رسولِ اکرم ﷺ  کی  چار بیٹیاں

( شیعہ  کی معتبر کتب  سے ثبوت )

چند سال بیشتر شیعہ ذاکر آصف رضا علوی مالہ و ما علیہ  نے اپنی تقریر میں رسول اللہ ﷺ  کی شادی اور آغاز وحی کی تاریخ کو بنیاد بنا کر  حضرت فاطمہ﷞ کے علاوہ باقی تین بیٹیوں زینبؓ ، رقیہ ؓاور ام کلثومؓ کا انکار کردیا اور کہا کہ وہ  سیدہ خدیجہ ﷞ کی پہلے خاوندوں کی اولاد تھیں ، چونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی گود میں پرورش پائی تھی اس لیے وہ رسول اللہﷺ کی طرف منسوب ہوگئیں۔جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو شیعہ تو شیعہ اہل سنت کے کچے ذہنوں نے حساب کتاب کرنا شروع کردیا۔ جب جمع و تفریق سے بات نہ بنی تو وہ بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے لگے ۔اس وقت حضرت الشیخ مبشر احمد ربانی نور اللہ مرقدہ  نے اس کے جواب میں ایک ویدیو کلپ ریکارڈ کروایا جس میں اہل تشیع کی قدیم اور معتبر کتب سے ثابت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں۔اسی طرح شیعہ کی فقہی کتب سے ثابت کیا کہ چھوٹی عمر میں شادی ہوسکتی ہے ، اس لیے اگر نبی کریم  ﷺ نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں چھوٹی عمروں میں کردی تھیں تو اس میں  کوئی تعجب کی بات  نہیں ہے ۔ شیخ ﷫  کے شاگرد عبداللہ مرتضی الحسینی نے اس وائس ریکارڈ  کو تحریری شکل دی اور حوالوں کی تحقیق و تخریج کا کام کیا ، اللہ تعالیٰ دونوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ مضمون کے آخر پر ادارہ محدث کے رکن عبدالرحمن عزیز نے مزید اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کی شادی اور نبوت کی تاریخوں کے ذریعے اس مسئلہ میں الجھاؤ پیدا کرنے والوں کی غلطی واضح کی اور اس کا حل پیش کیا۔ دونوں مضامین کو پڑھ کر اس مسئلہ میں کچھ ابہام باقی نہیں رہتا۔ [ادارہ محدث ]

ان الحمد لله نحمده ونصلی ونسلم علی رسوله الکریم، اما بعد!

پچھلے دنوں ایک ذاکر (آصف رضا علوی) نے اپنی تقریر میں رسول اللہ ﷺ  کی بیٹیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب اللہ کے نبی ﷺ  کی شادی  سیدہ خدیجہ   ﷞ سے ہوئی توآپ کی  عمر تیس (۳۰) سال تھی اور پھر س کے بعد تین سال تک اولاد نہیں ہوئی۔ تینتیس (۳۳) سال گزرنے کے بعد نبی ﷺ  کے ہاں پہلی  اولاد ہوئی ۔ اپنی ناکام ریاضی (Mathematics) سے حساب نکالتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی بڑی  تین  صاحب زادیوں سیّدہ زینبؓ ، رقیہ ؓاور ام کلثومؓ کو رسول اللہ ﷺ کی بیٹیاں ماننے سے انکار کردیا۔  اس کا کہنا تھا کہ جب رسول اللہ  ﷺ  کی تینتیس (۳۳) سال کی عمر  تک اولاد نہیں ہوئی، اس کے بعد بیٹیاں پیدا ہوئیں اور بعثت (یعنی  40 سال عمر )سے پہلے ان کے نکاح بھی ہوگئے۔ یہ محض  سات سال بنتے ہیں۔ یہ کیسے  ممکن  ہے  کہ سات سالوں  کے اندر اندر تین بیٹیاں پیدا بھی ہوجائیں ، ان کی شادی اور رخصتی بھی ہوجائے ؟ اس لیے درست بات یہی ہے کہ یہ سیدہ خدیجہ کے پہلے خاوندوں سے بیٹیاں ہیں ، جو کہ  رسول اللہ ﷺ کی گود میں پرورش پانے کی وجہ سے آپ سے منسوب کردی گئیں ۔

شادی کے وقت رسول اللہ ﷺ کی عمر

 پہلی بات تو یہ  بنیاد  ہی غلط ہے کہ شادی کے وقت رسول اللہ ﷺ  کی عمر تیس (۳۰) سال تھی۔ اہل سنت اوراہل حدیث کی کتب میں تو بڑی تفصیل سے  موجود ہے کہ  شادی کے وقت نبی کریم ﷺ   کی عمر پچیس (۲۵) سال تھی۔ لیکن  آج میں صرف  شیعہ کی کتب کے حوالے سے بات کروں گا۔

 یہ میرے ہاتھ میں شیعہ کی بڑی مشہور ترین کتاب ’’تاریخ یعقوبی‘‘ ہے اس کی دوسری جلد کا صفحہ ۱۴  پر عنوان ہے:   تزویج خدیجة بنت خویلد ’’خدیجہ بنت خویلدؓ کی شادی کا بیان‘‘   اور اس میں لکھتا ہے :

وتزوج رسول الله ﷺ خدیجة بنت خویلد وهو خمس وعشرون سنة وقیل تزوجها وله ثلاثون سنة.

’’رسولِ اکرمﷺ کی خدیجہ بنت خویلد کے ساتھ نکاح کے وقت عمر پچیس (۲۵) برس تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تیس (۳۰) برس تھی۔‘‘

عربی کا ادنی سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ قیل لفظ سے جو بات کی جاتی ہے وہ کمزور بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ پہلے اس نے توثیق والی بات کا تذکرہ کیا جو پچیس (۲۵) برس تھی۔

  اگر آپ کے  بقول یہ تسلیم کر لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ  کی شادی تیس برس کی عمر میں ہوئی،  تینتیس (۳۳) برس کی عمر میں پہلی بیٹی  پیدا ہوئی تو  اعلانِ نبوت سے قبل اس کی عمر  تقریباً سات سال بنتی ہے ، تو جس فقہ (جعفری)سے تمہارا تعلق ہے اسے ہی دیکھ لیجئے ، اس  میں چھ سال کی بچی کا نکاح شرعاً درست اور جائز ہے ۔

 فقہ جعفری  نکاح کی عمر

فقہ جعفری کی رو سے بچی کا پیدا ہوتے ہی نکاح کرنا درست اورجائز ہے اور یہ بات شیعہ کی معتبر کتاب ’’اصول کافی‘ ‘   کا دوسرا حصہ ’’الفروع من الکافی ‘ ‘  میں کتاب النکاح کے صفحہ نمبر (۳۹۸) اور (۴۰۰) میں موجود ہے کہ دو سال کی عمر میں بھی  بچی کی شادی کرنا جائز ہے ۔  مزید فقہ جعفری کی کتب  میں رخصتی کی عمر  آٹھ اور نو سال کے قریب ہے۔ خمینی کی کتاب ’’تحریر الوسیلہ  ‘   ‘   جلد دوم  کے صفحہ ۲۴۱ پر دودھ پیتی بچی کا  نکاح کرنا بھی  جائز ہے۔  صفحہ ۲۴۱ پر اس نے مسئلہ نمبر ۱۲ کے تحت لکھا ہے:

’’رخصتی کے بعد مرد اور عورت کے ملاپ کے لیے نو سال کی عمر مکمل ہونی چاہیے ،لیکن دودھ پیتی بچی کے ساتھ مرد (استمتاع) کر سکتا ہے اس کے ساتھ لمس اور چھونا کر سکتا ہے بلکہ اپنی شہوت اس بچی کی رانوں کے ساتھ بھی پوری کرسکتا ہے۔‘‘

بلکہ تمہارے امام خمینی نے دو تین سال کی  بچی کے ساتھ عملاً متعہ بھی کیا ۔  جیساکہ  ’’ للہ ثم لتاریخ ‘‘ شیعہ کی بڑی معروف کتاب ہے اس کتاب کے صفحہ نمبر ۳۶ پر خمینی کا تین سالہ بچی کے ساتھ متعہ کرنے کا بھی تذکرہ ہے۔  اگر آپ کے  مذہب میں تین سالہ بچی کے ساتھ متعہ ہوسکتا ہے تو آٹھ اور نو سالہ بچی کا نکاح کیوں نہیں ہوسکتا؟ اعتراض وہ کرے جس کی فقہ میں یہ مسئلہ حرام کی نوعیت پر ہو یا ناجائز ہو، تمہارے ہاں نو سالہ کی رخصتی ہوسکتی ہے۔ جبکہ نبی کریم ﷺ کی بیٹیوں کا تو ابولہب کے بیٹوں کے ساتھ صرف نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جب  سورۃ ﴿ تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ﴾  نازل ہوئی تو انہوں نے طلاق دے دی ۔  اس کے بعد نو اور دس سال کی عمر میں نبی کریم ﷺ  کی بیٹیوں کا نکاح ہوا۔

 چوتھی صدی ہجری کا بڑا مشہور  شیعہ عالم ابوعلی محمد بن ہمام کاتب الاسقافی نے  اپنی کتاب  منتخب الانوارية کے صفحہ نمبر ۴۸ پر رسول اللہ ﷺ  کی اولاد کا تذکرہ کیا ، پھر سیّدہ فاطمہ ﷞  کا تذکرہ کرتے ہوئے صفحہ نمبر ۵۱ پر ہے  لکھا ہے کہ جس وقت سیّدہ فاطمہ  ﷞ کے ہاں سیّدنا حسن ﷜  پیدا ہوئے تب ان کی عمر گیارہ برس تھی ۔ اگر سیّدہ فاطمہ  ﷞کی گیارہ برس کی عمر میں اولاد  کاہونا آپ کے ہاں مسلمہ ہے تو رسول اللہ ﷺ  کا اپنی دوسری بیٹیوں کی شادیاں  نو اور دس سال کی عمر میں کرنا  کون سا عقلاً بعید ہے۔ دراصل  یہ لوگ اپنی کتب سے بھی بالکل ناواقف ہوتے ہیں۔

بنات رسول کاانکار کرنے والا پہلا بدبخت

سب سے پہلے جس شخص نے نبی کریم ﷺ  کی چار بیٹیوں کا انکار کیا وہ شیعہ مذہب کا فاسد المذہب ابوالقاسم علی بن احمد بن مدینی ہے۔ یہ  چوتھی صدی ہجری کا بدبخت شیعہ ہے۔  اس نے  الاستغاثة فی بدع الثلاثة  کے نام سے ایک کتاب لکھی ، اس میں  سب سے پہلے اس نے  دعویٰ کیا کہ زینب، رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہن نبی پاک ﷺ  کی بیٹیاں نہیں ہیں (نعوذ باللہ)۔  اس کا عقیدہ تھا کہ وہ نبی کریم ﷺ  کی ربیبہ بیٹیاں تھیں خدیجہ ﷞ کے پہلے شوہر سے، اسی لیے ان  کو بنات نبی ﷺ  کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ،لیکن یہ شخض شیعہ کے اکابر علماء کے ہاں بھی فاسد المذہب اور بے دین آدمی تھا۔ اس فاسد المذہب شخص سے پہلے کسی نے بھی  نبی اکرم ﷺ  کی بڑی بیٹیوں کا انکار نہیں  کیا۔

عباس قمی نے اپنی کتاب منتی کے صفحہ ۲۹ پر اس کے بارے میں لکھا ہے:

’’ ابوالقاسم کوفی کا آخر عمر میں مذہب خراب ہوچکا تھا اور اس نے کئی ایک فساد پر مبنی کتابیں لکھیں جن میں سے اس کی ایک کتاب کا نام الاستغاثہ ہے ،اس میں اس نے سب سے پہلے رسولِ اکرم  ﷺ کی بیٹیوں کا انکار کیا ہے۔‘‘

عبداللہ مامقانی شیعہ  کے رجال کا بڑا معروف عالم ہے اس نے بھی اپنی ایک کتاب میں ذکر کیا ہے کہ یہ دعویٰ کیا کرتا تھا کہ اس کا تعلق آل ابی  طالب سے ہے آخر عمر میں یہ غالی ہوچکا تھا اور اس کا مذہب بگڑ چکا تھا۔

شیعہ کتب میں رسول اللہ ﷺ کی چار بیٹیوں کا تذکرہ

 اس سے پہلے اہل سنۃ ،اہل الحدیث اور شیعہ حضرات کی بھی بڑی معتبر کتب میں رسولِ اکرم ﷺ  کی چار بیٹیوں کا ہی تذکرہ موجود ہے۔ملاحظہ فرمائیں:

فقہ جعفری کی کتب میں  چوتھی صدی ہجری تک یہ بات اتفاقی تھی کہ نبی اکرم  ﷺ  کی سیّدہ خدیجہ﷞  سے تین بیٹیاں اعلانِ نبوت سے پہلے اور ایک بیٹی  حضرت فاطمہ﷞  بعد میں پیدا ہوئیں۔

 فقہ جعفری کی رجال کی کتب میں سے عبداللہ ما مقانی کی کتاب ’’تنقیح المقال فی احوال الرجال‘‘ طبع نجف کے صفحہ ۶۶ پر لکھا ہے:

ان کتب الفریقین مشهورة لانها ولدت للنبی صلى الله عليه و سلم أربع بنات زینب و أم کلثوم وفاطمة ورقیة وبناته ادرکن الاسلام وهاجرن معه واتبعنه.

’’بے شک اہل سنت کی کتب اور اہل تشیع کی کتب اس بات پر شاہد ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے ہاں چار بیٹیاں پیدا ہوئیں: زینب، ام کلثوم، فاطمہ اور رقیہ ، سب نے اسلام پایا ، نبی کریمﷺ  کے ساتھ ہجرت کی اور آپ  کی اتباع کی۔‘‘

شیعہ  کی معروف تین کتب میں سے ایک کتاب ’’قرب الاسناد‘‘ شیخ خلیل ابوالعباس عبداللہ بن جعفر کی مرتب کردہ ہے، اس کے صفحہ نمبر ۹ پر  باسند صحیح اس نے اپنے امام محمد باقی  سے یہ بات نقل کی ہے کہ

ولد رسول الله صلى الله عليه و سلم من خدیجة سلام الله علیها القاسم والطاهر وأم کلثوم ورقیة وفاطمة وزینب.

’’ جعفر بن محمد اپنے باپ (محمد باقر  جو شیعہ حضرات کے امام معصوم ہیں اور حضرت سیّدنا حسین ﷜ کے پوتے ہیں علی زین العابدین کے بیٹے ہیں) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا:

رسول اللہ ﷺ  کی سیّدہ خدیجہ ﷞ سے قاسم ، طاہر ، ام کلثوم ، رقیہ ، فاطمہ اور زینب پیدا ہوئیں۔‘‘

اہل تشیع  کی ایک اور معتبر کتاب ’’منتخب الانوار‘‘ ہے ، اس کے صفحہ نمبر ۳۸  پر بھی شیعہ حضرات کے اصول کے مطابق باسند صحیح  رسول اللہ ﷺ  کی چار بیٹیوں اور ان کے خاوندوں کا بھی تذکرہ  کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں :

ولد رسول الله صلى الله عليه و سلم من خدیجة  من الذکور:عبد الله وهو أول مولد ولد له،مات رضیعا.والطیب والطاهر وماتا صغیرین . وقاسم وبه یکنی وعاش حتی مشی . وولد خدیجة من البنات: زینب وهی أکبر من ولده ثم رقیة ثم أم کلثوم ثم فاطمة رضی الله عنهن وهي أصغرهن.

’’رسول اللہ ً  کا سیّدہ خدیجہ سے پہلا بچہ عبداللہ پیدا ہوا جو  مدت رضاعت ہی میں وفات پاگیا ، پھر طیب اور طاہر پیدا ہوئے ، یہ  دونوں بھی  چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئے، پھر قاسم جن کی وجہ سے آپ ﷺ  کی کنیت ابوالقاسم ہوئی یہ اتنے بڑے ہوئے کہ چلنے لگے ۔ اور (سیّدہ) خدیجہ سے بیٹیوں میں سب سے بڑی زینب پھر رقیہ ، پھر ام کلثوم اور پھر فاطمہ پیدا ہوئیں رضی اللہ عنہن جو سب سے چھوتی تھیں۔‘‘

شیعہ حضرات کے ہاں وہ روایت قابل قبول سمجھی جاتی ہے جو بارہ ائمہ کو ماننے والا ثقہ راوی امام معصوم تک پہنچا دے۔ یہ بات امام باقر ؒ اور جعفر صادق ؒ دونوں سے منقول ہے۔ ان کے دونوں امام جو ان کے نزدیک معصوم عن الخطا  ہیں  نے رسول اللہ ﷺ کی چار بیٹیوں کا تذکرہ کیا ہے ۔

جس طرح ہمارے ہاں  کتب حدیث میں سب سے زیادہ مقام صحیح بخاری شریف کا ہے اسی طرح شیعہ حضرات کے ہاں محمد بن یعقوب الکلینی کی ’’اصولِ کافی ‘‘ سب سے معتبر سمجھی جاتی  ہے اس کی جلد اوّل صفحہ 510  پر  باب التواریخ  میں اس نے  رسول اللہ ﷺ  کی بیٹیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بات لکھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  کی سیّدہ خدیجہ ﷞ سے شادی ہوئی تو آپ  بیس سے کچھ سال اوپر کے تھے۔ مزید لکھتا ہے :

فولد له منها قبل مبعثه(ص) القاسم ورقیة وزینب وام کلثوم ، وولد لہ بعد المبعث الطیب  والطاهر وفاطمة.

’’ رسول اللہ ﷺ  کے ہاں بعثت سے پہلے بی بی خدیجہ﷞  سے قاسم رقیہ اور ام کلثوم  پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد طیب، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئے۔‘‘

شیخ صدوق نے اپنی کتابّ’’ الخصال ‘‘ کی  جلد دوم صفحہ ۱۸۶ میں،’’ تذکرۃ المعصومین کی جلد 6  صفحہ ۳ ا پر رسول اللہ ﷺ کی چاروں بیٹیوں کا ذکر ہے ۔ مزید ان کی کتاب ’’تحفۃ العوام ‘‘ جو انہوں نے عوام کے لیے کتاب لکھی تھی  اس کے صفحہ نمبر 116 پر  رسول پاک ﷺ کی بیٹیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

اللهم صل علی رقیة بنت نبی ولعن ما اذا نبیک فیها ، اللهم صل علی أم کلثوم بنت نبیک ولعن ما اذا نبیک فیها.

’’اے اللہ تو رقیہ بنت نبیﷺ پر رحمت کر اور جو اس کے ساتھ تیرے نبی کو اذیت دے اس پر لعنت فرما ۔ اے اللہ !  ام کلثوم بنت نبی ﷺ پر رحمت  کر اور جو اس کے ساتھ تیرے نبی کو اذیت دے اس پر لعنت فرما۔‘‘

تو کیا نبی کریم ﷺ  کی بیٹیوں کا انکار کرنا نبی کریمﷺ  کو اذیت دینا نہیں ہے ؟

اسی طرح شیخ صدوق کی کتاب ’’امالی‘‘  کی جلد نمبر ۶۸ کے  صفحہ نمبر  ۶۲  پر  رسولِ اکرم ﷺ کی بیٹی زینب اور  سیّدہ فاطمہ  کا  تذکرہ ہے۔ منتہی المقال  کے صفحہ ۴۳۴ پر رسول اللہ ﷺ  کی بیٹیوں کا ذکر ہے ۔  باقر مجلسی کی کتاب ’’حیاۃ القلوب‘‘ کی  جلد 2 صفحہ ۷۱۸ پر ، عباس قمی کی کتاب ’’منتہی الاعمال ‘‘  کی جلد ۱، صفحہ ۴۰۸  پر ، اسی طرح نہج البلاغہ جو شیعہ  کی سب سے معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے جو حضرت علی ﷜ کے اقوال پر مشتمل سمجھی جاتی ہے، اس میں ہے  حضرت علی ﷜نے حضرت عثمان﷜ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا : اے عثمان !  تجھ سے پہلے جو دو خلیفہ (ابوبکر وعمر) گزرے ہیں ان کو رسول اللہ ﷺکی قرابت سے وہ حصہ نہیں ملا جو آپ کو  ملا  ہے ، آپ  کو رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شرف حاصل ہے (کیونکہ رقیہ اور ام کلثوم یکے بعد دیگرے آپ ﷺ  نے سیّدنا عثمان  ﷜  کے نکاح میں دی تھیں)

شیخ مفید کی کتاب ’’الارشاد‘‘  صفحہ ۲۳ پر ،علی بن عیسیٰ الاربلی کی ’’کشف الغمہ‘‘ کی جلد 2 صفحہ ۶۰ پر ،  نعمت اللہ الجزائری کی کتاب ’’الانوار الغمانیہ‘‘ جلد ۱، صفحہ ۲۳ اور ۳۶۱ پر ، محمد ہاشم بن محمد علی خراسانی کی ’’منتخب التواریخ ‘‘ کی جلد ۱، صفحہ ۲۳ پر ، اقول باقر مجلسی( اصول کافی کی شرح ہے ) میں مزید ’’ العافی ‘‘ میں رسول اللہ ﷺ  کی چاروں بیٹیوں کا تذکرہ ہے۔

میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ ذاکر جو رسول اللہ ﷺ  کی بیٹیوں کا انکار کرتے ہوئے بدزبانی کرتے ہیں۔ آپ  اہل حدیث کی کتب نہیں مانتے تو کم از کم آپ کے ائمہ جنہیں آپ  معصوم من الخطاء سمجھتے ہیں ،  انہوں نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حضرت خدیجہ﷞ سے رسول اللہ ﷺ  کی چار بیٹیاں تھیں ۔  ہماری بات نہیں مانتے تو کم از کم اپنے گھر کی ہی تسلیم کرلو۔ یہ بات اہل سنت  اور شیعہ کی اتفاقی ہے کہ ابوالقاسم کوفی سے پہلے شیعہ کی کتب میں بھی رسولِ پاک ﷺ کی چار بیٹیوں کا تذکرہ ہے۔

قرآن میں بھی اللہ کریم نے فرمایا:

﴿ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠ ﴾

 [الأحزاب: 59]

’’اے نبی! اپنی بییوں سے اور بیٹیوں سے اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیں جب گھر سے باہر نکلا کریں تو اپنی اوڑھنیاں اوڑھ کر اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔‘‘

اس آیت کریمہ میں’’بنات‘‘ کا لفظ’’بنت‘‘ کی جمع ہے جس کا معنی بیٹیاں ہے اور جمع عربی زبان میں کم از کم تین سے شروع ہوتی ہے ۔قرآن کی نص قطعی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ علی الاقل رسول اللہ ﷺ کی تین بیٹیاں تھیں اور احادیث صحیحہ اور تاریخ صحیح نے اس بات کا تعین کر دیا ہے کہ رسولِ پاک ﷺ کی چار بیٹیاں (زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ ) تھیں۔

نبی ﷺ کی کسی ایک بیٹی کا انکار کرنا نبی کریم ﷺ کو اذیت دینا ہے اور ایسا شخص دنیا میں بھی ملعون ہے اور آخرت میں بھی لعنت کا حق دار ہوگا۔  

میں حکومت پاکستان  سے بھی یہ بات کہنا چاہتا ہوں آپ لوگ ہمیں تو محبت اور امن و  آشتی کا درس دیتے ہو،ماہ  محرم  میں امن قائم کرنے کے لیے اس سے قبل امن کمیٹیاں تشکیل دیتے ہو، تو  ان بدزبانوں کو   لگام دینا بھی آپ کا فرض ہے ۔ اگر آپ لوگ واقعی محب رسول ﷺ اور  صحابہ واہل بیت ﷢ کا احترام کرنےوالے  ہیں تو ایسے شخص کو لگام ڈالیں  جو رسول اللہ ﷺ  کی اولاد کا انکار کرتا ہے، آپ کی ازواج کو دشنام دیتا ہے اور  اصحاب رسول  کے متعلق غلط زبان استعمال کرتا ہے۔ زمام اقتدار آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر آپ کے دور اقتدار میں  رسول اللہ ﷺ کے اصحاب و اہل بیت کی عزت وعصمت محفوظ نہیں ہے تو کل قیامت کے دن آپ شافع محشر امام الانبیاء کے سامنے کیا جواب دو گے؟ کس منہ سے سفارش کے لیے جاؤ گے؟

اہل حدیثو ! اللہ نے آپ کو سچااور  اونچا دین دیا ہے ،جو خالص ہے، جس کی بنیاد قرآن وسنت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی، اپنے نبی ﷺ  ،صحابہ کرام اور اہل بیت عظام  کی محبت اور ان کا سچا ساتھ نصیب کرے اور رسولِ پاکﷺ کی سفارش عطا کرے جو گناہ گار اہل توحید کے لیے ہے اہل شرک وبدعت کے لیے نہیں۔ آمین  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بناتِ رسولﷺ کے منکرین کی بنیادی غلطی

عبدالرحمن عزیز

شیخ محترم ﷬ کے مضمون سے یہ تو واضح ہوگیا ہےکہ  اہل سنت اور قدیم اہل تشیع  کے ہاں بالاتفاق رسول اللہ ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں اور یہی درست اور صحیح ہے ۔ لیکن جو رسول اللہ ﷺ کی شادی ، بیٹیوں کی پیدائش ، ان کی شادیوں اور ا ابو لہب کے بیٹوں کی طرف سے انہیں  طلاق دینے  کے معاملے کو تاریخ  سے یا سالوں کا حساب لگا کر سمجھنا چاہتے ہیں  لیکن حساب کسی طریقےسے فٹ نہیں بیٹھتاتو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ وہ چند ایک بنیادی غلطیاں کرتے ہیں  جس کی وجہ سے ان کے حساب میں خرابی درآئی ، جس کی وجہ سے  نتیجہ غلط  نکلا ، تو  کچھ نے انہیں  بنات رسول ماننے سے انکار کردیا اور جو لوگ معتبر کتابوں کی صحیح ترین روایات کی  وجہ سے  زبان سے انکار نہ کرسکے لیکن  ان کے اذہان بھی مشکوک ہوگئے ۔

رسول اللہ ﷺ کی شادی معروف روایت کے مطابق پچیس سال کی عمر میں ہوئی ۔بعض روایات کے مطابق سیدہ زینب کی پیدائش کے وقت رسول اللہ ﷺ  کی عمر تیس برس تھی۔ [ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب، رقم : 1412، (۴/۱۸۳۹، ۱۸۵۳) ابن ‌اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ رقم : 1409 (6/130)

دوسری بیٹی رقیہ کی پیدائش کے وقت رسول اللہ ﷺْ کی عمر پنتیس برس تھی ، اور ام کلثوم کی پیدائش پر آپ ﷺ سنتیس برس کے تھے ۔ان کے حوالے سے لوگوں کے اشکالات درج ذیل ہیں :

سیدہ زینب کی شادی نبوت سے پہلے ہوگئی تھی ، جبکہ اس وقت ان کی عمر دس سال  بنتی ہے جو کہ ناممکن ہے ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ سیدہ زینب کی شادی نبوت سے پہلے ہوئی تھی ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ  نبوت کے بعد آپ ﷺ اپنی بیٹی ایک کافر شخص کو کیونکر دے سکتے ہیں ، تو یہ ناممکن نہیں ہے   کیونکہ کافروں کے ساتھ نکاح کی حرمت  سورۃ البقرۃ اور سورۃ الممتحنہ  میں ہوئی جو بالاتفاق مدنی سورتیں ہیں ۔

دوسری بات اگر  یہ مان بھی لیا جائےکہ سیدہ زینب کی شادی ابو العاص سے بعثت سے پہلے ہوئی تھی تو بھی اس میں کوئی اشکار  نہیں ، کیونکہ شیعہ کتب  میں  واضح  طور پر لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ کے ہاں جب حسن پیدا ہوئے تو ان کی عمر گیارہ سال تھی ، یعنی  دس سال کی عمر میں شادی ہوئی اور گیارہ سال کی عمر میں بیٹا پیدا ہوگیا۔ اہل سنت کے ہاں  بھی رسول اللہ ﷺ نے جب سیدہ عائشہ سے نکاح کیا تو ان کی عمر سات سال اور رخصتی کے وقت نو برس تھی ۔

سیدہ رقیہ ؓ اور ام کلثومؓ  کے حوالے سے انہیں اشکال یہ ہے کہ ان  کے نکاح  ابو لہب کے بیٹوں سے قبل از بعث  ہو چکے تھے اور بعث  کے بعد انہوں نے طلاق دے دی۔ یہ کیسے  ممکن  ہے کہ پانچ اور تین سال کی عمر کی بچیوں کے نکاح کردیئے جائیں ۔

پہلی بات یہ ہے کہ  اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ان کے نکاح نبوت سے پہلے ہوئے تھے ۔لہٰذا   ایک مفروضے کو اختلافی مسئلے کی بنیاد بنانا کسی صورت درست نہیں ۔اگر کوئی یہ سمجھتاہےچونکہ نبوت کے بعد طلاق ہوگئی تھی تو واضح ہے کہ نکاح نبوت سے پہلے ہوگا۔یہ بات دو وجوہات سے غلط ہے :

اس  بات نے دراصل  اس غلط سوچ سے جنم لیا کہ ادھر غار حرا میں پہلی وحی آئی ، ادھر مکہ پہنچ کر آپ نے اعلان نبوت کیا اور شام کو ابو لہب نے بیٹوں کو کہہ کر طلاق دلوا دی ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محمد ﷺ کو نبوت چالیس برس کی عمر میں  ملی ، تین سال تک آپﷺ  نے دعوت  کا کام  خفیہ طریقے سے کیا  ، نبوت کے چوتھے سال آ پ ﷺ نے  اعلانیہ دعوت دی ، تب ابو لہب نے آپ کی گستاخی ہے جس کے جواب میں سورۃ لہب نازل ہوئی ۔اس کے بعد ابو لہب نے باقاعدہ دشمنی کا رویہ اختیار کیا ۔تب کہیں جا کر طلاق ہوئی ۔ یعنی طلاق کے بعد ان کی عمر دس اور  آٹھ سال تھیں ۔یہ صرف نکاح ہوئے تھے ، رخصتی نہیں ہوئی تھی ۔

تیسری بات یہ کہ عربوں میں چھوٹی عمروں میں نکاح کردیئے جاتے تھے ، لیکن رخصتی جوان ہونے پر کی جاتی تھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے  سیدہ عائشہ سے نکاح  پہلے کیا اور رخصتی بعد میں ہوئی ۔

لہٰذا تاریخ اور عمر میں جمع تفریق کرنے والے خاموش دعوت کے تین سال بھول جاتےہیں ،جس کے سبب ان کا حساب کتاب مشکوک ہوجاتا ہے۔