیا کے تمام عیش و ارام کے مقابلے میں فقیر کے اندر بھی شب و روز کی جدو جہد کو پسند کرتے تھے اور اس متاع کو  وہ در مولا پر لٹانا  چاہتے تھے ۔
انہوں نے سرحد کو اپنی  سر گرمیون کا مرکز بنایا ۔سکھوں کی ظالم اور سفاک قوم کو، جس نے پنجاب  اور سرحد میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا ، اپنا پہلا ہدف بنایا اور سرحد میں اپنے محدود ساتھیوں کے ساتھ منتقل ہو کر ڈیرے ڈال دئیے ۔اور صدیوں کے بعد خاص اللہ کی رضا کے حصول کے لیے تلواریں میانوں سے باہر نکلی  تھیں ۔ صدیوں کے بعد خالص جہاد فی سبیل اللہ کا اعلان ہوا تھا ۔ 7 جمادی الاخریٰ 1241ھ مطابق 17 جنوری 1826ء کو دو شنبہ کے روز وہ رائے بریلی سے اپنے چار سو ساتھیوں اور نہایت حقیر زاد راہ کے ساتھ میدان جہاد کے لیے براستہ سندھ بلوچستان روانہ ہوئے اور انداز ا ً 24 ،25 نومبر 1826 ء کو تقریباً نو ماہ بعد بڑی صعوبتوں سے گزر کر چار سدہ کے میدان جہاد پہنچے ۔
اس کے بعد اس جہاد کا آغاز ہو گیا جس میں نیت کے اعتبار سے وہ گزشتہ کئی برسوں  سے شامل تھے اور عملی لحاظ سے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک شامل رہے ۔
چنانچہ دسمبر 1826ء سے جنگ  اکوڑہ  سے جو جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو مئی 1831ء تک برابر جاری رہا ۔ ہر معرکے میں قائد ، ہر جنگ میں پیش پیش ، یہاں تک کہ 6 مئی 1831ء کو بروز جمعہ تقریباً گیارہ بارہ  بجے دن بالا کوٹ کے مقام پر اپنے مالک کے ساتھ معاہدہ زندگی کی تکمیل کردی اور پیہم  لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
اللہ ان کے مدفن پر رحمت کے پھول برسائے اور جس عزیز شے کے حصول کے لیے وہ عمر بھر جدو جہد کرتے رہے ، اس عزیز شے یعنی اپنی رضا اور خوشنودی سے انہیں نواز دے ۔آمین !