اٹھارہ سال سے پہلے  نکاح؛ ریاستی اور اسلامی قانون   کی نظر میں

انیسویں صدی کے نصف اول میں پوری دنیا میں شاید ہی کوئی   ملک ایسا تھا کہ جس نے لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے ریاستی قانون میں  شادی کی کم از کم عمر بغیر کسی استثناء کے  18  بر س مقرر کی ہو۔ یہ بدعت انیسویں صدی کے نصف ثانی میں اقوام متحدہ کی تحریک کے سبب  سے پیدا ہوئی ہے ۔

   1989ء میں اقوام متحدہ نے اپنے کنونشن برائے حقوق طفل (Convention on the Rights of the Child) میں ریاستوں پر زور دیا کہ وہ  18 سال سے کم عمری کی شادی کے خلاف قانون سازی کریں۔ یہ
 کم عمری کی شادی کے خلاف اقوام متحدہ کا پہلا جامع قدم تھا۔ غالباً  پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 18  سال سے کم عمری کی شادی کو چائلڈ میرج کا نام دیا گیا۔ امریکہ کے علاوہ تقریباً 193 ممالک نے اس  بِل  پر دستخط کر دیے۔

 امریکی سینیٹرز کا کہنا تھا کہ یہ  ان کی ریاستی خود مختاری  (Sovereignty) کے خلاف ہے کہ  انہیں اس قسم کے قوانین کا پابند بنایا جائے ، لہٰذا امریکہ نے نہ اس بِل  کی توثیق کی اور نہ ہی اس پر دستخط کیے۔

 1994ء تا 2000ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے 18 سال سے کم عمری کی شادی کو حقوق انسانی کی خلاف ورزی (Human Rights Violation) قرار دینا شروع کیا۔ 2013ء میں اس  کی جنرل اسمبلی نے
 18 برس سے  کم عمری کی شادی پر ایک متفقہ  قرارداد منظور  کی کہ جس میں تمام ریاستوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ شادی کی کم از کم عمر 18  برس مقرر کریں اور عدالت یا والدین کی اجازت سے کم عمری کی شادی کے قانونی  استثناء کا دروازہ بند کریں۔

بعد ازاں 2015ء میں اقوام متحدہ نے ایک پراجیکٹ لانچ کیا جس کا نام (SDG 2030) ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت 2030ء تک اس  نے سترہ اہداف حاصل کرنے ہیں۔ ان میں سے  پانچواں ہدف صنفی مساوات (gender equality) کے گرد گھومتا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کچھ اہداف  مقرر کیے گئے ہیں جن میں ایک اقوام عالم  کو جبری شادی اور بچوں کی شادی (forced & child marriage) کے خلاف قانون سازی پر آمادہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ اپنے اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے فعال  ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ  کی سرکاری ویب سائیٹ کا کہنا ہے  کہ پوری دنیا میں چائلڈ میرج ختم کرنے میں اگلے تین سو برس لگ جائیں گے۔ اقوام متحدہ کے اس  پراجیکٹ کے تحت   18 برس سے کم عمر کی شادی کو  بزور قانون   ختم کرنے سے متعلق مقاصد کو یوں بیان کیا گیا:

  1. 5. 1 End all forms of discrimination against all women and girls everywhere.
  2. 5. 3 Eliminate all harmful practices, such as child, early and forced marriage and female genital mutilation.

5 . C Adopt and strengthen sound policies and enforceable legislation for the promotion of gender equality and the empowerment of all women and girls at all levels.

’’ 5. 1 دنیا بھر میں تمام خواتین اور بچیوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔

  1. 3 تمام نقصان دہ رسومات کا خاتمہ کیا جائے، جیسے کہ بچپن کی شادی، زبردستی کی شادی اور خواتین کے جنسی اعضا کی قطع و برید۔
  2. C ایسی مضبوط پالیسیاں اور قابلِ نفاذ قانون سازی کو اپنایا اور مضبوط کیا جائے، جو صنفی برابری اور ہر سطح پر خواتین اور بچیوں کو بااختیار بنانے کو فروغ دے۔ ‘‘

امریکہ میں 2015ء میں اوباما حکومت نے اقوام متحدہ کے 2030ء کے جنسی مساوات کے اہداف کو
نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کے لیے فنڈنگ بھی کی۔ لیکن 2017ء میں ٹرمپ حکومت نے اقوام متحدہ کے ان اہداف کو امریکی خود مختاری کے خلاف قرار دیااور ان منصوبہ جات  کی فنڈنگ بھی روک دی۔2021ء میں جوبائیڈن حکومت نے اقوام متحدہ کے ان اہداف کی حمایت کا اعلان کیا اور اس کے لیے فنڈنگ بھی کی۔ لیکن 2025ء میں ٹرمپ کی دوبارہ  حکومت بنی تو اس  نے پھر سے  اقوام متحدہ کے ان اہداف سے لاتعلقی اختیار کی اور دعویٰ کیا کہ امریکی انتخابات نے انہیں مسترد کر دیا ہے۔امریکی حکومت کی طرف سے  SDG 5.3 کی عملی حمایت بھی مؤخر کر دی گئی اور فنڈنگ بھی رو ک دی گئی۔

...یہ سب 2025 ءمیں ہو رہا ہے۔

عرب  ممالک میں کم عمری کی شادی کا قانون

بعض لوگ دلیل دیتے ہیں  کہ سعودی عرب میں بھی 18 برس سے کم عمری میں شادی پر پابندی ہے۔ انہیں  یہ جان لینا چاہیے کہ سعودیہ  میں بھی اقوام متحدہ کی  مذکورہ قانون سازی کے بعد   2020ء میں یہ قانون بنایا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے ولی کی اجازت کے ساتھ کسی بھی عمر میں شادی جائز تھی۔  موجودہ قانون میں بھی   عدالت کی اجازت سے 18 سال سے کم عمری میں شادی کی اجازت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں 18 برس سے پہلے شادی کو  قانوناً منع کرنے سے مراد یہ ہے کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی رجسٹرڈ نہیں
 ہو گی نہ کہ وہ کوئی قابل سزا جرم ہےیا  ایسی شادی منعقد ہی نہیں ہوتی یا یہ چائلڈ ایبیوز میں آتی ہے یا یہ ریپ کا کیس ہے۔ رجسٹریشن کے بغیر  کم عمری کی شادی پر کسی سزا کا اطلاق سعودی قانون میں نہیں مل سکا۔

  متحدہ عرب امارات میں  18 برس سے کم عمری کی شادی کے خلاف قانون سازی 2005ء کے لگ بھگ  ہوئی۔ مصر میں یہ قانونی اصلاحات 2010ء کے بعد جبکہ  کویت میں 2025ء میں رائج ہوئیں۔ انڈونیشیا میں 2014ء کے بعد اور بنگلہ دیش میں 2017ء میں چائلڈ میرج کو قانونی طور منع قرار دیا گیا ۔     

اقوام عالم اور کم عمری کی شادی کے قانون میں استثناءات

  اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے تقریباً 100 ممالک میں کم عمری کی شادی جائز ہے اور تقریباً  150 ممالک نے شادی کی عمر  کی حد 18 سال مقرر کی  ہے لیکن  ان میں سے بھی 70 سے زائد ممالک ایسے ہیں جنہوں  نے اقوام متحدہ کو راضی کرنے کی خاطر قانون سازی تو کر لی لیکن اپنے قوانین  میں ایسی تاویلات بھی نکال لیں جو نہ صرف ان  کے مذہب، معاشرت، ثقافت اور اقدار کے مطابق تھیں بلکہ ان کے اجتماعی عقل اور قومی شعور کا تقاضا بھی تھیں۔ مثلاً

امریکہ  کی  50  میں سے  36 ریاستوں میں آج بھی  18 برس سے کم عمری میں شادی جائز ہے ۔ چار ریاستوں کیلیفورنیا،مسیسیپی، نیومیکسیکو اور اوکلاہوما میں تو شادی کی کم از کم عمر مقرر ہی نہیں ہے یعنی وہاں کسی بھی عمر میں شادی ہو سکتی ہے۔ 32 ریاستوں میں  18  برس سے کم عمر کے بالغ کو والدین یا عدالت یا دونوں کی رضامندی سے شادی کی اجازت ہے۔ آسٹریلیا، روس ، فرانس ، اٹلی ، کینیڈا ، سکاٹ لینڈ کے علاوہ یورپ   کے تقریباً پچیس چھبیس ممالک ایسے ہیں جیسا کہ آسٹریا، بیلجیم، بلغاریہ، کروشیا، اسٹونیا، یونان، ہنگری، آئر لینڈ، ناروے، پولینڈ، پرتگال، سربیا،سپین اور یوکرین وغیرہ کہ جن میں  شادی کی قانونی عمر اگرچہ 18 برس ہے لیکن 16 یا 17 برس میں بھی  خاص حالات میں والدین اور عدالت کی اجازت کے ساتھ شادی کرنا درست  ہے۔بلکہ  روس کے  بعض علاقوں میں خاص حالات میں 14 برس میں بھی شادی کی اجازت ہے۔

 مسلم ممالک میں سےعراق میں بھی 18 سال کی عمر شادی کے لیے مقرر ہے لیکن 15 سال کی عمر میں عدالت کی اجازت سے شادی جائز ہے۔ترکی میں 18 سال کی عمر شادی کی قانونی عمر ہے لیکن اس سے پہلے والدین یا سرپرست شادی کی اجازت دیں تو عدالت بھی اجازت دے سکتی ہے۔ مصر میں لڑکی کے لیے 16 سال اور لڑکے کے لیے 18 سال قانونی عمر ہے لیکن والد کی اجازت ہو تو عدالت اس سے پہلے بھی شادی کی اجازت دے سکتی ہے۔ مراکش میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 15 سال اور لڑکوں کی 18 سال ہے جبکہ عدالت کی اجازت سے اس   سے پہلے بھی شادی ممکن ہے۔ تیونس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 17 سال جبکہ لڑکوں کی عمر  20 سال ہے لیکن ولی کی اجازت ہو تو عدالت اس سے پہلے بھی شادی کی اجازت دے سکتی ہے۔ ملائیشیا میں لڑکی کی شادی کی عمر 16 برس اور لڑکے کی عمر  18 برس ہے مگر  عدالت کی اجازت سےاس سے پہلے  بھی شادی ہو سکتی ہے۔  متحدہ عرب امارات میں  18 برس سے کم عمری کی شادی  عدالت اور والدین کی اجازت سے جائز  ہے۔بنگلہ دیش میں بھی   عدالت کی اجازت سے 18 برس سے کم عمری میں شادی جائز  ہے۔ ایران میں لڑکیوں کے لیے شادی کی قانونی عمر  13 برس جبکہ لڑکوں کے لیے 15 بر س ہے لیکن  والد یا دادا کی اجازت ہو تو اس سے کم عمری میں بھی شادی جائز ہے۔  یمن میں شادی کی عمر کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ 15 سال کی عمر شادی کی  رسمی عمر شمار ہوتی ہے۔    انڈیا میں بھی کئی ایک عدالتوں نے 15 یا  16 برس کی مسلم شادیوں کو جائز قرار دیا جبکہ وہ بالغ ہوں اور ان کی رضامندی موجود ہو کیونکہ اسلامی قانون میں اس کی اجازت ہے۔

پاکستان میں کم عمری کی شادی کا قانون

پاکستان میں 1929ء کے ایکٹ کے مطابق لڑکی کے لیے شادی کی عمر 16 برس تھی لیکن اب 2025ء میں اقوام متحدہ کے حکم پر   ہمارے ہاں  18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی کا قانون پاس کیا گیا ۔  پہلے پہل 2013ء میں سندھ حکومت نے ایک ایکٹ کے ذریعے  لڑکا اور لڑکی دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال  قرار دی تھی۔چونکہ سندھ اسمبلی کی قانون سازی کے ملک کے دوسرے حصوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا ، اس لیے  اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بابر ستار کو استعمال کیا گیا ہے۔ انہوں نے 2022ء میں ایک کیس میں  چودہ پندرہ سال کی عمر کی ایک لڑکی کے نکاح کو فاسد اور زنا بالرضا قرار دیا ، اس کو بنیاد بنا کر  اب   یہ قانون سازی کی گئی  ہے  کہ  جس میں  اٹھارہ برس سے کم عمر کی شادی پر قانونی طور نہ صرف پابندی لگا دی  گئی ہے ، بلکہ ایسا کرنے والے لڑکے اور لڑکی کے والدین یا نکاح خواں کو بھی قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔صدر پاکستان نے اس قانون پر دستخط کر دیے ہیں اور قوم کا ردعمل جاننے  کے لیے فی الحال اسلام آباد کی حدود میں اسے  نافذ کیا گیا ہے۔

اس قسم کی قانون سازی فرد کی پرنسل لائف میں ریاست کے گھسنے اور فرد کو ریاست کی پراپرٹی سمجھنے کی ظالمانہ کاوش ہے جو از خود قانون سازی کے بنیادی اصولوں  کے خلاف ہے ۔

شادی کے لیے  18 سال کی شرط کسی سائنسی یا معاشرتی تحقیق پر مبنی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے  ایجنڈے کے تحت ہے۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے  قانون  کی کاپی نیٹ سے حاصل کریں، تو اس کے آخر میں صاف  لکھا ہے کہ یہ قانون سازی اقوام متحدہ کے احکام کو پورا کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔

STATEMENT OF OBJECTS AND REASONS

This bill is being introduced with the object to curb, discourage and eventually eradicate the concept and phenomenon of Child marriages which are highly prevalent in Pakistan. In this modern day and age, we have the resources and the research which invariably proves that child marriage is harmful to both genders and especially girls who have hit puberty and are able to bear children. Furthermore, child marriages are in complete violation of the rights of children and international obligations and Goal 5 of the United Nations Sustainable Development Goals focuses on gender equality and includes a target to end child marriage by 2030. Therefore, in order to restrain child marriages and protect the basic rights of children, it is expedient to enact a law for the Islamabad Capital Territory.

This bill seeks to achieve the above object.

Sd/- MS. SHARMILA SAHIBA FARUQUI HASHAAM,
Member National Assembly

’’ مقاصد و وجوہات کا بیان:

یہ بل اس مقصد کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر رائج چائلڈ میرج (کم عمری کی شادیوں) کے رجحان کو روکا جائے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے اور بالآخر اس کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ آج کے جدید دور میں ہمارے پاس وہ وسائل اور تحقیقات موجود ہیں جو بلاشبہ یہ ثابت کرتی ہیں کہ کم عمری کی شادی دونوں جنسوں کے لیے نقصان دہ ہے، خصوصاً لڑکیوں کے لیے جو سنِ بلوغت کو پہنچ چکی ہوتی ہیں اور بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔مزید برآں، کم عمری کی شادیاں بچوں کے حقوق، بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے ہدف نمبر 5 کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔ یہ ہدف صنفی مساوات پر زور دیتا ہے اور 2030 تک چائلڈ میرج کے خاتمے کا ہدف بھی شامل کرتا ہے۔ لہٰذا، کم عمری کی شادیوں کو روکنے اور بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (ICT) کے لیے ایک قانون بنایا جائے۔ یہ بل مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے پیش کیا گیا ہے۔‘‘

یہ بِل پاکستان پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے پیش کیا تھا۔  اسلامی  معاشرہ  کو تباہ کرنے کے لیے   یہ کرپشن زدہ [1]  خواتین  ایسی غیر شرعی اور لبرل قانون سازی میں پیش پیش ہیں۔ 

مبینہ سوشل میڈیا  ذرائع کے مطابق شرمیلا فاروقی کی  شادی  2015ء میں 37 برس کی عمر میں ہوئی۔ اب اگر کوئی  شخص ایسی عورتوں پر تنقید کرے کہ یہ اتنا تاخیر سے  شادی کیوں کرتی ہیں اور کوئی ممبر قومی اسمبلی مولانا صاحب بِل پیش کر کے  قانون سازی کی تجویز دیں   کہ شادی کی انتہائی عمر 25 برس ہونی چاہیے  اور دلیل یہ دیں  کہ لیٹ شادیوں سے معاشرے میں زنا عام ہو رہا  ہے اور ماؤں کو  بچے پیدا کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو ایسی لبرل خواتین کا رد عمل کیا  ہو گا ؟ یہی نا کہ یہ مولوی کون ہوتے ہیں، ہماری زندگی کا فیصلہ کرنے والے۔ تو یہ لبرل خواتین کون ہوتی ہیں انسانوں کی فطری خواہشات پر اپنی  سطحی خواہش اور  سوچ مسلط کرنے والیاں؟   یہ لبرل خواتین  شادی کریں یا نہ کریں یا آخر عمر میں کریں یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ تو یہ بھی ہر شخص کا  ذاتی مسئلہ ہے کہ وہ  بلوغت کے بعد جب چاہے  شادی کرے۔

  جب شادی کی کم از کم عمر کی حد مقرر ہو سکتی ہے تو اسی دلیل اور لاجک سے زیادہ سے زیادہ عمر کی  حد بھی مقرر ہو سکتی ہے۔ بچہ پیدا کرنے کی صرف مینوفیکچرنگ ڈیٹ قانون سے اناونس نہ کریں بلکہ اس کی ایکپسائری ڈیٹ پر بھی قانون سازی کریں کہ فلاں عمر تک ہر عورت کی شادی ہونی چاہیے اور ہر شادی شدہ جوڑے کے لیے فلاں عمر تک بچہ پیدا کرنا بھی  لازمی قرار دیں۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ معاشرے میں چھوٹی عمر پر بعض معاملات میں قانون سازی ہوتی ہے جیسے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے  عمر کی حد متعین  ہے  کہ  اس سے  پہلے ڈرائیونگ لائسنس نہیں بن سکتا،  یہ بالکل ٹھیک ہے۔  لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ  یہ عمر کی حد وہاں مقرر  ہوتی ہے جہاں اس سے دوسروں  کو نقصان پہنچنے کا خدشہ  ہو۔ مثلاً کوئی  چھوٹی عمر کا لڑکا گاڑی چلائے گا تو ایکسیڈینٹ کر دے گا لہذا ڈرائیونگ لائسنس کے لیے  عمر کی حد متعین ہونی چاہیے، آپ مقرر کر دیں۔

 لیکن کسی نے بد کاری اور زنا سے بچنے کے لیے اور عفت کی زندگی گزارنے کے لیے شادی کرنی ہے تو آپ اسے قانوناً کیوں  روک  رہے ہیں؟  اگر کوئی لڑکا یا لڑکی ٹین ایج میں یعنی  18  برس  سے کم عمری میں جنسی خواہش کی تکمیل کی ضرورت محسوس کرے جیسا کہ عموماً بلوغت کے بعد بچے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو وہ کیا کریں گے؟ کیا اپنی جنسی خواہش کو پورا  کرنا ان کا بنیادی انسانی حق نہیں ہے ؟  جس سے یہ لبرل  خواتین انہیں  بذریعہ قانونی جبر  محروم کرنا چاہ  رہی ہیں۔  غیر مسلم ممالک میں تو لڑکا لڑکی  زنا کر لیں گے، بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ رکھ لیں گے، مسلم ممالک میں مسلمان بچے  کیا کریں گے ؟ یہاں بھی آپ یہی چاہتے ہیں کہ حلال راستہ بند کرکے حرام راستے پر چلنے کے لیے  لوگوں کو مجبور کریں  اور فحاشی عام کریں  ؟ یا تو آپ یہ دعوی کریں کہ اٹھارہ برس سے پہلے کسی لڑکے لڑکی کو جنسی خواہش نہیں ہوتی ۔ لیکن اگر آپ ہی کی میڈیکل ریسرچ یہ ثابت کر رہی ہو کہ بلوغت کے فورا بعد لڑکا اور لڑکی جنسی خواہش نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے عروج پر ہوتی ہے تو وہ اپنی یہ خواہش شادی کے سوا کیونکر پوری کریں گے؟

  پھر گاڑی چلانا ہر  انسان کی ضرورت نہیں ہے، وہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر سکتا ہے، ڈرائیور بھرتی کر سکتا ہے، لیکن جنسی جبلت ایک شخص کی  بنیادی ضروریات میں سے ہے، اسے پوری کرنےکا کوئی متبادل  راستہ بھی نہیں ہے ۔ قانون سازی کرنی ہے تو 18 برس سے کم عمری میں زنا پر قانون سازی کریں، کوئی آپ کو منع نہیں کرے گا۔  زنا کو تو آپ نے  رضامندی کے ساتھ ہر عمر میں جائز کیا ہوا ہے اور نکاح پر قانونی پابندیاں لگا رہے ہیں۔ دراصل  یہ  حیلے بہانوں کے ذریعے  سوسائٹی میں زنا کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں ۔یہ لبرل خواتین   عورتوں  کے حقوق کی جنگ نہیں لڑ رہیں جیسا کہ وہ کہتی ہیں   بلکہ  بیرونی آقاؤں سےفنڈ لینے  کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔

کتاب وسنت میں شادی کی عمر

انسانی فطرت (Niger) کی دلیل  بہت واضح اور پختہ ہے کہ شادی کی عمر بلوغت ہے۔ لڑکے کی بلوغت احتلام کا جاری ہونا ہے اور لڑکی کی بلوغت حیض کا جاری ہونا ہے۔اس وقت  انسان میں جنسی خواہش اپنے عروج کو پہنچ جاتی  ہے۔ کوئی   بھی صحت مند شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا ۔ اگر 18 برس سے پہلے جنسی خواہش کو پورا کرنا درست نہ ہوتا تو  فطرت اسے 18 سال سے پہلے ظہور پذیر نہ کرتی۔

باقی رہا کم عمری کی شادی کا  بے ضرر یا کامیاب ہونا تو اس حوالے سے  ہمارے پاس ہزاروں سالوں پر مشتمل انسانی  تاریخ   کی گواہی موجود ہے کہ  دنیا کے تمام کلچرز میں چھوٹی عمر کی شادیوں کا رواج رہا ہے اوروہ شادیاں صحت کے اعتبار سے بے ضرر اور   کامیاب رہی ہیں۔

  اسلام نے انہیں بنیادوں پر  کم عمری کی شادی کی اجازت دی ہے ۔ سورۃ الطلاق میں ان عورتوں کی عدت بیان کی ہے کہ جنہیں حیض نہ آیا ہو اور  کہا  ہے کہ ان کی عدت تین ماہ ہے۔رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام اور سلف صالحین میں اس کی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں کہ 18 برس سے کم عمری میں شادی ہوئی۔امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ سمیت تمام فقہاء و محدثین کا  سرپرستوں کی اجازت سے چھوٹی عمر کی بچی کے نکاح کے جواز پر اتفاق ہے۔

فطرت (Niger)اور تاریخ کی گواہی کے باوجود  انسان کی جنسی خواہش پر پابندی لگانایا اس کے لیے جائز راستے کو بند کرنا  سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔

جسمانی بلوغت کے بعد  لڑکا اور لڑکی جنسی تعلق قائم کرنے اور  حرام کا بچہ پیدا کر سکنے کی اہلیت رکھتے ہیں  لہٰذا اسلام نے انہیں   حلال تعلق قائم کرنےکی اجازت دے دی ، تاکہ  ان  کے پاس زنا کے لیے  کوئی بہانا نہ رہے، اس لیے ایسے شخص کو زنا کرنے پر اسلام سزا دیتا ہے ۔یہ دراصل خاندانی نظام  کو توڑنے ، نئی جان کو بغیر اس کی پرورش کا معاہدہ کیے پیدا کرنے اور معاشرے میں فساد برپا کرنے کی سزا ہے، لیکن اگر  جسمانی بلوغت ہوجانے کے بعد اس کے جائز اور حلال راستے پر پابندی لگادیں ،  پھر وہ حرام کا ارتکاب کرے تو مجرم کون ہوگا ، فرد  یا قانون ساز ادارے  ؟ ایسی صورت میں زنا کوجرم ڈکلیئر کرنے اور اس کی سزا دینے کی کیا معقولیت ہوگی؟

کم عمری کی شادی کا قانون اور تاخیری شادیاں

شادی کے حوالے سے ہمارے معاشرے  کا مسئلہ کیا ہے ؟ رپورٹس یہ بتلا رہی ہیں  کہ 35  برس کی عمر میں بھی شادیاں نہیں ہو رہی ہیں۔  سب اس پر چیخ رہے ہیں کہ بچوں کی شادیوں کی عمریں نکل رہی ہیں، جوانیوں کو داغ لگ رہے ہیں، بچے بچیاں بڑھاپے کی سرحدوں کو چھو رہے ہیں، بال سفید ہو رہے ہیں  لیکن معاشرتی ومعاشی مسائل شادیوں میں آڑے آ رہے ہیں۔ ہم سب اس معاشرے میں بیٹھے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں۔ تعجب ہے کہ  جس معاشرے میں پہلے ہی تاخیر سے شادیاں ہو رہی ہوں تو وہاں کم عمری میں شادی کی ممانعت کی قانون سازی کس لیے کی جا رہی ہے؟ وہ ایک دو فی صد دیندار طبقے کے لیے؟  کہ وہ  اپنے بچوں کی شادیاں وقت پر کیوں کر دیتے ہیں یا بلوغت کے بعد کیوں کر دیتے ہیں؟ کیا ان بچوں اور بچیوں کو بھی بے راہ روی پر ڈالنا ہمارا مقصود اور ایجنڈے کا حصہ بن چکا ہے؟

قانون میں لکھا ہے کہ گر 18 برس سے زائد عمر کے مرد نے 18 برس سے کم عمر کی لڑکی سے شادی کی مثلاً 18 برس کے لڑکے نے 17 برس کی لڑکی سے شادی کی تو اس لڑکے کو تین سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے جو کہ کم از کم دو سال تو لازما ً ہو گی  ۔عجیب تماشہ یہ ہے کہ قانون18 سال سے پہلے  بچے اور بچی کو  جسمانی طور پر نابالغ اور عقلی طور پر غیر میچور قرار دے کر نکاح سے منع کررہا ہے ، لیکن اگر کوئی اس عمر میں شادی کرتا ہے تو اسے سزا دینے کے لیے  قانون اسے میچور قرار دیتا ہے۔

دوسری بات اگر بڑی عمر کا مرد  18 سال سے چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کرتا ہے تو وہ مجرم اور قابل سزا ہے،   لیکن اگر  کوئی بڑی عمر  کی خاتون کسی18 سال سےچھوٹے لڑکے سے شادی کر لے تو قانون اس خاتون کے لیے کوئی سزا بیان نہیں کرتا ہے۔ یہ قانون پاس کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے کہ ایک ہی فعل مرد کے لیے قابل سزا جرم  ہے لیکن عورت کے لیے قابل سزا جرم نہیں ہے۔

درست بات یہ ہے کہ ایسے پرسنل معاملات میں قانون کو پڑنا ہی نہیں چاہیے ۔ دوسری بات کہ جسم اور فطرت کی گواہی کو قبول کیا جائے ۔یعنی لڑکا اور لڑکی بالغ ہوجائیں تو انہیں شادی کی اجازت ہونی چاہیے ۔

باقی رہی  اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی بات تو والدین اگر  اپنے بچوں کی ذمہ داری لینے پر آمادہ ہوں تو شادی کی اجازت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح ان کی ٹین ایج کو گناہ کی زندگی سے بچایا جا سکتا ہے۔وگرنہ نسلیں برباد ہوتی رہیں گی۔

(ڈاکٹر حافظ محمد زبیر)

 

[1]      سوشل میڈیا مبینہ ذرائع کے مطابق شرمیلا فاروقی نے اپنے والد عثمان فاروقی کے ساتھ مل کر   پاکستان اسٹیل ملز اور حکومت پاکستان کے ساتھ 195 ارب روپے کا غبن کیا۔ ان کی والدہ انیسہ فاروقی نے گرفتار ہونے کے بعد نیب کے ساتھ پلی بارگین کا معاملہ بھی کیا۔  2001ء میں ان  خاتون کو سات سال کی سزا ہوئی اور 21 برس تک کوئی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے  نااہل قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود ان کو عہدے دیے گئے۔ 2016ء میں سندھ ہائی کورٹ سے ایک عبوری حکم جاری کروایا گیا  کہ نیب ، الیکشن کمیشن یا دیگر ادارے ان کے خلاف مزید کوئی کاروائی نہیں کر سکتے۔ 2016 ء  میں ہی سندھ فنکار ویلفیئر ٹرسٹ اور دیگر تنظیموں نے شرمیلا فاروقی پر ثقافتی ترقیاتی فنڈز میں مبینہ کرپشن کے الزامات لگائے ہیں۔   کے۔الیکٹرک نے بھی ان پر دس لاکھ روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہونے کا الزام لگایا ہے۔