نماز میں مختلف قراءات پڑھنے کا مسئلہ
اس میں شک نہیں کہ تمام متواتر قراءات(عشرہ ) درست اور نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں ، ان میں سے کوئی بھی قراءت کسی بھی مقام پر پڑھی جاسکتی ہے،نماز میں بھی اور نماز کے علاوہ بھی ۔ بہت ساری احادیث میں اس کی وضاحت ہے ، ان میں سے چند ایک ملاحظہ فرمائیں :
عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، يَقْرَأُ سُورَةَ الفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَمَعْتُ لِقِرَاءَتِهِ، فَإِذَا هُوَ يَقْرَأُ عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ، لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكِدْتُ أُسَاوِرُهُ فِي الصَّلاَةِ، فَتَصَبَّرْتُ حَتَّى سَلَّمَ، فَلَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَقُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي سَمِعْتُكَ تَقْرَأُ؟ قَالَ: أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: كَذَبْتَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَقْرَأَنِيهَا عَلَى غَيْرِ مَا قَرَأْتَ، فَانْطَلَقْتُ بِهِ أَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ بِسُورَةِ الفُرْقَانِ عَلَى حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْسِلْهُ، اقْرَأْ يَا هِشَامُ» فَقَرَأَ عَلَيْهِ القِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَذَلِكَ أُنْزِلَتْ»، ثُمَّ قَالَ:«اقْرَأْ يَا عُمَرُ» فَقَرَأْتُ القِرَاءَةَ الَّتِي أَقْرَأَنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«كَذَلِكَ أُنْزِلَتْ إِنَّ هَذَا القُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ» [1]
’’ سیدنا عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں، سیدنا ہشام بن حکیم کو دوران نماز سورہ فرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قراءت پر غور کیا تو وہ کئی ایسے حروف پڑھ رہے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں نے صبر سے کام لیا۔ انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کھینچا اور کہا: یہ سورت جو میں نے ابھی آپ کو پڑھتے سنی ہے، آپ کو کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے خود مجھے اسی طرح پڑھائی ہے ۔ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہاری قراءت سے مختلف قرآءت سے پڑھائی ہے۔ بلآخر میں انہیں کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا اور عرض کی : میں نے ان کو سورہ فرقان ایسی قراءت میں پڑھتے سنا ہے جس کی آپ نے مجھے تعلیم نہیں دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو۔پھر فرمایا: اے ہشام! پڑھ کر سناو۔“ انہوں نے اسی قراءت کے مطابق پڑھا جو میں نے ان سے سنی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے‘‘ ۔پھر آپ نے فرمایا : ”اے عمر! اب تم پڑھ کر سناو“ ۔چنانچہ میں نے پڑھا جس طرح آپ نے مجھے تعلیم دی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: ”یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ قرآن کریم سات قراءت میں نازل ہوا ہے۔ لہذا جو قراءت تمہیں آسان لگے اس کے مطابق قرآن پڑھو۔“
حضرت ابی بن کعب اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں :
كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ يُصَلِّي، فَقَرَأَ قِرَاءَةً أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ قِرَاءَةً سِوَى قَرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الصَّلَاةَ دَخَلْنَا جَمِيعًا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا قَرَأَ قِرَاءَةً أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، وَدَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ سِوَى قِرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَآ، فَحَسَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَأْنَهُمَا، فَسَقَطَ فِي نَفْسِي مِنَ التَّكْذِيبِ، وَلَا إِذْ كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ غَشِيَنِي، ضَرَبَ فِي صَدْرِي، فَفِضْتُ عَرَقًا وَكَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فَرَقًا، فَقَالَ لِي: يَا أُبَيُّ أُرْسِلَ إِلَيَّ أَنِ اقْرَأِ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّانِيَةَ اقْرَأْهُ عَلَى حَرْفَيْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّالِثَةَ اقْرَأْهُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَلَكَ بِكُلِّ رَدَّةٍ رَدَدْتُكَهَا مَسْأَلَةٌ تَسْأَلُنِيهَا، فَقُلْتُ: اللهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، اللهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَةَ لِيَوْمٍ يَرْغَبُ إِلَيَّ الْخَلْقُ كُلُّهُمْ، حَتَّى إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [2].
’’ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی آیا اورنماز پڑھنے لگا ۔ اس نے اس طرح قراءت کی کہ میں نے اس کا انکار کیا ۔ پھر دوسرا آدمی آیا، اس نے پہلے والے آدمی سے بھی مختلف قراءت کی ، جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت کی کہ میں نے اس کا انکار کردیا ، یہ شخص آیا تو اس نے پہلے والے سے بھی مختلف قراءت کی۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں پڑھنے کا حکم دیا، ان دونوں نے قراءت کی۔ نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کی قراءت کی تحسین فرمائی تو میرے دل میں آپﷺ کی تکذیب (جھٹلانے) کا داعیہ اس زور سے پیدا ہوا کہ اس قدر جاہلیت میں بھی نہیں تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر طاری ہونے والی کیفیت کو محسوس کیا تو میرے سینے میں مارا جس سے میں پسینہ پسینہ ہو گیااور میں ایسے ہوگیا کہ گویا میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں، آ پ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے پاس حکم بھیجا گیا کہ میں قرآن مجید کو ایک حرف (قراءت) پر پڑھوں، تو میں نے درخواست کی کہ میری امت پر آسانی فرمائیے ، تو مجھے کہا گیا کہ میں اسے دو حروف ((قراءات)) پر پڑھوں، میں نے پھر عرض کی کہ میری امت کے لیے آسانی فرمائیے ۔تو میرئے پاس تیسری بار جواب بھیجا کہ اسے سات حروف پر پڑھوں، نیز آپﷺ کے لئے ہر جواب کے بدلے جو میں نے دیا ایک دعا ہے جو آپﷺ مجھ سے مانگیں۔ میں نے عرض کی: اے میرے اللہ!میری امت کو بخش دے۔ اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے موخر کرلی ہے جس دن تمام مخلوق حتیٰ کہ ابراہیم بھی میری طرف راغب ہوں گے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
لَيْسَ الْخَطَأُ أَنْ يُقْرَأَ بَعْضُهُ فِي بَعْضٍ، وَلَكِنِ الْخَطَأُ أَنْ تُلْحِقُوا بِهِ مَا لَيْسَ مِنْهُ[3].
’’ غلطی یہ نہیں ہے کہ اس (کلام) کے کچھ حصے ایک دوسرے میں پڑھ لیے جائیں، بلکہ غلطی یہ ہے کہ تم اس میں وہ چیز شامل کر دو جو اس کا حصہ نہیں ہے۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ متواتر قراءات رسول اللہ ﷺ سےثابت ہیں اور صحابہ کرام عام حالت میں اور نمازوںمیں مختلف قراءات پڑھا کرتے تھے، مذکورہ واقعات میں رسول اللہ ﷺ نے مختلف قراءات کرنے والوں کی نماز کو درست قرار دیاہے ۔
باقی رہا یہ مسئلہ کہ نماز کی مختلف رکعات میں ، یا ایک ہی رکعت میں مختلف قراءات میں تلاوت کی جاسکتی ہے ؟ تو اس مسئلہ میں اہل علم کی تین آراء ہیں :
پہلی رائے
مالکی فقہا [4] اور امام ابن تیمیہ کی رائے کے مطابق نماز کی مختلف رکعات میں ، یا ایک ہی رکعت میں مختلف قراءات میں تلاوت کی جاسکتی ہے، اس لیے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثابت شدہ ہے۔ امام ابن العربی اپنی کتاب احکام القرآن میں فرماتے ہیں :
إذَا ثَبَتَتْ الْقِرَاءَاتُ، وَتَقَيَّدَتْ الْحُرُوفُ فَلَيْسَ يَلْزَمُ أَحَدًا أَنْ يَقْرَأَ بِقِرَاءَةِ شَخْصٍ وَاحِدٍ، كَنَافِعٍ مِثْلًا، أَوْ عَاصِمٍ؛ بَلْ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَقْرَأَ الْفَاتِحَةَ فَيَتْلُو حُرُوفَهَا عَلَى ثَلَاثِ قِرَاءَاتٍ مُخْتَلِفَاتٍ؛ لِأَنَّ الْكُلَّ قُرْآنٌ [5].
’’ جب تمام قراءات ثابت ہیں اور ان کے حروف طے شدہ ہیں ، تو کسی شخص یہ لازم نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی ایک ہی قاری مثلاً نافع یا عاصم کی قراءات میں تلاوت کرے ۔ بلکہ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس کے حروف کو تین مختلف قراءات میں تلاوت کرے ، اس لیے کہ یہ سب کی سب قرآن ہیں ۔ ‘‘
فتاویٰ ابن تیمیہ میں ہے : سوال کیا گیا ایسے شخص کے متعلق جو لوگوں کو امامت کراتے ہوئے ابو عمرو کی قراءت کرتا ہے ، اگر وہ بوعمرو کی قراءت کےساتھ ساتھ امام ورش یا امام نافع کی قراءت بھی کرلے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا ، یا اس کی نماز میں نقص ہوگا یا اسےوہ نماز لوٹانا پڑھےگی ؟، امام صاحب نے جواب دیتے ہوئے لکھا :
یَجُوزُ أَنْ يَقْرَأَ بَعْضَ الْقُرْآنِ بِحَرْفِ أَبِي عَمْرٍو وَبَعْضَهُ بِحَرْفِ نَافِعٍ وَسَوَاءٌ كَانَ ذَلِكَ فِي رَكْعَةٍ أَوْ رَكْعَتَيْنِ وَسَوَاءٌ كَانَ خَارِجَ الصَّلَاةِ أَوْ دَاخِلَهَا[6].
’’ قاری کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک ہی تلاوت میں بعض حروف امام ابو عمرو ، بعض حروف نافع کی قراءت سے پڑھے ، خواہ ایک رکعت کی قراءت میں ایسا کرے یا دو رکعات میں الگ الگ قراءت کرے ، نماز میں پڑھے یا نماز کے علاوہ ۔ ‘‘
دوسری رائے
ایسا کرنا جائز ہے بشرط یکہ دوسری قراءت پہلی قراءت سے جوڑ کر نہ پڑھے ، فقہاے شافعہ نےاس رائے کو اختیار کیاہے[7] ۔ امام نووی نے لکھا ہے :
وإذا قرأ بقراءة من السبع استحب أن يتم القراءة بها, فلو قرأ بعض الآيات بها وبعضها بغيرها من السبع جاز بشرط أن لا يكون ما قرأه بالثانية مرتبطا بالأولى[8].
’’جب قاری قراءت سبعہ میں سے کوئی قراءت کرے تو مستحب یہ ہے کہ مکمل قراءت اسی روایت میں کرے ، اگر وہ کچھ آیات ایک قراءت کے مطابق کرے اور کچھ آیات دوسری قراءت میں کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ دوسری قراءت کو پہلی کے ساتھ جوڑ کر نہ پڑھے ۔ ‘‘
قراءت کے معروف امام ابن الجزری لکھتے ہیں :
وَقَالَ الْحَبْرُ الْعَلَّامَةُ أَبُو زَكَرِيَّا النَّوَوِيُّ فِي كِتَابِهِ التِّبْيَانِ: وَإِذَا ابْتَدَأَ الْقَارِئُ بِقِرَاءَةِ شَخْصٍ مِنَ السَّبْعَةِ فَيَنْبَغِي أَنْ لَا يَزَالَ عَلَى تِلْكَ الْقِرَاءَةِ مَا دَامَ لِلْكَلَامِ ارْتِبَاطٌ، فَإِذَا انْقَضَى ارْتِبَاطُهُ فَلَهُ أَنْ يَقْرَأَ بِقِرَاءَةِ آخَرَ مِنَ السَّبْعَةِ وَالْأَوْلَى دَوَامُهُ عَلَى تِلْكَ الْقِرَاءَةِ فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ[9].
’’ علامہ ابو زکریا النووی اپنی کتاب التبیان میں لکھتے ہیں : جب قاری قراء سبع میں سے کسی قاری کی قراءت شروع کرے تو وہ اسی قراءت پر رہے جب تک وہ مسلسل پڑھ رہا ہو ۔ جب اس کا تسلسل ٹوٹ جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ قراء سبع میں سے کسی دوسرے قاری کی قراءت پڑھ لے ۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ ایک مجلس میں ایک ہی روایت کے مطابق قراءت کرے ۔‘‘
ابن الجزریؒ نے اس مسئلے میں اسی موقف کو ترجیح دی ہے[10]۔
تیسری رائے
اہل علم میں ایک مذہب اس سے منع کا بھی ہے ، جیساکہ امام ابن الجزری فرماتے ہیں :
وَلِذَلِكَ مَنَعَ بَعْضُ الْأَئِمَّةِ تَرْكِيبَ الْقِرَاءَاتِ بَعْضِهَا بِبَعْضٍ وَخَطَّأَ الْقَارِئَ بِهَا فِي السُّنَّةِ وَالْفَرْضِ، قَالَ الْإِمَامُ أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّخَاوِيُّ فِي كِتَابِهِ (جَمَالِ الْقُرَّاءِ): وَخَلْطُ هَذِهِ الْقِرَاءَاتِ بَعْضِهَا بِبَعْضٍ خَطَأٌ [11].
’’اور اسی طرح بعض ائمہ نے قراءات کو ایک دوسرے کےساتھ ملا کر پڑھنے سے منع کیا ہے ، اور سنت اور فرض نماز میں انہیں خلط ملط کرنے سے بھی منع کیا ہے ۔ امام ابو الحسن علی بن محمد سخاوی اپنی کتاب جمال القرآء میں فرماتے ہیں : ان قراءات کو ایک دو سرے سے خلط ملط کرکے پڑھنا غلط ہے ۔ ظاہر ایسا ہے حقیقت اللہ بہتر جانتا ہے ۔‘‘
درست رائے
موقف یہ ہے کہ تنہا نماز پڑھنے اور امامت کرانےوالے میں فرق کیا جائے، مثلاً تنہا نماز پڑھنے والا امام نووی اور ابن الجزری رحمہما اللہ کی بیان کردہ شرط کے ساتھ قراءتوں کو ایک نماز میں جمع کر سکتا ہے۔لیکن لوگوں کی امامت کرانے والے شخص کے لیے اس سے پرہیزکرنا بہتر ہے، کیونکہ اس کا یہ عمل کئی نمازیوں کے درمیان فتنے اور اختلاف کا سبب بن سکتا ہے۔بلکہ امام کو ایسی قراءت میں تلاوت کرنا بھی مناسب نہیں جو لوگوں میں معروف اور معمول نہیں ہے، کیونکہ اس سے بھی فتنہ اور انتشار پیدا کر سکتا ہے۔اس حوالے سے سعودی عرب کے کبار علماء کی فتویٰ کمیٹی سےسوال ہوا ۔
سوال:کیا نماز میں قرآن مجید کی تلاوت ورش عن نافع کی روایت سے جائز ہے، حالانکہ ہمارے ہاں حفص عن عاصم کی روایت متداول ہے؟
جواب: ورش عن نافع کی روایت سے قراءت درست اور علمائے قراءت کے نزدیک معتبر ہے، لیکن جہاں اس روایت کی عادت نہیں بلکہ وہاں کسی اور روایت جیسے کہ حفص عن عاصم کی روایت کی عادت ہے ،اگر وہاں امام ورش سے قراءت کرے تو مقتدیوں کے دلوں میں تشویش اور الجھن پیدا ہو سکتی ہے، وہاں ورش سے قراءت ترک کر دی جائے۔ البتہ اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہوتو اس کے لیے ورش کی روایت سے قراءت کرنا جائز ہے کیونکہ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں[12]۔
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ نماز میں قراءت عشرہ صحیحہ میں سے کسی بھی قراءت میں پڑھنا جائز ہے،لیکن جہاں اس سے لوگوں میں فتنہ و تشویش پیدا ہونے کا ڈر ہو وہاں پرہیز بہتر ہے ۔
قراءات کو خلط ملط کرنے کی صورتیں
قراءات کو خلط ملط کرنے کی دو صورتیں ہیں :
- آیت کو ایک قراءت میں پڑھنا ، اگلی آیت کو دوسری قراءت میں پڑھنا ، یا ایک آیت کو پہلے ایک قراءت میں پڑھنا پھر دوسری قراءت میں جیسا کہ کانفرنسز میں قراء کرام پڑھتے ہیں ۔
- ایک ہی آیت کے کچھ الفاظ ایک قراءت میں اور کچھ الفاظ کو دوسری قراءت کے مطابق پڑھنا ۔
پہلی صورت علماء کی مشہور رائے کے مطابق جائز ہے ، لیکن دوسری صورت جائز نہیں ہے خصوصاً ایسے کلمات کو مختلف قراءات میں پڑھنا جن کا معنی ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہو حرام ہے ، مثلاً: اگر کوئی شخص آیت 'فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ' کو دونوں الفاظ (’آدم‘ اور ’کلمات‘) کو رفع کے ساتھ پڑھے، یا دونوں کو نصب کے ساتھ، مگر’آدم ‘ کی رفع ابن کثیر کی قراءت سے لے اور ’کلمات‘ کی رفع غیر ابن کثیر کی قراءت سے لے، تو یہ ناجائز ہوگا۔ اسی طرح آیت: ﴿ وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ﴾ کو تشدید اور رفع دونوں کے ساتھ پڑھنا یا اس کا الٹ کرنا بھی اسی قبیل سے ہے، اسی طرح کی وہ قراءتیں جو عربی زبان کے قواعد کے خلاف ہوں اور لغت میں درست نہ ہوں ان کا پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔
البتہ جن صورتوں میں قراءات بدلنے سے معنی میں خرابی پیدا نہیں ہوتی تو وہاں ایسا کرنا جائز ہوگا ، کیونکہ تمام قراءات اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، جنہیں روح الامین نے سید المرسلینؐ کے قلب اطہر پر نازل کیا، تاکہ امت پر تخفیف ہواور اس ملت کے ماننے والوں پر آسانی ہو۔اگر ہم ان پر ہر روایت کو الگ الگ پڑھنے کو لازم کر دیں، تو ان کے لیے ایک ہی قراءت کو سمجھنا بھی مشکل ہو جائے گا، اور تخفیف کا جو مقصد تھا، وہ الٹا سختی اور مشقت میں تبدیل ہو جائے گا۔
امام پر یہ شرعاً پابندی نہیں کہ وہ اپنے علاقے میں معروف قراءت کے مطابق نماز میں پڑھے یا نماز میں ایک ہی قراءت کے مطابق تلاوت کرے ، ہاں فتنے کے ڈر سے اس سے بچنا بہتر ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فتنےکو قتل سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے [13]۔ اسی لیے بعض حنفی اور حنبلی فقہاء نے نماز میں اپنے علاقے میں معروف قراءات کے خلاف پڑھنے کو مکروہ قرار دیاہے [14]۔ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی جہالت اور ناواقفیت کے سبب مسجد اور جماعت سے متنفر نہ ہوجائیں [15]۔
نماز قراءت شاذہ کی تلاوت
مذکورہ بلا بحث قراءات متواترہ میں پڑھنے کے حوالے سے ہے ، یعنی نماز اور غیر نماز میں قراءات متواترہ میں سے ایک قراءت کو دوسری متواتر قراءت کےساتھ ملا کر پڑھا جاسکتا ہے ، باقی رہا قراءات شاذہ کا مسئلہ تو تعلیم و تعلم کے لیے ان کی تلاوت جائز ہے ، لیکن انہیں قرآن سمجھ کر پڑھنا درست نہیں ہے ، کیونکہ قرآن صرف وہ ہے جس پر امت کا اجماع ہے اور وہ قراءات متوترہ ہیں ۔ نماز میں قراءت شاذہ کے ساتھ قراءت کرنا قطعاً صحیح نہیں ہے، کیونکہ وہ قرآن نہیں ہیں اور جو چیز قرآن نہیں ہے اسے نماز میں پرھنا جائز نہیں۔
نماز میں غیر قرآن کی تلاوت نماز میں جان بوجھ کر گفتگو کرنے کی طرح ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ [16].
’’ بلاشبہ نماز میں لوگوں کی بات کرنا درست نہیں ہے ، اس میں صرف تسبیح ، تکبیر اور قراء ت قرآن ہوتی ہے ۔‘‘
لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ نماز میں صرف متواتر قراءات کی تلاوت کی جائے ۔
[1] صحيح بخاری :4992
[2] صحيح مسلم :820
[3] المعجم الكبير للطبراني (9/ 138)، رقم :8683
[4] مالکیہ کے قول کے لیے ملاحظہ فرمائیں : بلغة السالک لأقرب المسالک ، للصاوی : 1/437، مغنی المحتاج الی معرفة معانی ألفاظ المنھاج ، الخطیب الشربینی :1/153
[5] أحکام القرآن2/613
[6] فتاوى ابن تيمية:22 /445
[7] ملاحظہ فرمائیں:أسنى المطالب في شرح روض الطالب (1 / 63)،الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع (1/ 105)،مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج (1 / 153).
[8] المجموع شرح المهذب:3 / 392
[9] النشر في القراءات العشر:1 /18
[10] ملاحظہ فرمائیں : النشر فی القراءات العشر : 1/19
[11] النشر فی القراءات العشر:1 / 18
[12] فتاوى اللجنة الدائمة:4 /26، رقم السؤال:7339
[13] قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ١ۚ ﴾ [البقرة: 217] ’’فتنہ قتل سے بھی بڑا ہے ‘‘۔
[14] حنفی فقہاء کی رائے کے لیے دیکھئے:الدر المختار شرح تنویر الأبصار وجامع البحار، الخصکفی: 74۔ حنبلی فقہاء کی رائے کے لیے دیکھئے: الفروع الإبن مفلح : 2/185، المبدع فی شرح المقنع الإبن مفلح:1/393،الاقناع فی فقه الإمام أحمد بن حنبل، لموسیٰ بن أحمد بن موسیٰ بن سالم الحجاوی المقدسی :1/128،دار المعرفة بیروت
[15] کشاف القناع علی متن الاقناع ، منصور بن یونس البھوتی:1/374، دار الکتب العلمیة
[16] صحیح مسلم :537