"الصحابة كلهم عدول" صحابہ کرامؓ کے اوساف اور دینی مرتبہ
اللہ تعالیٰ جب کبھی کوئی نبی یا رسول مبعوث فرماتا ہے تواسے انتہائی مخلص،ایثار شعار اور جان نثار ساتھی عطا فرماتا ہے۔جو رسول کی تربیت اور زمانے کی ابتلاء اور آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتے ہیں۔جو ہر مشکل وقت اور مصیبت میں رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاساتھ دیتے ہیں۔رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اعانت میں اپنی جان،اپنا مال اور اپنا تمام سرمایہ حیات اللہ کی خاطر،اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قدموں میں ڈھیر کردیتے ہیں۔نبی کی تائید اور مدفعت میں اپنا وطن،اپنی اولاد،اپنے ماں باپ اور خود اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں اور ایمان کاتقاضا بھی یہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نبی کو ہر قسم کی صلاحیت بدرجہ اتم عطا کرکے مبعوث فرماتا ہے،اس کا فہم وفراست ثاقب اور اس کی بصیرت زماں ومکان کے پار جھانکتی ہے۔ اس کی مردم شناسی خطا سے مبرا اور اس کا انتخاب صائب ہوتاہے۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ک منتخب کردہ افراد اس کی تربیت اور صحبت خاصہ اور باطل کے خلاف کشمکش اور آزمائشوں کے جاں گسل دور سے گزرنے کے بعد اپنی سیرت وکردار میں نبی کا پر توبن جاتے ہیں۔ان میں سے جو کوئی جس قدر نبی کے قریب ہوتا ہے۔اسی قدر اس کی سیرت وکردار کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔نبی اپنے ساتھی منتخب کرنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔
صحابی کی تعریف:۔
لغت کے اعتبار سے صحبه صحبة وصحابة وصحابة وصاحبة مصاحبة کا معنی ساتھی ہونا،دوستی کرنا،اور ایک ساتھ زندگی بسر کرنا ہے۔صاحب کا معنی ہے ساتھی ایک ساتھ زندگی بسر کرنے والا،اس کی جمع صحب اصحاب صحبة صحاب صحابة صحابة صحبان شرعی اصطلاح میں جمہور محدثین اور علمائے اصول حدیث کے نزدیک"صحابی"اس شخص کو کہا جاتا ہے۔جوحالت اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا ہو اور پھر اسلام ہی پر اس نے وفات پائی ہو(2)خواہ یہ صحبت طویل نہ ہو اور خواہ اس نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث نہ سنی ہو۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،ابو زرعۃ رحمۃ اللہ علیہ ،ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ،ابو عبداللہ حاکم رحمۃ اللہ علیہ ،ابن الصلاح،نووی رحمۃ اللہ علیہ ،عراقی رحمۃ اللہ علیہ ،ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ،اور ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ،اور جمہور محدثین شرف صحابیت کے اطلاق کے لئے مجرد زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی قرار دیتے ہیں۔(3)
بعض علمائے اصول کے نزدیک کسی شخص پر صحابیت کا اطلاق اس وقت تک نہ ہوگا جب تک کہ اس نے کچھ عرصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں نہ گزارا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک یا دو احادیث روایت نہ کی ہوں۔حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک صحابی نہیں کہلاسکتا جب تک کہ اسے ایک یا دو سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت طیبہ کاشرف حاصل نہ ہوا ہو اور جب تک کہ وہ ایک یا زیادہ غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب نہ رہا ہو۔(4) ان حضرات کی دلیل وہ روایت ہے جو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو زرعۃ رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں روایت کی کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بھی کوئی صحابی دنیا میں موجود ہے۔انہوں نے جواب میں فرمایا:"اعراب میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے مگر ایسے حضرات جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل رہی ہو اب میرے سوا کوئی موجود نہیں۔"(5)
یہاں صحبت خاصہ کا ذکر ہے اور ظاہر ہے یہ بہت بڑی فضیلت ہے مگر حالت اسلام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمکلام ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک یا جسد اطہر کے کسی حصے کوچھولینا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے شخص کوشفقت کی نظر سے دیکھ لینا بھی کوئی معمولی شرف نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل ایمان بعد میں آنے والے لوگوں سے فضیلت کے اعتبار سے بڑھے ہوئے ہیں۔نیز یہ اس وقت کی بات ہے جب استقراء کے بعد اصول حدیث کی اصطلاحات ابھی وضع نہیں ہوئی تھیں۔اور غالباً حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی نہ ہوگی،جسے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے اور بعد کے زمانے میں جمہور محدثین خصوصاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔اورصحابیت کی تعریف کے بارے میں اس سے اپنے موقف پر استدلال کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ آدمیوں کے جھنڈ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ کوئی تم میں سے وہ شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو؟ تو وہ لوگ کہیں گے کہ ہاں! تو ان کی فتح ہو جائے گی۔ پھر لوگوں کے گروہ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ تم میں سے کوئی وہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کو دیکھا ہو (یعنی تابعین میں سے کوئی ہے؟) لوگ کہیں کے کہ ہاں! پھر ان کی فتح ہو جائے گی۔ پھر آدمیوں کے لشکر جہاد کریں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ تم میں سے کوئی وہ ہے جس نے صحابی کے دیکھنے والے کو دیکھا ہو (یعنی تبع تابعین میں سے)؟ تو لوگ کہیں گے کہ ہاں۔ پھر لوگوں کے گروہ جہاد کریں گے تو پوچھیں گے کہ کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جس نے اتباع تابعین کو دیکھا ہو؟"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ". قال عمران فلا أدري أذكر بعد قرنه قرنين أو ثلاثا " ثم إن بعدكم قوما يشهدون ولا يستشهدون، ويخونون ولا يؤتمنون، وينذرون ولا يفون، ويظهر فيهم السمن ".
ترجمہ۔ میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے، حضرت عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایک ایسی قوم پیدا ہو گی جو بغیر کہے گواہی دینے کے لیے تیار ہو جایا کرے گی اور ان میں خیانت اور چوری اتنی عام ہو جائے گی کہ ان پر کسی قسم کا بھروسہ باقی نہیں رہے گا۔ اور نذریں مانیں گے لیکن انہیں پورا نہیں کریں گے (حرام مال کھا کھا کر) ان پر مٹاپا عام ہو جائے گا۔(7)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم
ترجمہ۔ میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے،
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ
(صحیح مسلم،حدیث نمبر: (2540)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے اصحاب کو برا مت کہو، میرے اصحاب کو برا مت کہو، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے تو ان کے دیئے ایک مُد (آدھ کلو) یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔(9)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان نفوس قدسیہ کو اس طرح مخاطب فرمایا:(10)
﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ...١٤٣﴾...البقرة
ترجمہ۔"ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواه ہوجاؤ"
نیز ارشاد فرمایا:
﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ ... ١١٠﴾...آل عمران
"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو،"(11)
واضح رہے کہ اگرچہ یہ دونوں آیات کریمہ تمام اہل ایمان کےلیے عام ہیں،تاہم اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں اور وہی ان آیات کے بہترین مصداق ہیں۔
"وسط" عربی میں واحد وجمع اور مذکر ومونث سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس کے معنی بہترین اور معتدل کے ہیں۔شہادت حق کافریضہ بھی ہمیشہ بہترین لوگ ہی ادا کرتے ہیں۔آیت کےفتویٰ سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور بالتبع تمام امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خبر کے پیرایہ میں بتایا جارہا ہے۔کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ ادا کرتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔یہ ان کےلیے تلقین نہیں بلکہ ان کی مدح وثنا کے طور پر خبر دی جارہی ہے۔کہ وہ یہ فریضہ ادا کرنے کے خوگر ہیں اورآئندہ بھی رہیں گے۔یہ نکتہ زہن نشین رہے سویہ کام کرنے والے ہی بہترین امت میں سے ہونے کے حق دار ہوں گے۔
عدالت صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین :۔
تمام محدثین وفقہاء اس اصول پرمتفق ہیں:۔"الصحابة كلهم عدول"یعنی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عادل ہیں۔اور روایت حدیث میں قابل اعتبار ہیں۔
عدالت،لغت عرب میں ایک وسیع معانی ومفاہیم رکھنے والا لفظ ہے۔چنانچہ"لساب العرب" میں مرقوم ہے۔"العدل :ما قام في النفوس انه مستقيم"(یعنی جس کی درستگی لوگوں کےذہنوں میں ہو)(12)
اور یہ ظلم اور جور کی ضد ہے۔دوسرا مفہوم قرآن مجید میں یوں آتا ہے۔﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا ... ١٥٢﴾...الأنعام "جب تم بات کرو توانصاف کی بات کرو"(13) یعنی درست بات کرو۔تیسرا مفہوم برابری اور فدیہ کا ہے﴿لَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ ...١٢٣﴾...البقرة "اس سے کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا۔(14) چوتھا مفہوم شرک کا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿...ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ ﴿١﴾... الأنعام "پھر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے ہیں"(15) اس کا پانچواں معنی درست ،متناسب اور معتدل ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ)"اس نے تجھے پیدا کیا،پھر ٹھیک سے برابر کیا،پھر متناسب اور درست کیا"(16)
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم راویان حدیث کے توسط سے ہم تک پہنچی ہے،اس لئے اصول حدیث اور فن حدیث کے ماہرین نے ان راویوں سے حدیث قبول کرنے کے لئے متعدد شرائط مقرر کررکھی ہیں۔جن میں سے دو شرائط قبولیت حدیث کے لئے ائمہ حدیث کے نزدیک اساسی حیثیت رکھتی ہیں۔جن کا تعلق براہ راست راوی کی ذات اور اس کے احوال سے ہے۔
1۔عدالت۔2۔ضبط
شرعی اصطلاحی میں عدالت مخطورات سے اجتناب کے ذریعے راہ حق پر استقامت سے تعبیر ہے۔ائمہ حدیث کے نزدیک درج ذیل صفات راوی میں عدالت کو متحقق کرتی ہیں۔
1۔راوی کا مسلمان ہونا۔2۔راوی کا عاقل ہونا۔3۔روایت حدیث کے وقت راوی کا بالغ ہونا۔4۔راوی کاتمام اسباب فسق سے بچنا۔یعنی کبائر سے اجتناب کرنا اور صغائر پر مصر نہ ہونا۔
یعنی مجموعی طور پر اس میں بھلائی غالب ہو۔راوی خلاف مروت افعال خیسہ سے پرہیز کرتا ہو۔مثلاً بازاروں سے چلے پھرتے کھانا پینا۔شارع عام پر پیشاب کرنا،رزیل اور بدقماش لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا،زبان کو گالی گلوچ سے ملوث کرنا اور مزاج میں افراط سے کام لینا۔
"ضبط" سے مرا دہے کہ عادل راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو نظم کلام کے مطابق اپنے سینے یا ا پنی کتاب اور صحیفے میں محفوظ رکھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
انسانی سیرت میں عدالت ایک ایسا رویہ ہے جو تعمیر شخصیت اور اسلامی تربیت کے ذریعے مسلم فرد میں اُجاگر ہوتا ہے۔جس کی بناء پر وہ ہر اس امر سے اجتناب کرتاہے جو اسلام کے حوالے سے اسکی شخصیت میں قبیح نقص پیدا کرے۔کسی راوی کی عدالت ہمیں دو ذریعوں سے معلوم ہوتی ہے:(17)
اول:راوی کے ہم عصر معتمد علمائے فن حدیث اس کو عادل قرار دیں یعنی وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اس میں ایسا کوئی امر نہیں پایا گیا جو اس کی عدالت کے منافی ہو۔
ثانی:راوی کی عدالت تواتر سے ثابت ہو اور اہل علم میں اس کی عدالت شہرت رکھتی ہو اور اہل علم اس کے بارے میں کلمہ خیر ہی کہتے ہوں۔ایسے راوی کی تعدیل کی ضرورت نہ ہوگی۔جیسے ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ ،سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ ،سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ،اوراوزاعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عادل ہیں،تو اس کامعنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام بیان کرنے میں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اور نہ ایسے امور کے مرتکب ہوئے جو عدالت کے منافی ہیں۔استقراء سے بھی یہ حدیث واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی آپس کی مشاجرت اوربعض معاملات میں شکر رنجی کے باجود انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے کبھی کوئی جھوٹی حدیث روایت نہیں کی۔
کسی راوی کو عادل قرار دینے کے لئے علماء ایک یا دو اہل علم کی تعدیل کو کافی قرار دیتے ہیں ۔اور اس کی روایت کو قبول کرلیتے ہیں۔تب ان راویوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی تعدیل خود اللہ تعالیٰ نے ایک نہیں،بیسیوں آیات میں نہایت زوردور اور بلیغ انداز میں کی ہو۔
لہذا ائمہ فن حدیث وفقہ اس امر پر متفق ہیں کہ کسی راوی کے صحابی ثابت ہوجانے کے بعد اس کے بارے میں قرآن کی تعدیل کافی ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖتَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾...الفتح
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثرسے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعده کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
﴿لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿٨﴾...الحشر
"ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وه اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں"
اس سے اگلی آیت میں انصار کی مدح کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ...٩﴾...الحشر
"اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو"
انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطرہجرت کی اور انصار نے محض اللہ تعالیٰ کی رجا جوئی کے لئے ہجرت کرکے آنے والوں کو پناہ دی۔اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور ان کو ان الفاظ میں اپنی ر ضا اور خوشنودی کی سند عطاکی:
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾...التوبة
"اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے"
اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اورخوشنودی کی سند ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو عطا فرمائی جنھوں نے صلح حدیبیہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی اور زندگی کے آخری لمحات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کا عہد کیا اور پھر اسے سچ کردکھایا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کی شہادت ان الفاظ میں دی ہے۔
﴿لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿١٨﴾...الفتح
"یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وه درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی"
اللہ تعالیٰ کی رضاکا پروانہ بہت بڑا پروانہ ہے۔انسانون کی تعدیل اس کے سامنے ہیچ ہے۔یہی بندہ مومن کے جہاد زندگانی کا مقصد، یہی اس کا مطلوب ومقصود اور یہی اس کی سعی کا محاحصل ہے خود اللہ تعالیٰ نے اس کو ہر ثواب سے بڑھ کر اور ہر اجر سے افضل قرار دیا ہے:
﴿ وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٧٢﴾...التوبة
"ان ایمان دار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے ان جنتوں کا وعده فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں جہاں وه ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ان صاف ستھرے پاکیزه محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں، اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کامیابی ہے"
اللہ کے دین کی خاطر ہجرت کرنے اور اس کے رستے میں جہاد کرنے والے اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بارےمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَلَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿٢٠﴾بَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ﴿٢١﴾ ...التوبة
جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی، اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وه اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں،انہیں ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی رحمت کی اور رضامندی کی اور جنتوں کی، ان کے لئے وہاں دوامی نعمت ہے"
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو خیر وفلاح اور فوز عظیم کی سند سے سرفراز فرمایا:
﴿لَـٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨٨﴾ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٨٩﴾...التوبة
"لیکن خود رسول اللہ اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں (88) انہی کے لئے اللہ نے وه جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے"
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ(26)
"جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راه میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناه دی اور مدد پہنچائی، یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی"
مکہ مکرمہ سے ہجرت عامہ کے بعد ہجرت کرنے والوں کے لئے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ ... ٧٥﴾...الأنفال
"اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔ پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیں"
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی پکار پر اپناگھر بار چھوڑ دینے اور ہجرت کرنے کو ایمان کی سچائی کا میعار قرار دیا ہے۔صرف ہجرت کرنے والوں کو اور انصا ر کو ایک دوسرے کا سرپرست قراردیا ہے۔
فرمایا:۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَـٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَ...٧٢﴾...الأنفال
"جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راه میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناه دی اور مدد کی، یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اور جو ایمان تو لائے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تمہارے لئے ان کی کچھ بھی رفاقت نہیں جب تک کہ وه ہجرت نہ کریں۔"
ہجرت ایک کسوٹی ہے۔جو ایمان اور نفاق کو الگ کردیتی ہے۔یقیناً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپناگھر بار ،اپنا وطن اوراپنے عزیز واقارب چھوڑنا بہت بڑی فضیلت ہے ۔یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے۔جس کا قلب اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ہو۔یہ بہت بڑی آزمائش ہے۔ جنھوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی،یہ وہ لوگ نہ تھے جو سہولتیں اور آسائشیں تلاش کرنے کےلیے مدینے گئے تھے۔ان میں اکثر تو ایسے لوگ تھے جو لٹ پٹ کر گرتے پڑتے بے سروسامانی کی حالت میں مدینہ پہنچے،مدینہ پہنچ کر انھیں باغات اور محلات الاٹ نہیں ہوگئے۔بلکہ وہاں تو انھیں بھوک اور مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ان میں بھی اکثریت ان لوگوں کی تھی جو بھوک سے نڈھال مسجد نبوی میں ایک چبوترے پر بیٹھے حصول علم میں مشغول رہتے تھے۔ایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ... ١١٠﴾...آل عمران کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:" یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی:(29) ایسا کون سا منافق ہے جو ا پنا وطن،آسائش،اور عزیز واقارب کو چھوڑ کر شہادت گاہ ِالفت میں قدم رکھتا ہے۔منافق تو صرف مفادات کی طرف لپکتے ہیں۔اوراگر کوئی شخص اس غلط فہمی میں اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ پہنچ گیا کہ اس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوں گی،محلات اور باغات ہوں گے تو وہ وہیں سے اُلٹے پاؤں لوٹ گیا۔اور اس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا مستحق ٹھہرا۔(30)
انسان جس دھرتی پر جنم لیتا ہے،وہ اسے فطری طور پر بہت پیاری ہوتی ہے۔مکہ مکرمہ کی سرزمین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بہت عزیز تھی۔مگر جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے اس محبوب خطہء سرزمین کوچھوڑ دیا۔بہت سے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ پہنچ کر مکہ مکرمہ کو یاد کرکے اس کی جدائی میں اشعار پڑھا کرتے تھے۔محدثین ومورخین نے ان حضرات میں ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عامر بن فھیرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا ہے اور بعض نے و ہ اشعار بھی نقل کئے ہیں۔(31)
ذرا وہ منظر،چشم تصورمیں لایئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب وطن اور اپنے محبوب شہر کو محض اللہ کے حکم پر ہمیشہ کےلئے خیر باد کہہ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں اس کی گلیوں میں کھیلے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر میں اپنی پاکیزہ جوانی کے شب وروز بسر کیے۔بیت اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدوں کے نشان رقم تھے۔۔۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر سے بچھڑتے وقت بیت اللہ سے مخاطب ہوکر فرمارہے تھے:
وما في الارض بلد احب الى منك وما خرجت عنك رغبة ولكن الذين كفروا اخرجوني
"اسے سر زمین مکہ!روئے زمین پر تجھ سے زیادہ مجھے کوئی خطہء زمین محبوب نہیں میں اپنی مرضی سے تجھے چھوڑ کر نہیں جارہا بلکہ کافر مجھے یہاں سے نکال رہے ہیں"(32) ہجرت کے وقت اپنا وطن چھوڑتے ہوئے یہ قلبی کیفیت اس عظیم اور مقدس ہستی کی ہے جو سراپا عزیمت تھی تب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اپنے وطن کو چھوڑتے وقت کیا حال ہوگا۔ایک کامل اورسچے ایمان والا شخص ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنا وطن چھوڑ سکتا ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو لوگوں کے لئے مثال قرار دیا اور لوگوں کی ہدایت کو ان کی مانند ایمان لانے سے مشروط رکھا اور ان کے ایمان کو معیار قرار دیا۔فرمایا:
﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا...١٣٧﴾...البقرة
"اگر وہ ایسے ہی ایمان لے آئیں جیسا تم ایمان لائے ہو توانہوں نے ہدایت پالی"(33)
حقیقت ہے یہ ہے کہ ہجرت ایک ایسا معیار ہے۔ کہ کوئی شخص جو اپنے دل میں رائی بھربھی نفاق چھپائے ہوئے ہو،اس پر پورا نہیں اتر سکتا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تو اس میعار کی انتہائی بلندی پر تھے۔ایمان ان کو بے حد محبوب تھا۔کفر وعصیان سے ان کو سخت نفرت تھی۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر خاص فضل تھا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴿٧﴾...الحجرات
"اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں"
صحابہ کرام کے دلوں میں ایمان کے محبوب ہونے اور ان کے دلوں کے ایمان سے آراستہ ہونے کی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی سند ہے۔ابتلاؤں اور آزمائشوں سے ان کے ایمان کی زینت وآرائش دھندلائی نہیں بلکہ اس میں اور زیادہ چمک اور حسن پیدا ہواہے۔ان کے ایمان کے حسن پر خود اللہ تعالیٰ شاہد ہے۔ان کے ایمان کے حسن میں اضافے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ﴿٢٢﴾...الأحزاب
"اور ایمان والوں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بے ساختہ) کہہ اٹھے! کہ انہیں کا وعده ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوہٴ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا"
اللہ تعالیٰ اس کے پروانہ ایمان کے بعد ان کو اپنی تعدیل اور ایمان کے لئے کونسے تصدیق نامے کی ضرورت ہے؟اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:
﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٣٢﴾ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾...الأحزاب
"اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (32) اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کااظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے"
آیت مذکورہ کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ اہل بیت کو پاک کردیا گیا ہے۔یہاں ماضی کاصیغہ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ بقول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ (37) "یہاں تک تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو۔اس لئے کہ اللہ تمھیں پاک کرنا چاہتا ہے۔بالفاظ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویہ اختیار کروگے تو پاکیزگی کی نعمت تمھیں نصیب ہوگی،ورنہ نہیں"۔۔۔بس یہ ہے اس آیت کامفہوم،مگر بعض حضرات نے اس آیت کی بنیاد پر اہل بیت میں سے بعض مخصوص اصحاب رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اولاد میں پوری بارہ نسلوں کو معصوم قرار دے ڈالا جو کہ بلاواسطہ اس آیت کے مصداق ہی نہیں۔مگر بُرا ہو تعصب،بے انصافی اور علم کے نام پر علمی دھاندھلی کا کہ قرآن میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ایمان کی توثیق ،ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا اورخوشنودی اور جنت کی سند عطا ہونے کے باوجود مختلف مذہبی محفلوں میں انھیں برسرعام منافق اور ایمان سے محروم کہاجارہا ہے۔اور پھر دعوت دی جاتی ہے اتحاد بین المسلمین کی۔یہ اتحاد کی کونسی قسم ہے جس کے ذریعے اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو منافق کہا جائے جنھوں نے ہم تک قرآن اور دین پہنچایا۔عجیب ستم ظریفی ہے۔ان کا پہنچایا ہوا قرآن ہم روز تلاوت کرتے ہیں اور پھر انہی کو ناقابل اعتبار ٹھہراتے ہیں۔
اُحد کے میدان میں مسلمانوں کو بہت بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوگئے تھے۔مسلمان مکمل طور پر تباہ ہوتے ہوتے بچ گئے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے جرنیل تھے۔انہیں مابعد حرب اثرات کا پورا ادراک تھا۔ادھر ابو سفیان نے رستے میں جنگ کے نتائج پر غور کیا تو اس کو اس حقیقت کا احساس ہوگیا کہ وہ محض ادھوری فتح کے ساتھ مکہ واپس جارہا ہے۔چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد واپس پلٹ کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس منصوبے کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہنچ گئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا۔اس جنگی حکمت عملی سے دو فائدے حاصل کرنا مقصود تھے۔
اول دشمن کو دہشت زدہ اور ششدر کرنا:۔
ثانی:مسلمانوں کے حوصلے(مورال) کو بلند رکھنا۔ جس پر مسلمانوں کے نقصان کی وجہ سے منفی اثر پڑاتھا یہ انتہائی مشکل وقت تھا۔بیشتر مسلمان زخم خوردہ تھے ستر سے زیادہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین شہید ہوچکے تھے(38)جن میں اسلامی فوج کے بعض اہم جرنیل بھی شامل تھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سامنے کفار کے تعاقب کا منصوبہ رکھا تو اس کٹھن گھڑی میں صحابہ کرام( رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے بغیر کسی زرہ بھر تذبذب کے سر اطاعت خم کردیا۔تب اللہ تعالیٰ نے ان نفوس ذکیہ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:
﴿الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٢﴾ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ﴿١٧٤﴾...آل عمران
"جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا اس کے بعد کہ انہیں پورے زخم لگ چکے تھے، ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری برتی ان کے لئے بہت زیاده اجر ہے (172) وه لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وه بہت اچھا کارساز ہے (173) (نتیجہ یہ ہوا کہ) اللہ کی نعمت وفضل کے ساتھ یہ لوٹے، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی پیروی کی، اللہ بہت بڑے فضل والا ہے "
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عروۃ بن زبیر سے بطورخاص فرمایا:"اس تعاقب میں تمھارے دونوں بابا زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے"(40)
محولہ بالا آیات نیز اس کے علاوہ اور بہت سی آیات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تعدیل اور توثیق کرتی ہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ ان حضرات کی توثیق کرے جن کے ذریعے قرآن اور دین آئندہ نسلوں کو منتقل کیاجاناتھا۔اگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ناقابل اعتماد ٹھہرادیا جائے تو قرآن سمیت پورا دین ناقابل اعتبار قرار پائے گا
بعض علماء تعدیل صحابہ کے اصول میں سے ان حضرات کو مستثنیٰ کرتے ہیں جن کے فسق پر دلیل قائم ہوچکی ہو۔محدثین اگرچہ"" کے اصول کو علی الاطلاق تسلیم کرلیتے ہیں تاہم وہ بھی اس اصول میں سے ایک دو افراد کو مستثنیٰ کرتے ہیں۔اور اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے ایک آدھ شاز اورنادر مثال کو نظر انداز کردیتے ہیں،صحابہ کے احوال میں کتابیں تصنیف کرنے والے حضرات نے ایسے لوگوں میں ولید بن عقبہ بن ابی معیط اور بسر بن ابی ارطاۃ کا ذکر کیا ہے۔(41) مذکورہ بالا دونوں حضرات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی حدیث روایت نہیں کی۔اصحاب سنن میں سے صرف ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط سے صرف ایک حدیث متابعت کے لئے اور بسر بن ابی ارطاۃ سے دواحادیث روایت کی ہیں۔ـ42)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مشاجرت میں مسلک اعتدال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کچھ عرصہ بعد خصوصاًحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے سانحہ پر کچھ غلط فہمیوں کے باعث بعض صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مابین مشاجرت اور شکر رنجی پیدا ہو ئی۔اس سلسلہ میں انتہائی محتاط اور قرین اعتدال مسلک یہ ہے کہ ان کی مشاجرت کے مسئلہ میں خاموش رہا جا ئے کسی صحابی کے بارے میں سوء ظن طعن و تشنیع سب و شتم اور تحقیر وتذلیل کے نازیبا الفا ظ سے گریز کیا جا ئے۔
جرح وتعدیل کے حوالے سے محدثین کرام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انحراف کرنے والوں اور حضرت ابو بکرو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انحرا ف کرنے والوں سے مساوی سلوک کرتے ہیں وہ جس طرح رفض و تشنیع میں غلو کو برا سمجھتے ہیں اس طرح وہ نصب کو بھی برا خیا ل کرتے ہیں ان کے نزدیک رفض مراد ہے حب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مبالغہ اور انہیں حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل قرار دینا ۔ان دونوں کو منا فق کہنا اور انہیں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو سب وشتم کا نشانہ بنا نا ۔اور نصب سے مرادہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھنا اور ان کے بارے میں نازیبا) الفاظ استعمال کرنا(43)علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری کے مقدمہ میں اس اصول کی تصریح کی ہےکہ محدثین نے جرح وتعدیل کے حکم میں دونوں قسم کے لوگوں کو ایک ہی مقام پر رکھا ہے (44)صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تکفیر و تفسیق درحقیقت ان بہت سی آیات قرآن کی تکذیب ہے جو ان کو اللہ تعا لیٰ کی رضا اور جنت کا پروانہ عطا کر رہی ہیں ۔اللہ تعا لیٰ علام الغیوب ہے وہ اپنی لا زوال کتاب میں ایسے لوگوں کو اپنی رضا کی سند کیونکرعطا کر سکتا ہے جن کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ وہ در حقیقت کا فر اور منافق ہیں ۔ان کو منافق کہنا اور ان کے بارے میں دیگر نازیبا الفاظ استعمال کرنا رسالت اور قرآن کی تو ہین ہے ۔اور بالواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مردم شناسی اور بصیرت سے عاری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور تربیت کو بے فیض قرار دینا ہے اور جس شخص کے دل کے کسی کونے کھدرے میں اگر رتی بھر بھی ایمان موجود ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسا تصور تک نہیں کر سکتا ۔
ہرچند کہ حدیث تاریخ اور سیرت کی کتابیں ایسے واقعات سے لبریز ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اخلا ص صداقت اور ایثار پر شہادت دیتے ہیں تاہم صرف دو مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اعلیٰ ایمان وایقان ان کی صداقت و دیانت اور ان کے اخلا ص پر سب سے بڑی دلیل ہیں ۔
اول:بخاری اور دیگر کتب صحاح نیز سیرت و تاریخ کی تمام کتب میں روایت ہے(45)کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت سے کچھ عرصہ قبل ہجرت کی تیاری کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تذکرہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کے سفر کے لیے دو اونٹنیاں خرید لیں اور ان کی دیکھ بھا ل کرتے رہے ۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم آپہنچا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آگا ہ فر ما کر اہل مکہ کی امانتیں ان کے حوالے کیں اور فر ما یا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سوجائیں اور دوسرے دن کفار کی امانتیں واپس لوٹا کرمدینہ پہنچ جائیں پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے گھر سے ساتھ لے کر منصوبہ کے مطا بق غار ثور میں چلے گئے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں تین روز تک اس غار میں قیام فر ما یا ۔اس غار میں پناہ لینے کے منصوبے کا علم نہ صرف ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تھا بلکہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پورا گھر انہ بلکہ ان کے غلام تک بھی ہجرت کے اس منصوبے میں شریک تھے تین روزتک کھا نا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر سے جا تا رہا ۔حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کا کھا نا غار ثور میں پہنچا یا کرتی تھیں ۔ان کا غلام عامر بن فہیرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بکریوں کا ریوڑ غار ثور پر لے جا تا بلکہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ وہ جا نور ذبح کر کے ان کو گوشت بھی کھلا تا تھا (46)ریوڑ کی آمد سے غار پر آنے جا نے والوں کے قدموں کے نشان بھی مٹ جا تے تھے ۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے وقت اہل مکۃ کی کاروائیوں کی اطلاع پہنچاتا ۔(47)اس واقعہ پر ہی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم بیٹی اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم ماں کو " ذات النطاقین "کا لقب (48) عطا ہوا جس کا انھوں نے اس وقت بھی بڑے افتخار سے ذکر کیا ،جب ان کو ان کا بیٹا صلیب پر لٹکا دکھا یا گیا(49) محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے آخری لمحات تک کے احسانات کا ذکر فر ما تے رہے۔یہ تفصیل اس لیے بیان کی گئی ہے تا کہ واضح ہو جا ئے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھرا نے کا ہر ہر فرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جاں نثا ر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دل وجان سے محبت کرنے والا تھا ۔اگر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ان کے گھرا نے کے کسی فرد میں ذر ہ بھر بھی نفاق ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑوانے اور اسلام کی بیخ کئی کا اس سے بڑھ کر اور کون ساموقع ہو سکتا تھا ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور میں چھپے ہو ئےتھے۔
ثانی:تمام امت اس امر پر متفق ہے کہ موجودہ قرآن جو اس وقت دنیا میں شائع ہے در حقیقت مصحف عثانی ہے اور مصحف عثمانی صدیقی ہی کی نقل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مرتدین اور مانعین زکوۃ کے خلاف جنگیں لڑی گئیں تو بہت کثرت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین شہید ہو ئے جنگ یمامہ میں بہت سے ایسے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین شہید ہوئے جو حفاظ قرآن (50)تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے قرآن کو مصحف کی صورت میں جمع کرنے کی تجویز پیش کی اور ان کے مسلسل اور پر زور اصرار پر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید کی تدوین کا حکم دیا ۔(51)اس طرح اللہ تعا لیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے اپنے وعدے کے مطا بق ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے قرآن کی حفا ظت کا انتظام فر ما یا ۔امت مسلمہ ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ احسان قیامت تک فرا موش نہیں کر سکتی ۔اگر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ منا فق ہو تے تو انہیں قرآن کو جمع کر کے مدون کرنے کے ساتھ کون سی دلچسپی ہو سکتی تھی بلکہ ان کے لیے قرآن کو ضائع کرنے اور اس کو ختم کرنے کا اس سے بڑھ کر اور کون سا موقع ہو سکتا تھا ۔
یہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جا ں نثا ر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمیع الصحابۃ وار ضا ھم ۔
فریضئہ شہادت حق اور صحابہ :۔
زمانہ جدید میں تمام مستشرقین اور احساس کمتری کا شکار مستغربین اپنی تمام تر جہات اس امر پر مر کو ز کئے ہو ئے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کے دلوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی محبت اور عقیدت کو ختم کیا جا ئے ۔اس عداوت اور قلبی جنگ میں بعض ناعاقبت اندیش مسلمان بھی شریک ہیں انتہائی جدید پروپیگنڈے نفسیاتی حربوں اور منطقی مغا لطوں کے ذریعے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کردار کشی کی جا رہی ہے تا کہ اسلامی قانون کے دوسرے ماخذ سنت نبوی کو ناقابل اعتبار ٹھہرایا جا ئے ۔بعض نہاد محققین کی تصنیفات در آمد ہو رہی ہیں جن میں محققین کے نام پر صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر کیچڑا چھالا گیا ہے خاص طور پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لا لچی خوشامد ی ،مداہنت کیش ،جاہ پسند اور خلفائے بنی امیۃ کی خوشامد میں حدیثیں گھڑنے والا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا گیا ہے تا کہ سنت نبوی پر بھر پور ضرب لگا ئی جا ئے ۔مگر ان کی مذموم کوششوں کے علی الرغم ،تمام ذخیرہ حدیث بلکہ صرف بخاری و مسلم ہی ایسے ناقابل تر دید شواہد موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کبھی شہادت حق ادا کرنے سے کو تا ہی نہیں کی ۔انھوں نے اہل اقتدار کے سامنے کبھی ہدانیت سے کا م نہیں لیا اور نہ دین پر انھوں نے اہل اقتدار سے سمجھو تہ کیا ہے وہ توخیر عزیمت کا پہاڑ تھے ان کے ادنیٰ غلاموں تک نے اقتدار کے سامنے جھکنے سے انکا ر کر دیا ۔تاریخ اسلام میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی عزیمت اس کی درخشندہ مثا لیں ہیں صحابہ کرام وتابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس راہ میں بے شمار صبر آزما مصائب اور ابتلاؤں کا سامنا کرنا پرا ۔اور بسا اوقات انہیں اپنی جان تک کی قربانی دینا پڑی ۔سنت کے صحیح ترین ماخذ سے چند واقعات مثا ل کے طور پر پیش خدمت ہیں ۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ مروان بن حکم نےجب عیدین میں نماز عید سے قبل خطبہ دینے کی ابتدا کی تو ایک شخص اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا "خطبہ سے قبل نماز ہے "حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواس موقع پر موجود تھے ۔فرمایا :اس شخص نے اپنا وہ فرض ادا کردیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کے ذمے تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ۔
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( من رأى منكم منكرا فليغيره بيده ، فإن لم يستطع فبلسانه ، فإن لم يستطع فبقلبه ، وذلك أضعف الإيمان ) رواه مسلم )
تم میں سے جو کوئی شخص برا ئی دیکھے وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے اگر یہ استطاعت نہ ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی طا قت نہ ہو تو اس برا ئی کو دل میں برا سمجھے (اور دل میں اس کو بدلنے کا عزم رکھے )اور یہ کمزور ترین ایمان ہے "(52)امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ایک اور روایت میں نقل کرتے ہیں کہ اس معاملے میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مروان سے کھنچا تانی بھی ہو ئی ۔آخر ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے چلے گئے ۔(53)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع طعام صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر جو ،جو کا آٹا کھجور اور کشمش وغیرہ سے دیا جا تا تھا اور یہی چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حجاز میں عام لوگوں کے طعام کے طور پر معروف تھیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب گندم عام ہو گئی اور شامی گندم حجاز میں کثرت سے در آمد کی جا نے لگی اور ایک صاع جو یا کھجور کے بدلے نصف صاع گند م عام دستیاب ہو نے لگی تو امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھجور اور گندم کے اسی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے فطرانے کے لیے گندم کا نصف صاع مقرر کر دیا ۔مگر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ھکم نامے پر سختی سے نکیر کی اور فرمایا : میں تو وہی فطرا نہ دیتار ہوں گا۔جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیتا رہا ہوں ۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مروان نے خطبہ دیا اس میں اس نے مکۃ مکرمہ اور اہل مکۃ کی فضیلت بیان کی اور مکۃ مکرمہ کی حرمت کا ذکر کیا ۔مدینہ اور اہل مدینہ کے بارے میں کچھ نہ کہا اس موقع پر حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکا ر کر اس سے کہا "میں تجھ سے کیا سن رہا ہوں تو مکہ مکرمہ اور اہل مکہ کی فضیلت اور مکہ کی حرمت کے بارے میں تو بتا رہا ہےمگر تو نے مدینہ منورہ اور اہل مدینہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا حالا نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو بھی حرم قرار دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادہمارے پاس خولانی چمڑے پر لکھا ہوا موجود ہے اگرچاہو تو میں تجھے پڑ ھ کر سناسکتا ہوں ۔(55)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مسلم رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ دونوں نے روایت کی ہے کہ جب عمرو بن سعید نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلے کے لیے مکہ مکرمہ پرچڑ ھا ئی کی ۔تو ایک صحابی ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اٹھ کر کہا کہ فتح مکہ کے موقع پر انھوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور دل نے آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو محفوظ رکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعا لیٰ کی حمدو ثنا کے بعد فر ما یا :
"اللہ تعا لیٰ نے مکہ کو محترم ٹھہرا یا ہے لوگوں نے کبھی اس کی حرمت کا خیال نہیں کیا جو شخص اللہ تعا لیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے جا ئز نہیں کی کہ اس کے اندر خون بہائے ۔یا اس کے درخت کا ٹے (56)
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر تعریضاً فر مایا:
"اللہ تعا لیٰ نے لوگوں کے دلوں کو اندھا کر دیا ہے جس طرح وہ ان کو بینائی سے محروم کر دیتا ہے وہ متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں "ایک شخص نے کھڑے ہو کر پکار کر کہا "تو برا اجد(جلف ) ہے متعہ تو امام المتقین کے زمانے میں بھی ہو تا تھا"(57)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ میں مروان بن حکم کے گھر میں دا خل ہو ئے تو وہاں انھوں نے ایک مصور کو دیکھا جو تصویر بنا رہا تھا حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ما تے ہوئے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعا لیٰ کا رشاد ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو میری مانند تخلیق کرنے کی کو شش کرتا ہے وہ ایک دانہ اور ایک ذرہ ہی پیدا کر کے تو دکھا دے"(58)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی کے صحن میں مروان بن الحکم کے ساتھ تشریف فرماتھے انھوں نے فر ما یا :
"میں نے صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :قریش کے لڑکوں کے ہاتھوں میری امت ہلا ک ہو گی اور اگر تو چا ہے تو تمہیں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ بنی فلا ں اور بنی فلاں سے"(59)
یہی نہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین صرف بنی امیۃ ہی کو ان کے غلط کا موں پر ٹوکتے تھے ۔ہمیں خلفا ئے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد میں بھی ایسے بہت سے شواہد ملتے ہیں ۔جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے شخص کو بھی ٹوک دیا کرتے تھے ۔چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حسن بصر ی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یمنی چادروں سے بنے ہو ئے جوڑے (حلے)پہننے سے منع کرنا چا ہا کیونکہ ان کی اطلاع کے مطا بق ان کو رنگنے میں پیشاب استعمال ہو تا تھا۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ۔
"آپ کو ایسا کرنے کا کو ئی اختیار نہیں ان چادروں کے بنے ہو ئے لباس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہنا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم بھی پہنتے رہے ہیں (60)
ایک دفعہ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھر میں دا خل ہو نے کے لیے اجا زت طلب کی حدیث سنا ئی تو انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سختی سے کہا کہ وہ اس پر گواہ لا ئیں ۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید کی اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا "اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عذاب (61)نہ بنتے "
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ عبد المالک بن مروان نے غضیف بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی کو پیغام بھیجا کہ"ہم نےلو گوں کو جمعہ کے روز منبر پر ہاتھ اٹھا نے اور صبح اور عصر کی نماز کے بعد قصے سننے پر جمع کر دیا ہے "انھوں نے جواب میں فرمایا: یہ دونوں تمھا ری بدعات ہیں میں ان میں سے کسی چیزکے بارے میں تمھا ری تائید نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
"جب کو ئی قوم کو ئی بدعات ایجا د کرتی ہے تو اس جیسی ایک سنت اٹھا لی جا تی ہے اس ایک سنت کو مضبوطی سے تھا مے رکھنا ایک بدعات کی ایجاد سے بہتر ہے ۔(62)
ان طویل اقتباسات کو پیش کر کے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بلا خوف اور بغیر کسی مداہنت کے دن کو آئندہ نسلوں تک منتقل کیا اور اس بارے میں کسی ملامت اور مصیبت و ابتلا کی پرواہ نہیں کی بنا بریں فقہاء کی ایک جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اجماع سکوتی کو حجت مانتی ہے اور اجماع سکوتی سے مراد یہ ہے کہ صحابی نے کسی مسئلہ میں کو ئی فتویٰ دیا بلاد اسلامیہ میں اس کی شہرت اور اشاعت بھی ہو ئی مگر کسی اور صحابی یا تا بعی مجتہد نے اس پر تنقید نہیں کی، تو ان فقہاء کے نزدیک اس طرح گویا اس مسئلہ پر عدم اختلا ف قرار پا یا ۔
صحابہ کرام کے مرا تب :۔
تمام اہل سنت کا اجماع ہے کہ امت میں سے افضل ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں علمائے کوفہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت دیتے ہیں (63)سابقین اولین دیگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے افضل ہیں (64)سابقین و اولین سے کون لوگ مراد ہیں ؟صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں جنہوں نے قبلتین کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی بعض کی را ئے ہے کہ یہ وہ اصحاب ہیں جنہوں نے بیعت رضوان میں حصہ لیا ۔(65)
یہ تمام امور مجموعی طور پر درست ہیں مگر قرآن مجید نے جس انداز میں اس کی فضیلت کو ذکر کیا ہے اس سے مراد وہ اصحاب کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں جنہوں نے ہجرت کی یا ان مہاجرین کو پناہ دی ،یہی لوگ ہیں جن کو اسلام لا نے میں سبقت حاصل ہے بنا بریں یہی حضرات سابقین اور اولین میں شمار ہو تے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو انتہائی کٹھن اور صبر آزماحالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ایمان لا ئے راہ اسلام میں ان کو سخت اذیتیں دی گئی ۔ان کو ستا یا گیا پھر یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اپنے وطن سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گئے ہر نازک گھڑ ی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی نصرت کے شرف سے مشرف ہو ئے ۔اللہ کے راستے میں اپنے جان و مال کو خرچ کیا ۔ اپنے والدین اور اپنی اولاد تک کو اللہ کے راستے میں قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا ۔قوت ایمان اور دین کی خیر خواہی کے اعلیٰ ترین مدارج پر فائز ہوئے۔
تا ہم فضیلت و مرا تب میں تفادت کے باوجود بقول علامہ ابن حزم اندلسی رحمۃ اللہ علیہ تمام صحابہ کرام جنتی ہیں (66)وہ اپنے اس موقف پر قرآن کریم سے جو دلیل لاتے ہیں وہ بہت قوی اور ناقابل تردید ہے ۔چنانچہ اللہ تعا لیٰ ارشاد فر ماتا ہے :
﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّـهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ...٩٥﴾..النساء
"تم میں سے جس نے فتح مکہ سے قبل اللہ کے رستے میں خرچ کیا اور جہاد کیا "
(اور جس نے یہ کا م بعد میں کئے )وہ برابر نہیں ۔ان کا درجہ ان لوگوں سے بڑھ کر ہے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہا د کیا اگر چہ اللہ نے سب کے ساتھ بھلا ئی کا وعدہ کر رکھا ہے"
بھلا ئی کا وعدہ کیا ہے ؟وہ لوگ جن کے لیے اللہ تعا لیٰ بھلا ئی کا وعدہ کر رکھا ہے ان کے بارے میں قرآن مجید میں اس طرح وضاحت فر ما ئی ۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ﴿١٠١﴾...الأنبياء
"جن کے لیے اللہ تعا لیٰ نے بھلا ئی (یعنی الحسنی ) کا وعدہ کر رکھا ہے انہیں اس ( جہنم ) سے دور رکھا جا ئے گا ۔
اور اور مقام پر فرمایا :
﴿لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ ... ٢٦﴾...يونس
"وہ لو گ جنہوں نے نیک کا م کئے ان کے لیے بھلا ئی ہے اور مزید بھی ان کے چہروں پر نہ تو سیا ہی چھا ئے گی نہ ذلت : (69)
اور ایک جگہ فر ما یا:
﴿لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ...١٨﴾...الرعد
"وہ لو گ جنہوں نے اپنے رب کے حکم کو قبول کیا ان کے لیے بھلا ئی ہے"
گو یا ان تفادت مراتب کے باوجود فتح مکہ سے قبل ایما ن لا نے والے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور فتح مکۃ کے بعد ایمان لا نے والے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اللہ تعا لیٰ نے " الْحُسْنَىٰ " یعنی بھلے انجا م کا وعدہ فرما یا ہے اور آخرت میں جس کا انجام اچھا ہو وہ اپنی مراد کو پہنچ گیا گذشتہ تمام ارشادات قرآنی سے یہ حقیقت واضح ہو جا تی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عام لوگ نہ تھے بلکہ مشیت الٰہی نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے چن لیا تھا اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اسلامی انقلا ب بر پا کرنے کی بھا ری ذمہ دار سونپی گئی تھی ۔جس کو انھوں نے احسن طریقے سے نبھا یا ۔
صحا بہ معیار حق ہیں ؛۔
جمہور امت کے نزدیک صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین معیار حق ہیں معیار کیا ہے ؟ معیار اس پیمانے یاترازوکو کہا جا تا ہے جس کے ذریعے ہم دینار کے خا لص ہو نے کا اندازہ کرتے ہیں ۔"عیار" دینار و درہم کے سانچے اورٹھپے کو بھی کہا جا تا ہے ۔گو یا اس سانچے میں جب پگھلا ہوا سونا یا چا ندی ڈا ل دئیے جا ئیں تو وہ اس عیار کی شکل میں ڈھل جا ئیں گے ۔اسی طرح عیار اور معیار صراف یا سنار کی اس کسوٹی کو بھی کہا جا تا ہے جس پروہ سونے کو رگڑ کر اس کے رنگ کو دیکھ کر اس کے خالص ہو نے یا اس میں لا وٹ کی مقدار کا ندا زہ لگا تا ہے ۔
عقیدہ ایمان عمل صلح گناہ اور ثواب کی حدود قرآن نے خود متعین کر دی ہیں لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے پاس کو ئی اختیار نہیں جس کی بنا پر وہ ہمارے لیے عقیدہ وضع کرے یا اپنی طرف سے ایمانیات کی حدود متعین کرے یا وہ اپنی صوابددید پر یہ فیصلہ کرے کہ فلا ں کا م ثواب ہے اور فلاں کام گناہ اپنی صوابدیداور قیاسات پر عقائد گھڑنا اعمال کی حددو اور قوانین وضع کرنا اور حقیقت بدعت اور گمرا ہی ہے اور بسا اوقات شرک کے زمرے میں آتا ہے۔اسی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ان الفاظ میں متنبہ فر ما یا ہے:
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد(71)
جو کو ئی ہمارے اس دین میں کو ئی نئی چیز پیدا کرتا ہے جو اس میں سے نہیں تو وہ رد کر دینے کے قابل ہے۔"
ایک روایت میں یوں آتا ہے ۔
مَنْ عَمِلَ عَمَلاً ليسَ عليه أمرُنا هذا فهو رَدٌّ
"جو کو ئی ایسا کا م کرتا ہے جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ رد کرنے کے قابل ہے۔(72)
درحقیقت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے معیار ہو نے کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت خاصہ کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو عقیدہ وعمل کے متعلق وحی الٰہی کی متعین کی ہو ئی حدودکا مل شعور اور پوری آگہی حاصل تھی ۔عمومی طور پر ان کا عقیدہ و عمل وہی تھا جس کے خطوط قرآن نے مقرر کئے تھے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاکرام علیہ السلام اور آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث فر ما یا ۔قرآن مجید نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو تمام قوموں پر گواہ بنا کر پیش کیا ہے ان کے عقیدہ و عمل کے شعور اور فہم کو لوگوں کے لیے معیار بنایا ہے چنانچہ قرآن مجید نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مخا طب ہو کر فرمایا :۔
﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا...١٣٧﴾...البقرة
"اگر وہ ویسا ہی ایمان لے آئیں جیسا تم ایمان لا ئے ہو تو انھوں نے راہ ہدایت پالی۔"
اگر ان میں عقیدہ اور ایمان کا شعور کا مل نہ ہو تا اور انھوں نے اپنے عقیدے اور ایمان کو اپنی زندگیوں میں نہ سمو یا ہو تو تو اللہ تعا لیٰ ان کی مانند ایمان لا نے والوں کو ہدایت یافتہ قرار نہ دیتا اور ان کو خالصایمان کی مثال کے طور پر دنیا کے سامنے پیش نہ کرتا ۔کسی صفت میں تشبیہ دینے کے لیے صرف اسی چیز یا معنی کو مشبہ بہ کے طور پر منتخب کیا جا تا ہے جس کے اندر یہ صفت مسلم ہو اور بدرجہ اتم پائی جا تی ہو۔گو یا کسی چیز میں اس صفت کی مقدار کا تصور دلا نے کے لیے مشبہ بہ کو پیمانے اور معیار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔تشبیہ کے ذریعے ہم مشبہ بہ میں اس صفت کی کثرت یا قلت کا تصور کر لیتے ہیں ۔
قرآن نے غیر مبہم اسلوب اور الفاظ میں یہ عقیدہ بیان کردیا کہ نفع و نقصان صرف اللہ تعا لیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔صحیح بخاری میں متعدد مقامات پر آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طواف کرتے ہو ئے بوسہ دیتے وقت حجر اسود کو مخاطب کر کے فر ما یا :
إِنِّى أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لا تَضُرُّ وَلا تَنْفَعُ وَلَوْلا أَنِّى رَأَيْتُ النَّبِى (صل الله عليه وسلم )يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ."مجھے علم ہے کہ تو محض ایک پتھر ہے تو کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہو ئے نہ دیکھا ہو تا تو میں تجھے ہر گز نہ چومتا(74)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بآواز بلند یہ بات کہنا درحقیقت قرآن کے متذکرہ بالا عقیدے کی تفہیم ہے یہ تفقہ اور فہم دین ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے حاصل ہواوہ شخص جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت حاصل نہ ہو ئی ہو۔ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ حجرا سود کی تعظیم اس لیے کی جا تی ہے کہ وہ کسی نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ غلط فہمی رفع کر دی ۔یہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل روایت کرنے کے ساتھ اس کی توضیح بھی کر دی ۔گویا یہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فہم معیار ہے اور ان کی یہ تفہیم بعد میں آنے والوں کے لیے حجت ہے ۔قرون متاخرہ میں کو ئی شخص طواف کے دوران حجرا سود کو چومنے کی کو ئی بھی توجیہ کرتا ہے تو وہ تو جیہ ہرگز حجت نہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اسی فہم اور تفقہ فی الدین اور قرآن مجید میں ان کے لیے ثنائے حسن کے بنا پر کسی مسئلہ میں ان کے اتفاق اور اجماع کو حجت تسلیم کیا گیا ہے اور اس بارے میں سوائے معدودے چند اہل بدعت کے کسی کو اختلاف نہیں ۔
آئمہ اربعہ اور دیگر آئمہ فقہ میں سے ہر امام کی فقہی آراء کی منہاج ان کے اپنے شہر میں موجود صحابہ و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فتاویٰ اور فقہی آراء پر مبنی ہے چنانچہ عام طور پر تمام فقہاء اور بالخصوص آئمہ اربعہ صحابی کے فتویٰ اور قول کو حجت قرار دیتے ہیں امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تو بہت کثرت سے فتاویٰ صحابی سے استناد کرتے ہیں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تو اہل مدینہ کے تعا مل کو محض اس لیے اہمیت دیتےہیں کہ مدینہ میں تمام شہروں سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین موجود رہے ہیں امام مالک کی کتاب "المؤطا" کا دوتہائی حصہ صحابہ کرام وتابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فتاوی ٰ پر مشتمل ہے اس طرح مصنف عبد لرزاق رحمۃ اللہ علیہ مصنف ابی بکر ابن ابی شیبۃ رحمۃ اللہ علیہ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی "المحلی "اور ابن قدامۃ کی "المغنی" فتاویٰ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سب سے بڑے ماخذ ہیں ۔
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معرکہ الاراء کتاب "علام الموقعین "میں جمہور فقہاء کے اس موقف کو چھیالیس (46) دلیلوں سے ثابت کیا ہے (75)جن کا ذکر یہاں ممکن نہیں ۔تا ہم علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کو نہایت عمدہ طریقے سے اور بہت خوبصورت اسلوب میں بیان کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اقوال سنت کے بہت قریب ہیں چنانچہ وہ ایک مقام پر رقم طرا ز ہیں۔"صحابی جب کو ئی بات کہتا ہے یا وہ کسی مسئلہ پر حکم لگا تا ہے یا پو چھنے پر کو ئی فتویٰ دیتا ہے تو وہ بعض مدارج فہم میں ہم پر فوقیت رکھتا ہے اور بعض مدارک ایسے ہیں جن میں ہم صحابی کے ساتھ اشترا ک رکھتے ہیں اور جس امر میں صحابی کو ہم پر فوقیت حاصل ہے وہ ہے صحابی کے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان قدسی سے اس بات کے سننے کا قوی امکا ن موجود ہونا یہ امکان بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے کسی اور صحابی کے تو سط سے یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخذ کیا ہو ۔کیونکہ ہمارے مقابلے میں ان کو انفرادی طور پر جو علم حاصل ہے وہ اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا احاطہ ممکن نہیں اگر چہ ان میں سے ہر ایک نے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا ہے وہ تمام روایت نہیں کیا ۔چنانچہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے جو احادیث روایت کی گئی ہیں ان کو اس علم سے کیا نسبت ہو سکتی ہے جو درحقیقت انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا ہو گا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سو (100)احادیث بھی روایت نہیں کی گئی ۔حا لا نکہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کبھی غیر حاضر نہیں رہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کو ئی بات ان سے چھپی ہو ئی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث کیا گیا اس وقت سے لے کر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے بلکہ بعثت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اس لیے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے یہی حال دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا تھا ۔۔۔لہٰذا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فتویٰ میں مندرجہ ذیل چھ صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہو گی۔۔۔"
اول:صحابی نے یہ بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنی ہو۔
ثانی:یا اس نے یہ بات کسی ایسے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے سنی ہو،
ثالث :اس نے اس فتوی کو کتاب اللہ کے کسی ایسے نکتہ سے اخذ کیا جوہم پر مخفی رہ گیا ہو
رابع: ہماری طرف صرف اسی قول کو منتقل کیا جن پر ان کا فتویٰ تھا اور جس پر ان کا اتفاق تھا ۔
خامس: لغت دلالت لفظ قرائن حال یا مجموعی اعتبار سے وہ جدان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طویل زمانہ تک مسلسل مصاحبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال ،احوال اور سیرت طیبہ کے مشاہدے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے سماع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد کے علم تنزیل وحی کے شہوداور اس وحی کی عملی تفسیر کے مشاہدے حاصل ہو نا بنا بریں صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کچھ سمجھ لیا جو ہم نہ سمجھ سکے ۔
سادس:اور چھٹی صورت یہ ہے کہ اگر صحابی کا فہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر مبنی نہ ہو یا کسی غلط فہمی پر مبنی ہو تو ایسا فرض کر لینے پر صحابی کا قول حجت نہ ہو گا تب اس کی اتباع بھی ضروری نہ ہو گا مگر یہ قطعی طور پر معلوم ہے کہ چھٹی صورت کی نسبت پہلی پانچ صورتوں کا احتمال غالب ہے اور کو ئی صاحب عقل اس بار ے میں شک نہیں کر سکتا اس لیے غالب اور قوی امکا ن یہی ہے کہ صحابی کا قول اور فتویٰ شریعت کے مطا بق اور درست ہواور اس کے برعکس بعد میں آنے والوں کا وہ فتویٰ جو صحابی کے فتویٰ کے خلاف ہے درست نہ ہو ۔(76)
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ اس چھٹی صورت سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ صحابی کا قول علی الاطلاق حجت نہیں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے " ارشاد الفحول " میں اسی چھٹی صورت پر زور دیتے ہو ئے صحابی کے قول کی حجیت کو رد کیا ہے (77)چنانچہ جب نہایت قوی اور علمی دلا ئل کے ذریعےیہ معلوم ہو جا ئے کہ صحابی کا فتوی ٰ اور قول کسی روایت کے بغیر یا کسی منسوخ حکم یا کسی کسی غلطی پر مبنی ہے تو اس صورت میں صحابی کے قول پر عمل کرنا ہم پر لازم نہیں ۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ایسے بہت سے فتاویٰ موجود ہیں جو ظا ہر سنت کے خلاف ہیں اور اس اختلاف کی وجہ وہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے اس خلا ف کی توجیہ میں علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ تحریر کر کے ان سے مخالفت سنت کا الزام رفع کیا ہے(78) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے معیار اور حجت ہو نے کے بارے میں وہی مسلک متعدل ہے جسے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدثین اور فقہاء نے اختیار کیا ہے ۔
دوسری صدی کے نصف اول میں بنوامیۃ کی حکومت کے خاتمے پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بارے میں روافض نواصب اور دیگر بدعتی گروہوں کی زبان طعن دراز ہو گئی ۔یہ گروہ منطق یونان کے جدید ہتھیارسے بھی مسلح ہو گئے لہٰذا ان کے عقائد سے لوگ متا ثر ہو نے لگے ۔تب اہل علم نے عقائد کے پہلو پر خصوصی توجہ دی ۔جمہور مسلمانوں کے عقائد کو منظم اور مرتب صورت میں پیش کرنے کی ابتدا کی۔ جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ موالات کے بارے میں خاص طور پر ایک باب بھی شامل کیا گیا غالباً اس موضوع پر لکھی جانے والی اولین کتاب "الفقہ الاکبر "ہے جس کو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا جا تا ہے اس کے بعد عقائد کی تو ضیح و تشریح میں اور کتابیں بھی تصنیف ہو ئیں۔محدثین کرام خصوصاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کی کتابوں میں عقائد کی احادیث کو مخصوص ابواب میں جمع کیا اور اہل سنت و حدیث کے عقائد کے لیے دلا ئل فرا ہم کئے تیسری صدی کے اواخر میں عقائدپر ایک کتاب تصنیف ہوئی جو تب سے اب تک تمام اسلام دنیا کے اکثر مدارس میں اسلامی عقائد کی تفہیم کے لیے شامل نصاب ہے یہ کتاب "العقیدۃ الطحاویۃ"ہے جسے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب کیا ہے ۔
اس تمہید کے بعدآئیے ہم دیکھیں کہ صحابہ کرام کے بارے میں سلف کا عقیدہ کیا تھا۔امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب( رضوان اللہ عنھم اجمعین ) سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی محبت میں افراط اورغلو سے کام نہیں لیتے اور نہ میں سے کسی سے براءت کااظہار کرتے ہیں جو ان سے بغض رکھتا ہے یا ان کو برائی سے یاد کرتاہے۔ہم اس سے بغض رکھتے ہیں ہم ان کو بھلائی سےیاد رکھتے ہیں ان سے محبت رکھنا دین،ایمان،اوراحسان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر،نفاق اور طغیان ہے"(79)
مذکورہ عبارت پرعقیدہ طحاویہ کے شارحین نے تقریباً وہی د لائل دیئے ہیں۔جنھیں گزشتہ طور میں پیش کیا جاچکا ہے۔ان کو بھلائی سے یاد کرنے اور ان کے بارے میں دل کو بغض اور کینہ سے صاف رکھنے کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾ ...الحشر
"اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے"
بنا بریں صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بارے میں ہمیشہ کلمہ خیر ہی کہنا چاہیے۔مستشرقین کے طرز واسلوب پر محقق بن کر ان سے کسی کو منافق،عیار،چالاک،سازشی اور اس قسم کے دیگر نازیبا کلمات کہنے سے کلی طور پر گریز کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ اس دور کا تاریخی مطالعہ محض مطالعہ تاریخ ہی نہیں بلکہ ان مقدس ہستیوں کے قول وعمل کے ساتھ ہمارے عقائد واعمال بھی وابستہ ہیں۔قرآن وسنت میں انہی کے توسط سے ملے ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو سب وشتم کا نشانہ بنانا:۔
صحابہ کرام کو سب وشتم اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا انتہائی درجے کی احسان فراموشی ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابیت کا انکار حقیقت قرآن کا انکار ہے ۔قرآن میں آتا ہے:
﴿إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا...٤٠﴾...التوبة
"جب اس نے(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنے ساتھی سے فرمایا:غم نہ کر،بے شک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔"
قرآن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابیت کی تصریح کرتا ہے۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب"الصارم المسلول على شاتم الرسول صلى الله عليه وسلم"(82) کے اواخر میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی شان میں سب وشتم کے احکام کےلئے ایک باب مخصوص کیا ہے۔چنانچہ وہ قاضی ابو یعلیٰ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے اس امر پر اجماع نقل کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پراس قذف کا اعادہ کرنا،جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کوبری قرار دیا ہے،کفر ہے۔
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صحیح ترین مسلک یہ ہے کہ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھن میں سے کسی پر بھی قذف لگانا کفرہے کیونکہ یہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اورسب وشتم کے مترادف ہے۔اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانا ہے۔(83) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا ر سانی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿٥٧﴾...الأحزاب
"جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے"
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالی دے اس کو کوڑے لگائے جائیں اور جو کوئی عائشہ طیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو گالی دے ،اس کی سزا موت ہے ۔(85) قرآن نے جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو"طیبہ"(پاک) کہا ہے۔چنانچہ فرمایا:
﴿الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَـٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ ...٢٦﴾...النور
"خبیث عورتیں خبیث مردوں کےلائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کےلائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کےلائق ہیں۔ ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وه ان سے بالکل بری ہیں،"
"لہذا ازواج مطہرات وطیبات کے بارے بدگوئی کرنا درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد گوئی کرنا ہے،یہ کفر اورارتداد ہے اور اس کی حد قتل ہے۔ایک دفعہ اہل بیت کے داعی حضرت حسن بن زید بن علی بن الحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں ان کی جماعت میں کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بد گوئی کی تو انہوں نے اسے قتل کروادیا اور فرمایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں طعن کیا ہے اور پھر یہ آیت پڑھی۔
﴿الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَـٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ ...٢٦﴾...النور
اس طرح ان کے بھائی محمد بن زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ایسے ہی بدگو شخص کو خود لٹھ مار کر ہلاک کیا۔(88)
ازواج مطہرات کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر سب وشتم کرنے والے کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کوڑے لگانے کا حکم دیا۔(89) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ مذہب ہے۔حضر ت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالی دینے والے کوکوڑے لگوائے تھے۔(90) وباللہ التوفیق وھو المستعان
حوالہ جات:۔
1۔مصباح الغات(عربی اردو) ص460۔مادہ صحب۔
2۔ تیسر مصطلح الحدیث ڈاکٹر محمود طحان ص197 تدریب الراوی للسیوطی 209/2۔
3۔الباعث الحثیث ص179۔فتح الباری 3/7توضیح الافکار(محقق محی الدین عبدالحمید کاتحقیق نوٹ) 2/437۔
4۔الباعث الحثیث ص180۔تدریب الراوی 2/211۔
5۔الباعث الحثیث ص180۔
6۔صحیح البخاری مع فتح الباری 3/7۔
7۔صحیح البخاری 3/7
8۔ صحیح البخاری 3/7
9۔ صحیح البخاری 21/7
10۔البقرۃ۔143۔11۔آل عمران 110۔12۔لسان العرب مادہ عدل۔
13۔الانعام ۔152۔14۔البقرہ۔123۔15۔الانعام۔1۔16۔الانفطار ۔7۔
17۔الباعث الحثیث ص 93۔18۔الفتح 290۔19۔الحشر ۔8۔
20۔الحشر ۔9۔21۔التوبہ 100۔22۔الفتح 18۔23۔التوبہ ۔72۔
24۔التوبہ 20۔21۔25۔التوبہ۔88۔89۔26۔الانفال 74۔
27۔الانفال۔75۔28۔الانفال۔72۔29۔مسند الامام احمد(بتحقیق احمد محمد شاکر) حدیث رقم 3321۔وغیرہ۔30۔مسند الامام احمد حدیث رقم 6650م۔وغیرہ۔31۔اخبار مکہ۔2/153 للازرقی۔32۔اخبار مکہ 2/155۔
33۔البقرۃ۔137۔34۔الحجرات۔7۔35۔الاحزاب۔22۔36۔الاحزاب۔33۔
37۔تفہیم القرآن 4/93۔38۔صحیح البخاری مع فتح الباری 7/374)۔
39۔آل عمران۔173۔174۔40۔صحیح البخاری 7/373۔41۔توضیح الافکار 2/436۔441۔43۔توضیح الافکار۔2/443۔44۔فتح الباری (مقدمہ) 14/459۔45۔صحیح البخاری 7/230۔سیرۃ ابن ہشام 2/126۔طبقات ابن سعد 1/1 البدایہ۔والنھایہ 3/174/زاد المعاد 2/136۔جوامع لسیرۃ ص90۔46۔سیر ۃ ابن ہشام 2/130۔47۔صحیح البخاری 7/232۔48۔صحیح البخاری 7/232۔49۔الالصابۃ فی تمیزالصحابہ 4/230۔50۔صحیح البخاری 9/10۔51۔صحیح البخاری 9/10۔کتاب المصاحف لابن ابی داود رحمۃ اللہ علیہ ص5 تاص8 الاتقان 1/57۔52۔صحیح مسلم (مع شرح النووی) 2/21۔53۔صحیح مسلم6/177۔54۔صحیح مسلم 7/63۔55۔صحیح مسلم 9/135۔
56۔صحیح مسلم 9/127۔57۔صحیح مسلم 9/188۔
58۔صحیح البخاری (مع فتح الباری) 10/385۔59۔صحیح البخاری 13/9۔60۔فتح الباری 10/277۔61۔صحیح مسلم 14/134۔
62۔فتح الباری 13/454۔63۔الباعث الحثیث 183 وغیرہ۔
64۔الباعث الحثیث 183۔وغیرہ۔65۔الباعث الحثیث 184۔وغیرہ۔66۔المحلی لابن حزم 1/44۔
67۔الحدید۔10۔68۔الانبیاء۔101۔69۔یونس۔26۔70۔الرعد۔18۔71۔صحیح البخاری 5/301۔وغیرہ۔
72۔صحیح البخاری 13/317۔ 73۔البقرہ۔137۔
74۔صحیح البخاری 3/462۔75۔اعلام الموقعین 4/123 وغیرہ۔76۔اعلام الموقعین 4/148۔77۔ارشد الفحول الی تحقیق الحق من علم الاصول ص 243۔
78۔اس ر سالہ کا نام"رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ہے۔اس کے علاوہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیفات میں بے شمار مقامات پر اپنے اس موقف کو دہرایا ہے۔
79۔العقیدہ الطحاویہ ص528۔80۔الحشر۔10۔81۔التوبہ۔40۔82۔الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔565۔واضح رہے"الصارم المسلول" اولین باقاعدہ تصنیف ہے۔ جو شاتم رسول کی سزائے موت کے موضوع پر لکھی گئی ہے
83۔الصارم المسلول۔567۔
84۔الاحزاب۔57۔85۔الصارم المسلول۔566۔86۔النور 26۔
87۔ الصارم المسلول۔566۔
88۔ الصارم المسلول 567۔89۔الصارم المسلول۔567۔
90۔الصارم المسلول 569۔