تقریب افتتاح۔۔۔۔ عربی زبان و اسلامی قانون کورس

انسٹیٹیوٹ آف ہائر سٹڈیز ان شریعہ اینڈ جوڈیشری 99- جے، ماڈل ٹاؤن لاہور کے زیر اہتمام شریعت اور عربی زبان کے اعلیٰ کورس کی افتتاحی تقریب آج بوقت 3:00 بجے سہ پہر زیر صدارت محترم جناب وسیم سجاد صاحب، چئیرمین سینٹ آف پاکستان منعقد ہوئی۔

تقریب کا آغاز پرنسپل کلیة القرآن الکریم قاری محمد ابراہیم میر محمدی صاحب کی تلاوت سے ہوا۔ بعد ازاں انسٹیٹیوٹ کے ڈائیریکٹر حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب نے انسٹیٹیوٹ کا تعارف اور اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے بالخصوص شریعت کے نفاذ کے لئے پیش آمدہ مسائل کو علمی طور سے بھی حل کرنے کی ضرورت ہے اور تعلیم و تربیت کے میدان میں کام کرنے والوں کو ایک مشفق اور ہمدرد استاد کا کردار سامنے رکھنا چاہیے۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہترین ہمدرد اور خیر خواہ معلم تھے اور آپ نے ذکر و اذکار کے حلقے کی بجائے تعلیم کے حلقے کو پسند فرمایا۔ اس انسٹی ٹیوٹ سے منسلک تمام ادارہ جات کے مقاصد کا ارتکاز تین نکات پر ہے۔

1)انسانی ہمدردی و فلاح، جو تمام انبیاء و ادیان کا مقصد رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے سرگرم بنیادی ادارہ اسلامک ویلفئیر ٹرسٹ کے نام سے معروف ہے۔

2) دوسرا نکتہ ایسے علماء کی تیاری ہے جو علوم اسلامیہ اور عصری علوم سے برابر واقفیت رکھتے ہوں۔

3) تیسرا اہم مقصد جس کے حصول کے لئے بالخصوص یہ ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر سٹڈیز ان شریعہ اینڈ جوڈیشری کام کر رہا ہے۔ ایسے جدید تعلیم یافتہ افراد کو اسلامی تعلیمات سے بھی آراستہ کرنا جو پاکستان میں نفاذ شریعت کے لئے مناسب اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

1982ء میں حکومت پاکستان کے نعرہ نفاذ شریعت کے پیش نظر قانون دان حضرات کی ضرورت محسوس ہونے پر انسٹیٹیوٹ نے ان میں باقاعدہ کام شروع کیا اور 182 منتخب وکلاء حضرات کو ڈھائی سالہ کورس مکمل کروادیا جس میں مزید ایک سال میں تحقیقی مقالہ جات کی تکمیل پر ہائر ڈپلومہ کی اسناد جاری کی گئیں۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لئے انہیں سعودی عرب کی مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیمی سکالرشپ پر بیرون ملک مزید تعلیم کے لئے بھیجا۔ اسی سلسلے کے دوسرے دو سالہ کورس کا انعقاد 1984ء میں ہوا۔

سال رواں کے وسط میں مدینہ منورہ یونیورسٹی نے پانچ تجربہ کار پروفیسرز کو قانون دان حضرات کی تربیت کے لئے اس انسٹیٹیوٹ کی دعوت پر یہاں بھیجا اور ایک بھرپور کورس کا انعقاد ہوا جس میں 108 کے قریب وکلاء اور جج حضرات نے شرکت کی۔

انہوں نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی ملک پاکستان میں اسی طرح کے دیگر ادارے ہی ایک ملک کی قانونی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں اور اللہ کے فضل سے یہ شرف ہمیں حاصل ہوا کہ سب سے پہلے ہم نے اس کام کی ابتداء کی۔

بعد ازاں ادارہ کے ریکٹر ممتاز قانون دان ایس-ایم ظفر نے اپنے خطاب میں اس ادارے کو دو مختلف نظام ہائے تعلیم کا نقطہ اجتماع قرار دیا اور اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مدنی صاحب نے ایک چھوٹا سا کام شروع کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں آج یہ حیران کن مناظر اس ادارے کی بدولت دیکھ رہا ہوں کہ قانون دان حضرات اپنی تشنگی اسلامی قانون کی تعلیم کے ذریعے اور علماء کا طبقہ جدیدی تقاضوں کے مطابق اسلام کو پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اور امید کی جاتی ہے کہ قانون دان حضرات یہاں سے اسلام کے بنیادی اصول سیکھنے کے بعد خود اجتہاد کے ذریعے شرعی احکام کا اطلاق آئندہ پیش آمدہ مسائل پر کر سکیں گے اور آئندہ جو مغربی اور اسلام تہذیب کا ٹکراؤ سامنے آنے والا ہے اس میں ایسے لوگ اہم کردار ادا کریں گے اس لئے وقتا فوقتا میں بھی اس ادارہ میں اپنی خدمات پیش کرتا رہتا ہوں۔ اور اس نیک مقصد میں اپنی شرکت کو باعث سعادت سمجھتا ہوں۔

علاوہ ازیں انہوں نے ادارہ کے ایک اہم پروجیکٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قانون دان حضرات اشد ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ انہیں اسلامی عدالتوں کے فیصلہ جات اور طریقہ کار کا علم ہو جبکہ ایسا کوئی مواد میسر نہیں جس میں اسلامی عدالتی فیصلے یکجا مہیا ہو سکیں۔ اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ادارہ نے ایک وسیع تحقیقی منصوبہ بنایا ہے جس میں دور نبوت سے لے کر آج تک اسلامی عدالتوں کے فیصلوں کو جمع کیا جائے گا اور مجوزہ منصوبہ کے مطابق تقریبا دو سو جلدوں پر مشتمل ایک انسائیکلو پیڈیا کی تیاری ہے۔

سینٹ کے چئیرمین محترم جناب وسیم سجاد صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں ادارہ کی خدمات کی تعریف کی اور ان کے ان کاموں کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور کہا اسلام تو ایک بھرپور دین ہے اور اس کی تعلیمات ہر ترقی یافتہ دور میں قابل عمل ہیں۔ہماری فلاح کی ضمانت اسلام پر عمل کرنے میں ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویسے تو پاکستان کے قانون میں یہ بات مذکور ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف کوئی آئین نہیں بن سکتا اور اس کے لئے ایک شرعی کورٹ بھی موجود ہے جو کتاب و سنت کے خلاف نافذ شدہ قوانین کی نشان دہی کرتی ہے لیکن ضرروت عملی نفاذ کی ہے۔ اس لئے یہاں ایسے اداروں کا وجود اشد ضروری اور امید کی کرن بھی ہے۔ یہی وہ کام جس کے بعد ہم آئین میں دی گئی اسلامی دفعات کو عملی شکل میں سیکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے مغربی میڈیا میں پیش کردہ مصنوعی اسلامی و مغربی تصادم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اہل اسلام کے پیش نظر تو ایسا کوئی تصادم نہیں، جب بھی مسلمان دین میں سرگرمی کے لئے کوئی تحریک شروع کرتے ہیں تو مغربی میڈیا انہیں غلط رنگ دیتا ہے۔ اسلامی ممالک میں ہونے والے ہر قسم کے حادثے کو اسلامی دہشت گردی سے موسوم کرتا ہے جبکہ مغرب میں ہونے والی تخریب کاری کو غلط عناصر کی کارگردگی قرار دیتا ہے یہی مغرب کا وہ دوغلا معیار ہے جو آج مسلمانوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس تناظر میں ایسے اداروں کا وجود امت کے لئے باعث رحمت ہے جو روایتی دینداری سے ہٹ کر جدید دنیا کو اسلامی تقاضوں سے ہمکنار کر سکیں اور دور جدید میں اجتہاد کے ذریعے تعلیمات اسلامیہ کا اطلاق جدید پیش آمدہ مسائل پر کر سکیں۔

آخر میں انسٹٹیوٹ کے ڈائریکٹر جناب حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب نے تمام مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا اور دور نبوت سے لے کر آج تک اسلامی عدالتوں کے فیصلہ جات کو جمع کرنے کا منصوبہ کے بارے میں فرمایا کہ اس مقصد کے تکمیل کے لئے ادارہ کے ہیڈ آفس میں مورخہ 13 تا 18 دسمبر 1995ء ایک بین الاقوامی میٹنگ کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں سعودی عرب، کریت، امارات اور پاکستان کے اہل علم اور قانون دان حضرات شریک ہو کر اس عظیم منصوبہ کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لئے غوروفکر کریں گے۔ انہوں نے مزہد کہا کہ ادارہ ہذا کے وسائل تو ایسے وسیع ہیں کہ (؟؟؟) منصوبے و پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ لہذا اہل علم حضرات کے تعاون کے ساتھ ساتھ اس میں حکومتوں کا تعاون بھی درکار ہے۔ جیسے حکومت کویت کی نفاذ شریعت کونسل بھی اس نیک کام میں تعاون کر رہی ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کر کے اپنے کلمات کا اختتام کیا۔

آخر میں انسٹیٹیوٹ آف ہائر سٹڈیز کی طرف سے محترم جسٹس خلیل الرحمٰن خاں صاحب نے پرجوش انداز سے چئیرمین سینٹ جناب وسیم سجاد صاحب کے لئے تشکر آمیز جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کی سرپرستی سے ہمیں حوصلہ افزائی ملی اور اس کام کو مزید یکجہتی سے کرنے کا عزم پیدا ہوا ہے۔ اس طرح وہ بھی اس کام میں ہمارے ساتھ شریک ہوئے ہیں۔ ان کے اپنے قیمتی اوقات میں اس قدر وقت دینے پر ہم تہہ دل سے ان کے شکرگزار ہیں آخر میں ان کے لئے دعا ئیہ کلمات سے تقریب کا اختتام ہوا۔