مسلمان کو کافر قرار دینے کا مسئلہ ؟

"فرقہ  واریت"عقائد واعمال سے متعلق فکر ونظر کے اختلافات کا نام نہیں ہے،جیساکہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے،بلکہ یہ اختلافات کے بارے"نزاع"کا ایک رویہ ہے۔علمی اجتہادات سے پیش آمدہ مسائل میں جو کئی  پہلو نمایاں ہوتے ہیں،وہ کتاب وسنت کی نصوص کی تعبیر واطلاق میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔چنانچہ"خیر القرون"میں فرقہ وارانہ جھود سے قبل سلف صالحین کا علمی اختلاف قرآن وحدیث کی تفہیم میں خاص کردار کاحامل ہے۔
لیکن علمی انحطاط کےادوار میں عوام کی شخصی عقیدت اور مذہبی  گروپوں سے جذباتی وابستگی نے فرقہ پرستی کو فروغ دیا ہے۔برصغیر پاک وہند میں برطانوی سامراج نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اسے خوب اجاگر کیا اور اس کی معنوی اولاد،لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے پروردہ اسے مذہبی جذبات کی بیخ کنی کےلئے بطور طعن استعمال کرتے ہیں۔تاکہ نام نہادسیکولرازم (لادینیت) کے لئے فضا ساز  گار بنائی جاسکے۔دور  حاضر کی گندی سیاست نے توفرقہ واریت  کو تشدد کا رنگ بھی دےدیا ہے جس کے پیچھے بین الاقوامی سازش کام کررہی ہےتاکہ مسلمان کفر کا مقابلہ کرنے کے لئے کبھی استحکام حاصل نہ کرسکیں۔
تاہم علم کے بغیر عوام کافتویٰ بازی کے میدان میں اُتر آنا یا سیاسی استحصال کے نتیجے میں مسلمان نوجوانوں کی انتہا پسندی،دین کے لئے فائدہ مند ہونے کے بجائے اس انتشار کے عفریت کو مزید خطرناک بنارہی ہے۔ہماری اس کوتاہی کی نشان دہی کے لئے مدینہ یونیورسٹی کی ایک فاضل شخصیت شیخ ابو بکر الجزائری کا تحریری کردہ ایک جیبی سائز کتابچہ"فتویٰ بازی کی نزاکت"کے موضوع پرعربی میں شائع کیا گیا جس کا اُردو  ترجمہ ہدیہ قارئین ہے۔(ادارہ)
1۔ایمان کی خصوصیات اور مومن کی صفات۔
2۔کفر کیا ہے اور کافر کون ہے؟
3۔مسلمان کو کافر کہنے کامسئلہ
4۔کسی شخص کو کب کفر سے منسوب کیا جاسکتا ہے؟
اللہ کی حمد وثنا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود وسلام کے بعد!
موجودہ دور میں نوجوانوں میں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کا فتنہ مسلمان قوم کے لیے کسی بڑے امتحان سے دور چار ہونے کی نشان دہی کرتا ہے۔جس سے ملت اسلامیہ کے لئے بڑے نقصان دہ اثرات پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ان میں سے یہ ہے کہ دیار اسلام میں اسلام کی اشاعت اور اس پر عملدرآمد  متاثرہو اورغیر مسلم،اسلام قبول کرنے سے متنفر ہوجائیں۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کے مابین بڑے فسادات واقع ہوں اور باہمی اخوت ومحبت کا خاتمہ ہو۔یہی وہ مقاصد ہیں جن کے لئے دشمنان اسلام اپنی زندگیاں وقف کئے ہوئے ہیں۔ان کے حصول کے لئے شدید بے چین ہیں۔
چنانچہ ان حالات میں اہل علم کے لیے لازمی ہے کہ نوجوانوں پر ان کا مزعومہ ذہنی فتور واضح کریں اور ان کی روحانی قربانی کی طرف قیادت کریں اوراخلاقی کمال کے فروغ کے لئے تدبیر کریں۔تاکہ نوجوانان ملت کےلیے امت اسلام کی قیادت ممکن ہو۔اور  وہ امت کو اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے میں واضح ترین معاونت پیش کرسکیں جس کے نتیجے میں امت،دین ودنیا میں کامیاب وکامران اور اور اُخروی فوز وفلاح  کی حقدار بن سکے۔
اس بات کے پیش نظر کہ کم علموں کے نزدیک میراشمار عالموں میں ہوتا ہے میں نے یہ مختصر کتابچہ تحریر کیا ہے۔جس سے میرا مقصد قوم کے نوجوانوں کے لئے راہ رشد وہدایت کو متعین کرنا ہے تاکہ وہ زندگی کی  لغزشوں میں بھٹکنے سے بچ سکیں۔ان کے ساتھ ساتھ ان امور کی ان کے لئے نشان دہی کرنا میرا مقصود ہے۔جس سے وہ مقصد زندگانی سمجھتے ہوئے،شریعت اسلامی کو خلافت کے زیر نگیں اعلیٰ  تر قانون بنانے کے لئے کوشاں ہوں۔اس منزل کے حصول کے لئے اپنی صلاحیتیں وقف کردیں۔جس کے نتیجے میں آخر کار وہ اس فوز وفلاح کے حقدار بن سکیں جو چند عشرے قبل ان سے چھن گئی،یعنی دنیاوی قیادت وسیادت،امن وسکون ،پاکیزگی وتطہیر قلوب،اور اہل دنیا کا اطمینان وسکون!
اس امید پر میں اس کتابچے کو لکھ رہا ہوں کہ عین ممکن،اس سے اصحاب خیر ایک بار پھر فلاح کے رستے پر لوٹ آئیں۔میں ہر زی فہم وعقل کواس کے مطالعے کی دعوت دیتا ہوں۔اصحاب ثروت سے امید رکھتا ہوں کہ اس رسالے کی وافر تعداد میں نشرواشاعت کریں تاکہ دیار اسلامیہ میں ہر مسلمان نوجوان کےہاتھ پہنچ سکے۔میں اس مقصد کے لئے اللہ سے بھی دعا گو ہوں اور اس کے ذریعے ہدایت پانے والوں کے لئے اجر وثواب کا طالب ہوں۔واللہ الموفق والمستعان!
ایمان کیا ہے:
ایمان انسان کے لئے روح کا درجہ رکھتا ہے۔اسے حاصل کرنے والا روحانی اعتبار سے  دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے۔اور احکام،اوامر نواہی کا مکلف بن جاتا ہے۔اگر وہ احکام کا کامل متبع بن جائے تو گویا اس کی دنیا وآخرت سنور گئی۔
1۔ایمان وہ اہم تر شے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے اور اپنے اس قول میں اہل ایمان کو خوشخبری دی ہے کہ:
"لوگو تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے دلیل وبرہان آئی ہے۔اور ہم نے تمھاری طرف  واضح نور نازل کیا ہے۔چنانچہ جوشخص  ایمان لایااور دین کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو عنقریب اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت وفضل سے،ہمکنار کرے گا اور اسے سیدھے رستے کی طرف ہدایت دے گا۔"(سورۃ النساء)
2۔ایمان  وہ اہم ترین متاع ہے جس کے حاملین کو سب سے بلند اور بہترین جزا کا وعدہ دیاگیا ہے۔جو کہ ان کے گناہوں کی مغفرت،اور جنت میں ہمیشہ داخلے کی صورت ہوگی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اپنے رب سے مغفرت حاصل کرنے میں سبقت کرنے کی کوشش کرو اور جنت کے لیے جس کی وسعت آسمان وزمین کے فاصلے جتنی ہے۔ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔جو اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم  ) پر ایمان لائے"(الحدید)
3۔ایمان کی  خصوصیت ہے کہ ا پنے حاملین کے مابین اخوت ووحدت کا پرچار کرتا ہے:
"سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔سو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروادیاکرو"(سورہ حجرات)
4۔ایمان یہ تقاضا کرتا ہے  کہ اہل ایمان میں مضبوط رابطے استوار ہوں اور وہ ایک مضبوط عمارت کی طرح ہوجائیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت دیتا ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
"مومن دوسرے مومن بھائی کے لئے مضبوط عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا کچھ حصہ دوسرے حصہ کےلیے تقویت کا باعث ہے۔پھر آپ نے انگلیوں کے مابین تشیک کرکے اس کی مثال سمجھائی"(بخاری ومسلم)
5۔ایمان کفر کے اس طرح متضاد ہے۔جس طرح زندگی اور موت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور وجود وعدم باہم متضاد ہیں۔
6۔ایمان کا درجہ ہے کہ صاحب ایمان کو اگر اللہ تقویٰ کی دولت سے فیض یاب فرمادیں تو اللہ سے دوستی اورولایت کاحقدار ٹھہرتا ہے:
"خبردار! اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف نہیں، نہ انہیں غم کھاناچاہیے ،وہ لوگ جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار  کرتے ہیں"(سورہ یونس)
7۔ایمان کی فضیلت یہ ہے کہ اگر صاحب ایمان نیک عمل کو اپنا لیں تو جنت کی بہترین مہمان نوازی اس کا انعام ٹھہرتی ہے:
"بلاشبہ جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ان  کیے ان کے لئے جنت الفردوس کی مہمان نوازی ہے ،جو ہمیشہ رہے گی"(سورہ کہف)
ان تمام اوصاف کےحامل ایمان کے ارکان چھ ہیں:
اللہ پرایمان لانا،اس کے فرشتوں،کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا،اس طرح آخرت کےدن پر اور اچھی وبری تقدیر پرایمان رکھنا۔
جب کوئی شخص کسی رکن کا منکر ہوجائے،اس طرح کہ اس رکن کوجھٹلا دے یا انکار کا مرتکب ہوجائے اور اس کو حق ماننے سے انکار کردے تو اس کا ایمان سے رشتہ  منقطع ہوجاتاہے۔اوردوسرے بے شمار کافروں کی طرف اس کو بھی ایک کافر شمار کیا جائےگا۔ اور مومن اس کی ذمہ داری سے بری ہوں گے۔ایمان کے یہ ارکان ستہ قرآن کریم سے ثابت ہیں:
"چہروں کو مشرق ومغرب کی طرف پھیرنا نیکی نہیں۔نیک تو وہ شخص ہے جو اللہ پر ایمان لائے،آخرت کےدن پر،فرشتوں پر،کتابوں اور رسولوں پر"(سورۃ البقرۃ)
دوسرے مقام پرارشاد  ربانی ہے:۔
"اورہم نے ہر ایک چیز کو ایک اندازے(قدر) سے پیدا کیا"
"بحوالہ مسلم یہ روایت منقول ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جبرئیل علیہ السلام سےایمان کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایمان یہ ہے کہ  آپ اللہ کی ذات پر،فرشتوں،رسولوں اورکتب پرایمان لائیں اور آخرت کے دن پر،اچھی اور بری تقدیر پر یقین رکھیں۔"
8۔ایمان نورانی طاقت سے مشابہ ہے۔اگر قوی ہوجائے تو گمراہیوں کو دور کردیتاہے اور منور ہوجاتاہے۔اور اگر کمزور پڑ جائے تو خود منور ہونے اور گمراہیوں سے بچنے کی قوت سے بھی محروم ہوجاتاہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان انسان کے دل میں طاقتور یا کمزور ہوتا رہتاہے اور ایمان کے بڑھنے یا کم ہونے کا مطلب یہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
"جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو(یہ تلاوت) ان کے ایمانوں کو دو چند کردیتی ہے۔"
"تاکہ وہ ان کے ایمان کو بڑھا دے"
دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے:۔
"وہ لوگ،جب دوسرے( منافق) لوگوں نے ان سے کہا کہ لشکر(بڑی تعداد) میں جمع ہوچکے ہیں،ان سے خوف کھاؤ۔۔۔تو اس بات نے ان کے ایمان زیادہ کردیے اور وہ کہنے لگے:ہمیں اللہ کافی ہے۔اور وہ بڑا کارساز ہے"
(سورہ آل عمران)
اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بعد کیا اس شخص کی بات قبول کی جاسکتی ہے جو کہے کہ ایمان نہ ہی کم ہوتا ہے نہ بڑھتا ہے۔اہل السنت والجماعت سے خارج فرقوں(مثلا معتزلہ،قدریہ، جبریہ اور ان کی شاخیں نظامیہ،جہانیہ،جانطیہ،جعفریہ وغیرہ) کا یہ قول ان کی جہالت کی دلیل ہے بلکہ ایمان تو ایسے نور کی مانند ہے جو کم وبیش ہوتا رہتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھیے۔کہ ایک شخص ،فجر کے طلوع ہونے کے وقت جبکہ روشنی اُفق میں پھیل جاتی ہے،دور ایک ہیولہ سا دیکھتا ہے۔ اس کی حرکات کی وجہ سے وہ سمجھتا  ہے کہ زندہ شے ہے لیکن روشنی کم ہونے کی وجہ سے یہ نہیں سمجھ پاتا کہ یہ انسان ہے یا حیوان؟اگر یہ انسان بھی ہے تو کیا مرد ہے یا عورت؟اگر یہ حیوان ہے تو کیا گھوڑ ہے یا گدھا؟جوں جوں روشنی بڑھتی جاتی ہے وہ ہیولہ اس کے مذید واضح ہوتا جاتا ہے۔حتیٰ کہ جب روشنی چہار سو پھیل جاتی ہے اور ہر  شے واضح ہوجاتی ہے تو وہ شخص بھی بالیقین جان لیتا ہے کہ یہ آدمی ہے یا عورت،اور اگر جانور ہے تو آیا گھوڑا ہے یا گدھا۔
سویہ مثال،ایمان کی حقیقت کے ضمن میں کہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے کافی ہے اس کی دوسری مثال یوں سمجھے کہ کوئی  شخص اگر کسی چیز کی معرفت رکھتاہے تو لازمی نہیں کہ دوسرا شخص بھی اسی چیز کا علم اس کے بقدر ہی رکھتا ہو بلکہ یہ امر لازمی ہے کہ دونوں کا علم ایک چیز کے بارے میں مختلف ہوگا۔
9۔ایمان کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر حتمی اورکلی ایمان لایا جائے اور اسی  طرح جن چیزوں کے بارے میں اللہ نے ایمان لانے کا حکم دیا یعنی فرشتوں پر۔کتابوں پر،رسولوں پر،دوبارہ اٹھنے پر،یوم آخرت اور اس میں حساب وجزاء پر۔اسی طرح اچھی بُری تقدیر پر بالکلیہ ایمان لایا جائے۔
10۔ایمانی قوت کا یہ عالم ہے کہ جب دل میں جاگذیں ہو تو صاحب ایمان جہاں زبان سے دوسروں  کو اس کی دعوت دیتا ہے وہاں اس کے اعضاء وجوارح،عمل میں الٰہی احکام کے مطیع ہوتے ہیں تاکہ وہ جنت کی کامیابی اور آگ سے حفاظت کا حقدار بن سکے۔لہذا ایمان کے ارکان اہل سنت کے ہاں تین ہیں۔
یعنی دل میں اعتقاد ویقین رکھنا،زبان سے اس کے مطابق اقرار کرنا اور عمل سے اس کے مطابق کرکے دکھانا۔چنانچہ ایمان صرف اعتقاد کا نام نہیں نہ ہی اعتقاد اور عمل کے بغیر صرف زبان سے کہہ دینے کو ایمان کہاجاتا ہے۔نہ اعتقاد وقول کے بغیر صرف"عمل"ایمان کہلا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایمان پر اسلام کا اطلاق ہوسکتا ہے۔اور اسلام پر بھی ایمان کا لفظ بولا جاسکتاہے۔جس طرح اس ارشاد الٰہی میں ہے:
"ہم نے اس بستی میں مسلمانوں کے علاوہ کسی کا گھر نہیں دیکھا یعنی مومنوں کے علاوہ"(سورہ ذاریات)
غرض اسلام کا مطلب بھی یہ ہے کہ ظاہری وباطنی لحاظ سے اپنی ذات کو ان تمام اُمور کا پابند کرلینا جن پر ایمان لانا،عمل کرنا زبان سے اقرار کرنا اللہ تعالیٰ نے لازمی قرار دیا ہے۔چنانچہ ہر مسلمان جو اپنے اسلام پر صدق دل سے عمل کرے وہ مومن بھی ہوگا۔اسلام کے بغیر ایمان نہیں ہوسکتا جس طرح کے ایمان کے بغیر اسلام محال ہے۔اس لئے جب اعرابیوں نے ایمان کا دعویٰ کیاتو اللہ نے انھیں جھٹلایا اور دعوائے ایمان کی تردید کی:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں کیونکہ ایمان ابھی تک تمھارے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوا"(سورہ حجرات)
اللہ نے ان کے اسلام کو قبول کیا کیونکہ اسلام صرف اطاعت کا نام ہے اور وہ اسلام میں داخل ہونے اور عمل  کرلینے پر رضا مند ہوچکے تھے ۔لہذا ان کے ایمان کی نفی کی اور اسلام کو قبول کیا،جبکہ ایمان کی حقانیت ابھی تک ان کے دلوں میں راسخ نہ ہوئی تھی۔
ایمان صرف اورصرف اعتقاد کا نام ہے یا صرف قول کا یا صرف عمل کا۔۔۔
یہ اور اس طرح کی دیگر  باتیں زنادقہ کی پیدا کردہ ہیں،جو اسلام کی صفوں  میں گھس آئے تھے انہوں نے مسلمانوں کو ان کےایمان سے متزلزل کرنے کےلیے،ان  میں فتنہ کی غرض سے ان کلامی مباحث کو ہوا دی۔چنانچہ ہمیں ایسے اقوال کی طرف کان دھرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جو اہل سنت والجماعت سے خارج گروہوں کے پیدا کردہ ہیں۔کیونکہ ایمان کے بارے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں،صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین   کے ادوار میں اور تابعین کے عہد میں کسی نے اس بات کو نہیں پھیلایا کہ ایمان صرف اعتقاد کا نام ہے قول وعمل کے سوا،نہ ہی یہ کہ صرف قول یاعمل کا نام ایمان ہے،باقی اجزاء کے سوا۔بلکہ ایمان تو اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تصدیق کانام ہے۔اور جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ کی ذات وشخصیت کے بارے میں ارشادفرمایا،ان کی تصدیق کرنا  بھی ایمان میں شامل ہے۔اس کی ربوبیت والوہیت ،اللہ کے رسول کی نبوت ورسالت  پر یقین کامل رکھنا،اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جو کچھ ،فرشتوں،کتابوں،رسولوں،یوم آخرت اور قضاء وقدر کے بارے میں ارشاد فرمایا،ان سب کو اللہ ورسول کی محبت کے ساتھ ماننا اور ان سے بھی محبت کرنا جن سے یہ دونوں محبت کرتے ہیں۔ان کی امرونہی میں اطاعت کرنا۔
ایمان کی علامت یہ ہے کہ زبان سے شہادتیں کا اقرار کیا جائے۔جو شخص گواہی دے کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے ر سول ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  تو یہ مومن اور مسلمان ہے ۔اور جوان شہادتوں کو زبان سے ادا نہ کرے تو وہ مومن ہے نہ ہی مسلم بلکہ وہ کافر اور مشرک ہے۔
اسی طرح واضح رہے کہ ایمان کےحاملین آپس میں کمی وزیادتی کے لحاظ سے متفاوت ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ قول اس امر پر واضح دلیل ہے کہ "اگر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ایمان ایک پلڑے میں رکھ دیاجائے۔دوسرے پلڑے میں امت کا ایمان رکھ دیاجائے تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  والا پلڑا جھک جائے گا۔"اس امر پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے ۔ اس کے ظاہری دلائل میں سے یہ ہے کہ ایمان چونکہ دلوں میں کم وبیش ہوتاہے سو مومن اطاعت وقربانی میں بھی برابر نہیں ہوتے بلکہ متفاوت ہوتے ہیں۔
نیکی کی طرف بعض بہت جلد لپکنے والے اور بعض آہستگی سےعمل پیرا ہونے والے ہوتے ہیں۔ان میں ایسے  بھی ہوتے ہیں کہ جب امام صدقے کی طرف دعوت دے تو سب کا سب مال راہ خیر میں صدقہ کردیتے ہیں۔جس طرح ابو بکر،اورکچھ نصف مال،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرح صدقہ میں جمع کرواتے ہیں۔بعض سارے لشکر کے سازوسامان کی ذمہ داری اپنے سر لیتے ہیں۔جیسے کہ حضرت عثمان۔اس کے بالمقابل کچھ ایسے بھی ہیں جو فرائض واوامرکی فقط بجا آوری کرتے ہیں اور احکام الہٰی پر میانہ  روی سے عمل پیرا ہوتے ہیں ۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اس کے بعد ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث بنایا جو ہمارے منتخب شدہ تھے۔ان میں کچھ اپنے نفوس پر ظلم کرنے والے ،کچھ میانہ رو اور کچھ نیکی کی طرف فوری لپک کر سبقت کرنے والے تھے،اللہ کے حکم سے یہ بہت بڑا فضل ہے"(سورہ فاطر)
اس آیت میں ظالم لنفسہ سے مراد ایسا مومن ہے جس کا ایمان قوی ہے،جب اس کا ایمان قوی ہوتا ہے تو نیک اعمال کرتاہے۔اور جب ایمان کمزور پڑتاہے تو برے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے۔میانہ  رو شخص جو کہ ایمان میں متوسط ہوتا ہے،اوامر ونواہی کو حتیٰ المقدور بجالاتا ہے لیکن خیر وبھلائی کے کام میں مقابلہ ومسابقت نہیں کرتا۔جبکہ قوی ایمان والے شخص کا نفس ،اس کو واجبات کو بطریق اکمل ادا کرنے پر مجبور کرتاہے،منہیات سے مجتنب رہنے کی تلقین کرتا ہے اور اس کی قوت ایمانی نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے پر اکساتی ہے اور بھلائی وخیرات میں فی الفور ترغیب دیتی ہے۔
مومن کون ہے؟
سچا مومن وہ ہے جو اللہ پر اس کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان رکھتا ہو،انھوں نے کو خبریں ہمیں دی ہیں ان کی صداقت پر یقین رکھے ۔اور اپنے نفس کو ان کی اطاعت میں اواامرو نواہی کے بجا لا نے میں ہمہ وقت تیاررکھے۔زبان سے شہادتین کا اقرار کرے اور اس اقرار کو حق ثابت کرے نماز قائم کرنے سے زکاۃ دینے سے رمضان کے روزے رکھنے دے اور بیت اللہ کا حج کرنے سے ۔
یہ وہ مومن ہیں جس سے دوستی و اخوت رکھنا واجب ہے۔ اس سے دشمنی حرا م ہے اور یہ سچا مسلمان ہے جو ہر دوسرے مسلمان کا ایمانی بھا ئی ہے اس کا مال عزت اور جاندوسرے پر بالکلیہ حرا م ہے۔
ایمان اور اسلام سے اس مومن کو کو ئی شے خارج نہیں کرتی ۔یہاں تک کہ وہ جن چیزوں پر ایمان لا یا ان میں سے کسی ایک کی یا اس کے کسی حصے کی واضح تکذیب کرے یا جس چیز کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا اس سے انکا ر کردے ۔جن چیزوں سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے ان سے منکر ہو جا ئے ۔اور ان کے استخفاف کا مرتکب ہو یا بعض ایسے امور جن پر وہ ایمان لایا ہے اور جن کے کرنے یا نہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں یعنی کتاب و سنت میں مشروع کیا ہے ان پر مذاق کا کو ئی پہلو اس کے قول و فعل سے نکلتا ہو۔
مؤمن معصیات و منہیات کا رتکاب کرنے سے معصوم نہیں (1)بسا اوقات وہ واجب کو بھی ترک کر دیتا ہے اور حرا م کا ارتکاب کر لیتا ہے لیکن واضح رہے کہ مومن اس معصیت کو اپنے لیے حلال نہیں سمجھا کرتا نہ ہی اس گناہ کو صحیح جا نتا ہے چنانچہ یہ گناہ اسے ایمان سے خارج کرنے کا مو جب نہیں بنتے اور اس کے اسلام کی صحت ان گناہوں سے متاثر نہیں ہو تی ۔جب بھی وہ اللہ کی طرف سچے دل سے رجوع کرتا ہے تو اللہ اسکو معاف کر دیتا ہے لیکن خبردار رہئے اس بات سے کہ گناہ پر اصرار کرنا ایمان واسلامکی ہلا کت کے مترادف ہے اور انسان کو اللہ کی رحمت سے بعید تر کر دیتا ہے۔
مؤمن اپنے ایمان کی تقویت اور اپنے اسلام کو خوب تر کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے جس کا اظہار وہ و اجبات کی ادائیگی اور مستحبات کی کثرت سے کرتا ہے۔
مؤمن کا ایمان بعض ایسے عوامل سے کمزور پڑجا تا ہے اور اس کا اسلام کم تر ہو تا ہے جودنیاوی رغبت سے تعلق رکھتے ہوں اور نفس کی خواہشات و ہوس پر مبنی ہوں۔اسی طرح دینی امور میں غفلت و نسیان سے کا م لیا جا ئے اور یہ چیزوہاں واضح تر ہو جا تی ہے جہاں اس تساہل کا نتیجہ بعض فرا ئض وواجبات کی عد م ادائیگی کی صورت نکلے اور متعدد فرا ئض سے کو تا ہی کے ساتھ ساتھ بعض محرمات میں بھی مؤمن واقع ہو جا ئے ۔لیکن ان معاصی کے ارتکا ب کے باوجود واضح رہے کہ یہ گناہ اس کو ایمان سے خارج نہیں کرتے نہ ہیاس کو اسلام سے دور کرتے ہیں جب تک کہ اللہ کی ذات پر اس سے ملا قات پر اور رسول پر اس کا ایمان و ایقان استوار رہے اور وہ رسول کے لا ئے ہو ئے احکا م ہدایت اور شریعت پر کامل یقین رکھتا ہو۔ لہٰذا اگر ایسا معصیت کا مرتکب شخص اپنی موت سے قبل توبہ کی سعادت حاصل کر لے تو اس کے لیے آگ سے آزاد ہو کر جنت میں دا خلے کی تو قع کی جا سکتی ہے اور بد قسمتی سے اگر تو بہ سے پہلے ہی وہ موت سے ہم کنار ہو جا ئے تو اس کا معاملہ اس کے رب کی طرف ہے ۔اگر اللہ چاہیں تو اس کو معاف فر ما کر اس کے گناہوں کو بخش دیں اور اگر چا ہیں تو اس کے گناہوں کے بقدر عذاب دے کر بعد میں اس پر رحم فر ما دیں اور اس کو دارالسلام یعنی جنت میں متقین اور صالح افراد کی ہمراہی کی نعمت بخش دیں ۔مومن اور ایمان کے ضمن میں بیان اور وضاحت مکمل ہو ئی اور اب۔۔۔۔!
کفر کیا ہے اور کا فر کو ن ہے؟
کفر کا لغوی معنی چھپانا اور ڈھانپنا کے ہیں اور اسی لفظ سے یہ جملہ بھی استعمال ہو تا ہے "کفر الزارع البذر فی الارض"
"یعنی زراعت کرنے والے نے بیج زمین میں چھپا دیا یعنی بودیا اور اس کو مٹی سے ڈاھانپ دیا تاکہ وہ نشو و نما کے قابل ہو جا ئے اور اس سے چرند و پرند فائدہ اٹھا سکیں ۔قرآن میں اس کی مثال یوں ہے کہ
كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ‌ نَبَاتُهُ اس کھیتی کے کا شتکاروں کے لیے اس کا نشوونما پانا خوشی کا باعث ہے۔
اسی طرح کہا جا تا ہے کہ كفر الشئي ويكفره كفرا(کاف کی زبر کے ساتھ اور پیش کے ساتھ) جب کو ئی شخص کسی چیز کو ڈھانپ دے اور اس پر پردہ ڈال دے اور نعمت کے کفر ان کا مطلب ہے اس کا انکا ر کرنا۔ لہٰذا حق سے کفر کرنے کا مفہوم یہ ہوا کہ جب کو ئی شخص حق سے منکر ہو اور اس کی تکذیب کرے ۔
شرعی طور پر کفر کی دو قسمیں ہیں ۔
پہلی کفر اکبر کی ہے یعنی ایسا کفر جو ایمان کے مخالف ہواور اسلام کو ختم کردے اور اس کا مرتکب دائرہ ایمان اسلام سے خارج ہو جا ئے ۔ اس کی صورتیں یہ ہیں ۔
1۔اللہ کی ذات کا منکر ہو جا نا یعنی اس کے وجو د کا انکا ر کر دینا جس طرح علمانیوں اوردہریوں کا عقیدہ ہے۔
2۔اللہ کے اسماء و صفات سے انکا ر کر دینا اور ان میں الحاد کا طریق اپنانا (2)یعنی تاویل کے ذریعے راہ حق سے مختلف رستہ اپنانا جس سے ان اسماء و صفات کا مفہوم کچھ کا کچھ ہو جا ئے ۔
3۔اللہ تعا لیٰ کی تکذیب کرنا اللہ کی شریعت کے کسی امریا حکم کی تکذیب بھی اس دائرہ میں داخل ہے (3)مثلاًعبادات احکام اور آداب و اخلا ق اسلامیہ میں سے کسی کی تکذیب کا مرتکب ہو نا یعنی اس کو دین ماننے سے ہی انکا ر کر دینا ۔
4۔اللہ تعا لیٰ کی ان امور میں تکذیب کرنا جس میں اللہ تعا لیٰ نے غیب سے خبر دی ہے مثلاً فرشتوں جنات اور امور آخرت (یعنی بعث وحساب،جنت اور آگ کا انجام وغیرہ) کا انکار کرنا۔اس طرح جنت میں جن اصناف نعمت کا تذکرہ کیا گیا ہے اور جہنم میں عذاب کی جن صورتوں سے ڈرایا گیا ہے،ان پر یقین نہ کرنا اور ان کی حقانیت  پر ایمان نہ رکھنا۔
5۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت کا انکار یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی  رسالت کا منکر ہونا یا اس کی نبوت ورسالت کا منکر ہوجانا جس کی نبوت ورسالت کی تصدیق اور خبر اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔جس طرح بے شمار انبیاء کرام علیہ السلام  اور مرسلین کی نبوت کا اقرار ہے۔
6۔قرآن مجید کی تکذیب کردینا یا کسی آیت کا،کلمات ِقرآنیہ میں سے کسی ایک کلمہ یا ایک حرف کو جھٹلانا،یا الٰہی کتب مثلاً توراۃ،انجیل،زبور یا مصحف ابراہیم میں سے ایک کو جھٹلانا۔
7۔آخرت میں دوبارہ جی اٹھنے کا منکر ہوجانا اور روح کے بغیر اجسام کے دوبارہ لوٹنے کا انکار کرناجس طرح کہ نصاریٰ کااعتقاد ہے۔
8۔تقدیرکا انکار کرنا:اس سے مراد یہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا معاملہ جو دنیا میں وقوع پزیر ہوا ہے اس کے بارے میں اللہ پہلے سے علم رکھتے تھے۔اورپہلے اندازہ موجود تھا تاکہ اس کاعلم اوراندازہ کا مل ہوسکے اور اللہ کا علم کم ہوتا ہے  نہ زیادہ۔اور ہرواقعہ سے قبل اللہ کا علم اس کو حاوی ہوتاہے۔اسی طرح دنیا میں واقع ہونے والا کوئی معاملہ بھی اپنے صفات وماہیت کے اعتبار سے مختلف ہوتا  ہے نہ ہی ا  پنے   وقت سے ذرہ بھر آگے پیچھے ہوتاہے۔ان وقوعات دنیوی میں انسان کے اعمال،اس کا رزق،موت کا وقت اور نیکی ،خوش بختی وبدبختی سب شامل ہیں۔(4)
9۔ثابت شدہ ضروری احکام دینیہ میں کسی کا منکر ہونا مثلا زنا کے حرام ہونے،سود کی حرمت، چوری کی ممنوعیت وغیرہ۔اس طرح نماز کے واجب ہونے،زکوۃ کے لازم ہونے،روزہ اوروالدین سے حسن سلوک کے وجوب سے منکر ہونا،وضوء یا غسل کا انکار کردینا،نماز یا دونوں شرمگاہوں کو چھپانے سے انکار کردینا۔
(10)۔اللہ تعالیٰ کی ربوبیت میں شرک کا مرتکب ہوجانا،اس طرح کہ اللہ کی ذات کے ساتھ کسی اور خالق،رازق اور کائنات کے لئے  تدبیر کرنے والے کو کار فرماسمجھ لیا جائے۔اسی طرح اللہ کے اسماء وصفات میں شرک کا مرتکب ہونا۔مثلا کسی انسان کا اللہ،الرحمان،اور رب یا اس جیسے نام رکھ لینا یہ اعتقاد رکھنا کہ فلاں شخص بھی غیب کے احوال جانتاہے۔اور فوت  شدہ زندہ شخص کی آواز  سنتا ہے۔اور اس کی ضرورت اورحاج کی تکمیل میں اس کی معاونت وسفارش کرسکتا ہے۔(5)کسی مردہ شخص کا و سیلہ حاصل کرنا تاکہ وہ اس کی ضروریات  پوری کروادے۔اس طرح کہ اس کے لئے نذر مان لی جائے یا ذبح روا رکھاجائے،اس کی قبر پر قیام کیا جائے اور اس کو پکارا جائے،اس سے استنجا واستغاثہ کیا جائے۔
11۔کسی کافر کو کافر کہنے سےاور کسی مشرک کی تکفیر سے انکار کرنا۔کیونکہ اس انکار میں اللہ اور اس کے ر سول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تکذیب تصور ہوگی۔کسی امر پر خاموش رہنا  اور مطمئین رہنے کا مطلب،اس کا اقرار کرنا اور اس کو قبول کرلینا ہی ہے۔
12۔جادو کی تعلیم سیکھنا اور سکھانا اس کو جائز سمجھنا اور اس کے جواز کا اقرار کرنا جبکہ اہل سنت والجماعہ کا جادوگر کے کفر پر اجماع ہے اور اس حدیث کی بنیاد پر اس کا قتل واجب ہے کہ "جادوگر کی حد یہ ہے کہ تلوار سے اس کی گردن مار دی جائے"دوسری حدیث میں یہ ہے کہ"جب جادو یقینی اور واضح ہوجائےے تو اس کو قتل کردینا چاہیے"کیونکہ جادو کی حُرمت دین میں واضح طور پر موجود ہے۔
13۔اللہ کی ذات اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں اور آیات الٰہی کے بارے میں مزاح وتخفیف کا  رویہ رکھنا اور ان کا مذاق اڑانا،اس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول نے مومنین کے لئے جو احکامات،شریعت ،آداب اوراخلاق بصورت شریعت انہیں دیے ہیں،اُن سے استہزا اور استخفاف کا رویہ رکھنا۔
یہ ہیں کفر کی اقسام! لیکن ان اقسام کفر کے مرتکب شخص پر آگ میں داخلے اور وہاں ہمیشہ رہنے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا،الا یہ کہ اسی حالت میں اس کوموت آجائے اور موت سے قبل اس نے توبہ نہ کی ہو۔
اگر موت آنے سے  پہلے پہلے وہ توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے اور اس کے لیے جنت میں داخلے اور جہنم میں نہ ڈالے جانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
بہر طور کفر کی ان اقسام کا  تعلق کفر  اکبر سے ہے۔جن  پر اگر توبہ نہ کی جائے تو اس کفر کے ذریعے،انسان اسلام سے نکل کر کافر ہوجاتا ہے۔
اس سے کمتردرجہ کفر  اصغر کا ہے واضح رہے کہ کسی گناہ کوکفر سے منسوب کرنا اسے تمام دوسرے گناہوں سے بڑھا دیتاہے کہ اسلام میں رہتے ہوئے کوئی مسلمان سب سے بڑے جس گناہ کامرتکب ہوسکتاہے۔وہ ایسے گناہ جن پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے۔لیکن وہ کفر اصغر ہیں۔اور کفر اصغر ان عظیم گناہوں میں سے ہے جو آخرت میں عذاب کا موجب ہوں گے۔لیکن یہ کفر ملت سے خارج نہیں کرتا اور اس کی بناء پر جہنم میں ڈالے جانا لازمی امر نہیں۔اگر اس کامرتکب موت سے قبل توبہ نہ کرے تو جہنم میں اپنے گناہ کی سزا پانے تک رہے گا،بعد میں نجات پاسکتا ہے ۔اس کی صورتیں یہ ہیں:
1۔مسلمان سے لڑائی اور جنگ کرنا ،حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:"مسلمان کو گالی دینا گناہ کاکام ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے"اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ مسلمان سے جنگ کرناکفر ہے۔اس طرح  دوسری حدیث  میں ہے کہ"مسلمانو!میرےبعد تم کافر نہ ہوجانا اس طرح کہ ایک د وسرے کی گردنیں مارنے لگو۔"اس سے بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی باہمی جنگ کفر ہے۔
اس کے بالمقابل سورہ بقرہ کی یہ آیت ہے:"جس شخص کو قصاص معاف کردیا گیا اس کی بھائی کی طرف سے ،تو اس کے لئے نیکی کے رستے پر چلنا لازم ہے اور اس احسان کابدلہ چکانا ضروری ہے"اسی طرح سورہ حجرات کی یہ آیت کہ"تم دو بھائیوں کے مابین صلح کروادو"اس فرمان کے بعد کہ"اگر دو گروہ مسلمانوں کے آپس میں جھگڑ  پڑیں تو ان کے مابین عدل سے صلح کروادو"
یہ دونوں آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ کسی مسلمان سے قتال کرنے  والا کافر ہے لیکن اس میں ایسا کرنا کفر نہیں پایا جو جس کا مرتکب ملت سے خار ج ہو یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بھی اس کو اخوت اسلامی سے باہر نہیں کیا۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا کفر کے لفظ سے موسوم کرنا درحقیقت اس کی اہمیت اجاگر کرنےکی وجہ سے ہے اور مذکورہ قول نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں کفر سے مراد ایسا گناہ عظیم ہے جو ملت سے خارج نہیں کرتا۔
2۔اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھانا۔جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے:
"جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا یاکفر کامرتکب ہوا"
اہل سنت والجماعت کا بھی اس امر پر اجماع ہے کہ یہ شرک اور کفر کا ارتکاب ہے۔لیکن یہ دونوں کمتر درجے ہیں شرک اور کفر کے جو مرتکب کو اسلام سے خارج نہیں کرتے۔
3۔نماز کو سستی یا تساہل سے ہلکا یا آسان سمجھتے ہوئے ترک کرنا باوجود اس کے کہ وہ  اس کے وجوب پر ایمان لاتا ہو اور اس میں ظاہری رغبت بھی رکھتا ہو۔باطنی طور پر اس کی ادائیگی اور اقامت میں خاصی دلچسپی بھی اس کے طرز عمل کا حصہ ہو۔کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:
"جس نے نماز کو ترک کیا گویا اس نے کفر کیا"
سو یہاں بھی کفر سے مراد کفر اصغر ہے جو ملت سے خارج نہیں کرتا۔اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا واضح فرمان بھی حدیث مالک میں بصراحت موجود ہے  کہ:
"پانچ نمازیں دن اور رات میں،اللہ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دی ہیں۔جو ان کواداکرتا رہے گا اور کسی نماز کو ہلکا سمجھتے ہوئے ترک نہیں کرے گا۔اس کے بارے میں اللہ کاعہد ہے(ذمہ داری) کہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جو یہ عمل باقاعدہ نہیں بجا لاتا تو اس کے بارے میں اللہ کا کوئی ذمہ نہیں۔اگر چاہے تو اس کو جنت میں داخل کردے،اگر چاہے تو عذاب کا سزاوار بناد ے"
لیکن جو شخص نماز کوترک کرتاہے اس کے منکر ہوتے ہوئے اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے تو ایسا شخص کافر ہے۔واضح تر کفر کا مرتکب اور خارج از اسلام ہے،اس مسئلے میں علماء میں کوئی اختلاف نہیں۔جبکہ حدیث کے یہ الفاظ"اللہ کا بے نماز سے کوئی وعدہ نہیں،چاہے تو عذاب کا حقدار بنائے اور چاہے تو جنت میں داخل کردے"سے معلوم ہوا کہ یہ شخص خارج از اسلام نہ ہوگا۔
4۔قاضی اور جج حق کے ماسوا فیصلہ کرے یا حاکم اللہ کے نازل کردہ احکامات کے علاوہ فیصلہ کرے ،ان دونوں کا کفر،کفر اصغر کی قبیل سے ہے۔جب تک یہ اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان رکھیں گے،آخرت پر یقین ہوگا اور وحی کو قبول کرتے رہیں گے ،تب تک یہ لوگ اسلام سے خارج نہیں ہوں گے۔جیسے کے حضرت  ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے منقول(6) ہے کہ انھوں نے اللہ کے اس فرمان:،۔﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴿٤٤...المائدۃ  کے ضمن میں فرمایا کہ"یہ ایسا کفر نہیں جو اسلام سے خارج کرتا ہو۔"
5۔کاہن اور نجومی کے پاس آنا اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی خبر غیب کی تصدیق کرنا بھی اس حدیث کی وجہ سے کفر ہے:
""جو شخص کا ہن یا نجومی یا عالم کے پاس آتا ہے اور اس کی خبر کو سچ مانتا ہے تو اس نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل ہو نے والے دین کا انکا ر کیا "
چنانچہ یہ کفر بھی اصغر ہے اور اس بارے میں اہل السنتہ والجماعۃ میں کو ئی اختلا ف نہیں کسی مسلمان کا اپنے مسلمان بھا ئی کو کا فر کہہ دینا اور "کا فر !"کہہ کر بلانا حدیث میں ہے ۔
"جب کو ئی شخص اپنے بھا ئی کو اے کافر کر کے بلاتا ہے تو یہ کفر دونوں میں کسی ایک کی طرف لوٹتا ہے۔(اگر  وہ سچا ہے تو مخاطب کا فر ہوا اور اگر وہ جھوٹا ہے تو خود اس نے کفر کا ارتکاب کیا)
یہ بھی کفر اصغر ہے اور ملت سے خروج کا موجب نہیں باوجود دیکہ کہ گناہ عظیم ہے کیونکہ مسلمان کو کا فرکہنا کسی طور درست نہیں۔
عورت پر اس کی دبر سے آنا حائضہ عورت سے جماع کرنا بھی کفر کا درجہ رکھتا ہے حدیث میں ہے۔
"جو شخص حائضہ عورت پر داخل ہوا یا عورت پر اس کی دبر سے آیا تو اس نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر جو نازل ہوا اس کی نفی کی"
کفر اصغر کی یہ سات صورتیں ہیں جس کے علاوہ بھی اس کی متعدد صورتیں ہیں جس طرح کفر میں اصغر و اکبر کی تقسیم ہے۔ اس طرح شرک اور گناہ بھی صغیر و کبیر کی تقسیم رکھتے ہیں ۔
جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ریا کا ری کے بارے میں منقول ہے۔
"خبردار ہو دکھلا دے (ریا کاری ) سے کیونکہ یہ شرک اصغر ہے ۔
اللہ تعا لیٰ کے فر ما ن﴿ وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ...٣٧...الشورٰیکا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ چھوٹے موٹے گناہوں سے بچتے ہیں اسی مفہوم پر اجماع اہل علم ہے ۔
یہاں تک کفر کی تقسیم کفر اکبر و اصغر کے ضمن میں بحث تھی اور اب !۔۔۔
1۔یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کس شخص پر کا فر کا اطلا ق ہو گا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حقیقی کا فر وہ شخص ہے جس سے دشمنی رکھنا واجب ہے اور اس کی دوستی حرام ہے اور مسلمان عورت کا جس سے نکا ح نہیں ہو سکتا اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہو تی وہ مسلمان  کا وارث نہیں ہو تا نہ ہی اس کا وارث کو ئی مسلمان ہو سکتا ہے جب وہ مر جا تا ہے تو اسے غسل نہیں دیا جا تا ۔کفن نہیں پہنایا جا تا ۔۔۔اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جا تی اور مسلمانوں کے قبر ستان میں اس کو دفن نہیں کیا جا تا ۔۔۔اور کفر اکبر کی ذکر کی گئی گذشتہ 13صورتوں میں کسی ایک صورت یا ایک سے زیادہ صورتیں اس میں پا ئی جا ئیں ۔بالخصوص اس میں دین کے ساتھ مذاق اور اللہ اس کی آیات اس کے رسولوں کو خفیف اور کم مرتبہ سمجھا جاننے لگے ۔
2۔آخر نکتہ یہ ہے کہ کسی مؤمن کو کب کا فر کہا جا ئے گا اور اس کو کا فر کہنے والے کا حکم کیا ہو گا ؟اس کا جواب یہ کہ مؤمن کو اس وقت کفر کی طرف منسوب کیا جا ئے گا جب وہ کفر یہ اعتقاد رکھے یا کسی شے کو کفر سمجھتے ہو ئے اس کو زبان سے کہے ۔یا اختیار کے باوجود کفر یہ اعمال انجام دے ماسوااس کے کہ وہ مجبور ہو ۔جیسا کہ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے ۔
"مگر وہ شخص جو مجبور کر دیا جا ئے لیکن اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اس شخص سے مختلف ہے جس کا سینہ کفر کے لیے وسیع ہے۔"
مؤمن کی تکفیر کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن کو کفر سے منسوب کر دیا جا ئے یا کفر نسبت اس کی طرف کی جا ئے اور یہ تب ہی صحیح ہو گا جب وہ ایسے عقائد رکھے جو کفر پر مبنی ہوں یا انہیں زبان سے ادا کرے اور اپنے جوارح سے اس کی تصدیق کرے ۔چند صفحات قبل کفر کی 13صورتیں گذر چکی ہیں پھر چند سطر قبل کا فر کی تعریف بھی گذری ہے کہ کا فر وہ ہے جس پر تیرا صورتوں میں سے کو ئی ایک صورت یا اس سے زیادہ صورتیں منطبق ہوں ۔اس قضئے پر بنا رکھتے ہو ئے مؤمن کو اس وقت کفرسے منسوب کیا جا ئے گا ۔جب وہ ان تیرہ صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا مرتکب ہو جا ئے سو اگر وہ تو بہ کر لے اور کفر سے رجوع کر لے تو اسلام کی طرف بھی لو ٹ آئے گا اور اپنے مسلمان بھا ئیوں میں اپنا کھویا مقام دوبارہ حاصل کر لے گا ۔اگر ایمان کے بعد کفر کے ارتکا ب پر اس کا صرار جاری رہےتو اس سے دشمنی رکھنا لا زم ہو گا ۔اس کی دوستی حرا م ہو گئی ۔اور اس سے وہی برتاؤ کیا جا ئے گا جو باقی تمام کفار و مشرکین سے روارکھا جا تا ہے اور کفار ومجوس اور دوسرے دین والے جس سلوک کے مستحق ہیں وہی اس شخص کا بھی استحقاق ٹھہرے گا ۔
3۔جو شخص جو صاحب ایمان کو کا فر کہے وہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اور صحیحین میں مروی ہے :"جب آدمی اپنے بھا ئی کواے کافر کہہ کے مخا طب کرتا ہے تو یہ کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹ آتا ہے۔یعنی اگر مخا طب حقیقتاًکا فر ہے تو پھر صحیح رہا ۔اور اگر ایسے نہیں تو اس کفر کا انتساب کہنے والے کی طرف ہو جا تا ہے جیسا کہ ابھی یہ ذکر گذرا ہے کہ ایک شخص بہر طور کفر کا مرتکب ہو گا  ۔لیکن اس کفر کی بنیا د پر اسلام سے خروج نہ ہو گا ۔بلکہ یہ کفر اصغر ہے لیکن گناہوں میں عظیم تر ہے۔
خبر دار رہنا چا ہیے اور اللہ کے غیظ و غضب سے ڈرجا نا چا ہیے ان لوگوں کو جو آج اس دور میں عام ہو چکے ہیں اور عامۃ المسلمین کو کفر کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کے نتیجے میں یہ لو گ خود اصغر کے مرتکب ہو تے ہیں حا لا نکہ اس کو سمجھتے نہیں اور بیوقوفی میں یہ سب کچھ کئے جا رہے ہیں ۔
یہاں میں آپ کے لیے چند ایک نصیحت کرتا ہوں ۔۔۔سوجا ن لیجئے ۔۔۔!
1۔میں فقط آپ کا خیر خواہ ہوں بہروپیا اور دھوکہ دینے والا نہیں ،نہ ہی آپ کے پا س جو دنیا وی مال و متاع ہے اور آپ کے علاوہ دوسروں کے پاس جو اسباب و مال ہیں ان کی طرف رتی بھر رغبت رکھتا ہوں ۔میرا لگا ؤ تو صرف اللہ کی ذات سے ہے کہ آپ کو اس نصیحت پر ہدا یت سے سر فرا ز فر ما ئے ۔اسی میں میری کا میابی بھی ہے ۔میں اس چیز سے خوف کھا تا ہوں کہ مبا دا میں آپ کو نصیحت نہ کروں اور آپ کے لیے سیدھا رستہ واضح نہ کروں اور آپ سے اس پر عمل پیرا ہو نے کی امید نہ کروں تو خود اللہ کے غضب کا شکار ہو جا ؤں ۔سو امید ہے کہ آپ اس رستے پر عمل کریں گے اور دین کو مکمل کر کے باسعادت ہو ں گے جن کے نتیجے میں آخر کا ر آگ اور ناکامی سے نجات آپ کا مقدر بنے گی ۔
2۔میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعا لیٰ آپ کو تین چیزوں سے محفوظ فر ما ئے ۔تکبر وانا ،خواہشات نفسانی اور بے جا کسی کی اتباع کرنا یعنی تقلید!بعد ازاں آپ اس رسالہ کو بغور پڑھیں ،اہتمام کے ساتھ اور مکمل غور وفکر کے ساتھ بہت امید ہے کہ آپ کسی اچھے نتیجے پر پہنچ جا ئیں گے جو آپ کو دوسروں کی تکفیر سے روک دے گا ۔اس طرح آپ خود بھی کفر سے بچ سکیں گے جس سے آپ خود بچنا چا ہتے ہیں لیکن بلا سمجھے اور جا نے اس میں خود ملوث ہو رہے ہیں ۔
3۔تیسری بات یہ ضروری ذہن نشین رہنی چا ہیے کہ گمرا ہ مسلمانوں کو تکفیر کر کے اور ان کے کفر کی تشہیر کر کے مذاق اڑا کر ان کی ہدایت کی توقع رکھنا ناممکن سی بات ہے بلکہ اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ خوشخبری تالیف قلبی ،نرمی اور محبت و مؤدت ،اچھی نصیحت اور بہتر طریقے سے دعوت کے ذریعے ان کو راہ راست پر لا یا جا ئے جو اسلام کا حقیقی منہج ہے۔
اور گمرا ہی سے لوگوں کو ہدایت کی طرف لے جا نے کے اسی طریقے کو اللہ عزوجل نے دین میں مشروع کیا ہے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی تعلیم دی ہے کہ اپنی دعوت کو پہنچا نے اور دنیا میں پھیلا نے کے لیے اس طریق دعوت کو اختیار کریں :ارشاد ربانی ہے۔
"اپنے رب کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور اچھے طریقے سے ان سے بحث کیجئے ،آپ کا رب زیادہ جا نتا ہے کہ اپنے رستے سے  کون گمراہ ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کا بخوبی علم رکھتا ہے"(سورۃ النحل)
4۔یہ امر جان لیں کہ جس قاعدے پر عمل پیرا ہوکر آپ اپنے علاوہ سب مسلمانوں کو کافر گردانتے ہیں وہ قاعدہ یہ ہے کہ ایساحاکم جو اللہ کے نازل کردہ آپ احکامات کے علاوہ کسی اور سے فیصلہ کرے تو وہ کافر ہے۔اور علماء جب اس کے کفر پر خاموش رہیں تو وہ بھی سب کافر ہوئے اور جب پوری قوم نے حاکم پر اس فعل کا انکار نہیں کیا تو وہ بھی گویا اس پر راضی ہیں اور حاکم کے ساتھ شریک ہیں سو وہ بھی کافر ہوئے،اس اصول سے آپ نے امۃ مسلمہ کو کافر بنادیا اور اس کفر سے آپ کے علاوہ کوئی محفوظ نہیں رہا۔یہ قائدہ جس پر چل کر آپ نے اپنے سوا باقی سب کو کافر بنایا ہے ،یقین طور پر فاسد اور باطل قاعدہ ہے اور اس کے تمام تضیات اور درجات فی الواقع باطل ہیں۔جس کی وضاحت یوں ہے:
حاکم جب اللہ کے نازل کردہ احکامات کے سوا فیصلہ کرےتو صرف اس بنیاد پر اس کی  تکفیر صحیح نہ ہوگی،یہاں تک کہ وہ صراحت کے ساتھ احکام الٰہی کا منکر نہ ہو۔یا اس کے طرز عمل میں ان احکام کے استہزاء اور مذاق کاکوئی پہلو ملتا ہو۔جہاں تک اس امر کاتعلق ہے کہ ریاست میں نافذ احکام کی شرعی احکام سے وہ تطبیق نہ دے اور وضعی قوانین پرنافذ العمل ہو۔الٰہی احکام کے انکار اور مذاق کے بغیر۔۔۔تو اس کی وجہ سے اس کو ایسے کفر سے منسوب کرنا غلط تصور ہوگا جو انسان کو اسلام سے خارج کردیتا ہے۔بلکہ اس کا یہ کفر"کفر معصیت" کہلائے گا یعنی کفر اصغر،اس کفر کی مثل جو عورت سے اس کی دُبر سے آنے یاحیض میں عورت پر داخل ہونے یا مسلمان سے لڑائی جھگڑے کی صورت لازم آتا ہے۔
حاکم کا یہ کفر اس شخص کےکفر کی طرح ہے جو کسی مسلمان کا کافر کہتا ہے کفر اکبر کی اقسام پہلے گذر چکی ہیں۔اس میں اس امر سے تعلق۔۔۔جب حاکم شریعت الٰہی کے علاوہ سے فیصلہ کرے اور قاضی احکامات الٰہی کے سواکسی قضیہ کافیصلہ سنائے۔۔۔کفر اکبر ہونے کی وضاحت موجود نہیں۔اور ایسا شخص مسلمانوں کی دشمنی کا حقدار نہیں ہوگا۔جہاں تک اس آیت کا تذکرہ ہے کہ"جو لوگ احکامات الٰہی سے روگردانی کرتے ہوئے کسی اور قانون سے فیصلے کرتے ہیں وہ  کافر ہیں"تو اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو احکام الٰہی سے منحرف ہیں اور اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔یا اس کے مدلول ایسے کفر کے مرتکب ہیں جس کو کفر اصغر کہتے ہیں جیسا کہ ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے: کہ (کیونکہ واضح رہے کہ سنت قرآن کے مجمل کی وضاحت کرتی ہے اورقرآن میں عام حکم کو خاص بھی کرتی ہے)۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی طرف اپنا رخ پھیرے اور ہمارا ذبح شدہ کھائے توایسا شخص مسلمان ہے،اس کے وہی حقوق ہیں جو  ہمارے ہیں اور اس پر وہی فرائض ہیں جوہم پر ہیں۔"
اسی طرح علمائے اہل سنت والجماعت سے ،جو امت کے لئےحق کو واضح کرنے والے ہیں،یہ بات ہم تک پہنچی ہے کہ وہ کہتے تھے:"ہم کسی قبلہ کی طرف رخ کرنے والے کی تکفیر نہیں کرسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے گناہ کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے۔(تب اس کی تکفیر ممکن ہے)چنانچہ اس طرح وہ حاکم اور قاضی جو ا پنے معاملات کو شریعت کے علاوہ دوسرے قوانین سے نبٹائے،حالانکہ وہ اس کو ناجائز سمجھتا ہو بلکہ اس گناہ  پر نادم اور متاسف ہوتو کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اس کی تکفیر کرے۔کیونکہ وہ شہادتین کا اقراری ہے،نماز کو قائم کرنے والا،زکوۃ ادا کرنے والا اور رمضان کے روزے ر کھتا ہے۔اور بیت اللہ کا حج کرتا ہے۔
اسلام ان ارکان پر ہی تو قائم ہوتا ہے۔لہذا کیسے اس کو اسلام سے خارج کیا جاسکتا ہے حالانکہ و ہ ارکان اسلام میں پختہ عمل پیرا ہے۔
اگرہم احادیث کی طرف نظر دوڑائیں تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ قول ہم اکثر سنتے ہیں کہ آپ کسی مخصوص گناہ کے مرتکب کو ایمان سے خارج قرار دیا کرتے تھے۔مثال کے طور پر آپ کافرمان:"بخدا وہ شخص ایمان نہیں لایا،بخدا وہ شخص ایمان نہ لایا جس کے شر سے اس کے ہمسائے محفوظ نہ ہوں"۔۔۔اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جو امانت کو صحیح ادا نہیں کرتا"۔۔۔ایک اور مقام پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :"تم مومن نہیں ہوسکتے حتیٰ کہ تم میں باہمی الفت ومئودت نہ ہو۔"
غور فرمایئے کیا یہاں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  خائن شخص کو ایمان سے خارج قرار دے رہے ہیں اور ان مومنوں کو ایمان سے خارج کہہ رہے ہیں جو اپنے مومن بھائیوں سے محبت نہیں رکھتا۔کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی نفی  کامطلب ان کو کافر قرار دینا اور مومنوں کی جماعت سے خارج قراردینا ہے؟؟؟
یقینی بات ہے کہ ایسا نہیں بلکہ ان  اقوال کو کمال ایمان کی نفی پر محمول کیا جائے گا۔اور یہ کفر سے شمار ہوگا لیکن بہرحال کفر اصغر ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اس بات سے بالکل مبرا و منزہ ہیں کہ کسی کلمہ گو کو کافر اور خارج از ایمان قرار دیں۔چنانچہ یہ اقوال کفردون کفر،ظلم دون ظلم،فسق  دون فسق اور نفاق دون نفاق کی قبیل سے ہیں۔ایمان میں بھی اسی طرح ایمان کامل اور ناقص کی،ایمان قوی اور ضعیف کی تقسیم ہے۔اس بارے میں وضاحت زیر نظر  مضمون کی ابتداء میں گذر چکی ہے۔
(5)۔میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کس چیز نے آپ مسلمانوں کی تکفیر پر اُبھارا ہے؟
ممکن ہے کہ آپ کو اس خوف نے اس امر پر اُبھارا ہو کہ مسلمان کبائر گناہ کا ارتکاب کرتے جارہے ہیں اور انھیں کسی نے اسلام سے خارج قرار نہیں دیا۔چنانچہ اس صورت حال پر آپ نے خوف کھایا ہو کہ آپ سے بھی یہ سوال کیا جائے گا کہ یہ لوگ اسلام کے نام لیوا ہوکر ا سلام کا نام بدنام کرنے کا سبب بن رہے تھے۔اور آپ نے ان سے براءت کا اظہار کیوں نہ کیا؟
میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب یا اپنے رسول کی زبان سے آپ کو مسلمانوں کو کافر ٹھہرانے کا ذمہ دارٹھہرایا ہے  کہ جب وہ گناہوں کاارتکاب کریں اور حرام چیزوں میں کثر ت کریں،واجبات اور فرائض کو ترک کردیں تو آپ انھیں کافر قرار  دینا۔اگر  اس کا جواب اثبات میں ہے تو میرا آپ سے مطالبہ ہے ایسی کوئی بھی آیت یا حدیث دکھائیے جس میں حکم دیا گیا ہو۔بخدا آپ اس مفہوم پر کوئی دلیل کبھی نہیں پا سکیں گے۔
میں آپ کو ترغیب دیتاہوں کہ مسلمانوں کی تکفیر کی بجائے ان کی ہدایت اور اصلاح کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں۔کیا رائے ہے  آپ کی کہ ان کو کفر سے منسو ب کرنے کے بعد کیا وہ ایمان لائے ہیں اور مسلمان ہوگئے یا پھر زیادہ گناہ کی طرف چلے گئے ہیں؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے غور کیجئے۔۔۔کیا کبھی اسلام کی دعوت کاطریقہ دوسروں کو ملامت اور طنزوتشنیع کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے یا اس کے برعکس؟بخدا اسلام کی دعوت مثبت بنیادوں پر قائم ہے اور ہدایت وصلاح کے اصولوں  پر مبنی ہے۔
  میں کسی متشدد آدمی کی اندھے دار تقلید سے آپ کو بچے رہنے کی تلقین کرتاہوں جس نے یہ امور آپ کے لئے مزین کردیئے اور ان کو نیکی بنادیا۔اور آپ نے بھی اس تکفیرانہ طرز عمل کو قبول کرلیا،قرآن مجید،سنت نبوی اور اجماع امت سے کسی بھی دلیل کی معرفت کے بغیر۔نامعلوم ایسے لوگ کس بنیاد پر مخلص نوجوانوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اپنے دام فریب میں الجھا دیتے ہیں۔
6۔میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ مسلمانوں کو کافر قرار دینے کے بعد آپ کا ان کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟اور دیگر مسلمانوں سے ان کےلئے کس طرز عمل کی امید رکھتے ہیں؟
کیا اس تکفیر سے آپ کامقصد ان کے خون کو اور ان کے اموال کو مسلمانوں کے لئے حلال کروانا ہے۔یا صرف اور صرف مسلمانوں کے مابین زیادہ سے زیادہ فتنے کا پھیلاؤ۔ تاکہ مطعون لوگ اسلام سے زیادہ سے زیادہ دور ہوجائیں اور اپنی ہلاکت کے قریب ہوجائیں۔نا معلوم وہ کیاچیز ہے جس نے اپنے بھائیوں کی تکفیر پر آپ کو ابھارا ہے،جس کو آپ نے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔یا وہ سبب،ممکن ہے کہ آپ بھی نہ جانتے ہوں۔اور بے سوچے سمجھے اس طرز عمل پر مصر ہوں۔بہرحال  تمام اسباب کے باجود آپ ایک وسیع وعریض فتنہ میں پھنس چکے ہیں اللہ سے میں دعاکرتا ہوں کہ آپ کو اس فتنے سے بچنے کی توفیق دے اور باقی تمام مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھے ۔آمین!
میری آپ کے لئے یہ نصیحت ہے کہ آپ ا پنے ہم خیال افراد کے ساتھ یا انفرادی طور پر عالم اسلامی کے نامور عالم سے اس موضوع پر تبادلی خیال کریں۔عرب میں علمی اور عملی طور پر اس کی واضح مثال شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ  کی شخصیت ہے۔ان سے تبادلہ کے بعد وہ جس امر کا فیصلہ سنائیں اس کو قبول کریں اور جن معاملات کا آپ کو حکم دیں ان کو بجالائیں۔کیونکہ وہ آپ کو صرف اور صرف خیر کی طرف نجات کی طرف اور آپ کی نیک بختی کی طرف ہی دعوت دیں گے۔ان سے تبادلہ خیال سے قبل میری نصیحت ہے کہ اپنے بھائیوں کی  تکفیر سے اللہ کی طرف توبہ کریں۔علم وعمل سے اپنے نفسوں کی اصلاح کی طرف توجہ دیں۔اس کے بعد اپنے بھائیوں کو منہج حق جو مسلمانوں کا سیدھارستہ ہے کی طرف دعوت دیں۔تاکہ آپ بھی اپنے بھائیوں کےساتھ دین کی سعادت کے حق داربن سکیں۔
یہ وہ رستہ ہے جس کے لیے تمام مسلمانوں کے لئے،میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ انہیں اس پر چلنے کی  توفیق عطا فرمائے۔آمین۔۔
(1)۔معصوم ہونے کامطلب یہ ہے کہ اللہ اپنی رحمت کے ساتھ اپنے بندے کو گناہوں سے محفوظ رکھیں۔مخلوقات میں معصوم ہونا صرف نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا خاصہ ہے۔کیونکہ قرآن میں ہمیں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیاہے۔اگر نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  معاصی کے مرتکب ہوسکتے ہیں تو پر امت کے لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات میں اسوہ حسنہ کیسے رہا؟۔۔۔مومن گناہ عظیم کاارتکاب کرسکتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ مومن کے لئے حدود(زنا،چوری،تہمت اور قتل) مقررکی گئی ہیں۔اگر گناہ صاحب ایمان کے لئے محال ہوتا تو یہ حدود بھی مقرر نہ ہوتیں بلکہ وہ بلا  توقف اسلام سے خارج ہوجاتا ۔اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ کبیرہ گناہ کامرتکب بھی مومن ہوسکتا ہے۔
(2)۔اسماء صفات الٰہی میں یہ الحاد اگر"اشاعرہ"کی تاویل کی طرح ہو کہ وہ صفات میں تشبیہ سے بچتے ہوئے تاویل پر مجبور ہوئے ہوں اور صفات کی حقیقت تسلیم کرتے ہوں۔تو باوجود اس کے کہ ان کا یہ قول بھی غلط ہے،ان کو کافر نہیں کہا جائے گا۔اسکے برعکس وہ لوگ جو مکروفریب اورحیلہ سازی سے اللہ کی صفات سے منکر ہوتے ہیں اور اپنے کفر کی وجہ سے ان کے انکار پر مصر ہیں،مانند ،جھمبہ کی تاویلات کے ،تو ایسے اعتقاد رکھنے کو کافر سمجھا جائے گا اور وہ خارج عن الملہ ہوں گے۔
(3)۔اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی اس میں شامل ہے کے کوئی شخص نبی کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  (مثلاً حضرات ابو بکر،عمر،عثمان،علی،طلحہ،زبیر اورعبدالرحمان بن عوف  رضوان اللہ عنھم اجمعین  ) کو کافر مانتا ہو اور  ان کی شان میں گستاخی کرے تو ایساشخص بھی کافر ہوگا،کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کو کافرماننا در اصل  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی تکذیب کے مترادف ہے۔بایں وجہ کے صحابہ کے ایمان اور  جنت میں داخلے کی بشارت اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بڑی وضاحت سے موجود ہے۔
(4)۔جس طرح کہ مسلم کی ر وایت میں  ہے کہ"فرشتے کو(پیدائش کے وقت) چار امو رلکھنے کا حکم دیا جاتا ہے :ا س شخص کے رزق کا:موت کے وقت کا،اعمال کا اور نیک بخت یا بدبخت ہونے کا۔
(5)۔اس طرح کے شرک کے مرتکب کو،اس و قت ،کافر تصور نہیں کیا جائے گا جبکہ اس کا یہ شرک اس کی جہالت کیوجہ سے ہو۔لیکن اگر اس کو سمجھا دیا جائے اور حقیقت واضح کردی جائے اس کے باوجود وہ شرک پر مصر رہے،مادی منفعت،خواہشات نفسانی کے حصول یا کسی اور وجہ سے ،تو تب اس کے کفر میں بھی کوئی شبہ نہیں رہ جائےگا۔
(6)۔ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اس قول کو حاکم نے نقل کیا ہے اور امام ذہبی نے طاوس کے طریق سے ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اس قول کو صحیح قرار دیا ہے۔