اسلام اور فتنہ اعتزال

مسئلہ خلق قرآن

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفات میں سے ایک صفت اور غیر مخلوق ہے۔ سلف صالحین رحمة اللہ علیھم اور ائمہ اہل السنة والجماعة کا یہی عقیدہ ہے۔ جبکہ جھمیة اور معتزلہ نے اپنے "اصول توحید" کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا بھی انکار کرتے ہوئے اسے مخلوق گردانا ہے اور کہتے ہیں کہ قرآن مجید کو غیر مخلوق سمجھنے سے "تعدد قدماء" لازم آتا ہے اور اس طرح قرآن مجید "حادث" کی بجائے ایک قدیم چیز بن جاتی ہے، جس سے خالق (اللہ) کی مخلوق( قرآن) کے ساتھ مچابہت لازم آتی ہے لہذا انہوں نے اس نظریے کو "عقیدہ توحید" کے منافی سمجھتے ہوئے قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی صفت کلام سے الگ تھلگ کر دیا۔ بعد میں یہی مسئلہ نزاع کی شکل اختیار کر گیا اور عباسی عہد حکومت، خاص طور پر مامون الرشید کے دور میں امت مسلمہ میں ایک خطرناک فتنے کی صورت میں منظر عام پر آیا اور یہی دور عقل پرستوں کے عروج کا دور کہلاتا ہے۔

مامون الرشید تو مسلک اعتزال کا جنون کی حد تک شیدائی تھا۔ اس نے حاکم بغداد اسحاق بن ابراہیم کو پہلا شاہی فرمان یہ بھیجا کہ:

"(1)جو لوگ قرآن کو غیر مخلوق سمجھتے ہیں ان کو سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا جائے۔(2) ان کی شہادتین ناقابل اعتماد قرار دی جائیں (3) دارالاخلافہ کے ممتاز علماء کے خلق قرآن کے بارے میں خیالات قلمبند کر کے میرے پاس بھیجے جائیں"

چنانچہ حاکم بغداد نے تقریبا بیس علماء کے بیانات درج کر کے خلیفہ کو بھیجے جن میں سے اکثر علماء نے معتزلی عقائد کی صریحا نفی کی تھی۔ کچھ نے گول مول جواب دیا۔ مامون الرشید بیانات پڑھ کر سخت برہم ہوا اور دوسرا حکم یہ دیا کہ "جو لوگ قرآن کو ؐکلوق نہ مانیں، انہیں فورا گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دیا جائے۔" (دیکھئے آئینہ پرویزیت : ج1 ،ص32-33)

امام اہل سنت (احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ) کا دور ابتلاء

لیکن امام اہل السنة جو کہ روز اول سے اس فتنہ کے استیصال کے لئے منجانب اللہ مختص ہو چکے تھے، انہوں نے برملا اور علی الاعلان "القرآن كلام الله غير مخلوق" کا نعرہ بلند کیا۔ چنانچہ تھوڑی مدت بعد ہی امام موصوف کو نعرہ حق کی پاداش میں حکومت کے وحشی کارندوں نے پانہ زنجیر گرفتار کر لیا اور آپ کی مشکیں کس دیں۔ مزید چار سخت بیڑیاں بھی آپ کے پاؤں میں ڈال دی گئیں اور اس حالت میں آپ کو اور آپ کے تین ساتھیوں محمد بن بوح اور وراریری وغیرہ کو مامون کے نائب (اسحاق) کے روبرو پیش کر دیا گیا۔ اس سفاک گورنر نے علمائے حق کو شدید اذیتیں دے کر جیل میں ڈال دیا۔ امام احمد رحمة اللہ علیہ اور قواریری رحمة اللہ علیہ کے علاوہ بقیہ دو ثابت قدم نہ رہ سکے۔ بالاخر انہوں نے اقرار کر لیا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا ذاتی کلام نہیں بلکہ حادث یا مخلوق ہے۔

ظالم و جابر مامون الرشید کے ظلم و ستم کی آگ اس پر بھی ٹھنڈی نہ ہوئی۔ چنانچہ اس نے انہیں اپنے دربار میں حاضری کا حکم دیا۔ جب امام اہل سنت رحمة اللہ علیہ اور آپ کے ساتھیوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر مامون الرشید کے دربار کی طرف روانہ کیا گیا اور مامون کو اس قافلہ کی آمد کی اطلاع دی گئی تو وہ شمشیر برہنہ لے کر آیا اور پورے غیض و غضب سے یوں گویا ہوا:

وقرابتي من رسول الله لا ارفع السيف عن احمد وصاحبه حتي يقولا القرآن مخلوق۔

"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قرابت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ احمد اور اس کے ساتھی صدق دل سے "خلق قرآن" کا اقرار کر لیں گے، ورنہ میں خود ان کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا۔"

لیکن داعیان حق کا یہ قافلہ اس جابر بادشاہ کے پاس پہنچا بھی نہ تھا کہ امام اہل سنت رحمة اللہ علیہ کی دعا ست است انتہائی شدت کا بخار طاری ہوا، حتیٰ کہ اس بخار نے مامون کی جان ہی کو نکال باہر کیا جس سے شاہی محل میں کہرام مچ گیا۔ ایک عقیدت مند جو کہ مامون کا خاص غلام تھا، امام موصوف رحمة اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور پکار اٹھا:

صدقت يا احمد القرآن كلام الله غير مخلوق قد مات والله امير المومنين۔

"اے امام احمد! آپ سچ فرماتے ہیں کہ قرآن کلام الہی ہے اور قطعا مخلوق نہیں۔ خدا کی قسم خلیفہ مر گیا، اللہ تعالیٰ نے اس طرح آپ کو اس سے شر سے محفوظ رکھا۔"

مامون کی وفات کے بعد معتصم جانشین ہوا۔ وہ ظالم مامون سے بھی زیادہ غالی معتزلی (عقل پرست) اور خونخوار نکلا۔ اس کے حکم سے امام موصوف رحمة اللہ علیہ کے جسد مبارک پر روزانہ دس کوڑے مارے جاتے اور ہر کوڑہ ایک نیا تازہ دم جلاد پوری طاقت سے آ کر مارتا حتیٰ کہ آپ پر بسا اوقات غشی اور بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ یہاں تک کہ معتصم مر گیا۔ اس کی موت کے بعد اس کی جگہ "واثق" خلیفہ ہوا۔ یہ سفاک ظلم و ستم میں پہلے دونوں جانشینوں سے بازی لے گیا اور اس نے ظلم و ایذا رسانی میں مزید اضافہ کر دیا (دیکھئے"حکومت اور علمائے ربانی" از حافظ عبداللہ محدث روپڑی ص43 تا46)

اس دور ابتلاء میں امام سنت رحمة اللہ علیہ کو تائید غیبی مسلسل حاصل رہی اور بڑی سے بڑی تکلیف بھی آپ کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکی۔ مثلا ایک دفعہ ایسے ہی ایک بندہ مومن سے آمنا سامنا ہوا تو وہ آپ کو دیکھ کر یوں مخاطب ہوا:

"احذر یا احمد ان یکون قدومک مشئما علی مسلمین, الناس ينظرون الي ما تقول فيقولون به فقال احمد حسبنا الله ونعم الوكيل"

اے احمدرحمة اللہ علیہ! ثابت قدم رہنا۔ حکومت کے سامنے تیری حاضری کہیں مسلمانوں کی گمراہی کا موجب نہ ہو جائے کیونکہ دنیا کی نگاہین تیری طرف اٹھ رہی ہیں: امام احمد رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا: "حسبنا الله ونعم الوكيل"

اسی طرح بقول امام شعرانی رحمة اللہ علیہ ایک مرتبہ جب جلاد امام سنت رحمة اللہ علیہ کو سزا کے لئے لے جا رہے تھے تو راستے میں ان کا سامنا عراق کے نامی گرامی ڈاکو ابوالہیثم سے ہوا تو ڈاکو نے آپ کو دیکھ کر یہ الفاظ کہے:

" اے احمد! تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ فلاں چوٹی کا شاہی ڈاکو ہوں اور مجھے اٹھارہ سو کوڑے اعتراف جرم کے لئے لگوائے گئے لیکن میں نے جرم کا اقرار نہیں کیا حالانکہ میں خود جانتا ہوں کہ میں سراسر باطل پر ہوں۔ لیکن تجھے یاد رکھنا چاہیے کہ تو حق و راستی پر ہے، ایسا نہ ہو کہ کہیں کوڑوں کی صربات سے گھبرا کر ایمان ہی کو ضائع کر بیٹھے۔"

آپ رحمة اللہ علیہ داکو کی اس نصیحت سے خاصے متاثر ہوئے اور اپنے اندر ایک نیا حوصلہ اور ایمانی قوت محسوس کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہمیشہ اس پیشہ ور مجرم کو یاد کر کے دعائین دیا کرتے تھے۔ رحم الله ابا الهيثم کہ اللہ تعالیٰ ابوالہیثم پر رحم فرمائے۔

اسی طرح امام احمد رحمة اللہ علیہ اور دیگر علمائے حق ان عقل پرست معتزلہ کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ ان ظالم و جابر بادشاہوں کے ایوانوں میں کلمہ حق کی صدا لگاتے رہے۔

صاحب مشکوة المصابیح "اکمال" میں رقمطراز ہیں کہ حضرت میمون رحمة اللہ علیہ بن اصنع کہتے ہیں: میں بغدادمیں تھا کہ اچانک شوروغوغا کی آواز بلند ہوئی۔ میں نے دریافت کیا یہ کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے جوابا کہا کہ امام سنت رحمة اللہ علیہ آزمائے جا رہے ہیں۔ یہ معلوم کر کے میں بھی امتحان گاہ میں پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ پہلے کوڑے کی ضرب شدید پر آپ کی زبان مبارک سے "بسم اللہ" کی آواز سنائی دی، دوسری ضرب پر "لا حول ولا قوة الا بالله" کی آواز بلند ہوئی اور پھر جب تیسری ضرب لگی تو آپ نے بلند آواز سے "القرآن كلام الله غير مخلوق" کا نعرہ بلند کیا۔ پھر جب چوتھا کوڑا میری موجودگی میں لگا تو آپ رحمة اللہ علیہ کی زبان سے یہ آیت کریمہ سنی گئی (لَّن يُصِيبَنَآ إِلَّا مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَنَا) یعنی وہی تکلیف یا صدمہ پہنچتا ہے جو کہ ہمارے مقدر میں خدا کو منظور ہے، غرضیکہ اس دن میرے روبرو انتیس کوڑے مارے گئے اور آپ رحمة اللہ علیہ بار بار انہیں کلمات کو دھراتے رہے۔ (دیکھئے "حکومت اور علمائے ربانی" ص48)

"خلق قرآن" کے مسئلہ پر علمائے حق اور معتزلہ کے مابین معرکة الآراء مناظرے بھی ہوئے جن کا انعقاد خود حکومت وقت کرتی تھی۔ سینکڑوں کے حساب سے گمراہ درباری مولوی عقلی و نقلی کتب کے ہمراہ دربار میں حاضر ہوتے ، خود خلیفہ بھی باقاعدہ موجود ہوتا۔ سرعام دربار سجایا جاتا اور علمائے حق کی شکست کو موت کے ساتھ مشروط کیا جاتا، لیکن لوگوں نے دیکھا کہ جیت ہمیشہ حق کی ہوئی اور عقل پرست اپنی ناقص عقل اور ذہنی پستی کے ساتھ وحی الہی کے سامنے ہمیشہ ذلیل و خوار اور ساکت و صامت رہ جاتے۔

مثلا ایک مشہور و معروف مناظرہ جو کہ ایک حجازی عالم دین مرد مومن امام عبدالعزیزی بن یحییٰ بن مسلم الکنانی المکی (م24ھ) اور ایک درباری ملا بشر مریسی معتزلی کے درمیان خلیفہ مامون الرشید کی موجودگی میں ہوا،سنے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے۔ یہ مناظرہ خاصا طویل اور دلچسپ تھا جو کہ متعدد مجالس میں مرحلہ وار مکمل ہوا۔ اس مباحثہ میں جو گفتگو کی گئی اور طرفین سے جو دلائل اپنے اپنے موقف کی تائید میں دئیے گئے، انتہائی علمی و قیق ہونے کے ساتھ ساتھ مفید بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مرحلہ میں بات یہاں تک پہنچی کہ بشر مریسی نے کہا:

"قرآن بھی اشیاء میں سے ایک شے ہے" اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(ٱللَّهُ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍ) کہ اللہ تعالیٰ نے (کائنات کی) ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔لہذا قرآن بھی ایک "شے" ہے اور وہ مخلوق ہے جبکہ عموم کا لفظ (کل) بھی اس پر واضح دلالت کرتا ہے اور ہم کسی صورت میں بھی جملہ اشیاء سے قرآن کو خارج نہیں کر سکتے"

اس پر امام عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا کہ:

"تو یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر "نفس" کا اطلاق کیا ہے اور بغیر کسی تاویل کے تو اللہ تعالیٰ کے نفس کا اثبات کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں (متعدد مقامات پر یہ لفظ وارد ہوا ہے) ایک جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے (وَيُحَذِّرُ‌كُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُۥ) اور دوسری جگہ یوں ارشاد ہوا (كَتَبَ رَ‌بُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ ٱلرَّ‌حْمَةَ) اب جب اللہ تعالیٰ کے "نفس" کا ذکر ہوا ہے تو قرآن مجید میں یہ بھی آیت موجود ہے (كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ) کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ (لامحالہ) چکھنا ہے تو آیا نعوذباللہ اللہ کے نفس کو بھی موت کا ذائقہ چکھنا پڑے گا؟"

بشر مریسی خاموش ہو گیا (فَبُهِتَ ٱلَّذِى كَفَرَ‌) تو اس پر امام موصوف رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس طرح جملہ نفوس میں سے اللہ تعالیٰ کے نفس کو خارج کیا جائے گا باوجود "کل" کے صیغہ کے، بعینہ جملہ مخلوق اشیاء میں سے بھی قرآن مجید کو خارج سمجھا جائے گا کہ وہ غیر مخلوق اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے۔ (مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے "الحیدة" از امام عبدالعزیز یحییٰ ص38-39)

(3) وعد و وعید

"معتزلہ" کے "اصول خمسہ" میں تیسرا اصول "وعد و وعید" سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اعمال صالحہ پر جزا دینے کا وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو گا، نیز ایمان صرف دل کی گواہی کا نام نہیں بلکہ نیک اعمال بجا لانا بھی اس میں داخل ہے۔ اور "وعید" کی تفصیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض بندوں کو "وعید" یعنی عذاب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات کے شان شایان نہیں کہ ایک وعدہ دے کر پھر اس وعدے کی خلاف ورزی بھی کرے یعنی "عذاب نہ دے" کیونکہ اللہ تعالیٰ (لَا يُخْلِفُ ٱلْمِيعَادَ) وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ معتزلہ کے اس نظرئیے کی رو سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس سے درگزر کرنا چاہیں، نہیں کر سکتے اور جسے معاف کرنا چاہیں نہیں کر سکتے۔ (العیاذباللہ) (شرح العقیدہ الطحاویة ص589)

(4) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

"معتزلہ" نیکی کے حکم کرنے اور برائی سے روکنے کو ہر حال میں ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ...﴿١١٠﴾... سورة آل عمران

"(مومنو!) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو"

یہی وجہ ہے کہ "معتزلہ" ظالم و جابر امراء و سلاطین کے خلاف لڑائی کے لئے خروج کو جائز قرار دیتے ہیں۔ (اسلام اور مذاہب عالم از اسرار الرحمن بخاری، ص257)

(5) المنزلة بين المنزلتين (یعنی بین بین)

"معتزلہ" کا یہ اصول ان کے مذہب کا وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے ان کے "مسلک اعتزال" کا آغاز ہوا۔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب شخص نہ مومن ہے اور نہ کافر بلکہ فاسق ہے اور اس کی حالت ایمان اور کفر کے درمیان ہے۔ (شرح العقیدہ الطحاویة ص589)

اپنے اس نظرئیے کی تائید کے لئے معتزلہ کے پاس کئی نقلی و عقلی دلیلیں ہیں، مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ

لا يزني الزاني حين يزني وهو مومن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مومن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مومن

"کہ زانی زنا نہیں کر سکتا کہ وہ مومن ہو، اور چور، چوری نہیں کر سکتا کہ وہ ومومن بھی ہو اور اسی طرح شرابی شراب نہیں پی سکتا کہ وہ صاحب ایمان بھی ہو"

یہ فرمان ان کے ہاں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ سارے کام کبائر میں سے ہیں اور ان کے مرتکب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے "ایمان" کی نفی فرمائی ہے، جبکہ ان کے لئے "کفر" کا اثبات بھی نہیں کیا۔

"معتزلہ" اس سلسلے میں عقلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ "چونکہ ایمان کی کمی و بیشی نا ممکن ہے لہذا جب ایمان تجزی نہیں ہو سکتا تو جب وہ زائل ہوتا ہے تو سارے کا سارا ختم ہو جاتا ہے اور صاحب ذنب کبیرہ کے پاس ایمان میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا" یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ معتزلہ اس نظرئیے میں "خوارج" کے ہم نوا ہیں، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ خارجیوں کے نزدیک مرتکب الکبیرہ مطلق کافر ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اس گناہ کی وجہ سے کفار جیسے معاملے اور سلوک کا مستحق بنتا ہے، اسے قتل کر دیا جائے گا اور وہ دائمی جہنمی ہو گا۔

انتہا پسندی اور تشدد کا یہ نظریہ جو معتزلہ اور خوارج نے اپنایا ہے، ایک تیسرے "عقل پرست فرقے" مرجئة کے نظرئیے کے بالکل برعکس ہے جو دوسری سمت انتہاء کو پہنچ گئے ہیں۔ ان کے نزدیک "مرتکب الکبیرہ" شخص کامل مومن ہے، کیونکہ ان حضرات کے نزدیک ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے اس لئے وہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب اور واجبات کا ترک "ایمان" کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اپنے اس باطل نظرئیے کی توثیق کے لئے وہ صرف ایک "قیاس عکسی" کا سہارا لیتے ہیں اور وہ قیاس عکسی یہ ہے:

"كما لا تنفع مع الكفر طاعة كذلك لا تضر مع الايمان معصية"

"کہ جس طرح حالت کفر میں کوئی نیکی یا اطاعت گزاری فائدہ مند نہیں بعینہ ایمان کی موجودگی میں کوئی برائی یا نافرمانی نقصان دہ نہیں"

مرجئة کے اس انتہائی فاسد اور گھناؤنے عقیدے سے یہ بھی لازم آتا ہے، کہ خلیفہ اول یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آج کے ایک عام فاسق و فاجر کا ایمان بالکل مساوی درجہ پر ہیں۔ (والعیاذباللہ)

مرجئة کے نقلی دلائل وہ بعض احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو ہر حال میں تفصیل و تفسیر کی محتاج ہیں اور جن کا اصل مفہوم و مراد دوسری واضح نصوص سے واضح ہوتا ہے مثلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "من مات لا يشرك بالله دخل الجنة" کہ جو شخص غیر شرک (یعنی توحید) کی حالت میں فوت ہوا وہ جنت میں چلا گیا۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے: "من كان آخر كلامه لا اله الا الله دخل الجنة" کہ جس شخص نے مرتے ہوئے آخر میں کلمہ توحید (لا اله الا الله) کا اقرار کر لیا وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا۔

اہل سنت کا مسلک

اس سلسلے میں اہل سنت کا عقیدہ دیگر عقائد کی طرح ہر دو انتہاؤں (یعنی افراط و تفریط) سے مبرا و منزہ ہے۔ اور وہ راستہ ہے توسط کا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری کا، جس پر تمام صحابہ رضی اللہ عنھم اور سلف صالحین رحمة اللہ علیھم کاربند رہے۔ کہ مرتکب الکبیرة صاحب ایمان ہے، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل کر اس کی نافرمانی کی طرف جانے والا کمزور ایمان والا شخص ہے۔ اس عقیدے کی وضاحت قرآن و حدیث کی بے شمار نصوص کے ذریعے بھی ہوتی ہے جن کی یہاں گنجائش نہیں صرف تذکیر کے طور پر اشارہ کیا جاتا ہے

(1)اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ القِصاصُ فِى القَتلَى ۖ الحُرُّ‌ بِالحُرِّ‌ وَالعَبدُ بِالعَبدِ وَالأُنثىٰ بِالأُنثىٰ ۚ فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ...﴿١٧٨﴾... سورة البقرة

ترجمہ: مومنو! تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، اور اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف کر دیا جائے تو (وارث مقتول کو) پسندیدہ طریق سے (قرارداد کی) پیروی (یعنی مطالبہ خون بہا) کرنا اور (قاتل کو) خوش نمائی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے...الخ"

آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے "قاتل" کے لئے ایمان اور اخوة کا اثبات فرمایا ہے حالانکہ وہ مرتکب الکبیرة ہے، جس نے ایک نفس (شخص) کوقتل کیا ہے۔

(2) ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنينَ اقتَتَلوا فَأَصلِحوا بَينَهُما ۖ فَإِن بَغَت إِحدىٰهُما عَلَى الأُخر‌ىٰ فَقـٰتِلُوا الَّتى تَبغى...﴿٩﴾... سورة الحجرات

"اور اگر مومنوں میں کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرادو"

متذکرہ آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے لڑنے والی دونوں ججماعتوں کو صفت ایمان سے متصف فرمایا ہے اور ان کو قتال کے باوجود "ایمان" سے خارج نہیں کیا لہذا ثابت ہوا کہ "مرتکب الکبیرہ" ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔

(3) مزید یہ کہ اگر ہم "مرتکب الکبیرہ" کو کافر قرار دیں تو اس کا قتل فوری طور پر مباح ہی نہیں بلکہ ہر حال میں لازم قرار پائے گا، تو پھر یہاں اسلام میں حدود و قصاص کا سارا نظام ہی باطل ٹھہرے گا کیونکہ شرع میں ان سزاؤں کے اجراء میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اہل ایمان سے اس جرم اور گناہ کا بوجھ ہلکا کر دیا جائے۔ جس کا اس نے بحالت ایمان ارتکاب کیا ہے۔

نوٹ: فرقہ مرجئة جو کہ ایمان کی زیادتی و نقصان کے قائل نہیں، ان کے اس عقیدے پر دین میں بہت بڑا فساد مرتب ہوتا ہے۔ ان کے رد کے لئے قرآن مجید کی درج ذیل آیت کریمہ ہی کافی ہے:

﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ الَّذينَ إِذا ذُكِرَ‌ اللَّهُ وَجِلَت قُلوبُهُم وَإِذا تُلِيَت عَلَيهِم ءايـٰتُهُ زادَتهُم إيمـٰنًا وَعَلىٰ رَ‌بِّهِم يَتَوَكَّلونَ ﴿٢﴾... سورة الانفال

"مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈوب جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں"

آیت مبارکہ میں مومنین کے ایمان کی زیادتی روز روشن کی طرح واضح ہے۔

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿هُوَ الَّذى أَنزَلَ السَّكينَةَ فى قُلوبِ المُؤمِنينَ لِيَزدادوا إيمـٰنًا مَعَ إيمـٰنِهِم ۗ...﴿٤﴾... سورة الفتح

"وہی (اللہ) تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے"

اس آیت میں تو ایمان کے اضافے کا ذکر ہر عام و خاص کے لئے قابل فہم اور واضح ہے۔

اور احادیث میں واضح الفاظ مروی ہیں کہ "ان الايمان يزيد و ينقص،يزيد بطاعة الله تعالي وينقص بمعصية الله تعالي...""

الحاصل: پس معتزلہ اور خوارج جس حدیث سے مرتکب الکبیرة کے ایمان سے خارج ہونے کی دلیل لیتے ہیں تو اس سے مراد اصل ایمان کی نفی نہیں بلکہ "کامل ایمان" کی نفی ہے۔ کیونکہ بے شمار دیگر آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر شاہد ہیں کہ مرتکب الکبیرة مطلق ایمان سے خارج نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی اباعت سے نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ مرجئة مرتکب الکبیرة کے جنت میں دخول کے سلسلے میں جن روایات کے ظاہر سے استدلال کرتے ہیں تو اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ مرتکب الکبیرة جہنم میں داخل نہیں ہو گا کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی چیز کے عدم ذکر سے عدم وجود لازم نہیں آتا، بلکہ اس کے برعکس ایسی متعدد روایات ہیں جو گنہگار کے پہلے دوزخ میں "دخول" اور پھر اس سے "خروج" پر دلالت کرتی ہیں۔ مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"يخرج من النار ومن كان في قلبه مثقال ذرة من ايمان...او كما قال عليه الصلوة والسلام

"یعنی جس شخص میں ایک ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا وہ (آخر کار) جہنم سے نکال دیا جائے گا"

تو اس طرح بے شمار ایسے لوگ ہوں گے جو کہ "کلمہ توحید" کے اقرار کرنے والے ہوں گے لیکن اس کے باوجود وہ واصل جہنم کئے جائیں گے، پھر انہیں وہاں سے اللہ تعالیٰ کی مرضی سے نکالا جائے گا۔