اگست 2025ء

ناموس صحابہ کرام و اہل بیت عظام

(علمائے  اہل حدیث کا  متفقہ اعلامیہ)

ناموس صحابہ کرام و اہل بیت عظام

(علمائے  اہل حدیث کا  متفقہ اعلامیہ)

 

صحابہ کرام﷢ وحی الٰہی کے مخاطب ، رسول اللہ ﷺ کے انصار و معاون اور اسلام کے اولین راوی ہیں۔ قرآن و حدیث میں ان کی شان ، مقام ، تعظیم اور امت پر ان کے حقوق کا واضح طو ر پر تذکرہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے  انہیں﴿ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ﴾  اور﴿ وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ١ؕ ﴾      کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا ہے جو قیامت تک کےلیے ہے ۔ بعض لوگوں نے  دور ِنبوی ﷺکے بعد کے سیاسی اختلافات  کو بنیاد بنا کر بعض صحابہ کرام ﷢کو ہدف تنقید بنایا  ہے ۔  چونکہ وہ لوگ خود کو مسلک  اہل حدیث سے منسوب کرتے ہیں ، اس لیے   علمائے اہل حدیث نے  مسئلہ کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک اجتماعی فتویٰ جاری کیا جس میں  ناموس صحابہ و اہل بیت کے حوالے سے مسلک اہل حدیث کو واضح کیا اور صحابہ کرام ﷢کی مقدس ہستیوں کو ہدفِ تنقید بنانے والوں سے   اعلان براءت کا اظہار کیا ۔  ادارہ

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلاَمُ عَلىٰ أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ وَعَلیٰ آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ أَمَّا بَعْدُ !

آج مؤرخہ 13 جولائی ، بروز اتوار مقام و ناموس صحابہ واہل بیت کے تحفظ کے حوالے سے علمائے
اہل حدیث کا بھر پورا جلاس منعقد ہوا اور اہل علم کی کئی گھنٹوں کی گفتگو کے بعد یہ متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا:

أہل سنت والجماعۃ  کا اجماعی عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام  ﷢ عادل اور امین ہیں

 اللہ تعالیٰ کی جانب سے ﴿ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ﴾کے سند یافتہ اور ﴿ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى ﴾ کی نوید کے مستحق ہیں۔ مزید برآں سب صحابہ جنتی ہیں اور جملہ اصحاب رسول واہل بیت عظام سے محبت جزو ایمان ہے۔ اس عقیدے پر قرآنی آیات بینات اور احادیث مبارکہ بالکل واضح راہنمائی کرتی ہیں۔

اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۰۰۱۰۰﴾

 ] التوبة:  100 [

’’ اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘

انبیائے عظام ﷩کے بعد صحابہ کرام ﷢  کا ئنات کی برگزیدہ  ترین ہستیاں اور خیر القرون ہیں۔ اس پر سینکڑوں آیاتِ بینات اور احادیث شاہد عدل ہیں۔

صحابہ کرام ﷢   کے بعد آنے والے سچے مسلمانوں کی یہ پہچان ہے کہ وہ ان عظیم ہستیوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ان کے بارے میں ہر قسم کی کدورت سے پاک رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

 ﴿وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌؒ۰۰۱۰﴾   ] الحشر: 10[

’’اور جوان کے بعد آئے ، وہ کہتے ہیں :اے ہمارے رب ! ہمیں اور ہمار کے ان بھائیوں کو بخش دے جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے ، اے ہمارے رب! یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا ، نہایت رحم والا ہے ۔‘‘

 اس کے برعکس صحابہ کرام ﷢ پر لب کشائی کرنا منافقت کی علامت ہے اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے انحراف ہے۔

رسول اللہ ﷺ  کا ارشاد گرامی ہے:

لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أَحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نصيفه [1].

’’میرے اصحاب میں سے کسی ایک کو بھی برا  مت کہو ۔ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد کے برابر بلکہ ان کے آدھے مد کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔‘‘

تمام اہل سنت کا یہی متفقہ عقیدہ ہے ۔ جیسا کہ اہل سنت کا عقید و نقل کرتے ہوئے امام طحاوی  فرماتے ہیں :

وَنُحِبُّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا نُفَرِّطُ فِي حُبِّ أَحَدٍ مِنْهُمْ، وَلَا نَتَبَرَّأُ مِنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ. وَنُبْغِضُ مَنْ يُبْغِضُهُمْ، وَبِغَيْرِ الْخَيْرِ يَذْكُرُهُمْ. وَلَا نَذْكُرُهُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ. وَحُبُّهُمْ دِينٌ وَإِيمَانٌ وَإِحْسَانٌ، وَبُغْضُهُمْ كُفْرٌ وَنِفَاقٌ وَطُغْيَانٌ[2].

’’ہم اصحاب رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں ، ان میں سے کسی کی محبت میں حد سے نہیں بڑھتے اور نہ ہی ان میں سے کسی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں، جو شخص بھی ان سے بغض رکھتا ہے یا غلط طریقے سے ان کا تذکرہ کرتا ہے، تو ہم ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں۔ ذکر خیر کے علاوہ اور کسی طریقے سے ہم ان کا تذکرہ نہیں کرتے ۔ ہاں ان سے محبت کرنا دین، ایمان اور احسان ہے، جبکہ ان سے بغض رکھنا کفر ، نفاق اور طغیان ہے۔ ‘‘

امام احمد ﷫جن کی کتاب ’’ السنة ‘‘ سے لے کر نواب صدیق حسن خان﷫ اور ان کے بعد اب تک متقدمین و متاخرین کی تمام کتب عقیدہ میں اہل سنت کا یہی اجماعی عقیدہ و درج ہے۔

سیدنا معاویہ ﷜، سید نا ابو سفیان ﷜ اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ ﷜ سمیت تمام صحابہ کرام ﷢ شرف صحابیت کی بنا پر واجب الاحترام ہیں۔

 بلاشبہ صحابہ با ہمی درجات و فضائل متفاوت اور مسلمہ ہیں ، تاہم مقام صحابیت کے حوالے سے تنقیص و تنقید کے معاملے میں یہ سب یکساں طور پر قابل تعظیم ہیں ۔ ان میں سے کسی کی بھی ذرا  سی تنقیص سراسر گمراہی ہے۔ ان میں سے کسی کی شان میں تاریخی تجزیے، تحقیق ، یا کسی بھی دوسرے بہانے سے کی جانے والی تنقید و تنقیص ، خواہ زبانی ہو یا تحریری، واضح ہو یا اشارتاً، تمام صحابہ کرام﷢  کی تنقیص کے مترادف ہے۔

جو بھی شخص کسی صحابی کی شان میں تحریر اً  یا تقریر اً، اشارتاً یا   صراحتاً  تنقیص کرتا ہے، و واہل بدعت میں سے ہے، روافض کا ہمنوا اور اہل سنت کے صحیح عقائد سے منحرف ہونے کے ساتھ ساتھ غیر سبیل المؤمنین کا پیروکار ہے۔ ایسے شخص کو اہل حدیث سمجھنا، کہنا یا لکھنا، نیز اسے امام و خطیب مقرر کرنا یا کوئی تنظیمی عہدہ دینا قطعی طور پر  نا جائز ہے۔ حبِ صحابہ کا تقاضا ہے کہ ایسے شخص کو حکمت کے ساتھ سمجھایا جائے ، اس پر اتمام حجت کی جائے اور اعلانیہ تو بہ کا مطالبہ کیا جائے ۔ لیکن اگر وہ اس کے باوجود اپنی روش سے باز نہ آئے ، تو ایسے شخص سے براءت کا اظہا ر لازم ہے۔ ایسا شخص قانونا بھی مجرم ہے اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے ۔ جیسا کہ مملکت خداداد پاکستان کے مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 298 الف میں مرقوم ہے:  جو کوئی الفاظ کے ذریعے، خواہ زبانی ہوں یا تحریری ، یا مرئی نقوش کے ذریعے، یا کسی تہمت ، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے ، بلا واسطہ رسول پاک حضرت محمد (ﷺ) کی کسی بھی زوجہ مطہرہ (ام المومنین ) ، یا رسول پاکﷺکے خاندان کے کسی فرد ( اہل بیت ) حضور اکرمﷺ کے خلفائے راشدین یا ساتھیوں (صحابہ اکرام﷢)  میں سے کسی کے متبرک نام کی توہین کرے گا تو اسے کسی ایک قسم کی سزا کی قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے، یا جرمانے کی سزا، یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔

ضرورت ہے کہ صحابہ کرام پیر کی بابت اہل سنت کے عقید دو سچ کی ترویج و اشاعت کی جائے۔ جس کے لیے عصر حاضر میں میسر تمام ذرائع ابلاغ اور پلیٹ فارم پر کام کیا جائے۔

صحابہ کرام ہیجان کی بابت پیدا کردہ شبہات کے علمی وتحقیقی جواب پر مبنی لٹریچر تیار کیا جائے اور   اسے زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کی جائے۔

ہمارے دینی مدارس کے تعلیمی نصاب میں مقرر تاریخ سے متعلقہ کتاب  چونکہ مشاجرات صحابہ کے بارے میں اہل سنت کے موقف کی درست ترجمانی نہیں کرتی ، اس لیے ایک مفید اور جامع کتاب تیار کر کے نصاب میں شامل کی جائے۔

خطباء وواعظین کے لیے تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں اور جو خطباء اہل سنت مخالف نظریات کا پر چار کریں ضروری ہے کہ جماعتی اور اداری سطح پر ان کا کڑا احتساب کیا جائے۔اہل حدیث مدارس، جماعتوں اور عہدیداروں میں منہج اہل حدیث کی فکری و علمی اساس کو مضبوط کیا جائے -اور اس کی مناسب نگہداشت کی جائے کہ ان منابع سے کوئی ایسی بات نشر نہ ہو جو مسلک اہل حدیث کے منافی ہو۔

 اگر کسی عہدے و منصب پر کوئی ایسا شخص براجمان ہو جو سمجھانے کے باوجود باز نہ آئے تو اسے معزول کیا جائے ۔ اسی طرح جو خطیب یا مؤلف نصیحت کے باوجود باز نہ آئے تو کبار علماء ایسے افراد سے متعلق براءت کا اظہار کرتے ہیں۔

 جن جماعتوں اور اداروں سے متعلق افراد کی طرف سے مسلسل ہر سال حرمت صحابہ کے خلاف باتیں سامنے آتی ہیں ان کے ذمے داران پر بھی شرعی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ و ہ متعلقہ افراد کا سخت محاسبہ کریں۔

اہل بدعت کی مجالس کو سنوار نا اہل سنت کا منبع نہیں ہے۔

 انہی کی ہم نشینی سے رافضی جراثیم پیدا ہوتے ہیں ۔ ہمارے یہاں عموماً صحابہ  کرام﷢ بالخصوص سیدنا معاویہ﷜  پر زبان درازی کا دروازه یزید پر بحث اور واقعہ کر بلا کی رافضی تعبیر سے کھلتا ہے۔ اس خرابی کے
 سدِ باب کے طور پر اہل بدعت کی مجالس میں شرکت اور اس موضوع پر عوامی مجالس میں گفتگو سے اجتناب
 کیا جائے۔

دستخط مفتیان کرام

 

 

ساتھ والی پی ٖڈی ایف فائل سے لے لیں

 

[1]      صحیح بخاری :   3673    ، صحیح مسلم: 2541

[2]      العقيدة الطحاوية :50