معیارِ زندگی کا اسلامی تصور اور اُس کے تقاضے

اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق ہے اور کائنات کی ہر چیز کی روزی اسی کے دستِ قدرت میں ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا ذکر موجود ہے۔ سورة الذاریات میں ارشاد ہے:

﴿وَفِى السَّماءِ رِ‌زقُكُم وَما توعَدونَ ﴿٢٢﴾... سورة الذريات"

اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے آسمان میں (یعنی اللہ تعالیٰ کے ذمہ میں) ہے۔ سورہ ھود میں ارشاد ہے:

﴿وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَر‌ضِ إِلّا عَلَى اللَّهِ رِ‌زقُها ... ﴿٦﴾... سورة هود

اور زمین پر چلنے والے ہر جاندار کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ میں لے لی ہے۔

دابة کا لفظ ہر ذی روح حیوان پر بولا جاتا ہے۔ رزق کی حقیقت کیا ہے؟ مفسرِ قرآن پیر محمد کرم شاہ الازہری صاحب، قرطبی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"الرزق حقيقته ما يتغذي به الحي ويكون فيه بقاء روحه ونماء جسمه"

رزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کی غذا بنے اور اس میں اس کی روح کی بقا اور جسم کی نشوونما ہو۔

قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَجَعَلنا لَكُم فيها مَعـٰيِشَ وَمَن لَستُم لَهُ بِر‌ٰ‌زِقينَ ﴿٢٠﴾... سورة الحجر

اور ہم نے تمہارے لئے زمین میں رزق کے سامان بنا دئیے اور ان کے لئے بھی جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو۔

صاحبِ ضیاء القرآن پیر محمد کرم شاہ نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:

معایش کا واحد معیشة ہے اس سے مراد وسائلِ معاش ہیں یعنی کھانے پینے کی چیزیں اور امام ماوردی نے کہا ہے کہ اس سے "عمر بھر اسبابِ رزق میں تصرف کرنا" مراد ہے: (قرطبی)

(وقيل انها التصرف في اسباب الرزق مدة الحياة قال الماوردي، وهو الظاهر)

قرآن مجید کی ان آیات سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ کائنات کی تمام چیزوں کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اللہ تعالیی رزق کی تقسیم میں کمی و بیشی پر قادر ہیں فراوانی سے رزق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں محدود اور تنگ رزق عطا کرتے ہیں۔

قرآن مجیدمیں ارشاد خداوندی ہے:

﴿قُلْ إِنَّ رَ‌بِّي يَبْسُطُ الرِّ‌زْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ‌ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٦﴾...سورة السباء
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا عطا کرتا ہے مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمة اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر و توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"دنیا میں رزق کی تقسیم کا انتظام جس حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اس کو یہ لوگ نہیں سمجھتے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ جسے اللہ کشادہ رزق دے رہا ہے، وہ اس کا محبوب ہے اور جسے تنگی کے ساتھ دے رہا ہے، وہ اس کے غضب میں مبتلا ہےحالانکہ اگر کوئی شخص ذرا آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے نظر آ سکتا ہے کہ بسا اوقات بڑے ناپاک اور گھناؤنے کردار کے لوگ نہایت خوشحال ہوتے ہیں اور بہت سے نیک اور شریف انسان جن کے کردار کی خوبی کا ہر شخص معترف ہوتا ہے تنگ دستی میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ اب آخر کون صاحبِ عقل یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ کو یہ پاکیزہ اخلاق کے لوگ ناپسند ہیں اور وہ شریر خبیث لوگ ہی اسے بھلے لگتے ہیں"

رزق کی فراخی اور تنگی ربِ کائنات کی مشیت سے ہی وابستہ ہے جیسا کہ قرآن کی درج بالا آیت سے واضح ہوتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:

عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم كل شئي بقدر حتي العجز والكيس ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر چیز تقدیر کے ساتھ ہے حتیٰ کہ بے چارگی و درماندگی اور دانائی و ہوشیاری۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی صفات، قابلیت و ناقابلیت، صلاحیت و عدم صلاحیت اور عقلمندی و بیوقوفی وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی سے ہیں۔ الغرض اس دنیا میں کو کوئی جیسا اور جس حالت میں ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی وضاء و قدر کے ماتحت ہے۔

اللہ تعالیٰ خالق کائنات ہیں۔ ارض و سماء کے مالک ہیں۔ رزق کے تمام خزانوں کے مالک ہیں۔ وہ اپنے بندوں کے طبعی اور فطری حالات و عادات سے پوری طرح باخبر ہیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال و ظروف کو جانتے ہوئے ایک مقررہ معلوم پیمانے پر رزق عطا فرماتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ‌ مَّعْلُومٍ ﴿٢١﴾...سورة الحجر
اور ہر چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں اور ہم ایک مقررہ اندازے پر نازل کرتے ہیں۔

قرآن و حدیث کے ان نصوص کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رزق کی فراخی اور تنگی کا سلسلہ مشیتِ ایزدی پر ہے اور وہ اپنے علم کی بنا پر اپنے بندوں کی روزی اور رزق کا پیمانہ مقرر فرماتے ہیں

رزق میں مدارج و مراتب کا اختلاف اور اس کی حِکمتیں و مصلحتیں

کائنات کی ہر ذی روح مخلوق تک اللہ رزق پہنچا رہے ہیں۔ دوسری مخلوقات کے برعکس انسان کے (پی ڈی ایف صفحہ 49 پر لائن کٹی ہوئی ہے؟؟؟)بے شمار حِکم و مصالح مضمر ہیں۔ جن کی نشاندہی قرآن مجید نے یوں بیان فرمائی ہے:

1۔ انسانوں میں فطری کمالات و اوصاف کا اختلاف

تمام انسانوں کی تخلیف میں فطری اختلاف ہے۔ اسی اختلاف کی بناء پر ان کی ذہنی صلاحیتوں اور کمالات و اوصاف میں فرق و امتیاز ہے۔ ان کی جسمانی توانائیوں اور طاقتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان کے افکار و خیالات اور نصب العین بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ نیز رزق حاصل کرنے کے اسلوب و اطوار بھی مختلف ہیں۔ چنانچہ اسی فطری اختلاف کی بدولت رزق کے پیمانے بھی مختلف ہیں اور انصاف بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ رزق کے معاملہ میں انسان کی کوششوں اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھا جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾...سورة النجم
اور انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی

قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہے

﴿إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّىٰ ﴿٤﴾...سورة الليل
بے شک تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔

2۔ مربوط معاشرے کے قیام کے لئے ایک دوسرے کا محتاج ہونا

انسانوں میں رزق کے مدارج و مراتب کے اختلاف میں مضمر دوسری حکمت و مصلحت کے متعلق قرآن مجید کی سورہ زخرف میں یوں ارشاد فرمایا گیا ہے:

﴿أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَ‌حْمَتَ رَ‌بِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَ‌فَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَ‌جَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِ‌يًّا...٣٢﴾...سورة الزخرف
کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کئے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔

بقول مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمة اللہ علیہ اس آیت کریمہ میں کفار کے اعتراض کے جواب میں چند مختصر الفاظ میں بہت ہی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں:

"پہلی بات یہ ہے کہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرنا ان کے سپرد کن سے ہو گیا ہے؟ کیا یہ طے کرنا ان کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے؟

دوسری بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے کسی اور کے حوالے نہیں کر دی۔ ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت ، کس کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز، کسی کو قول ہیکل اور کس کو کمزور، کسی کو ذہین اور کسی کو کند ذہن، کسی کو قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج یا اندھا گونگا اور بہرا، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا۔ سجس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے۔ اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ پھر انسانوں کے درمیان رزق، طاقت، عزت، شہرت، دولت، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں۔ جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے، اسے کوئی گرا نہیں سکتا اور جس پر ہماری طرف سے ادبار آجاتا ہے، اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرتے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بنائے اور کسے نہ بنائے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گا۔ کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسری کسی چیز سے اس کو محروم کر دیا ہے اور وہ کسی اور کو عطا کر دی ہے یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسرے سے بے نیاز نہ ہو بلکہ ہر ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے۔ اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے زیاست اور وجاہت دی ہے، اسی کو نبوت بھی دے دی جائے؟ کیا اس طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل، علم، دولت ، حسن، طاقت، اقتدار اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کر دئیے جائیں اور جس کو ایک چیز نہیں ملی اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دئ جائے"۔

مربوط معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ سو سائٹی کا ہر فرد دوسرے افراد سے مل جل کر ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کرے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد دوسرے افراد سے بے نیاز ہو کر اپنی ضروریات پوری کرنا شروع کر دے تو مربوط معاشرہ تشکیل پذیر نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رزق میں تفاوت رکھا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں اور آپس میں پیوستہ رہ سکیں۔

3۔ رزق کی فراوانی ظلم و طغیانی کو بڑھا دیتی ہے

رزق جے مدارج و مراتب کے اختلاف میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ اگر تمام انسانوں کے رزق میں وسعت اور فراوانی کر دی جاتی تو ظلم و طغیانی اور سرکشی حد سے بڑھ جاتی۔ کیونکہ وسائلِ رزق کی کمی کی وجہ سے اکثر لوگ فتنہ و فساد، ظلم و زیادتی اور برے کاموں سے بچ جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

﴿وَلَوْ بَسَطَ اللَّـهُ الرِّ‌زْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَـٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ‌ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ‌ بَصِيرٌ‌ ﴿٢٧﴾...سورة الشورٰى
اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کی روزی فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد برپا کر دیتے لیکن وہ اندازے کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے نازل فرماتا ہے، وہ اپنے بندوں سے پورا خبردار ہے اور خوب دیکھنے والا ہے۔

علامہ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اسی آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اگر ان بندوں کو ان کی روزیوں میں وسعت مل جاتی، ان کی ضروریات سے زیادہ ان کے پلے پڑ جاتا تو یہ خر مستی میں آکر دنیا میں ہلڑ مچا دیتے اور دنیا کے امن کو آگ لگا دیتے۔ ایک دوسرے کو پھونک دینا، بھون کھانا، سرکشی اور طغیان، تکبر اور بے پرواہی حد سے بڑج جاتی۔ اسی لئے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا فلسفیانہ مقولہ ہے کہ زندگی کا سامان اتنا ہی اچھا ہے جتنے میں سرکشی اور لاابالی پن نہ آئے۔ پھر فرماتے ہیں: وہ (اللہ) ایک اندازے سے روزیاں پہنچا رہا ہے، بندے کی صلاحیت کا اسے علم ہے، غناء اور فقیری کے مستحق کو وہ خوب جانتا ہے۔ حدیث قدسی شریف میں ہے:

میرے بندے ایسے بھی ہیں جن کی صلاحیت مالداری میں ہے اگر میں انہیں فقیر بنا دوں تو وہ دینداری سے بھی جاتے رہیں گے اور بعض میرے بندے ایسے بھی ہیں کہ ان کے لائق فقیری ہی ہے۔ اگر وہ مال حاصل کر لیں اور تونگر بن جائیں تو اس حالت میں، میں گویا ان کا دین فاسد کر دوں"

4۔ رزق کی وسعت و تنگی سے انسان کی آزمائش کرنا مقصود ہے

اللہ تعالیٰ رزق کی فراوانی و تنگی دونوں حالتوں میں انسان کی آزمائش کرتا ہے۔ رزق اور مال و اسباب بکثرت دے کر وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس نے اللہ کی امانت کا حق کیسے اور کس طرح ادا کیا۔ رزق کی فراوانی نے اسے اپنے رب سے غافل تو نہیں کر دیا۔ اللہ کی نعمت پانے کے بعد اپنے منعم حقیقی کا شکر بجا لایا یا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ رزق کی کمی اور تنگی میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا بندہ مصائب میں کون سا رویہ اختیار کرتا ہے، صبر کا دامن پکڑتا ہے یا شکوہ و شکایت کو اپنا معمول بناتا ہے۔ رزق کے مدارج و مراتب کے اختلاف میں یہی مصلحت و حکمت پوشیدہ ہے۔ قرآن مجید کی سورة الانعام میں اسی امتحان اور آزمائش کی مکمل تفصیل کے متعلق یوں ارشاد فرمایا:

﴿وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْ‌ضِ وَرَ‌فَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَ‌جَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَ‌بَّكَ سَرِ‌يعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٦٥﴾...سورة الانعام
وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دئیے تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے والا رحم فرمانے والا بھی ہے۔

مولانا مودودی رحمة اللہ علیہ نے اسی آیت مقدسہ کی تفسیر کے ضمن میں تین حقیقتیں بیان کی ہیں:

" ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور انہیں ان پر تصرف کے اختیارات بخشے ہیں۔

دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کے اختیارات دئیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوت کارگردگی دی ہے اور کسی کو کم اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔

تیسرے یہ کہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے پوری زندگی کا ایک امتحان گاہ ہے اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے، اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرف کیا۔ کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا اور کس حد تک اپنی قابلیت یا عدم قابلیت کا ثبوت دیا۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے"۔

معیار زندگی اور اس کے تقاضے

رزق کے مدارج و مراتب کے اختلاف میں پنہاں حکمتوں اور مصلحتوں کو واضح کرنے کے بعد وضاحت طلب امر یہ ہے کہ جن لوگوں کو کم اور محدود رزق مہیا ہوتا ہے۔ اسلام اور شریعت اسلامیہ ان سے کیا تقاضا کرتی ہے۔ ان میں کون کون سی اخلاقی خوبیاں اور اعلیٰ اوصاف ہونے چاہیئں تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلامی دائرے کے اندر سکون و طمانیت کے ساتھ بسر کرنے کے قابل ہو سکیں اور معاشی زندگی کی تلخیوں اور پریشانیوں سے نجات پا کر دنیاوی و اخروی فلاح کامرانی سے ہمکنار ہو سکیں؟

1۔ فراخ و بسیط رزق دئیے گئے افراد پر حسد نہ کرنا

تنگ اور محدود رزق پانے والے افراد کے دلوں میں زیادہ اور وسیع رزق پانے والوں کے خلاف نفرت اور بیزاری کے جذبات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور ان کے وسائل رزق کی بہتات اور کثرت کو دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں جس سے ان کی رنجیدگی و پریشانی دن بدن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔دراصل ایسے لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ رزق کی نعمت ان لوگوں سے چھین لی جائے کیونکہ وہ اسے اپنے سوا کسی دوسرے کے لئے پسند نہیں کرتے۔چنانچہ قرآن مجید کی سورة طہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَ‌ةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِ‌زْقُ رَ‌بِّكَ خَيْرٌ‌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٣١﴾...سورة طهٰ
اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لئے دی ہے اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔

قرآن مجید کی سورة الحجر میں اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:

﴿لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿٨٨﴾...سورة الحجر
اپنی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے ان (اموال) کی طرف جن سے ہم نے لطف اندوز کیا ہے ان کے مختلف طبقوں کو اور رنجیدہ خاطر بھی نہ ہوں ان (کی گمراہی) پر اور مومنوں کے لئے اپنے پہلو کو جھکا دیجئے۔

پیر محمد کرم شاہ الازہری اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اس نعمت عظمیٰ کے سامنے، اس گنج شائیگاں کی موجودگی میں یہ دولت دنیا اس قابل ہی کب ہے کہ آپ اس کی طرف نظر التفات کریں۔ جس کے پاس کوہ نور کا ہیرا ہو وہ بھی کبھی کوڑیوں کی طرف دیکھتا ہے خواہ ان کوڑیوں کے ڈھیر ہی کیوں نہ لگے ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے کیا خوب ہی فرمایا ہے:

من اوتي القرآن فراي احدا اوتي من الدنيا افضل مما اوتي فقد صغر عظيما وعظم صغيرا

جس شخص کو دولت قرآن بخشی گئی اور اس نے کسی دنیا دار کو دیکھا اور اس کے سیم و زر کو نعمت قرآن سے افضل خیال کیا تو اس نے بڑی نا انصافی کی، اس نے عظیم المرتبت چیز کو حقیر جانا اور ایک حقیر چیز کو بڑا خیال کیا۔

عام انسانوں کی رہنمائی کے لئے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی کتنا مفید اور طمانیت بخش ہے۔

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم انظروا الي من هو اسقل منكم ولا تنظرو الي من هو فوقكم فهوا جدران لا تزدروا نعمة الله عليكم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی طرف دیکھو جو تم سے کم تر ہے اپنے سے برتر کی طرف نہ دیکھو، اس طرح جو نعمت اللہ تعالیٰ نے تم پر فرمائی تم اسے حقیر جاننے کی غلطی سے محفوظ رہو گے۔(مظہری)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث اسی موضوع کے متعلق الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یوں ہے۔

عن ابي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال اذا نظر احدكم الي من فضل عليه في المال والخلق فليظر الي من هو اسفل منه

حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص ایسے شخص کو دیکھے جو مال اور صورت کے لحاظ سے اس پر فضیلت رکھتا ہے تو اسے چاہیئے کہ اس شخص کو بھی دیکھے جو اس سے (مال اور صورت میں) کمتر ہے۔

انسانی زندگی کی معاشی تلخیاں اور دشواریاں اسی وجہ سے بڑھ رہی ہیں کہ انسان رزق و معاش کے دائرے میں اپنے سے افضل و برتر افراد کی مالی حیثیت پر جب نگاہ ڈالتا ہے تو وہ اپنی حیثیت کو کم تر اور حقیر جان کر اداسی و غمزدگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی کا سکون و اطمینان غائب ہو جاتا ہے۔ انسانی زندگی کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی خاطر قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:

﴿وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّـهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ...٣٢﴾...سورة النساء
اور جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ہے اس کی تمنا نہ کرو۔

صاحب"تفہیم القرآن" اس آیت مقدسہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے بلکہ ان کے درمیان بے شمار حیثیتوں سے فرق رکھے ہیں۔ کوئی خوبصورت ہے اور کوئی بدصورت، کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بد آواز، کوئی طاقتور ہے اور کوئی کمزور، کوئی سلیم الاعضاء ہے اور کوئی پیدائشی طور پر جسمانی نقص لے کر آیا ہے۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں سے کوئی زیادہ قوت دی ہے اور کسی کو کوئی دوسری قوت۔ کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا اور کسی کو بدتر حالات میں۔ کسی کو زیادہ زرائع دئیے ہیں اور کسی کو کم، اسی فرق و امتیاز پر انسانی تمدن کی ساری گوناگونی قائم ہے اور یہ عین متقضائے حکمت ہے۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھا کر انسان اپنے مصنوعی امتیازات کا اس پر اجافہ کرتا ہے وہاں ایک نوعیت کا فساد رونما ہوتا ہے اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹا دینے کے لئے فطرت سے جنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں ایک دوسری نوعیت کا فساد برپا ہوتا ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلہ میں بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہو جائے یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جز ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا، اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔ اس کے ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جو فضل اس نے دوسروں کو دیا ہو، اس کی تمنا نہ کرو البتہ اللہ تعالیٰ سے فضل کی (خود) دعا کرو وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لئے مناسب سمجھے گا، عطا فرما دے گا"۔

اجتماعی زندگی میں سکون و اطمینان پیدا کرنے کی غرض سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی کتنی فضیلت و اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من حسن اسلام المرء تركه ما لايعنيه

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے فائدہ کاموں کو چھوڑ دے۔

جو لوگ غفلت سے لا یعنی باتوں اور بے حاصل چیزوں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کرتے ہیں، وہ نادان جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنا قیمتی بنایا ہے اور وہ اپنے کیسے بیش بہا خزانہ کو مٹی میں ملاتے ہیں۔ اس حقیقت کو جنہوں نے سمجھ لیا ہے بس وہی دانا و عقلمند ہیں، اس لئے جو خوش نصیب چاہے کہ اس کو ایمان کا کمال حاصل ہو اور اس کے اسلام کے حسن میں کوئی داغ دھبہ نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنا وقت اور اپنی تمام خداداد قوتوں اور صلاحیتوں کو بس ان ہی کاموں میں لگائے جن میں خیر اور منفعت کا کوئی پہلو ہو یعنی جو معاد یا معاش اخروی کے لحاظ سے ضروری یا مفید ہوں۔

(2) صبر و استقامت کا دامن تھامنا

کم اور محدود "وسائل رزق" رکھنے والے افراد سے اسلام کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ وہ صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہیں کیونکہ یہ رب کائنات کی ابتلا و آزمائش ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَ‌اتِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٥﴾...سوؤة البقرة
اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر ، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔

صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اس سے مراد: ارادے کی مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواشات نفس کا وہ انضباط ہے جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کئے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے۔

صبر کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی مصبیت اور تکلیف کا کسی سے اظہار بھی نہ ہو اور ایسے صابروں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت کی بشارت دی ہے:

عن ابن عباس رضي الله عنهما رفعه من اصيب بمصيبة في ما له اوفي نفسه فكتمها ولم يشكها الي الناس كان حقا علي الله ان يغفرله (رواه الطبراني في الاوسط)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے اس کا شکوہ شکایت کرے تو اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں گے۔

مالی مصائب کے شکار صابرین کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث یوں ہے:

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من جاع او احتاج فكتمه الناس كان حقا علي الله عزوجل ان يرزقه رزق سنة من حلال

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بھوکا ہوا یا محتاج ہوا اور اس نے لوگوں سے اس کو چھپا لیا تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس کو ایک سال تک "رزق حلال" پہنچائے۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو صبر کی جو ترغیب و تلقین کرتے ہیں، اس کا منتہی و مقصود یہ ہے کہ غیروں کے سامنے ذلیل و خوار ہونے سے عوام الناس کو بچایا جا سکے لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور انسان کا اپنی ضرورتوں اور حاجات کا پیش کرنا زندگی کے نصب العین کی تکمیل ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من نزلت به فاقة فانزلها بالناس لم تسد فاقته ومن نزلت به فاقة فانزلها بالله فيوشك الله له برزق عاجل وآجل

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو تنگی پہنچی اور اس نے اس کو لوگوں سے بیان کیا تو اس کی تنگی بند نہیں ہوتی اور جس کو تنگی پہنچی اور اس نے اس کو اللہ تعالیٰ کے آگے بیان کیا پس امید ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ جلدی یا بدیر رزق نصیب کرے گا۔

(3) توکل اور رضا بالقضاء

انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ جو حقیقتیں ہم تک پہنچی ہیں، ان میں سے ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے، سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلہ سے ہوتا ہے اور ظاہری اسباب کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ چیزوں کے ہم تک پہنچنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی کے مقرر کئے صرف ذریعے اور راستے ہیں۔ اس حقیقت پر دل سے یقین کر کے اپنے تمام مقاصد اور کاموں میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ کرنا، اسی سے لو لگانا، اسی کی قدرت اور اسی کے کرم پر نظر رکھنا، اسی سے امید یا خوف ہونا اور اسی سے دعا کرنا۔ بس اسی طرز عمل کا نام دین کی اصطلاح میں "توکل" ہے۔ پھر "توکل" سے بھی آگے رضا بالقضاء کا مقام ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ بندے پر جو بھی اچھے یا برے حالات آئیں، وہ یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہر حال کا بھیجنے والا میرا مالک ہی ہے۔ اس کے حکم اور فیصلہ پر دل سے راضی اور خوش رہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:

﴿وَيَرْ‌زُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِ‌هِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرً‌ا ﴿٣﴾...سورة الطلاق
اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا، اللہ اسے کافی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔

ابن ابی حاتم رحمة اللہ علیہ کی حدیث میں ہے جو شخص ہر طرف سے کھنچ کر اللہ کا ہو جائے، اللہ اس کی ہر مشکل میں اسے کفالت کرتا ہے اور بے گمان روزیاں دیتا ہے اور جو خدا سے ہٹ کر دنیا ہی کا ہو جائے اللہ تعالیٰ بھی اسے اسی کی طرف سونپ دیتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے:

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول لوانكم توكلتم علي الله حق توكله لرزقكم كما يرزق الطير تغدو خماصا و تروح بطانا۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔

عن ابي الدرداء رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان الرزق ليطلب العبد كما يطلبه اجله۔

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رزق بندے کو اس طرح ڈھونڈتا ہے جس طرح اس کی اجل (موت) اس کو ڈھونڈتی ہے۔

عن عمرو بن العاص رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان من قلب ابن ادم بكل واد شعبة فمن اتبع قلبه الشعب كلها لم يبال الله باي واد اهلكه ومن توكل علي الله كفاه التشعب

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے دل کے لئے ہر میدان میں شاخ ہے (یعنی ہر میدان میں آدمی کے دل کی خواہشات پھیلی ہوئی ہیں) پس جو آدمی اپنے دل کو ان سب شاخوں اور خواہشوں میں لگا دے گا اور فکر کے گھوڑے ہر طرف دوڑائے گا تو اللہ تعالیٰ کو پرواہ نہ ہو گی کہ کس وادی اور میدان میں اس کی ہلاکت ہو اور جو آدمی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے (اور ھاجتیں اس کے سپرد کر دے اور اپنی زندگی کو اس کا تابع فرمان بنا دے) تو اللہ تعالیٰ اس کی ساری ضرورتوں کے لئے کفایت کرے گا (اور اس کو دل کے اطمینان و سکون کی وہ دولت نصیب ہو گی جو اس دنیا کی سب سے بڑی دولت و نعمت ہے)

اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کے ساتھ ساتھ رضا بالقضاء پر انسان کی سعادت و نیک بختی کا دارومدار ہے اور انسان کی شقاوت و بدبختی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے ناخوش ہو۔ حدیث نبوی ہے:

عن سعد رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من سعادة ابن آدم رضاه بما قضي الله له ومن شقاوة ابن آدم تركه استخارة الله ومن شقاوة ابن آدم سخطه بما قضي الله۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کی نیک بختی اور خوش نصییبی میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے جو فیصلہ ہو وہ اس پر راضی رہے اور آدمی کی بدبختی اوربد نصیبی میں سے یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے خیر اور بھلائی کا طالب نہ ہو اور اس کی بد نصیبی اور بد بختی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ سے ناخوش ہو۔

(4) قناعت و استغناء

قناعت و استغنائ کا شمار ان اخلاقی اوصاف و صفات میں ہوتا ہے جن کی بناء پر انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اس دنیا میں بھی اعلیٰ و ارفع مقام حاصل کر لیتا ہے۔ قناعت و استغناء کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو جو کچھ ملے اس پر وہ راضی و مطمئن ہو جائے اور زیادہ کی حرص و لالچ نہ کرے، اللہ تعالیٰ جس انسان کو قناعت کی دولت نصیب فرمائے تو وہ یقینا بڑی نعمت سے نوازا گیا۔

عن عبدالله بن عمرو رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم قد افلح من اسلم ورزق كفافا وقعنه الله بما اتاه

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کامیاب اور بامراد ہوا وہ بندہ جس کو حقیقت اسلام نصیب ہوئی اور اس کو روزی بھی بقدر کفاف ملی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس قدر قلیل روزی پر قانع بھی بنا دیا۔

انسان وسیع رزق رکھنے کے باوجود اس میں زیادہ کا حریص ہو تو وہ مطمئن نہیں رہ سکتا اور وہ دل کا فقیر ہی رہے گا لیکن اس کے بر عکس جس کے پاس زندہ رہنے کے لئے مختصر اور محدود رزق ہو اور اس پر وہ مطمئن اور قانع ہو تو فقروافلاس کے باوجود وہ دل کا غنی رہے گا۔ اسی چیز کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا:

عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال لبس الغني عن كثرة العرض ولكن الغني غني النفس

حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دولت مندی مال و اسباب سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اصلی دولت مندی دل کی بے نیازی ہے۔

اس حقیقت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں وضاحت کے ساتھ یوں بیان فرما دیا:

عن ابي ذر رضي الله عنه قال قال لي رسول الله صلي الله عليه وسلم يا اباذر تقول كثرة المال الغني قلت نعم، قال تقول قلته المال الفقر؟ قلت نعم، قال ذالك ثلاثا ثم قال الغني في القلب والفقر في القلب۔

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھ سے ارشاد فرمایا۔ ابوذر کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مال زیادہ ہونے کا نام تونگری ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ مال کم ہونے کا نام فقیری اور محتاجی ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے تین دفعہ ارشاد فرمائی، اس کے بعد ارشاد فرمایا اصلی دولت مندی دل کے اندر ہوتی ہے اور اصلی محتاجی اور فقیری بھی دل میں ہی ہوتی ہے۔

(5) اللہ تعالیٰ کے فضل کا طلبگار اور دعاگو رہنا

سب سے اہم اور ضروری چیز جس کا اسلام اہل "رزق قدر" سے تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا طلب گار رہنا چاہیے اور اسی کے آگے دست سوال دراز کر کے اپنی حاجات براری کے لئے دعاگو ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

﴿يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾...سورة الرحمٰن
زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہے، سب اپنی حاجتیں اسی سے مانگ رہے ہیں، ہر آن وہ نئی شان میں ہے۔

اللہ تعالیٰ جہاں انسانوں کو اپنے فضل کا طلب گار ہونے کی تقلین کرتے ہیں، وہاں اپنے بندوں کو یہ حکم بھی دیتے ہیں کہ وہ ان برگزیدہ اور نیک شعار لوگوں کی صحبت اور معیت اختیار کریں جو ہمہ وقت اس کی رضا و خوشنودی کے طلب گار ہو کر اسے پکارتے رہتے ہیں۔قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:

﴿وَاصْبِرْ‌ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَ‌بَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِ‌يدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِ‌يدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِ‌نَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُ‌هُ فُرُ‌طًا ﴿٢٨﴾...سورة الكهف
اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقہ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔

دعا عبدیت کا جوہر اور خاص مظہر ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے وقت بندے کا ظاہر و باطن عبدیت میں ڈوبا ہوتا ہے۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کو عین عبادت قرار دیا ہے:

عن النعمان بن بشير رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال الدعا هو العبادة ثم قرا(وَٱصْبِرْ‌ نَفْسَكَ مَعَ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ رَ‌بَّهُم بِٱلْغَدَو‌ٰةِ وَٱلْعَشِىِّ يُرِ‌يدُونَ وَجْهَهُۥ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِ‌يدُ زِينَةَ ٱلْحَيَو‌ٰةِ ٱلدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُۥ عَن ذِكْرِ‌نَا وَٱتَّبَعَ هَوَىٰهُ وَكَانَ أَمْرُ‌هُۥ فُرُ‌طًا)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دعا عبادت ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: (وَٱصْبِرْ‌ نَفْسَكَ مَعَ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ رَ‌بَّهُم بِٱلْغَدَو‌ٰةِ وَٱلْعَشِىِّ يُرِ‌يدُونَ وَجْهَهُۥ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِ‌يدُ زِينَةَ ٱلْحَيَو‌ٰةِ ٱلدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُۥ عَن ذِكْرِ‌نَا وَٱتَّبَعَ هَوَىٰهُ وَكَانَ أَمْرُ‌هُۥ فُرُ‌طًا) الخ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشا یہ ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ بندے جس طرح اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لئے دوسری محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں، اسی طرح کی ایک کوشش دعا بھی ہے۔ جو اگر قبول ہو گئی تو بندہ کامیاب ہو گیا اور اس کو کوشش کا پھل مل گیا اور اگر قبول نہ ہوئی تو کوشش بھی رائیگاں گئی، بلکہ دعا کی ایک مخصوص نوعیت ہے اور وہ یہ کہ وہ حصول مقصد کا وسیلہ ہونے کے علاوہ بذات خود عبادت اور عین عبادت ہے اور اس پہلو سے وہ بندے کا ایک مقدس عمل ہے۔ جس کا پھل اس کو آخرت میں ضرور ملے گا۔

ایک دوسری حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی افضلیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کی غرض سے یوں ارشاد فرمایا:

عن انس بن مالك رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال الدعا مخ العبادة۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دعا عبادت کا مغز ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کا سب سے عزیز اور قیمتی عمل دعا اور سوال ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں:

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم انه من لم يسال الله يغضب عليه

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتے ہیں۔

عن ابن مسعود رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم سلوا الله من فضله فان الله يحب ان يسال وافضل العبادة انتضار الفرح

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس سے مانگا جائے اور افضل عبادت کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔

دعا کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے با آسانی کیا جا سکتا ہے۔

عن ثوبان رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان الرجل ليحرم الرزق بالذنب يصيبه ولا يرد القدر الا الدعاء ولا يزيد في العمر الا البر

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان کو اس کے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے اور تقدیر کو دعا بدل دیتی ہے اور نیکی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔

ان احادیث مبارکہ سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ دعا کا مرتبہ و مقام دوسری عبادات کے برابر ہے۔ عبادت کے علاوہ دعا حصول مقصد کا وسیلہ اور ذریعہ بھی ہے۔ اسلام "رزق قدر" دئیے گئے افراد سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ رزق کی فراخی و فراوانی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا اور سوال برابر کرتے رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اس عمل کو بہت زیادہ پسند فرماتے ہیں۔ انسان جب اپنی حاجات اللہ جل شانہ کے سامنے پیش کرتا ہے تو اس کی ضروریات و احتیاجات کو اللہ تعالیٰ ضرور پورا کر دیتا ہے۔

زہد اختیار کرنا

"زہد" کے لغوی معنی کسی چیز سے بے رغبت ہو جانے کے ہیں، اور دین کی خالص اصطلاح میں آخرت کے لئے دنیا کے لذائذ و مرغوبات کی طرف سے بے رغبت ہو جانے اور عیش و تنعم کی زندگی ترک کر دینے کو "زہد" کہتے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے "زہد" کی حقیقت یوں بیان فرمائی ہے:

(الزهادةُ في الدنيا ليست بتحريمِ الحلالِ ولا إضاعةِ المالِ ولكن الزهادةُ في الدنيا أن لا تكون بما في يديك أوثقَ مما في يدي الله وأن تكون في ثوابِ المصيبة إذا أنت أُصبتَ بها أرغبُ فيها لو أنها أبقيت لك)

حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا کے بارے میں زہد اور اس کی طرف سے بے رغبتی ، حلال کو اپنے اوپر حرام کرنے اور اپنے مال کو برباد کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ "زہد" کا اصل معیار اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس اور تمہارے ہاتھ میں ہو اس سے زیادہ اعتماد اور بھروسہ تم کو اس پر ہو جو اللہ تعالیٰ کے پاس اور اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے، اور یہ کہ جب تم کو کوئی تکلیف اور نا خوشگواری پیش آئے تو اس کے اخروی ثواب کی رغبت تمہارے دل میں زیادہ ہو بہ نسبت اس خواہش کے کہ وہ تکلیف اور ناگواری کی بات تم کو پیش ہی نہ آتی۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور علیہ السلام سے عرض کیا:

دلني علي عمل اذا عملته، احبني الله واحبني الناس، قال ازهد في الدنيا يحبك الله وازهد فيما عندالناس يحبك الناس

مجھے ایک ایسا عمل بتائیں جس کو میں کروں تو اللہ تعالیٰ بھی محبت کرے اور لوگ بھی محبت کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا میں رغبت نہ کرو تجھ کو اللہ تعالیٰ دوست رکھے گا اور لوگوں کے پاس جو چیز ہے اس میں رغبت نہ کر تجھ کو لوگ دوست رکھیں گے۔

ان احادیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو کچھ رزق اور مال اللہ تعالیٰ عطا کر دے اس کو فانی اور ناپائیدار یقین کرتے ہوئے اس پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرے بلکہ اس کے مقابے میں اللہ تعالیٰ کے غیر فانی غیبی خزانوں پر اور اس کے فضل پر زیادہ اعتماد اور بھروسہ کرے۔

اسلامی تقاضوں سے انحراف کے بھیانک نتائج

ایک مومن مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے ان تقاضوں سے انحراف نہ کرے، بالخصوس ایسے افراد جن کو اللہ تعالیٰ نے محدود پیمانے پر رزق عطا کیا ہے اور وہ اپنے سے اعلیٰ اور بہتر رزق رکھنے والے افراد پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کے قلوب و اذہان میں بے چینی اور اضطراب کے طوفان امڈ آتے ہیں۔ زبانیں شکوے شکایات اگلتی رہتی ہیں۔ غرضیکہ ان کی زندگی میں معاشی الجھنیں ایسا تلاطم پیدا کر دیتیں ہیں جس سے وہ جائز اور ناجائز میں تمیز اور فرق نہیں کر سکتا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی طرح سماج اور معاشرے کے اندر رزق کے مدارج و مراتب کا اختلاف دیکھ کر انتقام پر اتر آتے ہیں کیونکہ وہ اپنے سے برتر اسباب عیش افراد کی آسائشات اور تعیشات کو دیکھ کر ان کے حصوں میں گھر کر رہ جاتے ہیں۔

مختلف جرائم کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب پر ایک غائرانہ نگاہ ڈالئے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بیشتر جرائم اور وارداتیں جن میں قتل، ڈاکہ، رہزنی، چوری ، لوٹ مار اور خودکشی سرفہرست ہیں، ان کے ارتکاب میں معاشی و اقتصادی پہلو کا عمل دخل ہے اور ان جرائم اور وارداتوں میں وہی لوگ ملوث ہیں جو "رزق قدر" کے سلسلے میں اسلامی تقاضوں سے انحراف کر کے اپنی دنیا اور آخرت کا خسارہ مول لیتے ہیں۔ ان شقی القلب اور سنگ دلوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ رزق کے مدارج و مراتب کے اختلاف میں ایزدی مصلحتیں اور حکمتیں مضمر ہیں۔ ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر ان اسلامی تقاضوں پر پورا اترنے کی جدوجہد کریں جو اسلام نے ان پر اس سلسلے میں لازم کر دی ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی بیشتر خود ساختہ معاشی پریشانیاں دور کر کے قلبی طمانیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور دنیاوہ و اخروی فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہو سکیں۔

دنیاوی مال و متاع کی حقیقت

دنیاوی مال و متاع، جس سے انسان بہرہ ور اور مستفید ہو رہا ہے، آخرت کے مقابلے میں یہ نہایت حقیر اور قلیل ہے۔ دنیاوی سامان، عیش و عشرت اور لوازمات زندگی، اخروی انعام و اکرام کے مقابلے میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکتھے کیونکہ ایک "بندہ مومن" دنیا کی بجائے آخرت کو مقدم رکھتا ہے جس کی اہم وجہ فانی و ناپائیدار انعامات کی بجائے دائمی و ابدی انعامات کا حصول ہے۔ دنیا کے طلب گار اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے کہیں بڑی نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں جو صرف ایمان والوں کے حصے میں آئیں گی۔ مومنوں کودنیا کے فریب سے محفوظ و مامون رکھنے کی خاطر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اجمالا اور تفصیلا دنیا و آخرت کا موازنہ کر کے یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کا انتخاب کریں۔

قرآن مجید کا ارشاد ہے:

﴿مَن كَانَ يُرِ‌يدُ ٱلْحَيَو‌ٰةَ ٱلدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَـٰلَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾ أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَ‌ةِ إِلَّا ٱلنَّارُ‌ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا۟ فِيهَا وَبَـٰطِلٌ مَّا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿١٦﴾...سورة الهود

جو لوگ دنیاوی زندگی اور اس کی زینت کے طلب گار ہوتے ہیں، ان کی کارگزاری کا سارا ثمر ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی مگر آخرت میں ان لوگوں کے لئے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔

قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہے:

﴿الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ‌ عِندَ رَ‌بِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ‌ أَمَلًا ﴿٤٦﴾...سورة الكهف
یہ مال و اولاد محض دنیاوی زندگی کی زینت ہیں، اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔

دنیاوی مال ومتاع کی بے وقعتی کے متعلق قرآن مجید کا نظریہ معلوم کرنے کے بعد احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس کی حقیقت کو آشکارا کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہیں۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم الدنيا حلوة خضرة وان الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون فاتقوا الدنيا

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا نہایت شیرین اور سرسبز یعنی نظر میں پسندیدہ چیز ہے اور خدا تمہیں دنیا میں خلیفہ بنانے والا ہے پھر وہ دیکھے گا کہ تم کس طرح عملی زندگی بسر کرتے ہو پس تم دنیا سے بچو۔

ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا اور آخرت کی حقیقت کو بڑے دلنشین انداز میں تمثیل کے طور پر بیان فرمایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

عن المستورد بن شداد رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول والله ما الدنيا في الآخرة الا مثل ما يجعل احدكم اصبعه في البحر فلينظر بم يرجع؟

حضرت مستورد رضی اللہ عنہ بن شداد کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے خدا کی قسم! آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دریا میں انگلی ڈالے اور پھر دیکھے کہ انگلی کیا چیز واپس لے کر آئی ہے (یعنی پانی کا کتنا حصہ انگلی کے ساتھ آتا ہے)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی طلب و فکر کا مرکز و محور آخرت کو بنانے کی خاطر بڑا جامع انداز اپنایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:

عن جابر رضي الله عنه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم مربجدي اسك ميت فقال ايكم يحب ان هذا له بدرهم؟ فقالوا ما نحب انه لنا هذا بشئي قال فوالله الدنيا وهون علي الله من هذا عليكم

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے ایک مردہ بچے کے قریب سے گزرے جس کے چھوٹے چھوٹے کام تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم میں سے کوئی اس مرے ہوئے بچے کو صرف ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا؟ صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا، ہم تو اس کو کسی قیمت پر بھی خریدنا پسند نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے خداوند تعالیٰ کی کہ دنیا اس کے نزدیک اس سے زیادہ ذلیل اور بے قیمت ہے جتنا ذلیل اور بے قیمت تمہارے نزدیک یہ مردار بچہ ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد مبارک ہے:

عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لو كانتِ الدنيا تعدلُ عند اللهِ جناحَ بعوضةٍ ما سقى كافرًا منها شربةَ ماءٍ

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی قدروقیمت مچھر کے پر برابر بھی ہوتی تو کسی کافر منکر کو وہ اس دنیا میں ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔

اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک دنیا نہایت ہی حقیر اور بے قیمت چیز ہے۔ اگر اس کی کچھ بھی قدروقیمت ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان باغیوں کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث سے تو دنیا کی پوری قلعی کھل جاتی ہے۔

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم الدنيا سجن المومن وجنة الكافر۔

حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔

اس حدیث مبارک میں ایمان والوں کے لئے یہ سبق ہے کہ وہ دنیا میں حکم و قانون کی پابندی اور قید خانہ والی زندگی گزارین اور اس دنیا سے جی نہ لگائیں کیونکہ اس دنیا سے دل لگانا اور اس کے عیش کو اپنا اصل مقصود و مطلوب بنانا مومنوں کا شیوہ نہیں۔

قرآن و حدیث کے ان نصوص کی روشنی میں اسلام نے دنیا کے متعلق جو تصور دیا ہے، اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ مومن کو "بندہ خدا" بن کر رہنا ہے، "بندہ دنیا" بننا اس کے ایمان اور منصب خلافت الہیہ کے شایان شان نہیں ہے۔ کیونکہ وہ دنیا پرست بن کر اس امانت کا حق ادا نہیں کر سکتا جو اس کے مالک و خالق نے اسے سونپی ہے، اس کے لئے متوازن اور معقول ترین(؟؟؟) یہی ہے کہ وہ دنیا کو خلافت و عبادت کے تقاضوں کی تکمیل میں استعمال کرے "سامان دنیا" کا فائدہ تو اٹھائے لیکن "لذات دنیا" میں ڈوب کر نہ رہ جائے۔ مومن کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی ہے وہ اس کھیتی میں محنت و مشقت کر کے نیکی کے بیج بوتا ہے تاکہ آکرت میں زیادہ سے زیادہ اور عمدہ سے عمدہ پھل پائے۔ وہ اس دنیا میں ذمہ دار بنا کر بھیجا گیا ہے اور اگر وہ ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن نباہے گا تو آخرت کے احتساب میں سرخرو ہو کر نکلے گا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ رَ‌بَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا وَمَا لَهُۥ فِى ٱلْءَاخِرَ‌ةِ مِنْ خَلَـٰقٍ ﴿٢٠٠﴾ وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَ‌بَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى ٱلْءَاخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ‌ ﴿٢٠١﴾ أُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا۟ ۚ وَٱللَّهُ سَرِ‌يعُ ٱلْحِسَابِ ﴿٢٠٢﴾)
لوگوں میں کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے، ایسے شخص کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

قرآن مجید کی ان آیات مقدسہ میں دین اور دنیا میں اعتدال و توازن قائم کرنے کا درس ملتا ہے۔ دنیا کو طلب کرنے سے دنیا تو مل جاتی ہے لیکن اخروی فلاح و کامرانی طلب کرنے والے کا مقدر نہیں بنتی، لیکن جو شخص طلب کرنے میں توازن قائم کرے یعنی دنیاوی بھلائیوں کے ساتھ ساتھ اخروی بھلائیاں اور انعامات بھی مانگے تو ایسا شخص دوگنا فائدہ اٹھائے گا۔ اس نے طلب و عمل کے ذریعے دنیا کو بھی قابل اعتنا سمجھا لیکن دنیا اس کو آخرت کے بارے میں غافل نہ کر سکی۔ اس نے ساتھ ہی آخرت کی بھلائیی بھی چاہی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے دین و دنیا میں اعتدال و توازن قائم کرنے کی شاندار ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے:

"جو شخص "تہذیب اسلام" کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا اسے یہ بات نمایاں طور پر محسوس ہو گی کہ اس میں جب تک خالص اسلامیات رہی اس وقت تک یہ ایک خالص عملی تہذیب تھی، اس کے پیرووں کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی تھی، وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ دنیا میں جتنی مدت وہ زندہ ہیں اس کا ہر لمحہ اس کھیتی کو بونے اور جوتنے میں صرف کر دیں اور زیادہ سے زیادہ تخم ریزی کریں تاکہ بعد کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ فصل کاٹنے کا موقع ملے ۔ انہوں نے رہبانیت اور مذتیت کے درمیان ایک ایسی متوازن اور متوسط حالت میں دنیا کو برتا جس کا نام و نشان بھی ہم کو کسی دوسری تہذیب میں نظر نہیں آتا۔ خلافت الہیٰ کا تصور ان کو دنیا میں پوری طرح منہمک ہونے اور اس کے معاملات کو انتہائی سرگرمی کے ساتھ انجام دینے پر ابھارتا تھا اور اس کے ساتھ مسؤلیت اور ذمہ داری کا خیال انہیں حد سے متجاوز بھی نہ ہونے دیتا تھا وہ "نائب خدا" ہونے کی وجہ سے انتہا درجہ کے خوددار تھے اور پھر یہی تصور ان میں تکبر اور غرور کی پیدائش کو روکتا تھا۔ وہ خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے ان تمام چیزوں کی طرف رغبت رکھتے تھے جو دنیا کا کام چلانے کے لئے ضروری ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ان چیزوں کی طرف کوئی رغبت نہ تھی جو دنیا کی لذتوں میں گم کر کے اس کے فرائض سے غافل کر دینے والی ہیں۔ غرض وہ دنیا کے کام کو اس طرح چلاتے تھے کہ گویا ان کو ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور پھر اس کی لذتوں میں منہمک ہونے سے اس طرح بچتے رہتے تھے کہ گویا یہ دنیا ان کے لئے ایک سرائے ہے جہاں محض عارضی طور پر وہ مقیم ہو گئے ہیں۔


حوالہ جات

سورة الذاریات:22

سورة ھود: 6

ضیاء القرآن، پیر محمد کرم شاہ الازہری، جلد دوم ص342، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور

سورة الحجر: 20

صیاء القرآن، پیر محمد کرم شاہ الازہری، جلد دوم ص357

سورة سبا:36

تفہیم القرآن۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمة اللہ علیہ، جلد چہارم ص207، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور

مشکوة المصابیح، جلد اول، باب الایمان بالقدر ص33، مکتبہ رحمانیہ لاہور

سورة الحجر:21

سورة النجم:39

سورة اللیل:4

سورة الزخرف:32

تفہیم القرآن، مولونا ابوالاعلیٰ مودودی، جلد چہارم ص536-537

سورة شوریٰ:27

تفسیر ابن کثیر تحت آیت مذکور، نور محمد اصح المطابع وکارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی

سورة الانعام:165

تفہیم القرآن، جلد اول ص606، مکتبہ تعمیر انسانیت ، لاہور

سورة طہ:131

سورة الحجر:88

ضیاء القرآن، پیر محمد کرم شاہ الازہری، جلد دوم ص549-550، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور

صحیح بخاری شریف، جلد سوم، کتاب الرقاق ص523، مطبع سعیدی کراچی

سورة النساء 32

تفہیم القرآن، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، جلد اول ص348، مطبع فیروز سنز لاہور

مشکوة المصابیح، جلد دوم، باب حفظ اللسان والغیبة والشتم ص422، مکتبہ رحمانیہ لاہور

سورة البقرة:155

تفہیم القرآن، مولانا مودودی، جلد اول ص73، مطبع فیروز سنز لاہور

معارف الحدیث، مولانا محمد منظور نعمانی، جلد دوم ص301، دارالاشاعت مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی

مشکوة المصابیح، جلد دوم، باب فضل الفقراء وماکان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص506، مکتبہ رحمانیہ لاہور

جامع ترمذی، جلد دوم، ابواب الزہد ص104، مطبع سعیدی کراچی

سورة الطلاق:3

تفسیر ابن کثیر، جلد پنجم ص86، نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی

سنن ابن ماجہ، جلد دوم، باب التوکل والیقین ص550، مطبع سندھ ساگر پرنٹرز لاہور

مشکوة المصابیح، جلد دوم، باب التوکل الصبر ص517، مکتبہ رحمانیہ لاہور

سنن ابن ماجہ، جلد دوم، باب التوکل والیقین ص551

مشکوة المصابیح (مترجم) جلد دوم، باب التوکل والصبر ص521، ناشران قرآن لمیٹڈ لاہور

ایضا، کتاب الرقاق ص488

صحیح بخاری شریف، جلد سوم، کتاب الرقاق ص510

معارف الحدیث، مولانا محمد منظور نعمانی، جلد دوم ص294، دارالاشاعت مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی

سورة الرحمٰن:29

سورة الکہف: 28

جامع ترمذی، جلد دوم، ابواب الدعوات ص4570، مطبع سعیدی کراچی

معارف الحدیث جلد پنجم ص117

جامع ترمذی، جلد دوم، ابواب الدعوات ص570، مطبع سعیدی کراچی

ایضا

مشکوة المصابیح، جلد اول، کتاب الدعوات ص486، مکتبہ رحمانیہ لاہور

ضیاء القرآن، پیر محمد کرم شاہ الازہری، جلد دوم ص495

معارف الحدیث، مولانا محمد منظور نعمانی، جلد دوم ص101

مشکوة المصابیح، جلد دوم، کتاب الرقاق ص490، مکتبہ رحمانیہ لاہور

سورة ھود:15-16

سورة الکہف:46

مشکوة المصابیح (مترجم) جلد دوم، کتاب النکاح ص2، ناشران قرآن لیمٹڈ لاہور

مشکوة المصابیح، جلد دوم، کتاب الرقاق ص485، ناشران قرآن لمیٹڈ لاہور

ایضا

مشکوة المصابیح، جلد دوم، کتاب الرقاق ص491، ناشران قرآن لمیٹڈ لاہور

ایضا

سورة البقرة:200-202

مولانا مودودی، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول مبادی ص57-58 اسلامک پبلی کیشنز لاہور