حدیث اللهم لا تقتلنا بغضبك ولا تهلكنا بعذابك وعافنا قبل ذلك کی تحقیق

مجلس التحقیقی الاسلامی لاہور کا مؤقر علمی مجلہ ماہنامہ "محدث" مجریہ ماہ سوال/ ذوالقعدہ 1410ھ بمطابق مئی/جون 1990ء پیش نظر ہے۔ کتاب و حکمت کے تحت سلسلہ وار شائع ہونے والی نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی مشہور اردو تفسیر "ترجمان القرآن" کی جاری قسط میں "رعد" اور "صاعقہ" کی تفسیر و معانی بیان کرتے ہوئے ایک حدیث یوں نقل کی گئی ہے:

ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم "رعد" اور "صاعقہ" کی آواز سنتے تو یوں فرماتے: اللهم لا تقتلنا بغضبك ولا تهلكنا بعذابك وعافنا قبل ذلك

"اے اللہ ہمیں اپنے غضب اور عذاب سے ہلاک نہ کر دینا اور اس سے پہلے ہمیں معاف کر دے" ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اسے روایت کیا ہے۔ اسے حدیث غریب لکھا ہے۔ غریب حدیث صحیح حدیث کی ایک قسم ہے...الخ

اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اس کی غرابت اسناد کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے: هذا حديث غريب' لا نعرفة الا من هذا الوجه" جامع ترمذی کے مشہور شارح علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمة اللہ علیہ، امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کے اس قول کی شرح میں فرماتے ہیں:

"اس کی تخریج امام احمد رحمة اللہ علیہ، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے الادب المفرد میں، امام نسائی رحمة اللہ علیہ نے عمل الیوم واللیلہ میں، اور امام حاکم رحمة اللہ علیہ نے مستدرک میں کی ہے"

علامہ مبارکپوری رحمة اللہ علیہ نے جن کتب احادیث میں اس حدیث کی تخریج کئے جانے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، ان کے علاوہ امام ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ نے "مصنف" میں، ابن السنی رحمة اللہ علیہ نے "عمل الیوم واللیلہ" میں، امام طبرانی رحمة اللہ علیہ نے، "کتاب الدعاء" میں اور بیہقی نے "السنن الکبریٰ" میں بھی اس کی تخریج اسی طریق۔۔۔ یعنی عن الحجاج بن ارطاة حدثني ابومطرانه سمع سالم بن عبدالله بن عمر عن ابيه قال كان النبي صلي الله عليه وسلم فذكره۔۔۔ کے ساتھ کی ہے۔ امام حاکم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: :"یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔" امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے بھی "تلخیص المستدرک" میں امام حاکم رحمة اللہ علیہ کی رائے سے اتفاق کیا ہے۔ حافظ عراقی رحمة اللہ علیہ نے "تخریج احیاء علوم الدین" میں اس سند کو "حسن" قرار دیا ہے۔ علامہ ابن علان رحمة اللہ علیہ "الفتوحات الربانیہ" میں فرماتے ہیں: "ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ نے "تصحیح المصابیح" میں فرمایا ہے: "اس حدیث کو نسائی رحمة اللہ علیہ نے عمل الیوم واللیلہ میں اور حاکم رحمة اللہ علیہ نے روایت کیا ہے، اس کی اسناد جید اور اس کے کئی طرق ہیں" اور حافظ رحمہ اللہ "تخریج الاذکار" میں فرماتے ہیں: "اس کی تخریج احمد رحمة اللہ علیہ اور... نے کی ہے اور حاکم رحمة اللہ علیہ نے تو اس کی تخریج متعدد طرق سے کی ہے" علامہ شمس الدین محمد بن ابی بکر المعروف بابن القیم رحمة اللہ علیہ نے "الوابل الصيب من الكلم الطيب" میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔ علامہ مناوی رحمة اللہ علیہ التیسیر میں فرماتے ہیں: " اس کی بعض اسانید صحیح اور بعض ضعیف ہیں" شیخ انعماری نے "کنز الثمین" میں علامہ مناوی رحمة اللہ علیہ کی ہی تقلید فرمائی ہے۔ علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمة اللہ علیہ نے بھی ترجمان القرآن کے مذکورہ بالا اقتباس میں اس حدیث کی صحت کا دعویٰ بایں الفاظ: "ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اسے روایت کیا ہے۔ حدیث غریب لکھا ہے۔ غریب حدیث صحیح حدیث کی ایک قسم ہے" کیا ہے۔ مولانا حکیم محمد صادق صاحب سیالکوٹی رحمة اللہ علیہ نے بھی حدیث زیر بحث کو اپنی متداول کتاب "صلوة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم" میں بحوالہ(بخاری) درج کیا ہے اور پروفیسر طیب شاہین لودھی نے کتاب "اذکار ماثورہ" میں اس حدیث کو بحوالہ سنن الترمذی رحمة اللہ علیہ اس طرح ذکر فرمایا ہے:

"حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بادل کی کڑک سن کر یہ دعا مانگا کرتے تھے،الخ"

حالانکہ یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بجائے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اسی طرح جناب حکیم محمد صادق صاحب رحمة اللہ علیہ کا مابین القوسین صرف (بخاری) لکھ دینا عام قاری کو اس وہم میں مبتلا کر سکتا ہے کہ شاید امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث کو اپنی "صحیح" میں روایت کیا ہو گا۔ حالانکہ اس کی تخریج امام بخاری نے اپنی "صحیح" میں نہیں بلکہ "الادب المفرد" میں فرمائی ہے۔ ابن علان رحمة اللہ علیہ کی کتاب "الفتوحات الربانیہ" کے حوالہ سے اوپر حافظ رحمة اللہ علیہ کا جو قول نقل کیا گیا ہے، اس میں مزید یہ بھی مذکور ہے: "پھر حافظ رحمة اللہ علیہ کے ان متعدد طرق کو بیان کیا ہے" مگر علامہ ابن علان رحمة اللہ علیہ نے ان طرق کو اپنی کتاب میں نقل نہیں فرمایا ہے۔ حاکم رحمة اللہ علیہ کے ان متعدد طرق کے تلاش کے لئے راقم نے "المستدرک علی الصحیحین" کو بالاستیعاب دیکھا مگر سوائے ابو معطر کے اس واحد طریق کے کوئی دوسرا طریق مستدرک کے کسی مقام پر نہ پایا۔ چنانچہ علامہ ابن علان رحمة اللہ علیہ کے اس قول کو قبول کرنے میں قدرے تردد محسوس ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا تمام تصحیحات و تحسینات کے باوجود قطعی بے غبار بات یہ ہے کہ یہ حدیث فی اصلہ "ضعیف" ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ابو معطر "مجہول" اور دوسرا راوی حجاج ابن ارطاة نخعی کوفی "کثیر الخطاء" ، "ضعیف" اور "مدلس"ہے۔

اس مطر کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: طبقہ ششم کا مجہول راوی ہے" علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "نہیں معلوم کہ وہ کون ہے"، امام ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: "امام رازی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ یہ سب مجاھیل ہیں۔" علامہ ہثیمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "میں اس کو نہیں جانتا۔" اور علامہ زیلعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ابن القطان رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ نہ اس کا حال معلوم ہے اور نہ اس کا نام۔" صرف امام ابن حبان رحمة اللہ علیہ نے ابو مطر کو اپنی کتاب "الثقات" میں ذکر کیا ہے۔ لیکن امام موصوف کی توثیق غیر معتبر ہوتی ہے، کیونکہ آں رحمہ اللہ مجہول رواة کو بھی ثقاة بیان کر دیتے ہیں، جیسا کہ تمام علمائے تحقیق کے نزدیک معروف اور مشہور ہے۔

حجاج بن ارطاة النخعی سے اگرچہ امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے مقرونا تخریج کی ہے، لیکن ابن مبارک رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ "حجاج مدلس تھا"، امام عجلی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: " جائز الحدیث مگر صاحب ارسال تھا۔ یحییٰ بن کثیر رحمة اللہ علیہ، مجاہد رحمة اللہ علیہ، مکحول رحمة اللہ علیہ اور زھری وغیرہ سے مرسل روایت بیان کرتا تھا، حالانکہ اس نے ان میں سے کسی سے کچھ بھی نہیں سنا تھا۔" امام ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "صدوق ہے، بکثرت خطا اور تدلیس کرتا ہے" ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: "امام نسائی رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ضعفاء کے ساتھ تدلسی کرتا ہے۔ جن ائمہ نے اس پر تدلیس کا اطلاق کیا ہے، وہ یہ ہیں: ابن مبارک رحمة اللہ علیہ، یحییٰ بن القطان رحمة اللہ علیہ، یحییٰ بن معین رحمة اللہ علیہ اور امام احمد۔ ابو حاتم رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ "جب حدثنا کہے تو وہ صالح ہے مگر قوی نہیں" آں رحمہ اللہ ہی "فتح الباری" میں حجاج کے متعلق فرماتے ہیں: "ضعيف،فيه مقال،فيه ضعيف،مدلس،لايحتج به" امام ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "احد اوعية العلم" ثوری رحمة اللہ علیہ نے ان میں "لچک" بتائی ہے۔ امام احمد رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ "حفاظ حدیث میں سے تھا" یحییٰ القطان رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ"میرے نزدیک وہ اور ابن اسحاق ہم پلہ ہیں۔" ابو حاتم رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: صدوق لیکن مدلس ہے پس اگر "ثنا" کہے تو وہ صالح ہے" نسائی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "قوی نہیں ہے" یحییٰ وغیرہ کا قول ہے: "ضعیف ہے" ابن عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "خطاء کرتا ہے" ابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اسے "ثقات" میں ذکر کیا ہے۔ ابن خزیمہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس کے ساتھ حجت نہیں ہے الا یہ کہ وہ "انا" یا "سمعت" کے ساتھ روایت کرے" بزار رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: حافظ لیکن مدلس اور فی نفسہ معجب تھا۔ شعبہ اس کی "ثنا" بیان کرتے تھے۔" ابن عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "یہ ان رواة میں سے ہے جن کی حدیث لکھی جاتی ہے۔" "امام بیہقی رحمة اللہ علیہ، امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ، عبدالحق اور ابن الہادی رحمہم اللہ نے حجاج کی "تضعیف" کی ہے۔ ابن القطان اور خطابی رحمہما اللہ فرماتے ہیں " تدلیس کے ساتھ معروف ہے۔" علامہ زیلعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "دارقطنی رحمة اللہ علیہ نے ان کا تذکرہ حفاظ ثقات میں کیا ہے۔" امام ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: زائدہ اس کی حدیث ترک کرنے کا حکم دیتے تھے، امام احمد رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: احادیث میں اضافہ کر دیا کرتا تھا اور ان لوگوں سے روایت بیان کرتا تھا جن سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی ہے، اس کے ساتھ کوئی حجت نہیں ہے، یحییٰ رحمة اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ آں رحمہ اللہ کا ایک اور قول ہے کہ اس حدیث کے ساتھ احتجاج نہیں ہے۔ ابو حاتم الرازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ضعفاء سے تدلیس کرتا ہے پس اگر "حدثنا فلان" کہے تو کوئی حرج نہیں"۔ ابن عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس پر زہری وغیرہ سے تدلیس کرنے کا عیب بیان کیا گیا ہے، کبھی کبھی خطا بھی کرتا ہے مگر اس پر کذب بیانی کی نسبت نہیں کی گئی ہے"۔ دارقطنی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: " اس کے ساتھ حجت نہیں ہے۔"ابن حبان رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ابن مبارک، یحییٰ القطان، ابن مہدی، یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے اس کو ترک کیا ہے" حجاج بن ارطاة کے تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ میں مذکور کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔

پس ثابت ہوا کہ زیر مطالعہ حدیث اصولا "ضعیف" ہے۔ امام ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی الدمشقی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الاذكار المنتخبة من كلام سيد الابرار صلي الله عليه وسلم" میں اس حدیث کے ضعف کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:

"روينا في كتاب الترمذي باسناد ضعيف عن ابن عمر رضي الله عنه به"

مگر علامہ ابن علان رحمة اللہ علیہ نے "اذکار" کی شرح میں "تخریج الاذکار" کے حوالہ سے امام نووی رحمة اللہ علیہ کی تضعیف حدیث پر حافظ رحمہ اللہ کا یہ قول متعقبا نقل کیا ہے:

"پس شیخ نووی کا اس حدیث پر ضعف کا اطلاق کرنا جبکہ یہ متماسک ہے، اور ابن مسعود رحمة اللہ علیہ کی سابقہ حدیث (اذا النقض الكوكب) کہ جس میں متہم بالکذب راوی کے ساتھ تفرد ہے، پر آپ کا سکوت فرمانا باعث تعجب ہے۔"

بلاشبہ امام نووی رحمة اللہ علیہ کا مشار الیہ حدیث پر سکوت فرمانا قطعا غیر درست ہے، مگر اس کے ساتھ ہی آں رحمہ اللہ کا زیر بحث حدیث کی تضعیف فرمانا ہر لحاظ سے مبنی برحق ہے کیونکہ اس کی سند کا دارومدار ابومطر اور حجاج بن ارطاة نخعی کوفی پر ہے، جن کا تذکرہ ہم اوپر بالتفصیل کر چکے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ حافظ رحمہ اللہ کی امام نووی رحمة اللہ علیہ پر تعقیب غیر موزوں اور قطعا بے وزن ہے، واللہ اعلم

خلاصہ کلام: امام حاکم، امام ذہبی، حافظ عراقی، ابن قیم، ابن جزری، ابن علان، مناوی، نواب صدیق حسن خان، علامہ مبارکپوری اور شیخ الغماری وغیرہ رحمہم اللہ نے زیر مطالعہ حدیث کی تصحیح و تحسین اور سکوت اختیار کرنے میں خطا کی ہے۔ امام نووی رحمة اللہ علیہ اپنی تحقیق میں حق بجانب ہیں۔ امام نووی رحمة اللہ علیہ کے علاوہ محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب "صحیح جامع الترمذی" میں نہ صرف ترک ہی کیا ہے بلکہ اپنی دوسری مشہور کتاب "سلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة" میں وارد کر کے اس کے "ضعیف" ہونے کی صراحت بھی فرمائی ہے۔

وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العلمين والصلوة والسلام علي رسوله الكريم


حوالہ جات

ماہنامہ "محدث" لاہور: ج20 عدد10-11 ص28-29،جامع ترمذی مع تحفة الاحوذی، ج4 ص245،مسند احمد، ج2 ص100-101،الادب المفرد للبخاری 722
،عمل الیوم واللیلہ للنسائی 298،المستدرک للحاکم، ج4 ص286،تحفة الاحوذی للمبارکفوری ج4 ص245،مصنف ابن ابی شیبہ 9266،عمل الیوم واللیلہ لابن السنی 927-928،کتاب الدعاء للطبرانی 981،السنن الکبری للبیہقی ج3 ص362،تخریج احیاء علوم الدین للعراقی ج1 ص386،الفتوحات الربانیہ علی الاذکار للنوویہ لابن علان ج4 ص284،ایضا،الوابل الصیب لابن قیم ص137،الکنزالثمین للغماری 2671،اذکارہ ماثورہ مرتبہ پروفیسر طیب شاہین لودھی 60-61،میزان الاعتدال للذہبی ج4 ص574، تہذیب التہذیب لابن حجر ج2 ص238، تقریب التہذیب لابن حجر ج2 ص473، الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج3 ص240، مجمع الزوائد للہیثمی ج6 ص260، نصب الرایہ للزیلعی ج3 ص371،الضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ 75، معرفة الثقات للجعلی ج1 ص284-285، تقریب التہذیب لابن حجر ج1 ص152، تہذیب التہذیب لابن حجر ج2 ص166، تاریخ بغداد للخطیب ج8 ص234، طبقات الحفاظ للسیوطی ص81، سیر اعلام النبلاء للذہبی ج7 ص69، میزان الاعتدال للذہبی ج1 ص485-460، معرفة الرواة للذہبی ص85، تعریف اہل التقدیس لابن حجر 125، ضعفاء المتروکین لابن الجوزی ج1 ص191، المجروحین لابن حبان ج1 ص225، الکاشف فی معرفہ من لہ روایة فی الکتب السنہ للذہبی ج1 ص205، الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج2 ص646، معالم السنن للخطابی ج3 ص152، تاریخ الدارمی عن ابن معین ص50، عون المعبود لشمس الحق عظیم آبادی ج5 ص454، تنقیح التحقیق لابن عبدالہادی ج1 ص330، مجمع الزوائد للہیثمی ج4 ص228، تحفة الاحوذی للمباکفوری ج1 ص231-271 ج2 ص113 قانون الضعفاء الموضوعات للفتنی ص248، الضعفاء الکبیر للعقیلی ج1 ص277، 283، فتح الباری لابن حجر عسقلانی ج3 ص580،580، ج4 ص36، 329، ج9 ص191، 423، ج10 ص41 ج12 ص103،341، سنن الدارقطنی ج1 ص98،327 ج2 ص155 ج3 ص174، ص174،253، ج4 ص250، السنن الکبریٰ للبیہقی ج1 ص386،ج5 ص210،ج6ص254 ج7 ص240، ج8 ص298 ج9 ص245 ج10 ص283، نصب الرایة للزیلعی ج1 ص32، 92 ج2ص18، 25،110،206،300،366،371،ج3 ص12،14،81،101،109،131،150،187،188،196،209،210،230،314،359،370،386ج4،ص83،305،306،339،359،385،390،406،الاذکار للنووی ص164،الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النوویہ لابن علان ج4 ص284،سلسلة الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ الالبانی ج3 ص146