مفلوطی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی ادبی خدمات

مصطفی المنفلوطی 7جمادی الاولی 1293ھ بمطابق جون 1876ء کو منفلوط (11) میں پیدا ہوئے (2)احمد عبید نے آپ کی تاریخ پیدا ئش 1877ء بتا ئی ہے (3)جبکہ عمر فروخ کے نزدیک آپ 1875ء کو پیدا ہوئے۔(4)
منفلوطی کی والدہ ترک تھیں جبکہ آپ کے والد کا سلسلہ نسب حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے جا ملتا ہے ۔اس طرح آپ نیم ترک نیم عرب تھے (5)
آپ کا خاندان زہد و تقوی اور علم و عرفان کے باعث نہا یت معزز سمجھا جا تا تھا دوسال سے منفلوط کی سرداری آپ ہی کے خاندان میں چلی آرہی تھی آپ کے چچا ابرا ہیم لطفی منفلوط میں چیف جج کے عہد ہ پر فا ئز رہےجبکہ آپ کے والد محمد محمد لطفی منفلوط میں جج تھے(6)
منفلوطی نے قرآن مجید اور ابتدا ئی تعلیم مدرسہ جلال الدین السیوطی میں حاصل کی یہ مدرسہ اسیوط (7)میں واقع تھا 11سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید یاد کر لیا ۔جب آپ کی عمر 13 سال ہو ئی تو آُ الازھر الشریف چلے گئے ۔اور دس سال تک عالم اسلام کی اس ممتاز درسگاہ میں مختلف جید علماء سے اکتساب فیض کرتے رہے ۔اسی دوران آپ کو مفتی محمد عبدہ(8)کےحلقہ درس میں شمولیت کے مواقع ملے،اس طرح آپ مفتی صاحب سے خوب مستفید ہو ئے۔(9)
منفلوطی کے والد محمد محمد لطفی کی تین بیویاں تھیں پہلی بیوی سے مصطفیٰ (1) اور حسن پیدا ہو ئے ۔آپ کے والد نے اپنی پہلی بیوی(11) کو طلا ق دے دی اور فاطمہ عثمان نامی ایک خاتون سے شادی کر لی ۔آپ کے سوتیلے بھائی ابو بکر عمر اور عثمان انہی سے پیدا ہو ئے ۔(12)آپ کو والد نے تیسری شادی منفلوط کی ایک مالدار خاتون مسماۃ حمید علی ابو النصرسے  کی۔ ان سے کو ئی اولاد نہ ہوئی ۔منفلوطی کے بھا ئیوں میں حسن (سگے بھا ئی ) منفلوط کے معروف سردار تھے جبکہ سوتیلے بھا ئی ابو بکر جرید ۃ الاتحادکے چیف ایڈیٹر رہے ۔عمر اوائل شباب میں فوت ہو ئے اور عثان پیشہ معلمی سے منسک رہے(13)
منفلوطی کی دو بیویاں تھیں پہلی آمنہ بنت محمد ابوبکر الشیخ تھیں ۔یہ منفلوط ہی سے تھیں اور مالدار خاتون تھیں ان سے منفلوطی کی تین بیٹیاں ذکیۃ،انیسۃ،تجیۃ اور ایک بیٹا پیدا ہو۔ آپ کی یہ اولاد بچپن میں فوت ہو گئی ۔آپ نے اپنے بیٹے کی وفات پر ایک المناک مقالہ بعنوان "الدفین الصغیر" (14) کے نام سے لکھا ۔(15)منفلوطی کی دوسری شادی قاہرہ میں ہوئی ۔دوسری بیوی سے آپ کے ہاں (بیٹے ) حسن مصطفیٰ لطفی اور احمد (بیٹیاں حسنات قدریۃ ،زینب اور محاسن پیدا ہوئیں ۔(16)
منفلوطی بچپن ہی سے ادب کی طرف رہتے تھے ۔آپ تاریخ ادب شعر و سخن اور سوانح حیات کی کتب کے مطا لعہ میں مصروف رہتے تھے آپ نے تعلیم کا آغاز مکتب سے کیا ۔اور تکمیل الازہر الشریف میں کی خاندادنی شرافت اور وجا ہت کی بنا پر آپ کا دل تقویٰ اور خوف خدا سے معمور تھا یہ امور اس کے متقاضی تھے کہ آپ اپنی تو جہ صرف دینی علوم پر مر کوز کریں لیکن آپ نے صرف لسانیات اور ادبیات کو اپنی توجہ کا مر کز بنا یا ۔آپ اشعار یا د کرتے عظیم ادباء کا کلام ضبط کرتے اور انہی کے طرز پر لکھنے کی کو شش کرتے ۔آپ کا یہ شغف روز بروز بڑھتا گیا۔ادباء میں بحتری ابو تمام متنبی اور شریف الرضی سے متا ثر تھے ۔اسی طرح العقد الفرید اور الاغانی سے انہیں بہت لگا ؤ تھا (17)ابن العمید ابن المقفع قدما ء میں سے اور جبران نعیمہ دور جدید میں سے آپ کے پسندیدہ ادباء تھے۔(17)
منفلوطی 1908ء تک منفلوط میں رہے ۔اس دوران آپ کا ہفت روزہ مضمون جریدۃ"المنوید" میں ہر سوموار کو شائع ہو تا تھا ۔آپ یہ مضمون و منفلوط سے قاہرہ بھیجا کرتے تھے یہ مضامین معاشرقی نوعیت کے ہو تے ۔ان میں آپ اپنے دور کے معاشرتی مسائل سوسائٹی میں پا ئے جا نے والے ظلم و ستم اور ناانصافیوں کو اجاگرکرتے اور ارباب بسط و کشاد کی تو جہ ان مسائل کے حل کی طرف مبذول کرواتے ۔بعد میں ان مضامین کو کتابی شکل میں "النظرت" کے نام سے یکجا کیا ۔یہ مجموعہ تین جلدوں میں دار الافاق الجدیدۃ بیروت سے شائع ہوا ہے۔(18)
منفلوطی جب تک منفلوط میں رہے اپنی قیام گا ہ پر رات کو ایک ادبی محفل کا اہتمام کرتے۔ یہ محفل رات گئے تک جاری رہتی ۔آپ مہمانوں اور شرکا ء کے لیے بذات خود چا ئے بنا تے انہیں مختلف مشروبات پیش کرتے ۔ایسی مجا لس میں اکثر امام غزالی کی احیاء العلوم کا درس ہوتا فقہی و معاشرتی مسائل پر بحث ہو تی اور شرکاء کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے۔(19
منفلوطی اوائل عمر ہی حریت پسند تھے ۔معاشرتی اونچ نیچ پر آپ کا دل کڑھتا تھا ظلم و زیادتی کے خلا ف ہمیشہ آپ کا قلم اور زبان یکجا رہے ۔آپ ابھی الازہر الشریف میں زیر تعلیم تھے کہ عباس خدیو کے مظا لم اور اس کی نا انصافیوں پر اس کے خلا ف ہجویہ نظم لکھی جو "قدوم لکن لا اقوال سعید " کے نام سے معروف ہوئی اس نظم میں 20اشعار تھے ۔منفلوطی کو حق کو ئی کے جرم میں ایک سال قید اور 30مصری پونڈ جرمانہ کی سزا سنائی گئی ۔آپ چھ ماہ تک قید میں رہے بالآخر مفتی محمد عبدہ کی کوششوں سے بقیہ چھ ماہ کی سزا معاف ہوئی۔(20)
مفتی محمد عبدہ کی وساطت سے آپ سعد زغلول (21) کے قریب ہوئے ۔رسالہ "المؤید " کے مالک شٰخ علی یو سف سے بھی آپ کا تعلق مفتی صاحب کی وساطت سے ہوا بقول احمد حسن الزیات:
"یہی تین شخصیات (مفتی محمد عبد ہسعد زغلول اور شیخ علی یو سف ) ہیں جنہوں نے آبائی تربیت کے بعد منفلوطی کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور کا میاب ادیب بنا نے میں حصہ لیا۔(22)
منفلوطی جیسا حریت پسند شخص وطنی سیاست سے کنارہ کش نہیں رہ سکتا تھا آپ نے "وفد پارٹی" میں شامل ہو کر اپنی سیاسی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ اور سعد زغلول کی بھر پو ر حمایت کی آپ کو معلوم تھا کہ سعد زغلول ہی وہ زیر ک سیا ستدان ہے جو انگریز کے سامنے سینہ سپر ہو سکتا ہے(23)
سعد زغلول نے جب وزارت تعلیم کا قلم دان سنبھا لا تو منفلوطی کا تقرر محر ر عربی زبان و ادب کے عہد ہ پر کیا (24) جب سعد زغلول وزارت عدل میں منتقل ہو ئے تو منفلوطی کو اپنے ساتھ لے گئے (25)سعد زغلول نے وزارت المارف کے ایک افسر DUNLOPکو منفلوطی کی قابلیت اور اہمیت کے بارے میں لکھا :
"ان الحكومة في حاجة الي مثل مصطفي لطفي المنفموطي وليس هو في حاجة اليها ...وخير الحكومة ان يكون مثله فيها(26)
کہ منفلوطی کو حکومت کی نہیں بلکہ حکومت کو منفلوطی جیسے شخص کی ضرورت ہے۔حکومت کی بہتری اسی میں ہے کہ منفلوطی جیسا شخص اس میں ہو۔مصطفیٰ لطفی منفلوطی ایک عرصہ تک مصری پارلمینٹ کے سیکرٹری رہے ۔وفات سے قبل آپ مصر کی مجلس الشیوخ (ایوان بالا) میں اعلیٰ عہدہ پر تعینات تھے(27)مؤرخین نے اس بات پر کہ منفلوطی قبل از وفات کس عہد پر فائز تھے؟ مختلف آراہ کا اظہار کیا ہے۔
احمد حسن الزیات کا خیال ہے کہ آپ  آخری عمر میں وزارت حقانیہ میں سیکرٹری تھے اور 50سال کی عمر میں 1924ء میں آپ کا انتقال ہوا (28)ادباء العرب  کے مصنف مذکورہ را ئے سے اختلاف کیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ مفلوطی آخری عمر میں مجلس الشیوخ (ایوان بالا) کے سیکرٹری رہے(29)ایک را ئے یہ بھی ہے کہ منفلوطی کا پارلیمنٹ کے سیکرٹری کے عہدہ پر تقر ہو ا اور بوقتوفات آپ اسی عہدہ پر ہی تھے۔(30)راجح قول یہی ہے کہ منفلوطی پارلیمنٹ کے سیکرٹری  کے عہدے پر متعین تھے کہ آپ کی وفات ہو ئی ۔مشہور نقاد طا ہر الضناحی نے اپنے مقالہ میں جو "الہلال " دسمبر 1929ء میں شائع ہو منفلوطی کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے  اسی را ئے کو اقرب الی الصواب قرار دیا ہے۔(31)
منفلوطی  نہایت اعلیٰ اور بلند اخلا ق کے مالک تھے اور عمدہ فکر رکھتے تھے ان کے قول و فعل میں کو ئی تضاد نہیں تھا وہ اپنی زبان بڑی احتیاط سے کھولتے تھے بحث و جدا ل سے ہمیشہ گریز کرتے۔انہی اوصاف کی وجہ سے ان کی فکر کجی سے پاک رہی (32)آپ بہت رحم دل رحیم القلب اور دھیمے مزاج کے ما لک تھے انسان سوز مظا لم پر انہیں سخت تکیف ہو تی تھی اور ان کی آنکھوں سے آنسو جا ری ہو جا تے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ جب کبھی معمولی ظلم بھی دیکھتے تو اسے سامنے رکھ کر ایک دالخراش افسانہ ڈا لتے (33)منفلوطی حددرجہ حساس تھے معمولی سی بے راہ روی کو دیکھ کر ان کا دل مضطرب ہو جا تا وہ وطن اور قوم کی خا طر سوچتے ۔اخلا قی اور دینی اصلا ح کے لیے لکھتے اور اپنے ادب کا کبھی معاوضہ نہ لیتے تھے وہ غمزدہ اور مسکین لوگوں پر حددرجہ مہرابان تھے ان کے مصائب دور کرنے کی حتی المقدور کو شش کرتے (34)
آپ صحیح العقیدہ پاک دل اور پا ک نفس مسلمان تھے اللہ وحدہ لا شریک پر پختہ ایمان رکھتے۔جھوٹ دروغ کو ئی اور جھوٹی خوشامد سے کوسوں دورتھے سچ کی خاطر بڑے سے بڑا ظلم برداشت کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔اور اسلام پرست تھے اور اسلام پر ہو نے والے حملوں کا اور اعتراضات کا بڑی شدومد کے ساتھ جواب دیتے تھے(35)آپ کو موت پر پختہ یقین تھا دنیا ویزندگی اور اس کی آسائش کو عارضی سمجھتے تھے۔
ما انا باسف على الموت يوم ياتيني فالموت غاية كل حي ولكني ارى اما مي عالما مجهولا لا اعلم ما يكون حظي منه........(36)
"مجھے موت سے کو ئی ڈر نہیں کیونکہ ہر زندہ چیز کا انجا م موت ہے میں اپنے سامنے ایک ایسی دنیا دیکھ رہا ہوں جس کے متعلق مجھے کو ئی علم نہیں کہ اس میں میرے ساتھ کیا ہو گا ۔
ایک مؤحد اور راسخ العقیدہ مسلمان ہو نے کے ناطے منفلوطی صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے سلاطین اور امر اء کے دبدبے کو خا طر میں نہ لا تے ۔آپ کو غرباء ،مسا کین اور مصیبت زدہ لوگوں سے محبت تھی ۔جو کچھ بھی ہا تھ لگتا انہیں دے دیتے خوب مہمان نواز تھے لوگوں سے ملا قات کرتے وقت بیزاری یا اکتا ہٹ کا ظہار نہیں کرتے تھے۔(37)
آپ 12جولا ئی 1924ءکو اس دار فانی سے سے دار آخرت کو رحلت کر گئے۔(38)وفات سے دوماہ قبل آپ بیمار ہو ئے اسی دوران آپ کے ہاتھ اور زبان پر فالج کا حملہ ہوا پھر بیماری بڑھتی گئی تا آنکہ عید الاضحیٰ کی شام بعد از نماز مغرب آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا (39)بیماری کے دوران آپ کی زبان پر اللہ تعا لیٰ سے استغفا ر جاری رہا ۔آپ کے آخری کلمات جو مؤرخین نے بیان کئے ہیں یہ ہیں ۔
صاح بلهجة صعيد مصراه........أه يابوي......!(40)
احمد عبید نے اپنی تحقیق کے مطا بق آپ کی تاریخ وفات جمعرات 12جون 1924ء بمطابق 10۔ذویالحجہ 1342ھ بتا ئی ہے (41)امیر الشعراء احمد الشوقی نے آپ کی وفات پر مرثیہ لکھا ۔
اخترتَ يومَ الهولِ يومَ وداعِ,               ونعاكَ في عَصْفِ الرياحِ الناعي
اس قصیدہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس دن سعد زغلول پر حملہ ہوا اسی دن منفلوطی فوت ہو ئے۔
طاہر الطناحی نے اپنے مقالہ (43)میں آپ کی تاریخ وفات جولا ئی 1924ء کو ہی صحیح تسلیم کیا ہے تعلیم سفر کے دوران جب ہمیں قاہرہ جا نے کا اتفاق ہوا تو امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ کےقبرستا ن میں آپ کی قبر پر جا نے کا موقع ملا ۔دعاء مغفرت مانگی ۔اللہ تعالیٰ ہمارے اسلاف کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔آمین ۔
ادبی خدمات :
منفلوطی صاحب طرز ابشاء پرواز تھے وہ الفاظ کا انتخاب بڑی احتیاط سے کرتے تھے ان کے نثر پاروں کو پڑھتے ہو ئے قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ موسیقی سے لطف اندوز ہو رہا ہے منظر نگا ری ان کےادب کا ایک اہم حصہ ہے ان کاا دب  قدیم اور جدید اسلوب کا حسین امتزاج ہے وہ مشکل مضا مین کو قاری کے قریب کر یتے ہیں ان کے ادبی معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے یورپی ادب کو مشرقی ادب میں منتقل کر دیا ہے (43ب) مفلوطی کا نداز تحریر اور بلیغ اسلوب اس بات کا غماز ہے کہ ان میں ادبی صفت دھبی تھی کسبی نہیں (43ج1).منفلوطی نے اپنی تصانیف سے جدید عربی ادب کے سر مایہ میں بے بہا اضافہ کیا اور جد ید افسانہ نگا ری کو بڑی قوت بخشی ۔آپ ان معدودے ادباء میں سے تھے جنہوں نے جدید عربی ادبی میں مقصد یت کو داخل کیا (43)جدید عربی ادب کو افسانہ اور ناول سے آشناکرنے والوں میں منفلوطی کا مقام و مرتبہ سب سے رافع ہے آپ نے بالکل سادہ اور بے رنگ اسلوب نگا رش اور ہمدانی و حریری کا مسجع و مقفی انداز تحریر چھوڑ کر ایک نیا اسلوب اختیار کیا جسے قارئین نے بہت پسند کیا۔ آپ کے اس اسلوب میں پا کیزگی شیرینی اور حسن الفاظ کے ساتھ نہایت عمدگی دردوالم کی تصویرموجود ہے اور نہایت دلکش انداز میں معاشرے کے عیوب کی نشاندہی کی گئی ہے۔(441ا)بایں ہمہ آپ کے طرز تحریر میں فرضی کردار (44ب)مبالغہ آمیزی (45) قنوطیت (46) الفاظ و معنی کی تکرار ،جیسی فنی خامیاں بھی موجود ہیں (47)
منفلوطی نے قیمتی تصانیف کا مجموعہ چھوڑا ہے ان میں سے کچھ تو ان کی ذاتی تصانیف ہیں اور بعض کتب دوسری زبانوں کے ترجمے ہیں ان کی تصانیف میں سے۔
النظرات:اس کتاب کا پہلا حصہ 1909ءمیں شائع ہوا ۔ازاں بعد اس کتاب کے مقالا ت تین مجدات تک پہنچ گئے ۔یہ کتاب ان مقالات کا مجموعہ ہے جومنفلوطی"الموید"کے لیے لکھتے تھے ان مقالات میں منفلوطی نے معاشرہ میں پا ئے جا نے والے مسائلپر اپنی را ئے کا اظہاربڑے مدلل اور محکم اندازمیں کیا ہے (48)
مختارا ت المفلوطی :یہ کتاب متقدمین کے ان اشعار و مقالا ت کا مجموعہ ہے جن پر منفلوطی کی بگا ہ انتخاب پڑی۔یہ مجموعہ منفلوطی کے بہترین ادبی ذوق اور عمدہ انتخاب کا شاہدہے ۔15مارچ 1912ء کو پہلی مرتبہ یہ کتاب شائع ہوئی (49) 
مجدولین : اصل کتاب (FRENCH)زبان میں ہے منفلوطی نے اسے عربی زبان میں منتقل کیا ہے یہ کتاب دو دوستوں (لڑکا لڑکی) کی عشقیہ داستان پر مشتمل ہے ۔نوجوان کا نظر یہ ہے کہ خیرو سعادت ،محنت اور جہد مسلسل میں پو شیدہ ہے جبکہ دو شیزہ کا خیال ہے کہ سعادت و خوشحا لی مال ودولت سے آتی ہے اس طرح ان کی مختلف آراء نے انہیں ایک دوسرے سے نہیں ملنے دیا (50)
العبرات:یہ کتاب منفلوطی کے افسانوی ادب کا اہم حصہ (MASTER  PIECE)ہے یہ کتا ب آٹھ افسانوں پر مشتمل ہے جن میں سے چا ر افسانے منفلوطی کے طبع زاد ہیں جبکہ چار افسانے دوسری زبانوں کے ادب سے عربی زبان میں منتقل کیے ہیں ان افسانوں میں نہایت ہی دلکش انداز سے معاشرتی مصائب کی نشاندہی کی گئی ہے (51)
الشاعر: یہ مجموعہ یکم مئی 1921ء کو پہلی مرتبہ شائع ہوا اس میں یہ بتا نے کی کو شش کی گئی ہے کہ قدرت کی عطا کردہ صٖات ،مال و جمال دونوں سے زیادہ مؤثر ہو تی ہیں ( 52)
الفضیلۃ : یہ کتاب 1923ءمیں شائع ہو ئی ۔اس کتاب میں یہ بتا نے کی کو شش کی گئی ہے کہ تصنع اور مناوٹ سے پا ک فطرتی زندگی ہی سعادت کا باعثہو تی ہے یہ کتاب منفلوطی کی آخری کا وش تھی اس کتاب کے آخر میں ایک قصیدہ بعنوان "بول و فرجینی "ہے جس کا آخری شعر ہے ۔
هكذا الدنيا وهذا مُنتهى,                       كلِّ حيٍّ ما لحيٍّ من بَقاء 
فی سبیل التاج : (جون 1920ء)اس کتاب میں ان لوگوں کی جدو جہد کا ذکر ہے غاصبوں سے اپنی آزادی اور استقلال کے لیے لڑتے ہیں ۔(54)
منفلوطی بطور شاعر:
ایک نثر نگا ر کی حیثیت سے منفلوطی کو جو اعلیٰ دارفع مقا م حا صل ہے وہ مقام انہیں بطور شاعر نہیں ملا ۔تا ہم منفلوطی نے بعض قصائد کہے جو ہجویہ مدحیہ اور زمانے کی بے ثباتی سے متعلق و معاشرتی بے راہ روی کے بارے میں ہیں ان کے ہجویہ قصائدمیں سب سے مشہور قصیدہ وہ ہے جو انھوں نے عباس حذیو کی خدمت میں لکھا ۔(55)
مدحیہ قصائد میں سے آپ کا قصیدہ جو آپ نے 11ستمبر 1911ءکو محمد حجیت مدرس منفلوطی کو لکھا ۔مشہور ہے ۔
ملكتَ على الزهدِ الأُلوفَ وكلُّنا=إلى قَطرةٍ مما ملكتَ فقيرُ
استعمار کے خلا ف اپنے ایک قصیدہ میں کہتے ہیں ۔
ألا راية العدل في مصر تخفق لعل مساعي دولة الظلم تخفق
ألا صدمة للجو توقف سيره فيجبر ذاك الكسر والفتق يرتق
منفلوطی کا یہ شعر بھی بہت معروف ہے ۔
أيا عهد الشباب وكنت تندى      على أفياء سرحتك السلامُ
حواشی۔۔۔
1۔منفلوط ،مصر کے صوبہ اسیوط کا ایک معروفشہر ہے چینی (شکر ) روئی اور انار یہاں کی مشہور پیداوارہیں المنجد في اللغة والا علام ص550،حموی ج214،5۔۔۔
2۔زیارت (مترجم )578بردکلمان :196شلبی 11۔۔۔
3۔احمد عبید :1۔۔۔۔
4۔عمر فروخ ۔۔۔
5۔گب (GIBB)263۔۔
6۔شلبی:11۔۔
7۔مصر کا ایک معروف صوبہ ہے اسیوط کی معروف پیداوار کھجور ،روئی گنا،خشخاش ہے ۔یہ شہر مصر کے قدیم شہروں میں سے ایک ہے ۔
(المنجد في اللغة والا علام تحت لفظ السيوط)ص50حموری ج1/193۔
8۔مصر کے معروف مصلح سیاستدان اور بلند پایہ ادیب تھے ۔(الوقائع المنصرية)کے بانیوں میں شمار ہو تے ہیں ۔متعدد کتب کے مصنف ہیں اور بے شمار مقالات لکھے ۔1849ءمیں پیدا ہو ئے اور 1905ء میں وفات پائی۔1سکندری 301:2المنجد فی الاعلام 369:۔
9۔احمد عبید :3۔
10۔مصطفیٰ لطفی المنفلوطی ۔
11۔لطفی المنفلوطی کی والدہ ۔
12۔شلبی :11۔12۔۔
13۔ایضاً۔
14۔دیکھے النظرات ج۔
15۔شلبی :11۔12۔
16۔ایضاً۔
17۔زیات:579۔(17ب)شلبی۔107۔
18۔شلبی:1415۔ملا حظہ کیجئے ،النظرات ۔
19۔شلبی :15۔
20۔شلبی:13مجلہ انیس الجلیس شمارہ 1897ء۔
21۔مصرکی آزادی کے عظیم مجا ہدین میں سے ہیں آپ 1885ءمیں پیدا ہو ئے اور 1927ء میں وفات پا ئی ازھرسے تعلیم حاصل کی ۔آپ ایک بڑے قانون دان اور عظیم سیاستدان تھے ۔1924ء کے اوائل میں وزراعظم کے عہد ہ پر فائز ہو ئے آپ علم دوست اور علماء کے قدردان تھے اور خطا بت میں بے مثا ل تھے اسنکدری 315:2المنجدفی الاعلام 279۔
22۔زیارت 580۔579۔
منفلوطی :6۔
24۔زیارت:579۔
25۔احمد عبید :5۔
26۔شلبی:13۔
27۔ایضاً۔
28۔زیارت :579۔
29۔بستانی:2۔194۔
30اسکندری:2۔310۔
31۔الہلال شمارہ1929ء۔
32۔اسکندری:2۔311۔310۔
33۔شلبی:77۔
34۔زیارت:579۔
35۔شلبی:19۔
36ایضاً37۔36۔
37منفلوطی(6)شلبی:78،80۔
38دیکھئےنمبر31تا28۔
39۔شلبی:124۔123۔
40۔ایضاً:123۔
41۔احمد عبید :6۔
42۔احمد شوقی :ج3۔94۔
43۔ملا حظہ فر ما ئیے نمبر ۔31۔(43ب)احمد عبید :92،73،72۔(43ج)
زیارت بحوالہ شلبی 107۔(43د) عقاد: 156۔
(44،ا)زیارت :580شلبی :104۔(44،ب)ملا حظہ فرما ئیے منفلوطی (4)
43۔ذهب فلان الي اوربا
45۔ایضاً73 فَرَأَى سَمَاء تَطَاوُل اَلسَّمَاء وَطَوْدًا يُنَاطِح اَلْجَوْزَاء وَهَضْبَة تَشَرُّف عَلَى اَلْهِضَاب  وسحابة تمر فوق السحاب وجبلا تحسر عن قمته  العيون
46۔ملا حظہ کیجئے منفلوطی (4) الإشقياء في الدنيا كثير و ليس في إستطاعة بائس مثلي أن يمحو شيئاً من بؤسهم و شقائهم
زیارت580منفلوطی کے ادب پر قنوطیت اور اس کی تحریروں پر یا س و ناامیدی کا فتویٰ صادر کرتے ہیں حالانکہ منفلوطی کے مقالات جو کہ النظرات کی زینت ہیں زیارت کے اس دعویٰ (قنوطیت ) کی نفی کرتے ہیں النظرات کے  مقالات میں معاشرے کے تقریباً اکثر پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
47۔زیارت 580۔
48۔شلبی :35اسکندری 311۔2
49۔ایضاً۔
50۔ایضاً
51۔شلبی 35۔
 52۔ایضاً۔
53۔ایضاً۔
54۔ایضاً۔
55۔اسکندری311/2۔
56۔شلبی 43۔
57۔ایضاً۔
58:احمد عبید :57۔