خلع لینے والی عورت حق مہر کی مستحق ؟
پچھلے دنوں اخبارات میں خبر چھپی ہے کہ ’’ لاہور ہائیکورٹ نے خلع لینے والی خاتون کو بھی حق مہر کا مستحق قرار دے دیاہے ‘‘۔ اس کی تفصیل جو اخبارات میں شائع ہوئی وہ کچھ یوں ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں شہری آصف محمود نے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں خلع کی بنیاد پر حق مہر اور جہیز کی رقم دینے کی ڈگری کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس راحیل کامران شیخ نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے لکھا کہ بیٹی کو جہیز دینا ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے ۔والدین جتنی بھی استطاعت رکھتے ہوں وہ بیٹی کو جہیز لازمی دیتے ہیں۔ طلاق دینا بنیادی طور پر شوہر کا حق ہوتا ہے اور طلاق کی صورت میں شوہر حق مہر اور تحائف کی واپسی کا تقاضا کرنے کے حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ طلاق دینے کی صورت میں سورۃ النساء میں بھی شوہر کو بیوی کو دیے گئے مال اور تحائف واپس مانگنے سے روکا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے تحت خاوند کے تشدد، برے رویے وغیرہ کی بنیاد پر لیے گئے خلع کے بعد عدالت حق مہر کی رقم واپس نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ عدالت نے قراردیا کہ محض خلع لینے کی بنیاد پر خاتون کو حق مہر کی رقم سے محروم نہیں کیاجا سکتا۔ حق مہر کی رقم کو خاتون کے لیے ایک سکیورٹی تصور کیا جاتا ہے، اگر خاوند کا رویہ خاتون کو خلع لینے پر مجبور کرے تو وہ حق مہر لینے کی مکمل حق دار ہے۔
عدالت کی یہ رولنگ شرعی قوانین کے تناظر میں محل نظر ہے ، بلا شبہ اسلام دین فطرت ہے ۔ اس میں انسانی زندگی میں پیش آمدہ مسائل کا وہ حل موجود ہے کہ جو فطرت کے عین ہم آہنگ ہے ۔ عائلی قوانین میں بھی اسلام تمام مسائل کا بہترین حل فراہم کرتا ہے گو ہماری کمزوری اور نفسانی اغراض ہیں کہ ان سے اعراض کرتے ہیں اور نتیجتاً اپنی زندگیوں کو مشکل بنا چھوڑتے ہیں ۔
نکاح دراصل مرد وزن کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت عورت مرد کو اپنی خدمات پیش کرتی ہے اور مرد اس کے بدلےمیں فی الوقت مہر دیتا ہے اور زندگی بھر کا خرچہ اٹھانے کا عہد کرتا ہے۔ اب جدائی کا اصول یہ ہے کہ اگر مرد اس معاہدے کو توڑتا ہے تو مہر عورت کا حق ہوگا کیونکہ وہ اپنے عہد پر کاربند رہنے کو تیار ہے ۔ اس کے برعکس اگر مرد اس معاہدے کو برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن عورت اس سے نکلنا چاہتی تو وہ مہر کی رقم مرد کو واپس دے گی ۔ یہ بالکل سادہ عقلی اور فطری اصول ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔
قرآن کریم میں ارشادگرامی ہے :
﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ وَ لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْـًٔا اِلَّاۤ اَنْ يَّخَافَاۤ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ﴾ [البقرة: 229]
’’طلاق [رجعی] دو مرتبہ ہے ،پھر یا تو سیدھی طرح سے اپنے پاس رکھا جائے یا بھلے طریقے سے اسے رخصت کردیا جائے اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ۔ الا یہ کہ دونوں میاں بیوی اس بات سے ڈرتے ہوں کہ وہ اللہ کی حدود کی پابندی نہ کرسکیں گے ۔ ہاں اگر تم اس بات سے ڈرتے ہو کہ وہ اللہ کی حدود کی پابندی نہ کرسکیں گے تو پھر عورت فدیہ دے کر [طلاق حاصل کرلے ] ۔‘‘
دوسری جگہ طلاق کی صورت میں حق مہر کا اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِيْضَةً وَّ مَتِّعُوْهُنَّ عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ۰۰۲۳۶ وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّاۤ اَنْ يَّعْفُوْنَ اَوْ يَعْفُوَا الَّذِيْ بِيَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَ اَنْ تَعْفُوْۤا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى﴾ [البقرة: 236، 237]
’’ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دے دو جنہیں نہ تم نے ہاتھ لگایا ہو اور نہ ہی حق مہر مقرر کیا ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ۔ البتہ انہیں کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرو ۔ وسعت والا اپنی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق انہیں بھلے طریقے سے رخصت کرے ۔ یہ نیک آدمیوں پر حق ہے ۔ اور اگر انہیں تم ہاتھ لگانے سے پیشتر طلاق دو مگر ان کا حق مہر مقرر ہوچکا ہو تو طے شدہ حق مہر کا نصف ادا کرنا ہوگا الا یہ کہ وہ عورتیں از خود معاف کردیں یا وہ مرد جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے ۔ فراخ دلی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے ) اور اگر تم درگزر کرو (یعنی پورے کا پورا حق مہردےدو) تو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے ۔‘‘
سورہ بقرہ میں مندرج آیات میں واضح ہے کہ طلاق کی صورت میں مہر کی حقدار عورت ہے ۔
سورۃ النساء میں اسے مزید واضح کردیا (اس آیت کا حوالہ عدالت نے اپنے فیصلے میں بھی دیا ہے )، فرمایا:
﴿وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَّ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَيْـًٔا اَتَاْخُذُوْنَهٗ۠ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِيْنًا۰۰۲۰ وَ كَيْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا۰۰۲۱﴾ [النساء: 20 - 21]
’’ اور اگر تم ایک بیوی(کو چھوڑ کر اس ) کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو او ر توتم نے اسے خواہ ڈھیر سا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو ۔ کیا تم اس پر بہتان لگا کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہو کر اس سے مال لینا چاہتے ہو ؟ اور تم لے بھی کیسے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو اور وہ تم سے پکتہ عہد لے چکی ہیں ۔ ‘‘
اس مسئلہ میں علماء امت میں اتفاق ہے کہ طلاق میں مہر کی حقدار عورت اور خلع میں مہر کا مستحق مرد ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ معزز عدالت نے امت کے چودہ سو سالہ متفقہ مسئلے میں نقب زنی کی کوشش کیوں کی ہے اور طلاق سے متعلق آیت کو خلع کے کیس میں کیوں دلیل بنایا ہے ۔ جبکہ یہ آیت اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے، اس میں طلاق دینے والے مردوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ وہ طلاق دینےکی صورت میں دیا ہوا مہر واپس نہیں لے سکتے ، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل ظلم ہوگا ۔ اس آیت میں ہرگز نہیں کہا گیا کہ خلع کا مطالبہ کرنے والی عورت سے مرد اپنا مال واپس طلب نہیں کرسکتا ۔
دور نبوی میں خلع کا صرف ایک واقعہ پیش آیا اور اس میں بھی مذکورہ مسئلہ بالکل واضح ہے۔ سیدنا ابن عباس سے روایت ہے کہ ثابت بن قیسؓ کی بیوی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ’’ یارسول اللہ ! مجھے ان کے دین واخلاق پر کوئی اعتراض نہیں ، لیکن مجھے اسلام میں کفر کا خوف ہے۔
نبی ﷺ نے یہ شکایت سنی تو فرمایا:’’ اس کا باغ واپس کرتی ہو جو اس نے تجھے مہر میں دیا تھا ؟ اس نے مان لیا تو آپ نے ثابت کو حکم دیا کہ : ’’ باغ لے لو اور اسے طلاق دے کر الگ کردو[1]۔ ‘‘
عدالت کا یہ کہنا کہ ’’ خاوند کا برا رویہ عورت کو خلع لینے پر مجبور کرتا ہے اس لیے وہ حق مہر کی رقم واپس کرنے کی پابند نہیں یا وہ حق مہر طلب کر سکتی ہے‘‘ شریعت اور تجربہ کے خلاف ہے ۔ طلاق یا ہمیشہ اختلاف ، انتشار اور آپسی منفی رویوں کے تحت ہی ہوتا ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خلع کی وجہ سے ہمیشہ مرد کا برا رویہ ہی ہوتا ہے۔ خلع کا مطالبہ کرنے میں عورت کی ذاتی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ،جیسا کہ ثابت بن قیسؓ کی بیوی نے خاوند کے برے رویے کی شکایت کیے بغیر خلع کا مطالبہ کیا ۔ اس لیے عدالت کا یہ کہنا کہ خلع کی واحد وجہ مرد کا برا رویہ ہی ہوتا ہے،عقل ،نقل اور تجربہ کے خلاف ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسا ہوتا ہے کہ مرد عورت کو رکھنا نہیں چاہتا لیکن
حق مہر ضبط ہونے کے ڈر سے طلاق دینے کی بجائے عورت سے برا رویہ اختیار کرتا ہے تا کہ وہ مجبور ہو کر خلع کا مطالبہ کرے ۔ مرد کے اس ظلم کا تعلق اس کے نامہ اعمال سے ہے۔ قانون کے فیصلے ظاہر کے مطابق کیے جاتے ہیں ، نیتیں نہیں دیکھی جاتیں ۔ ہاں ! تحقیق سے اگر مرد کا عورت پر ظلم کرنا ثابت ہو جائے تو عدالت اسے سزا دے سکتی ہے، لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ ہر خلع مرد کے برے رویے کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیے خلع کی صورت میں وہ مہر واپس لے سکتا ہے قطعاً درست نہیں ۔
اب اگر عدالت کی اس رولنگ اور فیصلے کو دیکھا جائے تو ہمارا عدالت سے سوال ہے کہ :
’’ اگر کوئی عورت انتہائی بد خلق ہے اور اپنے شوہر کی زندگی عذاب بنا رہی ہے اور خاوند اس کو طلاق دے دیتا ہے تو بھی اس مرد کو حق مہر دینا ہو گا ؟؟ ۔‘‘
اب اگر عدالت کا فراہم کردہ یہ ’’ مظلوم عورت کارڈ ‘‘ عورت کو تحفظ دے سکتا ہے تو یہاں پر عدالت اس مرد کا تحفظ کیسے کرے گی ۔۔؟
عدالت کے موجودہ فیصلےاور رولنگ کے مطابق تو یہ اصول بنتا ہے کہ مرد عورت کی بدخلقی کا الزام لگا کر طلاق دے تو پھر مرد کو مہر واپس ملنا چاہئے تاکہ اس کی اشک شوئی ہو سکے۔ اگر عورت مرد کے ظلم کے سبب خلع کا مطالبہ کرے تو مہر عورت کو ملنا چاہیے تاکہ اسے ظلم کا کچھ بدل مل سکے ۔ لیکن یہ خالق کائنات کے قانون کو بالکل توڑ دینے والی بات ہے۔
ہمارا معزز عدالت سے کہنا ہے کہ آپ جس منصب پر بیٹھے ہیں وہاں پر جذبات نہیں اصول دیکھے جاتے ہیں۔ آپ اگر ایک کیس کا فیصلہ جذبات کی بنیاد پر کرتے ہیں تو وہ فیصلہ آئندہ آنے والے مقدمات میں ایک نظیر کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے اور اس بنیاد پر آنے والے دور میں کئی مقدمات کے فیصلے نادرست ہو سکتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں بعض حوالوں سے عورت مظلوم ہے ۔اس کا تحفظ عدالت کی ذمہ داری ہے ،لیکن اس کو بنیاد بنا کر قرآن و سنت کے قوانین کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ یہ اس ذات کے وضع کردہ قوانین ہیں جو ان انسانوں کا تخلیق کار ہے ۔خالق اپنی تخلیق کی خوبیوں ، خامیوں اور ضروریات سے زیادہ آگاہ ہے۔ عورت کی مظلومیت کے نام پر طے شدہ قوانین کو تبدیل کرنے کی جو روش چل نکلی ہےوہ قطعاً درست نہیں۔
[1] صحیح بخاری :5273