مالا کنڈ میں نفاذ شریعت کی حقیقت
گذشتہ دنوں مالا کنڈ ڈویژن (سوات دیر ،چترا ل ) کو ہستا ن (ہزارہ وغیرہ صوبہ سرحد کے بعض ریا ستی علاقوں میں نفاذ شریعت کی تحریک کا ایک غلغلہ اٹھا تو اسے قومی اور بین الاقوامی میڈیانے نما یاں حیثیت دی بالآخرگو رنر اور حکومت سر حد نے ایک نوٹیفکیشن مجریہ یکم دسمبر 1994ءکے ذریعے "نفاذ شریعت ریگولیشن " کا اعلا ن کر کے وقتی طور پر اس تحریک کا خاتمہ کر دیا ہے ہم اپنے ادارتی کالموں میں ادارہ محدث کے فاضل رکن ڈا کٹر محمود الرحمٰن فیصل کا اس پر ایک جا ئزہ شائع کر رہے ہیں جس کی تمہید میں چند گذارشا ت بطور یا د دہانی ہدیہ قارئین ہیں ۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت غالباً 1975ءمیں جا ری پا ٹا ریگو لیشنز:۔
“(Provincially Administered Tribal Areas Regulations)”
جیسے ظا لمانہ نظا م کے خلا ف بنیا دی انسانی حقوق کے منا فی قرار دلوانے کی آئینی جنگ وہاں کے وکلاء نے پہلے سر حدی ہائی کورٹ میں جنا ب آفتا ب شیر پاؤ مرحوم کے دور میں جیتی پھر اس فیصلہ کے خلا ف(پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے) سپریم کو رٹ آف پاکستا ن میں دائرہو جا نے پر بالآخر 12فروری1994ء کو "پاٹا"کے غیرآئنی ہونے کی عدالت عظمیٰ سے تو ثیق حاصل کی۔ لیکن واضح رہے کہ "پاٹا " کے ظالما نہ ہونے پر ما لا کنڈ کے عوام علمائے دین اور انگلو میکسن لا ز کے پروروہ اصحاب کے اتفا ق کے باوجود دونوں کا مثبت مطا لبہ ایک نہیں تھا ۔علمائے دین جس کے ہم آواز وہاں کی تحریک میں حصہ لینے والے عوام بھی ہیں اس ظلم کے ختم ہو جا نے پر " شریعت محمد یہ "کی علمداری کی امید لگا ئے بیٹھے تھے اور اس چین و سکون کی آس میں قربانیاں دینے پر آمادہ ہیں جبکہ وکلا ء کا ایک طبقہ جذبا تی مسلمان ہو نے کے باوجود شریعت کی عالمگیرت اور سادگی کے فہم سے قاصر مروجہ قانون کے گورکھ دھندوں کا عادی ہو چکا ہے لہٰذا شریعت کے بارے میں کو ئی ٹھوس موقف اختیار کرنے کی صلا حیت نہیں رکھتا ۔لہٰذا مطا لبوں کی تعمیل پر مشتر کہ دباؤ بھی تیار نہ ہو سکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری بیور و کریسی نے جو ہا تھی کے دا نت دکھا نے کی ماہر ہے ۔عوام کی آواز کو اس طرح خاموش کرانے کی سازش کی ہے کہ پاکستا ن میں نافذ شریعت کی نام نہاد برکات مالاکنڈ ڈویژن میں منتقل کر کے حکوم نے گویا تحر یک سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا ہے یعنی مالا کنڈ ذویژن وغیرہ میں بھی نفاذ شریعت ریگولیشن کے تحت بیور و کریسی کے تر تیب شدہ ان بائیس (22)اسلامی قوانین کا دائرہ کا ر بڑھا دیا گیا ہے جن میں 14ضیا الحق کے دور میں اور 6نواز شریف دور میں تشکیل پا ئے تھے ان قوانین کی خدائی برا کا ت سے پاکستان تو امن وآشتی کا جس طرح گہوارہ بنا ہوا ہے اس کا شعور تو دانشوروں کے علاوہ عام آدمی بھی رکھتا ہے تا ہم بیور و کریسی کے اصل گو رکھ دھندوں کی معرفت تک رسائی بہت کم لو گوں کو ہے اس سازش کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ما لا کنڈ کے عوام کو چپ کرانے کے ساتھ ساتھ اسلام پسندوں کو بھی جو تا دکھا یا گیا ہے کہ یہ ہے وہ اسلام جس کی وجہ سے تم ضیا الحق اور نواز شریف کو ہم پر ترجیح دیتے ہو حالا نکہ ظا ہر ہے کہ دینی حلقے نواز شریف سے بھی صرف اسی لئے نا لا ں ہیں کہ وہ بھی اللہ کے دین کے بجائے امریکہ کی خوشنودی کا زیادہ خیا ل رکھتا رہا ۔یہ الگ مسئلہ ہے کہ امریکی ان داتا اس کی خود کفالت کی پالیسی کے جرم کو معاف نہیں کر سکتا تھا ۔بہر صورت سطور ذیل میں پاکستا ن کی سنتا لیس (47) سالہ تاریخ سے چند اسلامی اعلانات کے روشن نام کے بالمقابل انہی قوانین کے ان تاریک پہلوؤں کی ایک ہلکی سی جھلک دکھا نے کی کو شش کی گئی ہے۔ درحقیقت ان قوانین کا یہ داخلی پہلو جو اس بیور و کریسی کے ہا تھ کی صفا ئی کا مرہون منت ہے جو ہر اسلامی قدم کو بھی اسلام کے خلا ف ایک روکا وٹ بنا دینے کی ما ہر سے مگر اسلام پسندوں کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ اسلام کے نام پر جا ری کردہ قوانین کی بھی مخالفت کریں تو گو یا وہ الفا ظ و تعبیر کے گنجھلک مسائل میں ہی الجھ کر رہ جا ئیں جن سے عوام کے پریشر کا کو ئی تعلق نہیں ہو تا مالاکنڈ میں بھی بھٹو دور میں عوامی تحریک کا جواب پا ٹا ریگولیشن سے دیا گیا تھا اور آپ "پا ٹا" کے خا تمہ کی تحریک کا جواب پاکستا ن کے نام نہاد شرعی قوانین سے دیا جا رہا ہے حا لا نکہ قبا ئلی علاقہ (ٹرا ئیل ایریا) کو جو تحفظا ت حا صل تھے ۔جس کی بنا پر وہ سر ما یہ دار انہ نظا م کی بعخ قبا حتوں سے بھی بچے ہو ئے تھے اسی طرح پاکستا ن کا بدنام زما نہ مسلم عائلی قانون1961ء بھی وہاں نافذنہ تھا اب ان سے نفا ذ شریعت کے وعدہ کی تکمیل کے طور پر انہیں مسلم عائلی قوانین کا تحفہ بھی دے دیا گیا ہے پھر کہا جائے گا کہ ہمارے وعدوں کی تکمیل کے باجود "شرپسند " عوام کو بغا وت پر اکساتے ہیں اللہ تعا لیٰ ہمارے حا ل پر رحم فر ما ئے ۔۔۔۔۔(ادارہ)
پاکستان میں نفا ذ شریعت کی تاریخ نئے باب میں دا خل ہو چکی ہے ۔سرحد حکومت کے ایک نوٹیفکیشن کے مطا بق ملک میں نا فذ چند ایک شرعی قوانین کا اطلاق اب مالا کنڈ ڈویژن پر بھی ہو کا وہاں مقرر کردہ حج حضرا ت "تحصیل قاضی "کہلا ئیں جن کی سربراہی "ضلع قاضی " کریں گے اس طرح مسلم عائلی قوانین قانون شہادت قصاص ودیت زکوۃ عشر اور حدود آرڈنننیسزکے علاوہ نفا ذ شریعت ایکٹ 1991ء کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے حا لا نکہ اس مو ضوع پر ایک کھلی بحث جاری ہے شریعت کو رٹ ان قوانین کا جا ئزہ لے کر متعدد دفعات کو خلا ف اسلام قرار دے چکی ہے جبکہ کچھ دفعات کا تعین ابھی باقی ہے ۔قاضی عدالتوں میں ان قوانین کے مطا بق فیصلے ہو نے پر مزید کئی گو شے بے نقاب ہوں گے اور ان کا حسن وقبح واضح ہو کر سامنے آ جا ئے گا ۔قیام پاکستا ن کے بعد سب سے پہلے عائلی قوانین کے شعبہ پر طبع آزمائی ہو ئی 1956ءمیں "شادی اور عائلی قوانین" کے نام سے جو سر کا ری کمیشن قائم کیا گیا اس میں زیادہ تعداد سیکولر حضرات کی تھی کمیشن کا قیام مغرب زدہ خواتین کی دلجوئی کے لیے کیا گیا تھا جس کے ارکان میں چیر مینکے علاوہ تین حضرات اور تین بیگمات تھیں ان تین مردوں میں علماء کی نمائندگی مولانا احتشا م الحق تھا نوی کر رہے تھے انھوں نے اپنے اختلا فی نو ٹ میں تحریر کیا :
"حیرت ہے کہ ہزاروں لا کھوں مظلوم خواتین کی مشکلات پر تو کسی قسم کا جذبہ رحم آج تک پیدا نہیں ہوا اور دوسری بیوی کے مسئلہ پر فوراً کمیشن وجود میں آگیا"
"کمیشن کی بے راہی" بیان کرتے ہو ئے انھوں نے آیت قرآنی کے ترجمہ و تفسیر کو توڑ مروڑکر پیش کرنے کی مذمت کی۔ اور عورتوں کی طرف سے مطا لبہ طلا قہ (خلع ) کے بارے میں انھوں نے لکھا :
"قانون انفساخ نکا ح مسلمین 1939ء جو مسلمانوں کو برطا نوی دور حکومت میں پرسنل لا ء کے طور پر دیا گیا تھا وہ قطعی طور پر ناقا بل اصلا ح ہے۔ مسلمان ممبرا ن کی دین سے ناواقفیت اور ہندوؤں کی مدا خلت کی وجہ سے اس ایکٹ کی دفعا ت میں اسلامی حیثیت سے تشنگی بھی ہے اور قطع و برید بھی جس کی وجہ سے وہ ناقابل عمل ہے مثا ل کے طور پر انفساخ نکا ح کی بعض صورتیں قانونی طور پر جائز قرار دی گئی ہیں جو شریعت اسلامیہ کی روسے جا ئز نہیں ہیں گو یا ایک عورت اس ایکٹ کی روسے بذریعہ عدالت شوہر کے نکا ح سے الگ ہو گئی اور اس نے دوسرے مرد سے نکا ح بھی کر لیا لیکن شرعاً وہ پہلے شوہر کے نکا ح سے الگ نہیں ہو ئی اس کا دوسرا نکا ح بھی شر عاً جا ئز نہ ہو گا ۔"
آخر میں شریعت کو کا مل طور پر نا فذ کر نے کی کو سفارش کرتے ہو ئے انھوں نے لکھا :"اسلامی نظا م معا شرت ایک مکمل نظا م ہے اس کو قبول کرنا ہو گا تو بھی تمام و کمال اور رد کرنا ہے تو بھی مکمل طور پر ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ...٨٥﴾...البقرةپر عمل کرتے ہو ئے اس نظام کے کچھ اجزا لے لینا اور کچھ اجزا ء چھوڑ دینا کسی طرح ممکن نہیں ۔کمیشن کی یہ رپورٹ اس قسم کی ایک ناز یبا کو شش ہے اس لیے شرعاً عقلاً ہر لحا ظ سے کلی طور پر مسترد کر دینے کے قابل "مولانا کی مخلصانہ اختلا فی را ئے سے متا ثر ہو ئے بغیر ارباب اختیار نے مسلم عائلی قوانین کے نام سے ایک آرڈیننس 1961ء میں نا فذ کردیا اس سے قبل عدالتیں اس اصول کے مطا بق فیصلے کرتی آئی تھیں کہ عورت شوہر کی مرضی کے بغیر خلع کرا سکتی ۔
جسٹس اے ،آر کا ر نیلیس جسٹس محمد خا ں اور جسٹس خورشید زمان نے سعید ہ خانم بنا م محمد سمیع (پی ایل ڈی لا ہو ر 1952ء ) میں یہی مو قف اختیار کیا کہ شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع نہیں ہو سکتا اور محج اختلاف مزاج ناپسند یدگی اور نفرت کی بنا پر عدا لت نکا ح کو فتح نہیں کر سکتی لیکن اس کے بعد 1959میں لا ہو ر ہا ئی کورٹ اور 1967ء میں سپریم کو رٹ نے ایسے مقدمات میں سر کا ری مو قف اختیار کر لیا ۔اس پر تنقید کرتے ہو ئے جسٹس محمد تقی عثمانی نے لکھا :"ہماری تحقیق کی حد تک امت اسلامیہ کے تقریباً تمام فقہاء مجتہدین اس بات پر متفق ہیں اور قرآن وسنت کے دلا ئل بھی اس کی تا ئید کرتے ہیں کہ خلع فریقین کی با ہمی رضا مندی کا معاملہ ہے اور کو ئی فریق دوسرے کو اس پر مجبور نہیں کر سکتا "(پی ایل ڈی 1967ءسپریم کو رٹ ) انھوں نے دلیل کے طور پر اس آیت کو پیش کرتے ہو ئے ۔۔۔﴿وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ ...٢٢٨﴾...البقرة
"اور مردوں کا ان (عورتوں ) کے مقابلہ میں کچھ درجہ بڑھا ہوا ہے ۔"
۔یہ استدلال کیا کہ طلا ق اور رشتہ نکا ح کو ختم کرنے کا عام طور پر مکمل اختیار صرف مرد کو ہے انھوں نے دیگر فقہاء سے اتفا ق کرتے ہوئے صرف پانچ صورتوں میں جج کو میاں بیوی کے درمیان علیحد گی کا اختیار دیا ہے ایک اس وقت جب شوہر پاگل ہو۔ دوسرے جب وہ نان و نفقہ ادا نہ کرتا ہو۔تیسرے جب وہ نامرد ہو۔ چوتھے جب وہ بالکل لا پتہ ہو گیا ہوا اور پانچویں جب غائب غیر منقود ( طویل قید) کی صورت ہو۔
اسلامی نظر یا تی کو نسل نے مسلم عللی قوانین پر اپنی رپورٹ میں مذکور ہ قانون کی مختلف شقوں پر تنقید کرتے ہو ئے اصلا ح کی تجا ویز پیش کیں اور اس ضمن میں احکا مات الٰہی سے صریح رد گردانی کی نشا ندہی ان الفاظ میں کی۔
"ہماری عدالتوں میں حکم مقرر کئے جا نے کا طریقہ را ئج نہیں ہے۔ اگر حکم قرآنی۔ ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ﴿٣٥﴾...النساء
۔۔۔۔کے پیش نظر حکم مقرر کر دئیے جا ئیں جو دریا فت حا ل کے بعد عدالت کو اپنی رپورٹ پیش کریں اور عدا لت س رپورٹ کی رو شنی میں منا سب فیصلہ کرے تو زوجین کے تعلقات میں اصلاح کا زیادہ امکا ن ہو گا ۔"
اسی طرح مصالحتی کونسل کے ذریعہ پہلی بیوی سے اجا زت لیے بغیر شادی کرنے پر ایک سال قید یا پانچ ہزار روپے تک جرما نہ یا دونوں سزاؤں کے نفاذ کو نہ صرف اسلامی نظر یا تی کو نسل بلکہ تمام مکا تب فکر کے علماء نے منشائے قرآنی کی خلا ف قرار دیا ہے جس میں تعدد ازدواج کی اجا زت دی گئی ہے اور بیویوں کے درمیان انصاف کا حکم دیا گیا ہے بصورت دیگر ایک بیوی پر اکتفا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ...٣﴾...النساء
"اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرو۔"
لیکن انصاف کر سکنے یا نہ کر سکنے کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق صرف کاوند کو دیا گیا ہے کسی عدالت یا کونسل کو نہیں۔
عائلی قوانین پر چند اعتراضات یہ تھے کہ ابتداء میں ان کی تنقید سے قبائلی علاقے مستثنیٰ قراردئیے گئے تھے۔اب مالاکنڈ میں نفاذ کے باوجود ،ہمسایہ ایجنسی باجو ڑان کی تنقید سے محروم ہے فیملی کو رٹس ایکٹ کی روسے جج کا مسلمان ہو نا ضروری نہیں تھا اور اس کے تحت کسی کاروائی میں قانون شہادت اور ضا بطہ دیوانی کا طلا ق بھی ضروری نہیں تھا رجسٹرشدہ نکا ہوں کے جواز کو فیملی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا اب صورت حال یہ ہے کہ خلع کی بنیا د پر طلاقوں کی بھر مار ہو چکی ہے فیملی کورٹس جو منا ظر پیش کر رہی ہیں ان کی روسے ثقافتی طور پر پاکستان کو یورپ کا ہم پلہ بنا نے کی کو شش کی جا رہی ہے ایک را ئے کے مطا بق :
"ایسا محسوس ہو تا ہے کہ حکومت غالباً خواتین کے ایک طبقہ کی جا نب سے مخالفت کے اندیشہ کے پیش نظر عائلی قوانین مجریہ 1961ءکے بارے میں کو نسل یا وزارت قانون کی سفارشات پر عمل پیرا نہیں ہو نا چا ہتی "(رپورٹ اسلامی نظر یا تی کو نسل مسلم عائلی قوانین :صفحہ 41)
اس سلسلہ میں وزارت مذہبی امور نے اپنے مرا سلہ مؤرخہ 27جنوری 1980ء کے ذریعہ جن الفاظ میں تبصرہ کیا ہے اسلامی نظر یا تی کو نسل نے اپنی رپورٹ میں انہیں اس طرح شائع کیا ہے ۔
"مسلم عائلی قوانین کا آزادی نینس 1961ء قطعی طور پر غیر اسلامی ہے ۔یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے اس میں ارتد کی حد تک قرآنی قانون میں تر میم کی جرا ت کی گئی ہے ۔اس کا باقی رکھنا ایک الزام ہے۔ یہ ایک دھبہ ہے سیاہ دھبہ اسلام کے روشن چہرے پر اور ہمارے ملک کے چہرے پر ایسے قانون بلکہ اس کے بام کو بھی باقی نہیں رہنا چا ہیے ۔ہمیں چا ہیے کہ اس قانون کو یکسر منسوخ کر کے اس دھبے کو قطعی طور پر صاف کر دیں ۔قانون شریعت کے فوائد پر نظر ڈا لی جا ئے تو معلوم ہو گا کہ اسے وضعی قوانین پر فوقیت حاصل ہے ۔صدیوں کے تعامل کی وجہ سے شریعت مستقبل کی بہتر رہنما ئی کر سکتی ہے اسے اعلیٰ اخلا قی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے شارع نے انسانی فطرت و جبلت ،ذہنی رجحا نات اور فکری میلا نات کے علاوہ انسانی کمزوریوں اور مجبوریوں کو مد نظر رکھا ہے انسانی مساوات کو لا زمی قرار دے کر تقویٰ کو فضیلت کی بنیا د بنا یا ہے تا کہ وہ کا ئنا ت پر حکمرانی کر سکے ۔دور جہالت میں انسان اجرام فلکی اور دیگر مخلوقات کو خدا سمجھ کر ان سے مرعوب تھا اسلام کے نظر یہ تو حید نے باطل خداؤں کا سحر توڑ دیا۔ انسان انجا نے خوف اور مرعوبیت سے آزاد ہو کر کا ئنا ت کے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھانے لگا اور سائنس اور ٹیکنا لو جی کے میدا ن میں معجزانہ طور پر ترقی کی منازل طے کر گیا ۔شریعت نے انسان کو جبروا کراہ سے نکا ل کر عقیدہ کی آزادی بخشی ۔امر بالمعروف اور انہی عن المنکر کے ذریعہ معاشرے کو پر سکون بنا کر امن و امان کے قیام کے لیے احتساب کا فریضہ سر انجا م دیا ۔شورائیت پر مبنی نظام حکومت عطا کرنے کے علاوہ اختلا ف کی صورت میں حکم الٰہی سے رہنما ئی حاصل کرنے کا اصل طے کیا ۔
شرعی اصولوں کو بالا ئے طا ق رکھتے ہو ئے پاکستان میں قصاص ودیت آرڈیننس نافذ کیا گیا لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود اسے پارلیمنٹ پاس نہ کر سکی ۔لہٰذا اس قانون کے تحت دی جا نے والی سزائے موت معطل ہے ۔انگریزی اور اسلامی قوانین کو ملا کر ایک ملغوبہ تیار کر دیا جس سےبے شمار پیچیدگیاں پیدا ہو ئی ہیں ۔مقدمات اور اپیلوں کے فیصلے غیر معمولی تا خیر سے ہو تے ہیں مقتول کے ورثا ء پر ناجائز دباؤ ڈا لا جا تا ہے کہ وہ قاتل کو معاف کر دیں ۔اس بلیک میلنگ کا مناسب سد باب نہیں کیا گیا ۔آرڈیننس کے دیگر حصوں کے علاوہ اس کی بنیاد ی دفعہ 302میں اسلامی اصولوں سے خوفناک حد تک رو گردانی کی گئی ہےشہادت کی روسے اگر ملزم کے خلا ف قصاص ثابت نہ ہو تب بھی اسے تعزیر اموت یا عمر قید کی سزا سنادی جا تی ہے۔25سال قید کی سزا بھی قصاص میں رکھی گئی ہے حا لا نکہ قرآن کی روسے موت کی سزا صرف دو صورتوں میں دی جاسکتی ہے ۔جان کے بدلے جان یا فساد فی الارض ۔اس کے علاوہ سزائے موت کی اجازت نہیں دی گئی ۔
اسلام میں اکثر سزا ئیں بد نی یا مالی طور پر نقد سزا کے طور پر وارد ہو ئی ہیں ۔قید و بند کی اس لیے حوصلہ شکنی کی گئی ہے کہ اس سے ملزمان کو زندہ در گور کرنے اور اس کے لواحقین کو مستقل کرب میں مبتلا رکھنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ۔جیل خانوں کا وسیع نظا م در حقیقت شریعت سے گریز کا نتیجہ ہے تعزیر ایک ایسی سزا ہے جسے حدود کی طرح متعین نہیں کیا گیا ۔یہ اصلا ح اور زجر کے لیے بطور تادیب دی جا تی ہے اور حد کے مقابلہ میں نر م تر ہو تی ہے قتل عمد کے مقدمات میں امام مالک کے نزدیک اگر مجرم کو سزائے اصلی یعنی قصاص کی سزا نہ دی جا سکے تو دیت کے علاوہ مجرم کو صرف ایک سال قید اور سو کوڑوں کی سزا بطور تعزیر دی جا سکتی ہے حنفی ،شافعی اور حنبلی فقہاء کے نزدیک کسی وجہ سے اگر قصاص ساقط ہو جا ئے تو قاتل کو موت کی سزا دینے کی بجا ئے اس کی اخلا قی شہرت اور جرم کی نوعیت کے مطا بق تعزیر کی سزادی جا سکتی ہے (مواہب الجلیل: ج6ص268)
حدود آرڈیننس میں بھی خامیاں ہیں اور سزائیں غلو کی حد تک زیادہ رکھی گئی ہیں رجم کا معاملہ اختلا فی ہو نے کی بنا پر اس سزا پر عمل در آمد نہیں ہو سکا ۔شراب اور دیگر منشیات کے استعمال اور نقل و حمل کی سزا جو پہلے ہی زیادہ تھی اب سزا ئے موت تک بڑھا دی گئی ہے ۔خود مغربی ممالک میں ان جرائم کے لیے اتنی سخت سزائیں نہیں ہیں حدودکے مقدمات میں پو لیس کو وسیع اختیارا ت حا صل ہیں جن کے تحت وہ مقدمات کو مطلوبہ رنگ دینے اور بے گنا ہوں کو ملوث کر کے مختلف دفعا ت لگا نے میں آزاد ہے ان قوانین کے غلط استعمال کی مثالیں قومی پریس میں شائع ہو تی رہتی ہیں ۔
ایک واقعہ کے مطا بق ایک مرد نے عورت کے والدین کی اجازت کے بغیر اس سے شادی کر لی ۔حنفی فقہ آزاد عورتوں کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجا زت دیتی ہے جبکہ غلا م عورتوں کے ورثاء سے اجازت لینا ضروری ہے مذکورہ واقعہ میں عورت کے ورثاء نے مرد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا ۔ایڈیشل سیشن جج نے سماعت کے بعد دونوں کو حددود آرڈیننس کی رو سے سزا سنا دی ۔مرد کو رجم کی اور عورت کو سو کوڑوں کی۔ شریعت کورٹ میں اپیل کرنے پر ان کی سزا معاف ہو گئی اور مقدمہ کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا گیا ۔سپریم کورٹ نے بھی کیس خارج کر دیا ۔کیونکہ دونوں کی شادی شریعت کے اصولوں کے مطا بق ہو ئی تھی(دی نیوز :20نومبر 1994ء)
اس دوران میاں بیوں کو سالہا سال تک جس قید و بند ہتک عزت اور مالی نقصان کا جو سامنا کرنا پڑا اس کی تلافی موجودہ نظا م میں ممکن نہیں یہ سلسلہ مستقل طور پر جاری ہے کہ عدالتیں سخت سزا سناتی ہیں جو شریعت کورٹ میں اپیل کرنے پر معاف ہو جا تی ہے اس میں تخفیف کر دی جا تی ہے ،یا معطل ہو جا تی ہے جو لوگ مقدمہ یا اپیل کے اخراجات برداشت نہ کر سکتے ہوں ان کے لیے سزا بھگتنے کے سوا کو ئی چارہ نہیں ۔
وفاقی شرعی عدالت جن قوانین کو غیر اسلامی قرار دیتی ہے حکومت اس پر عملدر آمد کرنے کی بجا ئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دیتی ہے تاکہ زیادہ مہلت حاصل کر سکے ۔اس طرح سالہا سال تک معاملات کھٹائی میں پڑے رہتے ہیں یہی تا خیری حربہ سود کے خلا ف دیئے جا نے والے فیصلے کے بارے میں استعمال کیا گیا ۔راقم الحروف کی طرف سے جلد سماعت کی درخواست کے باوجود سود کی اپیل کی سماعت نہ ہو سکی ۔یہ مطا لبہ بھی پیش کیا کہ شریعت اپیلوں کو قومی سیاسی مقدمات کی طرح روزانہ سماعت کے ذریعہ ہنگا می بنیا دوں پر نمٹایا جا ئے ۔سینٹیر پروفیسر خورشید احمد نے اس تلخ حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہو ئے لکھا ۔
"وفاقی شرعی عدالت اور اس کے فیصلوں کے ساتھ حکومت کا رویہ نیا نہیں جتنے ہم فیصلے وفاقی شرعی عدالت نے آج تک کئے ہیں اس میں سے تقریباً80 فیصدی پر حکومت اپیل میں گئی ہے حکومت نے شریعت کی منشاکو کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی اس پر عملدرآمد کے طریقوں کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے اس نے فوراً سپریم کورٹ کا راستہ اختیار کیا اور پھر جن چیزوں کا سپریم کورٹ نے فیصلہ کر دیا ان کے بارے میں بھی اس نے قانون کی تبدیلی کے لیے یا آخری دن کا انتظا ر کیا یا آخری دن بھی وہ کا م نہیں کیا ۔"(ہفت روزہ ایشیاء لاہور :14مارچ 1992ء)
ان تا خیری حربوں کا سامنا پوری امت مسلمہ کو ہے ۔مسلم قومی حکومتیں محض چند رسوم کی حد تک اسلام کو اپنا کر اس کی اصل تنقید کی راہ میں رکاوٹ بن کر محاذ آرائی میں اضا فہ کا باعث بنی ہیں مغربی استعمارا ور اس کی نئی تہذیب کی چکا چوند نے ان کے اعصاب کو شل کر دیا ہے آیت اللہ خمینی نے اس پر اپنی تشویش ظا ہر کرتے ہو ئے کہا تھا :
"امپیریلزم کی کوشش یہ ہے کہ یہ صرف نماز روزہ کرتے رہیں اور ہماری زندگی میں اسلام صرف عبادات تک محدود رہے تا کہ ہمارا اس سے کبھی سیاسی ٹکراؤنہ ہو۔امپیریلزم ہم کو دعوت دیتا ہے کہ ہم نماز پڑھتے رہیں جتنا اور جس قدر چا ہے صبح و شام اور ہمارے پٹرول پر اس کا قبضہ رہے ہماری نماز سے اس کا کو ئی نقصان نہیں ہے اگر ہمارے بازار اس کے مال کے لیے ہمارا سر ما یہ اس کے تاجروں کے لیے اور مصنوعات کے لیے وقف ہو اس لیے حملہ آوروں نے اپنے قوانین اپنا نظا م حیا ت ہم پر تھوپ دیا اور ہم کو یہ بھلا وا دیا کہ اسلام زندگی کے لیے ناقابل عمل ہے وہ ہمارے سماج کی اصلا ح نہیں کر سکتا ہے وہ کو ئی حکومت نہیں چلا سکتا ہے اسلام ان کے نزدیک حیض کے مسائل ،میاں بیوی کے ازدواجی رشتہ اور اس طرح کے چند مسائل کا نام ہے ۔(مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش مولانا ابو الحسن علی ندوی ص193ء)
ہمارے ہاں زکوۃ و عشر آرڈیننس اصل شریعت کو مسخ کر کے اور اس کا مثلہ بناکر پیش کیا گیا بعض مکا تب فکر کو زکوۃ کی ادائیگی سے مستثنیٰ قراردینے کا خدا ئی حکم اپنی صوابدید پر جاری کیا گیا اصل نصاب ساڑھے ساتھ تولے سانا کی بجا ئے ایک تو لہ سے بھی کم قیمت پر زکوۃ کاٹی گئی مال پر پورا ایک سال گزرنے کا انتظار نہیں کیا جا تا ۔بینک میں ایک روز قبل رکھی گئی رقم پر بھی زبردستی زکوۃ وضع کر لی جا تی ہے اس بنا پر لوگ مروجہ نظا م سے متنفرہو چکے ہیں اور بینکوں سے اپنی رقوم نکلوالینے کو ترجیح دیتے ہیں زکوۃ کی تقسیم میں اقرباپروری اور امتیازی سلوک جیسی بے اعتدالیاں کی گئیں ۔اس کے وسائل کو کم پاکر ایک اور محکمہ بیت المال کے نام سے کھول کر من پسند افراد کو لٹا دیا گیا ۔ایک ڈرامہ شریعت بل کے نام پر چلا یا گیا جسے پارلیمنٹ نے نفاذ شریعت ایکٹ کے طور پر پاس کر دیا اس میں اس قدر خامیاں تھیں کہ وفاقی شرعی عدالت نے اس کی تین بنیا دی دفعات کو منسوخکرنے کا حکم دے دیا ان دفعات میں قرآن و سنت کی بالادستی کے خوشنما الفاظ استعمال کرتے ہوئے نظا م حکومت سیاست اور معیشت کو اس سے مستثنیٰ قرار دے کر سیکولر مغربی جمہوریت اور استحصالی سودی نطا م کو تحفظ دیا گیا تھا ۔
آئینی طور پر خدا کی حاکمیت کا قرار کیا گیا ہے لیکن دوسری جانب اقتدار کا سر چشمہ عوام کو تسلیم کر کے انہیں خدائی اختیارات میں شریک کر لیا گیا ہے قرار داد مقاصد کی حیثیت فقط نمائشی ہونے کی بنا پر آئین کی دیگر دفعا ت پر اسے کو ئی فوقیت حاصل نہیں ان تضادات کو ختم کرنے کے لیے منا سب آئینی ترا میم کی ضرورت ہے اسلامی دفعا ت 31،12،2تا 40اور227میں اسلامائز یشن کے جو وعدے کئے تھے وہ دفعات 268اور 203 کے ذریعہ بڑے حد تک واپس لے لیے گئے ہیں وفاقی شرعی عدالت پر یہ پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ وہ مسلم پرسنل لاء عدالتی ضابطہ کا راور آئین کو اسلامی بنا نے کے بارے میں کسی مقدمہ کی سماعت نہیں کر سکتی ۔قانون ساز اداروں کے اکثر ارکان قرآن و سنت کے قوانین سے نابلدہیں ۔غیر مسلم اقلیتیں اور ارکان قانون سازی کے دوران توازن خراب کر کے فیصلہ کن منفی کردارادا کر سکتے ہیں ۔قانون سازی کے دوران اسلام سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کو ئی ضوابط یا قواعد تیرا نہیں کئے گئے وزارت قانون مطلوبہ اہلیت سے عا ری ہے اور اس کے ڈرافٹ میں کا تیار کردہ مسؤہ قانون مروجہ طریقہ سے پاس کر دیا جا تا ہے بلکہ زیادہ تر آرڈیننس جاری کرنے پر اکتفا کیا جا تا قائد ایوان نے کا بینہ کے ایک اجلا س میں اسلامی قوانین کو فرسودہ اور ظالمانہ قرار دے دیا تھا جبکہ قائد حزب اختلاف فنڈ امنیٹلسٹ نہ ہو نے کا اعلان کر چکے ہیں نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والوں کے سینے جس طرح گولیوں سے چھلنی کئے گئے ہیں اس سے استعماری قوتوں کو حوصلہ افزا پیغام ملا ہے کا سا بلا نکا اور بحرین میں منعقد ہو نے والی عالمی کا نفرنسوں میں مسلم بنیاد پرستی کی مذمت کر کے اختلا فات کی خلیج وسیع کر دی گئی ہے پاکستان کو سیکو لر بنا نے کی خا طر کیا کیا جتن ہو رہے ہیں اس کا اندازہ اس خبر سے لگا یا جا سکتا ہے ۔
"امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان شراب پر پابندی فوری طوری پر اٹھالے کیونکہ اس کے باعث لوگ منشیات کی طرف راغب ہو رہے ہیں امریکی حکومت کے اعلیٰ افسروں نے پاکستان کے اعلیٰ حکام کو مشورہ دیا ہے کہ امریکہ کے خیال میں پاکستان میں جو لوگ نشہ کرتے ہیں انھوں نے ضیاالحق کے دور میں شراب پر پابندی کے باعث منشیات استعمال کرنا شروع کر دی تھیں ۔باخبر ذرائع کے مطا بق امریکہ کے اس مشورہ پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے ۔رپورٹ کے مطا بق حکومت سندھ نے صوبے میں نہ صرف شراب کشید کرنے کی اجازت دے دی ہے بلکہ ان کشید کاروں کو از سر نو پر مٹ بھی جاری کر دئیے ہیں جو سابق حکومت نے منسوخ کر دئیے تھے (الحق مارچ 94بحوالہ جنگ لندن )
اسلامی قانون دنیا بھر کے مجموعہ ہائے قوانین اور کوڈز سے آسان تر اور سہل ہے اور انسانی فطرت کے عین مطا بق ہے ۔
﴿ يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ... ١٨٥﴾...البقرة
"اللہ تمھارے لیے آسانی چا ہتا ہے مشکلات پیدا کرنا نہیں چا ہتا "
جو لوگ اب تک فرنگی قوانین سینے سے لگا ئے بیٹھے ہیں ان کے لیے صلائے عام ہے کہ وہ انکا موازنہ اسلام کے ضابطہ حیات سے کریں ۔یقیناً وہ اسے بہتر پائیں گے ۔جبر واً کراہ اور تعصب پر مبنی ظلم کے ضا بطے اللہ تعا لیٰ نے نامنظور فر ما دئیے۔
﴿أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٥٠﴾...المائدة
"کیا یہ لو گ جاہلیت کے قوانین چا ہتے ہیں ایمان والوں کے نزدیک اللہ کے احکامات سے اچھے اور کس کے احکا مات ہو سکتے ہیں ۔
اس سورۃ کی آیات 44تا47میں فر ما یا گیا ۔
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطا بق فیصلے نہ کریں وہ کا فر۔۔۔ظا لم ۔۔فاسق ہیں"
قرآن و سنت کو سپریم لا ء بنا نے کی خا طر جدو جہد کی ضرورت ہے جسٹس بی زیڈ کیکاؤس مرحوم نے اس کی خا طر عدالتوں میں قانونی جنگ لڑی اور رائے عامہ کو ہموار کر نے کے لیے اپنی تجاویز مشتہر کیں۔ان کا مو قف تھا کہ اللہ کا قانون بصورت قرآن نافذ ہے اور اسے کسی دستور ساز اسمبلی سے تصدیق کی ضرورت نہیں پارلیمنٹ کو اس امر کا اعلان کر دینا چا ہیے اور صرف ضمنی قانون سازی کی حد تک محدود رہنا چا ہیئے آزادی کے بعد نصف صدی کی جد و جہد کے باوجود نفاذ شریعت کا نصب العین حاصل نہیں ہو سکا امت مسلمہ کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ غیروں سے مستعار شدہ قوانین اور ضابطوں کو ترک کر کے شریعت کے اصل ماخذ مرجع اور منبع کی طرف رجوع کرے۔ دنیا و آخرت میں اس کے لیے نجا ت کا یہ واحد راستہ ہے جس پر چل کروہ اقوام عالم میں سرخروئی حاصل کر سکتی ہے۔