صحیح بخاری پر اعتراض اور اس کا جزاب

برصغیر پاک وہند میں "فقہی جمود" کے خلاف جب"اتباع واحیائے سنت" کی تحریک چلی تو اس کا توڑ دو طرح سے کرنے کی کوشش کی گئی،ایک تو صحیح احادیث کے بالمقابل ہرطرح کی صحیح وضعیف احادیث کے ذریعے"مذہب" کا دفاع،دوسرا یہ  پروپیگنڈا کہ محدثین صرف حدیث کے چھلکے کو لیتے ہیں مغز تک کی رسائی کی کوشش نہیں کرتے۔حالانکہ محدثین پر یہ الزام بالکل غلط ہے ۔جس کی شہادت کے لئے امیر المومنین فی الحدیث"امام بخاری" کی مثال ہی کافی ہے اس بارے میں پہلا طریقہ زیادہ تر متعصب مقلدین نے اختیار کیا اور دوسرا طریقہ متجددین(ترقی پسند مقلدین) نے مولانا امین احسن  اصلاحی کاتعلق دوسرے طبقہ فکر سے ہے۔لہذا وہ عبادات میں تو حنفی ہیں تاہم جہاں کہیں دل چاہتا ہے۔"تدبر " کے نام پر"تقلید" کے بجائے اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے بھی انحراف کرنے سے نہیں چوکتے۔اس سلسلے میں ان کا مخصوص طریق کار ہے۔قرآن کریم کی تفسیر میں ان کے اپنے"تدبر  واجتہاد" پر مبنی "فلسفہ نظم" ہے،جس میں نکتہ رسی کے فوائدسے قطع نظر ان کا ظاہر احادیث سے الرجک ہونا"متبعین سنت"سنت کوضرور کھلتا ہے۔در اصل یہ مکتب فکر اپنے"تدبر واجتہاد" کو دو اصطلاحات"بدیہی"(جس کے لئے تعریف ودلیل کی ضرورت نہین ہوتی) اور"قطعی الدلالۃ"(جس میں فہم کے اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی) کے پردوں میں پیش کرنے کا عادی ہے۔ لہذا ان کے نزدیک دین کی وہی تعبیر صحیح اسلام ہوتی ہے جو ان کی اپنی رائے ہو گویا وہ اپنی سوچ اوررائے کی عصمت کے قائل ہیں۔جبکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث کی عظمت کی مخالفت کے درپے رہتے ہیں۔جس کے لئے وہ انکار حدیث کے طعن سے بچنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث کا انکار واستخفاف کھلے لفظوں کرنے کے بجائے(SUGAR COATED) انداز سے کرنے کی تدبیر اپناتے ہیں۔آج کل  قرآن کی تفسیر سے فارغ ہوکر ان کامشن"تدبرحدیث" کےنام پر محدثین کی تین مایہ ناز کتب صحیحین اور موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کی احادیث پر طعن ہے ۔اس سلسلے میں صحیحین کے استخفاف کےلئے ایک طریقہ تو ان کا"موطا" کوصحت کے اعتبار سے صحیحین پر ترجیح دینے کا ہے۔اور دوسرا صحیحین کی احادیث پر نقد وجرح ۔چونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب"حدیث" کے علاوہ ان کے "فقہ واجتہاد" کاشاہکار بھی ہے لہذا وہ خاص طور پر ان کے زیرتنقید رہتی ہے۔چنانچہ اسے سمجھے بغیر ہی اس میں اپنا نام نہاد"تدبر" استعمال کرکے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کی فقاہت پر حملہ کرنے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ان کے دیرینہ ساتھی حضرت مولانا عبدالغفار حسن(سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان) ان کے اختراعی فہم حدیث میں ہم آواز نہیں ہوسکے یہی وجہ ہے کہ حدیث کے خلاف زیادہ جراءت کے مظاہر ان کے لئے بھی تکلیف دہ ہوتے ہیں اور وہ کبھی کبھارقلم اٹھانے پر مجبور بھی ہوجاتے ہیں زیر نظرسطور میں ایسے ہی دو مقام ان کے لائق توجہ ہوئے ہیں جن پر انہوں نے خامہ فرسائی فرمائی ہے جو ہدیہ قارئین ہے۔(ح۔م)
مکتوب مفتوح بنام مدیر سہ ماہی"تدبر" لاہور
مکرمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اُمیدہے کہ مزاج بخیریت ہوں گے آپ کارسالہ پابندی سے موصول ہورہاہے۔مولانا اصلاحی صاحب اور آپ کی  اس عنایت کاممنون ہون۔نظم قرآن سے متعلق بہت سی مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں،لیکن ساتھ ہی حدیث کی بعض تشریحات کھٹکتی ہیں۔اس بارے میں ایک مفصل مضمون ارسال خدمت ہے۔یہ مضمون اگر"تدبر" میں شائع ہوجائے تو قارئین کے سامنے تصویر کادوسرا رخ بھی آجائے گا۔
لیکن میرا سابقہ  تجربہ یہ ہے کہ یہ مضمون شائع کرنے کی بجائے واپس کردیا جائے گا جیسا کہ دو سال قبل"رجم"والا مضمون واپس کردیا گیا تھا۔خدا کرے میرا یہ سوئے ظن غلط ثابت ہو۔
دوسری ضروری بات یہ ہے کہ"تدبر" شمارہ 48 صفحہ 29 اور30 پر مولانا اصلاحی صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
"آنحضرت  کو ماعز کے بارے میں یہ شکایت ملی تھی کہ مسلمان جہاد کے لئے جاتے ہیں تو یہ آدمی مسلمانوں کی بہو بیٹیوں کاپیچھا کرتا ہے اور ان کے پیچھے بکروں کی طرح ممیاتا ہے"
اس بارے  میں گزارش ہے کہ اول تو اس موقع پر حضرت ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا تذکرہ صراحتاً نہیں ہے اگر بالفرض مان بھی لیاجائے تو کیا محض بکروں کی طرح ممیانے سے وہ محارب شمارہوجائے گا؟ظاہر ہے کہ ممیانا،زنا کے مبادی میں شمار ہوگا نہ کہ حرابہ میں۔ایسی صورت میں صرف تعزیر ہوسکتی ہے نہ کہ حد حرابہ،بلکہ حد زنا بھی نہیں ہوسکتی۔
نیز روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا کا واقعہ صرف ایک بار پیش آیا ۔تو ایسی صورت میں اس کو محاربین میں کیسے شمار کیا جائے گا؟
مزید گزارش ہےیہ ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  سے اب تک چودہ سو سال میں کسی بھی عالم نے حضر ت ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو"منافق" اور "غنڈا" نہیں قرار دیا اور اسی  طرح حضرت غامدیہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو بھی کسی نے بھی آوارہ،آزاد عورت نہیں ٹھہرایا۔اسماء الرجال کی سب کتابیں پڑھ لیجئے،تمام مصنفین نے ان دونوں کو صحابہ اور صحابیات میں شمار کیا ہے،مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:عظمت حدیث(صفحہ 216تا236)
واضح رہے کہ میرا یہ "رجم" والا مضمون چند سال قبل ماہنامہ"محدث" لاہور اورہفت روزہ"الاعتصام" لاہور میں شائع ہوچکا ہے۔
آخر میں مولانا اصلاحی صاحب کی خدمت میں با ادب گزارش ہے کہ اب وہ زندگی کے آخری مرحلےمیں ہیں۔معلوم نہیں کہ کب پیغام اجل آجائے۔ایسے نازک مرحلے پر اگر وہ اپنی اس تحریر پر نظر ثانی فرمائیں تو بہت سے زخمی دلوں کو تسکین حاصل ہوگی۔
وماعلینا الاالبلاغ ۔والسلام(عبدالغفار حسن(4جنوری 95)
بخا ری کے ترجمۃ الباب پر اعترا ض اور اس کا جواب :۔
مولانا امین احسن اصلا حی صاحب نے تدبر  حدیث کے عنوان سے اپنے رسالہ "تدبر "میں احادیث کی تشریح کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس میں صحیح البخاری اور مؤطا امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ   کی روایا ت کی وضاحت کی گئی ہے اور جہاں کہیں ان کو اشکال پیش آیا ہے اس کا بھی تذکرہ کر دیا گیا ہے ذیل میں مولا نا موصوف کی پو ری عبارت بیان کرنے کے بعد ان کے پیش کردہ اشکال کا حل تجویز کیا گیا ہے۔
باب(74)باب من أعاد الحديث ثلاثا ليفهم عنه فقال ألا وقول الزور فما زال يكررها وقال ابن عمر قال النبي صلى الله عليه وسلم هل بلغت ثلاثا
باب ہے اس بارے میں "بات کو سمجھانے کے لیے تین بار کہنا "۔۔۔آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"خبردار !جھوٹ کہنے سے بچو!اور اس کو کئی بار فر ماتے رہے ۔ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین بار فر ما یا :کیا میں نے تم کو پہنچا دیا ؟
وضاحت :
ألا وقول الزور "حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جسے کسی موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بار بار دہراتے رہے تا کہ لو گ اچھی طرح سمجھ لیں ۔اسی طرح آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ حجۃالوداع کے آخر میں سامعین سے پو چھا تھا کہ کیا میں نے اللہ کا پیغا م پہنچا دیا ۔اور یہ جملہ بھی آپ نے تین مرتبہ دہرا یا تھا امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے باب میں یہ دو تعلیقات نقل کی ہیں ،جو دوسری حدیثوں کے ٹکڑے ہیں اس کے بعد روایت نقل کی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَارُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ «إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلاَثًا، حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلاَثًا»
"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  جب بات کرتے تو تین مرتبہ کرتے کہ اس کو سمجھ لیا جا ئے ۔آپ لوگوں کے پاس جا کر جب سلام کرتے تو وہ بھی تین مرتبہ کیا کرتے "
وضاحت :
اس روایت میں چند مشکلیں ہیں بڑی مشکل تو یہ ہے کہ باب اور روایت میں مطا بقت نہیں ۔امام صاحب نے باب تو یہ باندھا ہے کہ بات دہرا ئی جا ئے تا کہ سمجھ میں آجا ئے ۔یعنی یہ عمل مشروط ہے اس سے کہ بات سمجھا نے کے لیے ایسا کیا جا ئے لیکن روایت جو نقل کی ہے وہ غیر مشروط بھی ایسی کہ " إِذَا تَكَلَّمَ "کہ"حضور صلی اللہ علیہ وسلم  جب بھی بات کرتے "اذااستمرار کے لیے آتا ہے باب میں جو تعلیق نقل کی ہے وہ ایسے مواقع کا حوالہ ہے کہ جہاں تا کید ضرور تھی ۔مثلا ًحجۃ الوداع والی بات کو تا کید کے لیے تین مرتبہ دہرا یا ۔تنقیح کے لیے شہادت کو مؤکد کرنے کے لیے تو بات دو تین مرتبہ کہی جا سکتی ہے لیکن ہر بات کو تین مرتبہ کہنا سمجھ میں نہیں آتا ۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ یہ روایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ایسے آدمی نہیں کہ انھوں نے صرف چند مرتبہ ہی آنحضرت سے ملا قات کی ہے ۔انھوں نے دس سال تک آنحضرت کی خدمت کی اور آدمی بھی وہ نہا یت سمجھدار ہیں۔جب وہ اس تاکید سے کہتے ہیں کہ جب بھی آپ بات کرتے تو تین مرتبہ کرتے تو یہ بات بڑی الجھن پیدا کرتی ہے ہو سکتا ہے کہ روایت بالمعنی کرنے میں کسی راوی سے تسامح ہو گیا ہو۔
سلام کے بارے میں بات سمجھ میں آتی ہے۔لیڈروں کا عام طریقہ ہے کہ وہ کسی مجلس میں پہنچتے ہیں تو حاضرین کو بار بار سلام کرتے ہیں ۔معلوم ہو تا ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ بھی یہ رہا ہو گا کہ پہلے سامنے والوں کو پھر دائیں طرف والوں کو اور تیسری مرتبہ بائیں جا نب والوں کو سلام کہتے ہوں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي سَفَرٍ سَافَرْنَاهُ، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا الصَّلاَةَ صَلاَةَ الْعَصْرِ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ «وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ».
مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا.
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں پیچھے رہ گئے۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت ہمارے ساتھ ملے جب کہ نماز عصر کا آخری وقت ہو چکا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے ۔اس پر ہم نے جلدی جلدی اپنے پاؤں پر مسح کرنا شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلند آواز سے فر ما یا "ایڑیوں کو ہلاکت ہو دوزخ کی آگ سے "آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو مرتبہ فر ما یا یا تین مرتبہ ۔
وضاحت :
یہ روایت باب سے مطا بقت رکھتی ہے کہ آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو سمجھانے کے لیے یہ بات دویا تین مرتبہ دہرا ئی تا کہ بہت لوگ سن لیں اور جلد بازی میں پاؤں مکمل دھونے میں کو تا ہی نہ کریں یہ بھی ایک مجمع کو تعلیم دینے کا اسی طرح کا ایک موقع تھا جیسا موقع حجۃالوداع کا تھا اس سے یہ بات ثا بت نہیں ہو تی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی ہر بات تین مرتبہ دہرا یا کرتے تھے۔(حوالہ:تدبر شمارہ نمبر48سال1994ء)
مذکورہ بالااشکال کو دوطریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔
1۔لفظ "اذا"کے مفہوم کو متعین کیا جائے اور وہ اس طرح ہے کہ عام طور پر "اذا"شرط کے لیے آتا ہے اور "کبھی "محض ظرفیت کے لیے استعمال ہو تا ہے اس صورت میں ضروری نہیں ہے کہ اس میں عموم اور استمرار پا یا جا ئے اس کی مثا لیں حسب ذیل ہیں ۔
مثال نمبر1:﴿...وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ ﴿٣٧﴾...الشورى
"اور جب غصہ ہو تے ہیں تو وہ معاف کر دیتے ہیں"
(ترجمہ ازتدبر قرآن جلد6سورہ شوریٰ:آیات نمبر37صفحہ:176)
مثال نمبر2 : ﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ ﴿٣٩﴾...الشورى
"اور جب "ایسے لوگوں پر سر کشی ہو تو بدلا لیتے ہیں"
مثال نمبر3: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾...اليلٰ
"رات کی قسم "جب" دن کو چھپالے"
مثال نمبر4: ﴿وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ﴿١﴾...النجمٰ
"تارے کی قسم"جب غائب ہو نے لگے "
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مغنی اللیسب (جلد اول صفحہ 104)
وهي ظرف للمستقبل لاكثر استعمالا تها وتكون للماضي بقرينة نحو قوله تعالي﴿ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا ... ١١﴾...الجمعه لان الاية نزلت بعد انفضاضهم
یعنی لفظ "اذا"کا استعمال اکثر مستقبل کے لیے بطور ظرف ہو تا ہے ۔
مزید تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو : النحوالوافی (جلد :2صفحہ :262۔261،)
مؤلفہ عباس حسن اگر قینہ موجود ہو تو ماضی کے لیے بھی استعمال ہو تا ہے جیسا کہ اس آیت میں میں ارشاد ہے کہ جب انھوں نے تجارت کو دیکھا یا کھیل کود کو تو اس کی طرف دو ڑپڑے ۔یہ آیت اس واقعہ کے ہو نے کے بعد نازل ہو ئی لفظ "اذا"کا ترجمہ یہاں "جب کبھی نہیں کیا جا سکتا بلکہ "جب "یا"جس وقت "کیا جا ئے گا ۔جیسا کہ اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:
"اورلوگوں کا حال یہ ہے "جب وہ کو ئی تجارت یا دلچسپی کی چیز دیکھ پاتے ہیں ۔تو اس کی طرف ٹوٹ پڑتے ہیں ۔
(تدبر قرآن جلد :7صفحہ :385۔384۔سورۃ جمعہ )
اسی طرح زیر بحث حدیث میں بھی "اذا"کا ترجمہ "جب کبھی" کے بجا ئے صرف"جب"کیا جا ئے گا یہاں "اذا"حِینَ کے معنی میں ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   بات کرتے تو تین دفعہ دہرا تے یہ تو وقت ہو تا جبکہ "اذا"کے بجا ئے "کلما"لفظ لا یا جا تا جیسے کہ دوسری آیت میں مذکورہ ہے۔
﴿كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ ... ﴿٢٠﴾...البقرة
"جب جب چمک جا تی ہو۔ یہ چل پڑتے ہوں اور "جب ان پر اندھیراچھا جا تا تو رک جاتے ہوں"
(ترجمہ از تدبر قرآن :سورۃ البقرہ جلد اور آیت :20،صفحہ 85)
مولانا موصوف نے اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت " كُلَّمَا " اور "إِذَا" کے فرق کو ملحوظ رکھا ہے "کلما کا ترجمہ "جب جب" کیا ہے جو " جب کبھی "کے ہم معنی ہے اور "إِذَا" کا ترجمہ صرف جب " سے کیا ہے۔
تفسیر کشا ف میں ہے ۔
فإن قلت كيف قيل مع الإضاءة (كلما) ومع الأضلام (إذا)، قلت: لأنهم حراص على وجود ما همهم به معقود من إمكان المشي وتأتيه فكلما صادفوا منه فرص انتهزوها، وليس كذلك التوقف والتحبس خلا صہ یہ ہے کہ یہ فرق اس لیے کیا گیا ہے کہ روشنی کے لیے انتہائی حریص اور آرزو مند تھے ذرا سی بھی چمک محسوس کرتے تو اس فرصت کو غنیمت جا نتے اور ایک لمحہ ضائع کئے بغیر (الفاظ مٹا ہواہے)لگتے بخلا ف تاریکی کے اس کا معاملہ اس طرح نہیں ہے یعنی روشنی مطلوب تھی اورتاریکی انکو مطلوب نہیں تھی (تفسیر کشاف :سورۃ بقرہ آیت 20صفحہ :56جلد اول )
اس پوری گفتگو کا ماحاصل یہ ہے کہ لفظ "اذا"جب محض ظرفیت کے لیے  آئے گا ۔تو اس صورت میں اس میں عموم اور استمرار کا اعتبار کرنا ضروری نہیں ہے ۔
امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ترجمۃ الباب میں جو دو اثر پیش کیے ہیں ان سے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس حدیث میں "اذا"عموم کے لیے نہیں ہے ۔اسی طرح متن میں دوسری حدیث لا ئے ہیں اس سے بھی یہی اشارہ مقصود ہے۔
دوسرا حل
علامہ محمد بن عبد الہادی سندی شرح بخاری میں لکھتے ہیں ۔
(قوله وإذا تكلم بكلمة......الخ).........الظاهرا نه محمول على المراضع المحتاجة الى الاعادة لا على العادة والا لما كان لذكر عدد الثلاث في بعض المواضع كثير فائدة مع انهم يذكرون في الامور المهمة انه قالها ثلاثا كما تقدم في الكتاب في هذاالباب ....والله تعالى اعلم
اس عبارت کا خلا صہ یہ ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہو تا ہے کہ آپ ان مواقع پر اپنی بات کو تین بار دہراتے جہاں اس کی ضرورت ہو تی ۔لیکن یہ آپ کی عادت نہیں تھی ۔ورنہ لازم آئے گا کہ بعض ایسے مواقع جہاں تین بار کہنے کی ضرورت نہیں تھی وہاں بھی آپ بار بار دہراتے تھے ۔ظاہر ہے کہ اس سے کون سا فائدہ حاصل ہو سکتا تھا ۔یہ بات بھی واضح رہے کہ اہل علم یہی بات بنا تے ہیں کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  !اہم امور میں تین بار بات دہرا یا کرتے تھے۔
"اگر یہ شبہ ہو کہ بظاہر حدیث کے مفہوم سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہی عادت تھی کہ ہر بات کو تین مرتبہ دہرا یا جائے۔اس شبہ کا ازالہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ بات کو دہرا نے کی عادت صرف اس صورت میں تھی جب کہ کو ئی اہم معاملہ ہو ۔اس سے بات نہیں معلوم ہوتی کہ ہر معاملے میں آپ تین بار الفاظ کو دہراتے ۔ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھ لی جا ئے ۔یہاں "کلمۃ "کو نکرہ لا یا گیا ہے مطلب یہ ہوا کہ یہ تنکیر تعظیم  کے لیے ہے"
علامہ سندی کے کہنے کے مطا بق حدیث میں " کلمۃ "کے بعد یا تو صفت محذوف مانی جائے مثلاًمہمہ یا "کلمۃ "کے تنوین کو تعظیم کے لیے قراردیا جا ئے یعنی "کلمۃعظیمۃ"یہاں قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ "کلمۃ" کی صفت محذوف ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے۔
﴿أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ﴿٧٩﴾...الكهف
یعنی "کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے ۔میں نے چا ہا کہ اس عیب ادار کر دوں اور ان کے پرے ایک بادشاہ تھا جو تمام کشتیوں کو زبر دستی ضبط کر رہا تھا "(آیت) نمبر:79،صفحہ 60،سورۃ کہف ترجمہ از تدبر قرآن جلد چہارم )
تفسیر کشا ف میں ہے "وقيل في قرأءة ابي وعبد  الله :كل سفينة صالحة"
قاضی بیضادی نے لکھا ہے"وقرى كل سفينة صالحة والمعني عليها"
خلا صہ یہ ہے کہ ایک دوسری قراء ۃ میں لفظ "صالحۃ"کا سفینۃ کے بعد اضافہ کیا گیا ہے مطلب یہ ہوا کہ بادشاہ ایسی کشتی چھینتا تھا جو صحیح سالم ہوتی تھیں  ۔اس کا قرینہ یہ ہے کہ حضرت خضر  علیہ السلام فر ما تے ہیں کہ :۔
أَرَ‌دتُّ أَنْ أَعِيبَهَااسی شاذ قراءۃ کی بنا ء پر یہاں لفظ سفینہ کے بعد اس کی صفت "صالحۃ" مقدر مانی جا ئے گی ۔ٹھیک اسی طرح زیر بحث میں بھی قرینہ موجود ہے یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے دو تعلیق لا کر اور ایک حدیث "ویل للا عقاب "پیش کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ إذا تكلم بكلمةکے بعد صفت محذوف ہے جیسا کہ اس کی وضاحت اوپر گزر چکی ہے ۔
اس پوری تفصیل سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ "اذا"کا ترجمہ "جب کبھی" کے بجا ئے صرف" جب" کرنا منا سب ہو گا ۔
اہل منطق بھی لفظ "اذا"کو قضیہ جزئیہ کے ہم معنی قرار دیتے ہیں یعنی کہ یہ جس جملے پر داخل ہو گا وہ جزئیہ کے حکم میں ہو گا ۔
(2)۔مولانا اصلاحی صاحب نے تین بار سلام کرنے کی جو تشریح فرمائی ہے۔اس کی کوئی بنیاد حدیث یا آثارصحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین   میں نہیں ملتی۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کتاب الاستیذان میں اس حدیث کو دوبارہ  لائے ہیں۔اور اس کے بعد حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی وہ حدیث لائے ہیں،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی کسی کے مکان پرجائے تو داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرے۔اس کی شکل یہ ہے کہ تین بار السلام علیکم کہے۔اوراگر تیسری بار بھی جواب نہ ملے تو واپس ہوجائے۔اس بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے درمیان جو واقعہ پیش آیا تھا اس کو بیان کیاہے۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:
صحیح البخاری مع فتح الباری جلد11،صفحہ26،27 باب التسلیم والا ستیذان ثلاثا۔
مذکورہ بالا حدیث کی دوسری تشریح مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں کی جاسکتی ہے:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ بْنِ مَالِكٍ الْقَطِيعِيُّ ، بِبَغْدَادَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ : " إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ فَلْيُسَلِّمْ ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ فَلْيُسَلِّمْ ، فَلَيْسَ الأَوَّلُ بِأَحَقَّ مِنَ الآخِرِ
 (رواہ ترمذی وابو داود)
ترجمہ۔ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا: جب آدمی کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے۔اگر اسے بیٹھنے کی ضرورت محسوس ہو تو بیٹھ جائے،پھر جب کھڑا ہو مجلس سے تب بھی سلام کرے۔پہلا سلام دوسرے سلام سے زیادہ اہم نہیں ہے"یعنی ثواب میں دونوں کا درجہ برابر ہے۔(مشکاۃ جلد2 صفحہ 541 باب السلام طبع بیروت)
وضاحت:۔
اس حدیث سے دو سلام معلوم ہوئے اور اس سے قبل والی حدیث میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرنے کے لئے سلام کا ذکر ہے،اس طرح تین سلام ہوگئے۔یعنی ایک سلام ک بعد داخل ہونے کی اجازت مل جائے تو پھر اس دوسری حدیث پر عمل کیا جائے گا،اور اس طرح سلام کی تعداد تین ہوجائے گی۔