پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا وجود

16 اکتوبر 1979 ء کو صدر پاکستان نے تمام  سیاسی  پارٹیوں کو  کالعدم قرار دے کر اور انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر کے ایک دفعہ  پھر ملک و قوم کو تباہی سے بچا لیا ہے ۔ ہم اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور جہاں تک ہمارا مطالعہ ہے عوام کی اکثریت صدر موصوف  کے اس فیصلے پر نہایت خوش اور تہ دل سے مشکور ہے ۔
ویسے تو مغربی جمہوری نظام کا یہ خاصہ ہے کہ اس کے زیر سایہ بہت  سی سیاسی جماعتیں معرض وجود میں آجاتی ہیں ،لیکن  پاکستان کی سر زمین اس معاملے میں ضرورت سے کچھ  زیادہ ہی زرخیز ثابت ہوئی ہے ۔ ہوتا یہ ہے کہ جب انتخابات کے انعقاد کا دور دورہ ہو تو کئی نئی جماعتیں  اس سرعت  سے نمودار ہونے لگتی ہیں ۔ جیسے  موسم برسات میں ’’حشرات الارض    ‘‘ جولائی 1977 ء میں جب موجودہ حکومت  نے عنان حکومت  سنبھالی تو اس وقت صدر موصوف کے بیان کے مطابق ان جماعتوں کی تعداد 46 کے لگ بھگ تھی ۔ظاہر ہے کہ کسی ملک میں سیاسی جماعتوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی خوشگوار  نتائج پیدا نہیں کر سکتی  لہذا صدر موصوف نے کئی بار  انتباہ کیا کہ ان جماعتوں کی اتنی بڑی تعداد قوم و ملک کے لئے تباہ کن ہے اور اس میں بہر طور کمی واقع ہونی چاہیےلیکن  اس انتباہ کے باوجود ان جماعتوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی  اور 1978ء  میں یہ تعداد 84 تک پہنچ گئی ،پھر جب  مارچ 1979ء میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی ، تو اس تعداد میں مزید اضافہ ہونا شروع ہو گیا ۔حتیٰ کہ ان جماعتوں کی تعداد 126 تک جا پہنچی ۔ بالآخر  صدر موصوف کو پولٹیکل  پارٹیز ایکٹ میں ترامیم کر کے ان کی تحدید کرنا پڑی  جس پر یہ جماعتیں چیں  بہ جیں ہونے لگیں ۔ اور حکومت سے محاذ آرائی شروع کر دی ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف  بھی محاذ آرائی ،گٹھ جوڑ ، اور  ساز باز میں مصروف عمل تھیں ۔ پوری قوم  تشتت وانتشار کا شکار ہو رہی تھی ۔ سیاسی رہنماؤں کے نت نئے بیانات اور بھانت بھانت کی بولیوں نے عوام کو سخت پریشان کر  رکھا تھا ۔ اندر یں صورت اگر انتخابات منعقد ہو بھی جاتے تو شر اور فساد کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوتا ۔ رہی کسی مستحکم حکومت کے قیام کی بات ، تو ہمارے خیا ل تو یہ

دماغ بیہدہ پخت د خیال باطل بست

والی بات تھی ۔

مختلف اور متضاد نظریات کے حامل سیاسی رہنماؤں کی یہ فوج ظفر موج جس قدر قوم میں انتشار برپاکر سکتی ہے اس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ اور اس سے بھی زیادہ دلی خراش یہ حقیقت ہے کہ الیکشن کے دور ان قومی سرمایہ کا ضیاع ملکی معیشت کی جڑیں  ہلا دیتا ہے ۔ غور فرمایے،پچھلے  دنوں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو صرف لاہور کی 100 نشستوں کے لیے  1947 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں بالآخر 1600 امیدواروں نے حصہ لیا ہر  امیدوار نے کم از کم پچیس  تیس ہزار روپے خرچ کیے ہیں ۔ بلکہ رپورٹ ایسی بھی ملی ہے کہ کئی منچلوں  نے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ تک بھی خرچ کر ڈالا ۔ اگر ہم احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ خرچ تیس ہزار روپے فی نمائندہ بھی شمار کریں تو یہ رقم 30,000x1600= چار کروڑ اسی ہزار روپے بنتی ہے ۔ یہ تو قومی سرمایہ کا ضیاع ہوا ۔ اسپورٹروں اور کارکنوں کے وقت کا ضیاع الگ اور دوسرے کئی قسم کے نقصانات مستزاد ہیں ۔ اس  حساب سے اگر پورے پاکستان کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ نقصان اربوں تک جا پہنچتا ہے ۔ یہ تو تھا بلدیاتی انتخابات کا قصہ ۔ اس سے صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور سینٹ کے انتخابات میں سرمائے کے ضیاع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ذرا سوچئے،پاکستان جیسا غریب ملک  جسے دنیا کے غریب ترین ملک میں شمار کیا جاتا ہے بھلا ایسے معاشی نقصان کا متحمل ہو سکتا ہے ؟

قارئین صفحات کی ترتیب سے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں ۔ محرم اور صفر کا الگ الگ مکمل شمارہ بروقت ترتیب دیا گیا تھا ، لیکن سنسر کے بعد موجود شکل میں دونوں شمارے اکٹھے  شائع کرنا ہماری مجبوری ہے دونوں شماروں کی اصل ضخامت 56+48=104 صفات تھی  ۔ والسلام  (ادارہ)



اس خطیر نقصان  کی ایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی کثرت ہے ۔ جو ہر نشت پر اپنا الگ نمائندہ کھڑا کرنے کی متمنی ہوتی ہیں۔

ان ’’چھوٹے چھوٹے سیاسی رہنماؤں ‘‘ کی ایک کثیر تعداد معرض وجود میں آجاتی ہے اور یہ سب کے سب کاروبار   مملکت میں اپنا حصہ رسدی ‘‘ وصول کرنے اور اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے تگ و تازمیں مصروف ہو جاتے ہیں ۔

اس کی وجہ محض یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک نمائندہ کے لیے اس کے علاوہ کوئی شرط نہیں ہے کہ اس  کا نام فہر ست رائے د ہندگان میں درج ہوا اور اس کی عمر 25 سال سے کم نہ ہو ۔ حیرت کی بات ہےکہ ایک چپڑاسی  تک کے تقرر کے وقت تو یہ دیکھا جا تا ہے  کہ اس کی تعلیم کیا ہے ؟ کچھ تجربہ  ہے یا نہیں؟ دوسری اہلیتیں کیا کچھ ہیں ؟ لیکن ایسے  لوگوں کے لیے، جو کاروبار حکومت میں شمولیت کے لیےدرخواستیں گزراتے ہیں ان کے لیے کوئی بھی پابندی نہیں ہے ۔ اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ  نمائندہ کے لئے تو پھر  عمر اور نام کے اندراج کی شرط ہے ۔ کسی سیاسی جماعت کے لیے اتنی پابندی بھی ہمارے ہاں موجود نہ تھی ۔ لہذا جس کسی کے جی میں اقتدار کی ہوس گد گدی لینے  لگتی وہ اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد چن لیتا ۔ لہذا سیاسی جماعتوں کی روز افزوں تعداد پر کنٹرول  کرنے کےلیے ان پر کچھ پابندیاں عائد کرنا نہایت ضروری ہو گیا تھا ۔ اور جب ان پر چند  ایک پابندیاں عائد کر دی گئیں تو ہمارے رہنماؤں نے اسے اپنی انا  کا مسئلہ بنا کر الٹا حکومت سے الجھنا  شروع کر دیا ۔ موجودہ حکومت نے اس سیاسی بحران کا بروقت اور صحیح ترین حل پیش کر کے قوم پر بہت بڑا احسان کیا ہے اور قوم نے  اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا ہے کہ اب کچھ مدت کے لیے  ان سیاسی لٹیروں  سے نجات مل گئی ۔

سیاسی جماعتوں پر منجملہ دیگر  پابندیوں کے  ایک پابندی یہ تھی کہ وہ اپنا حساب کتاب حکومت کو پیش کریں کہ ایسی غدار جماعتیں جو بیرونی امداد کے سہارے عوام کے جان ومال سے کھیلتی اور ملک کو داؤ پر لگا دینے پر تلی ہوئیں ہیں ، منظر عام پر آسکیں ۔ حقیقتاً یہ ایک بڑی اچھی بات تھی لیکن ہمارے ان سیاسی قائدین نے اس کی بھی مخالفت کر کے اپنے آپ کو عوام کی نگاہوں میں خود ہی مشکوک بنا لیا کیونکہ عوام تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کا احتساب ہو تاکہ انہیں معلوم  ہو سکے کہ ان کا اصل دشمن کون ہے ۔ کہیں ہمارے یہ لیڈر ہی ہمارے اصلی دشمن تو نہیں جو آئے دن ہمیں اسلام کے نام پر استعمال کرتے اور کٹواتے ،مرواتےہیں اور خود دشمن کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں ؟

پاکستان نظریاتی لحاظ سے ایک اسلامی مملکت ہے ۔آئیے اب دیکھیں  کہ ایسی صورت حال میں اسلام ہماری کیا  رہنمائی کرتا ہے ۔

اسلامی نقطہ نگاہ سے کسی معاشرہ کے صرف دوہی فرقے یا پارٹیاں  ہو سکتی ہیں ۔ ایک وہ جو اللہ کی نازل کردہ شریعت پر ایمان رکھتی ہے اور اسے دستور حیات بنانا چاہتی ہے اور اس میں سر گرم عمل ہے قرآن کریم نے اس پارٹی کا نام حزب اللہ  تجویز کیاہے ۔ ’’حزب‘‘ کا لفظ سیاسی پارٹی  کے  لئے مخصوص[1] ہے  قرآن کریم نے حزب اللہ کی یہ تعریف فرمائی ہے :

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ

’’اے پیغمبر ؐ ! آپ ایس قوم (کوئی )  نہ پائیں گے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان بھی رکھتی ہو پھر ایسے لوگوں  سے دوستی بھی رکھے  جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں ‘‘

یعنی یہ اللہ کی پارٹی نہ تو لا دین جماعتوں کے ساتھ  الحاق کر سکتی ہے اور نہ اسلام  کے علاوہ دوسرے نظریات و احکام کو قبول کر سکتی ہے ۔ اس جماعت کی چند دوسری صفات بیان کرنے کے  بعد فرمایا :

ؕ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَؒ۰۰۲۲

’’یہی لوگ اللہ کی جماعت ہیں ۔آگاہ رہو یہی اللہ کی جماعت فلاح پائے گی ۔‘‘

اس کے مقابل دوسری وہ پارٹی ہے جو اسلامی نظام حیات کو پسند نہیں کرتی خواہ وہ نام کی مسلمان ہی کیوں نہ ہو ۔ ایسی دشمن اسلام یا دین بیزار جماعت کو قرآن کریم  نے ’’حزب الشیطان‘‘ کا نام دیا ہے ۔ ارشاد باری ہے :

اِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰىهُمْ ذِكْرَ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۰۰۱۹

’’ان پر شیطان  نے اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے اور انہیں خدا کی یاد سے غافل کر رکھا ہے یہ لوگ شیطان کی پارٹی ‘‘ ہیں آگاہ رہو یہ شیطانی جماعت ہی گھاٹے میں رہے گئی ‘‘

دیکھیئے  آیات بالا سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں :

$11)                 حز ب اللہ صرف ایک پارٹی ہو سکتی ہے ، جب کہ حزب الشیطان بہت سی جماعتیں ہو سکتی ہیں کیونکہ حق کا یا سیدھا راستہ صرف ایک ہو سکتا ہے اور باطل کی راہیں لا  تعداد ہو سکتی ہیں۔

$12)                 اسلام کے خلاف باطل نظریات کی حامل پارٹیاں عموماً مشترکہ محاذ لیتی  ہیں اور اس کے مٹانے کے درپے رہتی ہیں ۔ جیسا کہ حضور اکرم ؐ کے زمانہ میں بھی ہوا کہ جنگ خندق کے موقعہ پراسلام کے مخالف تمام قبائل چڑھ  آئے تھے ۔ قرآن کریم نے انہیں احزاب کے نام سے پکارا ہے اور علامہ اقبال نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا               

ستیزہ کا ر رہا ہے ازل سے تا امروز ذ

چراغ مصطفویؐ سے شرا ربو لہبی

$13)                 ایک اسلامی مملکت میں شیطانی  جماعت کا روبار مملکت میں حصہ نہیں لے سکتی گویا اسلام  ایک جماعتی حکومت (one party government ) کا حامی ہے ۔ اس طرح سیاسی پارٹیوں کی از خود تحدید ہو جاتی ہے ۔

اس بحث کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام اتحاد اور یک جہتی کا قائل ہے ۔ قرآن حکیم کا واضح حکم ہے ۔

’’وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا‘‘ (اٰل عمران)

’’اے مسلمانو! سب مل کر اللہ کی رسی  (احکام شریعت  )کو مضبوط تھامے رکھو اور فرقے فرقے نہ ہو جاؤ‘‘

اس آیت  جلیلہ کی رو سے اسلام میں سیاسی  جماعتوں کی تشکیل بالکل ناجائز بلکہ حرام ہے۔ کیا اس حکم خداوندی کی رو سے یہ تمام  سیاسی جماعتیں کا لعدم قرار نہیں دی جاسکتیں ؟

اسلام تفرقہ و انتشار کو شرک کے مترادف قرار دیتا ہے ۔ ارشاد باری ہے :

’’ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَۙ۰۰۳۱مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِيَعًا١ؕ

اور مشركوں میں نہ ہونا (یعنی ) ان لوگوں میں جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود فرقے فرقے ہو گئے ‘‘

فرقہ بازی کو شرک قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ کسی فرقہ کا وجود ہی اس صورت میں پیدا ہوتا ہے جب وہ اسلام کی عام تعلیمات سے ہٹ کر کچھ مخصوص نظریات کو اپنا لے یا رسول کے علاوہ کسی دوسرے کو بھی اپنا مقتدا تصور  کرلے ۔ اور اسی چیز کا نام شرک ہے پھر جس طرح مذہبی تفرقہ بازی ایک جرم عظیم ہے بعینہ  سیاسی تفرقہ بازی بھی ایسا ہی جرم ہے کیونکہ اسلام میں سیاست بھی اسی کا ایک حصہ ہے جس کے لیے مکمل ضابطہ موجود ہے ۔ نتیجہ کے لحاظ سے بھی دونوں قسم کی تفرقہ بازی قوم کو ایک ہی جیسے ناخوشگوار  حالات سے دو چار کر دیتی ہے ۔لہذا اسلامی مملکت میں سیاسی پارٹیوں کی بہتات کی کوئی وجہ جواز نہیں ۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ اسلامی نظریات کی حامل جماعتوں میں بھی ملک کے نظم و نسق چلانے اور اسلامی احکامات و نظریات کے نفاذ کے سلسلہ میں کچھ   فروعی قسم کے اختلافات ہوں  تاہم یہ چند ایک ہی ہو سکتی ہیں ۔ کیونکہ ہر جماعت اپنے ان فروعات کو قرآن و سنت کے غیر متبدل قوانین سے بد لائل مستنبط کرنے کی  پابند ہے ۔ ان میں سے قرآن و سنت سے قریب تر نظریہ رکھنے والی جماعت کو انتخاب میں حصہ لینے کا زیادہ حقدار سمجھا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر جماعت اپنا منشور  پیش کرے اور آئندہ لائحہ عمل کے متعلق قرآن و سنت سے دلائل بھی بہم پہنچائے ۔ ظاہر کہ کہ یہ پابندی  گوارا کرنا ہر کسی کے بس کار وگ نہیں یوں سیاسی جماعتوں کی از خود ہی تحدید ہو جاتی ہے ۔ اسلام کے سیاسی نظام کا تیسرا پہلو یہ کہ ایک اسلامی مملکت میں ---مغربی جمہوریت کی طرح انتخابات کس  معین عرصہ کے لیے منعقد نہیں کرائے جاتے ۔ ان انتخابات سے صوبائی اور قومی اسمبلیاں اور سینٹ وغیرہ وجود میں آتے ہیں جو ملک کے قانون ساز ادارے ہوتے ہیں ۔ اسلام میں سرے سے مقننہ کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ایسی مملکت کا قانون ساز خو د اللہ تعالیٰ ہے حتیٰ کہ خود رسول ﷺ کو قانون سازی  کا اختیار نہ تھا اور یہی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا صحیح مفہوم ہے ۔ اسلامی مملکت کا قانون پہلے سے ہی کتاب  و سنت میں موجود ہے ۔رہے انتظامی قوانین اور دور حاضر کے تقاضوں کے متعلق جزوی قوانین ، تو ان کے متعلق اسلام نے شورائی نظام تجویز کیا ہے یہاں اسمبلیوں اور پارلیمانی نظام کی سرے سے گنجائش ہی نہیں تو پھر سیاسی جماعتوں کی ضرورت از خود ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ اگر کسی اسلامی مملکت میں مقننہ وجود میں آکر کوئی ایسا قانون بنا دیتی ہے جو قرآن و سنت سے متصادم ہوتو یہ کھلا ہوا شرک ہے ۔

اور اس کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست کا سر براہ تاحین حیات سربراہ ہی رہتا ہے ۔تا آنکہ وہ فسق و فجور  میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ ایسی صورت میں اسے رائے عامہ کی قوت سے معزول کیا جاسکتا ہے اور اگر یہ آئینی طریقہ استعمال نہ کیا جائے تو جب تک وہ قرآن وسنت کے مطابق حکوت کا کاروبار چلاتا ہے مسلمانوں پر اس کی اطاعت واجب و لازم ہے ۔مغربی جمہوریت میں منتخب شدہ اسمبلیوں کا ایک کام یہ بھی ہوتا ہےکہ ان میں سے اکثر یتی  پارٹی اپنے میں سے ’’وزیر اعظم ‘‘ کا انتخاب کرتی ہے ایک پارلیمانی نظام میں ’’وزیر اعظم‘‘ ہی ملک کا کرتا دھرتا ہوتا ہے اور عملاً اسی کا حکم چلتا ہے ۔ لہذا اس نظام میں جملہ خدائی اختیارات  وزیر اعظم کو حاصل ہوتےہیں اور اسکا انتخاب ایک معینہ مدت کے بعد ضروری ہوتا ہے لیکن اسلامی ریاست کو جب ایسے ’’خدا‘‘ کی ضرورت ہی نہ تو اس کو منتخب کرنے والی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہی کہاں باقی رہ جاتی ہے ؟

اور اس بحث کا پانچواں پہلو یہ ہے کہ اسلام ہر ایسے نمائندہ پر جسے کاروبار مملکت میں شریک کرنا ہو یا مجلس شوریٰ کے لیے منتخب کرنا ہو چند کڑی  شرائط عائد کر کے ان کی جانچ پڑتا ل کرتاہے اسی طرح ووٹر  یا رائے دہندہ  کے لیے بھی چند خصوصیات مقرر کرتا ہے جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں اور اسے ہم کسی دوسرے موقع پر پیش کر چکے ہیں ایسی پابندیاں بھی سیاسی جماعتوں کی وافر پیدائش پر  کنٹرول کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں ۔




مندرجہ بالا تصور سے بخوبی واضح ہو جاتا ہےکہ اسلام کا سیاسی نظام اور جمہوری نظام آپ آپس میں مخالف اور متضاد چیزیں ہیں ۔ اسلام میں مغربی جمہوریت کی پیوند کاری

[1]  حزب کے لغوی معنی، پارٹی ،جتھا ، گروہ اور ہتھیار ، اور حازب بمعنی کسی پارٹی میں داخل ہونا ۔جتھا  بننا ، گروہ بننا اور احزاب کے معنی وہ لوگ جن کے دل اور اعمال آپس میں مشابہت رکھتے ہوں اگرچہ وہ ایک جگہ نہ ہو ں (منجد ) امام راغب نے حزب کے معنی ایسی جماعت  جس میں سختی اور شدت پائی جاتی ہو ‘‘بیان کیے ہیں (مفردات)