دنیا جسے کہتے ہیں یہ اک مارحسین ہے

اس چیز کی خواہش جو مقدر میں نہیں ہے

جب کتبہ تقدیر پہ ایماں ہے یقیں ہے

ہر شے میں جھلکتا ہے ترا چہرہ ٔ روشن

ہر غنچہ رنگیں ہے ترے حسن کا مظہر

ملتی ہے یہیں سے مہ داختر کو بلندی

ہے جس پہ عمل راحت و عظمت کی ضمانت

چلتا تھا زمیں  پر جو کبھی ناز دادا سے !

اس عمر کے دو ساتھی ہیں راحت بھی الم بھی

ہشیار و خبر دار سنھبل  کر اسے چھونا !

تھی چاروں طرف دھوم کبھی جن کی جہاں میں

ہوتے ہیں زن و مرد جہاں اجنبی دونوں

کم خوری دکم خوابی وکم گوئی یہ اوصاف

تو راہ مدینہ کی صعوبت سے نہ گھبرا !!

تو جادۂ عصیاں پہ کبھی  پاؤں نہ رکھنا

در اصل یہ تعذیب ہے اور سخت تریں ہے

پھر کس لیئے دنیا کے مصائب یہ حزیں ہے

پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ تو پردہ نشیں ہے

ہر ذرۂ خاکی تر سے جلووں کا امیں ہے

خم در پہ تیرے میری عقیدت کی جبیں ہے

ادیان زمان میں وہ اسلام ہی دین ہے

کس حال دگر گوں میں وہ اب زیر زمیں ہے

گلشن میں جہاں پھول ہے کانٹا بھی وہیں ہے

دنیا  جسے کہتے ہیں ، یہ اک مار حسیں ہے

ان میں سے کوئی آج مکاں ہے نہ مکیں ہے

سمجھو کہ وہاں تیسرا شیطان لعیں ہ

جس میں ہوں وہ انسان نہایت ہی حسیں ہے

یہ راہ حقیقت میں رہ خلد پریں ہے

ہر ایک قدم اس کا ہلاکت کے قریں ہے



اس عمر کو غفلت میں وہ ضائع نہیں کرتا

عاجز جسے احوال قیامت پہ یقیں ہے