حدیث حجت شرعیہ ہے
اللہ تعالیٰ ہمارا حاکم حقیقی ہے ، ہم اس کے احکام کے تابع ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے احکام اس کے بندوں تک پہنچائے کا ذریعہ صر ف اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ خود منتخب فرماتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے احکام کے مجموعہ کو اللہ تعالیٰ کا دین کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے دین کا نام اسلام ہے اور اس دین کو ماننے والا مسلم کہلاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے احکام کے دو ماخذ ہیں ۔ قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ قرآن مجید کا ماخذ احکام ہونا موضوع بخث نہیں ، اس وقت موضوع بحث صرف احادیث کا ماخذ احکام ہونا ہے ۔
اگرچہ قرآن مجید کے ۔۔۔ماخذ قانون ہونے کا ابھی تک کھلم کھلا انکار نہیں کیا گیا ۔ تاہم دبے دبے الفاظ میں یہ تو کہا جانے لگا ہے کہ یہ 1400 سال پرانا قانون اس دور میں نہیں چل سکتا ۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ، قرآن مجید کا ابھی تک ظاہر ی طور پر انکار نہیں ہوا لیکن معنوی طور پر ہو چکا ہے ۔ قرآن مجید کی وہ تشریح جو عہد رسالت سے چلی آرہی تھی اس کا انکار کیا جا چکا ہے ۔ مزید برآں قرآن مجید کو اپنے خود ساختہ معانی و نظریات کا تابع کر دیا گیا ہے ۔ اگر ان ملحدین کو قرآن مجید کی کوئی آیت ان کے نظریہ کے خلاف نظر آتی ہے تو قرآن مجید کی اس آیت کو توڑ مروڑ کر اپنے نظریہ کے مطابق کر لیتے ہیں اور عام لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم نے قرآن مجید کی روشنی میں یہ نظریہ قائم کیا ہے ۔ اس طرح قرآن مجید اب نظریات کو قوانین کی اساس نہیں رہا بلکہ ان کے خود ساختہ نظریات اب اساس دین بن گئے ہیں ۔ قرآن مجید کو ظاہری طور پر مانا جارہا ہے ۔ حقیقی طور پر نہیں ۔
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم حدیث رسولﷺ کے ماخذ احکام ہونے کے مسئلہ پر بحث کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔
﴿هُوَ الَّذى بَعَثَ فِى الأُمِّيّـۧنَ رَسولًا مِنهُم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلـٰلٍ مُبينٍ ﴿٢﴾...الجمعة
وہ اللہ ہی ہے جس نے امیوں میں ، ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے۔ ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرائض منصبی تین ہیں ۔
$11. اللہ تعالیٰ کی آیات سنانا۔
$12. تزکیہ نفس کرنا یعنی قلوب کو تمام روحانی گندگیوں سے پاک کرنا ۔
$13. کتاب اور حکمت کی تعلیم دینا۔
اگر رسول اللہ ﷺ کا کام صرف اللہ تعالیٰ کی آیات سنانا ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ محض ایک قاصد تھے جو پیغام دے کر چلے گئے ۔ آپ ﷺ کی ذات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن للہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کوصرف قاصد ہی بنا کر نہیں بھیجا بلکہ مزکی و معلم بھی بنا کر بھیجا اور آپ ﷺ کی ذات سے بھی ہمارا تعلق پیدا ہو گیا ۔
رسول اللہ ﷺ کی ذات سے ہمارے تعلق کی دو صورتیں ہیں جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت ۔
تزکیہ نفس:
تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ دل کو امراض روحانی سے پاک کرنا ۔ رسول اللہ ﷺ ہم کو امراض روحانی سے شفا حاصل کرنے کا طریقہ بتا تے ہیں ۔ کسی مرض کے علاج میں صرف نسخہ ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس نسخہ کا طریقہ استعمال بھی ضروری ہوتا ہے ۔ طریقہ استعمال بتا یا ۔ طبیب کا کام ہے ۔ رسول اللہ ﷺ طبیب روحانی ہیں ۔ لہذا جب تک آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر نسخہ استعمال نہیں کیا جائے گا کوئی مفید نتیجہ بر آمد نہیں ہو گا اور کیونکہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے طبیب ہیں ۔ لہذا آپ ﷺ کا بتایا ہوا طریقہ استعمال بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے منظور شدہ ہونا لازمی ہے ۔ یعنی تزکیہ نفس کے سلسلہ میں جو جو باتیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمائیں یا انجام دیں وہ سب منجانب اللہ ہیں اور جو باتیں منجانب اللہ ہوں ان کے حجت ہونے میں کیا شبہ ہے ۔ لہذا ثابت ہوا کہ تزکیہ نفس کے سلسلہ میں جو احادیث رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمائیں وہ تمام کی تما م حجت ہیں ۔
تعلیم کتاب و حکمت :
رسو اللہ ﷺ سے ہمارے تعلق کی دوسری صورت آپ ﷺ کا معلم کتاب و حکمت ہونا ہے ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ دو چیزوں کی تعلیم دیتے ہیں ۔ کتاب کی اور حکمت کی ۔ اگر کتاب سے صرف قرآن مجید مراد ہے تو پھر حکمت قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور چیز ہوئی ۔ قرآن مجید کے علاوہ جو چیز رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو دی وہ احادیث ہی ہیں لہذا حکمت سے مراد احادیث ہوئیں ۔
آیت بالا کی رو سے احادیث جزو شریعت ہوئیں ۔ لہذا احادیث حجت شرعیہ اور ماخذ قانون ہوئیں ۔
منکرین حدیث کا خیال ہے کہ کتاب سے بھی قرآن مجید مراد ہے اور حکمت سے بھی قرآن مجید ہی مراد ہے ۔ اگر ہم یہ بھی فرض کر لیں تو بھی اس حقیقت کا انکا ر نہیں کیا جاسکتا کہ رسول اللہﷺ ہمیں قرآن مجید کی تعلیم دیتے ہیں ۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے معلم ہیں ۔ یعنی آپ ﷺ قرآن مجید صرف سناتے ہی نہیں بلکہ سمجھاتے بھی ہیں۔ تشریح و توضیح بھی کرتے ہیں ۔ اگر آپ ﷺ کا کام صرف سنانا ہی ہوتا تو پھر ’’يتلوا عليهم آياتيه ‘‘ کہنا کافی تھا ۔ لیکن آیت بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا فرض منصبی یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ ان آیات کی تعلیم بھی دیں ۔ظاہر ہے کہ تعلیم دیتے وقت معلم بہت سی باتوں کی تشریح کرتا ہے اگر وہ تشریح نہ کرے تو پھر و صرف سنانے والا ہو۔ پھر اسے قاری تو کہ سکتے ہیں ، معلم نہیں کہہ سکتے ، اور کیونکہ آیت بالا کی رو سے آپ ﷺ معلم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ اس منصب پر فائز ہوئے ہیں ۔ لہذا آپ ﷺ کی تشریح کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماننا پڑیگا اور اس لحاظ سے رسو ل اللہ ﷺ کی تمام تشریحات منجانب اللہ ہونے کی وجہ سے بالکل حق اور منشائے الہی کے عین مطابق و موافق ہو ں گی ۔ رسو ل اللہ ﷺ کی کوئی تشریح کبھی غلط نہیں ہو گی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی غلط تشریح پرکبھی خاموش نہیں رہ سکتا ۔ لہذا وہ تمام تشریحات اور عمل تفصیلات جو احادیث میں پائی جاتی ہیں ۔ منجانب اللہ ہیں اور اس بنا پر و ہ حجت شرعیہ اور ماخذ قانون ہیں ۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
کہنے والا کہ سکتا ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ قرآن مجید کی تشریح کرتے وقت بھی قرآن مجید کی آیات ہی پڑھ دیا کرتے تھے ۔ ایک آیت کی تشریح دوسری آیت سے کر دیا کرتے تھے ۔ لیکن اس کا یہ قول محض دعویٰ ہوگا حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔مثلاً ’’الصلاۃ‘‘ کسے کہتے ہیں ؟ قرآن مجید میں اس کی تشریح کہاں ہے ؟ وہ کونسی آیت ہے جو رسول اللہ ﷺنے ’’اقیمو الصلوٰۃ ‘‘کی تشریح میں پڑھی ؟ بظاہر ہے کہ ایسی کوئی آیت نہیں جس میں ’’ اقیمو الصلاۃ ‘‘ کی تشریح ہو لہذا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ قرآن مجید کی تشریح قرآن مجید سے کرتے تھے ۔ الاماشاء اللہ !
اگر تشریح کرتے وقت رسو ل اللہ ﷺ قرآن مجید کی آیات تلاوت فرماتے تھے تو پھر یہ تلاوت آبات ہی کا منصب ہوا جس کا ذکر ’’یتلو علیہم ایاتہ ‘‘ میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا کوئی منصب نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں ’’یعلمہم الکتاب و الحکمۃ ‘‘ کی حقیقت کچھ بھی نہیں رہتی اور آپ ؐ کا صرف ایک منصب رہ جاتا ہے یعنی آیات کی تلاوت کرنا اور یہ چیز آیت زیر بحث کی رو سے بالکل بے بنیاد اور باطل ہے ۔
اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ رسو ل اللہ ﷺ آیات کی تشریح کرتے وقت آیت ہی پڑھتے تھے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺث کو کس نے بتایا کہ فلاں آیت ، فلاں آیت کی تشریح کرتی ہے ۔ اگریہ کہا جائے کہ کسی کے بتانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ جو شخص بھی قرآن مجید کی آیات میں غورو تفکر کرے گا وہ سمجھ لے گا کہ کونسی آیت کونسی آیت کی تشریح کرتی ہے تو پھر یہ ماننا پڑھے گا کہ کسی معلوم کی ضرورت ہی نہیں اور قرآن مجید کا یہ جملہ ’’یعلمہم الکتاب و الحکمۃ ‘‘ لا یعنی ہے ۔ نعوذ بااللہ من ذلک ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو بتایا تھا کہ فلاں آیت سے فلاں آیت کی تشریح ہوتی ہے تو یہ کونسی وحی تھی جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بتائی تھی ؟ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ قرآن مجید کے علاوہ کوئی سلسلہ وحی تھا جو قرآن مجید کی تشریح میں رسول اللہ ﷺ کی رہنمائی کرتا تھا اسی سلسلہ وحی کو حدیث کہتے ہیں ۔ لہذا حدیث کے حجت شرعیہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔
بعض آیات کے معنی ٰ بغیر حدیث کے حل نہیں ہوتے :
قرآن مجید کی بعض آیات ایسی بھی ہیں جن کا کوئی حل ہمارے پاس نہیں ،مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
الحج اشهر معلومات (بقرہ197) حج کے چند مقرر مہینے ہیں ۔
کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ مہینے کون سے مہینے ہیں ۔ ایسی صورت میں اس آیت پر کیسے عمل ہو سکتا ہے ؟ کیا اس آیت کی وضاحت کے لئے حدیث کی ضرورت نہیں ؟ یقیناً ضرورت ہے لہذا حدیث حجت شرعیہ ہے ۔
بعض آیات ظاہر مفہوم کے اعتبار سے نامکمن العمل ہیں :
قرآن مجید کے بعض احکام ناقبل عمل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ وحیث ماکنتم فولوا وجوهكم شطرہ ‘‘(بقرۃ :150) اور جہاں کہیں بھی تم ہو مسجد حرام کی طرف منہ کرو ۔
آیت بالا کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وقت ،ہر حالت میں منہ قبلہ کی طرف ہونا چاہیے اور یہ قطعاناً ممکن ہے ، قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ حکم کس وقت کے لئے ہے البتہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ یہ حکم نماز کے وقت ہے اور اس تشریح کے بعد ہی اس آیت پر عمل ہوسکتاہے ، ورنہ نہیں ۔ اور جو چیز قرآن مجید کو ممکن العمل بنائے وہ یقینا حجت ہے لہذا حدیث حجت ہے ۔
حدیث کو حجت نہ ماننے کے نتائج : افتراق و الحادو بدعات
افتراق :
اگر قرآن مجید کی آیات کے کوئی معنیٰ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر نہ ہو ں تو قرآن مجید بازیچہ اطفال بن جائے گا۔ جو معنی ٰ جس کی سمجھ میں آئیں گے وہی اس کے نزدیک حق ہوں گے امت میں ایک ہولناک اختلاف اور ایک عظیم تفرقہ پھیل جائے گا۔ امت مسلمہ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی جیسا کہ عملا تقلیدکی وجہ سے ہوچکا ہے ۔ کیونکہ تقلید انکار حدیث ہی کی ایک خفی صورت ہے تقلیدی فرقوں میں حدیث کا انکار تو کسی نہ کسی بہانہ سے ہوتا رہا لیکن اپنے مذہب کے باطل مسئلہ کا انکار نہیں کیا گیا ۔ موجودہ تقلیدی فرقوں کا وجود اس پر ایک کھلی دلیل ہے ۔ الغرض فرقہ بندی کو روکنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ صرف حدیث ہے ۔ حدیث ہی پر سب متفق ہو سکتے ہیں کسی اور چیز پر نہیں ۔ اگرحدیث کو حجت نہ مانا جائے تو فرقہ بندی پیدا ہو گی اور یہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے قطعاً خلاف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ’’ ولا تفرقوا ‘‘ اور جو چیز اللہ تعالیٰ کی منشا ء پورا کرنے کا ذریعہ ہو وہ یقینا حجت ہو گی لہذا حدیث حجت ہے ۔
الحادو بدعات :
بعض لوگ نیک نیتی سے اور بعض لوگ بدنیتی سے قرآن مجید کے ایسے معنیٰ کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کا دین اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہے گا۔ نیک نیتی بدعات کا دروازہ کھول دے گی اور بد نیتی الحاد کا ، اس طرح بدعات اور الحاد کا اکی عظیم سیلاب آئے گا جسے روکنا دشوار ہی نہیں قریباً ناممکن ہو جائے گا۔ جیسا کہ عملا تصوف اور تجد د پسندی اجوانکار حدیث ہی کی قسمیں ہیں کے باعث آچکا ہے ، اس ابتداع اور الحاد کے انسداد کے لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید کے کوئی ایسے معین معنحلہوں جن کے خلاف کوئی معنیٰ نہ کرسکے اور یہ معین معنیٰ بالاتفاق اسی ہستی کے مسلم ہو سکتے ہیں جس پر سب بالا تفاق ایمان لائے ہین اور ایسی ہستی سوائے رسول اللہ ﷺ کے اور کسی کی نہیں ۔ لہذا رسو ل اللہﷺ کی احادیث ہی قرآن مجید کے معنی متعین کرنے کا واحد ذریعہ ہیں اور جو چیز قرآن مجید کے معنیٰ متعین کرکے بدعات اور الحاد کے روکنے کا سبب ہو وہ یقینا حجت ہونی چاہیے ۔ لہذا حدیث حجت ہے ۔
$11. اگر قرآن حکومت موجود نہ ہو تو پھر قرآن مجید کی مشکلا ت کو حل کرنے کی کیا صور ت ہو گی؟
قرآن حکومت صدیوں سے معدوم ہے ، کیا ان ادوار میں افتراق والحاد روکنے کا کوئی ذریعہ تھا یا نہیں ؟
ضرور تھا اور وہ حدیث تھی ۔ موجودہ دور میں بھی قرآنی حکومت کہیں نہیں تو کیا اس دور میں الحاد و بدعات کو روکنے کا کوئی ذریعہ ہے ؟ کوئی ذریعہ نہیں سوا حدیث کے ۔ قرآنی حکومت دائمی چیز نہیں لہذا وہ اس درد کا مداوا نہیں ہو سکتی ۔ اس درد کے علامج کے لئے دائمی چیز چاہیے نہ کہ عارضی ۔
$12. قرآنی حکومت کے معدوم ہو جانے کے بعد دوبارہ قرآنی حکومت کو نسا فرقہ قائم کرے گا ؟ ہر قرقہ اپنی قائم کردہ حکومت کو قرآنی حکومت قرار دے گا اور اپنی من مانی کاروائیوں اور الحاد کو قرآنی حکومت کے مرکز کی تشریح قرار دیتے ہوئے نافذ کرنے کی کوشش کرے گا ۔ کیا اس فساد اور بگا ڑ کا کوئی علاج ہے خود مرکز ملت ہی جب فتنہ اٹھائے تو اس کا استیصال کیسے ہو گا ؟
$13. یہ چیز بھی بعید از قیا س نہیں کہ دور الحاد میں وہ لوگ جو صحیح اسلام پر چل رہے ہو ں کسی ظالم حکومت کا تختہ مشق بن جائیں ۔ اصل اسلام کو نیست و نابود کیا جائے اور نام ہر وقت قرآنی حکو مت کا لیا جائے ۔ لہذا یہ فرض کر لینا کہ قرآنی حکومت الحاد اور احداث کا سد باب کر سکتی ہے ۔ طفل تسلی سے زیادہ کچھ نہیں ۔
$14. یہ بھی ممکن ہے کہ آج کوئی قرآنی حکومت ، قرآن مجید کسی آیت ۔۔۔ کے معنیٰ متعین کرے اور آئندہ زمانہ کی کوئی قرآنی حکومت اسی آیت کے دوسرے معنیٰ متعین کرے ، کیا قرآن مجید کی دونوں تعبیرں صحیح ہو ں گی ؟
$15. عربی میں بعض الفاظ لغت اضداد سے ہوتے ہیں یعنی ایک ہی لفظ کے دو معنی ٰ ہوتے ہیں اور وہ دونوں معنے ٰ ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں ۔ اب اگر دو مختلف زمانوں کی قرآنی حکومتیں قرآن مجید کی کسی آیت کے ایسے معنیٰ کریں جو ایک دوسرے کی ضد ہوں تو کیا یہ صورت معقول ہو گی ؟ کیا دونوں متضاد معنوں کو قرآن مجید کی صحیح تعبیر کہا جائے گا ؟
$16. یہ بھی ممکن ہے کہ اکی ہی زمانہ میں مختلف ممالک میں مختلف قرآنی حکومتیں قائم ہو جائیں اور ہر قرآنی حکومت اپنے ملک میں قرآن مجید کی آیتوں کے ایسے معنیٰ کرے جو دوسری قرآنی حکومت میں نہ مانے جاتے ہوں ۔ بلکہ بعض اوقات لغت اضداد کی وجہ سے بالکل متضاد معنی ہوں تو بتائیے کہ ان مختلف ممالک کی قرآنی حکومتوں کے مختلف بلکہ متضاد معنوں میں سے کون سے معنی صحیح ہوں گے ؟ ایک ہی قرآنی حکم کای ایک ہی زمانہ میں مختلف تعبیریں ہوں گی ۔ کس تعبیر کو منشائے الہی کے مطابق سمجھا جائے اور کس کو مخالف سمجھا جائے ؟ کیا ایسی حالت میں مصرعہ صاجق نہیں آئے گا ؏
شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ہا.
ایک غیر مسلم کے لئے یہ موقع کتنا مضحکہ خیزی سے تو ایک مسلم بھی مثاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ آئین الہی انسان کی بے راہ روی پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے لیکن یہ کیسا آئین کہ کچھ بھی پابندیاں عائد کرتا ہے لیکن یہ کیسا آئین کہ کچھ بھی پابندی عائد نہیں کرتا بلکہ کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ جو چا ہو سو کرو اور قرآن مجید کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لوتا کہ یہ کوئی نہ کہہ سکے کہ فلاں شخص یا فلاں حکومت نے قرآن مجید کے خلاف کیا ۔ گویا یہ لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں ۔ منافقوں کا ذکر ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :
يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُوْنَؕ۰۰۹ (بقرہ 19)
’’یہ لوگ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں حالانکہ و ہ کسی کو دھوکا نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو لیکن انہیں شعور نہیں ‘‘
خلاصہ :
مندرجہ بالا مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مرکز ملت یا قرآنی حکومت کے بس کی یہ بات نہیں کہ وہ افتراق ، الحاد اور احداث کو روک سکے ، قرآنی حکومت دائمی چیز نہیں کہ ہر وقت اور ہر زمانہ میں ہر جگہ ہر فرد یا ہر جماعت کا ساتھ دے سکے ۔ قرآن مجید کے معانی کے لئے کسی دائمی چیز کی ضرورت ہے جس سے ہر دور اور ہر زمانہ میں ہر فرد اور ہر جماعت مستفض ہو سکے اور ایسی چیز سوائے حدیث کے اور کیا ہو سکتی ہے ؟ الحاد ، افتراق اور بدعات کے سد باب کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے و ہ یہ کہ جس رسول ﷺ پر ہم ایمان لائے ہیں ، جس کا کلمہ ہم سب پڑھتے ہیں اور جس کی منزلت و بزرگی پر ہم سب متفق ہیں اس کی تشریح کو تسلیم کر لیں اور اپنے اختلافات کو ختم کر دیں ۔ اپنے افہام اور خواہشات کو اس کا تابع کردیں ۔ اپنے اجتہادات ، مذہبی روایات ، خود ساختہ فقہی اور تقلیدی مذاہب کو خیر باد کہہ کر قرآنی احکام کی تشریح و توضیح کے لئے صرف احادیث کو حجت تسلیم کریں ۔ جب تک یہ نہیں ہوگا فرقے باقی رہیں گے فتنے پھیلتے رہیں گے اور ان کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا رہے گا ۔ فقط !