پروگرام "بہبود آبادی" کے معاشرتی زندگی پر اثرات

ورلڈ پاپولیشن کونسل، نیو یارک.... ایک یہودی ادارہ ہے جو عالمی میڈیا پر قابض ہے۔ اس ادارہ نے وقتا فوقتا مسلمانوں پر ان کے مفاد کے خلاف کئی منصوبے مسلط کئے ہیں۔ جن میں سے سب سے زیادہ خطرناک منصوبہ "تحدید آبادی" یا "فیملی پلاننگ" ہے۔ کبھی اسے ضبطِ ولادت کہا جاتا ہے۔ کبھی اسے بہبودِ آبادی کا نام دیا جاتا ہے۔

اصل مئسلہ یہ ہے کہ آج کا دور تہذیبوں کےتصادم کا دور ہے۔ مغرب جو دو صدیوں تک مسلمانوں پر بالا تر رہ چکا ہے۔ چاہتا ہے کہ ہر حیلے بہانے سے مسلمانوں کو دبا کر رکھے اور ان کو اُبھرنے نہ دے۔ چونکہ بیسویں صدی میں مسلمان ممالک میں کئی اسلامی تحریکیں اُبھریں جو مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی طرف رجوع کر کے دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرنے پر زور دیتی ہیں۔ خود اسلام کی ابدی و سچی تعلیمات، پھر مسلمان مصلحین کی کوششیں اور آخر میں افغانستان کے ساتھ سُپر پاور روس کی کشمکش میں افغان جہاد کی کامیابی، بعد ازاں اس کے نتیجے میں ہر مسلمان اقلیت کے ہاں پیدا ہونے والے ذوقِ جہاد نے مغربی استعمار کی نیدن حرام کر دی ہے اور وہ اتنی ہی تیزی سے مسلمانوں کی تباہی کے درپے ہے۔ مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لئے انہوں نے بے شمار تدابیر اختیار کی ہیں۔ جن میں سے ایک تدبیر فیملی پلاننگ کی بھی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ تحریک صدر ایوب کے دور میں شروع ہوئی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس تحریک کو ریڈیو، ٹی وی سے بہت زیادہ پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ مگر یہاں کی مسلم آبادی نے خاطر خواہ اثر قبول نہ کیا۔ دوسری طرف امریکہ نے پاکستان کی فوجی و مالی امداد بند کئے رکھی، مگر فیملی پلاننگ کے لئے باقاعدہ ہ سال پہلے سے زیادہ امداد دیتا رہا۔ افغان جہاد کے بعد سے مسلم ممالک میں یہ مہم بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ اب پاکستان میں اس مہم کو بہبود آباادی کا نام دیا گیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ قیامت کے قریب شراب مختلف خوشنما ناموں سے استعمال کی جائے گی۔ بہبود آبادی کا نام سنتے ہی یہ حدیث فورا یاد آنے لگتی ہے۔ "بہبود آبادی" نام ہے دراصل مسلمانوں کی آبادی کو برباد کرنے کا۔ مگر اہل مغرب اپنے آلہ کار مسلم حکمرانوں کے ذریعے اس کو مسلط کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔

مسلمان معاشرے کو مستحکم رکھنے کے لئے شریعت نے مرد و زن کے آزادانہ اختلاط پر پابندیاں لگائی ہیں۔ مرد اور عورت کو غضِ بصر کا حکم دیا گیا ہے۔ مرد و عورت کے تعلق کو نکاح کی حدود کے اندر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مرد و عورت کے ہر تعلق کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ خواتین کو وقار کے ساتھ گھر میں رہ کر گھریلو محاذ سنبھالنے کی تلقین کی گئی ہے۔ محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کی تمیز کی گئی۔ عورت کے لئے وقتِ ضرورت گھر سے باہر نکلتے ہوئے حجاب کی پابندی کو ضروری قرار دیا گیا۔ اس طرح اسلامی معاشرہ کو ایک بھرپور نظامِ عفت و عصمت عطا کیا گیا۔ جس میں ہر شخص کے لئے نکاح کرنا آسان اور بدکاری کرنا مشکل ہو گیا۔

اس کے برعکس مغربی تہذیب جو مادیت پر مبنی ہے۔ جو انسان کو ایک معاشرتی حیوان قرار دیتی ہے۔ جس کا مقصد زندگی حیوانوں کی طرح کھانا پینا اور جنسی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔ وہاں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ خاندانی نظام منہدم ہو چکا ہے۔ رشتوں کا تقدس ختم ہو چکا ہے۔ بے شمار کنواری ماؤں کی بہتات ہے۔ وہاں خاندانی منصوبہ بندی کے تجربے نے انہیں فحاشی، بد اخلاقی، عیاشی، بے راہ روی اور معاشی بدحالی جیسے کڑوے کسیلے پھل دئیے ہیں۔ اب وہ یہ کڑوے کسیلے پھل مسلم ممالک کو بھی منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے عورتوں کے حقوق کا غلغلہ بلند ہوا۔ اس کے بعد مساواتِ مرد و زن کے خوشنما نعرے لگے۔ پھر یہ پروپیگنڈا ہوا کہ یہ عورتوں کی نصف آبادی گھروں میں کیوں بیکار پڑی ہے۔ یہ باہر نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کیوں نہین کرتی؟ ان سب نعروں کا یہ نتیجہ نکلا کہ بیشتر مسلم معاشروں میں حجاب ختم ہو گیا ہے۔ دوپٹے بھی گلوں میں رسی بن کر لٹکنے لگے۔ عورتیں سمعِ محفل بننے لگیں۔ کارخانوں ، فیکٹروں میں نظر آنے لگیں۔

آج کل کا دور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا دور ہے۔ ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر کے ذریعے ہر غلط چیز کو برا خوشنما بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ پریس بھی اس کی اشاعت میں لگ جاتا ہے۔ اب مسلمان ممالک میں جنسی تعلیم کو تعلیمی اداروں میں متعارف کرانے کی سکیمیں بنائی جا رہی ہیں۔ فیملی پلاننگ کے نام سے مسلمانوں میں کنڈوم کلچر کو رواج دینے کی کوششیں جارہی ہیں۔ منعِ حمل اور اسقاطِ حمل کے جگہ جگہ سنٹر کھلے ہوئے ہیں۔

بہبود آبادی کے خوشنما عنوان کے نیچے کتنے مفاسد چھپے ہوئے ہیں۔ ان پر ہمیں گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

1۔ عقیدہ کی کمزوری

سب سے پہلا اور سب سے برا فساد تو یہ ہے کہ یہ ایک ملحدانہ (؟) نظریہ ہے۔ اسلام جو نام ہے عقائد کا، جتنے یہ عقائد قلوب میں راسخ ہوں۔ مسلمان اتناہی مضبوط توانا اور ناقابلِ تسخیر ہوتا ہے۔ خصوصا عقیدہ توحید اپنے دامن میں بے پناہ قوت رکھتا ہے ہمارا ایمان ہے کہ رازق اللہ ہے، وہ اپنی تمام مخلوق کو خود روزی دینے کا ذمہ دار ہے۔ فیملی پلاننگ کے پروگرام سے ہمارا ایمان کمزور پڑتا ہے۔ عقائد کمزور ہوتے ہیں اللہ کی صفتِ ربوبیت و رزاقیت پر زد پڑتی ہے۔ اور جب ہمارا ایمان کمزور ہو جائے تو خوب سمجھ لیجئے کہ دشمن کے آگے سرنگوں ہو گئے۔ بالفاظ دیگر ہم نے اللہ کا دامن چھوڑا دوسروں سے ایڈ (Aid) لینی شروع کی۔ اس طرح ہم اللہ کے غضب کو کھلم کھلا دعوت دے رہے ہیں۔

2۔ انفرادی قوت میں کمی

ہمیں درایا جاتا ہے اگر ہماری آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو عنقریب پاکستان میں آبادی اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ کسی کو بھی ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سلسلہ میں مجھے کہنے دیجئے کہ حقائق کی دنیا کچھ اور نقشہ پیش کرتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت سے کے لر اب تک پاکستان کی آبادی 3 گنا بڑھی ہے جبکہ وسائل پیداوار چار گنا بڑھے ہیں۔ اب بھی ہمارا صرف 47٪ حصہ زیر کاشت ہے۔ ابھی وطن عزیزی کا 53٪ حصہ جو قابل کاشت ہے، بیکار پڑا ہے۔ مصنوعی کھادوں، ٹیوب ویلز، تھریشر، ٹریکٹر جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے والی ادویات اور دیگر جدیدسہولتوں کی بنا پر مجموعی قوی پیداوار میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ (ملاحظہ کیجئے حکومت پاکستان شعبہ مالیات کی طرف سے شائع کردہ اکنامک سروے (90-1989ء) کا ضمیمہ ص46، ٹیبل 3اور4

پھر پاکستان میں اتنے آبی وسائل موجود ہیں کہ ان سے با آسانی 20 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ کالا باغ ڈیم، پھر سکردو اور بھاشا کے مقامات پر ڈیم بنائے جا سکتے ہیں۔ جبکہ یہ بجلی نسبتا سستی بھی ہو گی۔ عملا اس وقت پاکستان میں صرف 6398 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہت۔

ہمارے اربابِ اقتدار ہوش کے ناخن لیں اور آبادی کی منصوبہ بندی کے بجائے وسائل کی منصوبہ بندی کریں۔ اس وقت ملک میں لوٹ کھسوٹ کا جو بازار گرم ہے اور غریبوں کا خون چوس چوس کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ آنکھیں کھول کر حقائق کی دنیا میں آئیں۔ محنت اور دیانتداری سے ملکی وسائل کو ہر شخص کی دہلیز تک پہنچائیں۔

بقول وزیر اعظم اگر ہماری آبادہ بارہ کروڑ کی بجائے چھ کروڑ ہوتی تو ہر ایک کی ضروریات نسبتا اچھی طرح پوری ہوتیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دشمن ملک بھارت جو ہر وقت ہمیں نیست و نابود کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اس کا مقابلہ چھ کروڑ کی قوم اچھی طرح کر سکتی ہے یا بارہ کروڑ کی۔ بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ اگر ہم 24 کروڑ ہوتے تو زیادہ اچھی طرح دشمن کے دانت کٹھے کرتے۔ آپ دشمن کا آلہ کار بن کر وہ پالیسیاں اپنانے پر تُلے بیٹھے ہیں جو ہمارے لئے بہت نقصان دہ ہیں۔ جب ایک بچہ دنیا میں کھانے والا منہ لے کر آتا ہے تو وہ ساتھ ایک سوچنے والا دماغ، دو ہاتھ اور دو پاؤن بھی لے کر آتا ہے۔

(3) خاندانی نظام کی تباہی

بقائے نسلِ انسانی اور قیام تمدن کے لئے ضرروی ہے کہ خاندانی نظام مستحکم ہو، عورت اور مرد کا تعلق جائز حدود کے اندر ہو۔ دونوں مل کر گھر اور خاندان کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ کیونکہ انسان کا بچہ تمام مخلوقات میں سے زیادہ کمزور اور حفاظت پھر مسلسل تربیت کا محتاج ہے۔ اکیلی عورت بچوں کو نہین پال سکتی لہذا وہ مرد جس کے ساتھ سے بچہ وجود میں آتا ہے، اس کے لئے لازم ہے کہ وہ بچوں کی تربیت، پرورش، نگہداشت پر ہر مرحلے پر دونوں مل کر اس گرانقدر ذمہ داری کو انجام دیں۔ یہ کام نکاح اور تحفظ عفت و عصمت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ لیکن فیملی پلاننگ کی تحریک جب منع حمل اور اسقاط حمل کو جائز ٹھہرانے پر شور دیتی ہے تو پھر یہ ان خاندانی بندھنوں کو ڈھیلا کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ خواہشات کی ناجائز تسکین میں ایک بڑی رکاوٹ حمل قرار پا جانا ہے جب منع حمل کی ادویات جگہ جگہ موجود ہوں اور حمل کو روکنا ممکن بنا دیا جائے تو پھر خاندانی نظام کا برقرار رہنا مشکل ہے، کون شخص ہے جو شادی کرے۔ بیوی بچوں کی گراں بار ذمہ داریاں سنبھالے اور ہر وقت ان کے لئے کمانے کی فکر میں لگا رہے۔ لہذا فیملی پلاننگ کی تحریک کے ساتھ خاندانی نظام کی بربادی لازمی اور ناگزیر ہے ہر جگہ ذواقین اور ذواقات منہ مارتے پِھریں اور کوئی معاشرتی خوف نہ ہو۔ کوئی ذمہ داری نہ ہو۔ اور یہ صورت حال عملا یورپ و امریکہ میں پیش آ چکی ہے۔ بچے بالغ ہونے سے پہلے ہی اپنے گھروں کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اگر نہ کہیں تو والدین خود ان کو گھر چھوڑنے کا حکم دے دیتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر بچے اپنے ماں باپ کے خلاف عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو وہ اولڈ ہاؤسز (Old Houses) میں داخل کرا دئیے جاتے ہیں۔ عورتیں اور مرد ملازمت پر نکل جاتے ہیں۔ وہاں بچے نرسریوں میں پلتے ہیں۔ کسی کے پاس اپنے والدین کے ساتھ بات کرنے کا وقت نہیں، بچوں کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ حتیٰ کہ میاں بیوی کے اپنے اپنے فرینڈز ہیں، وہ ان میں مگن ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں طلاقوں کی شرح اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہر دوسری شادی طلاق پر ختم ہوتی ہے۔ اسی طرح ناجائز بچوں کی بکثرت تعداد معاشرے کے لئے رِستا ہوا ناسور بن رہی ہے۔

(4) رشتوں کا تقدس مجروح ہوتا جا رہا ہے

باپ بیٹی، بہن بھائی ، ماموں چچا وغیرہ کے رشتے بڑے قابل احترام سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام نے ان سب کو محرم رشتہ قرار دیا ہے، جہاں کوئی شخص نکاح کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ تمام رشتے اتنے قریبی ہیں کہ انہوں نے گھروں میں مل جل کر رہنا ہوتا ہے اور باہم اتنی قربت ہوتی ہے کہ اسی قربت کی بنا پر خاندانی نظام میں یگانگت اور پائیداری پیدا ہوتی ہے۔ مگر بھلا ہو اس ضبطِ ولادت کی مہم کا، کہ اس نے ان سب رشتوں کا تقدس ختم کر دیا ہے۔ مغرب میں عملا اس وقت یہ صورت حال ہے کہ دس گیارہ سال کی لڑکیاں گھروں میں اپنے باپ اور بھائی کی دست درازی کا شکار ہو کر باہر نکل کھڑی ہوتی ہیں۔ مگر باہر معاشرہ اس سے بھی گندا ہے تو پھر وہ "آگے کنواں پیچھے کھائی" کے مصداق اتنی حیران و پریشان ہوتی ہیں کہ الاماں والحفیظ ۔ کم سنی کے جرائم بہت بڑھ گئے ہیں۔ اندازہ کریں وہ بچی جو پاکدامن رہنا چاہتی ہے، شرم و حیا والی ہے۔ گھر میں ہی اسے سکون نہیں مل رہا تو پھر وہ جائے تو کہاں جائے۔ اب یہی صورت ادھر پاکستان میں بھی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ آئے دن اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ حالانکہ معلوم ہونا چاہیے کہ زنا بہت بُرا اور گھناؤنا فعل ہے مگر وہ اس وقت مزید گھناؤنا بن جاتا ہے جبکہ وہ ہمسائے کی بیوی سے ہو اور اس وقت تو اور بھی بھیانک ہو جاتا ہے جب وہ اپنے محرم رشتہ داروں سے ہو۔

(5) بے حیائی کی اشاعت

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿نَّ الَّذينَ يُحِبّونَ أَن تَشيعَ الفـٰحِشَةُ فِى الَّذينَ ءامَنوا لَهُم عَذابٌ أَليمٌ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَ‌ةِ ۚ وَاللَّهُ يَعلَمُ وَأَنتُم لا تَعلَمونَ ﴿١٩﴾... سورة النور

"جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے درمیان فحش و بے حیائی پھیلے، وہ دنیا و آخرت میں سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے"

بے حیائی و فحاشی بہت قبیح گناہ ہے مگر میرے خیال میں اشاعتِ فحش اس سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے۔ کیونکہ فحش جہاں ہے، وہاں پڑا رہے تو اتنا نقصان نہیں ہے جتنا اس وقت ہوتا ہے جب وہ لوگوں کے درمیان پھیلا دیا جائے۔ اشاعتِ فحش کے ساتھ فحاشی و بے حیائی کی ترغیب ملتی ہے۔ شریری الطبع نفس فورا اس فحش کا ذاتی تجربہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوام کی زبانیں آلودہ ہوتی ہیں اور پھر نوخیز بچوں کے ذہن وقت سے پہلے ہی بالغ ہو جاتے ہیں وہ تعمیری اور مثبت کام چھوڑ کر ان منفی کاموں کی طرف پڑ جاتے ہیں۔ اپنے اخلاق اور صحت دونوں برباد کرتے ہیں۔

اب پروگرام بہبودِ آبادی والے جس بھونڈے طریقے سے ضبطِ ولادت کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی کے اوپر گندے اور واہیات اشتہار، قد آدم پوسٹرز اور بینرز جا بجا چوراہوں میں لگے ہوئے۔ خود وزیر بہبود آبادی کی بہبود آبادی واک، اس کے حق میں مظاہرے یہ سب کیا مذاق ہے۔ نوخیز ذہنوں کو کس طرح مسموم کیا جا رہا ہے اس پر مستزاد وی سی آرم بلیو پرنٹ، آڈیو ، ویڈیو کیسٹ، فحش ترین گانوں کی گاڑیوں، ویگنوں، بازاروں میں بھرمار اور گندی ریکارڈنگ۔ خدایا یہ تیرے سادہ لوح بندے کدھر جائیں؟

کیسے اپنی آنکھوں کو ان فحش مناظر سے اور کیسے اپنے کانوں کو ان فحش گانوں سے بچائیں۔ وہ کس طرح اپنے دامن حیا کو بچائیں کس طرح اپنے ایمان کو سلامت رکھیں۔ اب 5 ستمبر سے 31 ستمبر 1994ء میں قاہرہ میں ہونے والی کانفرنس کا نیا مطالبہ ملاحظہ ہو کہ سکولوں میں جنسی تعلیم باقاعدہ مضمون کے طور پر پڑھائی جائے۔ یہ مسلم ممالک کے اندر بے حیائی پھیلانے کا جدید ترین اور موژر ترین حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ پروگرام کامیاب ہو گیا تو امتِ مسلمہ کی رہی سہی غیرت و حمیت کا بھی جنازہ نکل جائے گا اور اس سے اگلا قدم دوزخ ہی ہو سکتا ہے، اس سے (؟) کچھ نہیں۔

(6) غیر مطلوبہ بچوں کی نفسیات

ضبطِ ولادت کی مہم نے ماں کی مامتا اور باپ کی پدرانہ شفقت کو بھی غائب کر دیا ہے۔ میں نے کئی خواتین کو یہ کہتے سنا کہ ہمارا یہ تیسرا یا چوتھا بچہ ہماری خواہش کے برعکس دنیا میں آ گیا ہے۔ وہ تیسرا یا چوتھا بچہ جو اپنے والدین کا بالکل جائز بچہ ہے، جب وہ یہ بات اپنے کانوں سے سنتا ہے تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ میرے پہلے بہن بھائی کیسے جائز بچے قرار پائے اور میں کیوں غیر مطلوب پایا۔ ان میں اور مجھ میں کیا فرق ہے۔ ظاہر ہے جو پیار و محبت اور شفقت ماں باپ پہلے بچوں کو دیتے ہیں، یہ بعد والے بچے اس شفقت و توجہ سے محروم رہتے ہیں۔ ذہن میں انتقامی جذبہ پا لیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ معاشرے سے انتقام لینے پت تُل جاتے ہیں۔ ایسے بچے پھر بڑے ہو کر جرائم پیشہ بنتے ہیں۔ آغاز گھر ہی سے کرتے ہیں۔ طرح طرح سے دوسروں کو پریشان کرنا۔ اور پھر بڑے جرائم میں ملوث ہو کر معاشرہ سے اپنی ناقدری کا انتقام لینا۔

بعض اوقات نہ چاہنے کے باوجود جو بچے عالمِ وجود میں آ جاتے ہیں وہ معذور، لولے، لنگڑے ہوتے ہیں اور اس طرح والدین کے لئے مسلسل اذیت کا باعث بنتے ہیں۔

مغربی معاشروں میں تو خواتین اپنے ہاتھوں ایسے بچوں کا گلا گھونٹ دیتی ہیں۔ عام معمول یہ ہے کہ بچوں کو گیراج میں ڈال دینا اوپر سے گاڑی گزار کر ان کو مار دینا۔ یہ ہے انسان کی سنگدلی اپنے جرائم کو چھپانے کے لئے اپنے عین اور رنگ رلیوں کی خاطر اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں قتل کر دینا۔

(7) بوڑھوں کی کثرت اور جوانوں کی کمی

جب آپ مسلسل فیملی پلاننگ کرتے رہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے کہ ملک میں بوڑھوں کی تو کثرت ہو گی مگر ان کی جگہ لینے والی نوجوان نسل ندارد ہو گی۔ یہ صورت حال اس وقت عملا یورپ و امریکہ میں پیش آچکی ہے۔ وہاں آبادی اتنی کم ہو چکی ہے کہ ان کے کارخانے، فیکٹریاں، دفاتر، تعلیمی ادارے چلانے کے لئے افراد نہیں ملتے۔تین تین نسل کے بوڑھے موجود ہیں مگر ان کو کھلانے والا صرف ایک نوجوان۔ اندازہ کریں اس قحطُ الرجال کا، یہ مصنوعی بانجھ پن ہے۔ جو مغربی اقوام نے بتکلف اپنے اوپر طاری کیا ہے۔ ان کے کارخانے، فیکٹریاں وغیرہ چلانے کے لئے ان کو غیر اقوام سے افراد لینے پڑے ہیں۔ اگر ایشیائی ممالک سے لوگ ان کی مدد کو نہ پہنچتے تو ان کے تمام ادارے زمین بوس ہو جاتے۔ ڈاکٹر فریڈرک "میرج اینڈ فیملی، ص239" میں لکھتا ہے کہ "وہ دو بچے پیدا کر کے صرف اپنا متبادل کو دیتے ہیں، نسل کو آگے بڑھانے کے لئے معاشرہ کو کچھ نہیں دے پاتے بالآخر نیست نابود ہونا اُن کا مقدر ہے۔

(8) معیارِ زندگی بڑھانے کا جنون

یہ ساری تحریک اس مفروضہ پر قائم ہے کہ "بچے دو ہی اچھے" ۔۔۔ "چھوٹا خاندان زندگی آسان" اور "دو بچے خوشحال گھرانہ" کہ صرف دو بچے ہوں، ان کو بہتر معیار زندگی اور اچھے سکولوں میں پڑھاؤ اور اپنے تمام وسائل ان بچوں کا بہتر کیرئیر بنانے میں لگا دو۔ یہ تمام مفروضہ دراصل لا تعداد بڑھتی ہوئی خواہشات کی تسکین کا نام ہے۔ خواہشات کبھی بھی مکمل نہیں ہوتیں، ہر دوم برھتی رہتی ہیں۔ یہ اخلاقی زوال قوم کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ ان سے ہر قسم کی جوانمردی، جانفشانی، ایثار، قربانی وغیرہ ہر چیز رخصت ہو جاتی ہے۔ اس طرح یکے بعد دیگرے تمام فضائلِ اخلاق کی جگہ گندے اور کمینے رذائل بڑھنے لگتے ہیں۔

(9) بے حیائی کا فروغ

بے حیائی وہ مہلک بیماری ہے جو پوری پوری قوم کو نگل لیتی ہے۔ رومی اور یونانی تہذیبیں اپنے بھرپور عروج کے بعد اس فحاشی کے ہاتھوں زوالم پذیر ہوئیں۔ اور آج کے یورپ و امریکہ کو بھی اس بیماری نے بالکل کھوکھلا اور زوال پذیر بنا دیا ہے۔ ہم جنس مردوں اور ہم جنس عورتوں کے حقوق کے لئے امریکہ اور سکنڈے نیوین ممالک میں جس قسم کی صحافتی اور سفارتی جنگ جاری ہے، اس کا خیال آتے ہی سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ڈنمارک، سویڈن اور ناروے میں باقاعدہ ننگے لوگوں کے کلب موجود ہیں۔ جہاں وہ برہنہ تن گاتے بجاتے اور ڈانس کرتے ہیں۔

قرآن پاک میں قومِ لوط کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب وہ ہم جنس پرستی سے باز نہ آئے اور اپنے پیغمبر کی بار بار کی فہمائش کے باوجود اس بے حیائی میں بڑھتے گئے تو پھر ان کی بستی سدوم پر پہلے تو پتھروں کی بار ش ہوئی اور پھر اس بستی کو مکمل طور پر الٹ دیا گیا۔ اس طرح وہ عبرتناک انجام سے دو چار ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو مکمل تباہی سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ فحاشی اور بے حیائی سے اجتناب ہے اور ہمارا دشمن یہی وبا ہمارے اندر زبردستی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

17 ہجری میں جب مسلمان فوجیں بیتُ المقدس کی طرف حملہ کی غرض سے بڑھیں تو بیت المقدس کے عیسائی پادریوں نے ایک سکیم سوچی۔ جس کے تحت انہوں نے خوبصورت و حسین عورتیں مسلم فوج کے رستے میں کھڑی کر دی کہ اگر پیش قدمی کرتے ہوئے کسی بھی مسلمان فوجی نے اپنی نگاہ ان خواتین کی طرف اٹھائی تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ مسلمان بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے اہل نہیں اور اگر معاملہ برعکس ہوا تو پھر ہمیں بیت المقدس ان کے حوالے کر دینا چاہیے کہ ان کے مقابلے میں ہمارا جیتنا محال ہے۔

لیکن جب مسلمان فوج نے پیش قدمی کی تو ان کے امیر عمرو بن العاص کو اس سازش کی خبر مل گئی۔ انہوں نے اپنی فوج کو سختی سے نظریں جھکا کر آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بھی شخص نے نگاہ غلط بھی ان خواتین پر نہ ڈالی، اس طرح عیسائیوں نے بغیر مقابلہ کئے بیت المقدس مسلمانوں کے حوالے کر دیا کہ تمہارا خلیفہ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) خود آئیں اور آ کر ہم سے بیت المقدس کی چابیاں لے لیں۔

پھر دوسری بار صلیبی جنگوں کے دوران پورے یورپ کی متحدہ فوج نے بیت المقدس مسلمانوں سے واپس لے لیا۔ اس وقت کے نیک دل حاکمِ مصر سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کی بازیافت کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ اپنی فوج کے اندر اس نے زبردست جذبہ جہاد بیدار کیا۔ ان کی بہتر تربیت کا بندوبست کیا۔ غنیم نے جب سلطان کی ان زبردست تیاریوں کو محسوس کیا اور ہر قدم پر وہ صلاح الدین سے ہٹتے چلے گئے۔ اب بیت المقدس پر سلطان کے آخری فیصلہ کن معرکہ کا موقع آ چکا تھا۔ پورے یورپ کی متحدہ صلیبی فوج نے محسوس کیا کہ وہ میدان جنگ میں سلطان کے مقابلے میں جیت نہیں سکتے لہذا انہوں نے پھر عیارانہ چال چلی۔ اور حسین عورتوں کو مسلمان فوج کے اندر چھوڑ دیا کہ تمہیں بہر صورت سلطان کی فوج کو شراب و کباب اور عورت کے فتنہ میں مبتلا کرنا ہے دوسری طرف سلطان ایوبی نے اپنے فوجیوں کے لئے شراب و کباب کو سختی سے منع کیا ہوا تھا۔ ان خواتین کو دھڑا دھڑ قید کرنا شروع کر دیا۔ لہذا دشمنوں کا یہ حربہ ناکام ہوا اور 583ھ میں مسلمانوں نے صلاح الدین کی قیادت میں دوبارہ بیتُ المقدس عیسائیوں سے واپس لے لیا۔

یہ دو تاریخی مثالیں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دشمن ہمیشہ ہی مسلمانوں کو شراب و کباب اور عورت کے فتنہ میںمبتلا کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمانوں کا ذوقِ جہااد اور شوقِ شہادت دبا رہے۔ یہ دونوں چیزیں متضاد ہیں۔ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال کا یہ شعر اس بات کی خوب عکاسی کرتا ہے:

آ تجھ کو بتاؤں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس رباب آخر


آج مغرب کی یہ بے حیا تہذیب کس طرح مسلمانوں کو اپنے سحر میں پھانس چکی ہے۔ اس کا اندازہ اس طرح کریں کہ پہلے تو انہیں مسلمانوں کے لئے ایسے ہتھکنڈوں کا بندوبست کرنا پڑتا تھا مگر اب تو ریڈیو، ٹی وی اور ڈش انٹینا کی شکل میں تمام تر فحش و بے حیائی ہر مسلمان گھر میں پہنچ چکی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ٹی وی سے آپ صرف خبریں سننا چاہیں تو وہ اس فحش اور لچر پروپیگنڈے سے خالی نہیں ہوتیں۔ پہلے بچے جب سوتے اور جاگتے تو ماں باپ کو نماز پڑھتے قرآن پاک پڑھتے اور ذکر الہی کرتے پاتے۔ مگر آج یہ مغربی تہذیب ہر گھر کے بیڈ روم میں اس طرح گھس آئی ہے کہ بچے سوتے بھی اسی کے سائے میں ہیں، جاگتے بھی انہیں پروگراموں کے زیر اثر ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے گندے دائیلاگ بولتے اور گاتے بجاتے ڈانس کرتے نظر آتے ہیں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ پیشن گوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب ہر مسلم گھرانا ناچ گانے کی زد میں ہو گا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سن کر حیران ہوئے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ امر کیسے ممکن ہے؟ مگر آج ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح ہر مسلم گھرانے میں ناچ گانے کی وبا اتنی عام ہو گئی ہے کہ آج شریف مسلمان (ان کی) بچیاں فخڑ سے اپنی فنکاری، گلوکاری، اداکاری، ماڈلنگ اور ڈانس کا ذکر کرتی ہیں۔ فاعتبروا يا اولي الابصار

اگر مغرب میں بے حیائی اتنے کھلے بندوں میں موجود ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی قانون کی رو سے اگر زنا کنوارے فریقین کی رضامندی سے ہو تو کوئی گناہ یا جرم نہیں ہے۔ وہ جرم تب بنتا ہے جب فریقین میں سے کوئی ایک شادی شدہ ہو کہ وہ نکاح کی شکل میں کئے ہوئے عہدِ وفا کی خلاف ورزی کر رہا ہو مگر مسلمانوں میں تو زنا بہر صورت حرام ہے اور قبیح فعل ہے۔ اس لئے اب تک مسلمان معاشرے نے اس کے خلاف کافی مزاحمت کی۔ مگر بہبود آبادی نے وہ ساری مزاحمت ختم کر ڈالی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی زبان سے ہم وہ گفتگو سنتے ہیں جو پہلے ادھیڑ عمر کے لوگ بھی کرتے شرماتے تھے۔ اب شرم و حیا کی جگہ بے باکی، بے حجابی، عریانی اور چھچھورے پن نے لےلی ہے۔

طبی اثرات

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جب کسی قوم میں بے حیائی عام ہو جائے تو وہاں ایسی وجابئیں پھوٹ پڑتی ہیں جو پہلے کبھی نہ سنی گئی ہوں۔ یہ پیشن گوئی آج کس حد تک سچ ثابت ہو رہی ہے۔ پہلے جسن پرستی نے ایڈز کو جنم دیا اور وہ دنوں کے اندر مغرب کا ایک بڑا سلگتا ہوا مسئلہ بن گیا۔ اب یہ بیماری مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ چند دن قبل طاعون کی وبا اس طرح پھیلی ہے کہ بڑی بڑی حکومتیں اس بیماری کو اپنا سر فہرست مسئلہ قرار دے رہی ہیں۔

ہمیں آگاہ رہنا چاہیے کہ ہمارا ہمسائیہ ملک بھارت ان دونوں بیماریوں میں سر تا پا غرق ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ایڈز کی بیماری بھارت میں ہے۔ کیونکہ ہندوؤں کے ہاں گانا، بجانا اور فحاشی باقاعدہ ان مذہبی عبادت ہے۔ جسے وہ بڑے تقدس کے ساتھ بجا لاتے ہیں اور اب وہاں سے پاکستان آنے والے شہریوں کے ذریعہ یہ پاکستان میں بھی منتقل ہو رہی ہے۔

طاعون کی بھارت میں شدت کا یہ حال ہے کہ اخباری اطلاعات کے مطابق اگر بمبئی کی آبادی ایک کروڑ ہے تو وہاں پانچ کروڑ چوہے موجود ہیں۔ اب یہ طاعون زدہ چوہے حیلے بہانوں سے پاکستان منتقل کر رہے ہیں۔

ویسے بھی جو شخص بھی ضطب ولادت میں ملوث ہو گا، قدرت اسے صحت کے مختلف مسائل میں مبتلا کر دیتی ہے۔ نس بندی کرانے والے مرد و زن کے خون جل جاتے ہیں۔ ان کے چہرے اور رنگ روپ سیاہ پڑ جاتے ہیں۔ جو مختلف بیماریوں کی پوٹ بن جاتے ہیں۔ بعینیہ خواتین منع حمل دوائیاں استعمال کرنے سے کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اور بسا اوقات تو وہ اس کوشش میں راہی ملک عدم ہو جاتی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ قدرت کے نظام میں دخل دینے سے انسان اپنے لئے لا تعداد مسائل پیدا کر لیتا ہے جن کو حل کرنا اس کے لئے ناممکن ہوتا ہے۔

اگر ایک طرف وزارت بہبود آبادی کے مراکز میں اور پرائیوٹ اداروں میں اسقاط حمل، نس بندی (Sterilization) اور نل بندی (Tubal ligation) ہو رہی ہے۔ جنہوں نے منافع بخش کاروبار کی شکل اکتیار کر لی ہے تو دوسری طرح اس سے بے شمار جانی نقصان بھی ہو رہے ہیں اور اگر خواتین زندہ بھی رہ جائیں تو مستقل بیماری کے ساتھ اپنے خاندان کو محدود کر کے انہوں نے کون سا نفع کمایا؟ اللہ کو ناراض کیا، عاقبت برباد کی اور ساتھ صحت مسلسل برباد کی۔

اللہ تعالیٰ تو مال اور اولاد دونوں کی زیادتی کو اپنا انعام قرار دیتا ہے۔ مگر انسان کا حال عجین ہے وہ اپنے مال کو تو مسلسل بڑھانے کی فکر میں رہتا ہے مگر دوسری نعمت یعنی اولاد کو مسلسل گھٹناے کی فکر میں رہتا ہے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ اولاد کو پالنا، تربیت و کفالت کرنا بڑا مشکل امر ہے، مگر ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی گئی ہے۔ ماں کو دنیا میں انسان کے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ ان تھک محنت کرتی ہے اور ان کی خاطر اپنا دن رات کا آرام چین قربان کر دیتی ہے۔ تبھی جا کر یہ رتبہ بلند ملتا ہے۔ ہمارے سامنے صحابیات کے نمونے موجود ہیں خود دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جو دس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عقد میں رہنے کے بعد اس دنیا سے رحلت فرما گئی تھیں۔ اس دس سالہ زندگی میں آپ کے بطن اطیر سے چھ بچے پیدا ہوئے تھے۔ گھر میں مفلسی و ناداری تھی، گھر کا سارا کام اپنے ہاتھ سے کرتیں۔ چکی پیستین، پانی ڈھوتیں، گھر کے تمام کام سر انجام دینے کی وجہ سے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے ان تمام مراحک سے نمٹنے کے لئے ان کو ایک نسخہ کیمیا دیا تھا۔ رات کو سوتے وقت 33 بار اللہ اکبر، 33 بار الحمدللہ پڑھنا اوور 34 بار سبحان اللہ پڑھنا ہے کہ اس سے ساری تھکاوٹ جاتی رہے گی۔

اسلامی شریعت میں تو اسقاط حمل کو قتل اولاد کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف کسی مرد یا عورت کی نسل اور حمل کی قوت کو زائل کرنے والے پر قتل نفس کی طرح دیت واجب ہوتی ہے۔ مسلمان فقہاء کے اس نوعیت کے فتوے باقاعدہ موجود ہیں۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کا اپنے دین کے مطابق عمل صرف نظریہ عبادات اور رسومات کی حد تک رہے اور وہ اس سے آگے نہ بڑھیں۔ معیشت، سیاست اور معاشرت میں مغربی تہذیب کا تسلط مسلمانوں پر برقرار رہے لہذا وہ مسلمانوں کو دبانے کے لئے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں، حالانکہ اس وقت ہمارا دشمن اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک میں آبادی بڑھانے پر نقد انعامات اور سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔

دوسری طرف محتاط اندازے کے مطابق یورپی اقوام دنیا کی کل آبادی کا 20٪ ہیں۔ مگر یہ کل دنیا کے 80٪ وسائل پر قابض ہیں۔ عیاری اور چالاکی سے غیر تعلیم یافتہ اقوام کے تمام وسائل لوٹ کر لے جا رہی ہیں۔ اب بھی وہ اپنا تحفظ اسی میں محسوس کرتی ہیں کہ مسلمانوں کو مسلسل دبائے رکھیں کہ کہیں وہ اپنے وسائل کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں۔ اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے ایشیائی قوموں کو دبا کر رکھنا وہ اپنی مجبوری سمجھتی ہیں۔

تو اے میری قوم! ہم اک لمحہ رک کر سوچین ہم اپنی نئی نسل کو کیا تحفہ دے رہے ہیں۔ کنڈوم کلچر کا؟ ہم اپنے ہاتھوں ان کو اندھے کنوئیں میں دھکیل رہے ہیں۔ قدیم دور جاہلیت میں لوگ اپنے ہاتھوں جھوٹی غیرت کی خاطر لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے مگر اس جدید دور جاہلیت میں لوگ اپنی پوری نسل کو فحاشی، منشیات، ہندو کلچر اور بے حیا مغربی تہذیب کی دلدل میں دفن کر رہے ہیں۔ ہر گلی میں کھلنے والی ویڈیو شاپس، گھٹیا فلمی جرائد اور اخلاق سوز کتابیں، عریاں فحش تصاویر۔ آخر ہم اپنے مستقبل کے لئے کس چیز کا بیج بو رہے ہیں؟

آئیے ہم عزم کریں ہم اس بہبود آبادی کے پروگرام کو رد کرتے ہیں اور اس کے خلاف مصروف جہاد ہوتے ہیں۔ اللہ ہماری مساعی کو قبول فرمائے (آمین)

ام قاسم (بنت عبدالرحمٰن کیلانی)