شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری) قسط (11)
شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری)
بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى: ﴿ وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ﴾[الأنعام: 73]
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ’’اور وہی ذات ہے جس نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ۔ “
اس باب میں امام بخاری کیاثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اس حوالے سے شارحین کے مختلف موقف ہیں ۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
’’امام بخاری نےترجمۃ الباب سے اشارہ کیا ہے کہ آیت میں مذکور(بِالْحَقِّ) سے مراد کلمہ حق ہے اور وہ لفظ (کُن ) ہے ۔اسی طرح جو پہلی حدیث میں ( قَوْلُكَ الحَقُّ ) ہے ، اس میں اشارہ ہے کہ قول سے مراد کلمہ ہے ، اور وہ کُن ہے، و اللہ اعلم ۔ ابن التین نے الداودی سے نقل کیا ہےکہ ﴿بِالْحَقِّ ﴾ میں جو ’ با ‘ ہے ، وہ لام کے معنیٰ میں ہے، ( لأجل الحق )یعنی آسمان و زمین کی تخلیق (اثبات)حق کےلیے ہے ۔ اور ابن بطال کہتے ہیں کہ یہاں ﴿ بِالْحَقِّ ﴾سے مراد هزل یعنی آسمان و زمین کی تخلیق کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں الحق سے مراد ایسی ثابت ذات جسے زوال اور تغییر نہیں ہے ۔ امام راغبؒ کہتے ہیں کہ اسماء حسنی میں الحق سے مراد ایسا موجد ہےجس کی ایجاد حکمت کےتقاضوں کے مطابق ہو ۔ ہر ایک کا فعل جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہو ، حق ہے ۔ اعتقاد پر اس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ نفس الامر میں اس کے مطابق ہو جس پر چیز دلالت کرتی ہے اور فعل واقع پر اس کا اطلاق تب ہوگا جب وہ پروگرام اور زمانے کے اعتبار سے درست اور مکمل ہو ، اسی طرح قول پر بھی اس لفظ کا اطلاق اس وقت ہوگا جب وہ درستی اور زمانےکے مطابق ہو ، اس کے علاوہ واجب ، لازم ، ثابت اور جائز چیز پر بھی اس کا اطلاق ہوتاہے[1]۔‘‘
المختصر ! یہاں پر حق سے مراد تین مفہوم ہیں :
- اللہ کی ذات
- کلمہ کن
- ثابت شدہ حقیقت
اور یہ تینوں معانی درست بھی ہیں اور مقصود بھی ہوسکتے ہیں ۔لیکن سیاق و سباق سے دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری کا مقصود یہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ قول کو ثابت کرنا ہے، جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حق ہے
اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام حق ہے۔ حق کا معنیٰ ہے ہمیشہ قائم رہنے والا ، باقی رہنے والا ہے جسے فنا نہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اسم صفت کے طور پر یہ نام بہت سارے مقامات پر وارد ہوا ہے۔
﴿ فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ﴾ [طه: 114]
’’پس اللہ بادشاہ حقیقی ہی بلند شان والا ہے۔‘‘
﴿ثُمَّ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَ هُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ۰۰۶۲﴾ [الأنعام: 62]
’’ پھر ان روحوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جاتا ہے جو ان کا حقیقی مالک ہے۔( سن لو ! ) فیصلہ کرنے کے جملہ اختیارات اسی کے پاس ہیں اور اسے حساب لینے میں کچھ دیر نہیں لگتی ۔‘‘
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّهٗ يُحْيِ الْمَوْتٰى وَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌۙ۰۰۶﴾ [الحج: 6]
’’ یہ سب کچھ اس لیے (ہے) کہ اللہ ہی حق ہے ، اور بلاشبہ وہی مردوں کو زندہ کرتاا ور وہ بلاشبہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘
﴿فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ۰۰۳۲﴾ [يونس: 32]
’’یہ اللہ تمہارا حقیقی پروردگار ہے ۔ پھر حق کے بعد سوائے گمراہی کے کیا باقی رہ جاتا ہے ۔ ‘‘
اللہ کی تخلیقات برحق ہیں
اللہ تعالیٰ کی مناسبت سے اس کے متعلقہ چیزوں پر بھی حق کا اطلاق ہوتا ہے۔ تو اس وقت حق کا معنیٰ ہوگا سچائی اور حقیقت۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات سچائی پر مبنی ہیں ۔ مثلاً دین اسلام کے متعلق ارشاد ربانی ہے:
﴿ وَ اللّٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ۰۰۴﴾ [الأحزاب: 4]
’’ اور اللہ حقیقی بات کہتا ہے اور وہی صحیح راہ دکھاتا ہے ۔‘‘
﴿هُوَالَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۰۰۳۳﴾
[التوبة: 33]
’’ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سب ادیان پر غالب کردے ۔ خواہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہے ناگوار ہو۔‘‘
﴿وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ﴾ [محمد: 2]
’’ اور جو کچھ محمد (ﷺ) پر نازل ہوا ہےاس پر ایمان لائے اور وہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے ۔‘‘
﴿لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ ﴾ [الرعد: 14]
’’ اس کو پکارنا برحق ہے۔ ‘‘
﴿وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ﴾ [الأنبياء: 97]
’’اور سچا وعدہ (قیامت ) نزدیک آجائے گا ۔‘‘
﴿ ذٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ﴾ [النبأ: 39]
’’ یہ وہ دن ہے جو ایک حقیقت ہے۔ ‘‘
﴿ وَ الْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْحَقُّ ﴾ [الأعراف: 8]
’’ اس دن حق (انصاف) کے ساتھ اعمال کا وزن کیا جائے گا ۔‘‘
زمین و آسمان کی تخلیق کو ئی حادثہ نہیں ہے ، یا کوئی کھیل تماشا کے طور پر اس کی تخلیق نہیں کی گئی ، بلکہ یہ احکم الحاکمین کی کمال منصوبہ بندی اور عظیم حکمت و دانائی کی علامت ہے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اپنی نشانی قرار دیاہے:
﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۰۰۱۹۰الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۰۰۱۹۱﴾ [آل عمران: 190، 191]
’’ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے باری باری آنےجانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔ جو اٹھتے ،بیٹھتے اور لیٹتے ، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ و بچار کرتے (اور پکاراٹھتے) ہیں ۔ ’’ اے ہمارے پروردگار ! تو نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا، تیری ذات اس سے پاک ہے ۔ پس ( اے پروردگار ! ) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے ۔’‘
یہاں ،باطل ، کا لفظ حق کے مقابلے میں ہے ، یعنی کائنات پر غور و فکر کرنے والے اقرار کرتے ہیں کہ اس کی تخلیق باطل اور بےمعنیٰ نہیں ہے ، تو اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق برحق یا اثبات حق کے لیے ہے ۔
مزید فرمایا:
﴿الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۰۰۳ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِيْرٌ۰۰۴﴾[الملك: 3، 4]
’’ اسی نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کیے ۔ تم رحمٰن کی پیدا کردہ چیزوں میں کوئی بے ربطی نہ دیکھو گے ۔ ذرا دوبارہ (آسمان کی طرف) دیکھو ، کیا تمہیں اس میں کوئی خلل نظر آتا ہے ؟ پھر اسے بار بار دیکھو ۔ تمہاری نگاہ تھک کر ناکام پلٹ آئے گی ۔‘‘
جب آسمانوں کی طرف بار بار دیکھنے کے باوجود ان میں کوئی کمی اور کجی نظر نہیں آتی تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی تخلیق ایسی ذات نے کی ہے جو حق اور پرفیکٹ ہے ۔
اللہ تعالیٰ خود نظر نہیں آتے، لیکن اس کی تخلیق نظر آتی ہے ، لہٰذا اس تک پہنچنے اور اسے جاننے کے لیے ذریعہ بھی اس کی تخلیقات ہی ہیں ۔
کلمہ کُن کے حق ہونے کے دلائل
اگر ترجمۃ الباب میں موجود آیت میں لفظ حق سےمراد کلمہ کُن کے حق ہونے کا استدلال کیا جائے تو یہ بھی درست ہے ۔ اس کے کئی دلائل ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۰۰۱۱۷﴾ [البقرة: 117]
’’ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اتنا کہہ دیتا ہے کہ ‘‘ ہو جا ‘‘ تو وہ ہوجاتا ہے ۔‘‘
﴿وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ يَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ قَوْلُهُ الْحَقُّ١ؕ وَ لَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ١ؕ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ١ؕ وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ۰۰۷۳﴾ [الأنعام: 73]
’’ وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے اور جس دن وہ (قیامت کو ) کہے گا کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ( قائم )ہوجائے گی ،اس کی بات سچی ہے اور جس دن صور میں پھونکا جائےگا اس دن اسی کی حکومت ہوگی ۔ وہ چھپی اور ظاہر سب باتوں کو جاننے والا ہے اور وہ بڑا دانا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے ۔‘‘
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے زمین و آسمان کی تخلیق کا تذکرہ کیا ،پھر لفظ کن کا تذکرہ فرمایا ۔ دوسری آیت میں پہلے زمین و آسمان کی تخلیق کو حق قرار دیا ، پھر لفظ کن کا تذکرہ کیا پھر اسے حق کہا ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس کلمہ کن سے تخلیق کائنات ہوئی وہ حق ہے ۔
زمین و آسمان کے حق ہونے کا مطلب
مخلوقات میں بعض چیزوں کا وجود حق ہوتا ہے اور بعض کا وجود باطل ہوتا ہے جیسا کہ خیر اور شر کا وجود ہے۔ ہم مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شر اور خیر کا خالق اللہ ہے ۔تو مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین و آسمان کا وجود حق اور باعث خیر ہے ۔
دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول حق ہے ، کیونکہ اس قول (کُن ) سے پیدا ہونے والی کائنات سراسر حق ہے ، جو اس کےقول کے حق ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
مذکورہ بالا آیات میں زمین وآسمان کو حق کہا گیا ہے ، اس کی کئی ایک وجوہات ہیں :
زمین و آسمان کا لفظ بطور اصطلاح ساری کائنات کے لیے بولا جاتا ہے: زمین کا لفظ نیچے والی کائنات کے لیے اور آسمان کا لفظ اوپر والی کائنات کے لیے بولا جاتا ہے ۔ گویا زمین و آسمان کہہ کر پوری کائنات کے حق ہونے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اس پر قرآن وحدیث کے بے شمار دلائل ہیں۔
آسمان سے اوپر عرش اور کرسی ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ قرب رکھتے ہیں بنسبت آسمان و زمین ہے ۔ تو جب زمین و آسمان حق ہیں تو عرش اور کرسی بالاولیٰ حق ہیں ۔
کائنات میں سے انسان کے ساتھ زمین و آسمان ہی کا تعلق ہے ، زمین اس کا ٹھکانہ ہے اور آسمان سے وہ بارش اور اس کے ذریعے رزق ، سورج سے روشنی ، چاندسے چاندنی اور ستاروں سے رہنمائی پاتا ہے ، اس لیے انہی دونوں کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے ۔
وحد ت الوجود اور وحدت الشہود کا رد
صوفیا میں دو فرقے ہیں : وحدت الوجود اور وحدت الشہود۔ پہلے فرقے کا نظریہ ہے کہ کائنات کے سارے وجود اللہ کے ساتھ ایسے ہی تعلق رکھتے ہیں جیسے سورج کےساتھ اس کی کرنیں ہوتی ہیں، یعنی کائنات میں ساری چیزیں دراصل اللہ ہی کا پھیلاؤ ہے ۔
اور وحدت الشہود کے قائلین کہتے ہیں کہ کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں ، سب اللہ پر دلالت کر رہی ہیں ۔مزید وہ کہتے ہیں کہ مخلوق پر اللہ کا عکس پڑا ہے تو اس کے اندر اللہ والی صفات پیدا ہو گئی ہیں۔
یہ دونوں نظریے ہی غلط ہیں کیونکہ خالق اور مخلوق بالکل دو الگ الگ وجود رکھتے ہیں ۔ جیساکہ مذکورہ بالا آیات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو حقیقت کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ آسمان اور زمین کی الگ ایک حقیقت ہے ۔
7385 - حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو مِنَ اللَّيْلِ: «اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ، أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، قَوْلُكَ الحَقُّ، وَ وَعْدُكَ الحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَالجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَأَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلَهِي لاَ إِلَهَ لِي غَيْرُكَ»،
حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِهَذَا، وَقَالَ: «أَنْتَ الحَقُّ وَقَوْلُكَ الحَقُّ» .
”ہمیں قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ، کہ ہمیں سفیان ثوری نے ابن جریج سےبیان کیا ، انہوں نے سلیمان احول سے ، انہوں نے طاؤس سے اور انہوں نے ابن عباس ؓسےروایت کیا کہ نبی کریم ﷺ رات میں یہ دعا کرتے تھے :
اے اللہ ! تیرے ہی لیے تعریف ہے تو آسمان وزمین کا مالک ہے ۔ حمد تیرے لیے ہی ہے تو آسمان وزمین کا قائم کرنے والا ہے اور ان سب کا جو اس میں ہیں۔ تیری ہی لیے حمد ہے تو آسمان وزمین کا نور ہے ۔ تیرا قول حق ہے اور تیرا وعدہ حق ہے اورتیری ملاقات حق اور جنت حق اور دوزخ حق ہے اور قیامت حق ہے ۔ اے اللہ ! میں نے صرف تیرے سامنے سر جھکا دیا ، میں تجھ ہی پر ایما ن لا یا ، میں نے تیرے ہی اوپر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا ۔ میں نے تیری ہی مدد کے ساتھ مقابلہ کیا اور میں تجھی سے انصاف کا طلب گار ہوں ۔ پس تو میری مغفرت کر ان تمام گناہوں میں جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو بعد میں مجھ سے صادر ہوں، جو میں نے چھپا رکھے ہیں اور جن کا میں نے اظہار کیا ہے ، تو ہی میرا معبود ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔
اور ہمیں ثابت بن محمد نے بیان کیا ، کہ ہمیں سفیان ثوری نے یہی حدیث بیان کی اور اس میں یوں ہے کہ تو حق ہے اور تیرا کلام حق ہے ‘‘۔
لطائف الاسناد
امام بخاری نے اپنے دو اساتذہ قبیصہ اور ثابت بن محمد سے یہ روایت بیان کی ہے ۔
شرح الحدیث
مذکورہ حدیث میں اللہ کی ذات ، اس کی صفات (قول ، وعدہ ، ملاقات ) اور اللہ تعالیٰ کے افعال (جنت ، جہنم ، قیامت ) کو حق کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تینوں پر حق کا اطلاق ہوتا ہے اور یہی امام بخاری ثابت کرنا چاہتے ہیں ، اللہ اعلم
مذکورہ حدیث میں دعا کرنے کا اسلوب اور ادب سیکھایا گیا ہے ، کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ء کی جائے ، پھر اپنی بخشش کی دعا کی جائے ۔
فوائد :
- مذکورہ باب میں اللہ تعالیٰ کی صفت قول کو ثابت کیا گیا ہے۔
- الحق اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے ۔
- اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی چیز پر بھی حق کااطلاق ہوتا ہے ، جیسے دین الحق ، وعد الحق ، دعوۃ الحق وغیرہ ۔
- جو چیز اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں رکھتی ، وہ باطل اور غیر الحق ہے ۔
- دعا کرتے ہوئے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنی چاہئے ۔
- اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس سے متعلق چیز کی تعریف بھی دراصل اللہ ہی کی تعریف ہے ۔
[1] فتح الباری :14/317