امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ بحیثیت محدث

نام و نسب

امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کا پورا نام تقی الدین ابوالعباس احمد بن شہاب الدین ابوالمحاسن عبدالحکیم بن امام مجدد الدین ابوالبرکات عبدالسلام بن ابو محمد بن عبداللہ بن ابوالقاسم الخضر، بن محمد بن الخضر بن علی بن عبداللہ بن تیمیہ رحمة اللہ علیہ ہے۔

پیدائش

آپ شام کی ایک معروف بستی حران میں 10-ربیع الاول پیر کے روز 661ھ (22 جنوری 1263ھ) میں پیدا ہوئے۔

وفات

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے 728ھ میں دمشق کے قید خانے میں وفات پائی۔

ذوالقعدہ کی ابتدائی تاریخوں میں بیمار ہوئے۔ تقریبا بیس روز بیمار رہ کر 20-ذیقعدہ 728ھ پیر کے روز دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ انا لله وانا اليه راجعون!

تعلیم و تربیت

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ عمر کے ساتویں سال بستی حران سے دمشق (شام) ہجرت کرنا پڑی۔ جامع دمشق کا علمی ماحول ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت کے لئے بے حد سازگار ثابت ہوا۔ بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے بے پناہ حافظہ عطا فرمایا تھا۔ زندگی بھر ذوق و شوق سے قرآن مجید کی تلاوت اور دور کرتے رہے۔ تلاوت سے اس قدر شغف تھا کہ جیل میں بھی کبھی ناغہ نہ کیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ جیل میں انہوں نے 80 سے زیادہ مرتبہ قرآن مجید ختم کیا اور سورة القمر کی آیت نمبر 54:

﴿إِنَّ ٱلْمُتَّقِينَ فِى جَنَّـٰتٍ وَنَهَرٍ‌ۢ ﴿٥٤﴾ فِى مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ‌ۭ ﴿٥٥﴾... سورة القمر

"یقینا پرہیز گار لوگ جنت کے باغوں اور نہروں میں ہوں گے جو عزت و صداقت کی جگہ ہے، شاہ دو جہاں قادر مطلق کے نزدیک بیٹھے ہوں گے"... پر روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

حفظ قرآن مجید کے بعد ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے دوسرے تمام مروجہ علوم کی طرف توجہ کی اور علم و فضل سے اپنے دامن کو مالا مال کیا۔ خصوصا علم تفسیر، علم حدیث اور علم لغت پر توجہ دی۔ اپنے علم کا آغاز عقائد اور عقائد میں بھی خصوصا توحید سے کیا۔ شریعت کے اس علم میں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اپنی زندگی کھپا دی۔ کتاب اللہ کی تفسیر پر محنت شاقہ کی، حدیث اور اس کے متعلقہ علوم میں خوب دسترس حاصل کی، ساتھ ساتھ فقہ اور اصول فقہ میں عبور حاصل کیا۔

چونکہ ہمارا موضوع امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ بحیثیت محدث ہے، اس لئے ہم اس موضوع کی نسبت سے ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کے علم حدیث پر بات کریں گے:

حفظ حدیث

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کے دور میں حدیث کی کتابت، حفظ حدیث اور سماع حدیث کا عام چرچا تھا۔ آپ نے سب سے پہلے امام حمیدی رحمة اللہ کی کتاب "الجمع بين الصحيحين" حفظ کی۔ پھر اس دور کے اساتذہ خصوصا علمائے شام سے حدیث سنی۔ ان کے شاگرد رشید کا بیان ہے کہ حدیث میں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کے سیوخ کی تعداد 200 سو بھی متجاوز ہے۔

"وشيوخه الذين سمعه اكثر من مائتي شيخ"

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے مسند احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ، صحیح بخاری، صحیح مسلم،سنن ابی داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، سجستانی اور سنن دارقطنی وغیرہ کی بار بار سماعت کی۔ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ انہیں علم و عمل کی فضا میں سانس لینا اور نشوونما پانا نصیب ہوا۔ ان کے والد متواتر چالیس سال تک جامع دمشق میں شیخ الحدیث رہے۔

صاحب معجم المولفین نے لکھا ہے:

"انصرف الشيخ تقي الدين الي تحصيل العلم ولم لا... وهو من بيت عريف اشتهر بهذا الامر حتي اصبح غالبا عليه، فعني بدراسة الحديث و علومه ونسخ جملة منه"

"پھر ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ حصول علم کے لئے نکلے، وہ کیوں نہ نکلتے؟ وہ ایک ایسے علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کا علم میں شہرہ تھا، حتیٰ کہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے علم پر غلبہ حاصل کر لیا اور انہوں نے حدیث اور اس کے علوم اور اس کے ناسخ و منسوخ کے جملہ علوم بھی حاصل کئے"

(2) علم حدیث پر عبور

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی خصوصیات میں یہ ہے کہ انہیں "علم حدیث" پر مکمل عبور ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں صرف ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی شخصیت ایسی ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے:

"كل حديث لا يعرفه ابن تيمية فليس بحدث"

"ہر وہ حدیث جسے ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نہیں جانتے، وہ حدیث ہی نہیں ہے"

یہاں ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ احادیث کو بیان کرتے وقت وہ کس طرح اس کے صحت و سقم کا حوالہ دیتے ہیں، انہیں احادیث کے متن تک یاد ہیں:

"وحفظ الحديث ورجاله وصحته وسقمه فيما يلحق فيه"

"نہ صرف متن یاد ہیں بلکہ حدیث کے رجال، اس کی صحت و سقم کی کیفیت سے بھی واقف ہیں اور اس فن میں کوئی ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کا سہیم و شریک نہیں"

ڈاکٹر رشاد سالم لکھتے ہیں:

"اما معرفته بصحيح المنقول وسقيمه فانه في ذلك من الجبال التي لا ترتقي ذروتها ولا ينال سنامها قل ان ذكر له قول الا وقد احاض علمه بمبتكره وذاكره وناقله واثره' او راوالا وقد عرف حاله من جرح و تعديل باجمال و تفصيل"

"جہاں تک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور سقیم کی معرفت کا تعلق ہے تو ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ اس فن میں پہاڑ کی ایسی چوٹی اور بلندی ہیں، جسے سر نہیں کیا جا سکتا۔ بہت کم ایسا ہوا کہ ان کے سامنے کوئی قول بیان ہوا مگر انہیں ان کے قائل، ناقل، اس کے اچھوتے ہونے کا علم نہ ہو، یا کسی راوی کا ذکرہوا تو جرح و تعدیل کے اعتبار سے اس کا اجمالی اور مفصل علم حاصل نہ تھا"

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے حدیث کی تعریف میں بھی ایک لطیف نکتہ پیدا کیا۔ فرماتے ہیں:

"حدیث نبوی کا اطلاق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی زندگی کے ان اعمال پر ہوتا ہے جو بعد از نبوت صادر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر، آپ صلی اللہ علیہ کے فعل پر (طریقہ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر پر (پسند، اقرار سے ہے) سنت ان تین وجوہات سے بھی ثابت ہوتی ہے، آپ نے جو کچھ فرمایا، اگر تو وہ خبر کی حیثیت میں ہے تو اس کی تصدیق واجب ہے، اگر وہ شرعی قانون ہے، کسی حلال و حرام کے حکم میں یا اباحت کے ضمن میں ہے تو اس پر عمل (اتباع) واجب ہے، کیونکہ انبیاء کی نبوت پر دلالت کرنے والی آیات قرآنیہ یہ خبر دیتی ہیں کہ پیغمبر اپنے پرووردگار سے خبر بیان کرنے میں معصوم ہوتے ہیں، ان کی خبر برحق ہوتی ہے اور یہی نبوت کا مفہوم ہے۔ نبی کی بات ضمانت مہیا کرتی ہے کہ اللہ اسے غیب کی خبر دیتا ہے اور نبی لوگوں کو اللہ کے بتائے ہوئے غیب سے آگاہ کرتا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کو اللہ کی پیغام رسانی کے لئے مامور ہوتا ہے"

علم حدیث پر عبور کے ناطے سے ہم دیکھتے ہیں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ حدیث کی کتابوں اور ائمہ حدیث کے بارے میں بلا جھجھک اپنی رائے دیتے ہیں۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناطے سے کسی بڑے سے بڑے محدث یا امام کی پروا نہیں کرتے۔ جو بات حق اور سچ ہے اسے بلا خوف لومة لائم، ببانگ دہل بیان کرتے ہیں۔ انہیں خود صحاح ستہ کے متون ازبر ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں ان کا نظریہ ہے کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے عبارت ہیں۔ لکھتے ہیں:

وعلي هذا فكثير من متون الصحيحين متواتر اللفظ عند احل العلم بالحديث وان لم يعرف غيرهم انه متواتر، ولهذا كان اكثر متون الصحيحين مما يعلم علماء الحديث قطعيا ان النبي صلي الله عليه وسلم قاله تارة لتواتره عندهم، وتارة لتلقي الامة له بالقبول"

"اس لحاظ سے اہل حدیث علماء کے نزدیک صحیحین کے متون متواتر ہیں، اگرچہ بعض دوسرے علماء اسے متواتر نہیں مانتے، علماء حدیث کے نزدیک یہ بات حتمی اور قطعی ہے کہ صحیحین کے متن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر سے ثابت ہیں، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے باتیں فرمائیں۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے بات کہی کہ امت اسے صحیح معنوں میں قبول کرے"

صبری المتولی، ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کے صحاح ستہ کے متن حفظ کرنے سے متعلق لکھتا ہے:

"وقد حفظ ابن تيمية رحمة الله عليه قدرا كبير جدا من كتب السنة ذكرنا بعضا منها عندالحديث عن مصادره، ومن المعروف ان اصحاب هذا الكتب ليسوا سواء في مستوي الصحة ولهذا فقد فاضل بينهم منها علي مستوي العدالة والضبط والصحة"

"ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کو سنت کی کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ حفظ ہے، جس کا بیان ہم حدیث کے مصادر کے ضمن میں کر چکے ہیں۔ یہ بات معروف ہے کہ ان سب کتابوں کے مصنف صحت کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہیں، اس لحاظ سے ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ حدیث کے ضبط، عدالت اور صحت کے فن میں ان کے درجات بتاتے ہوئے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔"

جہاں بخاری شریف کی صحت کو مسلم شریف کی صحت پر ترجیح دیتے ہیں، وہاں مسلم شریف کے الفاظ کو بخاری پر ترجیح دیتے ہیں:

ان مسلم ينفرد برعض عنها البخاري وقد يكون الصواب مع المسلم" "وذهب الي تفضيل البخاري ومسلم علي موطا الامام مالك"

"امام مسلم الفاظ میں بخاری کی نسبت منفرد ہیں اور صواب امام مسلم کے ساتھ ہے اسی طرح ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ بخاری اور مسلم کو موطا امام مالک رحمة اللہ علیہ پر ترجیح دیتے ہیں۔

پھر امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

"... من نقل عن احمد (امام احمد رحمة الله عليه) انه يحتج بالحديث الضعيف الذي ليس بصحيح ولا حسن فقد غلط عليه"

"جس نے امام احمد رحمة اللہ علیہ کے بارے میں یہ خیال کیا کہ وہ ایسی ضعیف حدیث جو کہ نہ صحیح ہے نہ حسن، سے استدلال کرتے ہیں تو اس نے امام احمد رحمة اللہ علیہ کو غلط سمجھا"

اب ہم ابن تیمیہ کی اس مہارت (حدیث) کو مختلف عنوانوں سے بیان کرتے ہیں:

صحت کتب حدیث

کتب حدیث کی عام صحت کے بارے میں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے ان کے درجات یوں بیان کئے ہیں:

"فذكر ان اصح كتب الحديث البخاري ثم مسلم، وما جمع بينهما الحميدي والا شبيلي وبعد ذلك السنن سنن ابي داود، والنسائي،وجامع الترمذي، ثم المسانيد: مسند الشافعي، ومسند احمد بن حنبل"

"صحیح ترین کتب (احادیث) اس طرح ہیں: بخاری شریف، پھر مسلم شریف، حمیدی اور اشبیلی نے جو جمع کیا، (الجمع بین الصحیحین) اس کے بعد سنن کا درجہ ہے: سنن ابی داؤد،سنن نسائی، جامع ترمذی، پھر مسانید آتی ہیں: مسند امام شافعی رحمة اللہ علیہ، مسند احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ وغیرہ)"

"وذهب الي ان شرط احمد في مسده اجود من شرط ابي داود استحسن قول الامام احمد " ضعيف الحديث خير من الراثي... وضعيف الحديث عند احمد... كما ذكرنا... هوالذي خف ضعفه حتي ارتقي الي متربة الحسن"

"ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے مسند احمد کی شرائط کو سنن ابی داؤد سے بہتر قرار دیا ہے۔ نیز امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کے اس قول کی بھی تحسین کی ہے کہ "ضعیف حدیث رائے سے بہتر ہے" امام احمد رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ضعیف وہ ہے جس کا ضعف بہت کم ہو اور وہ "حسن" کے مرتبہ تک پہنچ جائے۔"

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ اور بڑے بڑے ائمہ کرام کا محاسبہ

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کو علم حدیث پر اس قدر عبور تھا کہ بڑے بڑے ائمہ کرام کی عظمت بھی انہیں اس بات سے مانع نہیں تھی کہ حدیث کے ضمن میں ان کی لغزشوں یا غلطیوں کو بے نقاب کریں۔ "علل الحدیث" کے سلسلے میں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علماء نے احادیث کو متن اور سند کے اعتبار سے خوب جانچا ہے لہذا کسی امام کی قدرومنزلت انہیں اس بات سے نہیں روکتی کہ وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عیب کو بیان نہ کریں۔ منہج میں ہے:

"وقد عرض لنا ابن تيمية رحمة الله عليه طرفا من جهد العلماء الناقدين في هذا المجال وانهم دققوا في علل الاحاديث جميعها بالنظر الي سندها ومتنها ولا يصرفهم عن ذلك شرف جامعها او علو منزلته"

اس کے بعد صاحب منہج ایک مثال سے بات کو واضح کرتے ہیں:

"ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس کی مثال مسلم شریف کی حدیث ہے" اللہ تعالیٰ نے زمین (مٹی) کو ہفتہ کے روز پیدا کیا، پہاڑوں کو اتوار، درختوں کو سوموار اور ناپسندیدہ اشیاء منگل کے روز اور نور بدھ کے روز اور چوپائے اس میں جمعرات کے روز پھیلائے اورآدم کو جمعہ کے روز پیدا کیا"... یہ دراصل ان لوگوں پر طعن ہے جو امام مسلم سے زیادہ عالم ہیں جیسے یحییٰ بن معین، امام بخاری رحمة اللہ علیہ اور ان دونوں کے علاوہ دیگر ان جیسے علما و ائمہ کرام۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث نہیں بلکہ کعب بن الاحبار اور چند ایسے لوگوں کی جماعت کا قول ہے جو اس کی صحت کے قائل تھے جیسے ابوبکر بن الانباری،ابو الفرج ابن الجوزی وغیرھما، امام بیہقی وغیرہ نے ان لوگوں کی مواقفت کی جنہوں نے اسے ضعیف جانا اور یہی بات (کہ یہ حدیث ضعیف ہے) صحیح ہے۔"

یہاں صبری المتولی نے ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی جرات کو داد دی، لکھتے ہیں:

"ثم نجدان هيبة الامام مسلم لم تمنع ابن تيمية رحمة الله عليه من الشهادة ضده فيقول علي الفورموا فقالالذين ضعفو االحديث هذا هوالصواب"

"پھر ہم دیکھتے ہیں کہ امام مسلم رحمة اللہ علیہ کی ہیبت ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کو ان کے خلاف گواہی سے نہیں روکتی، ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ ان ائمہ کرام کی موافقت میں جنہوں نے حدیث کو ضعیف سمجھا ہے، فی الفور کہہ دیتے ہیں کہ یہی بات صحیح ہے۔"

اس لئے دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

"لانه قد ثبت بالتواتر ان الله خلق السموات والارض وما بينهما في ستة ايام وثبت ان آخر الخلق كان يوم الجمعة فليزم ان يكون اول الخلق يوم الحد، وهكذا هو عند اهل الكتاب وعلي ذلك تدل اسماء الايام وهذا المنقول الثابت في احاديث وآثار اخري، ولو كان اول الخلق يوم السبت وآخر يوم الجمعة لكان قد خلق في الايام السبعة وهو خلاف مااخبر به القرآن"

"کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، اسے چھ دنوں میں پیدا کیا اور یہ بات ثابت اور برحق ہے کہ آخری مخلوق یوم جمعہ کو پیدا ہوئی، پس لازم ہے کہ تسلیم کیا جائے کہ پہلی تخلیق یوم الاحد (اتوار) کو ہوئی، اہل کتاب کے ہاں بھی یہی بات ثابت ہے، اسی پر دنوں کے نام دلالت کرتے ہیں۔ دوسری احادیث و آثار میں بھی یہی بات ثابت ہے۔ اگر پہلی تخلیق یوم سبت (ہفتہ) کی مانی جائے اور آخری تخلیق یوم جمعی کی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تخلیق کا عمل سات دن جاری رہا، جو کہ قرآن کے بھی خلاف ہے۔"

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ بات کو یہاں ختم نہیں کرتے بلکہ اپنے علم و فضل کے زور پر اپنی حق بات کو اور زیادہ واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اس (ثبوت) کے علاوہ ماہرین اہل الحدیث سے بھی اس حدیث کی علت دوسرے طریقوں سے ثابت ہے کہ اس میں فلاں راوی ان اسباب کی وجہ سے غلط ہے۔ اس علم کو ہی دراصل "علل الحدیث" کا علم کہتے ہیں۔ اگرچہ حدیث کی اسناد بظاہر جید ہوتی ہیں، مگر دوسرے طریقے سے بھی یہ بات معلوم ہے کہ راوی غلط ہے، جب ان کی چھان پھٹک ہوئی تو حدیث موقوف ثابت ہوئی۔ یا اس کی سند کی پڑتال کی گئی تو وہ مرسل ثابت ہوئی یا حدیث میں حدیث داخل ہو گئی... یہ فن بہت اچھا ہے، یحییٰ بن سعید انصاری رحمة اللہ علیہ ان کے ساتھی علی بن مدینی رحمة اللہ علیہ پھر امام بخاری، اس علم کو بہت زیادہ جاننے والے تھے، یہی حال امام احمد رحمة اللہ علیہ، امام حاتم رحمة اللہ علیہ، نسائی رحمة اللہ علیہ اور دارقطنی رحمة اللہ علیہ کا بھی تھا۔ اس سلسلے میں بہت سی تصنیفات ہیں... خود بخاری شریف میں تین احادیث ایسی ہیں جن کی صحت پر بعض اہل فن نے کلام کیا ہے۔ ان میں سے ایک "ابوبکرة" والی حدیث ہے جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرائے گا) اس حدیث پر محدثین کے ایک گروہ نے نقد و نظر کی ہے۔ ان میں ابوالولید الباجی بھی ہے۔ بعض کا گمان ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ابی بکرة سے حدیث نہیں سنی، لیکن صحیح رائے امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی ہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ابوبکرة سے حدیث سنی ہے، جیسا کہ اور بھی بہت سے مواقع پر بات واضح ہو چکی ہے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ اس فن میں امام مسلم رحمة اللہ علیہ کی نسبت کہیں زیادہ ماہر ہیں۔

یہ ہے ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کا علم حدیث پر عبور کہ انہیں نہ یہ کہنے میں باک ہے:

"ثم ينفرد بالفاظ يعرض عنها البخاري وقد يكون الصواب مع مسلم"

"امام مسلم رحمة اللہ علیہ الفاظ میں بخاری رحمة اللہ علیہ کی نسبت منفرد ہیں اور صواب میں امام مسلم رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ہے۔

اور نہ انہیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک ہے:

:لكن الصواب مع البخاري رحمة الله عليه... والبخاري رحمة الله عليه احذق واخبر بحذا الفن من المسلم رحمة الله عليه"

"اور صواب امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ہے... اور امام بخاری رحمة اللہ علیہ اس فن میں امام مسلم رحمة اللہ علیہ کی نسبت زیادہ ماہر اور زیادہ علم رکھنے والے ہیں"

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی اس صفت پر صبری المتولی کا بڑے خوبصورت پیرائے میں تبصرہ ہے:

"وهكذا الكتشف ابن تيمية رحمة الله عليه ان العلة القادحة في صحة الحديث كانت في المتن، بينما انصرف معظم اهل الحديث الي اكتشاف العلل القادحة في المسند ولكن الكتشاف علل المتن تحتاج الي مزيد من سعة العلم وطول الخبره ونور الموهبة وقد اوتي ابن تيمية رحمة الله عليه هذا كله"

"اسی طرح ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے انکشاف کیا ہے کہ صحت حدیث میں یہ علت متن میں تھی جبکہ اہل حدیث کے ایک کثیر گروہ نے یہ علت سند میں تلاش کی، لیکن متن میں علت کو ڈھونڈنے کے لئے بڑے وسیع علم اور تجربے اور خداد نور کی ضرورت تھی، اور ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کو یہ سب کچھ عطا ہوا تھا۔"

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ دوران تفسیر کس طرح اس علم لدنی کو استعمال کرتے ہیں؟

یہ مثالوں سے واضح ہو گا:

مثال نمبر1، سورہ توبہ: آیت 117

﴿لَقَد تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِىِّ وَالمُهـٰجِر‌ينَ وَالأَنصارِ‌ الَّذينَ اتَّبَعوهُ فى ساعَةِ العُسرَ‌ةِ مِن بَعدِ ما كادَ يَزيغُ قُلوبُ فَر‌يقٍ مِنهُم ثُمَّ تابَ عَلَيهِم ۚ إِنَّهُ بِهِم رَ‌ءوفٌ رَ‌حيمٌ ﴿١١٧﴾... سورة التوبة

"بے شک اللہ نے پیغمبر، مہاجرین اور انصار پر مہربانی کی، باوجوود اس کے کہ ان میں سے بعض کے دل جلد پھر جانے کو تھے (وہ مشکل کی گھڑی میں پیغمبر کے ساتھ رہے) پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی، بے شک وہ ان پر بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے"۔

میں توبہ و استغفار کے ضمن میں بہت سی دعائیں لکھی ہیں اور ہر دعا سے پہلے حدیث کی کتاب کا حوالہ دیا ہے:

"وفي الصحيحين...وفي الصحيح...وفي الصحيحين "وقد ثبت في الصحيح" "وقد ثبت في الصحيحين" وثبت عنه في الصحيح، وفي الحديث عن النبي صلي الله عليه وسلم "كل بني آدم خطاء وخير الخطائين التوابون، رواه ابن ماجه والترمذي

ہر حدیث کے شروع میں یا تو اس کتاب کا حؤالہ دیا ہے، راوی کا حوالہ دیا ہے، یا شروع میں اگر حوالہ نہیں دیا تو آخر میں بتا دیا ہے کہ یہ حدیث ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کی ہے۔ شاذونادر ہی ایسا ہوا ہے کہ حدیث کے بارے میں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے حوالہ نہ دیا ہو، اگر حدیث ثقاہت سے کچھ ہٹی نظر آئی خاموش نہیں رہے بلکہ فورا کہا: "وفيه نظر" صحیح ہوئی تو فرمایا: في الحديث المتفق علي صحته كما في الحديث الصحيح الالهي "عن الله" يا عبادي انما هي اعمالكم احصيها لكم ثم او فيكم اياها،فمن وجد خيرا فليحمدالله ومن وجد غير ذلك فلا يلومن الا نفسه

کسی جگہ صحابی کا نام اور کتاب کا نام بھی دیتے ہیں: "كما في حديث ابي سعيد الذي في الصحيح"

کسی جگہ یوں لکھا ہے: "وقد ثبت في الصحيح البخاري ان ابا هريرة رضي الله عنه قال فقال الرسول صلي الله عليه وسلم"

کسی جگہ یوں لکھا ہے: "وفي الصحيحين عن انس رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم وفي السنن عن البراء بن عازب عن النبي صلي الله عليه وسلم وفيها عن ابي امامة عن النبي وفي الصحيح عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم وفي الصحيح من حديث ابن مسعود رضي الله عنه عنه

مثال نمبر 1: اللہ عرش پر ہے

"اللہ عرش پر ہے۔" کے ضمن میں گیارہ آیات کا حوالہ دینے کے بعد احادیث سے اللہ کے عرش پر ہونے کا استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"صحیح اور حسن احادیث میں اس کی اتنی مثالیں (دلائل) ہیں کہ جن کا صرف بمشکل احاطہ کیاجا سکتا ہے۔ مثلا

"اس کی مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ معراج ہے۔ فرشتوں کا اللہ کی طرف سے نازل ہونا اور اس کی طرف چڑھنا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ملائکہ کے بارے میں یہ فرمان: "جو دن رات تمہارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، جو تمہارے درمیان رات بسر کر کے اللہ کی طرف جاتے ہیں، تو اللہ ان سے (بندوں کے حالات) پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان کے حالات سے زیادہ باخبر ہے"

2۔ صحیح بخاری میں حدیث خوارج ہے" کیا تم میری بات کا یقین نہیں کرتے ہو، حالانکہ میں آسمان والے کی طرف سے امین ہوں، آسمان کی خبریں صبح و شام میرے پاس آتی ہیں"

3۔ حدیث "رقیہ" جو ابوداؤد وغیرہ نے روایت کی ہے، اس میں ہے" اے ہمارے پروردگار! جو آسمان میں ہے، تیرا نام پاکیزہ ہے، تیرا حکم آسمان و زمین پر چلتا ہے، جس طرح تیری رحمت آسمان میں ہے، اسی طرح زمین کو بھی اپنی رحمت عطا فرما، ہمارے گناہوں اور خطاؤں کو معاف کر دے، تو پاکیزہ لوگوں کا پروردگار ہے۔ اپنی رحمت سے کچھ رحمت نازل فرما، اس درد پر اپنی شفاء میں سے شفاء عطا فرما۔"

4۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو شکایت ہو (تکلیف مصیبت وغیرہ) یا اس کے بھائی کو کوئی شکایت ہو تو اسے چاہئے کہ کہے: "اے ہمارے آسمان میں رہنے والے پروردگار ! اور اس کو یاد کرے"

5۔ حدیث اوعال میں ہے: "عرش اس سے اوپر ہے" اور اللہ عرش کے اوپر ہے اور جو رم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ احمد، ابوداؤد وغیرہما نے اسے روایت کیا ہے۔

6۔ حدیث صحیح میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: "اللہ کہاں ہے؟" اس نے کہا آسمان میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں کون ہوں؟ اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے آزاد کر دو، یہ تو مسلمان ہے"

7۔ حدیث صحیح میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "بے شک جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کیا تو ایک کتاب میں (تحریر) لکھ دی، اور وہ اس کے پاس عرش کے اوپر رکھی ہوئی ہے (وہ تحریر یہ ہے) بے شک میری رحمت میرے غضب پر چھائی ہوئی ہے۔"

8۔ حدیث "قبض الروح" میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے" اس روح کو لے کر فرشتے اس آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں جس میں اللہ عزوجل کی ہستی ہے۔"

9۔ عبداللہ بن رواحی رضی اللہ عنہ کے وہ اشعار جو انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق کی: "میں گواہی دیتا ہوں کا اللہ کا وعدہ برحق ہے اور جہنم کافروں کا ٹھکانہ ہے اور عرش پانی پر طواف کرتا رہا اور عرش کے اوپر سب جہانوں کا پروردگار ہے"

10۔ امية بن الصلت کے اشعار جو انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اشعار کو تحسین کی نظر سے دیکھا اور فرمایا: " اس کے اشعار میں ایمان ہے مگر اس کا دل کافر ہے" ان اشعار کا ترجمہ یوں ہے:

اللہ کی بزرگی بیان کرو، وہی بزرگی کا اہل ہے۔ ہمارا پروردگار آسمان میں ہے اور وہ بہت بلندی پر براجمان ہے، لوگوں سے اوپر ہے، اس نے آسمان پر اپنا تخت سجایا ہے، اتنا اونچا ہے کہ حد نظر کے ادراک سے باہر ہے، اس کے عرش کے بوجھ سے فرشتوں کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں"

11۔ مسند میں جو حدیث ہے، اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ بے شک اللہ زندہ و پائندہ ہے، سخی ہے، جب بندہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے تو وہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔

12۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حدیث میں ہے کہ (بندہ) اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے، اے ہمارے رب ، اے ہمارے پالنہار!....

ایسی مثالیں اس قدر زیادہ ہیں کہ جن کا شمار صرف اللہ کر سکتا ہے، یہ احادیث سب تواتر لفظی اور تواتر معنوی سے ثابت ہیں، یہ ایسے یقنی علم سے عبارت ہیں جو لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے متعلق اپنی امت کو آگاہ کیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ عرش پر ہے، عرش آسمان پر ہے، جس طرح اللہ نے تمام امتوں، عرب و عجم کو زمانہ جاہلیت اور اسلام میں ان کی طبیعی فطرت پر پیدا کیا، مگر جس امت کو شیطان نے اس کی فطرت سے دور کر دیا (وہ گمراہ ہو گئی) پھر اس سلسلے میں سلف کے اس قدر اقوال ہیں کہ انہیں جمع کیا جائے تو ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے گی۔

13۔ بلکہ صحیح بخاری میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفات کو (حجة الوداع) کے روز اپنی زندگی کے عظیم ترین اجتماع میں فرمایا: " کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟" صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بیک زبان فرمایا: جی ہان، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر صحابہ کی طرف جھکاتے اور فرماتے: اے اللہ گواہ رہنا، ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار کیا۔ ایسی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔

مثال نمبر2، سورة الاعراف: 172

﴿وَإِذ أَخَذَ رَ‌بُّكَ مِن بَنى ءادَمَ مِن ظُهورِ‌هِم ذُرِّ‌يَّتَهُم وَأَشهَدَهُم عَلىٰ أَنفُسِهِم أَلَستُ بِرَ‌بِّكُم ۖ قالوا بَلىٰ ۛ شَهِدنا ۛ أَن تَقولوا يَومَ القِيـٰمَةِ إِنّا كُنّا عَن هـٰذا غـٰفِلينَ ﴿١٧٢﴾... سورة الاعراف

"وہ وقت یاد کیجئے جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرالیا (یعنی ان سے پوچھا) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں؟ ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) یہ اقرار اس لئے کرایا گیا، کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی"

کی تشریح میں حدیث لاتے ہیں:

"فقال عمر رضي الله عنه بن الخطاب سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يسال عنها فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان الله تبارك و تعالي خلق آدم ثم مسح علي ظهره بيمينه فاستخرج منه ذرية فقال خلقت هولاء للجنة وبعمل اهل الجنة يعملون، ثم مسح علي ظهره فاستخرج منه ذرية فقال خلقت هولاء للنار وبعمل اهل النار يعملون، فقال رجل: يا رسول الله ! ففيم المعل؟ فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان الله تبارك و تعالي اذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل اهل الجنة يموت علي عمل من اعمال الجنة واذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار حتي يموت علي عمل اهل النار"...

پھر اس حدیث پر نقد و نظر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اور اس حدیث کو اہل سنن اور اہل مسانید مثلا ابوداؤد، ترمذی، نسائی نے روایت کیا اور ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ اس کی اسناد منقطع ہیں اور اس کے راوی مجہول النسب ہیں، اس کے باوجود اسے امام مالک رحمة اللہ علیہ نے موطا میں نقل کیا ہے جو کسی دوسرے کی نسبت زیادہ بلیغ ہیں۔ الفاظ یہ ہیں: پھر اس نے اپنا دایاں ہاتھ (آدم) کی پشت پر پھیرا اور اس کی اولاد کو پیدا کیا، پھر دوسری دفعہ اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور پھر اور اولاد پیدا کی... اور بڑے تعجب کی بات ہے کہ آجری نے اسے امام مالک رحمة اللہ علیہ، ثوری رحمة اللہ علیہ اور لیث رحمة اللہ علیہ وغیرہم سے اپنی کتاب "شریعت" میں نقل کیا ہے۔ اگر ابوالمعالی اور وہ کتاب جس کا انہوں نے انکار کیا تھوڑا سا غور کر لیتے تو جس چیز کی انہوں نے مخالفت کی، اسے اس میں پا لیتے۔ لیکن ابوالمعالی باوجوود اپنی کثرت ذہانت اور علم کی چاہت اور اپنے فن میں اونچی قدرومنزلت رکھنے کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بہت کم جاننے والا تھا۔ شاید کہ اس نے "موطا" کا اس انداز میں مطالعہ نہیں کیا کہ اسے اس کے بارے میں صحیح معلومات حاصل ہوتیں۔ کیونکہ وہ تو بخاری ، مسلم ، سنن ابی داؤد، نسائی، ترمذی اور اس جیسی دوسری سنن سے بھی اصلا آگاہ نہیں تھا تو پھر موطا اور اس جیسی کتابوں کا اسے علم کیسے ہوتا باوجود اس کے کہ وہ فقہی مسائل کے اختلاف میں دلائل جانتا تھا۔ اس نے صرف سنن ابوالحسن دارقطنی کا ہی مطالعہ کیا اور ابوالحسن نے حدیث میں اپنی تمام امامت کے باوجود یہ سنن اس لئے مرتب کی کہ اس میں عجیب و غریب قسم کی احادیث اور فقہہ کی باتیں جمع کرے، کیونکہ اسے اسی کی تمنا تھی۔ جہاں تک صحیحین کی مشہور احادیث اور صحاح ستہ کا تعلق ہے، وہ ان سے بے نیاز ہے۔ پس اپنی کتاب میں صرف ایسی غریب اور ضعیف احادیث پر اکتفا کرنا اصول اسلام سے بہت بڑی جہالت کی دلیل ہے اور اس نے یہ خیال کیا کہ "کتاب المعالی" جو اس کی ساری عمر کا ثمر ہے (نهاية المطلب في دراية المذهب) اس میں ایک حدیث بھی ایسی نہیں جو بخاری شریف کی طرف منسوب کی گئی ہو سوائے ایک حدیث کے جو بسم اللہ کے بارے میں ہے اور وہ بھی بخاری شریف میں نہیں ہے جیسا کہ اس نے ذکر کیا ہے.... ابوالمعالی سے ابن طاہر نے روایت کی ہے کہ موت کے وقت اس نے کہا:

" میں بہت بڑے گہرے اتھاہ سمندر میں ڈوب گیا اور میں نے اہل اسلام اور ان کے علوم کو چھوڑ دیا اور میں اس چیز میں داخل ہوا جس سے مجھے منع کیا گیا تھا اور اب اگر میرے پروردگار کی رحمت نے نہ پا لیا تو ابن جوینی کے لئے ہلاکت ہے۔ دیکھو میں اپنی ماں اور نیشا پور کی بوڑھی عورتوں کے عقیدے پر مر رہا ہوں"

اس تفسیری نوٹ پر غور کرنے سے درج ذیل امور سامنے آتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کو علم حدیث پر، اس کے صحیح و سقم کے فن پر کس قدر عبور حاصل تھا:

"وقد قيل اسناده منقطع" (کہا گیا ہے کہ اس کی اسناد منقطع ہیں)

"ان رواية مجهول" (کہ اس کے راوی مجہول ہیں)

3۔ موطا امام مالک رحمة اللہ علیہ میں متن میں تھوڑا سا اختلاف ہے "مسح علي ظهره بيمينه" کی بجائے " مسح ظهره بيمينه" کے الفاظ ہیں۔ اس قدر لطیف فرق کو بھی ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کس طرح نوٹ کرتے ہیں اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب مکتلف کتب حدیث میں پائے جانے والے متن زبانی ازبر ہوں۔

ابوالمعالي: هو عبدالملك بن عبدالله بن يوسف الجويني (امام الحرمين) من كبار الاشاعرة تلمذ له الغزالي ومن اهم كتبه "الشامل في اصول الدين"

" جو امام الحرمین کے لقب سے یاد کئے جانتے ہیں، انہوں نے اپنی معرف کتاب "الشامل فی اصول الدین" میں اس حدیث کو نقل کر دیا".... اس پر ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ خاموش نہیں رہ سکے بلکہ اس قدر زبردست تنقید کی ہے کہ ان کی شخصیت اور ان کی علمیت کا تار پور بکھیر کر رکھ دیا ہے:

"ولكن ابوالمعالي مع فرط زكائه و حرصه علي العلم علو قدره في فنه كان قليل المعرفة بالاثار النبوية"

ابوالمعالی باوجود اپنی تمام تر ذہانت اور علم کی طلب و تڑپ کے، اپنے فن (اصول دین) میں بلند مقام رکھنے کے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت کم جاننے والے تھے۔ پھر ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ابوالمعالی نے موطا امام مالک رحمة اللہ علیہ کا جو مطالعہ کیا تھا۔ وہ ایسا نہیں ہے کہ جیسا ہونا چاہیے تھا، حتی کہ بخاری و مسلم، سنن ابو داؤد، نسائی اور ترمذی کا جس نے مطالعہ نہیں کیا، وہ موطا اور اس قسم کی کتابوں کا کیا مطالعہ کرے گا؟

"فانه لم يكن له بالصحيحين البخاري ومسلم وسنن ابي داود، والنساءي والترمذي وامثال هذه السنن علم اصلا فكيف بالسوطا (پی ڈی ایف صفحہ 93؟؟؟)

5۔ پھر ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ بتاتے ہیں کہ ابوالمعالی نے فقہی نظریات کے لئے "سنن ابی الحسن الدارقطنی" پر انحصار کیا ہے۔ مگر خود دارقطنی اس پہلو سے معتبر نہیں ہے۔

"وابوالحسن الدارقطنی مع تمام امامتہ فی الحدیث فانہ صنف ھذہ السنن کی یذکر فیھا الاحادیث المستغربة فی الفقہ ویحمع طرقھا"

"ابوالحسن حدیث میں اپنی تمام تر امامت کے باوجود سنن میں عجیب و غریب احادیث اور ان کے طرق جمع کرنے کا باث بنا"

گویا ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے دارقطنی کی صحت بھی واضح کر دی۔

6۔ پھر یہ بتاتے ہیں کہ ابوالمعالی نے جو کتاب اپنی زندگی کے ماحصل کے طور پر لکھی اس میں سوائے ایک حدیث کے جو "بسم اللہ" کے بارے میں ہے، کوئی بھی صحیح بخاری سے منسوب نہیں ہے بلکہ یہ حدیث بھی جس طرح امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے روایت کی ہت۔ اس طرح نہیں ہے:

"ليس فيه حديث واحد معزو الي صحيح البخاري الحديث واحد في البسملة وليس ذلك في البخاري كما ذكره"

7۔ بات آخر یہاں ختم کی ہے کہ ابن طاہر کی روایت ہے کہ ابن جوینی نے اپنی وفات کے وقت یہ اقرار و اعتراف کیا:

"میں ایک گہرے سمندر میں پھنس گیا۔ میں نے اہل اسلام اور ان کے علوم کو چھوڑ دیا اور میں ایسے علوم کی تلاش میں سرگرداں رہا جن سے مجھے منع کیا گیا تھا اب اگر اللہ کی رحمت نے مجھے اپنے دامن میں نہ چھپایا تو ساری لعنت کا سزاوار ابن الجوینی ابوالمعالی ہو گا۔ لوگو! دیکھو (گواہ رہنا) میں اپنی ماں اور نیشاپور کی بوڑھی عورتوں کے عقیدے پر مر رہا ہوں"

اس حدیث سے متعلق "جامع الرسائل" میں عبارت اس طرح آئی ہے:

"وطائفة من العلماء جعلو هذا الاقرار كما استخرجوا من صلب آدم وانه انطقهم واشهدهم، لكن هذا لم يثبت به خبر صحيح عن النبي صلي الله عليه وسلم

"علماء کی ایک جماعت نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ "لوگ آدم کی پشت سے نکالے گئے اور اللہ نے انہیں بلایا اور ان سے گواہی لی" لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں۔

مثال نمبر 3

ایک شخص نے ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں پوچھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "تقاتلين عليا وانت ضالمة"

تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرے گی اور تو ظالمہ ہو گی۔

گویا اس حدیث سے متعلق ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کا نکتہ نظر معلوم کرنے کی کوشش کی۔ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کو فن حدیث پر جو عبور حاصل تھا، دیکھئے اس کا اظہار کس طرح ہوتا ہے فرمایا:

"فهذا لا يعرف في شئي من كتب العلم المعتدمدة ولا له اسناد معروف وهو بالموضوعات ، والمكذوبات اشبه منه بالاحاديث الصحيحة بل هو كذب قطعا فان عائشة رضي الله عنه لم تقاتل ولم تخرج لقتال وانما خرجت بقصد الاصلاح بين المسلمين وظننت ان خروجها مصلحة للمسلمين ثم نبين لها فيما بعد ان ترك الخروج كان اولي فكانت اذا ذكرت خروجها تبكي حتي تبل خمارها"

حدیث کی قابل اعتماد کتابوں میں سے کسی میں بھی ایسی حدیث کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا، نہ اس حدیث کے اسناد جانے پہنچانے ہیں، بلکہ یہ تو موضوعات (من گھڑت) اور جھوٹی احادیث میں سے ہے، صحیح احادیث سے اس کی کوئی مماثلت نہیں، بلکہ یہ تو خالص اور قطعی جھوٹ ہے۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہ لڑائی کی، نہ لڑائی کے لئے نکلیں، ان کا نکلنا تو صرف اصلاح بین المسلمین کے لئے تھا، انہیں خیال تھا کہ ان کے نکلنے سے مسلمانوں میں مصالحت کی صورت پیدا ہو گی، بعد میں انہیں اس بات کا شعور اور احساس ہوا کہ اگر وہ اس طرح (مصلحت عامہ کی خاطر) بھی نہ نکلتیں تو زیادہ بہتر تھا، پس جب کبھی انہیں اپنے خروج کی بات یاد آتی تھی تو اس قدر روتی تھیں کہ ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا"۔ رضی اللہ عنہا

مثال نمبر 4

ایک آدمی نے حدیث اور تفسیر کی کتابیں پڑھیں۔ جب كتاب الحلية پڑھنے کی باری آئی تو اس نے انکار کر دیا۔ جب اس اسلسلے میں اس سے استفسار کیا گیا کہ آپ اسلاف کے حالات کیوں نہیں پڑھتے تو اس نے کہا: "لا اسمع من كتاب ابي نعيم شيئا" میں ابو نعیم کی کتاب میں سے کچھ نہ پڑھوں گا، اس سے کہا گیا کہ:

"هو امام ثقة شيخ المحدثين في وقته فلم لا تسمع ولا تثق بنقله؟

"ابی نعیم ثقہ امام تھے، اپنے وقت کے شیخ المحدثین تھے، آپ انہیں اور ان کو نقل کو ثقہ کیوں نہیں مانتے؟"

پھر اس آدمی سے کہا گیا: ہم ابی نعیم کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کو حکم مانتے ہیں، تو اس آدمی نے کہا: میں بھی ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی رائے کو تسلیم کر لوں گا اس پر یہ مسئلہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کو لکھ کر ارسال کیا گیا۔ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے دمشق سے یہ جواب لکھا:

"الحمدلله رب العالمين، ابو نعيم احمد بن عبدالله الاصبهاني حلية الاولياء، تاريخ اصبهان المستخرج علي البخاري ومسلم، كتاب الطب، عمل اليوم والليلة، فضائل الصحابة، دلائل النبوة، صفة الجنة اور محبة الواثقين وغیرہ کے مصنف، حدیث کے بڑے حافظوں اور بہت تصانیف والے ہیں، جن لوگوں کی تصانیف سے لوگوں نے استفادہ کیا، ان میں سے ایک ہیں۔ ان کا مقام اس سے کہین بڑا ہے کہ انہیں "ثقہ" کہا جائے اور ان کی "حلية الاولياء" زاہدوں کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں میں بہت نفیس ہے اور رسالہ قشیریہ، ان کےشیخ عبدالرحمٰن سلمی، ابن خمیس کی "مناقب الاسرار" وغیرہ کی نسبت حدیث کی نقل میں بہت زیادہ صحیح ہے۔ کیونکہ ابو نعیم حدیث کو بہت زیادہ جاننے والے اور ان کے مصنفین کے مقابلے پر زیادہ ثقہ اور صحیح نقل کرنے والے ہیں، لیکن امام احمد رحمة اللہ علیہ کی "كتاب الزهد" اور عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ کی "كتاب الزهد" ، "حلية الاولياء" کی نسبت زیادہ صحیح احادیث پر مشتمل ہیں۔"

پھر ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ ان کتب کا موازنہ کرتے ہیں:

" ان کتابوں میں اور ان جیسی دوسری کتابوں میں لازما ضعیف احادیث اور ضعیف حکایات بلکہ باطل حکایات بھی موجود ہیں۔ حلية الاولياء میں بھی قطعی طور پر ہیں، لیکن "حلیہ الاولیاء" ، "رسالہ قشیریه" اور "مناقب الاسرار" اور ان جیسی دوسری کتابوں میں باطل احادیث اور باطل حکایات کثرت سے موجود ہیں، لیکن ایسی مثالیں ابی نعیم کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ ابن الجوزی (ابی الفرج) کی کتاب "صفوة الصفوة اور حلية الاولياء میں صحت غالب ہے اگرچہ ان میں بھی بعض حکایات و احادیث باطلہ موجود ہیں۔ جہاں تک امام احمد رحمة اللہ علیہ کی "کتاب زہد" اور ان جیسی دوسری کتابوں کا تعلق ہے، ان میں ان جیسی باطل احادیث و حکایت نہیں ہے۔ کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اپنی تصنیفات میں موضوع احادیث کو بیان نہیں کرتے البقہ ناقل کے "سوء حفظ" کی وجہ سے ضعیف احادیث ہیں، اسی طرح مرفوع احادیث میں بھی ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ موضوع ہے اور اس میں قصد ہی جھوٹ ہے۔ اسی طرح امام احمد رحمة اللہ علیہ اپنی مسند میں بھی موضوع روایات نہیں لاتے، اس قسم کی ضعیف روایات تو اسلام کی اکثر کتابوں میں موجود ہیں اور سوائے قرآن کریم کے کوئی کتاب غلطی سے پاک نہیں"

اس کے بعد بخاری اور مسلم کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں:

"اور ہاں بخاری شریف میں جو صحت ہے، وہ مسلم ہے مگر متن میں راوی کی طرف سے غلطی ہوتی ہے۔ حدیث کے بعض الفاظ میں اغلاط ہوتی ہیں۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے خود اپنی کتاب میں راوی کے مغالطے کو واضح کیا ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اونٹ کی قیمت کے سلسلے میں راویوں کے اختلاف کو بیان کیا۔ اس میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی اغلاط منسوب ہیں جس طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اغلاط منسوب ہیں جس طرح حضرت عبدالہ بن عباس رضی اللہ کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے احرام کی حالت میں نکاح کیا، حالانکہ اکثر لوگوں کے نزدیک مشہور ہے کہ آپ احرام اتار چکے تھے۔ اسی طرح حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں نماز نہیں پڑھی۔ اور یہ بھی حضرت بلال رضی اللہ کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے گھر میں نماز پڑھی اور علماء کے نزدیک یہی صحیح ہے۔

اور جہاں تک مسلم شریف کا تعلق ہے، اس میں ایسے الفاظ ہیں جو غلط تسلیم کئے جاتے ہیں۔ جیسے "اللہ نے زمین کو یوم السبت کو پیدا کیا" اور بخاری رحمة اللہ علیہ نے واضح کیا ہے کہ یہ غلط ہے۔ دراصل یہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا قول ہے، اور یہ بھی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف ایک رکعت میں تین رکعت ادا کی، (یعنی تین رکوع کے ساتھ ایک رکعت) اور صحیح یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زندگی میں ایک دفعہ نماز کسوف ادا کی ہے، ایک مثال یہ بھی ہے " کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان سے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کی خواہش کا اظہار کیا"، حالانکہ یہ غلط ہے۔

آخر میں حلية الاولياء کے بارے میں حتمی اور قطعی رائے یوں پیش کرتے ہیں:

"وهذا من اجل فنون العلم بالحديث يسمي: علم "علل الحديث" واما كتاب حلية الاولياء فمن اجود مصنفات المتاخرين في اخبار الزهاد و فيه من الحكايات مالم يكن به حاجة والاحاديث المروية في اوائلها احاديث كثيرة ضعيفة بل موضوعة"

"حدیث کے علوم و فنون میں اسی لئے اس علم کا نام "علل حدیث کا علم" (احادیث کے نقائص) رکھا گیا ہے، جہاں تک حلية الاولياء کی صحت کا تعلق ہے۔ متاخرین کی کتابوں میں سے اخبار الزهاد کے سلسلے میں یہ بہترین تصنیف ہے، اس میں کچھ حکایات ایسی ہیں جن کے درج کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، نیز کتاب کے آغاز میں جو احادیث پیش کی گئی ہیں، وہ اکثر ضعیف بلکہ موضوع ہیں"

خلاصہ کلام

ہم اپنی اس بحث کو ڈاکٹر محمد رشاد سالم کے ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں، کہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی تمام تالیفات میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ انہیں جہاں صحیح حدیث نظر آئی۔ وہ اسے نقل کرتے ہیں۔ اس کے مطابق عمل کرتے ہیں، جب کوئی مصنف نظر عدل سے دیکھے گا تو اسے یقین ہو جائے گا کہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کا موقف قرآن و سنت کے ساتھ ہے اور انہیں اس موقف سے کسی انسان کا قول دور نہیں کر سکتا خواہ وہ مقام اور مرتبے میں کتنا اونچا ہی کیوں نہ ہو۔ اس معاملے میں وہ نہ کسی امیر، نہ سلطان، نہ کوڑے اور نہ کسی تلوار کا خوف رکھتے ہیں۔ وہ قرآن و سنت سے ہرگز انحراف نہیں کرتے۔ بلکہ انہوں نے مضبوط کڑے کو تھام رکھا ہے۔ انہیں قرآن و سنت پر مکمل عبور حاصل ہے اور وہ اللہ کے اس فرما پر عمل کرتے ہیں:

"اگر تمہیں کسی چیز میں اختلاف ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہو، یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے اور تاویل کے لحاظ سے بھی احسن ہے اور تمہیں جس چیز میں بھی اختلاف ہو تو اسے اللہ کے فیصلے پر چھوڑ دو"

ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کے علم حدیث پر عبور کو نظم کی صورت میں بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ہے:

يا متقنا علم الحديث ومن روي سنن النبي صلي الله عليه وسلم المصفطي المختار
اصبحت في الاسلام طودا راسخا يهدي به وعددت في الاحبار
هذه مسائل اشكلت فتصدقوا ببيانها يا ناقلي الاخبار
فالمستعان علي الامور باهلها ان اشكلت قد جاء في الاثار
ولكم كاجر العالمين بسنته حين سالتموا يا اولي الابصار


"اے علم حدیث اور علماء اہل حدیث کے ماہر! آپ اسلام میں ایک ایسے بلند اور ٹھوس پہاڑ ہیں، جس سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور آپ کا شمار بڑے علماء میں ہوتا ہے۔ یہ مسائل ہیں جن میں اشکال واقع ہوا ہے، پس اے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقل کرنے والے! آپ ان مسائل کا شافی حل بیان فرمائیے، ان معاملات میں جن میں اشکال واقع ہوا، پس اس سلسلے میں اس آدمی سے مدد لی جاتی ہے جو اس کا اہل ہے اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کا حل موجود ہے۔ اے اہل بصیرت! اگر تم ان کے بارے میں سوال کرو تو تمہارے لئے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے والوں کا سارا اجر ہے۔"

وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام علي رسوله الكريم


حوالہ جات

العقود الدریہ،2

البدایہ والنھایہ،229:14

البدایہ والنھایہ،136:14

الرد الوافر

البدایہ والنھایہ،138:14

ذیل طبقات الحنابلہ،406:2

ابوعبداللہ محمد بن نصر الحمیدی م 448ھ (شذرات الذھب،392:3)

العقود الدریہ،3

مختصر طبقات الحنابلہ،52

معجم المولفین،185:10

العقود الدریہ،25

ایضا

مقارنہ بین الغزالی،31

مجموع فتاوی،6،7:18

مجموع الفتاوی، 41:18

منہج ابن تیمیہ،82

مجموع الفتاوی،20:18

ایضا،320:20

ایضا،521:1

مجموع الفتاوی،74:18

ایضا،521:1

منہج ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ وسلم:15

فتاوی81:81

منہج ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ، 25

مجموع الفتاوی، 19،20:18

مجموع الفتاوی،18،19:18

مجموع الفتاوی،18،19:18

ایضا،:19

منہج ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ،52

مجموع الفتاوی،52،53:15

ایضا،54

فتاوی:87

مجموع الفتاوی،239:14

ایضا

ایضا،247،48

ایضا،226

ایضا،410

ایضا،410

العقود،80-77

ایضا،80-77 (فتاوی،13،15:5)

فتاوی، 13،15:5

فتاوی،13،18:5

ایضا:13،18

دقائق التفسیر، 168،69:3

الاعلام،206:4

دقائق التفسیر، 168،69:3

جامع الرسائل،11

منہاج السنہ،236،37:2

الفتاویٰ،ج18:ص71

ایضا:ص72

ایضا

ایضا،ص73

ایضا

مقارنہ بین الغزالی وابن تیمیہ ص5