معرفت نفس کی حقیقت
"نفس " جمہور صوفیہ کے نزدیک منبع شر ہے تمام برے اعمال و افعال اسی سے ظہور پذیر ہو تے ہیں (1)چنانچہ سلیمان دارانی کا قول ہے کہ "نفس امانت میں خیانت کرنے والا رضائے الٰہی کی طلب سے روکنے والا ہے" (2) اسی لیے تہذیب نفس کہ جس کا مطالبہ راہ سلوک میں پہلا قدم رکھنے کے ساتھ ہی ہو تا ہے اور جو مجا ہد کا اصل مقصودہے سے قبل معرفت نفس ضروری ہے اس لحاظ سے معرفت نفس کو صوفیانہ زندگی کے نصاب العمل کی بنیا دی کڑی سمجھا جا تا ہے معرفت نفس کے بعد مجاہدہ کے ذریعہ نفس کا تزکیہ کیا جا تا ہے اور اس تزکیہ سے مشاہد ہ حق حاصل ہو تا ہے۔جو کہ تصوف کی معراج ہے تزکیہ نفس کے لیے کیا جا نے والا مجا ہدہ مطا لبات حیات کے خلا ف سخت طرز عمل اختیار کرنے پر زور دیتا ہے تا کہ نفس کے اندر دنیا وہ چیزوں کی طرف رغبت پیدا ہو نے کے امکا ن کا سد باب کیا جا سکے ۔اس رویہ کے پیچھے علماء تصوف کا یہ نظر یہ کا ر فر ما رہا ہے کہ دنیا و مافیہاسے مکمل بے تعلقی کے بغیر معر فت نفس کے بغیر معرفت حق تک رسا ئی ممکن نہیں چنانچہ اس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے رعونت کبریا ئی اور غرور نفس کے دفعیہ کی خاطر حاصل ہو نے والی نفس کشی کو سب سے افضل عمل قرار دیا گیا ہے چونکہ صوفیاء کے نزدیک مخالفت نفس بلکہ فناء نفس ہی مقصود ہے لہٰذا تمام مر غوبا ت و مشتہیات بلکہ جا ئز خواہشات تک سے ان کا اجتناب لازم ہوا ۔
بعض ارباب تصوف کے نزدیک ایک انسان کی حیا ت کا حقیقی مقصد بلکہ اس دنیا کو معرض وجود میں لا نے کی حقیقی غرض و غایت یہ ہے کہ انسان اللہ عزوجل کی معرفت حاصل کرے ۔اسی لیے محی الدین ابن عربی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں ۔
من لم يعرف لم يعبد
"جس نے اللہ کو نہیں پہنچانا اس نے گو یا عبادت ہی نہیں کی۔"(3)
ارباب تصوف کے علاوہ فقہائے حنفیہ کے نزدیک بھی معرفت نفس کی کچھ کم اہمیت نہیں ہے چنانچہ بعض متا خرین نے اس موضوع پر مستقل رسائل مرتب کئے ہیں جیسا کہ آگے بیان کیا جا ئے گا اور مولانا اشرف علی تھا نوی مرحوم تو معرفتنفس کے متعلق یہاں تک فر ما تے ہیں ۔
"اورامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے فقہ کی یہ تعریف منقول ہے۔
معرفة النفس ما لها وما عليها.
معرفت نفس کی اہمیت کے متعلق ایک زبان زد حدیث اس طرح بیان کی جا تی ہے ۔
من عرف نفسه فقد عرف ربه
"جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچا ن لیا۔"
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ صغانی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ "یہ موضوع ہے "(5)امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ " یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے ابو المظفر سمعانی "
القواطع في الكلام علي التحسين والتقبيح العقلي
"میں بیان کرتے ہیں "یہ مرفوعاً پہچانی نہیں جا تی "یہ یحییٰ بن معاذ الرازی کا قول ہے ۔جبکہ علامہ محمد درویش حوت البیروتی رحمۃ اللہ علیہ علامہ سمعانی و نووی رحمہم اللہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد فر ما تے ہیں : "بعض لوگوں نے اس قول کو ابو سعید الحزار کی جا نب اور بعض نے یحییٰ بن معاذ الرازی کی جا نب منسوب کیا ہے "(6)علامہ شیبانی اثری رحمۃ اللہ علیہ نے "تمییز الطیب من الحیث "میں علا مہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ و امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال نقل کئے ہیں (7)علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو "التذکرہ فی الاحادیث المشہمرۃ "میں وارد کیا ہے اور اس کے تحت علامہ سمعانی کا قول نقل کیا ہے (8)ملا طا ہر پٹنی گجرا تی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے "تذکرہ المو ضوعات" میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال نقل کرنا کا فی سمجھا ہے (9)علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ نے "الغماز علی اللماز "میں صرف علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے (10)علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الدررالمنتشرۃ "میں علامہ زر کشی رحمۃ اللہ علیہ کی اتباع کی ہے (11)اور اپنی دوسری کتاب "ذیل الموضوعا ت کی ایک فصل کہ جس میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاوی ٰوغیرہ میں جن احادیث کو باطل قرار دیا ہے کے تحت لکھتے ہیں ۔
"(آن رحمہ اللہ سے) من عرف نفسه فقد عرف ربه ومن عرف ربه كل لسانهکے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا یہ حدیث ثابت ہے؟ تو آپ نے جواب دیا :
ثابت نہیں ہے (12)
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس زبان زد حدیث پر مستقل ایک لطیف رسالہ بعنوان
القول الاشبه في حديث من عرف نفسه فقد عرف ربه
"لکھا تھا جو "الحادی الفتاوی " میں موجود ہے۔ اس رسالہ میں آں رحمہ اللہ فر ما تے ہیں ۔"یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔(13)صاحب القاموس علامہ فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
یہ احادیث نبوی میں سے نہیں ہے حا لا نکہ اکثر لوگ ایسی چیزوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ھدیث بنا دیتے ہیں کہ جن کی اصل صھیح نہیں ہو تی ۔اپبتہ "اسرائیلیات "میں مروی ہے یا انسان اعرف نفسک تعرف ربک "(14)
علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ المقاصد الحسنۃ" میں سمعانی و نووی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں
"بعض لو گ اس حدیث کی تاویل میں کہتے ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو حدوث کے ساتھ پہچا نا اس نے اپنے رب کو قدوم کے ساتھ پہچانا ،یا اسی طرح جس نے اپنے نفس کی فناء کو پہچانا اس نے رب کی بقاء کو پہچانا"(15)
ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سمعانی اور نووی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد تاویلاًفر ما تے ہیں :
"لیکن اس کے معنی صحیح ہیں یعنی جس نے اپنے نفس کو باعتبار جہا لت پہچان لیا اس نے اللہ کو باعتبار علم پہچان لیا یا جس نے اپنے نفس کی فناء کو پہچان لیا، اس نے اللہ کی بقاء کو پہچان لیا ،جس نے اپنے عجزو ضعف کو پہچان لیا اس نے اللہ کی قدرت اور قوت کو پہچان لیا اور یہ بات قرآن سے بھی ثابت ہو تی ہے:
﴿وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ ...١٣٠﴾...البقرۃ یعنی حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی ملت سے وہی انکا ر کر سکتا ہے جو اپنے نفس سے احمق ہو "یعنی اپنی جہا لت کی بناپر اللہ کو نہیں پہچانتا"(17)
اور علامہ شیخ اسماعیل بن محمد عجلونی الجراحی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد استدراکا تحریر فرمایا ہے :
"ابن الفرس نے نووی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرنے کے بعد بیان کیا ہے کہ کتب اس روایت سے بھر ی پڑی ہیں اس حدیث کا سیاق شیخ محی الدین ابن عربی وغیرہ نے نقل کیا ہے ہمارے استاد شیخ حجا زی الواعظ جو الجامع الصغیر للسیوطی کے شارحین میں سے ہیں محی الدین ابن عربی کے متعلق فرماتے ہیں کہ ابن عربی حفاظ حدیث میں سے تھے ۔بعض دوسرے اصھاب نے ذکر کیا ہے کہ اس حدیث کے متعلق شیخ محی الدین ابن عربی کا قول ہے کہ یہ حدیث اگر بطریق روایت صحیح نہ ہو تو بھی ہمارے نزدیک طریک کشف صحت کی درجہ کو پہنچی ہو ئی ہے۔۔۔اور علامہ نجم کا قول ہے کہ مادروی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "ادب الدین والدنیا"میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک روایت اس طرح مذکور ہے:
سئل النبي صل الله عليه وسلم من اعرف الناس بربه؟قال اعرفهم بنفسه
"یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اپنے رب کو سب سے زیادہ پہچاننے والاکون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ان میں جو سب سے زیادہ اپنے نفس کو پہچا نے والاہو۔
مذکورہ بالاعلماء و محقیقین کے اقوال آپ نے نلا حظہ فر ما ئے ۔علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تاویل میں بعض لوگوں کے جو اقوال نقل کئے ہیں یا اسی طرح ملا علی قاری حنفی نے اس حدیث کو "صحیح المعنی " قرار دے کر اس کی طرح طرح تاویلا ت پیش کرنے کی کو شش کی ہے یا قرآن کریم کی ایک آیت سے اس پر استدلال بھی کیا ہے وہ کس درجہ عبث اور لا یعنی ہے اس کا اندازہ ہر شخص بخوبی کر سکتا ہے لہٰذا ان صوفی منش حضرات کے مو قف کا بطلان کرنے کی چنداں حاجت نظر نہیں آتی ۔جہاں تک علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ کی "کشف الحفاء "کی منقولہ بالا عبارت کا تعلق ہے تو اس میں کئی امور انتہائی قابل گرفت ہیں مثال کے طور پر:
(1)محی الدین ابن عربی وغیرہ کا اس حدیث کو اپنی کتب میں بار دینا یہ کو ئی انوکھی یا نرالی بات نہیں ہے یہ یا اس جیسی ہزار ہاشطحیات ان کی و دیگر صوفیاء کی تصانیف میں جابجا بکھری نظر آئیں گی اور کیا اس کا محض ان کی کتب میں بار پا جا نا ہی اس کی صحت کی دلیل ہے؟
(2)شیخ محی الدین ابن عربی کے متعلق شیخ حجازی الواعظ رحمۃ اللہ علیہ کا قول کہ وہ حفاظ حدیث میں سے تھے قطعی باطل اور خلا ف واقعہ ہے ۔ایسا معلوم ہو تا ہے کہ شیخ موصوف نے ابن عربی کا بغور مطا لعہ کیا ہے اور نہ ہی وہ حفا ظ حدیث اور ان کی جہدو سعی کا خاطر خواہ علم رکھتے تھے مگر یہ اس کی تفصیل کا محل نہیں ہے۔
(3)شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا بذریعہ کشف حدیث کی صحت بیان کرنا بھی تمام اصول شریعت کو برہم کر دینے کے لیے کا فی ہے۔جس طرح ایک پیغمبر کو بواسطہ جبریل علیہ السلام کلام الٰہی کی سماعت کا دعویٰ ہو تا ہے ٹھیک اسی طرح محی الدین ابن عربی کے نزدیک ایک عالم باطن کو " حدشیقلبی عن ربی" کا دعویٰ کرنے کا پورا اختیار ہو تا ہے۔(19)
حالانکہ جمہورعلماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ کسی فرد کے مکا شفات و منامات یا الھامات کو شرعی دلیل کے طور پر قبول کیا جا سکتا ۔اور نہ ہی ان سے شریعت مطہرہ کے احکا م ثابت ہو تے ہیں چنانچہ علامہ عبد الرحمٰن بن یحییٰ المعلمی الیمانی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ فر ما تے ہیں (20)
"یہ شریعت اس بات کی متقاضی ہے کہ کشف دین میں صالح استناد نہ ہو۔"
اور خواب اور کشف وغیرہ سے اھادیث کی تصحیح کے متعلق شارح ترمذی رحمۃ اللہ علیہ علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
"جس حدیث کی صحت کا علم نہ ہو وہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصحیح فر ما نے یا کشف والھام کے ذریعہ صحیح نہیں ہو سکتی ۔کیونکہ خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا حکم ثابت نہیں ہے ۔جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں ارشاد فر ما یا تھا اس کا حکم ثابت ہے تصحیح حدیث کا مدارصرف اسناد پر ہو تا ہے ۔
ملا علی قاری شرح النخبۃ میں فر ما تے ہیں :کشف اور الھام اس مبحث سے غلطی کے احتمال کے باعث خارج ہیں ۔(21)اسی طرح شیخ محمد جمال الدین قاسمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "قواعد التحدیث "میں الردعلي من يزعم تصيح بعض الاحاديث بالكشف بان مدارالصحة علي السندکے تحت لکھتے ہیں :"یہ بات ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ احادیث صرف اسانید سے ثابت ہو تی ہیں نہ کہ کشف اور انوار قلوب وغیرہ سے" (22)ایسا دعویٰ کرنے والوں کے متعلق امام ابن الجوزی حنبلی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فیصلہ صادر فرمایا ہے:
"جس نے حدشی قلبی عن ربی کہا ،اس نے در پردہ اس بات کا اقرار کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مستغنی ہے اور جو شخص یہ دعویٰ کرے وہ کا فر ہے(23)صوفیاء (بالخصوص ابن عربی) کے بذریعہ کشف صحت حدیث بیان کرنے کے متعلق مزید تفصیلا ت کے لیے راقم کی مطبوعہ کتاب "ضعیف اھادیث کی معرفت اور ان کی حیثیت "کی طرف رجوع فر ما ئیں ۔
(4)علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ نے ماوردی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "ادب الدین والدنیا " سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جس حدیث کو بطور استشہاد نقل کیا ہے وہ بھی "بے اصل "ہے اس حدیث پر ان شاء اللہ ایک علیحدہ مضمون میں مفصل بحث کی جا ئے گی ۔ان تمام قابل گرفت امور کو علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ کا اپنی کتاب میں نقل اور پھر بلا تنقید چھوڑ دینا انتہائی تعجب اور افسوس کی بات ہے بعید نہیں کہ آں رحمہ اللہ بھی واسع العلم اور جلیل الشان ہونے کے باوجود انہی صوفیانہ نظریات کے حا مل رہے ہوں ۔واللہ اعلم ۔
اختتام سے قبل عصر حا ضر کے دو مشہور علماء کی آراءبھی پیش خدمت ہیں :
محدث شام علامہ شیخ محمد نا صر الدین الالبانی ضفظہ اللہ نے اس حدیث پر "بے اصل " ہو نے کا حکم لگا یا ہے اور اظہار افسوس کے طور پر فر ما تےہیں
"اس کے باوجود متاخرین فقہائے حنفیہ میں سے بعض نے اس حدیث کی شرح میں رسالہ لکھا ہے جو کہ مکتبہ الاوقاف الاسلامیہ حلب (مصر ) میں محفوظ ہے۔۔۔یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہ فقہاء انتہائی افسوسناک حدتک سنت کی خدمت اور اس میں داخل ہو نے والی خارجی اشیاء سے اس کوچھا نٹ پھٹک کرنے والے محدثین عظام کی بہودو سعی سے استفادہ نہیں کرتے اسی وجہ سے ان کی کتب میں ضعیف اور موضوع احادیث کی کثرت پائی جا تی ہے ۔واللہ المستعان"(24)
اور جامعہ امام محمد بن سعود بالریا ض کے استاد شیخ عبد الفتاح ابو غدہ مصری جو حاضر میں فقہ حنفی کے مشہور ترجمان و شارح سمجھتے جا تےہیں نے ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "المصنوع" کے ابتدا ئی صفاحات میں "شذرات فی بیان بعض الاصطلا حات فی عبارت المحدثین النقاد و حول الاحادیث الموضوعۃ "کے زیر عنوان اس حدیث کو بحوالہ "ذیل الموضوعات "للسیوطی وارد کر کے "غیر ثابت بتا یا ہے(25)فجزا ہ اللہ ۔
و آخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین والصلوة والسلام علی رسوله الکریم وعلی من تبعه باحسان اتی یوم الدین۔
حوالہ جا ت
1۔کشف المجوب للہجویری ص175،طبع لا ہور 1398ھ،عوارف المعارف للسہروردی ج2ص84طبع مصر1292ھ،الرسالہ القشیریۃللقشیری ص56طبع مصر1304ھ
2۔کشف ا لمجوب للہجویری ص176۔۔۔
3۔ماہنامہ سلسبیل لا ہو ر ج28عدد10ص15،ماہ اکتوبر 1990ء۔۔۔۔
4۔التکشف عن مہمات التصوف للتھانوی ص114طبع حیدرآباد کن۔۔۔
5۔الموضوعات للغانی ص35۔۔۔
6۔سنی المطالب للحوت ص299۔۔۔
7۔تمییز الطیب للشیانی ص187۔۔۔
8۔التذکرۃ فی الاحادیث المشتہرۃ للزرکشی ص129۔۔۔
9۔تذکرۃ الموضوعات للفتنی ص11۔۔۔
10۔الغماز علی للسہودی ص215۔۔۔
11۔الدررالمنتشرۃ للسیوطی 390۔۔۔
12۔ذیل الموضوعات للسیوطی ص203۔۔۔
(13۔الحادی للفتاوی للسیوطی ج2ص351۔۔۔
14۔الردعلی المعترمنین علی الشیخ ابن عربی للفیروزآبادی ج2ص37(ق)۔۔۔
15۔المقاصد الحسنہ للسخاوی ص419۔۔۔
16۔سورۃ البقرۃ130۔۔۔
17۔الاسرار المرفوعہ للقاری ص238،۔۔۔
18۔کشف الخفاء و مزیل الالباس للعجلونی ج2ص344،343۔۔۔۔۔
19۔الفتوحات المیکۃ لا بن عربی ج1 ص57۔۔۔
20۔التکیل بمانی مانیب الکوثری للیمانی ج2 ص341۔۔۔
21۔مقدمہ تحفۃ الاحوذی للمبار کپوری ص153،152۔۔۔۔
22۔قواعد التحدیث للقاسمی ص175۔183۔،ملخصا ۔۔۔
23۔تلیس ابلیس لا بن الجوزی ص374۔۔۔
24۔سلسلۃ الاحا دیث الضعیفۃ والموضوعۃ للا لبانی ج1 ص96۔۔۔۔
25المضوع للقاری ص37۔