جنوری 1996ء

دور جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ۔۔۔ کس طرف؟

صدر مملکت توجہ فرمائیں!


جناب صدر! ملک و ملت کی تڑپ رکھنے والا ہر ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ پاکستان جو دور جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر معرض وجود میں آیا، اس پر نصف صدی گزرنے کو ہے اور تعمیر وطن میں سب سے ضروری کام تعلیم و تربیت کا ہے، وہ تعلیم و تربیت جو قوم کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے، جو "اقرا" کے حکم کی صورت مسلمانوں کے لئے وحی الہیٰ کا پہلا ابدی پیغام ہے اور جو ماضی کے شاندار ورثہ اور درخشاں مستقبل تک پہنچانے کی ضامن ہے۔ اسی تعلیم کو پاکستان میں مسلسل کیوں اکھاڑ پچھاڑ کا شکار بنایا جا رہا ہے؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بنتے ہی ہمارا اپنا تعلیمی نظام وضع ہوتا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اب وہی فرسودہ نظام تعلیم جو قوم کو بلند نصب العین دینے سے محروم ہے جو اپنی فکر اور رائے کا خون کر کے صرف یس سر (Yes Sir) کہنا ہی سکھانے والا ہے۔ اسی نظام کو کیوں ہم پر تا حال مسلط رکھا گیا ہے؟

بار بار تعلیمی اصلاح کے لئے کمیشن بٹھائے جاتے ہیں۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ پہلے بات سیکولر نظام تعلیم کی ہوتی تھی۔ اب باقاعدہ پلاننگ کے تحت کھلی کھلی اللہ کی بغاوت کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ اب قوم کو یہ "مژدہ" سنایا جانے لگا ہے بلکہ اس پر باقاعدہ عمل بھی ہونے لگا ہے کہ رقص و موسیقی شامل نصاب ہے۔ جنسی تعلیم کو پرائمری تعلیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔

یونیورسٹی کی سطح پر مخلوط تعلیم کب ختم ہو گی؟

تعلیم کا بجٹ ہر سال کم کیا جا رہا ہے۔ سب سے کم خرچ شعبہ تعلیم پر ہوتا ہے۔ بلکہ اقرا سرچارج بھی حکومت تعلیم کے نام پر وصول کر کے اپنی عیاشی پر خرم کر رہی ہے۔ وزیر تعلیم کی تقرری انتہائی مضحکہ خیز انداز میں کی جاتی ہے۔ تعلیمی وظائف بہت کم کر دئیے گئے ہیں اور جو تھوڑے بہت باقی ہیں، ان کا حصول بھی اتنا مشکل ہے کہ بہت سے قابل اور لائق بچے تھک ہار کر وظیفہ لینے کا خیال ہی ذہن سے نکال دیتے ہیں۔ اس انداز میں فنی سائنسی و تکنیکی تعلیم کا مسلسل حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ تھورے بہت لوگ جو پہلے پرائمری مکمل کر لیتے تھے، اب پہلی کلاس سے انگریزی کو مسلط کر کے اس کا بھی کام تمام کیا جا رہا ہے۔ معاشرے میں نہ استاد کا احترام باقی رہ گیا ہے، نہ تعلمی اداروں کا، نہ نظام امتحانات کا۔ آئے دن استادوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سیاسی پارٹیاں گھسی بیٹھی ہیں۔ چوں کے ہاتھوں میں قلم کتاب کے بجائے کلاشنکوف اور ماؤزر ، چاقو وغیرہ موجود ہیں۔ گورنمنٹ سکولوں کی پڑھائی کا معیار بہت پست ہے۔ امتحانات ناجائز ذرائع سے پاس کرنا باقاعدہ ایک فیشن بن رہا ہے۔ امتحانی سنٹڑ پورے کے پورے بک جاتے ہیں۔ سنٹر میں ہزار روپیہ فی پرچہ والوں کے کمرے الگ ہوتے ہیں۔ پانچ سو روپے فی پرچہ دینے والے طلبہ کے کمرے الگ ہوتے ہیں۔ وائے افسوس! پھر نتائج بھی فراڈ ہیں، رشوت اور کرپشن کے بل پر نمبروں میں اضافہ کروانے کی روش عام ہے۔

اور اب تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی گئی۔ سیلف بریفنگ سکیم کے تحت پوری تعلیم ہی کمرشل بنا دی گئی ہے۔ سیم وز ر کے بل پر تعلیمی اداروں میں داخلے، اسی بناء پر امتحانات کے رزلٹ پھر اسی دولت کی بنیاد پر آگے ملازمتوں کا حصول، میرٹ اور قابلیت کی یوں سر عام دھجیاں اڑا دی گئی ہے۔

جناب صدر! کچھ آنے والے دور کا اندازہ کیجئے جب تمام قابل اور اہل افراد اپنی محرومی اور بیروزگاری کی بنا پر مسلسل مایوسی کا شکار رہیں اور نا اہل لوگ اپنی دولت کی بنا پر ملک کی زمام کار تھامے ہوں گے۔۔۔ تو کیا بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں؟ فَٱعْتَبِرُ‌وا۟ يَـٰٓأُو۟لِى ٱلْأَبْصَـٰرِ‌

حکومت کی طرف سے گرانٹ اور عطیات ایچی سن کالج اور کئیرڈ کالج کو ہی کیوں دیے جاتے ہیں؟ باقی گورنمنٹ کے تعلیمی ادارے آخر اس سے کیوں محروم رہتے ہیں؟

ٹی وی کی نشریات کا چوبیس گھنٹے کا دورانیہ بھی تعلیمی زوال کا ایک اہم سبب ہے۔ کھیلوں کی ضروریات سے زیادہ حوصلہ افزائی بھی حصول تعلیم میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ایک طالبعلم مسلسل پورا سال بڑی محنت کے ساتھ پڑھتا ہے۔ مگر وہ تعلیمی وظیفہ سے محروم رہتا ہے۔ دوسری طرف ایک طالب علم اپنی دولت کے بل باتے پر اپنے نمبر لگوا لیتا ہے۔ دولت کے بل باتے پر ہی اگلے تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیتا ہے۔

تیسری طرف ایک کھلاڑی صرف ایک چوکا یا چھکا لگا کر بے انتہا داد و تحسین بھی وصول کر لیتا ہے۔ انعام اور گولڈ میڈل بھی اس کو مل جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سپورٹس کے نام پر بھی بے بہاہ داخلے مل رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ تعلیم کے ساتھ فراڈ نہیں ہے؟ اور پھر ہمارا نصاب تعلیم کیا ہے۔ نہ زندگی کا بلند نصب العین دیتا ہے۔، نہ رب کا بندہ بننا سکھاتا ہے، نہ محنت و جانفشانی کی عادت ڈالتا ہے، نہ ہی بلند اخلاقی اقدار سکھا سکتا ہے، نہ حب الوطنی سکھاتا ہے۔

بالکل منفی نظام تعلیم! جو دین بیزار، ملحد اور خود غرض بلکہ خود پرست نسل پیدا کر رہا ہے۔ دوسری طرف دینی تعلیم اس سے بھی زیادہ کسمپرسی کے عالم میں ہے۔ تشدد تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کا کلچر بن رہا ہے مگر آپ ہیں کہ تشدد کی آڑ میں دینی مدارس پر ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ جو ادارے دینی روایات کے محافظ ہیں، جو علمائے کرام روکھی سوکھی کھا کر اللہ و رسول کا نام اگلی نسل تک منتقل کر رہے ہیں، جو آپ سے عطیات نہیں مانگتے، ایڈ نہیں مانگتے،گرانٹ نہیں مانگتے، اہل خیر کے تعاون سے پرائیوٹ کوششوں سے خلوص و ایثار کے ساتھ دینی تعلیم کے ذریعے حب الہیٰ ، خدا ترسی، محبت رسول اور ایثار و تعاون کے درس نوخیز نسل تک منتقل کر رہے ہیں۔ یہ آپ کی نظر میں گردن زنی کیوں بن گئے؟

یوں لگتا ہے کہ وطن عزیز میں ہر شعبے سے سنجیدگی، جانفشانی اور محنت کو ختم کر کے غل غپاڑہ کلچر اور ہلڑ بازی کو عمدا فروغ دیا جا رہا ہے۔

حکومت صنعت و حرفت کے لئے سنجیدہ ہے، نہ زراعت کے لئے۔ ملک میں قدرتی وسائل بے شمار ہیں۔ مگر مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی بنا پر وہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے۔ بے شمار صنعتی یونٹ حکومتی غلط پالیسیوں کے سبب بند پڑے ہیں۔ کھادیں، ٹریکٹر وغیرہ مہنگے ہونے کی بنا پر زراعت سے دستکش ہوتے جا رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے تعمیری کاوشوں کے بجائے الٹا آبادی کو ہی گھٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کبھی خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر اور کبھی بہبود آبادی کے ذریعے اسی منفی کام کے لئے بے دریغ پیسہ بھی خرچ کیا جا رہا ہے اور اس غرض کے لئے ٹی وی پر انتہائی فحش پروپیگنڈا بھی جاری ہے۔

ملکی ادارے غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھ فروخت کئے جا رہے ہیں۔ انتہائی حساس اداروں جن پر ملک کی سلامتی اور استحکام کا دارومدار ہے، وہ بھی غیر ملکیوں میں نیلام کئے جا رہے ہیں۔ آخر وطن عزیز میں کوئی قابل عنصر ان کو سنبھالنے والا نہیں رہ گیا۔ ملک میں اس وقت عملا امریکہ کی سیاسی پالیسیاں چلتی ہیں۔ہماری معیشت مکمل طور پر آئی-ایم-ایف اور ورلڈ بنک کنٹرول کر رہا ہے۔ اسی کے کہنے پر ملک میں بے انتہا مہنگائی کر دی گئی ہے۔

معاشرت میں یہاں امریکہ کی یوں در آئی ہے کہ یہود و ہنود کی تمام تر فحاشی و بے حیائی ہمارے بیڈ روم میں گھس گئی ہے۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے بچے جب سوتے تو ماں، دادی، نانی سے سبق آموز اخلاقی قصے کہانیاں سن کر سوتے اور جب اٹھتے تو اپنے ان بزرگوں کو نماز پڑھتے، قرآن پاک پڑھتے ہوئے دیکھتے۔ مگر آج وہ سوتے ہیں تو ٹی وی کی آغوش میں، جاگتے ہیں تو ٹی وی کی آغوش میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے امریکی و یورپی تہذیب بڑی شدومد سے یہاں رائج کی جا رہی ہے۔ وی-سی-آر ، ڈس انٹینا، بلیو پرنٹس وغیرہ نے مل کر وہ اودھم مچایا ہے کہ الامان، ٹی وی کی ڈرامہ سیریز انتہائی بے ہودہ اور لچر ہیں۔ پہلے ایک فحش پروگرام لایا جاتا ہے۔ عوام کے بھرپور احتجاج کے باوجود اس کو کچھ دیر جاری رکھا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد اس سے بھی زیادہ ننگا اور گندا پروگرام پیش کر دیا جاتا ہے اور اوپر سے ہمارے وزیر اطلاعات ہر وقت یہ نوید سناتے رہتے ہیں کہ زی ٹی وی سے تو ہمارے پی ٹی وی کے پروگرام بہت اچھے اور ستھرے ہوتے ہیں۔ گویا آپ کا قبلہ وکعبہ تو زی ٹیو ی ہی ہے۔ یاد رکھئے! ہندو کی تہذیب دنیا کی گندی ترین تہذیب ہے۔ اپنا پیشاب پینے والا ہندو، ننانوے ہزار مورتیوں کے آگے سر جھکانے والا ہند، رقص، موسیقی اور عصمت فروشی کو مذہبی تقدس کا لبادہ پہنانے والا ہندو!کیا اسی ہندو کی نقالی آپ کی منزل مقصود ہے؟ صاحب صدر! کیا آپ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنے ٹی وی کے پروگرام دیکھ سکتے ہیں؟ اور پھر یہ نقالی ایسے عالم میں کہ وہ کشمیر اور ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کتنا ظالمانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔

جناب صدر! کیا آپ اس مسلمان ملے کے فرزند نہیں ہیں جن کے اسلاف میں ایک عورت نے دیبل کے قریب حجاج بن یوسف کو پکارا تو حجاج عراق میں تڑپ اٹھا۔ اس نے یکے بعد دیگرے تین اسلامی لشکر سندھ بھیجے۔ اور بالاخر محمدؒ بن قاسم کے ہاتھوں سارا سندھ فتح کر کے اس مجبور عورت کا انتقام لیا۔

آپ کے اسلاف میں عباسی خلیفہ معتصم کی روایت بھی موجود ہے۔ جب رومی سلطنت میں عموریہ کے علاقے میں ایک رومی سپاہی نے ایک مسلمان خاتون کی سر بازار تذلیل کی اور کہنے لگا بلالو اپنے خلیفہ کو وہ کس طرح مجھ سے انتقام لیتا ہے۔ یہ بات جونہی عباسی خلیفہ معتصم تک پہنچی، اس وقت بہت بڑا لشکر تیار کر کے سینکڑوں میلوں کا پیادہ پا سفر کر کے عموریہ پہنچا۔ پچپن روز کے محاصرہ کے بعد اس علاقے کو فتح کیا۔ اسی عورت کو طلب کیا اور اسی رومی سپاہی کے ہاتھوں اس عورت کا انتقال لیا۔

ایسی شاندار روایات رکھنے والے مسلمانوں کا آج کے عہد میں حال بالکل دگرگوں ہے۔ دنیا کے ہر خطہ میں ، یہود و ہنود میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور مسلمان حکمران عملا ہولی کھیلنے والے دشمنوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

صاحب صدر! کیا آپ کے کانوں میں کشمیر کے سسکتے بلکتے بچوں اور عصمت لٹنے والی مجبور بے بس بہنوں کی دلخراش صدائیں نہیں پہنچتیں؟ کلکتہ میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں مسلم خواتین کا ہندو فوجیوں کے ہاتھوں گینگ ریپ پھر اس کی موویاں بنا کر بازار میں فروخت کرنا آپ کی ملی غیرت کو بیدار نہیں کر پاتیں؟ بلکہ الٹا آپ کے عہد میں پاک فوج کے جری با غیرت اور دیندار عناصر کو مبینہ طور پر مختلف سازشوں کے الزام لگا کر پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ تاکہ اگر حکومتی سطح پر ان مجبور و بے بس کشمیروں کی مدد نہیں ہو پا رہی تو کوئی اپنے طور پر ان سے کسی طرح کا تعاون نہ کر سکے۔ اس وقت تو ضرورت تھی کہ ٹی وی وطن عزیز میں ایمان، تقویٰ اور جہاد کی ترغیب دیتا۔ معاشرتی اور اخلاقی اصلاح کا ذریعہ بنتا۔ مسلمانوں میں ملی غیرت و حمیت بیدار کرتا مگر وائے حسرت معاملہ بالکل الٹ ہے کہ آج جگہ جگہ میوزک سنٹر کھلے ہیں۔ بیوٹی پارلروں کی وبا بڑھ رہی ہے۔ جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ کرپشن اور رشوت رائج الوقت سکہ بن چکا ہے۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور منشیات کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ نیو ائیر نائٹ منانے کی تیاریاں شروع ہیں،۔ "ہائی جنٹری" میں شراب و کباب اور زنا عام ہے۔ خود باپ اور بھائی کے ہاتھوں بنت حوا رسو کی جارہی ہے۔ پھر ہمارے بزرجمہر اور ذمہ داران ساتھ ساتھ اس طرح کے بیان دیتے رہتے ہیں کہ معاشرے میں گھٹن ہے۔ اس گھٹن کو دور کرنے کے لئے ایسے پروگرام ضروری ہیں۔

خواتین کو بے راہرو کرنے کے لئے نئے نئے انداز اپنائے جا رہے ہیں۔ قاہرہ کانفرنس اور بیجنگ کانفرنس نے آخر ملکی خواتین کا کون سا مسئلہ حلا کیا ہے۔ بلکہ مسلم خواتین کو مزید بے چین ضرور کیا ہے۔ کیا یہ گھروں کا سکون اور رشتوں کا تقدس بالکل خرم کر کے رکھ دینا چاہتی ہیں؟ یقینا یہ ایک دلدوز حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت مظلوم ہے۔ بچی کی پیدائش پر نفرت کا اظہار، پرورش میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان فرق رکھنا، لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا، اس کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کے فیصلے، وراثت سے محروم رکھنا، بیوی کے ساتھ بد سلوکی بلکہ ذہنی اذیت اور جسمانی تشدد وغیرہ عام ہیں۔ اور پھر اب عورتوں کو یہ کہہ کر کہ "معاشرے کی آدھی آبادی گھروں میں فارغ کیوں بیٹھی ہے" زبردستی معاش کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ مگر ان ملازمت پیشہ خواتین کے لئے مسائل ہی مسائل ہیں۔ اپنے گھروں سے دور دراز علاقوں میں تقرریاں، پھر آمدورفت کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نیچی چھت والی ویگنوں میں آج کل جس طرح عورتوں کو سفر کرنا پڑتا ہے، یہ خواتین کی انتہائی تذلیل ہے۔ پھر ہماری خاتون وزیر اعظم نے خواتین کے لئے خواتین بینک قائم کر دئے ہیں۔ خواتین کے تھانے وجود میں آ گئے۔ مگر خواتین کے لئے الگ یونیورسٹی نہ بن سکی۔ نہ ہی خواتین کے مذکورہ بالا مسائل حل ہو سکے۔

خاتون وزیراعظم کے عہد میں ملک کا ہر شعبہ تہہ و بالا ہو رہا ہے۔ ذہین اور قابل عنصر وطن عزیز میں پذیرائی نہ ہونے کے باعث باہر نکلتا جا رہا ہے۔ ملک میں اسلام اور نظریہ پاکستان سے دوری بڑھتی جا رہی ہے، صوبائیت اور لسانیت کا زہر فروغ پذیر ہے۔ کراچی ملک کا اہم ترین شہر خون میں نہا رہا ہے۔ وہاں روزانہ اوسطا دس دس لاشیں وجود میں آ رہی ہیں۔

جناب صدر! تعلیمی ادارے تو مینا بازار اور ورائٹی شو بن رہے ہیں۔ تعلیم کو منصوبہ بندی کے ساتھ ختم کیا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ قوم کو ناچ گانے اور فحاشی و عیاشی پر لگا کر تمام ملک دشمن غیر ملکی سازشوں کو بروکائے کار لایا جا رہا ہے۔ بے نظیر دور حکومت کی بے نظیریاں اور بد تدبیریاں عروج پر ہیں۔

جناب صدر! آپ اسلام جمہوریہ پاکستان کے بااختیار صدر ہیں۔ کیا اسلام کا قلعہ کہلانے والی اسلامی جمہوریہ کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ وطن عزیز میں بھی اسلام احکام و شریعت کا نافذ کرے اور دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرے۔ پیرس اور واشنگٹن کا رخ کرنے کے بجائے مکہ ومدینہ کے ساتھ اپنے رابطے استوار کرے۔ کشمیر، بوسنیا و فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کو پہنچے۔ آخر قوم کو کس طرف لے جایا جا رہا ہے۔ کیوں اس کو عیاشی و فحاشی کی گود میں سلایا جا رہا ہے؟

قوم قرضہ کے روز افزوں جال میں مبتلا ہے۔ اور ہماری قوم ہے کہ میوزک سینٹروں ، بیوٹی پارلروں، سینما، ٹی وی، وی سی آر اور ڈش انٹینا کے چکروں میں گم ہے۔ اخبارات و رسائل میں اور ٹی وی پر عورتوں کے ننگے تھرکتے جسم دکھائے جاتے ہیں۔ آئے دن شوبز کو پاکستانی قوم کی منزل و مقصود بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ذرا غور فرمائیں کیا یہ سب کچھ اس قوم سے اس کی دینداری، جذبہ ایمانی، جذبہ جہاد، خاندانی نظام کا استحکام اور گھروں کا سکون و چین چھننے کی مذموم صہیونی سازشوں کی کڑی تو نہیں۔ آخر وطن عزیز میں این-جی-اوز غیر سرکاری تنظیموں کو (جو یہودی مقاصد کی خاطر دنیا بھر میں کام کر رہی ہیں اتنی آزادی کیوں حاصل ہے اور دیندار مخلص مسلمانوں پر اتنی پابندیاں اور بے بنیاد الزامات کیوں؟ نیک حکمرانوں کے بارے میں ذرا ارشاد الہیٰ سن لیجئے:

﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَر‌ضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَر‌وا بِالمَعر‌وفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ‌ ﴿٤١﴾... سورة  الحج

"(مسلمان وہ ہیں) اگر ان لوگوں کو ہم زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز اور زکوة کا نظام قائم کرتے ہیں۔ اچھی بات کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں۔ اور سب کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے"

﴿إِنَّ الَّذينَ يُحِبّونَ أَن تَشيعَ الفـٰحِشَةُ فِى الَّذينَ ءامَنوا لَهُم عَذابٌ أَليمٌ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَ‌ةِ...﴿١٩﴾... سورة النور

"بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے، انہیں دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہو گا" (سورة نور:19)

اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک قول بھی سن لیجئے:

"جس قوم نے جہاد چھوڑا، وہ ذلیل و خوار ہو گی"

اللہ تعالیٰ آپ کو اقتدار کی آزمائش پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قوم کو لہو و لعب ، ذہنی آوارگی، عیاشی سے ہٹا کر بلند نصب العین دیجئے، جذبہ ایمانی، حب الوطنی، خود انحصاری اور سادگی جیسی منزل دیجئے۔ مخلص قیادت دیجئے کہ قوم کو آج ان کی ضرورت ہے۔ (ام قاسم)