غیر مسلم ممالک میں تعلیم کے لیے جانے  کا حکم!

مسلمانوں کو اپنے دینی مسائل میں علماء کرام کی طرف رجوع کرنےکا حکم دیا گیا ہے،  ارشاد باری تعالیٰ ہے :  ﴿فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۷﴾ ’’ جن مسائل میں تمہیں علم نہیں ، ان میں علماء سے سوال کرو ‘‘  اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شفاء العی السوال  ’’ بیمار ( ضرورت مند ) کی شفا سوال کرنے میں ہے‘‘ ۔ معتبر اور جید علماء کرام کے فتاویٰ جات کی اشاعت  ماہنامہ محدث کا طرہ امتیاز رہا ہے ، پاکستان کے نامور مفتی فضیلۃ الشیخ حافظ ثناء اللہ مدنی ﷬کے فتاویٰ محدث ہی کے صفحات پر شائع ہوتے تھے اوراسی بدولت ماہنامہ محدث کو تمام مجلات پر علمی تفوق حاصل تھا ۔ جب  محدث ویب سائٹ  بنائی گئی تو اس میں بھی   محدث فتاویٰ کا ایک  آپشن بطور خاص   رکھا گیا ، جس میں قدیم علماء کرام کے فتاویٰ جات کے ساتھ ساتھ ماہنامہ محدث کے قارئین اور محدث ویب سائٹ کے وزٹر حضرات کے سوالات کے جوابات مفتیان کرام کا ایک بورڈ دیتا ہے ، جس میں مفتی جماعت فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار حماد ،  فضيلۃ الشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی،فضيلۃ الشیخ مفتی عبد الخالق ، فضيلۃ الشیخ عبدالحلیم بن محمد بلال اور فضيلۃ الشیخ  ڈاکٹر حافظ محمد  اسحاق زاہد   شامل ہیں  ۔ مذکورہ مفتیان کرام کے فتاویٰ جات کومحدث فتویٰ کمیٹی کے انچارج حافظ حبیب الرحمن مدنی(فاضل مدینہ یونیورسٹی )   مرتب کرتے ہیں  جنہیں   محدث  فتویٰ ویب سائٹ پر شائع کیا جاتا ہے ۔ ان فتاویٰ جات   میں سے منتخب علمی و فقہی فتاویٰ جات  کوقارئین    ماہنامہ محدث کے لیے  پیش کرنے کا فیصلہ  کیا گیا ہے ۔ قارئین اپنے   سوالات https://urdufatwa.com/ask-question  پر  ہمیں ارسال کرسکتے ہیں ۔ ادارہ محدث

سوال

کیا غیرمسلم ملک میں تعلیم کے لیے جانا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ تعلیم انسان کا حقیقی زیور ہے۔ اسلام میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےكہ نبی کریم  ﷺ  پر  پہلی وحی تعلیم ہی کے بارے میں نازل ہوئی۔  لہذا انسان کو علم حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن سعی کرنا چاہیے اور ان تعليمی اداروں میں داخل ہونا چاہیے جو اسلامی اقدار کو فروغ دیتے ہوں۔ آج کل تقریبا تمام اسلامی ممالک میں  دینی اور دنیاوی ہر طرح کی تعلیم کے بہترین مواقع میسر ہیں۔  غیر مسلم ممالک کا سفر کرنا کئی ایک خطرات کا باعث ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ظَالِمِيْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ١ؕ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ۠ فِي الْاَرْضِ١ؕ قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيْهَا١ؕ فَاُولٰٓىِٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًاۙ۰۰۹۷ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ حِيْلَةً وَّ لَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًاۙ۰۰۹۸﴾ ]النساء: 97-98[

’’بے شک وہ لوگ جنہیں فرشتے اس حال میں فوت کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، فرشتے ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم اس سرزمین میں انتہائی ناتواں اور کمزور تھے۔ فرشتے انہیں کہتے ہیں : کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم وہاں سے ہجرت کر جاتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہےاور وہ بہت بری جگہ ہے، مگر وہ نہایت کمزور مرد اورعورتیں، بچےجو(حقیقتاً ) نہ کسی تدبیر کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ کوئی راستہ پاتے ہیں‘‘۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہےکہ ایسی سرزمین جہاں انسان کا دین و ایمان محفوظ نہ ہو وہاں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺ   نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

أنا بريء من كل مُسلم يقيم بين أظْهُرِ المشركين[1].

’’میں ہر اس مسلمان سے بیزار ہوں جو مشرکین میں رہائش رکھے ہوئے ہے‘‘۔

ایک دوسری حدیث میں  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ مُشْرِكٍ أَشْرَكَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ، عَمَلًا حَتَّى يُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ [2].

’’اللہ تعالیٰ اس مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جو اسلام لانے کے بعد مشرک ہو جائے تا آنکہ وہ اہل شرک کو چھوڑ کر اہل اسلام سے نہ آ ملے‘‘۔

اگر کوئی ایسا علم ہو جس کو سیکھنا جائز ہے، لیکن اس کی تعلیم کسی اسلامی ملک میں میسر نہیں ہے،  تو غیر مسلم ممالک میں اس علم كو  حاصل کرنے کی غرض سے جانا کچھ شروط کے ساتھ جائز ہے:

  • انسان کے پاس اتنا علم ہو کہ وہ کافروں کے  شبہات کا جواب دے سکے،  کیونکہ کافروں کے ممالک میں مسلمان طلبہ کو طرح طرح کے شبہات پیش کئے جاتے ہیں تا کہ وہ دین بیزار ہو جائیں، لا دینیت اختیار کر لیں یا پھر نام کے مسلمان رہ جائیں۔
  • انسان اتنا دین دار اور تقوی والا ہو کہ اپنی خواہشات اور جذبات کو کنٹرول کر سکے، شہوتوں سے دور رہ سکے،  بصورت دیگر اس کے بھٹکنے کے قوی امکانات ہیں؛  کیونکہ وہاں کا معاشرہ مادر پدر آزادی ہے،  جہاں ہر طرح کی بے حیائی شخصی آزادی  کی آڑ میں جائز تصور کی جاتی ہے  اور اسے قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
  • وہ تعلیم کسی اسلامی ملک میں نہ دی جاتی ہو۔ اگر وہ علم کسی اسلامی ملک میں پڑھایا جاتا ہے اور آپ کا وہاں جانا ممکن ہے، تو غیر مسلم ممالک میں اس علم کو حاصل کرنے کے لیے جانا جائز نہیں ہے۔
  • تعلیم حاصل کرنے بعد مسلم ممالک میں آ کر مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے، غیر مسلم ممالک کی نیشنلٹی حاصل کرنےکی کوشش نہ کرے۔

لہٰذا اگر مذکورہ بالا چار شرطیں پائی جائیں تو انسان تعلیم کی غرض سے  بیرون ملک جا سکتا ہے، جیسا کہ
ام المؤمنین سیدہ سلمہ ﷞ نے سر زمین حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، وہ فرماتی ہیں: ہم حبشہ کی سرزمین پر اترے اور نجاشی کو بہترین پڑوسی پایا، ہم اپنے دین کے بارے میں پرامن ہو گئے، ہم نے وہاں اللہ تعالی کی عبادت کی، ہمیں وہاں نہ کوئی تکلیف دی جاتی تھی اور نہ ہی ہم وہاں کوئی ناپسند بات سنتے تھے[3]۔

ان شرائط کی عدم موجودگی میں غیر مسلم ملک میں تعلیم کی غرض سے نہیں جانا چاہیے کیوں کہ دین اور ایمان کو بچانا ایسی تعلیم سے زیادہ ضروری ہے جس سے انسان کے ایمان کو خطرات لاحق ہو جائیں۔ 

والله أعلم بالصواب.

محدث فتویٰ کمیٹی

فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد ﷾

 فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی ﷾

 فضیلۃ الشیخ مفتی عبدالخالق ﷾

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال

پاکستانی قانون دادا کی جائیداد میں پوتے کو فوت شدہ باپ کا مکمل حصہ دیتا ہے جو کہ والد(دادا) کی حقیقی اولادعام طور  نہیں دینا چاہتی جس کے نتیجے میں قانون کا سہارا لے کر زبردستی حقیقی اولاد (پوتے کے چچا اور تایا) کے ساتھ پوتے وغیرہ کو حصہ دار بنا دیا جاتا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کس یتیم نے کس یتیم کی حق تلفی کی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی حکم کے مطابق اگر مرنے والے کا اپنا سگا بیٹا موجود ہو تو پوتا وارث نہیں ہوتا۔

سیدنا ابن عباس رضی  الله عنهما بيان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَر[4].

’’  جن ورثا کا حصہ متعین ہے تم انہیں ان کا حصہ پورا پورا ادا کر دو ، پھر جو مال بچ جائے اسے میت کے قریبی ترین رشتےدار کو دے دو‘‘۔

سیدنا زید بن ثابت ﷜فرماتے ہیں:

وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ [5].

’’ بیٹے کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں ہو گا‘‘۔

لہذا مذکورہ بالا سوال میں میت (دادا) کی حقیقی اولاد جوکہ پوتے کے چچا لگتے ہیں وارث ہونگے پوتا وارث نہیں ہو گا۔

لیکن اگر دادا صاحب ثروت ہے، اس کے سگے بیٹوں کو مال کی زیادہ ضرورت نہیں ہے اور پوتا فقیر اور محتاج ہے تو دادے کو چاہیے کہ وہ اپنے پوتے کے لیے اپنے  مال سے ایک تہائی یا اس سے کم  کی وصیت کردے۔

سیدنا خالد بن عبید سلمی ﷜بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ أَعْطَاكُمْ ثُلُثَ أَمْوَالِكُمْ عِنْدَ وَفَاتِكُمْ زِيَادَةً فِي أَعْمَالِكُمْ [6].

’’ بلاشبہ اللہ تعالی نے تمہیں موت کے وقت ایک تہائی مال تک اختیار دیا ہے تاکہ تمہارے اعمال میں اضافہ ہو سکے‘‘۔

سوال کا دوسرا حصہ یتیم کے بارے میں ہے:

اسلام میں  یتیم اس بچے یا بچی کو کہتے ہیں:  جو نابالغ ہو،  اور اس کا والدفوت ہو گیا ہو،  لہذا اگر والد کی بجائے والدہ فوت ہوئی ہے تو وہ یتیم نہیں ہے۔ اسی طرح اگر وہ بالغ ہو گیا ہے پھر بھی یتیمی ختم ہو گئی ہے[7]۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتویٰ کمیٹی

فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد ﷾

 فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی ﷾

 فضیلۃ الشیخ مفتی عبدالخالق ﷾

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال

اگركوئی شخص جماعت کے ساتھ دیر سے ملے اور امام کے ساتھ سورہ فاتحہ نہ پڑھ سکے، تو كيا وه سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد آمین کہے گا؟

جواب :

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کی قراءت کرنا رکن ہے۔

سیدنا عبادہ بن صامت  ﷜بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ[8].

’’جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز ہی نہیں ہوئی۔ ‘‘

دوسری حدیث میں سیدنا عبادہ بن صامت ﷜بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے۔ آپ ﷺ نے قراءت شروع فرمائی مگر وہ آپ ﷺ پر بھاری ہو گئی۔ (یعنی آپ اس میں رواں نہ رہ سکے) جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا:

لَعلَّكم تَقرؤونَ خلفَ إمَامِكم؟ قلنا: نعم، هذّا يا رسول الله. قال: لا تَفعَلُوا إلا بفاتحةِ الكتاب، فإنَّه لا صلاةَ لمن لم يَقرَأبها[9].

’’شاید کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ “ہم نے کہا: جی ، اے اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہ پڑھا کرو مگر فاتحہ، کیونکہ جو اسے (فاتحہ کو) نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔‘‘

مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کا کوئی معین وقت نہیں ہے۔ اگر امام سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنے کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہتا ہے تاکہ مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ لیں، تو پھر بہتر یہ ہے کہ مقتدی امام کی قراءت خشوع و خضوع کےساتھ سنے اور جب وہ فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموش ہو  تو مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ لے ۔ اگر امام سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنے کے بعد خاموش نہیں ہوتا تو مقتدی جب چاہے سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے، امام سے پہلے پڑھ لے یا ساتھ ساتھ پڑھ لے۔ بعض اوقات امام دعائے استفتاح پڑھنے میں دیر کر دیتا ہے تو اس دوران بھی مقتدی سورۃ فاتحہ  پڑھ جا سکتا  ہے۔

اگر مقتدی نے امام سے پہلے سورہ فاتحہ پڑھ لی ہے تو وہ آمین کہے گا، کیونکہ آمین کہنے کا سبب پایا گیا ہے اور جب امام آمین کہے گا  پھر دوبارہ آمین کہے گا۔ ایسے ہی اگر اس نے سورہ فاتحہ کی تلاوت امام کے ساتھ آمین کہنے کے بعد کی ہے تو جب وہ اپنی فاتحہ ختم کرے گا تو  آمین کہے گا۔ البتہ اگر مقتدی اور امام ایک ساتھ ہی فاتحہ ختم کریں تو امام کی آمین کے ساتھ  ایک ہی مرتبہ آمین کہنا جائز ہے۔

سیدنا ابوہریرہ ﷜فرماتے ہیں   کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ، فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ المَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ- وَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ - وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: آمِينَ [10].

’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ ابن شہاب کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔‘‘

والله أعلم بالصواب.

 

محدث فتویٰ کمیٹی

فضيلۃ الشيخ حافظ اسحاق زاہد﷾

فضيلۃ الشيخ جاويد اقبال سيالكوٹی﷾                           

فضيلۃ الشيخ مفتی عبد الخالق﷾

 

[1]     سنن أبي  داود : 2645 (صحيح)

[2]      سنن ابن   ماجہ : 2536 (صحيح   )

[3]      مسند أحمد: 1740، الصحيحہ: 3190

[4]      صحيح البخاری  : 6732

[5]      صحيح بخاري،   معلقاً قبل الحدیث:6735

[6]      صحيح الجامع: 1721

[7]               معجم لغة الفقهاء: 513 .

[8]      صحیح بخاری : 756، صحیح مسلم : 394

[9]      سنن أبی داود : 823،(صحیح)

[10]    صحيح  بخاری: 780، صحيح مسلم: 410