آہ۔۔۔۔۔۔۔ والد محترم (مولانا عبدالرحمٰن کیلانی)
زیر نظر مضمون مرحوم کی سب سے چھوٹی صاجزادی (زوجہ مولانا عبدالقدوس سلفی، جو طالبات کی معروف دینی درسگاہ "مدرسہ تدریس القرآن و الحدیث" کی مدیرہ ہیں کے آپ کی وفات پر فوری تاثرات و جذبات پر مشتمل ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ مضمون کچھ ذاتی حوالوں اور یادوں پر مبنی ہے، قارئین کے لئے بصیرت افروز ہے۔ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کے تفصیلی حالات، کتب کا تعارف، معمولات زندگی اور دینی و جماعتی خدمات کا تعارف "مستقل نمبر" میں ملاحظہ فرمائیے۔ (ادارہ)
ابا جان مرحوم و مغفور 11 نومبر 1928ء میں پیدا ہوئے اور 18 دسمبر 1995ء کو بروز پیش عشاء کی نماز ادا کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
بظاہر یہ کتنا مختصر سا جملہ ہے۔ عین اسی طرح آپ کی وفات اور نزع کا وقت بھی اسی قدر مختصر تھا۔ مسجد میں آپ کے ساتھ کھڑے نمازی کے بیان کے مطابق : میں پہلی صف میں دائیں جانب کھڑا تھا۔ جب اقامت ہوئی۔ نماز شروع ہونے پر ایک نمازی آئے۔ میرے دائیں جانب تھوڑی سی جگہ تھی جہاں وہ کھڑے ہونا چاہتے تھے مگر جگہ کی تنگی کے باعث وہ دوسری صف میں چلے گئے اگرچہ وقت کے اعتبار سے مولانا کیلانی صاحب اس کے بعد آئے مگر وہ اپنے مختصر وجود کی بنا پر اس جگہ فٹ ہو گئے۔ جبکہ مجھے بھی بالکل تنگی محسوس نہ ہوئی۔ انہوں نے قیام رکوع، قومہ، اور سجدہ بھی بالکل صحت مندانہ حالت میں ادا کیا۔ لیکن سجدہ میں مجھے ان کا جسم ڈھیلا یا سکڑتا ہوا محسوس ہوا اور کچھ لمبے سالنس لینے کی آواز آئی۔ جس کے بعد وہ سجدہ سے اٹھ نہ سکے۔ میں نے اس صورتحال کے پیش نظر سلام پھیر دیا اور دوسرا سجدہ نہیں کیا۔ پیچھے سے آنے والے ایک اور نمازی کو جس نے ابھی نماز شروع نہ کی تھی، مدد کے لئے بلایا۔ ہم دونوں مل کر حاجی صاحب کو اٹھا کر صف سے پیچھے لے آئے۔ پانی پلایا جو اندر نہ جا سکا۔ بلکہ انہوں نے کچھ سانس لئے جن کے ساتھ ہونٹوں اور زبان کی بناوٹ کچھ اس طرح تھی کہ "اللہ اکبر" کے الفاظ نکلتے ہوئے محسوس ہوئے، ویسے صرف بناوٹ ہی نہیں بلکہ کسی قدر آواز بھی تھی۔ اس کے بعد ان کی نبض خاموش ہو گئی۔ انا لله وانا اليه راجعون!
پہلی صف، انتہائی دائیں جانب، باوضو، مسجد، سجدہ کی حالت، اللہ تعالیٰ سے انتہائی قربت کا مقام اور میرے والد کا آخری کلام "اللہ اکبر" تھا۔ الحمدلله علي ذلك حمدا كثيرا
مرحوم نے پس ماندگان میں چار بیٹے (1) ڈاکٹر حبیب الرحمٰن کیلانی (2) حافظ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کیلانی (3) پروفیسر نجیب الرحمٰن کیلانی (4) انجنئیر حافظ عتیق الرحمٰن کیلانی اور چار بیٹیاں (1) زوجہ مولانا عبدالوکیل علوی صاحبہ (2) زوجہ حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحبہ (3) زوجہ ڈاکٹر انعام الہی رانا صاحبہ (4) زوجہ انجنئیر عبدالقدوس سلفی صاحبہ اور ایک بیوہ (جن سے والدہ مرحومہ متوفیہ 7 فروری 1988ء کی وفات کے بعد ابا جان مرحوم نے نکاح کیا تھا۔ موصوفہ ابا جان مرحوم کے سگے چچا مولانا حافظ عبدالحی مولف "مراة القرآن" کی بیٹی ہیں) چھوڑی ہیں۔
والد گرامی مرحوم کی صحت ماشاءاللہ قابل رشک تھی۔ 72 سال کی عمر میں بھی جوان اور صحت مند افراد ان سے چلنے میں پیچھے رہ جاتے۔ کمر میں کسی قسم کا خم نہ تھا۔ باوجود یہ کہ ساری عمر بیٹھنے والا کام کیا۔ پہلے کتابت اور پھر تصنیف و تالیف۔ مگر جسم ہلکا، سڈول پونے چھ فٹ قد کے ساتھ صرف 55 کلو وزن تھا، کبھی پیٹ نکلا ہوا محسوس نہ ہوا، بیٹھے رہنے کے باوجود انہیں کبھی نظام انہضام میں گڑ بڑ کی شکایت نہ تھی، کھانا عین وقت پر مل جائے خواہ روکھا سوکھا ہی ہو اور کھانا بھی ان کا بہت مومنوں والا تھا یعنی ایک چپاتی یا اس سے کم۔ کہا کرتے تھے: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے۔
میں والد مرحوم کی سب سے چھوٹی بیٹی شادی کے بعد بھی ان کی شفق سے وافر حصہ پاتی رہی۔ اوور شادی کے بعد میرا قیام لاہور میں والد صاحب کی جائے رہائش سے قریب ہی رہا۔
والد مرحوم کی بہت سی خوبیاں جن پر میں آج نظر دوڑاتی ہوں کہ آہا وہ ہم میں ہیں تو بس منہ سے دعا ہی نکلتی ہے کہ اے اللہ! ہمیں بھلائی کےکاموں میں والدین سے سبقت کرنے والا بنا۔ آمین! والدہ مرحومہ عموما یہ دعا کیا کرتی تھیں:
﴿رَبَّنا هَب لَنا مِن أَزوٰجِنا وَذُرِّيّـٰتِنا قُرَّةَ أَعيُنٍ وَاجعَلنا لِلمُتَّقينَ إِمامًا ﴿٧٤﴾... سورة الفرقان
آج اس دعا کے معانی سمجھ میں آتے ہیں اور شدت سے اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
والد گرامی رحمة اللہ علیہ کی جوانی کا زیادہ حصہ تو میری نظر میں نہیں، لیکن جس عمر میں، میں نے آپ کو دیکھا تو بہت حلیم، بہت ملنسار اور محبت کرنے والے پایا۔ حتیٰ کہ بڑی بہنیں کہا کرتیں کہ ہم ابا جی سے اس طرح بولنے کی ہمت نہیں پاتے جس طرح تم بول لیتی ہو، تو میں کہتہ یہ حوصلہ بھی تو مجھے ابا جی کی شفقت نے ہی دیا ہے۔ چونکہ "مدرسه تدریس القرآن والحدیث للبنات" جو میری والدہ مرحومہ کی دعاؤں کا فیض اور ان کی یادگار ہے، کا انتظام و انصرام میرے ہاتھ میں ہے۔ لہذا ابا جان مرحوم سے مختلف انتظامی امور میں میری مشاورت رہتی تھی، عموما مغرب کی نماز سے واپس آتے ہوئے میرے گھر کا چکر کاٹ کر جاتے۔ چند منٹ کے لئے آتے لیکن سارے دن کی کارگزاری کی رپورٹ لے اور دے کر چلے جاتے۔ بسا اوقات ابھی میں اباجان کے لئے بیٹھنے کی جگہ درست کر رہی ہوتی کہ اباجان رپورٹ سن کر واپس بھی چل دیتے۔ چند لمحات بھی ضائع نہ کرتے۔ اباجی بیٹھیں، چائے بنا دوں۔ کہتے کیا بنانی ہے۔ اچھا لاؤ، میں دودھ ہی پی لیتا ہوں۔ میں اصرار کرتی: سیب کاٹوں۔ جواب دیتے: اوہو اسے تو وقت لگے گا۔ ابا جی لے لیں۔ اچھا لاؤ میں ویسے ہی کھا لیتا ہوں اور ہاتھ میں پکڑا یہ گئے وہ گئے۔ تیز رفتار اتنے کہ اباجی کے ساتھ کہیں جانا ہوتا تو پہلے ہی دوڑیں لگانا شروع کر دیتے کہ ابھی وہ ہم سے آگے نکل جائیں گے اور پھر مڑ کر بھی نہ دیکھیں گے بھی۔ وقت کے اتنے پابند کہ میرے شوہر محترم (مولانا عبدالقدوس سلفی) فرماتے کہ آج کل اگر کسی کو دیکھ کر گھڑیاں ٹھیک کرنی ہوں تو اباجی ہیں۔
نماز کے اتنے پابند کہ شادی ، غمی، دعوت، ضیافت، گھر میں یا باہر کسی قسم کا اجتماع ہوتا۔ ایک نظر گھڑی پر دالتے اوہو نماز کا وقت ہے۔ پھر یہ گئے، وہ گئے، پچھلے بلا رہے ہیں تو بلاتے رہیں۔ کبھی میری بات ذرا لمبی ہو جاتی اور نماز کا وقت آجاتا تو کہتے تم بیٹھو میں نماز پڑھ کر آلوں پھر سنتا ہوں۔
ملنسار اتنے کہ برادری کی ہر غمی، خوشی اور ضرورت کے موقع پر حاضر ہوتے، خواہ کام سے فراغت کے بعد وہاں دو منٹ بھی نہ ٹھہرتے۔
سبک سار اتنے کہ لاہور میں ان کی سات اولادیں رہائش پذیر تھیں، ظہر سے شروع ہوتے تو عشاء تک سب گھروں کا چکر کاٹ کر مختلف امور نمٹا کر اور میل ملن کر کے واپس بھی پہنچ آتے۔
احسان کرنے والے اس قدر کہ ننھیال، دودھیال میں سے اکثر کو گھر میں رکھ کر پڑھایا لکھایا، اُن کی تربیت کی، خاندانی پیشہ "کتابت" سکھلا کر ان کے مستقل روزگار کا بندوبست کر دیا۔ یہ تو ان کی وفات کے بعد ان کی شفقتوں سے محروم ہونے والوں کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ انہوں نے نرادری کے ہر ضرورت مند کی ضرورت کو الحمدللہ و بعونہ پورا کیا۔
حساب کے اس قدر صاف اور کھرے تھے کہ مدرسہ کے معاملہ میں حساب کرتے ہوئے کوئی روپیہ، دو روپیہ کا حساب رہ جاتا تو وہ صاف کئے بغیر آگے نہ چلتے۔ اگر کبھی میں کہہ دیتی کہ اباجی متفرق خرچے ہو گئے ہیں تو کہتے بھئی متفرق کون سے؟ ان کا نام لو ناں، تاکہ معاملہ واضح ہو جائے۔
طبیعت کے اتنے سادہ کہ مدرسہ کے کام کرواتے کرواتے خود بھی مزدوروں والے کام کرنے لگ جاتے کہ دیکھنے پوچھنے کے لئے جو اتنی دیر کھڑا ہوں، وقت نہ ضائع ہو۔ کچھ کام ہو جائے۔
کفایت شعاری اتنی کہ گھر یا مدرسہ سے گزرتے لائٹیں، نلکے، پنکھے بندکرتے جاتے۔ فرماتے کہ "تبذیر" کیا ہے؟ یہی ناکہ ہال میں کوئی بھی بیٹھا نہیں اور لائٹیں چل رہی ہیں۔ اور "اسراف" کیا ہے؟ کہ دو بندے بیٹھے رہیں مگر چار ٹیوبیں جل رہی ہیں۔
میں نے ایک دفعہ صبح کی نماز کے لئے جگایا۔ ان کے منٹ منٹ کا حساب ہوتا تھا۔ اپنی طرف سے تو میں نے عین وقت پر جگایا جو ان کے جاگنے کا تھا۔ مگر شاید منٹ دو منٹ لیٹ ہو گئے۔ جاگے تو کہہ رہے تھے (اناللہ) جماعت تو فوت ہو گئی! مجھے تب سمجھ آئی کہ اچھا "جماعت" کا فوت ہونا بھی ایک ایسا نقصان ہے جس پر "اناللہ" پڑھنا چاہیے۔
حلال و حرام کا اس قدر دھیان رکھنے والے کہ محض رشوت کی بو محسوس کرنے پر فوج کی سروس چھوڑ دی۔ ساری عمر کرنٹ اکاؤنٹ رکھا۔ اور جب پہلی دفعہ لکھنے کے لئے قلم اٹھایا تو مالی معاملات اور حلال روزی کی اہمیت و فضیلت پر کتاب لکھی "اسلام میں ضابطہ حیات" اور بعد میں کئی ایک اضافوں کے ساتھ یہ کتاب "تجارت اور لین دین کے اصول" نام سے دوبارہ طبع کراکر شائع کی۔
"الکاسب حبیب اللہ" کے تحت ساری عمر محنت کی کمائی کی۔ اور سبحان اللہ! کمائی بھی کس طرح؟ ساری اولاد کو قرآن مجید کی کتابت کر کے روزی کھلائی پھر کیوں نہ اللہ تعالیٰ اولاد کو باعث فیوض و بارکات بناتے۔ کاروبار اور تجارت میں ہمیشہ خسارہ رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ کاروباری چالاکیاں اور تیزیاں ان کی سادہ طبیعت کے بالکل موافق نہ تھیں۔ ایک لفظ بولا کرتے تھے کاروباری اولے (راز) ہم نہیں سیکھتے جو سیدھی اور کھری بات ہے، وہی کافی ہے۔
طبیعت کے حد درجہ سادہ اور صاف گو۔ کبھی ان کی بات دوسرے کو تکلیف دینا یا طنز کرنا نہ تھا، جو بھی بات کہنی ہوتی تھی دو ٹوک کہتے۔ کبھی مخاطب کو یہ الجھن نہ ہوتی کہ آپ یہ بات جو اب کہہ رہے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے بلکہ وہی مطلب ہوتا جو الفاظ ہوتے اندر باہر سے بالکل ایک جیسے۔
ایک دفعہ مسجد سے آئے تو مجھے کوئی بات سنائی کہ فلاں نے یوں کہا، تو میں نے کہا: اباجی اس نے آپ کو بات لگائی ہے۔ لمبی سی "اچھا"۔ کہی اور بولے کہ اس نے بات لگائی ہے! تو میں نے تو اسے نہیں لگائی! کہا کرتے: تمہیں معلوم ہے جنت میں سیدھے سادھے بھولے بھالے لوگ جائیں گے۔
بہت زیادہ جماعتی ذہن نہ تھا۔ جماعتی سیاست اور جوڑ توڑ کی باتیں عموما میرے شوہر محترم سے سن لیتے مگر کبھی اس میں شامل نہ ہوتے۔ دراصل یہ میدان اباجی کی سادی، کھری، وقت کی پابندی اور وقت سے فائدہ اٹھا لینے والی طبیعت کے موافق نہ تھا۔
الحمدللہ نام، نمود یا بناوٹ سے بھی اللہ تعالیٰ نے بہت پاک رکھا ہوا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ گمنامی میں الگ تھلگ رہ کر ہی جو وہ کام کر سکتے تھے کیا اور جس قدر اللہ تعالیٰ کو منظور تھا اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا۔ کبھی کبھار کوئی جماعتی بزرگ ملاقات کے لئے اتے۔ جو اباجی سے مل کر خوش ہوتے یا ان کی تصانیف پر اچھا تبصرہ کرتے تو اباجی بہت سادگی سے میرے سامنے اس کا اچھا اظہار فرماتے۔ تو اس وقت مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یاد آجتے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں:
"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" نماز پڑھتے ہوئے مجھے ایک بندے نے دیکھ لیا اس پر میں بہت خوش ہوا۔ یہ "ریا" تو نہیں؟ فرمایا صلی اللہ علیہ وسلم نے: یہ تیرے لئے دوہری بشارت ہے"۔
مختصر اور جامع گفتگو کرتے۔ اور یہ چیز ان کی تحریروں میں بھی عیاں ہے نیز تکرار اور تفصیل ان کے ہاں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریر سے گریز فرماتے یا کرتے بھی تو وہ عوام الناس کی ذہنی سطح سے بلند ہوتی۔ صرف آدھ گھنٹہ میں اتنا کچھ سنا دیتے کہ ایک عام نمازی کو اسے سمجھنے کے لیے پورا دن درکار ہوتا۔ ایک دفعہ اعتکاف بیٹھے، جب گھر آئے تو سب افراد خوشی سے ان کے اردگرد اکٹھے بیٹھے۔ کو ئی کہتا: اباجی میرے لئے دعا کی؟ میرے لئے کی؟، سب پوچھتے جاتے۔ میں نے پوچھا ابا جی! آپ نے میرے لئے کیا مانگا تھا۔ ایک لمبی سی سانس لے کر بولے: میں نے تو بس ایک ہی دعا مانگی ہے" سب کے لئے"
﴿رَبَّنا ءاتِنا فِى الدُّنيا حَسَنَةً وَفِى الءاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنا عَذابَ النّارِ ﴿٢٠١﴾... سورة البقرة
مالی حالت مستحکم ہونے کے باوجود دنیا کا سامان اکٹھا کرنا، گھروں کو بہت سنوارنا انہیں کبھی پسند نہ آیا۔ ابھی چار، چھ ماہ قبل کی بات ہے کہ اباجی کو ایک مرتبہ خود اپنے کپڑے الماری سے نکالنے پڑے۔ اتفاقا سارے کپڑوں پر نظر پڑ گئی۔ محترمہ "آپا جی" سے کہنے لگے۔ میرے اتنے سارے کپڑے ہیں، ان کا حساب کون دے گا؟
یوں تو اولاد پر والدین کی شفقتیں لامتناہی ہوتی ہیں مگر میرے ساتھ مدرسہ اور تدریس کی وجہ سے اباجی کا ظاہری تعلق بھی بہت زیادہ تھا۔ ہماری آپا جی محترمہ (اباجی کی بیوی) عموما کہا کرتیں: اچھا اب باپ بیٹی بیٹھے ہیں۔ اب باپ بیٹی کی باتین شروع ہیں۔
اپنی زندگی کے آخری سات، آٹھ سال خصوصا والدہ مرحومہ کی وفات کے بعد وہ اولاد کا بہت زیادہ خیال کرنے لگ گئے تھے۔ پہلے اباجی کو زیادہ خیال نہ تھا مگر بعد میں ہمیشہ کوشش کرتے کہ ہمیں والدہ کی کمیی محسوس نہ ہونے پائے۔ دوہری شفقت برتتے اور اس میں خصوصا ہماری آپا جی محترمہ کی کوششوں کا بھی بہت دخل ہوتا۔ وہ بھی حتی الوسع ہماری خواہشات ، ضروریات اور جذبات کو حقیقی والدہ کی طرح پورا کرتیں اور اباجی سے بھی کرواتیں۔
مجھے ان کی بہت قربت، شفقت اور محبت نصیب ہوتی۔ آج ان کی بہت سی یادین میرے ذہن میں گردش کر رہی ہیں۔ جن میں سے بعض میرے لئے باعث ندامت، بعض باعث محبت، بعض باعث سعادت اور بعض محض میرے غم میں اضافے کا باعث ہیں۔ دماغ کی سکرین پر ایک فلم چل رہی ہے، جو مجھے حالات اور ماحول سے بیزار اور اجنبی بنا رہی ہے اور یہی یادیں آخر جب یہاں ٹھہرتی ہیں کہ مسجد سے بھاگا بھاگا ایک لڑکا آیا اور کہنے لگا: باجی مسجد جائیں، اباجی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ تو مجھے اپنا دل گھٹتا ہوا اور سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں اورپھر وہ کچھ ہو گیا جو برحق ہے۔ مگر مجھے اب تک یقین نہیں آرہا ہے اتنا لمبا وجود اور اتنا صحت مند جسم اور پھر اتنی جلد جان بھی نکل جاتی ہے۔ یعنی کے ساتھ کھڑے نمازی کی روایت کے مطابق 30 سیکنڈ سے لے کر ایک منٹ تک کام ختم ہو چکا تھا۔
اباجی مرحوم کی طبیعت میں تشدد نہ تھا۔ مسئلہ بتانے کی بات ہوتی تو جہاں تک نرمی اور لچک ممکن ہوتی، اختیار کرتے۔ بلکہ کہتے کہ دین میں اتنی سختی نہیں کیا کرتے۔ پھر کہا کرتے: اللہ تعالیٰ سے سیدھا سادہ آسان معاملہ رکھو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ سیدھا سادہ آسان معاملہ رکھے گا اور پھر حدیث دھراتے "انا عند ظن عبدي بي" نمازی کے بیان کے مطابق کہ مجھے یقین ہے، ان کی پہلے سجدے میں ہی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی، باقی جو سانسیں یا الفاظ ان کے اٹکے ہوئے تھے وہ بعد میں نکل آئے اور پھر مجھے حدیث یاد آتی ہے کہ مومن کی روح اس طرح قبض ہوتی ہے جیسے مشکیزے سے پانی الٹ دیا جائے۔ بس مشکیزے سے پانی الٹنے جتنی دیر۔ اللہ اکبر!
اے الہ تعالیٰ! جیسے ہماری ظاہری نظر دیکھتی ہے کہ تو نے ان کے ساتھ اتنا اچھا معاملہ کیا ہے۔ اے باری تعالیٰ تو بباطن اس سے بھی اچھا معاملہ کرنا۔ مجھے تو بس یوں لگتا ہے جیسے وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا "حسن ظن" پورا کیا۔ سیدھا سادہ، آسان، جلدی اور بس۔ بھاگتے بھاگتے مسجد جاتے اور آجاتے، اسی طرح بھاگتے بھاگتے ان کی یہ منزل بھی سبک سری سے طے ہو گئی۔
سب کہتے ہیں خوش نصیب ہیں کہ دو منٹ کی محتاجی بھی نہ جھیلی اور چند لمحوں کی بھی تکلیف نہ سہی حتیٰ کہ انہوں نے کسی سے پانی کا گلاس بھی نہیں مانگا۔ اللہ کرے (واقعی یہ خوشی ہو) مگر دل حسرت سے کہتا ہے کہ وہ تو خوش نصیب تھے مگر بد نصیبی تو ہماری ہے کہ باپ کی خدمت کا ایک لحظہ بھی میسر نہ آیا۔ لیکن وہ اولاد کی خدمتیں کرتے کرتے چلے گئے۔ ہم ان کی محبتوں، شفقتوں کو روئیں، اپنی ضرورتوں کو روئیں یا اس بد نصیبی کو روئیں کہ ہماری جنت ہماری پہنچ سے اس قدر دور چلی گئی۔
اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه
نہ چاہنے کے باوجود جنازہ پڑھنے کے بعد جنازے کے پیچھے قبرستان کی طرف چل دئیے۔ جنازہ بہت تیزی سے آگے نکل گیا اور ہماری پہنچ سے آگے چلا گیا۔ میرے دل نے کہا: اباجی آپ ہم سے زندگی میں دوڑیں لگواتے رہے اور زندگی کے بعد بھی۔
مگر حسرت نے دل سے کہا: زندگی میں تو دوڑیں لگا کے کچھ پا لیتے تھے۔ اب یہ دوڑیں بھی فضول ہیں۔
دو روز بعد ان کی مرقد پر کھڑی میں حسرت سے یہ سوچ رہی تھی۔ کاش مجھے ان کا چہرہ نظر آ جائے۔ مگر شعور نے آواز دی کہ نادان وہ وقت گزر گیا جب دن میں ایک بار، دو بار، تین بار اور بسا اوقات سات سات بار بھی تیرا باپ تیرے لئے حج کا ثواب لئے تیرے گھر پہنچ جاتا تھا۔ اب ساری عمر اس ثواب کو ترسا کر اور اپنے رب سے دعا کیا کر (رَّبِّ ٱرْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِى صَغِيرًۭا)
کس قدر صحیح بات ہے کہ انسان نعمت کی موجودگی میں اس کی ودر نہیں کرتا اور چھن جانے کے بعد وہ ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے اور پھراسے پا نہیں سکتا۔ آج میں بھی حسرت و ندامت سے ہاتھ ملتے ہوئے دعا کر رہی ہوں۔ وابدله اهلا خيرا من اهله ودارا خيرا من داره
مجھے اپنے رب کریم کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہمیں بھی ان کے رستے پر چلنے کی توفیق دے گا اور آخرت میں ہمارا اجتماع ان شاءاللہ جنت کی نعمتوں بھری فضاؤں میں ہو گا۔ اسی امیداوع آس پر دل کو سکون نصیب ہوتا ہے۔ اللہ میرے اباجان کو اپنی رحمت کاملہ سے جنت الفردوس میں داخل فرمائے اور ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے۔ ان کی غیر معمولی تصنیفات اور طالبات کی دینی مدرسے نیز اولاد کی دینی تربیت کو ان کے درجات میں بلندی کا سبب بنائے۔ آمین! یا رب العلمین!
(اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه واكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلض والبرد ونقه من الخطايا كما ينقي الثوب البيض من الدنس وابدله دار اخير امن داره واهلا خيرا من اهله وقه من عذاب القبر وعذاب الحشر وعذاب النار) آمين!
(عبدالرحمٰن عاجر، مکہ مکرمہ)
درتوبہ مقفل ہو نہ جائے
تعجب کیا اگر وہ جنت جائے جو اپنی جان کی بازی لگائے
سمجھتا ہے وہ دنیا کو سرائے نظر منزل پہ جس انسان کی ہے
کبھی روئے کبھی ہم مسکرائے بس اتنا ہے فسانہ زندگی کا
جو دنیا سے برائی کو مٹائے وہ دنیا کے لئے ہے وجہ برکت
تو دنیا سے نہ دل اپنا لگائے سمجھ جائے جو دنیا کی حقیقت
وہ غفلت میں نہ عمر اپنی گنوائے قیامت پر یقیں جس شخص کا ہے
جنازے تو نے اوروں کے اٹھائے جنازہ تیرا بھی اٹھے گا اک دن
در توبہ مقفل ہو نہ جائے کہیں دست ندامت اٹھتے اٹھتے
چراغ زیست عاجز بجھ نہ جائے گناہوں کی ہوائے تند ہی میں