ایران و شام پر اسرائیلی حملے اور ابراہیم کارڈ !
امت مسلمہ اگر جسم ہے تو مشر ق وسطی اس جسدامت کا دل ہے۔ جو اہمیت انسانی جسم میں دل کو حاصل ہے ، وہی حیثیت مسلم امہ کے ماضی اور حال میں مشرق وسطیٰ کی ہے۔ قرآن مجید ،احادیث رسولﷺ اور تاریخی تناظر میں مشرق وسطیٰ میں بالخصوص ارض شام کو ، جسے ارض رباط بھی کہا جاتا ہے، اسے ایک الگ، منفرد، بلند اورممتاز مقام حاصل ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا سفر معراج ہو، قرآن میں بے شمار مقامات پر اس ارض مقدس کے تذکرے ہوں، انبیا ء کا اس سرزمیں سے متعلق ہونا ہو ، اس سرزمیں کامسلم امہ کا قبلہ اول ہونا ہویا سیدنا عمرفاروق اورصلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس خطے کا مسلم قلمرو میں شامل و داخل ہونا ہو، یہ ساری چیزیں اور پھر قرب قیامت کے احوال میں اس سرزمیں کی خصوصی حیثیت ہو، یہ سب بتاتے ہیں کہ یہ خطہ زمیں مسلم امہ کے لیے دل کی حیثیت و اہمیت رکھتاہے، دین و شریعت کے اعتبار سے بھی ، تاریخی اعتبار سے بھی اور تہذبی و جذباتی اعتبار سے بھی۔
ایک لمبے عرصے سے اور خصوصاً ان دنوں امت مسلمہ کا یہ دل آئی سی یو میں پڑا ہےاور اس کی تشویشناک حالت سے ہر مسلمان کا دل دھک دھک کر رہا ہے ۔ اس مسئلے میں تازہ شدت حماس کے اسرائیل پر حملے کے وقت آئی۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب عرب ریاستیں فلسطین کے کسی مجوزہ حل کے قریب پہنچ چکی تھیں۔یہ حل امت مسلمہ کی امنگوں سے کتناہم آہنگ تھاا ورکتنا نہیں ،اس سے قطع نظر اس حملےسے وہ سارا بندوبست وقتی طور پر ختم ہوگیا،اس بارے میں خود حماس کا کہنا یہ تھا کہ ہم کوئی ایسا سمجھوتہ سبوتاژ کرنا اپنی فتح سمجھتے ہیں، جس میں ہم بطور فریق شریک نہ ہوں۔ اس وقت امت میں دوطرح کی سوچ پائی جاتی تھی۔ ایک وہ جو فلسطین میں اپنے بھائیوں کی بھوک ، ان پر برستا بارود اور ان کی تلپٹ زندگی دیکھ کر اس حملے پر تنقید کر رہے تھے کہ تم لوگوں نے امن اور سکون کی ایک کوشش کو تلپٹ کر دیا ہے، دوسری طرف وہ آئیڈیلسٹ لوگ تھے، جو کہتے تھے کہ بہت اچھا ہوا ، جو یہ معاہدہ نہ ہوسکا۔ اس موقع پر البتہ کچھ چیزیں ضرور واضح ہوئیں۔ پتہ چلا کہ ہمارے دانش وروں نے اسرائیل کے قطعی ناقابل تسخیر ہونے کا جو ہواباندھ رکھا تھا، اسرائیل ویسا ناقابل تسخیر بہرحال ثابت نہیں ہوا۔ یہ الگ بات کہ یہ نتیجہ حاصل کرنے کا نتیجہ بھی اہل غزہ کے حق میں کچھ زیادہ اچھا نہیں نکلا۔اسرائیل زخمی سانپ کی طرح اہل غزہ پر پل پڑا ، انہوں نے بہرحال اپنی عزیمت اور صبر واستقامت سے قرون اولی کی یاد تازہ کر دی۔
اسی دوران شام کے حالات بدلے اور بشار الاسد کے جبر اور جنونیت کو توڑنے میں احمد الشرع کامیاب ہوا، یہاں ایک طرف اہل سنت کے جیلوں سے نکلنے کی خوشی منائی گئی تو دوسری طرف اسرائیل کے گرد ایرانی پراکسیز کے کمزور ہونے کی بات بھی کی گئی۔ جن کے ستم کا اہل سنت بھی کچھ کم شکار نہ تھے۔ حالات کے بہاؤ کے اس سلسلے میں ایک اہم موڑ تب سامنے آتاہے،جب اسرائیل ایران پر حملہ کر دیتاہے۔ یہ حملہ اس ساری سوچ کے لیے حیران کن تھا ، جو اسرائیل اور ایران کو اندر سے ایک بتا یا کرتےتھے ۔ اسرائیل نے پہلے ہی ہلے میں ایران کو چاروں شانے چت کر دیا۔ ایران کے اندر تک گھسے ہوئے اسرائیلی ایجنٹوں اور ان کے بنائے ہوئے خفیہ اڈوں سے کئے گئے حملوں نے اعلی سطحی ایرانی شخصیات اور اہم ترین مقامات کو روند کے رکھ دیا۔ ایران نے سنبھالا لیا اور جوابی وار کرکے اسرائیل کی قائم کردہ متھ توڑنے میں حماس کے اعدادو شمار میں اضافہ کر دیا۔ایران اسرائیل کا ویسا نقصان تو نہ کر سکا، جیسا اسرائیل نے ایران کا کیا، مگر وہ اسرائیل کی فضائی حدود میں شگاف ڈال کر اس کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے میں ضرور کامیاب ہوگیا۔
اس موقع پر عرب ممالک خصوصا سعودی عرب کا کردار بہت منفرد ہو کر سامنے آیا۔ سعودی عرب نے ایرانی زائرین حج (جن کے لیے ایران کی فضائی حدود بند ہونے کے سبب واپس آنا مشکل ہورہا تھا) کو شاہی مہمان قرار دیاجب تک ایرانی فضائی حدود کھل نہیں جاتیں۔ اس کے علاوہ ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور عالمی برادری کو اس جنگ کے رکوانے میں بیدار اور متحرک کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ بیچ میں ایران کے عرب ممالک میں موجود امریکی عسکری اڈوں پر حملوں سے کئی سوالات بھی پیدا ہوئے۔ خصوصا ٹرمپ کے یہ کہنے سے کہ یہ سارے حملے ایران نے ہمیں اعتماد میں لیکر کیےاور اس بات سے بھی کہ امریکی بی باون طیاروں کے ذریعے بنکر بسٹر بموں سے ایرانی ایٹمی گھروں پر حملوں کی متضاد اطلاعات پر بھی سوالات اٹھے۔ لیکن اس سب کے باوجود عرب ایران یا سعودی ایران معاملات بگڑنے کے بجائے سنبھل گئے۔
اس نئے تناظر میں اگر سوال کیا جائے کہ امت مسلمہ نے کیا حاصل کیاہے ؟ تو اس کاجواب یہ کہ ان کٹھن حالات کے باوجود ایران سعودیہ تعلقات نہ صرف قائم رہے بلکہ ان میں بہتری آئی۔اسرائیل کے ناقابل شکست ہو نے کا نظریہ رسوا ہوا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی جارحیت کی مذمت ہوئی ۔سوال اب یہ ہے کہ کیا اس اتحاد و اتفاق سے امت مسلمہ اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف یکسو ہو سکتی ہے ، کیا واقعی باہم ایسا اعتماد قائم ہو چکا کہ باہمی چپقلش سے بے نیاز ہوا جا سکے؟ یہ سوالات بڑے اہم ہیں۔
ان حالات کے بعد بات ایک دفعہ پھر ابرہام کارڈ کے گرد گھومنے لگی ہے ، ابرہام اکارڈ کا بیج دو ہزار سترہ میں بویا گیا تھا ، جب ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں اس نے اپنے یہودی داماد جیڑد کشنر کو اپنا مشیر بنایا اور اس کی مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کا لائحہ عمل مرتب کرنے کی ذمے داری لگائی۔جیرڈ کشنر نے اس پر مشرق وسطی میں ملاقاتیں کیں، ایک معاہدہ تیار کیا ، جس میں دو الگ الگ ریاستوں کا مجوزہ فارمولہ دیاگیا۔ جس کے تحت پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان ہوا، جو اسرائیل اور فلسطین میں ہونا تھی۔ اس کے مطابق اسرائیل سڑسٹھ کی حدود میں چلا جائے گا، فلسطین ایک ایسی آزاد ریاست ہوگی ، جس میں مغربی کنارے اور غزہ کا اسرائیلی علاقے سے زیر زمیں تیس کلو میٹر سرنگ سے باہم رابطہ ہوگا، تاکہ اسرائیل کو سطح زمیں پر فلسطینیوں کے گزرنے کے لیے چوکیاں نہ بنانی پڑیں۔ فلسطین نہ اسلحہ رکھ سکے گا، نہ فوج رکھ سکے گا اور نہ کسی ملک یا اس کی خفیہ ایجنسی سے دفاعی معاہدہ کر سکے گا۔ جب بھی کوئی چیز اسرائیل اپنی سلامتی کیخلاف پائے گا، اس پر حملہ کر دے گا۔پولیس یا کوئی بھی مسلح فورس اسرائیل کی مرضی سے بن سکے گی۔ بیت المقدس یعنی یروشلم تینوں مذاہب کے ماننےوالوں کے لیے کھلا شہر ہوگا۔ فلسطین اپنا دارالحکومت ارض مقدس کے مشرقی جانب بنائے گا ، جس کا نام القدس رکھے یا کوئی اوراسے آزادی ہوگی ، امریکا بھی اپنا سفارت خانہ اسی جگہ کھولے گا۔ فلسطین کو اسرائیل سے لڑنے اورشہید ہونے والے تمام افراد سے اظہار لا تعلقی کرنا اور انہیں دہشت گرد ماننا ہوگا۔ اسرائیل سے دو ریاستی مذاکرات میں کوئی ایسا شخص شامل نہ ہوگا جو اسرائیل کے خلاف عسکریت پسندی میں مصروف رہا ہو۔ فلسطین کو دہشتگردی کے خلاف ہونے کا اور دہشت گردوں کو روکنے کا معاہد ہ لکھ کر دینا ہوگا۔یہ معاہدہ ہو جاتاہے تو امریکہ عالمی برادری سے مل کر فلسطین کی تعمیر و ترقی کرےگا۔
اس سارے تناظرمیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا امت مسلمہ ان شرائط پر دو ریاستی حل قبول کرنے کو تیار ہو سکتی ہے کیونکہ یہ تو اسرائیل کی کامل غلامی ہے۔ بالفرض اس غلامی کو قبول کرنے کا اگر کوئی مشورہ دیتا بھی ہے تو اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ اسرائیل اپنی سرشت بدل لے گا، وہ بین لاقوامی اصولوں کی پابندی کرے گا؟ اس نے ایران پر حملہ کیااور شام کی سرحدیں روند ڈالی ہیں، اس پر امریکہ ، مسلم امہ یا عالمی برادری نے پہلے کب اس کا ہاتھ پکڑا یا راستہ روکا ہے ، جو اس کے بعد روک لے گا؟
(حافظ یوسف سراج )